رسی نما کوئی چیز لہراتے ہوئے اس کے جسم پر گری تھی۔ اس کے سر، چہرے، گردن، سینے، پیٹ…اور وہاں سے تیز رفتاری سے رینگتی ہوئی اترگئی۔ سالار نے کانپتے جسم کے ساتھ اپنی چیخ روکی تھی۔ وہ کوئی سانپ تھا جو اسے کاٹے بغیر چلا گیا تھا۔ اس کا جسم پسینے میں نہاگیا تھا۔ اس کا جسم اب جاڑے کے مریض کی طرح تھرتھر کانپ رہا تھا۔
Nothingees””آواز بالکل صاف تھی۔
And what is next to nothingness?”۔”
تحقیر آمیز آواز اور مسکراہٹ اس کی تھی۔
”Hell”۔
اس نے یہی کہا تھا۔ وہ پچھلے آٹھ گھٹنے سے وہاں بندھا ہوا تھا۔ اس ویرانے، اس تاریکی، اس وحشت ناک تنہائی میں۔ وہ پورا ایک گھنٹہ حلق کے بل پوری قوت سے مدد کے لئے پکارتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا حلق آواز نکالنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
Nothingness سے Hell وہ ان دونوں کے بیچ کہیں معلق تھا یا شاید Nothingness میں داخل ہونے والا تھا اور Hellتک پہنچنے والا تھا۔
”تمہیں خوف نہیں آتا یہ پوچھتے ہوئے کہ Hell کے بعد آگے کیا آئے گا؟ دوزخ کے بعد آگے کیا آسکتا ہے؟ انسان کے معتوب اور مغضوب ہوجانے کے بعد باقی بچتا ہی کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں اشتیاق ہے؟”
سالار نے وحشت بھری نظروں سے اردگرد دیکھا۔ وہ کیا تھا، قبر یا دوزخ یا زندگی میں اس کا ایک منظر…بھوک، پیاس، بے بسی، بے یاری ومددگاری، جسم پر چلتے کیڑے جنہیں وہ خود کو کاٹنے سے روک تک نہیں پارہا تھا۔ مفلوج ہوتے ہوئے ہاتھ پاؤں، پشت اور ہاتھوں کی کلائیوں پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتے اس کی چیخیں دوردور تک فضا میں گونج رہی تھیں۔ ہذیانی اور جنونی انداز میں بلند کی جانے والی بے مقصد اور خوفناک چیخیں۔ اس نے زندگی میں اس طرح کا خوف کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ اسے اپنے اردگرد عجیب سے بھوت چلتے پھرتے نظرآنے لگے تھے۔
اسے لگ رہا تھا اس کے دماغ کی رگ پھٹنے والی ہے یا پھر نروس بریک ڈاؤن، پھر اس کی چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔ اس کا گلا پھر بند ہوگیا تھا۔ اب صرف سرسراہٹیں تھیں جو اسے سنائی دے رہی تھی۔ اسے یقین ہوچکا تھا کہ وہ اب مررہا ہے۔ اس کا ہارٹ فیل ہورہا ہے یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھودینے والا ہے اور اسی وقت اچانک تنے کے پیچھے بندھی ہوئی کلائیوں کی ڈوری ڈھیلی ہوگئی۔ ہوش وحواس کھوتے ہوئے اس کے اعصاب نے ایک بارپھر جھٹکا لیا۔
اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی۔ ڈوری اور ڈھیلی ہوتی گئی۔ شاید مسلسل تنے کی رگڑ لگتے لگتے درمیان سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ہاتھوں کو کچھ اور حرکت دی اور اسے احساس ہواکہ وہ درخت کے تنے سے آزاد ہوچکا تھا۔
اس نے بے یقینی کے عالم میں اپنے بازوؤں کو سیدھا کیا۔ درد کی تیز لہریں اس کے بازوؤں سے گزریں۔
”کیا میں، میں بچ گیا ہوں؟”
اس نے بے یقینی سے اندھیرے میں اپنے بازوؤں اور ہاتھوں کے ہیولے دیکھتے ہوئے سوچا۔
”کیوں؟ کس لئے؟” ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ اس نے اپنی گردن کے گرد موجود اس پٹی کو اتارا جو پہلے اس کے منہ کے گرد باندھی گئی تھی، بازوؤں کو دی گئی معمولی حرکت سے اس کے منہ سے کراہ نکلی تھی۔ اس کے بازوؤں میں شدید تکلیف ہورہی تھی۔ اتنی تکلیف کہ اسے لگ رہا تھا وہ دوبارہ کبھی اپنے بازو استعمال نہیں کرسکے گا۔ اس کی ٹانگیں بھی سن ہورہی تھیں۔ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ وہ لڑکھڑا کر بازوؤں کے بل زمین پر گرا۔ ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے دوسری کوشش ہاتھوں اور گھنٹوں کے بل کی۔ اس بار وہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
وہ دونوں لڑکے اس کے جاگرز اور گھڑی بھی لے جاچکے تھے۔ اس کی جرابیں وہیں کہیں پڑی تھیں۔ وہ اندھیرے میں انہیں ٹٹول کر پہن سکتا تھا مگر بازوؤں اور ہاتھوں کو استعمال میں لانا پڑتا اور وہ اس وقت یہ کام کرنے کے قابل نہیں تھانہ جسمانی طورپر، نہ ذہنی طورپر۔
وہ اس وقت صرف وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ ہر قیمت پر، اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا۔ جھاڑیوں سے الجھتا خراشیں لیتا وہ کسی نہ کسی طرح اس راستے پر آگیا تھا جس راستے سے وہ دونوں ہٹاکر اسے وہاں لے آئے تھے اور پھر ننگے پاؤں اس نے نیچے کا سفر طے کیا۔ اس کے پیروں میں پتھر اور کنکریاں چبھ رہی تھیں مگر وہ جس ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار تھا اس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کیا وقت ہوا تھا مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ رات آدھی سے زیادہ گزرچکی ہے۔ اسے نیچے آنے میں کتنا وقت لگا اور اس نے یہ سفر کس طرح طے کیا۔ وہ نہیں جانتا…اسے صرف یہ یاد تھا کہ وہ پورا راستہ بلند آواز سے روتا رہا تھا۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر آکر اسٹریٹ کی روشنی میں بھی اس نے اپنے حلیہ کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی کہیں رکنے کی خواہش کی نہ ہی کسی کی مدد لینے کی۔ وہ اسی طرح روتا ہوا لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔
وہ پولیس کی ایک پٹرولنگ کار تھی جس نے سب سے پہلے اسے دیکھا اور اس کے پاس آکر رک گئی اندر موجود کا نسٹیبل اس کے سامنے نیچے اترے اور اسے روک لیا۔ وہ پہلی بار ہوش وحواس میں آیا تھا مگر اس وقت بھی وہ اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانے میں ناکام ہورہا تھا وہ لوگ اب اس سے کچھ پوچھ رہے تھے، مگر وہ کیا جواب دیتا۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈدی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
٭…٭…٭
”ابھی اور کتنی دیر اسے یہاں رکھنا پڑے گا؟”
”زیادہ دیر نہیں جیسے ہی ہوش آتا ہے کہ ہم دوبارہ چیک اپ کریں گے، پھر ڈسچارج کردیں گے زیادہ شدید قسم کی انجریز نہیں ہیں۔ بس گھر میں کچھ دن تک مکمل طورپر ریسٹ کرنا پڑے گا۔”
اس کا ذہن لاشعور سے شعور کا سفر طے کررہا تھا۔ پہلے جو صرف بے معنی آوازیں تھیں۔ اب وہ انہیں مفہوم پہنا رہا تھا۔ آوازوں کو پہچان رہا تھا ان میں سے ایک آواز سکندر عثمان کی تھی۔ دوسری یقینا کسی ڈاکٹر کی۔ سالار نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھیں یک دم چند ھیا گئی تھیں۔
کمرے میں بہت تیز روشنی تھی یا کم از کم اسے ایسا ہی لگا تھا وہ ان کے فیملی ڈاکٹر کا پرائیویٹ کلینک تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی یہاں ایسے ہی ایک کمرے میں رہ چکا تھا اور یہ پہچاننے کے لئے ایک نظر ہی کافی تھی اس کا ذہن بالکل صحیح کام کررہا تھا۔
جسم کے مختلف حصوں میں ہونے والے درد کا احساس اسے پھر ہونے لگا تھا۔ اس کے باوجود کہ اب وہ ایک بہت نرم اور آرام دہ بستر میں تھا۔
اس کے جسم پروہ لباس نہیں تھا جو اس نے اس سرکاری ہاسپٹل میں پہنا تھا، جہاں اسے لے جایا گیا تھا۔ وہ ایک اور لباس میں ملبوس تھا اور یقینا اس کے جسم کو پانی کی مدد سے صاف بھی کیا گیا تھا کیونکہ اسے آدھے بازوؤں والی شرٹ سے جھانکتے اپنے بازوؤں پر کہیں بھی مٹی یا گرد نظر نہیں آرہی تھی۔ اس کی کلائیوں کے گرد پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس کے بازوؤں پر چھوٹے چھوٹے بہت سے نشانات تھے۔ بازو اور ہاتھ سوجے ہوئے تھے۔ وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ ایسے ہی بہت سے نشانات اس کے چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی ہوں گے۔ اسے اپنی ایک آنکھ بھی سوجی ہوئی محسوس ہورہی تھی اور اس کے جبڑے بھی دکھ رہے تھے مگر اس سے بھی زیادہ براحال گلے کا تھا۔ اس کے بازو میں ایک ڈرپ لگی ہوئی تھی جواب تقریباً ختم ہونے والی تھی۔
پہلی بار اس کو ہوش میں ڈاکٹر نے ہی دیکھا تھا۔ وہ ان کا فیملی ڈاکٹر نہیں تھا۔ شاید اس کے ساتھ کام کرنے والا کوئی اور فزیشن تھا۔ اس نے سکندر کو اس کی طرف متوجہ کیا۔
”ہوش آگیا؟” سالار نے ایک صوفے پر بیٹھی طیبہ کواپنی طرف بڑھتے دیکھا مگر سکندر آگے نہیں آئے تھے۔ ڈاکٹر اب اس کے پاس آکر اس کی نبض چیک کررہا تھا۔
”اب تم کیسا محسوس کررہے ہو؟”
سالار جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے حلق سے آواز نہیں نکل سکی۔ وہ صرف منہ کھول کر رہ گیا۔ ڈاکٹر نے ایک بارپھر اپنا سوال دہرایا، سالارنے تکیے پر رکھا ہوا پنا سرنفی میں ہلایا۔”بولنے کی کوشش کرو۔” ڈاکٹر شاید پہلے ہی اس کے گلے کے پرابلم کے بارے میں جانتا تھا۔ سالار نے ایک بارپھر نفی میں سرہلادیا۔ ڈاکٹر نے نرس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے سے ایک ٹارچ نما آلہ اٹھایا۔
”منہ کھولیں۔” سالار نے دکھتے جبڑوں کے ساتھ اپنا منہ کھول دیا۔ ڈاکٹر کچھ دیر اس کے حلق کا معائنہ کرتا رہا پھر اس نے ٹارچ بندکردی۔
”گلے کا تفصیلی چیک اپ کرنا پڑے گا۔” اس نے مڑکر سکندر عثمان کو بتایا پھر اس نے ایک رائٹنگ پیڈ اور پین سالار کی طرف بڑھایا۔ نرس تب تک اس کے بازو میں لگی ڈرپ اتارچکی تھی۔
”اٹھ کر بیٹھو اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔ گلے کو؟” اسے اٹھ کر بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ نرس نے تکیہ اس کے پیچھے رکھ دیا تھا وہ رائٹنگ پیڈ ہاتھ میں لئے سوچتا رہا۔
”کیا ہوا تھا؟ گلے کو، جسم کو، دماغ کو۔” وہ کچھ بھی لکھنے کے قابل نہیں تھا۔ سوجی ہوئی انگلیوں میں پکڑے پین کو وہ دیکھتا رہا۔ اسے یاد تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اسے اپنی وہ چیخیں یاد آرہی تھیں جنہوں نے اسے اب بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ کیا لکھا جائے یہ کہ مجھے ایک پہاڑ پر ساری چیزیں چھین کر باندھ دیا گیا تھا یا پھر یہ کہ مجھے چند گھنٹوں کے لئے زندہ قبر میں اتار دیا گیا تھا تاکہ مجھے میرے سوالوں کا جواب مل جائے۔
”What is next to ecstasy”۔
وہ سفید صاف کاغذ کو دیکھتا رہا پھر اس نے مختصر سی تحریر میں اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ تحریر کردیا۔ ڈاکٹر نے رائٹنگ پیڈ پکڑ کر ایک نظر ان سات آٹھ جملوں پر ڈالی اور پھر اسے سکندر عثمان کی طرف بڑھا دیا۔
”آپ کو چاہئے کہ فوری طور پر پولیس سے رابطہ کریں، تاکہ کار برآمد کی جاسکے، پہلے ہی کافی دیر ہوگئی ہے۔ پتا نہیں وہ گاڑی کہاں سے کہاں لے جاچکے ہوں گے۔” ڈاکٹر نے ہمدردانہ انداز میں سکندر کو مشورہ دیا۔ سکندر نے رائٹنگ پیڈ پر ایک نظر ڈالی۔
”ہاں، میں پولیس سے کانٹیکٹ کرتا ہوں۔” پھر کچھ دیر ان دونوں کے درمیان اس کے گلے کے چیک اپ کے سلسلے میں بات ہوتی رہی پھر ڈاکٹر نرس کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سکندر عثمان نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رائٹنگ پیڈ سالار کے سینے پردے مارا۔
”یہ جھوٹ کا پلندہ اپنے پاس رکھو…تم کیا سمجھتے ہوکہ اب میں تمہاری کسی بات پر اعتبار کروں گا۔ نہیں کبھی نہیں۔”
سکندر بے حد مشتعل تھے۔
”یہ بھی تمہارا کوئی نیا ایڈونچر ہوگا۔ خودکشی کی کوئی نئی کوشش۔”
وہ کہنا چاہتا تھا۔” فارگاڈ سیک…ایسا نہیں ہے۔” مگر وہ گونگوں کی طرح ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”میں کیا کہوں ڈاکٹر سے کہ اس کو عادت ہے ایسے تماشوں اور ایسی حرکتوں کی، یہ پیدا ہی ان کاموں کے لئے ہوا ہے۔”
سالار نے سکندر عثمان کو کبھی اس حدتک مشتعل نہیں دیکھا تھا، شاید وہ واقعی اب اس سے تنگ آچکے تھے۔ طیبہ خاموشی سے پاس کھڑی تھیں۔
”ہر سال ایک نیا تماشا، ایک نئی مصیبت، آخر تمہیں پیدا کرکے کیا گناہ کربیٹھے ہیں ہم۔”
سکندر عثمان کو یقین تھا یہ بھی اس کے کسی نئے ایڈونچر کا حصہ تھا جو لڑکا چار بار خود کو مارنے کی کوشش کرسکتا تھا اس کے ہاتھ پاؤں پر موجود ان زخموں کو کوئی ڈکیتی قرار نہیں دے سکتا تھا وہ بھی اس صورت میں جب اس واقعے کا کوئی گواہ نہیں تھا۔
سالار کو” شیرآیا، شیر آیا” والی کہانی یاد آئی۔ بعض کہانیاں واقعی سچی ہوتی ہیں۔ وہ باربار جھوٹ بول کر اب اپنا اعتبار گنوا چکا تھا۔ شاید وہ سب کچھ ہی گنواچکا تھا۔ اپنی عزت، خود اعتمادی، غرور، فخر، ہر چیز وہ کسی پاتال میں پہنچ گیا تھا۔
”کوئی نیا ڈرامہ کئے بڑے دن گزرگئے تھے تمہیں تو تم نے سوچا ماں باپ کو محروم کیوں رکھوں، انہیں خوار اور ذلیل کئے بڑا عرصہ ہوگیا ہے۔ اب نئی تکلیف دینی چاہئے۔”
”ہوسکتا ہے سکندر! یہ ٹھیک کہہ رہا ہو۔ آپ پولیس کو گاڑی کے بارے میں اطلاع تو دیں۔”
اب طیبہ رائٹنگ پیڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کے بعد سکندر سے کہہ رہی تھیں۔
”یہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟ کبھی آج تک ٹھیک کہا ہے اس نے، مجھے اس بکواس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں ہے۔
تمہارا یہ بیٹا کسی دن مجھے اپنی کسی حرکت کی وجہ سے پھانسی پر چڑھادے گا اور تم کہہ رہی ہوکہ پولیس کو اطلاع دوں، اپنا مذاق بنواؤں۔ کارکے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ کیا ہوگا اس نے، بیچ دی ہوگی کسی کو، یا کہیں پھینک آیا ہوگا۔”
وہ اب اسے واقعی گالیاں دے رہے تھے ۔ اس نے کبھی انہیں گالیاں دیتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ وہ صرف ڈانٹا کرتے تھے اور وہ ان کی ڈانٹ پر بھی مشتعل ہوجاتا تھا۔ چاروں بھائیوں میں وہ واحد تھا جو ماں باپ کی ڈانٹ سننے کا بھی روادار نہیں تھا اور اس سے بات کرتے ہوئے سکندر بہت محتاط ہواکرتے تھے کیونکہ وہ کسی بھی بات پر مشتعل ہوجایا کرتا تھا، مگر آج پہلی دفعہ سالار کو ان کی گالیوں پر بھی غصہ نہیں آیا تھا۔
وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ اس نے انہیں کس حدتک زچ کردیا ہے۔ وہ پہلی بار اس بیڈ پر بیٹھے اپنے ماں باپ کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ کیا چیز تھی جو انہوں نے اسے نہیں دی تھی۔ اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے وہ اس کی فرمائش پوری کردینے کے عادی تھے اور وہ اس کے بدلے میں انہیں کیا دیتا رہا تھا۔ کیا دے رہا تھا، ذہنی اذیت، پریشانی، تکلیف، اس کے علاوہ اس کے بہن بھائیوں میں سے کسی نے ان کے لئے کوئی پریشانی نہیں کھڑی کی تھی۔ صرف ایک وہ تھا جو۔۔۔۔
”کسی دن تمہاری وجہ سے ہم دونوں کو خودکشی کرنی پڑے گی۔ تمہیں تب ہی سکون ملے گا، صرف تب ہی چین آئے گا تمہیں۔”
پچھلی رات اس پہاڑ پر اس طرح بندھے ہوئے اسے پہلی بار ان کی یاد آئی تھی۔ پہلی بار اسے پتا چلا تھا کہ اسے ان کی کتنی ضرورت تھی، وہ ان کے بغیر کیا کرے گا، اس کے لئے ان کے علاوہ کون پریشان ہوگا۔
اسے سکندر کے لفظوں سے زندگی میں پہلی بار کوئی بے عزتی محسوس نہیں ہورہی تھی وہ ہمیشہ سے سکندر کے زیادہ قریب رہا تھا اور اس کے سب سے زیادہ جھگڑے بھی ان ہی کے ساتھ ہوتے رہے تھے۔
”میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں دوبارہ کبھی تمہاری شکل تک نہ دیکھوں۔ تمہیں دوبارہ وہیں پھنکوا دوں جس جگہ کے بارے میں تم جھوٹ بول رہے ہو۔”
”اب بس کرو سکندر۔” طیبہ نے ان کو ٹوکا۔
”میں بس کروں…یہ کیوں بس نہیں کرتا، کبھی تو ترس کھالے یہ ہم لوگوں پر اور اپنی حرکتیں چھوڑدے۔ کیا اس پر یہ فرض کرکے اسے زمین پر اتارا گیا تھا کہ یہ ہماری زندگی عذاب بنادے۔”
سکندر طیبہ کی بات پر مزید مشتعل ہوگئے۔
”ابھی وہ پولیس والے بیان لینے آجائیں گے۔ جنہوں نے اسے سڑک پر پکڑا تھا۔ یہ بکواس پیش کریں گے ان کے سامنے کہ اس بے چارے کو کسی نے لوٹ لیا ہے۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ اس بار واقعی کوئی اسے لوٹتا اور اسے پہاڑ پر سے نیچے پھینکتا تاکہ میری جان چھوٹ جاتی۔
سالار بے اختیار سسکنے لگا۔ سکندر اور طیبہ بھونچکا رہ گئے، وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے رورہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار اسے روتا دیکھ رہے تھے اور وہ بھی ہاتھ جوڑے، وہ کیا کررہا تھا؟ کیا چاہ رہا تھا؟ کیا بتارہا تھا؟ سکندر عثمان بالکل ساکت تھے، طیبہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئیں، انہوں نے سالار کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تھپکنے کی کوشش کی۔ وہ بچوں کی طرح ان کے ساتھ لپٹ گیا۔
اس کی پائینتی کی طرف کھڑے سکندر عثمان کو اچانک احساس ہواکہ شاید اس بار وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ شاید اس کے ساتھ واقعی کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ طیبہ کے ساتھ لپٹا ننھے بچوں کی طرح ہچکیوں سے رورہا تھا۔ طیبہ اسے چپ کرواتے کرواتے خود بھی رونے لگیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو کیا بڑی بڑی باتوں پر بھی رونے کا عادی نہیں تھا، پھر آج کیا ہوا تھا کہ اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔
اس سے دور کھڑے سکندر عثمان کے دل کو کچھ ہونے لگا۔
”اگر یہ ساری رات واقعی وہاں بندھارہا تھا تو…؟”
وہ ساری رات اس کے انتظار میں جاگتے رہے تھے اور بگڑتے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ گاڑی لے کر پھر کہیں لاہور یا کہیں اور آوارہ گردی کے لئے چلا گیا ہوگا۔ انہیں تشویش ہورہی تھی مگر وہ سالار سکندر کی حرکتوں سے واقف تھے۔ اس لئے تشویش سے زیادہ غصہ تھا اور ڈھائی تین بجے کے قریب وہ سونے کے لئے چلے گئے تھے جب انہیں فون پر پولیس کی طرف سے یہ اطلاع ملی۔
وہ ہاسپٹل پہنچے تھے اور انہوں نے اسے وہاں بہت ابتر حالت میں دیکھا تھا مگر وہ یہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے وہ خود کو اذیت پہنچاتا رہا تھا جو شخص اپنی کلائی کاٹ لے۔ ون وے کو توڑتے ہوئے ٹریفک کی بھیڑ میں اپنی بائیک دے مارے۔ سلیپنگ پلزلے لے۔ اپنے آپ کو باندھ کر پانی میں الٹا کود جائے۔ اس کے لئے ایک بارپھر اپنی یہ حالت کرنا کیا مشکل تھا۔
اس کا جسم کیڑوں کے کاٹنے کا نشانات سے جگہ جگہ بھرا ہوا تھا۔ بعض جگہوں پر نیلاہٹ تھی۔ اس کے پیر بھی بری طرح سے زخمی تھے۔ ہاتھوں کی کلائیوں، گردن اور پشت کا بھی یہی حال تھا اور اس کے جبڑوں پر بھی خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود سکندر عثمان کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی کار ستانی ہی ہوگی۔
شاید اس وقت وہ بولنے کے قابل ہوتا اور وضاحتیں پیش کرتا تو وہ کبھی بھی اس پر یقین نہ کرتے مگر اسے اس طرح ہچکیوں کے ساتھ روتے دیکھ کر انہیں یقین آنے لگا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
وہ کمرے سے باہر نکل گئے اور انہوں نے موبائل پر پولیس سے رابطہ کیا۔ ایک گھنٹے کے بعد انہیں پتا چل گیا کہ سرخ رنگ کی ایک اسپورٹس کار پہلے ہی پکڑی جاچکی ہے اور اس کے ساتھ دو لڑکے بھی۔ پولیس نے انہیں ایک معمول کی چیکنگ کے دوران لائسنس اور گاڑی کے کاغذات نہ ہونے پر گھبرا جانے پر پکڑا تھا۔ انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ انہوں نے گاڑی کہیں سے چھینی تھی، وہ صرف یہی کہتے رہے کہ وہ گاڑی انہیں کہیں ملی تھی اور وہ صرف شوق اور تجسّس سے مجبور ہوکر چلانے لگے چونکہ پولیس کے پاس ابھی تک کسی گاڑی کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کروائی گئی تھی اس لئے ان کے بیان کی تصدیق مشکل ہوگئی تھی۔
مگر سکندر عثمان کی ایف آئی آر کے کچھ دیر بعد ہی انہیں کار کے بارے میں پتاچل گیا تھا۔ اب وہ صحیح معنوں میں سالار کے بارے میں تشویش کا شکار ہوئے تھے۔
٭…٭…٭