پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

اگلے چند ماہ جو اس نے امریکہ میں گزارے تھے وہ اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بارسیرو تفریح کے لئے اپنی فیملی کے ساتھ اور ان کے بغیر امریکہ اور یورپ جاتا رہا تھا مگر اس بار جس طریقے سے سکندر نے اسے امریکہ بھجوایا تھا اس نے جہاں ایک طرف اسے مشتعل کیا تھا تو دوسری طرف اس کے لئے بہت سے دوسرے پرابلمز بھی پیدا کردیئے تھے۔ اس کے جو دوست اے لیو لزکے بعد امریکہ آگئے تھے۔ وہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھ رہے تھے۔ وہ کسی ایک اسٹیٹ میں نہیں تھے۔ وہ اپنی فیملی سے اتنا اٹیچ نہیں تھا کہ ان کی کمی محسوس کرتا یا ہوم سکنیس کا شکار ہوتا۔ یہ صرف اس طرح اچانک وہاں بھجوائے جانے کا نتیجہ تھا کہ وہ اس طرح اضطراب کا شکار ہورہا تھا۔
کامران سارادن یونیورسٹی میں ہوتا اور اگر وہ گھر آتا بھی تو اپنی اسٹڈیز میں مصروف ہوجاتا۔ اس کے ایگزامز قریب تھے، جبکہ سالار سارا دن یا تو اپارٹمنٹ میں بیٹھا فلمیں دیکھتا رہتا یا پھر چینلز گھمانے میں مصروف رہتا اور جب وہ ان دونوں کاموں سے بیزار ہوجاتا تو آوارہ گردی کے لئے نکل جاتا۔ اس نے وہاں اپنے قیام کے دوران نیویارک میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا تھا جہاں کامران رہ رہا تھا۔ وہاں کا کوئی نائٹ کلب، ڈسکو، پب، بار، تھیڑ، سنیمایا میوزیم اور آرٹ گیلری ایسی نہیں تھی جہاں وہ نہ گیا ہو۔
اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ جن تینIvy leagueکی یونیورسٹیز میں اس نے اپلائی کیا تھا ان تینوں میں رزلٹ آنے سے پہلے ہی اس کی ایڈمیشن کی درخواستیں قبول کی جاچکی تھیں۔ وہ تینوں یونیورسٹیز ایسی تھیں جن میں اس کے دور یا قریب کا کوئی رشتے دار نہیں تھا اور یہ اس نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سکندر عثمان اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اسے کسی ایسی یونیورسٹی میں ایڈمٹ کروائیں جہاں اس کے بہن بھائیوں میں سے نہیں تو کم از کم اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی اور اس یونیورسٹی میں داخل ہو۔ سکندر عثمان کا اگر کوئی دوسرا بیٹا Ivy leagueکی کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا تو سکندر عثمان فخر میں مبتلا ہوتے اور اس چیز کو اپنے اور اپنی پوری فیملی کے لئے اعزاز سمجھتے مگر یہاں وہ اس خوف میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ سالار پر نظر کیسے رکھ سکیں گے۔ سالارنے ان یونیورسٹیز میں سے yaleکو چنا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف yaleمیں ان کا کوئی شناسا اور واقف کار نہیں تھا، بلکہNew Haven میں بھی سکندر عثمان کا کوئی رشتہ دار اور دوست نہیں تھا۔
رزلٹ آنے کے بعد اسے یونیورسٹی سے میرٹ اسکالرشپ بھی مل گیا تھا۔ اپنے باقی بھائیوں کے برعکس اس نے ضد کرکے ہوسٹل میں رہنے کے بجائے ایک اپارٹمنٹ کرائے پرلے لیا تھا۔ سکندر عثمان اسے اپارٹمنٹ میں رکھنے کے لئے تیار نہیں تھے، مگر اسکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے پاس اتنی رقم آگئی تھی کہ وہ خود ہی کوئی اپارٹمنٹ لے لیتا کیونکہ یونیورسٹی کے اخراجات کے لئے سکندر اس کے اکاؤنٹ میں پہلے ہی ایک لمبی چوڑی رقم جمع کرواچکے تھے حالانکہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی اسکالر شپ لے رہا تھا مگر سالار سکندر کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان سے ہر وہ”کام” اور”مطالبہ” کرنے کے لئے بنایا تھا جو اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ وہ زمین پر خاص طور پر انہیں تنگ کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا جس چیزکو ان کے دوسرے بچے مشرق کہتے وہ اسے مغرب کہتا۔ جسے دوسرے زمین قرار دیتے وہ اس کے آسمان ہونے پر دلائل دینا شروع کردیتا۔ وہ اس کی باتوں، حرکتوں اور ضد پر زیادہ سے زیادہ اپنا بلڈپریشر اور کولیسٹرول لیول ہائی کرسکتے تھے اور کچھ نہیں۔
New Havenجانے سے پہلے سکندر اور طیبہ اس کے لئے خاص طور پر پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔ وہ کئی دن تک اسے سمجھاتے رہے تھے، جنہیں وہ اطمینان سے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتا رہا تھا۔ وہ کئی سالوں سے نصیحتیں سننے کا عادی تھا اور عملی طور پر وہ نصیحتیں اب اس پر قطعاً کوئی اثر نہیں کرتی تھیں۔ دوسری طرف سکندر اور طیبہ واپس پاکستان جاتے ہوئے بے حد فکر مند بلکہ کسی حدتک خوفزدہ بھی تھے۔
وہYaleسے فنانس میں ایم بی اے کرنے آیا تھا اور اس نے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا شروع کردیا تھا۔
پاکستان میں جن اداروں میں وہ پڑھتا رہا تھا اگرچہ وہ بھی بہت اچھے تھے، مگر وہاں تعلیم اس کے لئے کیک واک تھی۔ Yaleمیں مقابلہ بہت مشکل تھا وہاں بے حد قابل لوگ اور ذہین اسٹوڈنٹ موجود تھے۔ اس کے باوجود وہ بہت جلد نظروں میں آنے لگا تھا۔




اس میں اگر ایک طرف اس کی غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کا دخل تھا تو دوسری طرف اس کے رویے کا بھی۔ ایشین اسٹوڈنٹس والی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی اس میں مفقود تھی۔ اس میں لحاظ اور مروت بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ احساس کمتری اور مرعوبیت تھی جو ایشین اسٹوڈنٹس امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیز میں فطری طورپر لے کر آتے ہیں۔ اس نے بچپن سے ہی بہترین اداروں میں پڑھا تھا۔ ایسے ادارے جہاں پڑھانے والے زیادہ تر غیر ملکی تھے اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بھی کوئی علم کے بہتے ہوئے سرچشمے نہیں ہوتے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ Yaleنے اسے اسکالرشپ دے کر اس پر کوئی احسان نہیں کیا وہ اگر باقی دونوں یونیورسٹیز میں سے کسی کا انتخاب کرتا تو اسکالرشپ اسے وہاں سے بھی مل جاتی اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی اسے یہ معلوم تھا کہ اس کے ماں باپ کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ جہاں چاہتا ایڈمیشن لے سکتا تھا۔ اگر اسے اپنے فیملی بیک گراؤنڈ اسٹیٹس اور قابلیت کا زعم نہ ہوتا تب بھی سالار سکندر اس قدر تلخ اور الگ تھلگ قسم کی نیچر رکھتا تھا کہ وہ کسی کو اپنی خوش اخلاقی کے جھوٹے مظاہرہ سے متاثر نہیں کرسکتا تھا۔ رہی سہی کسر اس کے آئی کیولیول نے پوری کردی تھی۔
شروع کے چند ہفتوں میں ہی اس نے اپنے پروفیسرز اور کلاس فیلوز کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی تھی اور یہ بھی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ وہ بچپن سے تعلیمی اداروں میں اسی قسم کی توجہ حاصل کیا کرلیا تھا۔ وہ ایسا اسٹوڈنٹ نہیں تھا، جو فضول باتوں پر بحث کرتا۔ اس کے سوال ہی اس طرح کے ہوتے تھے کہ اس کے اکثر پروفیسرز کو فوری طورپر ان کا جواب دینے میں دشواری ہوتی۔ جواب غیر تسلی بخش بھی ہوتا، تب وہ یہ جتاتا نہیں تھا صرف خاموش ہوجاتا تھا، مگر وہ یہ تاثر بھی نہیں دیتا تھا کہ وہ مطمئن ہو گیا تھا یا اس جواب کو تسلیم کررہا تھا۔ وہ بحث صرف ان پروفیسر کے ساتھ کرتا تھا، جن کے بارے میں اسے یہ یقین ہوتا کہ وہ ان سے واقعی کچھ نہ کچھ سیکھے گا یا جن کے پاس صرف روایتی یا کتابی علم نہیں تھا۔
پڑھائی وہاں بھی اس کے لئے بہت مشکل نہیں تھی، نہ ہی اس کا سارا وقت پڑھائی میں گزرتا تھا۔ پہلے کی نسبت اسے کچھ زیادہ وقت دینا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے لئے اور اپنی سرگرمیوں کے لئے وقت نکال لیا کرتا تھا۔
وہ وہاں کسی ہوم سکنیس کا شکار نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے پاکستان کو یاد کرتا رہتا یا پاکستان کے ساتھ اس طرح کے عشق میں مبتلا ہوتا کہ ہر وقت اس کے کلچر کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتا نہ ہی امریکہ اس کے لئے کوئی نئی اور اجنبی جگہ تھی اس لئے اس نے وہاں موجود پاکستانیوں کو تلاش کرنے اور ان کے ساتھ روابط بڑھانے کی دانستہ طورپر کوئی کوشش نہیں کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خودبخود وہاں موجود کچھ پاکستانیوں سے اس کی شناسائی ہوگئی۔
یونیورسٹی کی دوسری بہت سی سوسائٹیز، ایسوسی ایشنز اور کلبز میں اس کی دلچسپی تھی اور اس کے پاس ان کی ممبر شپ بھی تھی۔
پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت بے کار پھرنے میں ضائع کرتا تھا۔ خاص طور پر ویک اینڈز… سنیما، کلبز، ڈسکوز، تھیڑز… اس کی زندگی انہیں چاروں کے درمیان تقسیم شدہ تھی۔ ہر نئی فلم، ہرنیا اسٹیج پلے، ہرنیا کنسرٹ اور کوئی بھی نئی انسسٹر ومینٹل پر فارمنس وہ نہیں چھوڑتا تھا یا پھرہرنیا چھوٹا، بڑا ریسٹورنٹ، مہنگے سے مہنگا اور سستے سے سستا… اسے ہر ایک بارے میں مکمل معلومات تھیں۔
اور اس سب کے درمیان وہ ایڈونچر اس کے ذہن میں اب تک تھا جس کی وجہ سے وہ امریکہ میں موجود تھا۔ سکندر کو اس کے نکاح کا پتا کب چلا تھا، کیسے چلا تھا، سالار نے جاننے کی کوشش نہیں کی مگر وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ سکندر عثمان کو اس کے بارے میں کیسے پتا چلا ہوگا۔ یہ حسن یا ناصرہ نہیں تھے جنہوں نے سکندر عثمان کو سالار اور امامہ کے بارے میں بتایا ہوگا۔ وہ ان کی طرف سے مطمئن تھا یہ خود امامہ ہی ہوگی، جس نے اس سے فون پر بات کرنے کے بعد یہ سوچا ہوگا کہ اس کے بجائے سکندر عثمان سے ساری بات کی جائے اور اس نے یقینا ایسا ہی کیا ہوگا، اسی لئے اس نے دوبارہ سالار سے رابطہ نہیں کیا۔ سکندر نے اس سے رابطہ کرنے کے بعد ہی اس کے کمرے کی تلاشی لے کر وہ نکاح نامہ برآمد کرلیا تھا۔
مگر یہ سب کب ہوا تھا…؟ یہ وہ سوال تھا، جس کا جواب وہ نہیں ڈھونڈ پارہا تھا۔
جو بھی تھا امامہ کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں پاکستان سے امریکہ آتے ہوئے کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔ یکے بعد دیگرے وہ اس کے ہاتھوں زک اٹھانے پر مجبور ہوا تھا اور اب وہ پچھتاتا تھا کہ اس نے اس تمام معاملے میں امامہ کی مدد کیسے کی۔ بعض دفعہ اسے حیرانی ہوتی تھی کہ آخر وہ امامہ جیسی لڑکی کی مدد کرنے پر تیار کیسے ہوگیا تھا اور اس حدتک مدد کہ…
وہ اب ان تمام واقعات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتا تھا۔ آخر میں نے اس کی مدد کیوں کی جب کہ مجھے جو کرنا چاہئے تھا وہ یہ تھا کہ اس کے رابطہ کرنے پر میں وسیم کو، اس کے والدین کو یا خود اپنے والدین کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتا دیتا یا پھر جلال کے بارے میں انہیں بتادیتا یا پھر اس کے کہنے پر اس کے ساتھ سرے سے نکاح کرتا ہی نہ یا اسے گھر سے فرار ہونے میں تو کبھی اس طرح مدد نہ کرتا۔
بعض دفعہ اسے لگتا کہ جیسے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے ہاتھوں میں استعمال ہوا تھا۔ اتنی فرمانبرداری، اتنی تابع داری آخر کیوں…؟ جبکہ وہ اس کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں رکھتی تھی اور وہ کسی طرح سے بھی اس کی مدد کرنے پر مجبور نہیں تھا۔
اب اسے وہ سب کچھ ایک ایڈونچر سے زیادہ حماقت لگتا۔ وہ کسی سائیکالوجسٹ کی طرح امامہ کے بارے میں اپنے رویے کا تجزیہ کرتا اور مطمئن ہوجاتا۔
”جوں جوں وقت گزرتا جائے گا وہ مکمل طورپر میرے ذہن سے نکل جائے گی نہ بھی نکلی نہ تب بھی مجھے کیا فرق پڑے گا۔” وہ سوچتا۔
٭…٭…٭
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے حلقہ احباب میں اضافہ ہونے لگا اور اسی حلقہ احباب میں ایک نام سعد کا تھا۔ اس کا تعلق کراچی سے تھا۔ سالار کی طرح وہ بھی امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا مگر سالار کے برعکس اس کا گھرانہ خاصا مذہبی تھا۔ یہ سالار کا اندازہ تھا۔ سعد کی حس مزاح بہت اچھی تھی اور وہ بہت ہینڈسم بھی تھا۔ نیوہیون میں ایک امریکی دوست کے توسط سے اس کی ملاقات سعد سے ہوئی تھی اور اس کی طرف دوستی میں پہل کرنے والا سعد ہی تھا۔ سالار نے اس دوستی کوقبول کرنے میں قدرے تامل کیا کیونکہ اسے یوں لگتا تھا جیسے سعد اور اس کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ سعد وہاں سے ایم فل کر رہا تھا۔ سالار کے برعکس وہ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کرتا تھا۔ اس کا حلیہ اس کی مذہب سے جذباتی وابستگی بتانے کے لئے کافی تھا۔ اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور مذہب کے بارے میں اس کا علم بہت زیادہ تھا۔ سالارنے زندگی میں پہلی بار کسی ایسے شخص سے دوستی کی تھی جو مذہبی تھا۔
سعد پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کے لئے کہتا رہتا۔ وہ مختلف آرگنائزیشنز اور کلبز میں بھی بہت ایکٹو تھا۔ سالار کے برعکس امریکہ میں اس کا کوئی قریبی رشتے دار نہیں تھا، صرف ایک دور کے چچا تھے، جو کسی دوسری اسٹیٹ میں رہتے تھے۔ شاید اسی لئے اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لئے وہ بہت زیادہ سوشل تھا۔ سالار کے برعکس وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور شاید یہ لاڈ و پیار ہی تھا جس نے اس کے والدین کو اسے اتنی دور تعلیم کے لئے بھیج دیا تھا ورنہ اس کے باقی دونوں بھائی سعد کے والد کے ساتھ گریجویشن کے بعد بزنس میں شریک ہوگئے تھے۔
وہ بھی ایک اپارٹمنٹ کرائے پرلے کر رہتا تھا مگر اس کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں چار اور لوگ بھی رہتے تھے۔ ان چار میں سے دو عرب اور ایک بنگلہ دیشی کے علاوہ ایک اور پاکستانی تھا۔ وہ تمام اسٹوڈنٹس تھے۔
سعد پہلی ہی ملاقات میں سالارسے بہت بے تکلف ہوگیا تھا۔ سالار کے امریکی دوست جیف نے جب سعد کو سالار کی اکیڈیمک کامیابیوں کے بارے میں بتایا تو ہر ایک کی طرح سعد بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
سالار کو سعد کا چہرہ دیکھ کر اور خاص طور پر اس کی داڑھی دیکھ کر ہمیشہ جلال کا خیال آتا۔ داڑھی کی وجہ سے دونوں میں عجیب سی مماثلث اور مشابہت نظر آتی۔ کئی بار دوسرے دوستوں کے علاوہ سعد بھی ویک اینڈپر اس کے ساتھ ہوتا۔
”تم مسلمان ہو لیکن مذہب کی سرے سے پابندی نہیں کرتے۔” سعد نے ایک دفعہ سالار سے کہا تھا۔
”اور تم ضرورت سے زیادہ مذہبی ہو۔” سالارنے جواباً کہا۔
”کیا مطلب ؟”
”مطلب یہ کہ جس طرح تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے رہتے ہو اور ہر وقت اسلام کی بات کرتے رہتے ہو یہ کچھ اوورایکٹنگ ٹائپ چیز ہوجاتی ہے۔” سالارنے بڑی صاف گوئی کے ساتھ کہا۔ ”تم تھکتے نہیں ہو ہر وقت نمازیں پڑھ پڑھ کر۔”
”یہ فرض ہے۔ اللہ کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں، اسے ہر وقت یاد رکھیں۔” سعد نے زور دیتے ہوئے کہا۔ سالارنے ایک جمائی لی۔
”تم بھی عبادت کیا کرو، آخر تم بھی مسلمان ہو۔” سعد نے اس سے کہا۔
”میں جانتا ہوں اور عبادت نہ کرنے سے کیا میں مسلمان نہیں رہوں گا۔” اس نے کچھ تیکھے لہجے میں سعد سے کہا۔
”صرف نام کا مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تم؟”
”سعد! پلیز اس قسم کے فضول ٹاپک پر بات مت کرو۔ میں جانتا ہوں تمہیں مذہب میں دلچسپی ہے مگر مجھے نہیں ہے۔ بہتر ہے ہم ایک دوسرے کی رائے اور جذبات کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے پر کچھ ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔ جیسے میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم نماز چھوڑدو، اس طرح تم بھی مجھ سے یہ نہ کہو کہ میں نماز پڑھوں۔” سالار نے انتہائی صاف گوئی سے کہا تو سعد خاموش ہوگیا۔
مگر کچھ دنوں بعد ایک دن وہ اس کے اپارٹمنٹ پر آیا۔ سالار اس کی تواضع کے لئے کچھ لانے کے لئے کچن میں گیا تو سعد بھی اس کے پیچھے ہی آگیا۔ اس نے باتوں کے دوران فریج کھول لیا اور اس میں موجود کھانے کی چیزوں پر نظر دوڑانے لگا۔ سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوٹoutletسے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔ وہ فریج میں رکھا تھا۔ سعد نے اسے نکال لیا۔
”اسے رکھ دو، یہ تم نہ کھانا۔” سالار نے جلدی سے کہا۔
”کیوں؟” سعد نے مائیکروویو کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
”اس میں پورک(سؤرکا گوشت)ہے۔” سالارنے لاپروائی سے کہا۔
”مذاق مت کرو”۔ سعد ٹھٹک گیا۔
”اس میں مذاق والی کون سی بات ہے۔” سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ سعد نے جیسے پھینکنے والے انداز میں پلیٹ شیلف پر رکھ دی۔
”تم پورک کھاتے ہو؟”
”میں پورک نہیں کھاتا۔ میں صرف یہ برگر کھاتا ہوں کیونکہ یہ مجھے پسند ہے۔” سالارنے برنر جلاتے ہوئے کہا۔
”تم جانتے ہو، یہ حرام ہے؟”
”اسلام میں؟”
”ہاں!”
”اور پھر بھی؟”
”اب تم پھر وہی تبلیغی وعظ شروع مت کرنا، میں صرف پورک ہی نہیں کھاتا، ہر قسم کا گوشت کھا لیتا ہوں۔” سالار نے لاپروائی سے کہا۔ وہ اب فریج کی طرف جارہا تھا۔
”مجھے یقین نہیں آرہا۔”
”خیر اس میں ایسی بے یقینی والی کیا بات ہے۔ یہ کھانے کے لئے ہی ہوتا ہے۔” وہ اب فریج میں پڑے دودھ کے پیکٹ کو نکال رہا تھا۔
”ہر چیز کھانے کے لئے نہیں ہوتی۔” سعد کچھ تلملایا۔” ٹھیک ہے تم زیادہ مذہبی نہ سہی مگر مسلمان تو ہو اور اتنا تو تم جانتے ہی ہوگے کہ پورک اسلام میں حرام ہے، کم از کم ایک مسلمان کے لئے۔” سالار خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا۔
”میرے لئے کچھ مت بنانا، میں نہیں کھاؤں گا۔” سعد یک دم کچن سے نکل گیا۔
”کیوں؟” سالار نے مڑکر اسے دیکھا۔ سعد واش بیسن کے سامنے کھڑا صابن سے ہاتھ دھورہا تھا۔
”کیا ہوا؟” سالار نے اس سے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سعد نے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح کلمہ پڑھتے ہوئے ہاتھ دھوتا رہا۔ سالار چبھتی ہوئی نظروں سے ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ ہاتھ دھونے کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
”میں تو اس فریج میں رکھی کوئی چیز نہیں کھاسکتا، بلکہ تمہارے برتنوں میں بھی نہیں کھاسکتا۔ اگر تم یہ برگر کھالیتے ہو تو اور بھی کیا کچھ نہیں کھالیتے ہوگے۔ چلو باہر چلتے ہیں، وہیں جاکر کچھ کھاتے ہیں۔”
”یہ بہت انسلٹنگ ہے۔” سالارنے قدرے ناراضی سے کہا۔
”نہیں، انسلٹ والی تو کوئی بات نہیں ہے۔ بس میں یہ حرام گوشت نہیں کھانا چاہتا اور تم اس معاملے میں پرہیز کے عادی نہیں ہو۔” سعد نے کہا۔
”میں نے تمہیں یہ گوشت کھلانے کی کوشش نہیں کی۔ تم نہیں کھاتے، اسی لئے میں نے وہ برگر پکڑتے ہی تمہیں منع کردیا۔” سالار نے کہا۔” مگر تم کو تو شاید کوئی فوبیا ہوگیا ہے۔ تم اس طرح ری ایکٹ کررہے ہو جیسے میں نے اپنے پورے فلیٹ میں اس جانور کو پالا ہوا ہے اور رات دن ان ہی کے ساتھ رہتا ہوں۔” سالار ناراض ساہوگیا۔
”چلو باہر چلتے ہیں۔” سعد نے اس کی ناراضی کو ختم کرنے کے لئے کہا۔
”باہر چل کر کچھ کھائیں گے تو میں بل پے نہیں کروں گا، تم کروگے۔” سالارنے کہا۔ ”ٹھیک ہے، میں کردوں گا، نوپرابلم۔ تم چلو۔” سعد نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”اور اگلی دفعہ تم میرے اپارٹمنٹ پر آتے ہوئے گھر سے کچھ کھانے کے لئے لے کر آنا۔” سالار نے قدرے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔
”اچھا لے آؤں گا۔” سعد نے کہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Read Next

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!