پہیہ —- نوید اکبر

اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ اپنے دل کی سب باتیں شہاب سے کہہ ڈالے۔ اپنی گاڑی، اپنی کتابیں، اپنی تصویریں، اپنا گھر، اپنی بوا، اپنا ٹونی۔ ایک دن ٹونی کو زنجیر پہنائی اور لے گئی۔ بوا سمجھیں ٹونی سیر کے لئے ضد کر رہا ہے۔ ٹونی سمجھا حمیرا سیر کے لئے ضد کر رہی ہے۔ وہ دونوں پارک میںایک بینچ کے سامنے رکے تو ٹونی سمجھا حمیرا تھک گئی ہے۔ بینچ پر بیٹھے شخص نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا۔ اُس نے ڈرتے ڈرتے حمیرا کو رجھانے کی خاطر جب ٹونی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تو ٹونی کی برداشت جواب دے گئی۔ ٹونی نے احتجاج کیا۔ ٹونی بھونکا اور بہت بھونکا۔ حمیرا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ٹونی اتنی بدتمیزی کیوں کر رہا ہے۔ ٹونی خود پریشان تھا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ مونچھوں والا شخص جو دیکھنے میں پاکستان کے کسی ترقی یافتہ قصبے کا باسی لگتا ہے، اس کی اصل حقیقت کیا ہے؟ ٹونی کو وہ اپنا ہم جنس معلوم ہوا۔ اپنے ہم جنس کے ساتھ اپنا علاقہ اور اپنی چیزیں کوئی کیسے بانٹ سکتا تھا۔
اُس دن کے بعد حمیرا کو ٹونی برا لگنے لگنے لگا اور ٹونی کو شہاب سے نفرت ہو گئی۔ لیکن اس بات کا نہ تو شہاب کو پتا چلا نہ ہی حمیرا کو۔ اُن کے پہیے رکتے تو انہیں پتا چلتا۔ اُن کے پہیے تو کسی دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ جب رکتے تو سامنے کسی ہوٹل کا کمرہ ہوتا۔
جہاز کی لہریں پھر سے حمیرا کے وجود کے اندر سے گزر رہی تھیں۔ اس بار اُس کی سفید کائنات میں شہاب نے ایک نیا روپ دھار لیا۔ اپنی ہونڈا سوک کا روپ …پھر ہونڈا سوک دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ دوسری گاڑی سوزوکی پک اپ تھی۔ یہ دو گاڑیاں چار میں بٹ گئیں۔ چار تقسیم ہوئیں تو سولہ ہو گئیں۔ سولہ تقسیم ہوئیں تو دو سو چھپن ہو گئیں۔ یہ سلسلہ چل پڑا یہاں تک کہ دنیا کی ہر گاڑی شہاب ہو گئی۔ وہ لیٹی رہی۔ اُس کے نیچے سنسان جی ٹی روڈ ایک خاص سنسناہٹسے لرز رہی تھی۔ اس ویرانی میں شہاب کی ہونڈا نمودار ہوئی، بہت تیزی سے اُس کی طرف بڑھی اور پھر وہ اس کے اوپر سے گزر گئی۔
اُس نے سانس لی تو مرسڈیز ہیوی بس اُس کی طرف لپکی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کی گاڑیاں اُس کے اوپر سے گزر گئیں… ساری دنیا کا شہاب اُس کے اوپر سے گزر گیا… ہر رنگ کا شہاب اُس کے اوپر سے گزر گیا… ہر ماڈل کا شہاب اُس کے اوپر سے گزر گیا۔
حمیرا نے آنکھ کھول لی۔ کلر کہار کے گیسٹ ہاؤس کی چھت اُس سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ مگر کیا؟ وہ کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اُسے اپنا جسم نظر آیا۔ کہیں کہیں شہاب کا نشان تھا۔ اُس نے ایک نشان کو انگلی کے پوروں سے چھوا تو اُسے پتا چلا کہ ٹونی شہاب سے نفرت کرتا ہے۔ وہ حیران ہوئی۔ کروٹ بدل کر آئینے سے منہ پھیر لیا۔ چھت کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر ابھی تک ہچکچا رہی تھی۔ اُس نے چھت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دوسرے نشان کو چھوا تو چھت نے چپ کا دروازہ کھولا… ”شہاب جا رہا ہے… تمہیں چھوڑ کر۔”
وہ چونک کر اُٹھ بیٹھی۔ ”یہ کیا بکواس ہے؟” اُس نے آنکھیں پھاڑ کرچھت کو گھورا۔ چھت ضبط کر رہی تھی۔ آسمان کا بار جو اُٹھا رکھا تھا۔ وہ حمیرا کو گرتے آسمان سے بچانا چاہتی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

حمیرا دوڑ کر باتھ روم گئی۔ شہاب دانت برش کر رہا تھا۔ سب کچھ کتنا نارمل تھا۔
”شہاب رات آٹھ بجے سے پہلے گھر پہنچ جائیں گے نا؟”
ہاں۔
”آج مجھے دروازے پہ ڈراپ نہ کرنا۔”
پھر؟
”اندر آنا… بوا سے ملنا۔”
چلتا برش دانتوں میں رک گیا۔
کیوں؟
”وہ تمہیں دیکھ لیں، اُنہیں اطمینان ہو جائے تو وہ پاپا سے تمہارا ذکر کریں۔”
جملہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ ختم ہوا۔ ایک بے معنی مسکراہٹ۔ ایک سہمی مسکراہٹ۔ مسکراہٹ جو جواب چاہتی ہو۔ مسکراہٹ جو یقین چاہتی ہو۔ شہاب کا برش دوبارہ چلنے لگا۔
”کل میں سیالکوٹ جا رہا ہوں۔”
شہاب منہ سے گرتی سفید جھاگ کو سنک میں غائب ہوتا دیکھ رہا تھا۔
”پرسوں چلے جانا۔”
حمیرا دروازے سے ٹیک لگا کر اپنا اور شہاب کا عکس سامنے آئینے میں دیکھنے لگی۔ شہاب سنک میں دیکھتے ہوئے اُسے جواب دیتا گیا۔
”کل جانا ضروری ہے۔”
”کیوں؟”
شہاب کی نظر آئینے پہ پڑی ا ور حمیرا سے ٹکرا گئیکچھ عجیب سا تھا اُن نظروں میں… ”نہیں”… وہ گھبرا گئی… دل سمٹ گیا…
کل میرا نکا ح ہے۔شہاب بول پڑا…
حمیر اکھڑی رہی… مٹھیاں بند ہوئیں… آنکھیں کھل گئیں… شہاب بولتا رہا۔
وہ میری کزن تھی نا … رابعہ … مرے گھر والوں کو بہت پسند ہے۔
ایک چنگاری بھڑکی اور حمیرا نے دھیرے سے پوچھا… ”اور تمہیں؟”
میرے خیال سے وہ ایک اچھی بیوی ثابت ہو گی۔
شہاب کمرے کی طرف جا رہا تھا۔ حمیرا کو cross کر کے۔ اس cross پر حمیرا کتنے سال کھڑی رہی، اُسے خبر نہ ہوئی۔ حمیرا مڑ کر ایک دفعہ شہاب کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی لیکن اُسے ڈر تھا کہ یہ چہرہ اُسے کلر کہار کی پہاڑیوں میں نہیں ملے گا۔ وہ گیسٹ ہاوؑس کے غسل خانیمیں کھڑی رہی۔ ایک آخری سوال پوچھنا چاہتی تھی لیکن کس سے پوچھتی؟ شہاب کی صورت سے ملتے جلتے اس اجنبی سے؟ لیکن پھر خیال آیا… ہو سکتا ہے یہ اجنبی شہاب کو جانتا ہو۔ تھوڑا ہی سہی۔ کیا پتا حمیرا کا پوچھا سوال اس اجنبی کے ذہن میں رہ جائے۔ کیا پتا زندگی کے کسی موڑ پر یہ اجنبی شہاب سے ٹکرا جائے؟… کیا پتا اُس لمحے یہ اجنبی شہاب کے سامنے یہی سوال دہرا دے؟ کیا پتا اُس وقت شہاب اس سوال کا جواب ڈھونڈنے نکل کھڑا ہو اور صدیوں کی خاک چھاننے کے بعد حمیرا سے آن ملے… اسی cross پر۔
”مجھ میں کیا… کمی تھی؟”
حمیرا کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ باتھ روم سے منسلککمرے کی سمت رُخ کر کے دیکھے جہاں سے اس اجنبی کی آواز آرہی تھی۔
مجھے تم میں کبھی اپنی بیوی نظر نہیں آئی۔
شہاب جانتا تھا کہ حمیرا کو اس جواب سے تکلیف پہنچی ہے لیکن اس وقت اُس کا سچ یہی تھا۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا؟ تھوڑے دن وہ ڈسٹرب رہے گی، پھر ٹھیک ہو جائے گی۔ اس لڑکی کو شہاب سے جو چاہئے تھا وہ مل گیا تھا۔ اب اُس کے پہیوں کو بھی شہاب کی طرح شہر کے اُن کمروں سے شناسائی ہو گئی تھی جہاں سے وہ اپنی ضرورتیں پوری کر سکے۔ ایسی لڑکیاں بھلا کسی ایک کی ہو کر کہاں رہ سکتی ہیں۔ وفا کرنا ان کے بس کی بات کہاں ہوتی ہے۔ کیا ضرورت ہے ان کے کاندھوں پر ایسا بوجھ لادنے کی جس کا بار یہ اُٹھا ہی نہ سکیں۔
شہاب دراز میں اپنا بٹوہ ڈھونڈ رہا تھا۔ اُس کی گھڑی بھی نہیں مل رہی تھی۔ گاڑی کی چابیاں بھی غائب تھیں۔
”تمہیں تو پتا ہے خاندانی شادیاں گھر والوں کے دباؤ سے ہوتی ہیں۔ کچھ فرق نہیں پڑتا ایسی شادیوں سے۔ بیویاں خاندان میں زیادہ خوش رہتی ہیں۔ اوہ … یہ رہا بٹوہ … بیوی کا کام گھر کے اندر اور میاں کا گھر کے باہر ہوتا ہے۔ کچھ فرق نہیں پڑتا شادی سے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے مابین اس قدر شناسائی ہے کہ یہ بے کار کی باتیں ہمارے بیچ نہیں آسکتیں۔”
گھڑی بستر کے پیچھے تھی، حمیرا کے دوپٹے کے نیچے۔ باتھ روم کا دروازہ کھلا تھا۔ حمیرا اب اس کمرے میں نہیں تھی۔
آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔
ہونڈا سوک کی ڈرائیونگ سیٹ پہ آج شہاب نہیں حمیرا تھی۔ مخالف سمت سے آتی تیز روشنیاں اُس کی آنکھوں میں چبھ رہی تھیں۔ آنکھیں تھیں جو جھپکنا بھول گئی تھیں۔ گاڑی کے سپیڈ و میٹر نے پہلی دفعہ اپنی آخری حد کو چھوا تھا۔ اس حد کو چھو کر واپس پلٹنا کسی کسی کے بس کی بات ہوتی ہے۔
آج لاہور اُس سے دور بھاگ رہا تھا۔ پر کیوں؟ شائد اس لئے کہ ویران دل شہروں کو بھی ویران کر دیتے ہیں۔ لاہور ڈر گیا تھا۔
ایک سو پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر اُسے خیال آیا کہ سامنے سے ایک ایک کر کے سینکڑوں گاڑیاں اُسے کراس کر رہی ہیں۔ ان گاڑیوں کے چہرے شہاب سے کتنے ملتے تھے۔ کہیں اُس کا اصل شہاب تقسیم ہو کر ان گاڑیوں میں تو نہیں بکھر گیا؟ ہاں! واقعی!
یہ بھی سچ تھا۔ وہ ہر طرف شہاب میں گھر گئی تھی۔ شہاب کو پانا کتنا آسان ہو گیا تھا۔ اُس نے گاڑی کی بریک لگا دی۔ جی ٹی روڈ لرز رہی تھی۔
مغرب سے مشرق جاتی سڑک نے حمیرا کے ننگے پیروں کو محسوس کیا۔ وہ دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی سڑک کے بیچ آپہنچی۔ اُس کے کانوں میں صرف ایک آواز تھی۔ خالی گلاس کا کھلا منہ کان سے لگا لو… ایسی آواز۔
وہ تھک چکی تھی… لیٹ گئی۔ دور سے ہزاروں شہاب جگنوؤں کی طرح اُس کی طرف لپکنے لگے۔ ایک ایک کر کے ان گنت شہاب اُس کے اوپر سے گزر گئے۔
خالی گلاس کی آواز بھی بند ہو گئی۔

٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

درد کا درد —- عشوہ رانا

Read Next

سرپرست — فوزیہ احسان رانا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!