پہچان — ماہ وش طالب

”مدحت عادتیں بدلی جاسکتی ہیں مگر فطرت نہیں، جو بھی ہو انسان دوبارہ اپنی فطرت پر ضرور پلٹتا ہے۔ زہریلا انسان ڈسنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ خلیل کیا کہنا چاہتے تھے میں سمجھ نہیں پارہی تھی مگر ان کے لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ میرا دل ڈر گیا۔ میں ایک جنرل بات کررہا ہوں ،تم جیسی بدھو کے کام آئے گی۔” مجھے گم صُم دیکھ کر انہوں نے اگلی بات کہی۔
میں کافی دنوں سے نوٹ کررہی تھی کہ ثمن اب پہلے کی طرح ایکٹو نہیں رہتی تھی، خاموش،کہیں خیالوں میں گم۔ پھپھو اسے مشکوک نظروں سے دیکھے جاتیں۔ میں نے آفس سے بھی کچھ چھٹیاں لے لیں تھیں۔ پہلے مجھے خیال آیا کہ شاید خلیل کی وجہ سے کتراتی ہے، مگر دو دنوں بعد جب میں نے اس سے براہ راست بات کی تو اس نے مجھے چونکا دیا۔ ”باجی میں اپنی چاچی کے گھر واپس جانا چاہتی ہوں۔ وہ دھیمے لہجے و آواز میں بولی۔ ”مگر کیوں۔” ایسے اچانک؟ مجھے گمان گزرا کہ کہیں خلیل نے کوئی برا رویہ نہ اپنایا ہو اس کے ساتھ اپنے گھر تو جانا ہے نا۔ وہ جیسے بھی لوگ ہیں مگر میرے باپ کا حصہ بھی ان کے پاس ہے۔”
وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی میں شاید سمجھ چکی تھی۔ میں نے اسے کئی طرح سے روکنے کی کوشش کی مگر پھپھو اور خلیل کی وجہ سے اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی اور وہ بھی جیسے ٹھان چکی تھی۔ ثمن نے بتایا کہ گھر کے لینڈلائن سے اس نے اپنے چچا کو فون کرکے اپنے بارے میں بتایا تھا اور اب وہ کل پرسوں تک یہاں آجائیں گے۔ مجھے نہ جانے کیوں اس وقت خلیل کی باتیں درست لگیں حالاں کہ اس بات سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہ بنتا تھا کہ آخر کو اپنا گھر تو اپنی جنت ہی لگتا ہے اور پھر دو دن بعد سب کچھ بھلا کر اس وعدے پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کو الوداع کہا کہ ہم رابطے میں رہیں گے۔ ایک دوسرے کو بھولیں گے نہیں پھپھو بھی کچھ اداس، کچھ مطمئن سی تھیں۔ جاتے ہوئے اس نے ایک بار پھر مڑکر دیکھا، مگر اس کی نظروں کا نشانہ میں نہ تھی۔ میں نے حیرانی سے پیچھے مڑکردیکھا۔ خلیل بھنویں چڑھائے سامنے دیکھ رہے تھے۔ میں کچھ سمجھ نہ سکی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

گزرے پانچ سالوں میں زندگی بہت بدلی تھی، مگر شگفتگی بھی قائم تھی۔ میں خلیل کے ساتھ اس کے گھر میں تھی۔ خالہ اور مینا لڑاکی نہیں تھیں۔ گھر کی فضا پرسکون تھی۔ کراچی جاکر بھی میں نے جاب جاری رکھی۔ خلیل کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ یوں بھی وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے اور کھپتے رہتے۔ سو اس طرح وقت اچھا گزر جاتا تھا۔ اس دن میں نے مجتبیٰ کا اسکول میں ایڈمیشن کروانا تھا لہٰذا خالہ کو ساتھ لے کر نکل گئی۔ گاڑی اشارے پر رکی، تو مارے کوفت کے نظریں سڑک پر دوڑانا شروع کردیں، ویسے بھی کراچی آکر ٹریفک کے قانون کی پابندی کی عادت ختم ہوگئی تھی۔ میری دوڑتی نظریں کسی شناسا کو دیکھ رہی تھیں۔ میں نے یقین کرنا چاہا کہ یہ ثمن ہی ہے، بڑی سی گاڑی میں کسی بڑے سے مرد کے ساتھ بیٹھی وہ ثمن ہی تھی۔ وہ ترچھے رخ سے مجھے نظر آرہی تھی، مگر پھر اشارہ کھل گیا اور سڑک پر گاڑیوں کا سیل رواں شروع ہوگیا۔ میں حیران تھی مگر پرجوش بھی۔ حیران اس لیے کہ وہ کراچی کیسے پہنچ گئی اور پرجوش اس وجہ سے کہ یقینا اس کی شادی ہوگئی تھی۔ میں نے رات کو خلیل سے ذکر کیا میں جانتی تھی کہ وہ میری طرح سے ہرگزردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔
”اب پلیز تم اس کو ڈھونڈنے مت لگ جانا دیکھ لیا نا وہ خوش ہے۔ اس نے تمہیں بھی نہیں بتایا کہ وہ کراچی آئی ہوئی ہے۔” خلیل صحیح کہہ رہے تھے۔ ان پانچ برسوں میں میرا اس سے کوئی بھی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے ساتھ شاید تعلق کے سارے دھاگے بھی اکٹھے کرکے لے گئی تھی۔ میں نے خاموشی سے رخ پھیر لیا۔ آنے والے دنوں میں تقریباً اس بات کو بھول چکی تھی۔ یوں بھی مصروفیت کہتی تھی کہ حال میں زندہ رہو۔
میں مجتبیٰ کو لے کر مال روڈ کے لیے نکلی تھی، کافی مہینوں سے شاپنگ کا پلان بنایا ہوا تھا، جو ہربار ملتوی ہوجاتا۔ گاڑی پارکنگ میں کھڑی کرکے میں دوسری طرف سے مجتبیٰ کو نکال کر مڑی تو ایک بار پھر ساکت رہ گئی۔ وہ ثمن تھی۔ پہلے سے بھی زیادہ بڑی گاڑی میں پہلے سے بھی زیادہ بڑی عمر کے آدمی کے ساتھ مجھے اچنبھا ہوا اور ایک منٹ کی بھی تاخیر کیے بغیر اس کی جانب لپکی اور وہ مجھے دیکھ کر… میں جو سوچ رہی تھی، خوشی سے مجھ سے لپٹ جائے گی۔ وہ مجھے دیکھ کر پل کے پل ساکت ہوئی۔ آنکھوں میں شناسائی کی رمق ابھری اور اگلے ہی پل اس کی آنکھوں کا رنگ بدل گیا۔ ”ثمن پہچانا نہیں۔ میں تمہاری مدحت باجی۔” میں ڈھیٹ بن گئی۔ ساتھ کھڑا آدمی کبھی مجھے اور کبھی ثمن کو دیکھتا۔
”کون مدحت باجی! معذرت۔ میں نے پہچانا نہیں” اس نے کب کی جُھکی نظریں اٹھائیں اور سپاٹ لہجے میں کہا۔
میں نے غور سے اسے دیکھا تھا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہوگئی تھی، مگر وہ معصومیت جس کی خاطر جس پر ریجھ کر میں نے پھپھو اور خلیل کے سب اندازوں کو غلط ثابت کیا۔ وہ پیاری اداکا شائبہ دوردور تک نہ تھا اور اس کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔ آج پہلی بار میں نے ان آنکھوں میں جھانکا اور مجھے افسوس ہوا کہ کاش یہ آج بھی جھکی رہتیں یا میں ہی اپنی آنکھیں بند کرلیتی وہ غلاظت اور مکّاری اور جو میں کبھی دیکھ نہ پائی تھی۔ آج ثمن کی آنکھوں سے صاف جھلک رہی تھی۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔
”اوہ کوئی بات نہیں، مگر میں نے آپ کو پہچان لیا ہے۔” میں کہہ کر رُکی نہیں تھی۔ مجتبیٰ کا ہاتھ پکڑکرمیں اپنی گاڑی کی طرف بڑھی۔
گھر پہنچنے تک میرا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا،جو اس وقت مختلف خیالات کا جنگل بن چکا تھا۔ مجھے اپنی سماعت و بصارت پر یقین نہیں آرہاتھا۔ میں جسے اس کی شادی سمجھی تھی وہ اس کا پیشہ تھا اور اس سب کا ذمہ دار کون تھا؟
میرے ذہن میں پرانی باتیں اور واقعات چکر پھیریاں کھانے لگے۔ ثمن کے آنے کے ایک ماہ بعد ہی میں نے اس سے تعلیم حاصل کرنے کا کہا تھا، مگر وہ جیسے خاموش ہوگئی تھی۔ اس نے نظریں چرالی تھیں۔ مجھے محسوس ہواکہ اسے میری یہ تجویز پسند نہیں آئی اور پھر جب خلیل لاہور آئے ہوئے تھے۔ ایک شام جب میں آفس سے لوٹی تھی۔ گیٹ کی ڈپلیکیٹ چابی میرے پاس ہی ہوتی تھی۔ لاؤنج میں پہنچی تو خلیل صوفے پر بیٹھے پانی پی رہے تھے،مجھے دیکھ کر چونکے، ”کیا ہوا۔” میں حیران ہوئی ”ارے کچھ نہیں۔” ”میں تمہیں پک کرنے کے لئے نکلنے والا تھا۔ تم آہی گئیں۔” انہوں نے جواب دیا۔ میں نے خلیل کے گلاس پکڑے ہاتھ میں ذرا کی ذرا لرزش دیکھی تھی۔ وہ عام طور پر اس وقت گھر نہیں ہوتے تھے۔ جتنے دن وہ یہاں رہے پڑوس کے مجاہد بھائی کے ساتھ کلب چلے جاتے، پھپھو حسب معمول اونگھ رہی تھیں۔ مجاہد اپنی بیگم کے ساتھ گیا ہوا ہے۔ سو میرے سوالیہ انداز سے دیکھنے پر انہوں نے اپنے اس وقت یہاں ہونے کی وضاحت دی۔ یہ سب نارمل تھا۔ میں نے اس لیے غور نہیں کیا۔ تب بھی نہیں جب میرے کمرے میں پلنگ پر ثمن منہ سر لپیٹے پڑی تھی۔ آہٹ پر اس نے چونک کر دیکھا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ میں نے کندھے اچکائے اور چینج کرنے چلی گئی۔ واپس آئی تو وہ اٹھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں لال تھیں،میں نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا جلدی سے قریب آئی، اس کا ماتھا چھوا جو تیز حرارت سے تپ رہا تھا۔
”صبح ہی سے بخار ہے ہلکا ہلکا۔ دو ا لے لی ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔” اس نے کھوئے سے انداز میں وضاحت دی تھی اور اب مجھے ہربات دُہری گہرائی کے ساتھ یاد آرہی تھی۔ جب اتنے برسوں بعد وہ اس روپ میں میرے سامنے آئی کہ مجھے اپنا آپ مجرم سا محسوس ہونے لگا۔ وہ اپنوں کی جن درندگیوں سے بھاگتے بھاگتے مجھ سے ٹکرائی تھی، میرے گھر میں بھی وہ اسی کا نشانہ بنے والی تھی، جہاں میں اپنے تئیں سمجھ رہی تھی کہ وہ بالکل محفوظ ہے۔ یہ میری مردوں کے حوالے سے ادھوری پہچان تھی اور خلیل… جو ہے تو ایک مرد… اور مرد کی عادتیں بدلی جاسکتی ہیں، مگر فطرت نہیں۔ اسی مرد نے ایک مظلوم اور کمزور عورت کو تنہا پاکر اپنی اصلیت دکھانے میں جھجک نہ دکھائی اور وہ کمزور عورت، ثمن جو اِس پناہ گاہ میں خود کو محفوظ اور باعزت سمجھنے ہی لگی تھی، خلیل جیسے مرد نے اپنی ادھوری پہچان مکمل کروا کے اس سے اس کی ذات کا وقار بھی چھین لیا اور نتیجتاً ثمن نے معاشرے کو وہی لوٹانے کا سوچا جو معاشرے نے اسے تحفتاً دیا تھا۔ نسلیں یوں بھی تو برباد ہوتی ہیں جب ایک مرد کا گناہ عورت کو مجرم بنا دیتا ہے۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

جو غائب بھی ہے حاضر بھی — سحرش مصطفیٰ

Read Next

بانجھ — علی حسن سونو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!