گرمی کی تپش سے تارکول کی سڑک جلتا انگارہ بنی ہوئی تھی۔ گاڑی کا اے سی بند کیا ذرا دیر کو، تو یوں لگا جیسے سورج بابا نے مجھے ہی فوکس کیا ہوا ہے۔ آج پھپھو کی ساہیوال سے واپسی تھی۔ لہٰذا میں آفس سے جلد اٹھ گئی۔ ضروری رپورٹ تیار کرکے میں نے کمپوزنگ کا کام شائستہ کو سونپ دیا۔ گھر پہنچ کر پھپھو کا کمرا صاف کروانا تھا اور کھانا بھی بنانا تھا۔ وہ ہفتہ پہلے اپنی خالہ زاد کے یہاں گئی تھیں، شام تک انہیں پہنچ جانا تھا اور ان کے آنے سے پہلے مجھے گھر کو نک سک سے تیا ر میرا مطلب ہے صاف ستھرا کرنا تھا۔ ویسے تو پھپھو کی موجودگی میں مجیدہ آکر کام کرتی تھی لیکن ان کی غیر موجودگی میں، میں نے اسے چھٹی دی ہوئی تھی اور آج کے دن ہی وقت پر آنے کا کہا تھا۔ گاڑی پوش علاقے میں داخل ہوئی۔ یہاں سب ہی بنگلوں کا طرز تعمیر تقریباً ایک جیسا تھا،مگر رقبے کے اعتبار سے ہمارا گھر نسبتاً چھوٹاتھا لیکن دو افراد کے لیے تو یہ بھی بڑا لگتا۔ تپتی دوپہر میں سب ہی اپنے گھروں میں پڑے اونگھ رہے تھے۔ میں نے جونہی مطلوبہ بلاک کی طرف گاڑی موڑی، کوئی تیزی اور بے دھیانی سے بھاگتا میری گاڑی سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اگر میں بروقت بریک نہ لگاتی تو اس کا کام تمام ہوجاتا۔ گاڑی سے باہر نکل کر میں نے گرنے والی لڑکی کو اور اس کے پاؤں پر آئی خراشوں کو دیکھ کر سوچا،وہ درد سے کراہ رہی تھی۔ جانے کیوں مجھے لگا کہ لڑکی کے ٹکرانے سے پہلے کوئی اور بھی کالونی میں داخل ہوا تھا اور پل بھر میں ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ خیر میں سر جھٹک کر دوبارہ لڑکی کی طرف متوجہ ہوئی جس کے ٹخنے سے اب خون بہ رہا تھا کیوں کہ خراشیں گہری تھیں۔ میں نے سہارا دے کر اسے کھڑا کیا اور گاڑی میں بٹھایا، لڑکی کو فوری طور پر ابتدائی طبی امداد کی ضرورت تھی۔ میں اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ وہ سولہ سترہ برس کی لڑکی نہ جانے کیوں مجھے اتنی معصوم اور پیاری لگی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مرہم پٹی او ر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں نے اس سے کچھ رسمی اور ضروری سوالات کیے اور میں جو یہ سوچ رہی تھی کہ اس لڑکی جس کا نام ثمن تھا اور اِس نے ایک بار بھی مجھے اپنے گھر جانے کا نہیں کہا، تو مجھے اپنے سوال کا جواب اس کے انٹرویو کے دوران مل گیا۔ اس میں اور مجھ میں پہلی اور سب سے اہم چیز مشترک نکلی، بس فرق اتنا تھا کہ ثمن کے ماں باپ دنیا چھوڑ جانے کے بعد ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے اور میرے والدین نے ہجر کی فصل کاٹنے کے بعد جہان فانی سے کوچ کیا۔ یعنی میں ایک بروکن فیملی کا بکھرا ہوا ٹکڑا تھی۔ تب ہی ثمن مجھے پہلی نظر میں اپنی اپنی سی لگی۔ اس نے اپنی نم ناک آنکھوں کو پونچھتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے جن رشتہ داروں کے ہاں عرصے سے رہ رہی تھی ان کے بیٹے نے اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی۔ اب کیا ہوگا اس کا؟ میں نے سوچا، شام کے پانچ بج رہے تھے، پھپھو بھی بس آنے ہی والی تھیں۔ میں نے ایک نظر اس کے حلیے پر ڈالی ،گندمی رنگت اور غزالی چہرہ ،صاف ستھرے کپڑے پہنے وہ نظریں جھکائے،دودھ کے خالی گلاس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا، بس پھپھو کی ناراضی کا خوف تھا، مگر انہیں بھی کسی نہ کسی طرح میں نے منا ہی لینا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
”لڑکی تم ہوش میں ہو،میں چار دن گھر سے کیا گئی تم نے تو اسے سرائے ہی بنا ڈالا۔ ”
جس غیظ و غضب کا مجھے امکان تھا، پھپھو کے منہ سے وہی امڈ رہا تھا۔ ”پلیز پھپھو! آہستہ وہ ساتھ والے کمرے میں ہے سُن لے گی۔” میں نے ملتجی نہ انداز میں کہا۔ ”مجھے پروا نہیں۔” حد ہے،تم تو بالکل ہی ننھی بچی ہو ابھی تک، میں نہ ہوں، تمہیں سمجھانے کے لیے تو یہ دنیا چاردنوں میں پیروں میں مسل کر رکھ دے۔ دو دن رکھنا اور بات ہے، ساری زندگی کے لیے رکھنا اور بات۔ نہ بچی کا آگا پیچھا،کیا سچ ، کیا جھوٹ، کچھ بھی تو نہیں معلوم۔” غصے میں ان کی بڑی آنکھیں اور بھی کُھل جاتیں۔ رات کے کھانے کے بعد وہ کچھ دیر واک کرنے کی عادی تھیں،مگر اس ہنگامے میں انہوں نے اپنی روٹین کو بھی پس پشت ڈال دیا اور ویٹنگ روم میں میری شامت آئی ہوئی تھی۔
”پیار ی پھپھو ! پلیز سوچیں آپ کا بھی تو فائدہ ہے، سارا دن آپ گھر میں تنہا رہتی ہیں۔اچھا ہے کمپنی ہوجائے گی۔” میں نے مکھن لگانا چاہا ،لیکن وہ نہ مانیں، جانے انہیں کس چیز پرزیادہ اعتراض تھا،ثمن کو گھر لانے پر،میری بیوقوفیوں پر یا ثمن کے ہاتھوں بدھوبننے پر؟ غرض کے انہوں نے سینکڑوں اعتراض کیے اور میں نے ہزاروں دلائل دیے اور آخر میں فیصلہ میرے ہی حق میں ہوا پھر آنے والے دنوں نے بتایا کہ میرا یہ فیصلہ کچھ زیادہ غلط بھی نہ تھا۔ پھپھو نے زبانی تو نہیں، لیکن اپنے انداز سے اس کا اظہار ضرور کیا تھا۔ اب میں گھر جاتی تو گھر کا گیٹ لاکڈ ملتا،کال کرتی تو معلوم ہوتا کہ محترمائیں بازار کی دھول چاٹنے گئی ہیں۔ چار ماہ تو گزر گئے تھے، ثمن کی پہلی والی ہچکچاہٹ بھی جاتی رہی۔ یوں بھی اس گھر میں کوئی مرد تو تھا نہیں جس سے زیادہ مسئلہ ہوتا۔
بے اولادی کے غم نے پھپھو کو مجرم ٹھہرادیا تھا۔شادی کے محض چار سال بعد وہ طلاق لے کر اپنے بھائی کے گھر آگئیں۔ وہ بھائی جو اپنے ہی چکروں میں پڑے تھے بہن کی کیا پروا کرتے، بس یہ احسان کیا کہ گھر امی اور پھپھو کے نام لگا کر اپنی امیر ترین بیوی کے ہمراہ رخصت ہوگئے اور امی بیچاری اس جھٹکے کو سہار نہ پائیں۔ بس پھر اس کے بعد سے میں اور جاناں پھپھو ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے۔
”مدحت باجی! ایک بات پوچھوں؟” میں اپنے پلنگ پر نیم دراز کتاب پڑ ھ رہی تھی ،جب دوسرے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے اس نے پوچھا۔ ”جی! ضرور۔” میں نے کتاب میں غرق جواب دیا۔
”خلیل صاحب کون ہیں؟” اس کے انتہائی غیر متوقع سوال پر میں نے چونک کر سر اُٹھایا ”آئی ایم سوری۔” میں نے اس دن آپ کی اور پھپھو کی باتیں سن لی تھیں۔ مجھے لگا آپ مجھے بھی اس بارے میں ضرور بتائیں گی، مگر وہ شرمندہ شرمندہ سی تھی۔”
”سوری تو تمہیں کرنا چاہیے، لیکن اب آیندہ ایسی حرکت مت کرنا۔ میں تمہیں بتادیتی۔ اگر خلیل کے آنے کا کنفرم ہوتا۔ خیر۔ وہ اگلے جمعہ کی فلائٹ سے آرہے ہیں اور میں موصوف کی منکوحہ ہوں۔ یعنی وہ میرے شوہر ہیں ۔ میںنے تحمل سے اسے جواب دیا۔ ”کیا سچ! تو پھر آپ یہاں۔”
”ابھی صرف نکاح ہوا ہے،وہ اپنی پڑھائی مکمل کرلیں اگلے سال پھر ہماری شادی ہوجائے گی۔” خلیل میرے خالہ زاد تھے اور میں میٹرک میں تھی جب ان سے میرا نکاح ہوا، بڑوں کی پسند میں آہستہ آہستہ فریقین کی پسند بھی ڈھل گئی ۔ خلیل کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ امید تھی کہ رواں سال انہیں ڈگری مل جائے گی۔ میرے تفصیلات بتانے پر وہ پہلے شرمائی پھر مطمئن ہوئی اور بعد میں مجھے گلے لگا کر ڈھیروں مبارک باد دی۔
ہم دونوں ٹیرس پر بیٹھے شام کی چائے اور سہانے موسم کا لطف لے رہے تھے۔ خلیل کو مہینا ہوچلا تھا پاکستان آئے مگر چار دن قبل ہی لاہور آئے تھے اور ہمیں آج موقع ملا تھا بیٹھ کر بات کرنے کا۔ ہجر، وصل، پڑھائی، سیاست، فنکشن، جرمنی کا احوال،شوبز پر بات کرنے کے بعد جب سارے موضوع ختم ہوگئے تو انہوں نے ایک غیر معمولی بات کہہ دی ”اس لڑکی کو بھیج دو یہاں سے۔” کپ میرے ہاتھ سے پرچ میں لڑھک سا گیا۔
”کیا ہوا کیا تم کچھ ہونے کا انتظار کر رہی ہو۔ وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہے تھے اور میں کچھ نہ کہہ سکی۔ ”تم کیسے کسی کی ذمہ داری لے سکتی ہو۔”
آپ بھی پھپھو کی طرح بات کررہے ہیں، ٹھیک ہے لیکن دیکھیے گا بعد میں آپ ہی میرے فیصلے کو سراہیں گے۔” میں نے تیز لہجے میں دفاع کیا۔ ”پھپھو تمہاری طرح بے وقوف ہوسکتی ہیں، مگر میں نہیں۔”
” خلیل!” مجھے پھپھو کے لیے ان کا اس طرح بات کرنا اچھا نہ لگا۔
”دیکھو مدحت… تم مجھے انسانیت کے لیکچرز مت دینا شروع کردینا۔ اب تم یہی سوچ رہی ہو نا کہ میں بہت خود غرض ہوں اور تمہیں مجھ سے یہ امید نہ تھی۔” میرے سپاٹ انداز کو دیکھ کر وہ پھر سے گویا ہوئے اور صحیح اندازے لگارہے تھے۔ سفید نظر کا چشمہ لگائے، تراشے ہوئے کالے بال، خاکی جینز اور نیلی ٹی شرٹ پہنے وہ پروفیسر لگ رہے تھے۔ان کا بات کرنے کا انداز بھی افسرانہ ہوتا تھا، وقفے وقفے سے ہاتھوں کو ضرورت کے مطابق دائیں بائیں حرکت دیتے۔
”وہ پیاری سی بچی ہے،تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے اس نے میں نے چڑ کر پوچھا ”بچی؟ مانا کہ تمہاری اور اس کی عمر میں کافی فرق ہے اور حالات نے تمہاری سوچ کو بہت پختہ کردیا ہے، مگر اسے کم از کم بچی نہ کہو۔”
”آپ کہنا کیا چاہتے ہیں کہ کیا ہوسکتی ہے وہ۔ کوئی چور، کوئی غلط حرکت کی ہوگی اس نے؟ اگر فرض کریں اس نے ایسا کیا بھی ہو تو۔ اب تو وہ بدل گئی ہے نا۔ نارمل لڑکی بن گئی ہے۔ ہم نے اسے جو پیار دیا ہے ،تحفظ فراہم کیا ہے۔ وہ اس کا regard کرتے ہوئے کم از کم دوبارہ تو کوئی بری حرکت نہیں کرے گی نا میں نے اس گفت گو سے جان چھڑانی چاہی یعنی تم مانتی ہو کہ وہ غلط بھی ہوسکتی ہے۔ وہ جیسے مجھے چیلنج کررہے تھے اُف؟
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});