ٹوٹی ہوئی چپل — علینہ ملک

سورج کی سنہری کرنوں نے چارسو اپنا رنگ بکھیرا تویہ ساتھ ہی ایک نئے دن کا آغاز تھا، زندگی کا پہیہ ایک بار پھر اپنے مخصوص ڈگر پر رواں ہو چلا تھا بس فرق صرف امارت اور غربت کا تھا۔ پیسہ ہو تو زندگی کے رنگ ہی بدل جاتے ہیں، ورنہ جینے کے لیے سانسوں کا رشتہ تو سب کا یکساں ہی ہوتا ہے۔
کچی اینٹوں سے بنے اس غریب بستی کے مکان میں بھی سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی دن کا آغاز ہوا تھا۔ مُنی نے چائے کی آخری چسکی اور باسی روٹی کا آخری لقمہ لیتے ہوئے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا۔
”اماں میں آج اسکول نہیں جائوں گی۔” کوثر نے چوٹی کو بل دیتے ہوئے کہا اس کے لہجے میں افسردگی تھی۔
کیوں کیا ہوا ہے ،تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ عجلت میں چادر کو سر پر ٹھیک کرتے ہوئے اس کی ماں نے پوچھا۔
ہاں اماںطبیعت تو ٹھیک ہے مگر… میری چپل آج پھر ٹوٹ گئی ہے۔ اب کیا ننگے پاؤں اسکول جائوں؟ منی نے منہ بسور کر ماں کو دیکھا۔ وہ بے چاری الگ پریشان تھی۔
”اچھا میں کوشش کروں گی تیری نئی چپل لے آئوں۔ بیگم صاحبہ آج کل مصروف ہیں اس لیے ابھی تک تنخواہ بھی نہیں ملی۔ میں بات کروں گی آج۔ تیرے ابا کی دوائیوں میں آدھے پیسے نکل جاتے ہیں اور پھر راشن ،گھر کا کرایہ اور اسکول کی فیس،قرضہ کی قسطیں… کیا کروں ہر مہینے مجال ہے کہ ہاتھ میں ایک پیسہ بھی باقی بچے۔” کوثر نے ایک ساتھ کئی خرچے گن ڈالے تھے۔ ”ایسا کر! یہ پیسے پکڑ اور جاتے ہوئے موچی سے مرمت کروالے” کوثر نے دس کا نوٹ منی کی طرف بڑھاتے ہو ئے کہا۔
”اماں کوئی پچاس بار مرمت کروا چکی ہوں اب تو یہ بے جان چپل بھی پناہ مانگ رہی ہے ہاتھ جوڑ کر کہ خدا کے لیے میری جان بخش دو اور ساتھ ہی وہ موچی بھی یہی کہتا ہے بی بی اب اس کا پیچھا چھوڑ دو۔ منی نے خفگی سے ماں کو جتلایا۔
”اچھا اچھا… بس کر زیادہ باتیں نہ بنا، کہا تو ہے کہ نئی لے دوں گی۔ دعا کر بیگم صاحبہ تنخواہ ہاتھ پر رکھ دے اور ہاں آج اسکول مت جانا، خیر ہے تُو نے پڑھ کے کون سا استانی لگ جاناہے۔ کام کرنا تو یہی ہے جو ہماری قسمت میں لکھا گیا ہے۔” کوثر نے ساتھ ہی جلی کٹی بھی سنا ڈالی تھیں۔
”اچھامیں چلتی ہوں بنگلے بھی پہنچنا ہے دیر ہوگئی تو بیگم صاحبہ کلاس لے گی۔ ابا کو دوائی یاد سے کھلا دینا اور گھر کا کام ختم کرکے چپل مرمت کروا لینا دروازے سے نکلتے ہوئے بھی اس نے دس باتیں ایک سانس میں کہہ ڈالی تھیں۔
”اچھا اماں اللہ حافظ۔” منی نے ساری باتوں کے جواب میں صرف اتنا ہی کہا تھا اور پھر دروازہ بند کر کے جلدی جلدی سارا سامان سمیٹنے اور جھاڑو دینے لگی۔ وہ بچپن سے اپنی ماں کی باتوں اور ان حالات کی عادی ہو چکی تھی۔
٭…٭…٭
”اف کوثر! آج پھر تم نے دیر کر دی، دیکھو بچے ناشتے کیے بغیر ہی اسکول جارہے ہیں کتنی بار کہا ہے کہ صبح وقت پر پہنچ جایا کرو۔” بیگم صاحبہ جو غصہ سے بھری بیٹھی تھیں ایک دم برس پڑیں۔
”باجی! میں تو پورے (ٹیم )ٹائم پر ہی گھر سے نکلی ہوں۔” اس نے منمناتے ہوئے۔
”کوثر یا تو تمہاری گھڑی خراب ہے یا پھر تم بہانے بنانے میں ماہر ہو۔ آج پھر بچے بغیرناشتے کے اسکول چلے گئے۔ تمہیں کام پر کس لیے رکھا ہے ہم نے… اگر روزانہ میرے بچوں کو بھوکے پیٹ ہی اسکول جانا پڑے تو پھر تمہاری کیا ضرورت…” ریحانہ بیگم کا پارہ صبح صبح بلند ہو رہا تھا۔
”معذرت باجی! کل صبح سویرے پہنچ جائوں گی آپ فکر نہ کریں۔” اس نے شرمندگی سے کہا پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئی۔
”باجی جی آپ نے ابھی تک تنخواہ نہیں دی مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔” ساتھ ہی اس نے اپنا مدعا بھی بیان کیا کہ بیگم صاحبہ نے ابھی کچھ دیر میں تیار ہوکر چلے جانا ہے اور پھر اسے تنخواہ نہیں ملنی۔
”کوثر تمہیں کل بھی بتایا تھا کہ میں آج کل بہت مصروف ہوں ،سوشل ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے پانچ روزہ ورک شاپ چل رہی ہے جس میں شرکت کے لیے، دوسرے شہروں سے اور باہر سے بھی مہمان آئے ہوئے ہیں ،میں کچھ دن میں فارغ ہوجائوں تو تمہارا حساب کر دوں گی۔” ریحانہ بیگم نے وہی کل والی بات دُہرائی تھی۔
”ماما مجھے یہ والے شوز نہیں پہننے۔ آپ کو کہا بھی تھا وہ بلیک والے شوز نکال دیں جو بابا شارجہ سے لائے تھے۔” لائبہ جو کالج جانے کے لیے جلدی جلدی تیار ہورہی تھی آف موڈ کے ساتھ بولی،وہ جو مزید کچھ کہنا چاہتی تھی پھر وہیں چپکی رہ گئی ۔
”اچھا رکو! میں کوثرسے کہہ دیتی ہوں وہ نکال دے گی بیٹا میں نے تو بہت ڈھونڈے مجھے نہیں ملے۔” کوثر جائو ذرا لائبہ کی الماری میں جہاں شوز رکھے ہوئے ہیں وہاں سے بلیک کلر کے شوز ڈھونڈ دو ورنہ اس لڑکی نے کالج نہیں جانا۔”
”اچھا بی بی! میں دیکھتی ہوں۔کوثر نے لائبہ کے کمرے میں آکر الماری کھولی اور پھر پندرہ منٹ اسے لائبہ کا مطلوبہ جوتا ڈھونڈنے میں لگ گئے، یوں لگتا تھا جیسے جوتوں کا کوئی بازار ہو، کچھ کھلے پڑے تھے۔ کچھ ڈبوں میں بند اور کچھ جو پرانے ہو چکے تھے وہ یوں ہی بکھرے پڑے تھے۔ لگ بھگ دس پندرہ نئے پرانے جوتوں کے جوڑے تھے۔ کوثرنے پہلے بھی یہ سب کچھ دیکھا ہوا تھا مگر آج نہ جانے کیوں اس نے پہلی بار غور سے دیکھا بھی اور گنا بھی اور پھر ایک سرد آہ اس کے منہ سے نکلی۔
٭…٭…٭
”ابا دوا کھالو۔” جھاڑو اور برتنوں سے فارغ ہو کر اس نے پانی کا گلاس اور دوائی باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ وقت اور حالات نے اس معصوم بچی سے اس کا بچپن چھین لیا تھا وہ وقت سے پہلے بڑی ہوچکی تھی جو عمر اس کے کھیلنے کی تھی وہ اسے گھر کے کام اور حالات کو جھیلنے میں گزر رہی تھی۔
”اچھا ابا! میں ذرا باہر جارہی ہوں ،موچی سے چپل مرمت کروا لاؤں جلد ہی آجائوں گی۔ اگر زیادہ کھانسی آئے تو تم یہ دوا ضرور پی لینا۔” مُنی نے باپ کے سامنے دوا رکھتے ہوئے کہا۔
”ایک پائوں میں چپل پہنے اور دوسری میں ٹوٹی ہوئی چپل تھامے وہ گھر کی دہلیز سے باہر نکلی تھی۔ دروازے کے دونوںپٹ برابر کر کے اس نے باہر سے کنڈی چڑھائی اور پھر تنگ سی گندی گلی سے گزری جہاں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ اونچے نیچے راستوں پر اس نے قدم بڑھانے شروع کردیے۔
دھوپ کی شدت اور جلتی ریت نے جلد ہی اسے اس بات کا احساس دلا دیا کہ اس کے ایک پائوں میں چپل نہیں ہے مگر پھر بھی چہرے پر بے فکری اور مسکراہٹ سجائے وہ اپنی ہی دھن میں چل رہی تھی۔ تعفن زدہ گلی کی آخری نکڑ پر پہنچ کر اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹوٹی چپل پائوں میں اُڑس لی اور پھر چوڑی کشادہ سڑک کے ساتھ بنے فٹ پاتھ پر جس کے ساتھ بڑی بڑی دکانیں اور اسٹور بنے ہوئے تھے وہ خود کو قدرے گھسیٹ کر چلنے لگی ۔سڑک پر ٹریفک کا اژدحام تھا ،چارطرف سے آنے والی گاڑیاں، رکشے، موٹر سائیکلیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھے۔
خود کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہ دو رویہ سڑک کے کنارے پر آئی کیوں کہ اسے سڑک پار کر کے دوسری طرف جانا تھا۔ بیچ سڑک پر تیزی سے گزرتی موٹر سائیکلوں ،رکشوںاور گاڑیوں کا بے ہنگم شور سماعتوں پر خاصا گراں گزر رہا تھا ۔فٹ پاتھ سے روڈ پر قدم رکھتے ہی اس نے تیزی سے آتی جاتی گاڑیوں کی طرف دیکھا اور جیسے ہی تھوڑا فاصلہ محسوس کیا تو چپل گھسیٹتے ہوئے روڈ پر آگئی۔ اچانک اسی لمحے ایک تیز آتی ہو ئی موٹر سائیکل نے اسے زور سے ہٹ کیا اور وہ دور فٹ پاتھ سے ٹکراتی ہوئی منہ کے بل جاگری۔ دوسری سمت سے آتی ہوئی گاڑی نے اس کی ٹانگوں کو کچل ڈالا ۔ ٹوٹی ہو ئی چپل پائوں سے نکل کر کہیں دور جاپڑی اس نے بہ غور دیکھا۔ درد کی انتہاؤں میں اسے محسوس ہوا کہ شاید ٹوٹے ہوئے چپل اس کے ٹوٹے پھوٹے پاؤں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
افلاس کی بستی میں ذرا جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

یہ راہ مشکل نہیں — عائشہ احمد

Read Next

اللہ میاں جی — ضیاء اللہ محسن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!