”ایکس کیوزمی” ایک شناسا آواز اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لائی تھی۔
”جی ” اس نے نظریں اٹھا کے دیکھا تو چند لمحے اس اتفاق پر حیران رہ گئی۔ اوور آل پہنے گلے میں اسٹیتھو اسکوپ ڈالے، وہ پوری تمکنت کے ساتھ اس سے مخاطب تھا۔
” مجھے اُمید ہے تم بیٹھنے کے لیے نہیں کہو گی۔ اس لیے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھا ۔”
جتاتے ہوئے انداز میں وہ کرسی کھینچ کے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔
”ایک بار پھر تم مجھے اپنے سامنے دیکھ کے حیران ہو رہی ہوگی۔ نہ جانے قدرت کیا چاہتی ہے ایک بار پھر ہماری ملاقات نہ جانے کیا اشارہ ہے؟” پر سوچ انداز میں کہتا وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ شاید کھوجنے کی کوشش کر رہا تھا کہ گزرے ماہ وسال ارم میں کچھ تبدیلی لائے یا وہ آج بھی اردگرد سے بیپروا اپنی ذات کے خول میں سمٹ کر جینے والی ارم ہے۔
”آپ یہاں؟”’ارم نے اس کی بات کو ان سنا کر کے پوچھا۔
”F.C.P.S پارٹ ون کلیئر ہو گیا ہے ریذیڈنسی کر رہا ہوں ۔”
ارم کو دیکھتے ہوئے اس نے افسوس کے ساتھ سر کو ہلکا سا نفی میں ہلایا۔ وہ سمجھا تھا بیتے برسوں میں ارم کے دل پر جمی برف جو اسے کسی خاص احساس کے تحت سوچنے سے روکتی تھی، پگھل گئی ہوگی مگر وہ غلط تھا۔ یہ ارم آج بھی وہی تھی اپنی ریاست کی اکیلی ملکہ، جس کی رعایا تنہائی تھی۔ پتا نہیں یہ لڑکی اتنی مختلف کیوں تھی۔ ارم خوبصورت جذبات سے عاری تھی یا خدا نے اس کا دل عام انسانوں کے سانچے سے ہٹ کر بنایا تھا۔ ڈاکٹر علی رحمان کو ارم سے طوفانی عشق نہیں تھا بس وہ اسے پسند تھی اور اس کی پسند اکثر مختلف ہی ہوا کرتی تھی مگر یہاں اپنی پسند کو وہ خود ہی پسند نہیں تھا۔ کتنا انتظار کیا تھا اس نے ارم کے رابطہ کرنے کا مگر سب بے سود۔ اس لڑکی کے دل کی زمین حسین جذبات کی بہ جائے خشک مٹی سے بنی تھی، جو شاید پہلے بھی خشک تھی اور آج بھی۔
”تمہارا زیادہ ٹائم نہیں لو ںگا۔ آج ایک بار پھر اپنا وہی تین برس پہلے والا سوال دہراوؑں گا مگر آج تمہیں اپنا کانٹیکٹ نمبر نہیں دوں گا اگر تمہارے دل کی حساسیت جاگ جائے تو مجھے یہیں اپنی رضامندی کا پروانہ تھما دینا۔”
ارم کو اپنی کلائی پر بندھی گھڑی بار بار دیکھتے دیکھ کے اس نے دکھ سے کہا اور اُٹھ گیا۔
ارم ناگواری سے ناک سکوڑ کر اس شخص کو دور جاتے دیکھتی رہی پھر خود بھی اپنا ہینڈ بیگ اور موبائل اُٹھائے واپس او پی ڈی میں چلی گئی۔ تمام تر سوچوں کو جھٹکتے ہوئے وہ ایک بار پھر رنگ بہ رنگ فائلز سے کھیلنے لگی۔ اسے یہ کام بڑے مزے کا لگتا تھا مگر اس نے باقاعدہ فیلڈ کے طور پر سرجری کو چُنا تھا۔
***************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مدھم روشنی میں آنکھیں بند کیے وہ بیڈ پہ نیم دراز تھی۔
”ارم” ماما کی آواز پہ اس نے آنکھیں کھولیں اور اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔
”کیا حال بنایا ہوا ہے کچھ دیر آرام بھی کر لیا کرو۔”ممتا بھرے لہجے میں ماریہ بیگم نے کہا اور پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔
”ماما بس کچھ مہینوں کی بات ہے میرا M.D.S مکمل ہو جائے گا تو پھر آرام ہی آرام۔”لاڈ سے اس نے ماں کے کندھے پر سر ٹکا دیا ۔
”M.D.S کے بعد بھی آرام اتنا نہیں ملنا تمہیں ۔”
”میں نے اور اعجاز نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم تمہاری پڑھائی ختم ہوتے ہی تمہاری شادی کرادیں گے۔ تمہیں دلہن بنے دیکھنے کا کتنا ارمان ہے ہم دونوں کو۔”پیار سے اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا۔
”ماما بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی فی الحال ایک اچھی سی کافی بھجوادیں۔ ”اس نے بے زاری سے کہا۔ ماریہ بیگم نے کچھ کہنا چاہا مگر پھر خاموش ہو گئیں۔
اس کی پیشانی پہ ایک اور بوسہ دے کر اٹھ گئی۔ یہ مائیں بھی نہ اولاد پہ اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔
***************
بوریت سے بے زار ہونے پر اس نے ڈسکوری چینل لگا لیا۔ آج کل وہ گھر پر تھی۔ ایک دو پرائیویٹ کالج میں اپلائی کر رکھا تھا، جس کے جواب کے انتظار میں اس کے دن سخت بوریت میں گزر رہے تھے ۔
”یہ لو گرما گرم پکوڑے کھاوؑ خاص تمہارے لیے بنائے ہیں ۔”
میز پر اس کے سامنے ٹرے رکھتے ہوئے ماریہ بیگم خود بھی اس کے برابر بیٹھ گئیں۔
سیاہ بادلوں سے برستے پانی نے سب کچھ جل تھل کر رکھا تھا ایسے موسم میں گرما گرم چائے اور ساتھ میں پکوڑے ہوں تو بوریت کیوں کر نہ بھاگے۔ ارم چائے کے ساتھ پکوڑوں کا لطف لیتے ہوئے بادلوں کو برستا دیکھنے لگی۔
”ارم تمہارے لیے تین رشتے آئے ہیں، تینوں ہی معقول ہیں مجھے اور تمہارے پاپا کو تینوں ہی اچھے لگے ہیں لیکن فیصلہ تم نے کرنا ہے۔ آرام سے سوچ سمجھ کر ہمیں بتا دوکیوںکہ تمہاری رائے ہمارے لیے اہم ہے۔ تم پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں ہے ۔” ماریہ بیگم نے دھیمے لہجے میں کہا آنکھوں میں وہی خاص ممتا کا رنگ تھا۔
”ماما مجھے آپ لوگوں کے فیصلے پہ بھروسہ ہے، جو سب سے اچھا ہو گا آپ وہی پسند کریں گے نا میرے لیے۔” پیار سے ماں کا ہاتھ تھام کے اس نے کہا ۔
”ارم ہم چاہتے ہیں زندگی کا یہ اہم فیصلہ تم خود کرو۔ تینوں رشتے ہمیں پسند ہیں تمہیں انتخاب کا حق ہے کہ تم ان میں سے کسے منتخب کرتی ہو۔ لڑکوں کی تصویریں مع ضروری معلومات تمہارے سائیڈ ٹیبل پہ رکھوادی ہیں۔ اُمید ہے جلد ہمیں مثبت جواب دوگی ۔”
ماریہ نے پیارے سے کہا اور نماز پڑھنے اُٹھ گئیں۔
ارم کمرے میں واپسی پر وہ تصویریں اور معلومات دیکھنے لگی۔ ایک تصویر دیکھ کے وہ چونکی تھی اس سے متعلق معلومات پہ نگاہ ڈال کے نچلا ہونٹ دبائے وہ بہت کچھ سوچنے لگی۔ وقت ایک نہ دن ایک دن اس کا خول توڑ ہی دیتا تو کیوں نہ وہ خود اس خول سے باہر نکل آئے۔ اپنی بنائی ریاست سے باہر نکل کے نئی ریاست میں قدم رکھے جہاں کی وہ ملکہ تو ہوگی لیکن رعایا تنہائی نہیں بلکہ خوشی کے دیپ ہوں گے، اُمید کے چراغ ہوں گے اور خوشیاں ہوں گی۔
***************
بڑی سڑک پر، سنگِ مرمر سے بنے اس خوب صورت گھر کو دیکھ کے راہ گیر داد دیئے بغیر آگے نہ بڑھ پاتے تھے۔
چاند، تاروں کے ہمراہ، سیاہ رات میں بھی اس اُجلے گھر کو مزید روشن کیے ہوئے تھا۔ لان میں لگے پھولوں نے اپنی دل فریب خوشبو سے ماحول کو معطر کیا ہوا تھا۔
سجاوٹ گھر کے مکینوں کے اعلی ذوق کا پتا دیتی تھی۔ کچن کے بائیں جانب ایک شیلف پر چند شیلڈز سجی تھیں، جو نووارد کو پہلی نگاہ میں ہی متاثر کرتیں۔ درمیانی میز پر خوب صورت سفید پیالیاں دھری تھیں جن پر بڑی بڑی عبارت میں Mr Right اور Mrs Always Right لکھا تھا۔
ڈائننگ ہال کے بائیں طرف بنے جدید طرز کے کچن میں ایپرن پہنے اپنے بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اُڑسے، فرائنگ پین میں سبزیوں کو فرائی کرتے وہ ایک ماہر شیف لگ رہی تھی ۔
”زینی cmon pack your bag, dinner is ready”
بیٹی کو اس نے کچن سے انگریزی میں ہدایات دیں، جسے چھوٹی سی پونی ٹیل بنائے پنک فراک پہنے زینی نام کی اس پری نے بڑے احترام سے مانتے ہوئے اپنا سکول بیگ پیک کیا اور چھوٹے دوسالہ بھائی زیان کے کھلونے سمیٹنے لگی ۔
”ویل ڈن سویٹی” بیٹی کو بڑوں کی طرح کمرا سمیٹتے دیکھ کر ڈاکٹر علی نے ستائشی انداز میں کہا۔
”السلام علیکم ڈیڈی ”باپ کو دیکھ کے زینی خوشی سے اس کی جانب لپکی۔ چھوٹے زیان نے بھی بہن کی تقلید کی اور توتلی زبان میں باپ کو سلام کیا۔ آکسفورڈ میں رہنے کے باوجود ارم اور علی نے اپنے بچوں کی تربیت مشرقی انداز میں کی تھی۔ ماحول کا اثر اور مشرقی تربیت نے بچوں کو مشرق ومغرب دونوں آداب سے آشنا کرا دیا تھا ۔
علی دونوں بچوں کو لیے ڈائننگ ٹیبل کی طرف آگیا۔ کرسی کھینچ کے اس نے اپنے دائیں جانب کرسی پہ زیان کو بٹھایا، جب کہ زینی کرسی کھینچ کے جلدی سے باپ کی بائیں جانب بیٹھ گئی ۔
”یہ لیجئے جناب۔”
ارم نے پُرجوش انداز میں ٹیبل پہ کوفتے اور پاستہ کا پیالہ رکھتے ہوئے کہا ۔
”ارم ویسے تمہیں اس طرح دیکھ کے کوئی یقین نہیں کرے گاکہ جو ڈاکٹر صاحبہ دن میں لوگوں کے منہ اور دانتوں کا علاج بڑی مہارت سے کرتی ہیں وہ رات میں اپنے شوہر اور بچوں کو لذیذ کھانے کھلا کھلا کر دن بہ دن موٹا کر رہی ہیں۔”علی نے بیٹے کی پلیٹ میں پاستہ نکالتے ہوئے شرارت سے کہا۔
”ڈاکٹر علی مت کھایا کریں آپ میرے ہاتھ کا کھانا۔”ارم نے مصنوعی خفگی سے ناک پھلا کے کہا:
”قسم سے جب تم ڈاکٹر علی کہہ کے پکارتی ہو ناں تو اتنا پیار آتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ۔۔۔”
معنی خیزانداز سے کہتے ہوئے اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ برابر میں بیٹھی زینی کی اُردو بہت اچھی تھی اور وہ ہمارے درمیان ہونے والی گفت گو کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔
”شش” ارم نے اسے گھرکا ۔
”ویسے یہ بتاوؑ کہ تم ایم۔بی۔بی۔ایس سے پہلے ہی خود کو ڈاکٹر علی کیوں کہلواتے تھے ؟”آج اچانک یاد آنے پر ارم نے شرارت سے پوچھا ۔
”بھئی جس چیز کی کثرت کی جائے وہ ہو جاتی ہے اور سچ ہے اگر سب مجھے ڈاکٹر علی، ڈاکٹر علی کہہ کر نہ بلاتے اور آپ وہ دعا مجھے نہ بتاتیں تو میں آج ڈاکٹر علی نہیں بلکہ کمپوڈر علی ہوتا۔”علی نے شوخی سے جواب دیا ارم بے ساختہ ہنستی چلی گئی۔
”ویسے میں نے تمہارے رزلٹ کے لیے بہت دعائیں کی تھیں”ارم نے مسکرا کے بتایا۔
”شکر ہے آج شادی کے چھے سال بعد اعتراف محبت تو ہوا۔” علی نے ہنس کے کہا ۔
”اعتراف محبت!!!” ارم نے حیرانی سے پوچھا: ”بھئی اگر تمہیں مجھ سے محبت نہ ہوتی تو دعائیں کیوں کرتیں اور میرا پرپوزل کیوں قبول کرتیں ۔”
”وہ تو میں نے تم بے چارے پر ترس کھا لیا تھا۔” ارم نے شان بے نیازی سے کہا۔
” اچھا! ترس!!” علی نے آنکھیں سکوڑیں۔
ارم کا قہقہہ اُبھرا، علی نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔ دونوں بچے کھانے کے ساتھ ساتھ اماں ابا کی نوک جھونک سے بھی محظوظ ہو رہے تھے ۔
محبت پیار اور خلوص سے گندھا یہ ایک مکمل گھرانہ تھا۔
***************
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});