دروازہ بند ہونے کی آواز نے ماحول میں خلل پیدا کیا تھا تو قدموں کی چاپ نے باقی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ محویت سے کتابوں کو گھورتے بہت سارے اسٹوڈنٹس کی گردنیں اوپر اٹھیں۔ کئی ایک نے ناگواری سے اس نووارد کو گھورا بھی تھا۔ کرسی کھسکانے کی زوردارآواز نے کتابی کیڑوں کی قرطاس پر سے ایک بار پھر توجہ ہٹائی تھی۔ یہ عظیم جرم کرنے والا بے پروائی سے اپنے آگے جنرل میڈیسن کی کتاب کھول کے بیٹھ گیا۔ پانچ منٹ میں دس صفحے پلٹنے کے بعد اس کی چوڑی پیشانی پر چند شکنیں نمودار ہوئیں ۔لمبی سانس خارج کرتے ہوئے بڑی بے زاریت سے اپنے اِرد گرد دنیا ومافیہا سے گم اسٹوڈنٹس کو تکنے لگا۔ دائیں طرف ایک ٹیبل پر اس کی نگاہیں ٹھہر گئیں، بھوری آنکھیں اچانک خوشی سے چمکنے لگیں۔ چند لمحے سوچنے کے بعد وہ کرسی کھسکاتا ہوا اُٹھا، اِرد گرد کے لوگوں کی غصے بھری نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ چندقدم کا فاصلہ طے کر کے عین اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
علم الادویہ کی کتاب میں میڈیسن کے کیمیائی فارمولوں میں ڈوبی وہ یہ بھی نوٹ نہ کر پائی کہ کوئی عین اس کے سامنے آ براجمان ہوا ہے۔
”ایکسیوزمی میم ”
Acetoaminophineپیراسیٹامول کے اثرات پر غور کرتی ارم چونکی تھی ۔
”جی آپ کون ؟” سیاہ فریم والی عینک کے پیچھے سے گھورتے ہوئے اس نے ناگواری سے پوچھا۔
”مجھے آپ سے ایک فیور چاہیے۔” اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے علی نے کہا : ”جی میری فیور!!” وہ اجنبی کی بات سُن کر کافی حیران ہوئی تھی ۔
”ہوں”انصاری صاحب، لائبریری انچارج اپنے کیبن میں غصے سے ہنکارے ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سائلنٹ لائبریری کے اصول کے مطابق پین گرنے کی آواز بھی جرم تھی مگر ڈاکٹر علی من موجی تھے۔ ان کی موجودگی میں لائبریری میں خاموشی بن آب بارش کے مترادف تھی۔ اس لیے انصاری صاحب نے محض ہنکارا بھرنے پر ہی اکتفا کیا تھا، زیادہ سختی کرتے تو ڈاکٹر علی کے دیے چائے پانی کے پیسوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔
”میم میں آپ کو ایک ہفتے سے روز یہاں دیکھ رہا ہوں۔ غالباً آپ کے امتحانات ہو رہے ہیں۔ دس بجے آپ کا پیپر شروع ہوتاہے۔ پیپر کے لیے جانے سے پہلے آپ ایک دعا پڑھتی ہیں۔ وہ دعا مجھے بتادیں پلیز مجھے بھی اس کی سخت ضرورت ہے۔ ”کسی جاسوس کی طرح ساری معلومات اُگلنے کے بعد آخر میں اس نے معصومیت سے التجا کی ۔
ارم اُس کی معلومات پر دنگ رہ گئی کہ وہ شخص کب سے اس کی حرکات وسکنات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھاجب کہ وہ یکسر لا علم تھی۔ جھنجلاہٹ کے عالم میں ارم نے اپنی نوٹ بک نکالی اور اسے دعا نوٹ کرائی اور پھر اپنی کتابیں سمیٹ کر اٹھنے لگی ۔
”میم یہ دعا کتنی دفعہ اورکب پڑھنی ہے؟”گلابی دوپٹے کے ہالے میں معصوم چہرے کو دیکھتے ہو ئے اس نے مؤد بانہ انداز میں پوچھا ۔
”پیپر دینے جا رہے ہوں تو اس وقت سات بار پڑھ لیجیے گا” جواب دینے کہ بعد وہ جانے کے لیے مڑی ۔
”ارم جی میں آپ کا سینئر ہوں ایم بی بی ایس فورتھ ائیر میں ہوں۔ پیر سے میرے پیپرز شروع ہو رہیہیں پلیز دعا کیجیے گا۔” آواز پر ارم کے بڑھتے قدم رک گئے تھے۔ اس نے مڑ کے حیرانی سے دیکھا ”اس شخص کو میرا نام کیسے پتا چلا؟” ارم نے دل میں سوچا ۔
” نوٹ بک پر آپ کا نام لکھا ہے” شاید یہ شخص سوچ پڑھنے کا ماہر تھا۔ ارم کے ہاتھ میں موجود نوٹ بک کی طرف،اشارہ کر کے الوادعی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ گیا ۔
ارم چند لمحے اس عجیب وغریب سے شخص کے بارے میں سوچتی رہی پھر تمام سوچیں ایک جانب جھٹک کے pharma کا پیپر دینے امتحانی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
***************
دن بیتتے گئے، وقت سِرکتا رہا۔ دن شام میں ، شام رات میں اور رات صبح میں بدلتی رہی۔ کئی موسم آئے بہار میں پھول کھلے، خزاں میں پتوں نے اپنی شاخیں چھوڑیں، سردیوں میں سرد ہواوؑں نے ابن آدم کو اپنی لپیٹ میں رکھا۔ موسم گرما میں لوگ ٹھنڈے سائے تلاش کرتے رہے، یوں دو برس بیت گئے۔ ان دو برسوں میں بدلتے موسم کے ساتھ ساتھ ارم اور علی کے مضامین اور کلاسز بھی بدلتی رہیں۔
ارم اب حقیقتاً ڈاکٹر ارم بن گئی تھی اور لوگوں کے دانتوں پہ اپنے ہاتھ صاف کرنے لگی تھی۔
”سارہ آج بہت گرمی ہے میں کچھ دیر لائبریری جا رہی ہوں”پیشانی پہ آئے پسینے کو ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے وہ اپنا موبائل اور بیگ اٹھائے او پی ڈی سے نکل گئی ۔
ابھی وہ پہلی منزل پر ہی تھی کہ اچانک اس کی ٹکر ایک فولادی شخص سے ہو گئی۔ اپنا سر تھامے اس نے مقابل کو گھورا۔ بدقسمتی سے سامنے وہی ڈاکٹر ”اوّل جلول” تھا ڈاکٹر علی کو ارم نے ہی اس خاص نام سے نوازا تھا ۔
”ارے واہ تم یہاں!!کیسی ہو؟” ارم کے غصے سے قطع نظر اس نے بشاشت سے پوچھا ۔
”ٹھیک ہوں”اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ سے دباتے ہوئے ارم نے چبا چبا کے جواب دیا ۔
”میں تمہاری او پی ڈی سے ہی آ رہا تھا” اس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
”اللہ خیر یہ شخص او پی ڈی کیوں آ رہا تھا؟”
”خیر ہی ہے بس مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی تھی”اس سے پہلے کہ ارم اس کے بارے میں مزید کچھ سوچتی وہ بول پڑا۔آج بہت عرصے بعد دونوں کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ لائبریری والے واقعے کے بعد ایک آدھ بار علی نے ہی اسے آتے جاتے ہیلو ہائے کیا تھا مگر آج وہ شخص صرف ہیلو ہائے نہیں بلکہ تفصیلاً بات کے موڈ میں تھا ۔
”یہاں سیڑھیوں پہ کھڑے بات کرنا مناسب نہیں لگتا۔ اگر تم مائنڈ نا کرو تو ہم نیچے چل کے بات کر سکتے ہیں؟”اس نے ارم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو ارم نے سر کو ہلکے سے جنبش دے کر رضامندی ظاہر کی۔ اسے یقین تھا کوئی راہ ِفرار نہیں جب تک کہ وہ اس شخص کی بات سن نہ لے۔
آگے پیچھے دونوں سیڑھیاں اُترتے نیچے آگئے۔ علی نے بنچ پر بیٹھتے ہوئے ارم کو پہلے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
”جی بولیے کیا کہنا تھا آپ کو؟”ارم نے اس کے اشارے کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ۔
کچھ لمحے توقف کے بعد اس نے بولنا شروع کیا، شاید وہ مناسب لفظ ترتیب دے رہا تھا:
”ارم مجھے معلوم ہے میں تم سے جو کہوں گا وہ تمہارے لیے حیرانی کا باعث ہو گاکیوںکہ میں تمہیں زیادہ نہیں جانتا ناہی تم مجھے جانتی ہو۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔میرا ہاؤس جاب مکمل ہو چکا ہے اور میں کئی جگہ جاب کے لیے اپلائی بھی کر رکھا ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کروں۔ اس لیے یہ بات کہنے کے لیے تمہارا وقت لیا۔”اپنی بات کہنے کے بعد وہ سامنے حیران وپریشان کھڑی ارم کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کرنے لگا جب کے ارم اپنی جگہ حیران کھڑی تھی۔ پرپوز کرنے کا یہ نیا طریقہ وہ آج دیکھ رہی تھی ۔
”میں جانتا ہوں یہ ایک بہت ہی اہم فیصلہ ہے میں تمہیں اپنا نمبر دے رہا ہوں۔ تمہارا دل اگر میری سچائی کی گواہی دے تو رابطہ کر لینا”چٹ اس کی طرف بڑھاتا ہوا وہ بینچ سے اٹھ گیا ”میری اچھی جگہ جاب کے لیے دعا کرنا” اللہ حافظ کہہ کے وہ رکا نہیں بلکہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہسپتال کا خارجی دروازہ عبور کر گیا ۔
ارم کچھ دیر کھڑی اس عجیب شخص کو سوچتی رہی۔ قریب سے گزرتے لوگوں کیآوازوں پر وہ سوچوں کی دنیا سے حال میں لوٹی تھی۔
ہاتھ میں پکڑی چٹ ڈسٹ بن میں پھینک کے وہ سر جھٹکتی لائبریری کی طرف بڑھ گئی۔ اس نے اپنی زندگی میں شادی کے علاوہ سب کچھ سوچا تھا۔اُسے ابھی اپنے شعبے میں اپنا نام بنانا تھا، شادی اس کی ترجیحات کی فہرست میں کہیں آخر پر تھی۔
***************
اس کی سادہ لیکن پُرکشش شخصیت ارد گرد کے لوگوں کو لمحے بھر کے لیے ٹھٹھک کر دیکھنے پہ مجبور کر دیتی تھی، وہ اپنے حسن سے بے نیاز لبوں پر دل فریب مسکراہٹ سجائے کبھی روٹ کینال جیسا مشکل کام کر تی تو کبھی عقل ڈاڑھیں نکال کے اک فاتح مسکراہٹ کے ساتھ ماضی کی ڈری سہمی ارم کو باور کراتی ”اگر حوصلے اور عزم بلند ہوں تو سب کچھ ممکن ہے۔”
ٹراما وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران وہ کچھ اداس سی رہتی لیکن ساتھ ساتھ اورل سرجری کی فیلڈ میں اس کی دلچسپی بڑھتی گئی۔
”پھر بیٹا جی آگے کے کیا ارادے ہیں؟” ناشتے کی میز پر اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد عینک ایک طرف رکھتے ہوئے بابا نے پوچھا۔
”بابا مجھے اورل سرجری کا شعبہ پسندہے۔” اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں مسکراتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔
”گڈ ہاوؑس جاب تو تقریباً مکمل ہونے والی ہے آپ کی پھر کیا سوچا؟ ”
بابا کی توجہ اب مکمل ارم کی جانب تھی ۔
”میں کنفیوز ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہا اورل سرجری کے میدان میں F.C.P.S کے ذریعے قدم رکھوں یا پھر M.D.S کروں ۔”
اُس نے پر سوچ انداز میں اپنی الجھن بابا کے گوش گزار کی۔
”بیٹا اس بارے میں تو آپ کی فیلڈ کا کوئی فرد ہی بہتر طور پر گائیڈ کر سکتا ہے۔ آپ اپنے کسی سینئر سے ڈسکس کریں، باقی جو آپ کا فیصلہ ہوگا ہمیں بہ خوشی منظورہوگا”بابا نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
”تھینک یو بابا میں جلد ہی فیصلہ کر کے آپ کو بتاتی ہوں۔” جوس کا آخری گھونٹ لیتے اس نے بابا کا پر شفقت ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا ۔
بیٹیاں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو جائیں باپ کے لیے وہ ہمیشہ چھوٹی سی گڑیا ہی رہتی ہیں ۔
”بابا میں چلتی ہوں ڈیوٹی آورز شروع ہونے والے ہیں اللہ حافظ ۔”
ماما اور بابا کی دعاوؑں اور محبت کے سائے میں وہ اسپتال روانہ ہو گئی۔ ارم نے اپنے کالج سے منسلک اسپتال میں کام کرنے کی بجائے گورنمنٹ سیٹ اپ کو ترجیح دی تھی۔
مصروف دن کے بعد چند لمحے سکون کے میسر آئے تو وہ چائے پینے کیفے چلی آئی۔
ہاوؑس جاب کے بعد اس نے اسی اسپتال میں ہی ملازمت شروع کر دی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ M.D.S کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری بھی کر رہی تھی زندگی اتنی مصروف ہو گئی تھی کہ جو چند لمحے اسے تنہائی اور سکون کے میسر آتے اس میں بھی اس کی سوچیں ڈاؤ میڈیکل کی عمارت میں گھومتی رہتیں، پتا نہیں اس کا ایڈمیشن ہوگا کہ نہیں؟ کہیں اسے ایم ۔ایس سی نہ کرنا پڑ جائے۔ آج ایک بار پھر سوچوں کا محور M.D.S اور ڈاوؑ میڈیکل تھا ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});