نیا قانون — سعادت حسن منٹو

استاد منگو موجودہ سوویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے روس والے بادشاہ ’’کو انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا۔ اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں۔ وہ انھیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جا رہی تھی۔ منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’روس والے بادشاہ‘ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سنتاکہ فلاں شہر میں بم ساز پکڑے گئے ہیں۔ یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔ تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا ان میں سے ایک، دوسرے سے کہہ رہا تھا، ’’جدید آئین کا دوسرا حصّہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آسکا۔ فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سنی نہ دیکھی گئی۔ سیاسی نظریہ سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘
ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے۔ اس لیے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے کہا، ’’یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو برا سمجھتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔‘‘ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا، ’’ٹو ڈی بچے!‘‘
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خوش ہوتا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ کی تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلبا کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جا رہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا، ’’نئے آئین نے میری امیدیں بڑھا دی ہیں اگر۔۔۔ صاحب اسمبلی کے ممبر ہو گئے۔ تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی۔‘‘
’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔ شاید اسی گڑبڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آ جائے۔‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘
’’وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو کمی ہو گی۔‘‘
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی۔ وہ اس کو ایسی ’چیز‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔ ’نیا قانون۔۔۔!‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا، یعنی کوئی ’نئی چیز!‘ اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ ساز آ جاتا۔ جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا۔ جگہ جگہ لوہے کی نِکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’نئے قانون‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا۔ بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہو گئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا۔ اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جاکر گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی۔۔۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس نے صبح کے سرد دھندلکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا۔ مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں۔ مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی۔ اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھی۔ اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں یکم مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنہ میں خریدی تھی۔
گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔ ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
’’ابھی بہت سویرا ہے دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا، ’’ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘
جب اس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا۔ تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبا کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے مَیلے مَیلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی، کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انار کلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں۔اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھی۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔۔۔ وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری سے گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا مگر وہ نتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیرِ اثر اس نے کئی بار اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس پڑا تھا، ’’تو ہر وقت مردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اُٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچّہ جن دے گی؟‘‘
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا خواہش مند تھا بلکہ متجسّس تھا۔ اس کی بیوی گنگا دیوی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی، ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور پیاس سے نڈھال ہو رہے ہو۔‘‘
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بیقرار نہیں تھا۔ جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا کرتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ اُستاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہوتو استاد منگو کے نزدیک، وہ بڑا آدمی تھا۔ اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں۔ تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انار کلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا۔ اور دل میں خیال کیا، ’’چلو یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔ شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے۔‘‘
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتار دیا۔ اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا۔ اور پچھلی نشست کے گدّے پر بیٹھ گیا۔۔۔ جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی۔ یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا۔ تو وہ عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد بڑی دھیمی چال چلنا شروع کر دیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔
گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سست تھی۔ جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا۔ اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہو رہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا۔ وہ اس قابل غور بات کو آئینِ جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے سڑک کے اس طرف دُور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’’گورا‘‘ کھڑا نظر آیا۔ جو اسے ہاتھ سے بلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے استاد منگو کو گوروں سے بیحد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہو گئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا ان کے پیسے چھوڑنا بھی بیوقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دئے ہیں، ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں۔ چلو چلتے ہیں۔
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگا موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا، ’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘ اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا، صاحب بہادر کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھنچ گیا۔ اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آ رہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہو گئی، گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا، اور اپنے اندر اس نے اس ’’گورے‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب ’’گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رخ بچا کر سگرٹ سُلگا رہا تھا مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں۔ اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اُترنے والا تھا۔ اپنے سامنے کھڑے ’گورے‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرّے ذرّے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے۔ اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے، گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا، ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘
’’وہی ہے‘‘ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئےاور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہو گیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی، اور اس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی۔ اسے طوعا کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اڑا دئیے ہوتے، مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا، ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘ استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔ گورے نے جواب دیا۔ ’’ہیرا منڈی۔‘‘
’’کرایہ پانچ روپے ہو گا‘‘۔ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہو گیا۔ وہ چلاّیا۔ ’’پانچ روپے۔ کیا تم۔۔۔؟‘‘
’’ہاں، ہاں، پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ ’’کیوں جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘ استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔
گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اوپر کو اٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹھایا۔ اور نیچے اتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔
ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی۔ اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے۔ اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں۔ تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا، ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ!‘‘
لوگ جمع ہو گئے۔ اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا اس کی چوڑی چھاتی پھولی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔‘‘
’’وہ دن گزر گئے۔ جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔۔۔ اب نیا قانون ہے میاں۔۔۔ نیا قانون!‘‘
اور بیچارا گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون نیا قانون‘‘ چلاّتا رہا۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
’’نیا قانون، نیا قانون۔ کیا بک رہے ہو۔۔۔ قانون وہی ہے پرانا!‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا!

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!