نیا قانون — سعادت حسن منٹو

منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے، استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی، ’’دیکھ لینا گاما چودھری، تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا تھاکہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا، ’’ولایت میں اور کہاں؟‘‘
اسپین کی جنگ چھڑی۔ اور جب ہرشخص کو پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حقہ پی رہے تھےدل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کر رہے تھے۔ اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلاتے ہوئے کسی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلہ خیال کر رہا تھا۔

اس روز شام کے قریب جب وہ اڈے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حقے کا دور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نےسر پر سے خاکی پگڑی اتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا، ’’یہ کسی پیر کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو، چھریاں چلتی رہتی ہیں۔ اور میں نے اپنے بڑوں سے سناہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا۔ اور اس درویش نے جل کر یہ بددعا دی تھی، ’جا، تیرے ہندستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے‘ اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ اور پھر حقّے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی، ’’یہ کانگرسی ہندستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہو گا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہو گی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آجائے گا۔ یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے۔ لیکن ہندستان سدا غلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بددعا بھی دی تھی کہ ہندستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی۔ اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ ہندستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں۔ اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔ مگر اس کے تنّفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ وسپید چہرے کو دیکھتا تو اُسے متلی آ جاتی۔ نہ معلوم کیوں وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مکّدر رہتی۔ اور وہ شام کو اڈے میں آکر ہل مارکہ سگرٹ پیتے یا حُقے کے کش لگاتے ہوئے اس ’گورے‘ کو جی بھر کر سنایا کرتا۔ ’’۔۔۔‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا، ’’آگ لینے آئے تھے۔ اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے۔ یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں ۔‘‘
اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا وہ اپنے سینے کی آگ اگلتا رہتا، ’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی۔۔۔ جیسے کوڑھ ہو رہا ہے۔۔۔ بالکل مردار، ایک دھپّے کی مار اور گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعون کی کھوپڑی کے پرزے اڑا دوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا۔ اور ناک کو خاکی قمیص سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑبڑانے لگ جاتا، ’’قسم ہے بھگوان کی ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آ گیا ہوں۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم جان میں جان آ جائے۔‘‘
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
دو مارواڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے، ’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔ یا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘
’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی۔ مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندستانیوں کو آزادی مل جائے گی؟‘‘
’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘
’’یہ پوچھنے کی بات ہے کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘ ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا۔ اور چابک سے بہت بری طرح پیٹا کرتا تھا۔ مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا۔ اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کرکے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا، ’’چل بیٹا۔۔۔ ذرا ہوا سے باتیں کرکے دکھا دے۔‘‘
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسّی پی کر ایک بڑی ڈکار لی۔اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا، ’’ہت تیری ایسی تیسی۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلافِ معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہو گیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا۔۔۔ بہت بڑی خبر، اور اس خبر کو اپنے اندر سے نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہو رہا تھا لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بیقراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آ رہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لاکر کھڑا کر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندستان میں نافذ ہونے والا تھا اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کرکے غورو فکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا۔ اور اس کے تمام جسم میں مسّرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے مارواڑیوں کو گالی دی۔۔۔ ’’غریبوں کی کھٹیا میں گُھسے ہوئے کھٹمل۔۔۔ نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہو گا۔‘‘
وہ بے حد مسرور تھا، خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں۔۔۔ سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بلوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گی۔
جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا، ’’لا ہاتھ ادھر۔۔۔ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔۔۔ تیری اس گنجی کھوپری پر بال اگ آئیں۔‘‘ اور یہ کہہ کر منگو نے بڑےمزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں۔ دورانِ گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا، ’’تو دیکھتا رہ، کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (تیسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

محبوب چہرہ — محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!