نوشتہ تقدیر — حاجرہ عمران خان

دنیاکی بڑی بڑی طاقتیں سر جوڑے ایک میز کے گرد جمع تھیں۔ ان کا ایجنڈا ”شام” تھا۔
دنیا میں کسی کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ شام میں جابر حکمران کے عنان کے پیچھے کون تھا… امریکا کی شہ پر ہی ایک درندہ ان سب کی زندگیوں کا مالک بن بیٹھا تھا۔ بڑی قوتوں کا ایجنڈا یہ نہیں تھا کہ ایک جابر آمر سے کس طرح اہلِ شام کی جان چھڑا ئی جا ئے بلکہ ان کا ایجنڈا تھا کہ کسی بھی طرح اس غیر فطری دورِ حکومت کو طول دیا جائے۔ بہر حال وہ دنیا کے اس اہم خطّے کو اپنے ہاتھ سے ایسے ہی جانے نہیں دے سکتے تھے۔ بشارالاسد ان کی کٹھ پتلی تھا، ان کے اشار وں پر ناچنے والی کٹھ پتلی، ان طاقتوں کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس سر زمین کے باشندے تھے۔ انہیں اپنی راہ سے ہٹانا اب مشکل سا لگ رہا تھا۔ آخر ایک طویل ملاقات کے بعد فیصلہ کر لیا گیا، اہل شام کی قسمت کا فیصلہ سرزمینِ شام کو خانہ جنگی کے نام پر جنگ میں جھونک دیا گیا۔ یہ کام ایسا مشکل بھی نہیں تھا اور نہ ہی ایسا نا ممکن کہ جو پہلے کبھی کیا نہ جا سکا ہو۔ ایسی سازشیں عالمی طاقتوں خاص کر کے امریکا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں۔
٭…٭…٭
یہ اس کی تباہ شدہ بستی سے بہت دور اشرافیہ کا محلہ تھا۔ وہ ایک بہت اعلیٰ اور بلند مکان کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے حسرت اور امید کے ساتھ مکان کے شان دار اور منقش دروازے کو دیکھا اور سوچا۔
”شاید مجھے اور میرے بچوں کو کھانے کے لیے کچھ مل جائے۔” زینب نے بھوک اور پیاس سے نڈھال اپنے بچوں کو دیکھا ، بیٹی کو گود سے اتارا اور بیٹے سے انگلی چھڑا کر انہیں دروازے کے ایک طرف بٹھا دیا اور خود بے چینی سے دروازہ کھٹکھٹایا، اسی اثنا میں اس نے آسمان پر کچھ گدھ پرواز کرتے ہو ئے دیکھے، زینب نے گھبرا کر بچوں کو اپنے کمزور با زوؤں میں چھپانے کی نا کام کوشش کی۔ اسے گدھ برادری سے ہمیشہ نفرت رہی تھی، ان کی چونچ، بھاری جسم کی عجیب ہیئت اور آنکھوں کا کمینہ پن اس کے دل کو نفرت سے بھر دیتا تھا۔ اپنی بستی سے نکلتے ہو ئے اس نے ان گدھوں کو بستی پر منڈلاتے دیکھا تھااور آج ایک بار پھر وہ انہیں دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی تھی۔ دروازہ بے حد بے زاری سے کھولا گیا، کیوں کہ دروازہ کھلتے ہی ایک بے زار سی آواز سنا ئی دی تھی۔
”کون ہے اس وقت ؟”
زینب کا حوصلہ ٹوٹنے لگا۔ روٹی کے چند ٹکڑے مانگنے کے لیے اس نے جتنے الفاظ جمع کیے تھے وہ سب ذہن سے پھسل کر اِدھر اُدھر بکھرنے لگے، بہ مشکل اپنے باختہ حواس مجتمع کرتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں آہستہ سا بولی: ”روٹی ملے گی۔”
سننے والے نے سمجھ لینے کے باوجود چلا کر پوچھا:
”کیا؟” اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ بھری دوپہر میں اسے ٹھنڈے کمرے سے صرف ”روٹی” کی خاطر بلایا گیا ہے۔
”ہمیں روٹی، روٹی ملے گی ؟ تین دن سے میرے بچوں نے روٹی نہیں کھائی۔ ”زینب کا دل چاہا وہ اپنی عزتِ نفس کا آنچل سمیٹے اور وہاں سے چلتی بنے مگر پھر نظریں بچوں کے معصوم چہروں پر مر تکز کر دیں کہ کہیں خودداری و عزت نفس دامن نہ تھامنے لگیں۔” دوسری طرف سفاکانہ اور حقارت سے گھور تا ہوا شخص اچا نک مسکرانے لگا۔
”بدلے میں کیا دو گی؟” اس نے دانت نکوسے۔
”کیا مطلب؟” زینب نے نا سمجھی سے اس کا منہ دیکھا جہاں اس کی نظروں سے ٹپکتی ہوس نے زینب کو چونکا دیا۔ زینب نے شاید زندگی میں اس سے زیادہ غلیظ نظریں نہیں دیکھی تھیں جو اس کو کسی دکان پر لٹکے ہو ئے گوشت کی طرح ٹٹول رہی تھیں اور ایسے گھٹیا الفاظ نہیں سُنے تھے جو کانوں میں سیسہ بن کر انڈیل دیے گئے ہوں۔ زینب نے آسمان پر نظریں دوڑائیں۔
”کیا دیکھ رہی ہو ؟ اپنا خدا ڈھونڈ رہی ہو؟” طنز کا نشتر جیسے زینب کی روح میں پیوست ہو گیا ہو۔
”نہیں!ا یمان والوں کو خدا ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ تو ان کے دلوں میں رہتا ہے۔ میں تو آسمان پر کچھ دیر پہلے اُڑنے والے گدھ تلاش کر رہی ہوں۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ تم زیادہ قابلِ نفرت ہو یا وہ۔ کیوں کہ گدھ برادری تو مردہ خور ہوتی ہے مگر تم انسان ہو کر زندہ انسان کھاتے ہو۔” یہ سب کہنے کے لیے زینب نے اپنے بدن کی تمام تر بچی کچھی طاقت کو جمع کیا تھا۔ دروازہ نفرت سے اس کے منہ پر زوردار انداز میں بند کردیا گیا۔ وہ سسکتی سی بچوں کی انگلیاں تھامے چند قدم چلی ہو گی کہ اشرافیہ کی اس گلی کی نکڑپر ڈھے سی گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک جوان لڑکی ایک بوڑھی عورت کا ہاتھ تھامے اسی دروازے پر دستک دے رہی تھی۔
٭…٭…٭
ملکِ شام میں انسانی تبا ہی و بر بادی کی نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ عام عوام ہر طرف سے حملہ آور اور دفاع پر مامور ملکوں کی جارحیت کا نشانہ بن رہے تھے۔ جا بجا کٹے پھٹے ، مردہ اور نیم مردہ اجسام بکھرے پڑے تھے۔ فرشتۂ اجل نے بھی موت کا ایسا رقص کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ قیامت سی قیامت تھی اور ایسی ہی ایک قیامت زینب کے سر سے گزر گئی۔ جس وقت وہ اپنے شوہر کی لاش شناخت کرنے کے بعد دونوں بچوں کا ہاتھ تھامے واپس اپنے گھر پہنچی۔ وہاں اس کا گھر نہیں تھا بلکہ ملبے کا ڈھیر تھا۔ زمین بوس اینٹوں، ریت اور سیمنٹ کا بوسیدہ ڈھیر۔”
کاش میں گھر سے نہ نکلی ہوتی تو آج ہم سب بھی اس ملبے کا حصہ ہوتے۔ اس کا ذہن اس ایک نقطہ سے آگے کچھ بھی سوچنے سے قاصر تھا۔
٭…٭…٭
وہی آدمی دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ زینب نے اس لڑکی کو آواز دے کر روکنا چاہا مگر دروازہ کُھل چکا تھا۔ اس آدمی نے جانے اس لڑکی سے کیا کہا؟ شاید وہی سب کچھ جو وہ زینب سے کہہ چکا تھا۔ ایک لمحے کے لیے زینب نے لڑکی کو چونکتے ہو ئے دیکھا پھر اسے حسرت اور بے چارگی سے اس بوڑھی عورت کو دیکھا۔ چند ثانیوں میں وہ لڑکی اس آدمی کے ساتھ اندر جا چکی تھی۔ بوڑھی عورت جو حلیہ سے لڑکی کی نانی یا دادی لگتی تھی وہیں دروازے پر بیٹھی رہ گئی۔ زینب نہ جانے کس بات پر شرمندہ سی ہو گئی۔
”نہ جانے یہ آسمان کب تک ہم عورتوں کی بے بسی یونہی آنکھیں پھاڑے دیکھا کرے گا۔” وہ سوچتی رہی اذیت دکھ اور تکلیف سے…
وہ لڑکی جانے کب باہر آئی۔ اس کے ہاتھ میں روٹی تھی ، وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر بوڑھی عورت کو روٹی کے نوالے کھلانے لگی۔ بوڑھی عورت نے اپنے بوڑھے ، کانپتے ہاتھوں سے ایک نوالہ اُٹھایا اور لڑکی کے منہ کے قریب لے گئی۔ لڑکی دیر تک اس بوڑھے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھام کر روتی رہی اور پھر نوالہ منہ میں ڈال لیا مگر روٹی کھاتے ہو ئے بھی اس کی آنکھیں اپنے نقصان پر برستی رہیں۔ زینب نے روٹی کو گھورتے بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
”اس شام چھا جوں مینہ برسا تھا۔ شام، اہلِ شام پر دکھ سے رو رہی تھی۔ مردہ ضمیروں کے اس قبرستان میں گدھ ہی گدھ بستے ہیں جو زندہ انسانو ں کو بھی چیر پھاڑ نے سے نہیں چونکتے۔ انہیں نوچنے، بھنبھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔” اس نے سامنے بیٹھے اپنے دیور بلال کو ساکت نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، وہ بے حد مشکلات کے بعد اپنی بیوہ بھابی اور بچوں کو شہر کے باہر اس کیمپ میں ڈھونڈ سکا تھا۔
”میں نے روٹی کے نوالوں کے پیچھے عزتوں کو نیلام ہوتے دیکھا ہے۔” زینب کھوئی کھوئی سی بول رہی تھی۔
تم شہر اماں کے رہنے والے درد ہمارا کیا جانو
ساحل کی ہوا تم موج صبا ، طوفان کا دھارا کیا جانو

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تماشائے روزگار — آدم شیر

Read Next

آپا — فاطمہ عبدالخالق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!