نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

بابا خان اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے پہاڑ کی سیڑھیاں اُتر رہے تھے،گزرے بے شمار سالوں میں وہ اتنے بوڑھے ہوچکے تھے کہ عمر کی پرچھا یاں اُن کے چہرے سے صاف ظاہر ہونے لگی تھیں اور لاٹھی کو مضبو طی سے تھامے ہاتھ کسی درخت کی چھال کے سے لگتے تھے۔اُن کی ٹھو ڑی پر ہلکی ہلکی سفید داڑھی تھی اور پر لگی ٹوپی کے نیچے نہ بہت زیادہ نہ بہت کم ایسے بال تھے جو رنگت میں سفید اور کچھ کچھ گرے تھے۔مگر آج بھی اُن کی توانا ئی میں کسی قدر کو ئی کمی واقع نہیں ہو ئی تھی اور وہ اپنے لچکتے جسم کے ساتھ جیسے ہوا میں اُڑتے ہوئے نیچے اُترتے تھے۔
باباخان نے اپنے دل میں کاوش کو یاد کیا اور سوچا اگر وہ یہاں اس وقت ہوتا تو کیسا ردعمل ظاہر کرتا ، جب اُن پر یہ مصیبت آن پڑی تھی۔کاوش کو یو نیورسٹی گئے دو سال بیت گئے تھے اور اس دوران وہ وادی آتا رہا تھا اُن سب سے ملنے ،خوشیوں اور غموں میں شریک ہونے۔اب اس غم میں کس طرح شریک ہو گا؟ ایک اور سوچ باباخان کے ذہن میں لہرا ئی۔
پہاڑ اترنے کے بعد دکانوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور وہ ہر دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنی آنکھوں کے اشارے سے اور جہاں ضرورت پڑتی ہاتھ کے اشا رے سے جیسے اُنہیں سب ٹھیک ہے کی نوید سناتے جا رہے تھے۔لیکن اپنے دل کے کہیں اندر وہ خوف سے کانپتے بھی تھے کیونکہ وہ عمر رسیددہ اور باریش انسان تھے اپنی زندگی کے بہّتر سال ایسے کئی واقعا ت اور لوگوں پر گزری قیامتیں سنتے رہے تھے ۔ایک بار جب وہ چترال سے پشاور تک کے راستے کا سفر کر رہے تھے اور کونوار کے قریب سے گزرتے ہوئے اُنہوں نے ایک سٹاپ پر کچھ دیر قیام کیا تھا اُن سے ایک آدمی آ ٹکرا یا تھا۔
”سب کچھ اجڑ گیا ادر۔کیا ہرا بھرا ہنستا کھیلتا علاقہ تھا۔سب ختم۔۔” اُن کے ساتھ بیٹھے آدمی نے دور تک انڈر کنسٹرکشن زمین کو دیکھتے ہوئے ایک سرد سر گو شی میں کہا تھا۔تب باباخان نے سینہ پھلا کر اُسے کچھ سر زنش کیا تھا۔” کیوں تم نے اپنا گھر خالی کر دیا؟کھڑا او جا تا سینہ تان کہ۔۔پر دیکھتا کیسے اوتا یہ سب۔۔” آہ۔۔۔۔مستقبل سے انجان معصوم باباخان۔
مناسب چا ل سے چلتے ہوئے وہ دریا کنارے بیٹھے اُن سب وادی کے بزرگوں کے درمیان پہنچ گئے۔جن میں عورتیں اور مرد دونوں شامل تھے۔سب نے ایک خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ اُنہیں دیکھا مگر وہ ایک ایسی مسکراہٹ تھی جو پریشانی کے ڈنک چو سے ہوئے تھی اور تفکر کی لکیریں اُن کے ماتھے پر سینچی تھیں۔بابا خان بھی اُن سب کے درمیان نیچے بیٹھ گئے اور ایک بڑے پتھر کے ساتھ اپنی چھڑی ٹکاتے ہوئے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
”یہ مسئلہ اب کیسے حل او گا ،انکار کر کے دیکھ لیا سینہ تان کے دیکھ لیا اور کل تو وادی کے کچھ لڑکے ان کے ساتھ لڑا ئی بی کر لیا پر یہ پیچھے نہیں ہٹتا اے کہتا یہاں ڈیم بن کے رہے گا۔” ایک بزرگ عورت جس کے منہ میں گنتی کے دانت بچے تھے ،نے بات کا آغاز کیا تھا۔” وہ لوگ وادی میں پھیل چکے ہیں اب کچھ نہیں ہو سکتا۔” ایک مایوس بزرگ سے سر ہلاتے ہوئے دور غیر مرئی نکتے پر نگا ہیں جما کر کہا تھا۔” اس دریا پر ڈیم بن کر رہے گا۔” یہ اطلا ع نہیں سر گوشی تھی اور یہ باباخان کے ہونٹوں سے ادا ہوئی تھی۔
سب بزرگوں کی نظریں دریا پر جم گئی تھیں۔اداسی سے بھر پور نگاہیں فریاد کرتی ہوئی وہ دریا کا دل چیر دینا چاہتی تھیں۔دریا شور مچاتا تھا اور جیسے خود دکھ سے پھٹ جانے کے قریب تھا۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

رنمبور کے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے وہ بے حد خوش نظر آتا تھا۔اپنی وادی واپس آ جانے کا خیال ہی بڑا خوش کُن تھا۔دو سال ایک انجان شہر میں گزارنے کے بعد بلا آخر کاوش اپنی وادی واپس جا رہا تھا اپنے لوگوں کے بیچ۔کاوش جہاں اپنا خواب پورا کر آیا تھا وہیں باباخان کے ایک خواب کی تکمیل بھی اُس کے پاس مو جود تھی۔” وہ جب اس بارے میں سنیں گے تو ضرور ایک بار خوشی سے اُن کی آنکھوں میں آنسو تو ضرور ہی آ جائیں گے۔” کاوش اُن کے متوقع ردعمل کو سوچ کر مسکرا دیا۔
کاوش جلدی جلدی پہاڑ چڑھ رہا تھا، وہ اُن سب کو سر پرائز دینے والا تھا اپنے یوں اچانک بنا بتا ئے واپس وادی آ جانے کا۔
” ای۔۔کاویر تم آ گیا اے؟” وہ ایک بو ڑھی عورت تھی جو اُن کے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی اور جس نے دُور سے ہی اُسے دیکھ کر آواز لگائی تھی۔” ہاں ام آ گیا ، امارہ پڑھا ئی ختم ہو گیا۔” اُس نے جلدی جلدی کہا اور اپنے گھر میں داخل ہونے لگا مگر بو ڑھی عورت جیسے اُس کے ساتھ مزید باتیں کرنا چاہتی تھی۔” تم کیوں اب آتا یہاں پہ؟ اب تو سب جاتا یاں سے۔۔” غم سے چور لہجے میں بڑھیانے اُس سے کہا۔کاوش چونکا مگر پھر یہ خیال کر کہ شاید اب بہت سے نو جوان وادی سے کام کرنے کی غرض سے شہروں کو جا رہے تھے اُس نے بڑھیا کی بات کا یہی مطلب لیا اور سر جھٹک کر ہاتھ ہلا تا اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔اُس کے پیچھے بڑھیا ابھی بھی غم زدہ سی بیٹھی تھی۔
()٭٭٭()
”امارا دُر( گھر) گر رہا ہے برار(بھا ئی)۔ ” زرمستہ کاوش سے چند سال بڑی اُس کی بہن جو پشاور سے بی اے کرنے کے بعد وہاں واپس آئی تھی اور رنمبور کے سکول میں بچوں کو پڑھاتی تھی اور ساتھ ساتھ باباخان کا شروع کیا ہوا کام اچار اور مربعوں کے آڈرز بھی تیار کرتی تھی۔
دیوہ ،پشمینہ کی طرح گُل مکئی کی شادی بھی کالاشا مسلمان مرد کے ساتھ ہو چکی تھی اور وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک حسین زندگی بسر کررہی تھی، جبکہ زرمستہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ بابا خان اور ھو سئی ماں کی خدمت کے ساتھ ساتھ وادی کے بچوں کو پڑھانا بھی چاہتی تھی ۔
کاوش ایک دم سے وہاں آن دھمکا تھا وہ سب حیران تھے اور بہنیں بے اختیاراُس سے لپٹ کر پھپک پھپک کر رو دی تھیں۔
جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اُن سب کا وہاں موجود ہونا اُس کے لیے بڑا حیران کُن تھا ۔وہ یہ سوچ رہا تھا جب وہ گھر میں داخل ہو گا تو باباخان ، ھو سئی ماں اور زرمستہ ہی گھر پر ہو ں گے مگر اب وہ دیکھ رہا تھا وہاں اُس کی باقی تینوں بہنیں اپنے شوہروں کے ساتھ مو جود تھیں اور وہ سب یوں بیٹھے تھے جیسے کسی بہت اہم مسئلے پر بات کر رہے ہوں۔سب نے اُسے دیکھا حیران ہوتے ہوئے مگر پھر اپنی حیرانی کو چھپائے وہ اُس سے ملنے لگے ۔کاوش نے اُن کے غم زدہ چہروں کو غور سے دیکھا مگر کو ئی اندازہ نہ لگا پایا کہ ایسا کیوں تھا ۔اُس کی بہنیں اُس سے لپٹ کر رو رہی تھیں ،وہ اُنہیں دلاسا دیتا رہا کہ شاید وہ بہت اُداس تھیں اُس کے لیے کیونکہ اس بار وہ بہت دیر بعد گھر واپس آ یا تھا۔وہ اُن سب سے دیر تک باتیں کرتا رہا مگر جب اُسے لگا کہ سب کے چہروں پر دکھ کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا تو وہ پو چھ بیٹھا۔
” کیا ہو ا سب کو ایسے غم زدہ کیوں بیٹھا ہے؟”
اُس نیم تاریک کمرے میں بیٹھے ، جو وادی کی جڑی بوٹیوں سے بنا ئے گئے ہاروں سے مزین تھا اور جس کی دیواریں سیاہ تھیں، اُن سب نے ایک سرد آہ بھری۔کا وش کو مزید خدشہ ہوا کہ کچھ غلط ہو چکا تھا یا ہونے والا تھا ۔باری باری سب کے چہرے کے دیکھتے ہوئے اُس نے سوال کرنے کے لیے پھر سے اپنا منہ کھولا مگر اُسے سوال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی بلا آخر زرمستہ نے اُس سے کہہ دیا۔
‘ ‘امارہ دُر (گھر ) گر رہا ہے برار (بھا ئی)۔” کا ویر کو بات سمجھنے میں دشواری ہوئی۔” کیا کہہ رہی ہوں کئے؟” اُلجھتے ہوئے اُس نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔وہ جو سب سر جھکائے بیٹھے تھے اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتے تھے کہ اُسے سب بتا سکتے۔” یاں دریا کے اُوپر ڈیم بن رہا ہے کاویر۔” بلا آخر دیوہ کے شوہر کے اُسے بتا نا شروع کیا۔” اس پہاڑ پہ موجود سب گھر گرا دئیے جائیں گے ۔مگر تم بالکل فکر مت کرو تم سب امارے پاس آ جانا۔بمبوریت۔۔امارے پاس رہنا یا پھر وہیں پہ اپنا نیا دُر(گھر ) لے لینا ۔کوئی مسئلہ نہیں ہے۔” دیوہ کا شوہر جتنے میٹھے لہجے میں اُس دردناک خبر کو سنا سکتا تھا اُس نے سنا ئی تا کہ کا وش پریشان نہ ہو۔مگر لگتا تھا اُس کی یہ کو شش بیکار گئی تھی کیونکہ کاوش ہتھے سے اُکھڑ چکا تھا۔
” امارا دُر( گھر) کیسے لے سکتا اے یہ نز حان(انجان لوگ) ۔” کاوش کچھ غصے اور حیرانی سے بھرپور چہرہ لیے پوچھ رہا تھا۔” برا ر (بھائی) آپ لوگ کچھ کیا کیوں نہیں ایسے کیوں بیٹھا اے۔با ت چیت سے نئی مانتا آؤ لڑتے ہیں۔” وہ یکدم تیار نظر آنے لگا تھا لڑنے مرنے کو۔” کاویر ڈیم بنے گا تو ہمیں ہی سہو لیات ملیں گی ،فائدہ امارہ ہی اے۔” اب گُل مکئی کے شوہر نے بھی اُسے سمجھانا چاہا۔” تو بنا ئے ڈیم ام منع تھوڑی کیا اے پر امارہ گھر تو نہ توڑیں۔” دکھ سے چور چور لہجے میں اُس نے کہا مگر پھر ہمت پکڑتے ہوئے اُس نے کہا ۔” ام اپنا گھر گرنے نہیں دے گا ۔آپ کو لڑنے کے لیے بندے چا ہیے اُوپر نیچے سے منگوا لیتا اے آپ بس اُٹھو۔” وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا مگر گُل مکئی کے شوہر نے ہاتھ بڑ ھا کر اُسے واپس بٹھا لیا تھا۔اُس کی حالت دیکھ کر ھوسئی ماں پھوٹ پھو ٹ کر رو رہی تھیں اور بہنیں اپنی سرمئی اور نیلی آنکھوں کو مسلسل رگڑ رہی تھیں۔” سب کر لیا کاویر۔۔سب کر لیا۔مار لیا ،بو کھت(پتھر) برسا دئیے اور سف(سب) لوگوں نے۔سف کا دُر(گھر) جاتا اے،سف دُکھی اے ،روتا اے پر زور نہیں چلتا کاویر۔اُس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھے وہ اُسے سمجھاتا رہا تھا۔اور کاویر بار بار اپنی پلکیں جھپکتا تھا اور ہاتھ میں پکڑا نو ٹس اُس نے دُور پھینکا تھا جو کے گھر خالی کرنے کا نو ٹس تھا اور جو زرمستہ نے اُسے اندر سے لا کر دکھایا تھا۔
اُس کے ساتھ بیٹھی زرمستہ نے بخاری کی جانب دیکھا۔وہ ٹھنڈا تھا اور جس میں آج ،شاید آج زندگی میں پہلی بار ،اُس میں لکڑ یاں نہیں جلائی گئی تھیں۔نم آنکھوں کے ساتھ وہ اُسے دیکھتی رہی تبھی ۔۔۔کچھ کھڑکنے کی آواز آ ئی تھی۔زرمستہ نے اور باقی سب نے چونک کر دیکھا تھا اُس طرف جہاں لکڑ ی کا تختہ تھا اور جس پر با باخان اور ھوسئی ماں بیٹھی تھیں، سپیاں ہلکا سا شور کرتیں بلا آخر با با خان کی گود میں آ گری تھیں۔
()٭٭٭()
شریف کی موت کے بعد عالم اور علیم ہی پہلے کی طرح دکان کو سنبھال رہے تھے۔عالم خود بخود ہی جیسے یکدم گھر کا بڑا ہو گیا تھا مگر صرف کچھ معاملوں میں ۔عادل جو ایک بنک میں اچھی پوسٹ پر تھا اُس کے مشوروں پر زیادہ عمل کیا جاتا شاید اس لیے کہ وہ پڑھا لکھا تھا اور سوٹ بوٹ پہن کر گھر سے باہر نکلتا تھا۔اور ایسا زیادہ ہاجرہ کی وجہ سے ہوا تھا جو اُس کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت دینے لگی تھی،اپنے دونوں بیٹوں کی نسبت ۔۔عادل اُس کا وہ بیٹا تھا جو ماں کا خواب پورا کر گیا تھا افسر بن کر ،حالانکہ وہ اپنی ماں کو ایک روپیہ بھی اپنی تنخواہ میں سے نہیں دیتا تھا اور ہاجرہ نے بھی کبھی نہیں مانگا تھا۔دکان اور گھر گھر دودھ دینے سے آمدنی اچھی خا صی ہو جاتی تھی۔
مگر اس سب کے باوجود بھی وہ تینوں آپس کی چند چھوٹی مو ٹی چپلقشوں کے علاوہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں لڑے تھے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دینے لگے تھے۔شاید یہ سب باپ کے اچانک چلے جانے کے بعد ہوا تھا کہ وہ ایک دوسرے کا سہارا بنے تھے ۔
عادل ابھی بھی اپنے گھر سے دور بھاگتا تھا اور خاص اُس وقت گھر نا آتا جب دودھ سے مختلف اشیا تیار کی جا رہی ہوتیں،مگر اب وہ کھلم کھلا اظہار نہیں کرتا تھا دل میں کہیں مکاری چھپائے وہ خا موش رہتا تھا۔
کھلے صحن کے بیچوں بیچ وہ سب بیٹھے تھے یعنی ہاجرہ ،عالم ،علیم،عادل اور کوکو۔۔غمگین اور کچھ حیران چہرے کے ساتھ ہاجرہ،غصے سے بھرے پریشان عالم ، علیم اور سب کو سر ا سیمگی سے دیکھتی کوکو۔وہ سب پریشان تھے اپنے علاقے کے تمام گھروں کی طرح اُن کے گھر میں بھی مستقبل کا خوف پھیلا تھا،لیکن سب سے الگ شریف کے گھر میں ایک چیز کا اضافہ تھا۔اندر کی مکاری اور خوشی آنکھوں سے چھپائے نا چھپتی تھی اور چہرہ بظاہر غم کی تصویر بنا ڈھلکا ہوا تھا مگر اُس کے ہونٹ ۔۔وہ اُنہیں اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا یہ چیز انتظار کی کوفت کو ظاہر کرتی تھی ۔” مجھے اب بات کا آغاز کرنا چاہیے۔” عادل نے اپنے دل میں سوچا اور گلا کھنکار کر کہنے لگا۔
” اماں علاقہ تو وہ ہر صورت میں لے کر رہیں گے مگر مجھے ڈر ہے کہیں ہمارے شور مچانے سے وہ لوگ compensationکم کرتے جائیں اور ہمیں گھر ،دکان اور ویڑے سے تو ہاتھ دھونے ہی پڑے گے پیسے بھی کم ملیں گے۔” عادل نے بلا آخر بات کا آغاز کیا۔
ہاجرہ نے اُس دن جس بات کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلا دیا تھا وہ سچ نکلی تھی اور بہت جلد اخبار،ٹی وی اور ہر جگہ اس بات کا چرچہ ہونے لگا تھا کہ اُن کے علاقے سے سڑکیں گزر رہی تھیں۔علا قے میں موجو د بہت سارے گھروں کی طرح شریف کے گھر میں بھی پریشانی کی لہر دوڑ گئی تھی اور اب وہ سب اکٹھے بیٹھے اسی مسئلے پر غور کر رہے تھے۔عادل اُنہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ عالم علیم کسی صورت گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔عادل کی آواز ایک بار پھر سے گونجی۔
دیکھا نہیں تھا کل وکیل صاحبہ کیا کہہ کر گئیں تھیں؟” عادل کا انداز کچھ ڈراتا ہوا کچھ غم سے چور تھا۔” کیا کریں پھر اپنے چلتے ہوئے کاروبار سے ہاتھ اُٹھا لیں سڑک پر آ جائیں۔” عالم غصے میں تھا اور کچھ کچھ بے بس بھی۔” یہ تو بالکل نہ سوچو کہ ہم سڑک پر آ جائیں گے ،اتنے پیسے ملیں گے کہ آرام سے کئی سال بیٹھ کر کھا سکیں گے ہم۔”جینز شرٹ پہنے وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے کرسی پر بیٹھا تھا۔” مگر پتر ہمارا کاروبار ہماری بھینسیں ۔۔” ہاجرہ کسی طور پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔” امی کاروبار تو اُن پیسوں سے بھی شروع ہو جائے گا اور بھینسیں وہ لیتا رہنا آپ لوگ بعد میں۔” اُس نے جیسے ناک سے مکھی اُڑائی تھی۔کوکو چائے بنا کر لے آئی تھی۔سب سے پہلے ہاجر ہ کو دینے کے بعد وہ عادل کو چائے دینے آئی تھی ۔لمبی چو ٹی اُس کی کمر پر پڑی تھی۔اپنی ماں کی طرح اور کچھ کچھ اپنے باقی دونوں بھائیوں کی ہی طر ح وہ رعب میں تھی عادل کے۔
” لیکن پیسے ہوں گے کتنے؟” عالم پہلی بار بولا تھا اور جیسے باقی سب کے دلوں کا حال وہ اپنی زبان پر لا یا تھا۔” پانچ کروڑ۔” سب کو سانپ سونگھا تھا۔” اور یہ باقی سب لوگوں سے زیادہ ہے جو علاقے میں رہتے ہیں۔” عادل نے اضافہ کیا تھا۔” ہاں تو علاقے میں کسی کے پاس اتنا سب ہے بھی تو نہیں۔” ہاجرہ کے لہجے سے غرور کی بو آ رہی تھی اور وہ سب یکدم خوش سے ہو گئے تھے۔۔جان میں جان آئی تھی جیسے۔۔”گھر تو بن ہی جائے گا اس میں ” کو کو پہلی بار خوشی سے چہکی تھی۔” گھر نہیں کو کو کو ٹھی بنے گی اب۔” عالم خوش تھا اور چائے سڑک سڑک کر پی رہا تھا۔عادل نے ناگواری سے اُسے دیکھا تھا اور دل میں بولا تھا۔” جاہل۔بس ایک بار پیسے مل جائیں۔” اور ہاتھ جھاڑتا اُٹھ گیا تھا۔پیچھے وہ سب مستقبل کے خوب صورت خواب بننے لگے تھے ۔اور بہت سی حال میں ہوئی کسی کی کہی جانے والی اہم باتوں کو نظر انداز کر گئے تھے۔
()٭٭٭()
ٹون ۔۔ٹون۔۔دروازے کی گھنٹی بجی تھی ،ٹی وی کا والیوام آہستہ کیے وہ اُٹھ گئی تھی۔کچن میں جا کر ایک برتن اُٹھا یا اور راہداری عبور کیے دروازہ وا کر دیا۔” السلا م و علیکم با جی جی۔” علیم بے انتہا خوش نظر آ تا تھا اور مٹکوں میں سے ڈونگے بھر کر خالص دودھ نکال کر دیگچی میں ڈالنے لگا تھا۔
”وعلیکم السلام!”اُس کو دانتوں کی نما ئش کرتے دیکھ کر باجی جی پوچھے بنا نہ رہ سکیں۔” بڑے خوش نظر آ رہے ہو؟”برتن تھامتے ہوئے وہ بولی تھی۔”با جی جی میں کل نہیں آؤں گا دودھ دینے آپ کسی اور سے دودھ لینا شروع کر دیں۔” وہ اب مٹکے کا ڈھکن بن کر رہا تھا۔”ہیں۔۔کیا مطلب کل نہیں آؤں گا۔” حیرانی اس قدر تھی کہ با جی جی کی آنکھیں باہر کو اُبل پڑی تھیں۔” مگر تم کیوں نہیں دو گے؟ کہاں جا رہے ہو تم؟ اپنے بڑے بھا ئی کو بھیج دینا۔نہیں تو میں خود منگوا لیا کرو گی۔” با جی جی تو شروع ہی ہو گئیں بیٹھے بٹھا ئے نئی مصیبت گلے پڑ گئی تھی ۔” وہ باجی جی آپ کو پتہ ہے ہمارے وہاں علاقے سے سڑکیں گزرنے لگی ہیں اور انڈر پاس بن رہا ہے سب کچھ اُس کے اندر آ رہا ہے،گھر دکان اور واڑہ۔” ” تو یہ تو پریشانی کی بات ہوئی نہ اتنی خوشی کیوں اور یہ بھینسیں کدھر جائیں گی تم لوگوں کی۔” باجی جی کو ابھی بھی اپنے دودھ کی پڑی تھی۔” بھینسیں بھی ہم ساتھ ہی بیچ رہے ہیں اُنہیں اور باجی جی بڑے پیسے ملے گے ہم تو آپ سے بھی زیادہ اچھے علاقے میں اپنا گھر لے رہے ہیں۔یہ بڑی ساری کو ٹھی۔۔اور بھینسیں لینے گے بعد میں۔” خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ اُس نے عادل کی بات دھرائی تھی۔” اچھا باجی آپ حساب کر دیں۔” مو ٹر سائیکل پر وہ ہاتھ باندھے بیٹھ گیا تھا۔وہ اندر مڑ گئی۔” بس کچھ عرصہ اور پھر ہمارا بھی ایسا ہی بلکہ اس سے بھی بڑا گھر ہوگا۔” گھر کی عمارت کو دیکھتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے سوچنے لگا تھا۔
” بے وقوف پیسے سے کارو بار کرنے کی بجائے گھر کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ہائے اب اتنا خالص دودھ کہاں ملے گا۔عقل کے اندھے۔۔” باجی جی اندر آتے ہوئے سوچ رہی تھی اور مسلسل اُنہیں کوس رہی تھی۔
اور باہر علیم نے پیسے پکڑے شاندار گھر پر ایک آخری نظر ڈالی اور بائیک کو کک مارتا اُڑتا ہوا نکل گیا۔
()٭٭٭()
بابا خان اس درد ناک خبر کو سننے کے بعد پہلے کچھ عرصہ یقین نا کرتے ہوئے لیکن پھر پراجیکٹ ہیڈز کی علاقے کے لوگوں کے ساتھ اُس بات چیت نے واضح کردیا ،سب ختم ، تو وہ ڈھے گئے ۔کمریں جھک گئیں اور ہاتھ کانپنے لگے ۔
”بھلا ایسے بھی کو ئی کسی کے گھر چھین لیتا ہے ؟؟ ”بابا خان شدید دُکھ میں تھے اور ھو سئی کو یاد کرتے تھے وہ جو اُن کی بیو ی تھیں ۔زندگی کہ بہت سے غم اور خوشیاں اُنہوں نے ایک ساتھ دیکھے اور جھیلے تھے مگر اب وہ اکیلے رہ گئے تھے ھو سئی اُنہیں چھو ڑکر چلی گئی تھیں ۔باباخان میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اپنے آنسو صاف کر سکتے۔
اُس دن جب وہ اکٹھے بیٹھے کاوش کو اُس خبر سے آگاہ کرتے تھے تب ھو سئی ماں اُن سب کو چھوڑ کر اس دُنیا سے ہی چلی گئیں۔ھو سئی ماں کے دُنیا سے چلے جانے کے بعد سب کو چُپ لگ گئی تھی ۔دکھوں نے ایک دم سے اُن کے گرد گھیرا تنگ کر لیا تھا۔” کاوش کدھر ہے زرمستہ؟” زرمستہ اُن کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی جب باباخان نے اُس سے پو چھا۔” بمبوریت گیا ہے باباخان ۔۔نیا دُر (گھر) دیکھنے کو۔”باباخان نے دُکھ سے اپنی آنکھیں رگڑیں۔” کا وش کتنا خوش تھا جب یاں آیا تھا اب کتنا دکھی نظر آتا اے۔” ” دکھی تو سبھی اے باباخان ۔۔” زرمستہ نے کہا پھر کچھ یاد آنے پر کہنے لگی۔” باباخان کل ایک خط آیا تھا مینیجر کی طرف سے میں لے کر آتی ہوں۔” زرمستہ اندر گھپ اندھیرے والے کمرے میں غائب ہو گئی جب واپس آئی تو اُس کے ہاتھ میں ایک بند کا غذ تھا۔” میں نے کھولا نہیں کہ جب آپ ہو گے تبھی ام کھولے گا۔” لفافہ چاک کرتے ہوئے وہ باباخان کو ساتھ ساتھ بتا تی بھی جا رہی تھی۔ کا غذ کی تہیں کھولنے کے بعد وہ تحریر پڑھنے لگی۔
” ہمیں اس ماہ آپ کے اچار اور مر بعے نہیں چاہیے ۔زرمستہ نے رُک کر باباخان کی جانب دیکھا کچھ شاک سے مگر پھر سے تحریر پرھنے لگی،اور نہ ہی آپ کے اُس کھانے کی ترکیب جو آپ ہمیں دینے والے تھے ۔ویسے اُس کھانے کو آپ سے بنوا کر شہر میں لے جا کر بیچنا یقیناًایک مضحکہ خیز عمل ہوتا جو اگر وقعتا اُس پر عمل کر لیا جاتا۔ شہر میں اس جیسی بے شمار ڈشز ملتی ہیں ،اگر اُس میں وہ جڑی بوٹی نہ بھی ڈالی جائے تو بھی وہ ایک مزیدار کھانا ہوتا ہے۔لیکن کمپنی ہمیشہ آپ کے مزیدار پھلوں سے بنے اچار اور مربعوں کو یاد رکھے گی ،جو کہ یقینا اب آپ کے پاس نہیں رہے۔اور یہی وہ وجہ ہے کہ جس کی بنا پر ہمیں یہ پیغام آپ کو بھیجنا پڑا۔”
مینیجروجاہت شکور
زرمستہ نے اُنہیں پیغام پڑھ کر سنا یا اور اُن کے گال ہتک کے احساس سے دہک اُٹھے تھے۔کانوں کی لوئیں سرخ انگارہ ہو گئی تھیں کچھ یہی حال خود زرمستہ کا تھا۔وہ اُن کے ساتھ بیٹھ گئی تھی اور اُن کا کندھا دبانے لگی ۔” بابا خان آ پ فکر مت کرو ،کاروباری لوگ فقط اپنا نفع نقصان دیکھتے ہیں۔” وہ خود پریشان تھی بابا خان کی دلجوئی کو بس اتنا ہی کہہ سکی۔” اتنے سال وہ امارے ساتھ کام کرتا رہا،یہاں آتا رہا ام اُس کی خدمت میں جان لو ٹا تا رہا ،اچھے سے اچھے پھل اُس کو دیا ،اُس کے آنے جانے کا اچھا بندو بست کیا،اُس کی مہمان نوازی میں ام نے کو ئی کسر نہیں چھو ڑا اور اُس نے مذاق اُڑا یا۔” وہ اپنی مہمان نوازی کا صلہ نہیں مانگ رہے تھے وہ دکھ میں تھے اُن کی وادی کی جڑی بو ٹیاں مذاق کا نشانہ بنی تھیں۔وہ جو اُنہیں بچوں کی سی عزیز تھیں اُن کے علاقے کی شان۔۔اُن پر طنز کا تیر چلا۔جیسے با با خان پر چلا ۔
” یہ لوگ کیا سمجھتا اے امارہ گھر جائے گا تو ام یہاں کے پھلوں اور جڑی بو ٹیوں سے محروم او جائے گا۔” آنسوؤں کے ساتھ بولتے ہوئے وہ سانس لینے کو رُکے تھے۔” ام نیچے جا کے رہ سکتا اے ،واں بھی اما رہ اپنا لوگ اے ۔امارا زہور(بیٹی) رہتا اے واں، سب اماری طرح کا لوگ ہے وہاں۔” اُنہوں نے اپنے سینے پر انگلی ٹھو نک کر کہا تھا۔” مگر یہ لوگ امیں کتنی تضحیک کا نشانہ بنا گیا۔” اُن کی ہچکی بندھی تھی۔زرمستہ بھی زارو قطار روتے ہوئے اُن سے چمٹ گئی تھی۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!