نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

تازہ پھلوں سے بنے ہوئے اچار، مربعے اور خشک پھل وہ شہر میں فرو خت کرنے لگے۔پہلے وہ خود جاتے دور درازکے شہروں میں پیک ڈبے لے کر لیکن پھر اُنہیں ایک بڑا کا نٹریکٹ ملا ۔کمپنی والے خود اُن تک آتے اور تمام چیزیں اپنے بل بوتے پر لے جاتے۔سہل ہو گیا جیسے باباخان کے لیے سب کچھ۔اب باباخان خوش سے کہیں زیادہ مطمئن تھے اس بات پر کہ اپنے جگر بیٹے کے بچوں کے لیے بلا آخر آسان زندگی وہ مہیا کر پائیں گے۔
”کاوش اس کو کیا بولتا اے تم۔” مینیجر کی پلیٹ میں اُس گلابی پنیر کا ٹکڑا ڈالتے ہوئے باباخان نے پوچھا تھا اور کاوش گھبرا یا تھا۔
” ام نہیں جانتا باباخان۔” اُس نے بات ہی ختم کر دی ۔لیکن بات تو ابھی شروع ہو ئی تھی۔” یہ کاوش نے بنا یا اے۔آج اس نے منگوایا تھا تازہ چیریز اُوپر ایک بندے سے اور یہ دیکھو اس نے کیا بنایا آپ کے لیے۔” باباخان کے بو ڑھے جھر یوں زدہ چہرے پر مسکرا ہٹ بکھر گئی تھی اور پلیٹ مینیجر نے اُن کے ہاتھوں سے تھام لی تھی اور تحسین آمیز نظروں سے کاوش کی طرف دیکھا تھا۔جو ایک تیرہ چودہ سال کا لڑکا تھا اور اپنی گھبراہٹ چھپاتا ہوا اور تھوڑا شرماتا ہوا برابر ہلے چلے جا رہا تھا۔
پنیر میں کہیں کہیں چھپی ہوئی لال چیریز جن کے درمیان میں سے صفائی سے بیج علیحدہ کر لیے گئے تھے لیکن ابھی بھی وہ اپنی پہلی سی گولائی سے ساتھ موجود تھیں اور اُس کے ساتھ ہی کریم کی بے تحاشہ تہیں۔مینیجر اور باباخان نے پہلا چمچ لیا اور وہ اُس کے لطف میں ڈوب گئے ۔ایسا اُنہیں دیکھ کر لگتا تھا،اُن کی آنکھیں چند سیکنڈز کے لیے بند ہوئی تھیں اور پھر کسی قدر عجلت کے عالم میں اُنہوں دوسرا چمچ بھرا تھا۔
چیری کے اندر تک گھسی ہوئی پنیر اور کریم جب وہ اپنے منہ میں ڈال کر چباتے تو وہ جیسے جھوم سے جاتے اُس کے مزے سے اور لطف اُن کے چہروں تک اُمڈ آتا۔کاوش کی گھبراہٹ دور ہوئی تھی اور مسرت کی لہر اُس کے اندر تک اُتر گئی تھی۔
جب وہ اپنی پلیٹس خالی کر چکے اور پنیر اور چیریز کے ذائقے کو اپنے اندر تک قید کر چکے تو باباخان نے کاوش کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اُس کے پھولے پھولے گالوں کے بوسے لے ڈالے۔مینیجر بھی خوش نظر آتا تھا اور کاوش کے گال تھپتھپانے کے بعد اُس نے اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا اور ایک لفافہ نکال کر کاوش کی آنکھوں کے سامنے کیا۔” یہ کیا اے مینیجر صاحب؟” سوال باباخان نے کیا تھا۔” کاوش خود دیکھ لے۔” مینیجر نے مسکرا کر کہا۔کاوش نے لفافہ کھولا اور حیرت و خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ مینیجر کی جانب دیکھا۔” پچھلی بار جب میں آپ کے جشن کو دیکھنے آیا تھا تب میں نے اور کاوش نے یہ تصویر بنوائی تھی۔” مینیجر باباخان کو بتا رہا تھا۔” کیسی لگی تم کو کاوش؟” کاوش نے تصویر کو دیکھا۔اُن دونوں کے عقب میں اخروٹ کا درخت نما یاں تھا اور اُن کا اپنا گھر نظر آتا تھا جبکہ وہ خود دانت نکالے مسکرا رہے تھے اور کاوش کو یاد آیا کیسے وہ اُس دن اپنے بوٹ پہننے کے لیے بھا گا تھا۔” بہت اچھی ہے۔ام اُس کو امیشہ سنبھال کے رکھے گا۔” باباخان اور مینیجر دونوں اُس کی بات پر مسکرا دیے اور مینیجر اُس سے چھو ٹے چھو ٹے سوال پوچھنے لگا۔
جس وقت وہ مہمان خانے کا دروازہ بند کر کے باہر نکلا اُس کے چہرے سے روشنی پھوٹ رہی تھی اور اُس کی ساری بہنیں اُسے چھیڑنے لگی تھیں اور اُس کے گال مروڑنے لگی تھی پھر تب تک وہ اُس کے ساتھ چھیڑ خانی کرتی جب تک کہ ھو سئی ماں کی للکار نا سنائی دے گئی اور وہ دوبارہ کام میں نا لگ گئیں۔
مینیجر کے سامنے قالین پر انواع و اقسام کے کھانے چن دئیے گئے اور دستر خوان پر کو ئی ایسی جگہ نہ چھو ڑی گئی جو چترالی اور کالاشاکھا نوں کی طشتریوں سے محروم رہ گئی ہو۔نوڈلز اور قیمے سے بنے مختلف اقسام کے سوپ۔جس سے ازبکستان کے سوپ کی جھلک دکھتی تھی۔Mantu (ایسی کچوری جس کو سٹیم کیا جاتا ہے)،دنبے کا نمکین گوشت، دم پخت کیا ہوا بکرا،سالم ٹراؤٹ مچھلی،پنیر بے شمار ذائقے دار چترالی کھانے،مکھن سے چپڑی ہوئی روٹیاں،ازبک پلاؤ،مقامی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ سلاد جس میں پنیر اورخاص قسم کی جڑی بو ٹی یا پھل کا کثرت سے استعمال تھا اور وہ یقینا تھا۔۔کا ویر۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

خستہ حال دکھنے والے اُس کو رٹ روم میں تقریبا ً کچھ اپنے ہی جیسے فیصلے صادر کیے جاتے تھے۔کبھی کسی کی زندگی کو صرف چند ہفتوں کے لیے تکلیف میں مبتلا رکھنے والے،کبھی چند مہینو ں اور سالوں کی اذیت دیتے ہوئے اور کبھی۔۔کسی کو اپنے قدموں سے مضبو طی سے ڈھاتے ہوئے سے فیصلے،جو بیشمار خوار ہونے کے بعد سننے کو ملتے تھے۔
” معزز جج صاحب۔۔۔” وہ جو کب سے دم سادھے بیٹھی تھی اور گردو پیش کا قدرے بے چینی سے جائزہ لے رہی تھی اپنے وکیل کی آواز کانوں میں پڑنے پر چونک کر سیدھی ہو بیٹھی اور ایک نظر اپنی ماں پر ڈالنے کے بعد سامنے دیکھنے لگی تھی۔وکیل اب مختلف طرح کی وجوہات اور ثبوت جج کو پیش رہا تھا۔
” اﷲ تو نے مجھے ہی کیوں اس عذاب میں ڈالا ۔میں کیا پیشیاں بھگتنے کو ہی رہ گئی تھی۔” اُس کی نظر دھند لائی تھی ۔پانی اُس کی آنکھوں میں جمع ہو گیا تھا۔جج کے کمرے میں چند لوگوں کے بیچ وہ دوسری قطار میں بیٹھی تھیں وہ اور اُس کی ماں۔۔ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ اُس نے مجرم کی طرف دیکھا تھا۔سر گرائے،لب بھینچے ہتھکڑیاں لگے ہاتھوں کے ساتھ وہ جیسے خود سے نظریں چرائے تھکا ماندہ سا کھڑا تھا۔
”چندا نے پوچھا تاروں سے،تاروں نے پوچھا ہزاروں سے،سب سے پیارا کون ہے؟ ” جھولا جھولتے ہوئے وہ لہک لہک کر گا رہی تھی اور اُس کے پیچھے کھڑا ”وہ” بڑے پیار اور دلار کے ساتھ اُس کی پینگ کی زنجیر کو پکڑے جھولا دینے میں مصروف تھا۔
”بھا ئی ۔۔میرا بھا ئی۔۔” اُس کا ساتھ دیتے ہوئے سُر ملاتے ہوئے اُس نے الفاظ بدل دئیے تھے۔ایک کھلکھلا ہٹ گو نجی تھی۔اور وہ بھی اُس کا ساتھ دینے لگی تھی۔”بھا ئی ۔۔میرا بھا ئی۔۔”
جھولا ،گانا اور حتی کہ اُس کا ‘وہ والا’ بھا ئی سب غائب ہو گئے تھے حا لانکہ وہ ابھی بھی جھول رہی تھی آ گے پیچھے ۔۔آگے پیچھے۔۔خطرے کی گھنٹی کے ساتھ۔آج فیصلے کا دن تھا۔اور انجام بیشک سب کو معلوم تھا،اُس کی ماں کو ،سر جھکائے اُس ڈھانچے کو جوسا نس اب قدرے کھینچ کر لیتا تھا اور خود اُس کو،مگر انجام کے یقینی مثبت ہونے کا اندازہ بھی اب اُنہیں مستقبل میں کو ئی خوش کُن لمحہ نہیں دکھا رہا تھا تو وہ ڈبڈبائی نظروں کے ساتھ ایک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھے۔
کیا اب ساری زندگی یو نہی گزر جائے گی ایک دوسرے کے غموں کا بوجھ اُٹھا تے ہوئے،اور وہ زندگی کہاں چلی گئی جو ہم پہلے جیتے تھے کچھ شاداںو فرحاں کچھ ہلکے پھیکے خوش نما رنگوں کے سنگ جن میں شادمانی تھی اور کچھ میٹھے غم تھے مگر اب نہ تو وہ خوشیاں رہی ہیں اور نہ ہی وہ ناچتے گاتے خوشی بھرے لمحات اور تو اور وہ غم بھی اب کب کے رُخصت ہو چکے جو میٹھا درد رکھتے تھے۔اب تو یہ کوئی اور دکھ ہیں جو جان کو چمٹ گئے ہیں اور مسلسل چمٹے ہوئے ہیں۔کاش کہ یہ اپنے اندر اتنی کڑواہٹ اتنا زہر نہ رکھتے کہ رشتے ہی کانچ کی طرح ٹوٹ جاتے اور جن کا بھرم نو کیلے سروں سا نہ ہوتا تو یہ کم از کم دلوں کو تو کر چی کر چی نہ کرتے۔آہ ۔۔دکھ سے بھرپور ایک ٹھنڈی سانس اُس کے منہ سے نکلی تھی۔کچھ آنسو لڑھک کر اُس کی گالوں پر بہہ گئے تھے۔
دونوں وکیل ابھی بھی اُسی توانا ئی کے ساتھ اپنے اپنے کلا ئنٹ کا دفا ع کرنے میں مصروف تھے اور جج اپنی جما ئیاں روکتے ہوئے کبھی کبھی بیچ میں اور رولڈ یا پروسیڈ جیسے الفاظ کہہ کر جیسے اپنی ذمہ داری پوری کر کہ پھر سے اپنی گول گول قدرے اندر کو گھسی چنی آنکھوں کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے وکیل کو غور سے سننے لگتا تھا۔
آہستگی سے اپنے ہاتھوں کی پشت سے گالوں پہ آئے آنسو صاف کرنے کے بعد اُس نے اپنے ساتھ بیٹھی عورت کی طرف دیکھا تھا۔اپنے جھریوں زدہ چہرے سے وہ بھی بار بار اپنے آنسوؤں کو صاف کر رہی تھی مگر ساتھ ساتھ کچھ پڑھتے ہوئے وہ مسلسل مجرم کی طرف پھونکیں مارنے میں مصروف تھی۔یہ جیسے حفا ظتی تدبیر تھی،اب اﷲ کرے گا جو کرے گا حالانکہ وہ جانتی تھی پہلے بھی جو ہوا وہ اﷲ ہی کی رضا سے ہوا تھا مگر تب دل اور نفس دونوں بغاوت پر مائل تھے وہ اس بات کو بھی جانتی تھی مگر دعا مانگنا کون چھوڑ سکتا ہے اور ایک ماں تو بالکل نہیں اور وہ ایک ماں تھی ایک مجرم کی ماں۔۔۔جو اپنے بیٹے کو خطا وار جانتے ہوئے بھی جیسے انجان بن جانا چاہتی تھی اور ساری زندگی اُس کی رہنما ئی کرنا نہ چھوڑنا چا ہتی اگر وہ رہنمائی لینا چاہتا تو۔۔۔
” عورتیں کہاں عدالتوں کے دھکے کھانے جاتی ہیں یہ تو دونوں ساس بہو ہے ہی ایسی ۔۔شوق ہے ان کو لور لور پھرنے کا۔ارے جب گھر کا مرد جیل میں تھا تو خاندان والے مر گئے تھے کیا بُلا لیتیں کسی کو ،اتنی کیا مصیبت تھی کہ خود فیصلے سننے جاتیں پھرتیں۔
اُس کی وہ جھریوں زدہ ماں جو اب بار بار دوپٹے سے اپنے آنسو رگڑ رہی تھی ماضی میں کسی اور کا مذاق اُڑایا کر تی تھی۔کون جانتا ہے کس پر کونسا وقت کب آ جائے۔
آواز ابھی بھی اُس کے کانوں میں گو نج رہی تھی۔”ڈھونگ ہیں یہ سارے مردوں کے بیچ اُٹھنے بیٹھنے کے۔۔۔” آج وہ خود انجان مردوں میں گھری بیٹھی تھیں۔اُس کا دل مزید بُرا ہوا اور بے حد بے رحمی کے ساتھ اُس نے رُخ مو ڑ لیا اور سامنے دیکھنے لگی جہاں بلآخر فیصلہ سنا یا جانے لگا تھا۔جج نے اپنی مو ٹے فریم والی عینک آنکھوں پہ دھر لی تھی اور اپنے سامنے پڑے کا غذ سے وہ چند رسمی سطریں پڑھنے لگا تھا۔
وہ سنجیدہ سی صورت بنا ئے سیدھی ہو بیٹھی تھی ساتھ والی کرسی پر برا جمان اُس کی ماں بھی قدرے آگے کو ہو کر بیٹھ گئی تھی اور کچھ بے چینی سے تیز تیز ساتھ ساتھ کچھ پڑھتی بھی جا رہی تھی۔
تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے۔۔۔
ناخن کترتا اُس کا ہاتھ نیچے ڈھلکا تھا اور وہ بے اختیار پیچھے کو ہو بیٹھی تھی۔اور اُس کی ماں آنکھ بند کیے آنسوؤں کی لڑیوں کہ ساتھ سانسیں بھر رہی تھی اور وہ۔۔۔کٹہرے کی ریلنگ پر ہاتھ رکھے ابھی بھی سر گرا ئے کھڑا تھااور اُس کی آنکھیں ابھی بھی وہ دیکھنے سے قاصر تھی جن کی تحریر وہ اب ساری زندگی نہیں پڑھنا چا ہتی تھی۔
()٭٭٭()
” کاویر تم کیا سوچتا اے؟” شہتوت سے لدے درخت کی ٹہنیوں کو تھامے وہ پکے ہوئے کالے شہتوت ڈھونڈ رہا تھا،اُس کے پاس درخت سے ٹیک لگا ئے کاوش سوچ میں گم تھا اور کچھ پریشان نظر آتا تھا۔” بس یو نیو رسٹی میں داخلے کا سوچ رہا تھا۔پتہ نہیں ملے گا بھی یا نہیں۔”
” تجھے تو مل ہی جا ئے گا یاررر۔۔یہ ام ای ہیں جو بی ۔اے بھی مشکل سے کیا اے۔” بہادر خان نے دانت نکالتے ہوئے اُس کی طرف دیکھ کر کہا اور ٹہنی نیچے کیے چُن چُن کر شہتوت کھانے لگا۔” مل تو جائے گا پر میں لا ہور کی یو نیورسٹی جا نا چاہتا ہوں۔”
لاہور کو چھو ڑ ،پشاور میں ہی لے لو داخلہ۔آنے جانے میں بھی آسانی رہے گی۔” بہادر کاویر کا سب سے بہترین دوست تھا۔اس لیے اُسے بلا جھجک مشورہ بھی دے رہا تھا۔”ایسا کیا ہے وہاں جو تم اتنی دُور جانا چاہتاہے؟” مٹھی بھر شہتوت اُس نے کاویر کے سامنے کرتے ہوئے پوچھا۔” میرا خواب ہے بس۔۔” کاویر نے ایک شہتوت اُٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔” بس تو دعا کر لسٹ میں نام آ جائے ،کل لگ رہی ہے۔” شہتوت کے باغ میں سے نکلتے ہوئے اور واپس پہاڑ پر چڑھتے ہوئے وہ بہادر سے کہہ رہا تھا۔” کل لگ رہی ہے تو تجھے کیسے پتہ چلے گا کہ تیرا لسٹ میں نام آگیا ہے؟” ” وہاں ہے ایک دوست وہی بتا ئے گا۔” اُن کا گھر آگیا تھا ہاتھ ہلا کر وہ اپنے اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔
” آگیا تم ؟ کاویر یہ خوبا نیوں کے بیج الگ کر و ذرا ،مجھے ان کو چولہے پر رکھنا ہے ،پھر ابی ام کو پنیر بی بنا نا اے۔جلدی آؤ۔” گُل مکئی اُسے اندر آتے دیکھ کر جلدی جلدی بول رہی تھی اور ساتھ ساتھ کام بھی نپٹائے جا رہی تھی۔
” کئے(بہن)؟ سال کتنی جلدی جلدی گزر جاتا ہے نا۔۔ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے جب سب یہاں بیٹھ کے پھل چُنا کرتا تھا، پشمینہ اور دیوہ کی بھی شادی ہو گئی زرمستہ بھی پشاور چلی گئی پڑھنے اب تم بھی شادی کرکے چلی جاؤ گی۔” کا وش اُداس سا بیج الگ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔پشمینہ ہنس پڑی اور پیار سے کاوش کے سر پر ایک چپت رسید کی۔” میں کونسا دُور جا رہی ہوں یہ نیچے ہی تو جا رہی ہوں اور دیوہ اور پشمینہ بی یہیں ہیں ۔” جیسے ہی پرات میں بیج سے خالی خوبانیوں کی تعداد بڑھنے لگی گل مکئی نے اُنہیں ایک بڑی مٹی کی کڑا ہی میں پانی کے ساتھ اُبلنے کو رکھ دیا۔” ہاں مگر تم شادی بنا رہا ہے دُر (گھر) سے تو چلی جا ئے گا نا ۔” کا وش ابھی بھی اُداس تھا اور یہ چیز اُس کے چہرے سے بھرپور طور پر عیاں ہو رہی تھی۔’ ‘ اگر تم اس کام کا سوچ رہا ہے تو یہ بھی ہو جائے گا پشمینہ اور دیوہ بھی تو آ جاتی ہیں یہ سب بنانے کو ، میں بھی آ جایا کروں گی۔” گُل مکئی کا اشارہ اپنے سامنے پھیلے پھلوں کی طرف تھا جن کے وہ مربعے بنانے میں مصروف تھی۔” اور پھر زرمستہ بھی آرہی ہے اگلے مہینے ،پڑھا ئی ختم اُس کی۔” گُل نے ہنس کر مزید اضافہ کیا۔کاوش خوبانیوں سے فارغ ہونے کے بعد دھیمی آنچ پر اُبلتی خوبانیوں کو لکڑی کے چمچ سے دبانے لگا۔” ایک آئے گا تو دوسرا چلا جائے گا۔” کاویر نے اپنے دل میں سوچا مگر اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔
” یہ باباخان اور ھوسئی ماں کدھر غائب اے، نظر نہیں آتا۔” کاوش کو شاید پہلی بار اُن کی غیر مو جودگی کا احساس ہو اتھا اور وہ فورا ً ہی پو چھ بیٹھا۔” نیچے گیا اے وادی تک۔۔گُل نے جھک کر لیمو ں کے قطرے کڑاہی میں نچوڑے ، دیوہ کے بچوں کو بہت یاد کرتا تھا دونوں تبھی اُس کے دُر(گھر) گیا اے۔تم بتاؤ اتنا اُداس کیوں ہوتا ہے آج؟” چمچ چلاتے ہوئے کاویر مسکرا اُٹھا۔” کل بتا ئے گا۔”
()٭٭٭()
” میں سوچ رہا ہوں کوکو کی ماں دکان پہ جہاں مٹھا ئیاں اور لسی وغیرہ بیچتا ہوں وہیں ناشتہ بھی بیچنا شروع کردوں۔” کوکو نے رسالے سے اُٹھا کر اپنے باپ کی جانب دیکھا۔جو اپنے کندھے سے صافہ اُتارتے ہوئے چارپائی پر بیٹھا تو وہ چرمرانے لگی اور چاول چنتی ہاجرہ سے کہا۔” کیوں کیا ہوا؟ اچھی خاصی تو کما ئی ہے ما شااﷲ سے۔” شریف نے سر ہلا یا ۔” ہاں اﷲ کا کرم ہے۔” اگلے ہی لمحے ہاجرہ نے فخر سے کہنے لگی۔” ہمارا عادل بھی اب تو افسر لگ گیا ہے بڑی اچھی تنخواہ ہے اُس کی۔” کوکو نے ہاجرہ کے چمکتے چہرے کو دیکھا جو عادل کے ذکر سے کھل اُٹھا تھا۔” اسی لیے تو چاہتا ہوں کہ عالم ،علیم بھی کچھ زیادہ کمانے لگیں ۔جانتا ہوںوہ اپنے کام سے محبت ضرور کرتے ہیں مگر بڑے بے وقوف ہیں جانے میرے بعد کیا کریں گے۔” کوکو کا دل دہل گیا کچھ ایسا ہی ہاجرہ کے ساتھ بھی ہوا۔” اﷲ نا کرے آپ کو کچھ ہو کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔” ہاجرہ نے نا راضی سے کہا۔” آج کل بڑا ڈرتا ہوں میں ،اسی لیے چاہتا ہوں کہ کو ئی بندوبست کر جاؤں تم لوگوں کا۔” کوکو سے مزید سنا نہیں گیا وہ صحن کے دائیں طرف سے نکلتی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی فورا ً اُٹھ آئی۔” ابا جی آپ ایسی باتیں نا کیا کریں۔ڈر لگتا ہے مجھے۔” اُس نے شریف کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔شریف ہنس دیا۔” اب تو میری بیٹی اتنی بڑی ہو گئی ہے ڈرتی ہوئی اچھی لگے گی بھلا۔” کوکو کی آنکھ میں جو آنسو جمع ہو رہے تھے اُنہیں اندر دھکیلتے ہوئے وہ ہنس پڑی۔
مگر شریف جو سوچ رہا تھا اُس کی تکمیل نہ ہو پائی ۔اپنے بچوں کے لیے بہتر انتظام کی جو خواہش اُس کے اندر تھی وہ اُس کی موت کے ساتھ ہی دم توڑ گئی وہ جو ڈرتا تھا تو ٹھیک ہی ڈرتا تھا۔شریف ایک ٹریفک حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا ،دور دور سے لوگ اُس کے جنازے میں شریک ہوئے تھے ،اُس کے دودھ،مٹھائیوں اور مکھن بھری خالص لسی کا ذائقہ اُنہیں بھلائے نہیں بھولتا تھا اور وہ اُس کے دُنیا سے چلے جانے پر دکھ سے آہ و فغاں کرتے تھے ، بڑی تعداد میں لوگوں نے اُس کے جنازے کو کاندھا دیا تھااور اس طرح وہ بہت سے خوش قسمت لوگوں کی طرح اپنے آخری سفر کو رخصت ہوا تھا بہت سے لوگوں کے ایصا ل و ثواب پہنچاتے ورد کرتے ہونٹوں کے ہمراہ،وہ خوش قسمت تھا کہ لوگ جو ق در جوق اُس کے جنازے میں شریک ہوئے تھے،جیسا کہ بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں ،مگر اپنے پیچھے وہ اپنے ایسے بیٹے کو سربراہ کے طور پر چھو ڑ گیا تھا جس میں ایک گھر کو خوش اسلوبی سے چلانے کی صلاحیت ابھی نہیں تھی۔
()٭٭٭()
” اچھا تو یہ وجہ تھا تمارا اُداس ہونے کا۔ام بھی سوچ رہا تھا بیٹھے بیٹھا ئے تم اماری شادی کو لے کر اتنا غمگین کیسے ہو گیا۔” گُل مکئی اُس کا کان مروڑتے ہوئے اُس کے لتے لے رہی تھی ۔مگر سراسر شرارت بھرے انداز میں۔۔۔
” کئے چھو ڑو ۔۔” کاوش نے چلاتے ہوئے بمشکل اپنا کان اُس کے ہاتھوں سے چھڑوایا ۔ھو سئی ماں اور باباخان بھی قریب ہی بیٹھے دونوں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔” جب ام چلا جائے گا پھر تم ام کو یاد کرے گا۔” اپنا کان سہلاتے ہوئے کاوش نے اُس سے کچھ نا راضی سے کہا۔” وہ تو ام کرے گا ہی۔” گُل مکئی بھی کچھ غمگین ہو ئی۔” کتنا جلدی بڑا ہو گیا ہے ہمارا کاوش۔” ھو سئی ماں نے بھیگے لہجے میں کہا۔کاوش نے اُنہیں ساتھ لگا لیا اور اُن کا ماتھا چوم لیا جب باباخان نے اُس سے کہا۔
” اب تم اتنا ضد کر کے لا ہور کی یو نیورسٹی میں جاتا اے تو دل لگا کے پڑھنا وہاں پر ۔امے بھی تو پتہ چلے کہ تمارا فیصلہ غلط نہیں تھا۔” باباخان نے قہوے کا سپ لیتے ہوئے اُسے چیلنج کرتے ہوئے انداز میں نصیحت کی جسے کاوش نے مسکرا تے ہوئے سُنا۔” باباخان ام دل لگا کے ہی پڑھے گا آپ فکر مت کرو۔”
” کھانا پینا ٹھیک سے کرنا اے وہاں پہ، سمجھ آئی تم کو؟” ھو سئی ماں نے ماؤں والی فکر مندی ظاہر کی۔” اب کھانے پینے کا تو ام کچھ نہیں کہہ سکتا جو ہو سٹل میں ملے گا وہی کھائے گا نا۔” کاوش نے ناک سے مکھی اُڑائی۔
” ام آج ہی نکلے گا ۔ کل تک لا ہور پہنچ کر اپنی فیس ویس جمع کرائے گا پھر واپسی پر پشاور سے زرمستہ کو لیتا ہوا آئے گا ۔” کاویر نے اپنا پروگرام بتایا۔” اما ری شادی پہ تو تم یہیں پہ ہوئے گا نا؟” گُل مکئی نے لا ڈ سے پوچھا۔” آں۔۔تماری شادی کا پلاؤ کھا کہ جائے گا تم فکر مت کرو۔” وہ ہنس کر کہہ رہا تھا گُل مکئی نے پھر سے اُس کے کان مروڑے کاوش اُسی طرح چلاتے ہوئے اُسے رُوکنے لگا۔
” ملنگ مو ش اے یہ دونوں ۔” ھو سئی نے پیار بھری خفگی سے کہا اور پھر سے قہوہ سڑکنے لگیں۔
()٭٭٭()
”اماں باہر تو بڑی عجیب سی ہی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔” بڑے کشادہ صحن کے قدرے بائیں طرف عین سیڑھیوں کے نیچے عالم واش بیسن میں ہاتھ دھونے میں مصروف تھا اور ساتھ ساتھ بلند آواز میں اطلا ع بھی دے رہا تھا۔”کیسی باتیں؟” ہاجرہ جو توے پر روٹی ڈالے بیٹھی تھی پریشانی سے رُخ مو ڑ کر اُس کی طرف دیکھ کر تشویش سے پوچھنے لگی تھی۔
شریف کی موت کے بعد وہ لوگ بمشکل سنبھلے تھے ۔یہ سب اُن کے لیے بڑا اچانک تھا ۔گھر کا سربراہ ایک دم سے رخصت ہو گیا تھا ۔اُن سب کا باپ جو گھر کا رکھوالا تھا اُس کے بغیر زندگی کیسے گزارتے وہ مگر یہ زندگی کسی نا کسی طرح گزارنا ہی تھی چنانچہ وہ دھیرے سنبھلنے لگے مگر تب تک ایک نئی مصیبت اُن کے لیے تیار ہو چکی تھی۔
”کافی عرصے سے علاقے میں کچھ بندے چلتے پھرتے نظر آتے تھے جیسے زمین کا جا ئزہ لے رہے ہوں،اُس نے تو لیے سے منہ پو نچھتے ہوئے کہا ،پر آج تو وہ سول سوسا ئٹی والوں کے پاس بیٹھ کہ عجیب ہی بات کہہ گئے۔” ہاجرہ نے چمٹے سے روٹی کا کونا پکڑے تیز جلتے شعلے پر رکھ دیا تھا۔ آٹے کی سوندھی خو شبو سارے میں پھیل گئی تھی۔
” وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر پُل بنے گا اور ائیر پورٹ کو جانے والا انڈر پاس۔” تولیہ پا ئینتی پر رکھ کر وہ پھیل کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ہاجرہ نے کھانا لا کر اُس کے سامنے رکھا تھا۔” ہیں یہاں پر انڈر پاس؟ یہاں پر کیسے بنے گا پُل اور سڑکیں اتنے کار(گھر) ہیں یہاں پہ کو ئی مذاق تھو ڑی ہے۔” دوپٹے کے پلو سے گردن اور چہرے پہ آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔
”ہاں باہر بھی سارے بندے یہی کہہ رہے تھے ،نوالا اُس کے منہ میں تھا اور وہ اُسی بھرے ہوئے منہ کے ساتھ بول رہا تھاساتھ ساتھ چبا بھی رہا تھا،پر اماں سو سائٹی والو ں کو یہ مذاق نہیں لگا اُنہوں نے علاقے کے چند معزز لوگوں کو ایک کاغذ دکھایا جس میں لکھا تھا کہ حکومت کے پاس یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے زمین واپس لے سکتی ہے اور وہاں کو ئی بھی کام شروع کر وا سکتی ہے اور یہ بھی کہ بہت جلد یہاں پہ کام شروع کر دیا جا ئے گا۔”
”آئے ہائے ایسے کیسے کام شروع کر دیں گے وہ۔ہمارے گھر ہیں کاروبار ہیں۔” ہاجرہ تو با قا عدہ آپے سے باہر ہو رہی تھی۔” پر میں کہتی ہوں اگر یہ بات اتنی ہی سچی ہوتی تو مسجد میں اعلان نہ ہوتا،کو ئی ہمیں اطلاع دی جاتی ۔۔اور تو اور خبروں میں بھی کو ئی ایسی ویسی بات سننے کو نہ ملی۔” وہ اب قدرے اطمینان سے ٹانگیں اُوپر کر کے چارپائی پر بیٹھ گئی تھی۔
” ہاں یہ تو ہے اماں۔” عالم نے بھی سر دھنا تھا۔” میں کہتی ہوں نری چھو ٹ (جھوٹ)ہے یہ خبر۔ہوں گے کو ئی فرا ڈیے کہیں سے پیسے نا ٹھگے گئے تو آ گئے ادھر۔” عالم ہاتھ پو نچھتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔” اچھا اماں میں جا رہا ہوں وا ڑے پہ۔” ”اچھا پتر خیر نال جا۔”ہاجرہ بھی برتن اُٹھا تی اُٹھ گئی تھی اور ساتھ ساتھ اُس کی بر براہٹ جا ری تھی۔”ہنہ آئے بڑے گھر خالی کر وانے والے۔”
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!