نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

”یہ پراجیکٹ تب تک شروع نہیں ہو گا جب تک آپ لوگ راضی نہیں ہو جاتے۔جب تک آپ لوگوں کی مرضی شامل نہ ہوگی اور آپ کو آپ کا جائز حق نہیں مل جائے گا یہاں حکومت کچھ نہیں کر سکے گی۔حکومت آپ کو وہ دے گی اس کے بدلے جو آپ سب چاہیں گے،پیسہ،گھر،زمین جو آپ چاہیں۔اگر گھر کے بدلے گھر چاہیے تو وہ اس سے کہیں اچھا ملے گا،اُس نے ہاتھ چلا کر چھت کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا،اگر ان سب کے بدلے آپ کو پیسہ چاہیے تو وہ آپ کو دوگنا ملے گا۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ابھی تو آپ کا صرف یہ گھر جائے گا اور چند دوسری بنیادی چیزیں جو آپ کے پاس ابھی فی الحال موجود ہیں لیکن ان سب کے جانے کے بعد آپ کو ملے گا دوگنا پیسہ۔۔ایک ڈرا ما ئی خا مو شی اختیار کی گئی، جس سے آپ کسی بہت اچھے علاقے میں گھر تو کیا بنگلہ بھی خرید سکیں گے۔اور وہ بنگلہ یقینا اس گھر سے بہت اچھی حالت میں ہو گا یہ تو آپ اندا زہ کر ہی سکتے ہیں۔” اُس نے سبز باغ دکھانے شروع کیے تھے۔
” جب پیسہ ہو گا تو معاشرہ ہاتھ اُٹھا کے سلام کرے گا پھر کو ئی مسئلہ نہیں ہوگا آپ سکون سے اپنی زندگی بسر کر سکیں گے۔لوگ آپ کے ساتھ رشتہ جوڑنے میں بھی کو ئی عار محسوس نہیں کریں گے۔غالباً چار بچے ہیں نا آ پ کے اور اُن میں سے کسی کی بھی ابھی شادی نہیں ہوئی۔اور اگر آپ لوگ کو ئی خطرہ مول لیں گے اس پراجیکٹ کے سر براہان کے ساتھ تو سوچیں آپ کے بچے ۔۔وہ کس کس مشکل میں نا گر فتار ہو جا ئیں گے۔” اب اُس نے جذباتی وار کیا تھا۔” اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں نا آپ؟” سوال یقینا جواب کے لیے نہیں کیا گیا تھا۔
”اور پھریہ بھی تو دیکھیں نا آپ لوگ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ملک کے لیے قربانی دینے کا مو قع مل رہا ہے آپ کو۔آپ کو تو نہ سیا چن جانا پڑ رہا ہے نا پر خطر مقامات پر۔آپ کو تو گھر بیٹھے صرف اپنا گھر ہی تو پیش کرنا پڑ رہا ہے،ایک بھاری بھر کم انعام کے ساتھ۔”انداز نہایت لگاوٹ لیے ہوئے تھا۔
” لیکن اگر آپ لوگ گھر خالی نہیں کرتے تو بھی حکومت کو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔” آخر میں لہجہ سراسر دھمکی آمیز تھا۔” یہ زمین جس کو آپ اپنا مانتے ہیں یہ دراصل آپ کی نہیں تھی کبھی بھی۔۔حکومت آپ سے کسی بھی وقت یہ جگہ خالی کروا سکتی ہے کسی ڈویلپمنٹ پرا جیکٹ کے لیے۔چنا نچہ اگر آپ یہ سوچیں کہ گھر خالی نہیں کریں گے حکومت کو جو کرنا ہے کر لے تو حکومت واقعی وہ کرے گی جس میں نقصان سراسر آپ کا ہو گا۔اور اس صورت میں آپ کو پیسہ بھی کم ملے گا اور compensation بھی آپ کی مرضی کی نہیں ہو گی۔اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ امیر ہونا ہے اور معاشرے میں نام بنا نا ہے یا اس گھر سے جڑی پُرانی یادوں کو سینے سے لگا ئے پھرتے رہنا ہے اور ہاتھ بھی کچھ نہیں آنا۔” ایک آخری چال۔۔۔دھمکی سے پُر۔۔
سب اُس کالے کوٹ میں ملبوس پکے نقوش والی خاتون کے سامنے دم سادھے بیٹھے تھے جس کے ہر انداز میں اُن کے لیے ہمدردی تھی اور وہ یوں ظاہر کرتی تھی جیسے وہ اُن کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔
اب وہ اُنہیں resettlement کے فوائد بتا رہی تھی کہ کس طرح لا اینڈ آڈر ہر قدم پر اُن کی رہنمائی کرے گا اور اُن کے rehabilitation کے دوران آنے والے مسائل کو دور کریگا۔
وہ اُن کے سامنے پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے بیٹھی تھی اور اُن ہی کی زبان میں بہت گھل مل کر اُن سے باتوں میں مصروف تھی۔اور اس ڈیڑھ گھنٹے میں وہ اُن کے ساتھ ہر طرح سے کھیل چکی تھی۔کچھ جذباتی کچھ مخلصانہ کچھ ہمدردانہ اور کچھ دھمکی آمیز۔وہ رگ پکڑ چکی تھی اور ایسا وہ اس لیے کر چکی تھی کیونکہ وہ project affecteesتھے اور جن کی زمین کبھی بھی حکومت ہتھیا سکتی تھی۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ زمین پر آرام دہ حالت میں بیٹھی تھی اور اپنے ہاتھوں موجود کھوئے سے بھر ی نرم بر فی کو مزے سے کھانے میں مصروف تھی۔عالم اُس کے بالکل پیچھے بیٹھا اُس کے لمبے گھنے بالوں کی پونی بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔بال گھنے تھے اور اس قدر تھے کہ اُس سے سنبھلنا مشکل تھے مگر وہ اپنی چھو ٹی اور اکلوتی بہن کے ناز نخرے بلا جھجھک اُٹھا یا کرتا،اُس کی کو ئی فر مائش رد نا کرنا جیسے اُس پر لازم تھا۔بلکہ اُس پر ہی نہیں تینوں بھائیوں کے لیے۔ہاں اُس کا تیسرا بھائی۔۔ عادل،عالم سے چھو ٹا اور علیم سے بڑا۔شریفے ملا ئی والے کے یہ تینوں بیٹے دو اور ڈھا ئی سال کے فرق سے پیدا ہوئے تھے۔اور اُن سب سے آخر میں کوکو۔
سی۔۔۔بھائی آپ آرام سے بھی کر سکتے ہیں نا۔۔پوچھا نہیں گیا تھا دھونس جما کر بتا یا گیا تھا۔وہ ایسی ہی تھی لاڈوں میں پلی ہوئی کچھ چڑچڑی کچھ نخریلی کچھ نک چڑی جس کی ہر فرمائش کو آنکھ بند کر کے پورا کیا جاتا۔
اُسے لمبے بال پسند تھے مگر لمبے بالوں کے ہزار ہا نخرے نہیں اس لیے وہ اُنہیں سرا سر دوسروں کے سر پر تھوپے ہوئے تھی۔وہ آم کھاتی تھی پیڑ نہیں گنتی تھی۔امی سے وہ بالوں میں ناریل کے تیل کی مالش کرواتی بلکہ وہ خود ہی اُس کی اجڑی حالت دیکھ کر شیشی پکڑ کر اُسے اپنے سامنے بٹھا لیتیں اور جب وہ اُس کے گھٹنوں تک آتے بالوں کو اچھی طر ح چو پڑ دیتیں اور ایسا کرتے کرتے جیسے وہ خو د نڈھال ہو جاتیں تو یہاں پر خود اُس کا امتحان شروع ہو جا تا۔بالوں میں پڑی اُلجھنیں نکالتے ہوئے وہ تقریبا رو پڑتی مگر بال تھے کہ ختم ہونے میں نہ آتے تب وہ اپنے بھا ئیوں میں سے کسی ایک کے سامنے جا کر ٹک جاتی اور مزے سے بال سلجھا کر چوٹی بنا لیتی۔
کھوئے سے بھرے ٹکڑے کو چاٹ جانے کے بعد اُس نے پرات میں سے ایک اور ٹکڑا اُچکا تھا ۔اُسکی ماں نے خفا نظروں سے اُسے دیکھا تھا،بے بر کتی ہوتی ہے ایسے بیچ میں سے اُٹھانے سے کتنی دفع سمجھا یا ہے۔”اماں کھانے دیں نا کچھ نہیں ہوتا۔” بال بنا نے کے بعد وہ اندر کچن میں پڑے بڑے ڈائیننگ ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئی جہاں اُس کی ماں طرح طرح کی مٹھائیاں بنانے میں مصروف تھی۔ عالم بھی ہاتھ دھو کر وہیں آ گیا تھا اورسامنے پڑے بے شمار برفی کے بے ترتیب ڈھیر سے شیپڈ برفی بنانے لگا تھا، اور محبت پاش نظروں سے بہن کو دیکھتے ہوئے اُس نے کہا تھا،مسکراتے ہوئے وہ چپڑ چپڑ کھانے لگی ۔
دروازے پہ آہٹ ہوئی تھی۔ہاجرہ جلدی سے ہاتھ پو نچھتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے تک گئی ۔” آ گیا میرا بیٹا پڑھ لکھ کر؟”ہاجرہ جیسے خوشی سے کھل اُٹھی تھی۔لیکن عادل کا منہ بگڑا تھا۔سامنے پڑے دودھ کے دیگچوں اور مٹھا ئیوں کی پراتوں سے اُس کا جی اُلٹا تھا۔ہر وقت یہی سب کیوں آنکھوں کے سامنے؟؟ گھر میں جہاں دیکھو دودھ،دہی ملائی اور جہاں یہ نظر نہیں آتے وہاں مٹھا ئیوں کے ڈھیر۔اُ س کا دل بھر سا جاتا تھا اُن سب چیزوں کو دیکھ کر جو نعمت تھیں اور جن کو وہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا اور جو نعمتیں ایک بار روٹھ جائیں تو۔۔۔وہ نہیں جانتا کیا ہو گا بس یہ سب غا ئب ہو جائے کسی بھی طرح۔اور پھر اُسے اپنے گھر کے کسی کونے میں سفیدی نظر نا آئے ۔وہ سفید رنگ سے چڑنے لگا تھا بچپن سے لے کر جوانی تک اُس نے اپنی زندگی میں دودھ کی سفیدی دیکھی تھی۔اُس کا باپ صبح جب تازہ دودھ نکالتا تو کا ڑھ کر سب سے پہلے اپنے بچوں کو پلاتا ،وہ نہیں پینا چاہتا تھا اور صاف منع کر دیتا تھا ۔وہ دودھ سے نفرت نہیں کرتا تھا وہ اُس ما حول سے کرتا تھا جہاں ہر وقت بھینسوں اور دودھ دہی کی باتیں ہو تی تھیں وہ اپنے باپ سے دور بھا گتا تھا جس سے ہمہ وقت بھینسوں اور دودھ کی مخصوص بو آتی تھی۔اُس کے خیالوں میں ایک ایسا باپ تھا جو سوٹڈ بو ٹد تھا اور جو میز کرسی پر بیٹھ کر کام کرتا تھا نہ کہ دوکان میں گلے میں صافہ ڈالے گلاس کے گلاس بھر بھر کر دیتا تھا۔اُسے یہ باپ نہیں چاہیے تھا جو بھینسوں کے قدموں میں بیٹھا دودھ دھو تا تھا ،عادل سخت بد مزہ ہوا اور ناک پہ ہاتھ رکھے وہاں سے ہٹ گیا ۔
”پڑ ھ آیا ہوں مگر آپ لوگ وہیں بد بو سے رچے بیٹھے ہیں۔” حقارت سے کہتا وہ لمبے لمبے ڈنگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا اور زور سے دروازہ بند کیا تھا۔ہاجرہ کے جیسے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔عادل اُس کا لا ڈلا بیٹا تھا ۔وہ اُس کے دونوں بیٹوں سے کہیں کم صورت تھا اور نہ ہی کماؤ تھا مگر۔۔وہ پڑھ رہا تھا اور ماؤں کے دل میں پلنے والا وہ خواب’ میرا بیٹا افسر بنے گا ‘عادل کو دیکھ کر ہاجرہ کے دل میں زور پکڑ لیتا اور وہ اُس کے سب سے زیادہ نخرے اُٹھا تی اپنی اکلوتی بیٹی سے بھی زیادہ۔اب بھی وہ اُس کے پیچھے بھا گی بھا گی کمرے میں پہنچ گئی تھی۔
” ہنہ۔۔پڑ ھا ئی کا یہی مطلب ہے نا نعمتوں کو ٹھو کر مارو اور دینے والے سے شکوے شکایت کرو۔” عالم منہ ہی منہ میں بڑ بڑ ا یا تھا۔” شکر ہے مجھے پڑھنے کا شوق نہیں ہے ۔” موتی چور لڈو بنا کر اُس نے اختیاط سے ٹرے میں رکھا تھا اور چاندی کا ورق نکال کر دلجمعی سے لڈو پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔” نہیں میری بہنا تم شوق کے بغیر بھی ویسی ہی ہو”۔عالم شررات سے بڑ بڑا یا تھا۔”کیا۔۔؟” خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے وہ اُس پر جھپٹنے کو تیار تھی مگر پھر۔۔” ہاں میں تو ایسی ہی ہوں ” اور اُٹھا کر لڈو اپنے منہ میں غائب کر لیا۔عالم ہکا بکا تھا اور وہ کھکھلا کر مزید اضا فہ کر رہی تھی۔” ہاں مگر مجھے دود ھ بہت پسند ہے ۔” اُس نے صاف عادل پرچوٹ کی تھی اور دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے تھے ۔
” ویسے بھا ئی مجھے پتہ ہے پڑ ھا ئی یہ نہیں سکھا تی جو عادل بھا ئی سیکھ رہے ہیں۔” کچھ سنجیدہ ہوتے ہوئے وہ بولی تھی۔” ہاں ہاں جانتا ہو ں میں بھی۔ مگرتم کب سے سنجیدہ بی بی بن گئی ہو ہاں۔۔۔؟ گھر اُن دونوں کی ہنسی سے بھر گیا تھا اوریہی وہ وقت تھا جب سب ٹھیک تھا اور ابھی دکھوں اور آزما ئشوں کا وقت اُن پر نہیں آ یا تھا۔
()٭٭٭()
وہ وادی بریر کے اُونچے پہاڑوں سے نیچے اُترتا تھا۔پہاڑوں کے درمیان بنے اُونچے نیچے کچے راستے پروہ کسی پہاڑی بکرے کی طرح مستی سے بغیر جھجکے مزے سے اُترتا تھا اور جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت گل بوٹوں سے سجی ٹوکری تھی ،جب وہ اُچھل کر ہوا میں ایک جست بھرتا تو ٹوکری کا ایک حصہ نظر آنے لگتا۔وہ حصہ خون سے رنگا ہوا سا لگتا تھا اگلے ہی سیکنڈ جب اُس کے پاؤں دوبارہ زمین پر پڑتے تو وہ لال خون نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔
پہاڑپر ارغوانی رنگ بچھا تھا اور اُس کے قدموں کے نیچے پھول بچھے تھے وہ جتنی بھی اختیاط برتتا وہ اُس کے قدموں کے نیچے آ ہی جاتے۔جیسے ہی وہ تھوڑا اور نیچے آیا پہاڑ کے ساتھ ساتھ راستے پر اکا دکا مقامی لوگ نظر آنے لگے اور پھر وہ قدرے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ جا بجا دکا نیں اور ٹورسٹ نظر میں آنے لگے۔
یہ سب دکانیں اُس کی اپنی تھیں یا یوں کہنا چاہیے یہ سب لوگ اُس کے اپنے تھے۔اور یہ وادی اُن سب کی تھی جہاں وہ ایک سا مذہب نا ہونے کے باجود بھی ایک سے بن کر رہتے تھے۔
سب سے پہلے ایک جیولری شاپ آئی تھی جو مقامی زیورات سے بھری پڑی تھی اور جہاں غیرملکی گوری چٹی عورتیں تادیر کھڑی رہتی تھیں۔اُس نے زرمستہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔دکان کے باہر لٹکتے رنگ برنگے ہاروں سے ہوتی ہوئی اُس کی نظر اندر گروپ کی صورت کھڑی دو تین گوری میموں تک گئی تھی۔
How much is it? کالاشا فراک میں ملبوس وہ دونوں چھو ٹی لڑکیاں مشکل میں نظر آئیں تھیں۔غیر ملکی ٹورسٹ جس کے گال ٹما ٹر سے سرخ تھے اور وہ اپنی جدید تراش خراش کے باوجود بھی ایک عام کالاشا لڑکی سے زیادہ خوبصورت نہیں تھی، نے اُن کی مشکل کو بھانپتے ہوئے فیروزی پتھروں سے بنے خوب صورت آویزوں کو ہوا میں بلند کیا تھااور ہاتھ سے اشارہ کرکے پوچھنے لگی۔
بچیاں جو اپنے سر پر تکو نی ٹوپیاں رکھے ہوئے تھیں اور جن کو وہ رنگ برنگے چترالی پرندوں کے خوب صورت پروں سے سجاتی تھیں، اب بھی اُلجھن میں نظر آتی تھیں اور کھوار زبان میں زرمستہ کو خوب یاد کرتی تھیں جو اُنہیں یکدم کچھ یاد آجانے پر وہاں چھو ڑ کر چلی گئی تھی۔گول مٹول چہرے والا لڑکا جس کے گالوں میں یوں لگتا جیسے وہ اپنے دائیں بائیں سرخ چیریز پھنسائے ہوئے ہو اور جن کی سرخی اور تازگی باہر تک اُمڈ آئی ہو ،اُس نے جیسے کچھ یاد آنے پر اپنے ماتھے پر چپت رسید کی تھی اور سرخی جھلکاتی ٹوکری کو سنبھالتے ہوئے بھا گ کھڑا ہو ا تھا۔
زرمستہ اکثر اُس دکان میں موجود ہوتی تھی کیونکہ اُس کی انگلش بہت اچھی تھی اور وہ ٹورسٹ لوگوں کی مدد کے خیال سے وہاں جاتی تھی ،مگر اب وہ وہاں نہیں تھی مطلب آج آڈرز تیار ہونے تھے کاوش کو ایک دم یاد آیا تھا اور وہ تیز تیز چلنے لگا۔
اب وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر دکان سے نظریں چرا گیا تھا حتی کہ اُس بوڑھے نانبائی کی دکان سے بھی جو اُسے سب سے زیادہ پسند تھی۔اُس کے سامنے سے گزرتے ہوئے روٹی کی خوشبو کو سانس کھینچتے ہوئے جلدی جلدی اپنے اندر اُتارنے کے بعد وہ ایک اور چڑھا ئی اُترنے لگا تھااور جس کے شروع ہوتے ہی اُسے نظر آ گیا تھا اوراُس کی رفتار مزید تیز ہوئی تھی۔
پھر جب تک وہ نیچے وادی میں اُترا اُس کے سامنے وہی آدمی جو چڑھا ئی اُترنے سے پہلے اُسے دکھا ئی دیا تھاوہ چوتھی بار اُس کے سامنے سے گزر گیا۔وہ بھاگ کر جانا چاہتا تھا اس سے پہلے کہ وہ لوگ رخصت ہو جاتے۔
” ام آپ کو ایسے نئیں جانے دے گا ۔ام آپ کے طعام کا انتظام کرے گا۔آپ ادر کھائے گا پیے گا پھر جائے گا۔” باباخان ایک سوٹڈ بوٹڈبندے کے ساتھ مصا فحہ کے انداز میں ہاتھ ملائے کھڑے تھے اور اُس کا ہاتھ زور زور سے ہلاتے تھے اور اپنی طبیعت کے مطابق قدرے جھکتے ہوئے اُسے دعوت دیتے تھے۔کاوش چپکے سے اندر داخل ہوا تھا۔اُس کے اندازے کے مطابق صحن میں دس پندرہ سرخ غلافوں والے جار ابھی بھی موجود تھے اور وہ باہر سے دیکھنے میں ہی اپنی صفائی اور لذت کا پتہ دیتے تھے۔
” نہیں نہیں خان صاحب آپ نے مجھے پچھلی بار بھی روک لیا تھا اب مزید آپ مجھے اپنی محبت کا مقروض نا کریں۔”
” تم کو پچھلی بار کوئی مسئلہ ہوا۔”” ارے نہیں اب آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں کو ئی مسئلہ کیسے ہو سکتا تھا آپ نے انتظام ہی اتنا اچھا کیا تھا۔” مینیجر تھوڑا شرمندہ نظر آیا تھا ۔” تو پھر آؤ نا اب بی مسئلہ نہیں او گا۔” مینیجر اُن کی محبت کا جواب محبت سے دیتے ہوئے اُن کے ساتھ اندر بڑھ گیا تھا۔کاوش خوش سا صحن عبور کرتے ہوئے لکڑیوں کے بنے اُس بے حد کشادہ مگر قدرے تاریکی لیے ہوئے کچن میں گھس گیا جہاں سارے آرڈرز بھیجنے کے بعد سکون تھا اور گُل مکئی اور پشمینہ باقی ماندہ پھیلاوہ سمیٹنے میں مصروف تھیں۔پھولوں سے سجی خوب صورت ٹوکری جو خون جیسی سر خی جھلکاتی تھی ،کو ایک سائیڈ پر رکھا اور خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ جیسے اعلان کیا تھا۔
”آج مینیجر ادر ای رُکے گا۔” کچن میں جیسے ایک دم بھونچال آگیا تھا دیوہ اور زرمستہ اُس کی بات کی تصدیق کے لیے فوراً مہمان خانے کے دروازوں کھڑ کیوں سے جا لگی تھیں اور اندر سے آتی آوازوں نے اُن کی بات کی تصدیق کر دی تھی۔
ھو سئی ماں جو ہولے ہولے اونگھ رہی تھی ہڑبڑا کر اُٹھی تھیں اور اُن چاروں کے ساتھ خود بھی کام میں لگ گئی تھیں اور پھر تب تک نا ہٹی تھیں جب تک کہ نمکین کھانے سے لے کر میٹھے تک سب تیار نہ ہو گیا۔
” مینیجر کی مہمان نوازی میں کسر نہیں چھو ڑنی ۔” ھو سئی ماں اُن سب کو ساتھ ساتھ تنبیہہ بھی کر رہی تھیں۔” دیوہ اور پشمینہ کی شادی کرنی ہے اس لیے؟” زرمستہ نے بے ساختہ پو چھا۔ھو سئی ماں نے اُسے ایک دھپ رسید کرنا چاہی مگر وہ ہنستے ہوئے بر وقت پیچھے ہو گئی۔اُنہوں نے اپنی تیز کرا ری آواز میں اُس سے کہا۔” ام اتنا خود غرض نہیں اے کہ اپنے کام کے واسطے مہمان نوازیاں کرتا پھرے گا۔اما را امی کہتا تھا کبھی بھی گھر آئے مہمان کو بار نہ سمجھنا اور اُس کی کھلے دل سے مہمان نوازی کرنا ، سمجھا تم؟” اُنہوں نے ساتھ ہی ایک ہی گھوری بھی زرمستہ کو ڈالی۔” ہاں ہاں سمجھ گیا۔” پلیٹیں نکالتے ہوئے زرمستہ نے کہا۔
کاوش اُن کو کام میں جتا اور باتیں کرتا دیکھ کر بہت ساری پنیر اور اپنی ٹوکری کو سنبھالتا اُٹھ کر اُن سے قدرے فاصلے پر زمین پر بیٹھ گیا۔اس کے چہرے پر بے پناہ سنجیدگی اور معصومیت تھی اور اُس کی کنپٹی کا وہ بھورا تل بے حد نمایاں ہو گیا تھا جو بالکل اپنے باپ کی طرح کا تھا۔
” یہ پھر سے کچھ نیا بنانے لگا اے۔۔” پشمینہ اُسے سرخ چیریز کے بیج الگ کرتا دیکھ کر بے ساختہ ہنس کر بولی تھی۔پشمینہ کی بات نے سب کو متوجہ کیا تھا تبھی دیوہ نے اُس سے پوچھا۔’ ‘چیریز آج پھر منگوایا اے تم ؟” ” ہاں تم کو پتہ ہے چیریز اچھی لگتی اے مجھے۔” کاوش نے جھینپ کر جواب دیا۔اُن کی وادی میں چیریز نہیں لگتی تھیں تبھی وہ باہر سے منگوایا کرتے تھے۔
” ام اُس پھولوں والے سلاد کا ذائقہ بھولا نہیں اے۔۔وہ بے حد لذیذ تھا۔” زرمستہ ہمیشہ اُس کی حوصلہ افزائی کیا کرتی تھی اب بھی کی اور باقی سب نے بھی اُس کی بات کی تا ئید کی۔” آںں۔۔ اما رہ کاویر عمدہ چیزیں بناتا ہے۔” ھو سئی ماں کبھی کبھی ہی کسی کام سے خوش نظر آ یا کرتی تھیں اب کا ویر کو لگا وہ واقعی کچھ اچھا بنانے لگا تھا۔
اپنے ہاتھ میں طشتری تھا مے وہ مہان خانے میں داخل ہوا تھا،مہمان خانہ نہایت دیدہ زیب تھا اور دیواریں جو مار خور اوریاک کے سینگوں سے آراستہ تھیں اور جن پر سنو ٹائیگرز کی کھالیں خوب صورتی سے سجی تھیں۔ شکار کے ہتھیار جا بجا لگے تھے۔اور اس کے علاوہ بے شمار شکار کے جانوروں کے سر۔۔
اپنی کچھ کچھ کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ وہ بھاری طشتری سنبھالے ہوے تھا۔گاؤ تکیے کا سہارا لیے بابا خان بیٹھے تھے اور بالکل اُن کے دائیں طرف مینیجر،وہ قدرے آرام دہ حالت میں بیٹھا تھا اور گرم زعفرانی قہوہ بھاپ اُڑاتا اُس کے ہاتھ میں موجود تھا۔
”کاوش تم کیسے ہو بیٹے ؟” باباخان اور وہ اب تک مختلف مو ضوعات پر بات کر چکے تھے ،کاویر سے بنے اچار ، سیب ،خو بانیوں اور شہتو ت کے علاوہ بے شمار پھلو ں کے مربعوں اور چٹنیوں سے لے کر ملکی سیاست تک حالانکہ باباخان کی اس بارے میں معلومات ذرا کم تھیں لیکن وہ کچھ سیکھنے اور جاننے کی غرض سے بات کیا کرتے تھے ۔
” میں ٹھیک ٹھاک ہوں اور اُوپر وادی سے آیا ہوں۔” مینیجر کے سوال پر کاویر تھوڑا جھجکا تھا کیونکہ وہ قدرتی طور پرکچھ شرمیلا لڑکا تھا اور جلدی کسی سے مر عوب ہونے کی صلاحیت بھی اپنے اندر رکھتا تھا،وہ بمشکل اپنا جملہ مکمل کر پایا تھا اور کہتے کے ساتھ ہی طشتری کو خوب صورت قالین پر رکھ دیا تھا اور خود وہ باہر نکلنے لگا تھا،حلانکہ وہ دیکھنا چاہتا تھا اگلے چند لمحوں میں باباخان اور مینیجر کا ردعمل ہوتا۔کیا وہ اُس ”چیز” کو منہ میںڈالنے کے بعد اُس کے ذائقے کو اپنی زبانوں پر محسوس کرتے ہوئے چلا اُٹھتے یا پھر وہ اُسے زمین پر تھوک دیتے یا پھر وہ اُس کے لطف میں ڈوب جاتے۔۔۔
اُس کے باہر نکلنے سے پہلے باباخان سے اُسے روک لیا تھا اور اپنے بائیں جانب بٹھا لیا اور ایسا اُنہوں نے طشتری کا ڈھکن اُٹھانے کے بعد کیا تھا۔
با باخان نے اپنا جوان بیٹا دریا کے سپرد کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ‘ ان’ اولادوں کو کیسے پالیں گے جو اُن کا جوان بیٹا اُن کے سر پر چھو ڑ گیا تھا۔کاوش مندرسہ کا لا ڈلا بیٹا جو اس وقت صرف ایک سال کا تھا اور اُس سے بڑی بہنیں کچھ ہی بڑی تب باباخان نے محدود آمدنی ہونے کے با وجود بڑی دونوں بیٹیوں کو پڑھنے شہر بھیجا بالکل وادی میں موجود اُن چند دوسری لڑکیوں کی طر ح جو پڑھنا چا ہتی تھیں ،دیوہ اور پشمینہ بھی جانے لگیں جبکہ گُل مکئی اور زرمستہ ابھی چھو ٹی تھی اور مقا می سکول میں تعلیم حاصل کر رہی تھی، اور نا کافی آمدنی باباخان کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھی جو اُن کے تیزی سے بوڑھے ہوتے وجود کے ساتھ لا محدود آمدنی میں ڈھلتی ہوئی نظر نہ آتی تھی۔بابا خان نے بھاگ دوڑ کی چترال تک جا کر وہاں موجود چند بڑے لوگوں سے مل کر بلا آخر ایک اہم فیصلہ کیا۔جو پہلے پہل بڑا کٹھن ثابت ہوا ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!