نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

تازہ شفاف ملا وٹ سے پاک دودھ جس میں پانی کا ایک قطرہ بھی شامل نہیں تھا بالٹیوں میں کنا روں تک لبالب بھر گیا اور عالم اپنے چھوٹے بھائی کی مدد کرتے ہوئے اُسے موٹر سائیکل کے پیچھے لگے سنہری مٹکوں میں بھرنے لگا۔” گھروں میں دودھ میں دے آتا ہوں تم دوکان پر چلے جاؤ۔” عمر کا فرق ہونے کے با وجود علیم اُسے بے تکلفی سے ہی بلا یا کرتا تھا۔مو ٹر سائیکل کی نشست سنبھالے وہ اُسے سٹارٹ کرنے لگا تھا۔” ٹھیک ہے میں دکان کھولتا ہوں۔” علیم کو روانہ کرتا ہوا وہ خود واپس اندر چلا گیا تھا اور دودھ بھرتے ہوئے اُنہیں بالٹیوں بھرتا رہا حتی کہ دن خوب چڑھ آیا اور اُس کا باپ اور وہ خود بالٹیاں اُٹھا کر دکان پر پہنچاتے رہے۔اور دودھ کو بڑے بڑے دیگچوں میں کڑھنے کو رکھ دیا گیا۔
اُس کا باپ جو سر پر کڑھا ئی اور شیشوں والی ٹوپی جمائے رکھتا اور اب لسی بلوتے ہوئے وہ اپنی گردن میں ایک رومال باندھے ہوئے تھا،اپنے بازو کہنیوں تک مروڑے وہ پوری طاقت کے ساتھ اپنے کام میں جتا ہوا تھا۔شہر بھر اُس کی لسی کا دیوانہ تھا۔
ابھی صبح کے پانچ بجے تھے اور دوکان گا ہکوں سے کھچا کھچ بھر گئی تھی۔عالم نے پیڑا بناتے ہوئے ایک مصروف سی نظر باہر ڈا لی ۔چند گاہک ہاتھوں میں لمبے سٹیل کے گلاس تھامے اپنے ہونٹوں پر لگے دودھ سے بے نیاز غٹاغٹ لسی پینے میں مصروف تھے کچھ ابھی تک انتظار کے صبر کو جھیل رہے تھے اور کچھ علیم کے تیز ہاتھوں سے گاڑھے دہی کا شاپر پکڑے اپنے گھروں کو لو ٹ رہے تھے۔جبکہ خود وہ تینوں بے انتہا مصروف دوکان میں مختلف کا م نمٹانے میں مصروف تھے۔
شریف نے اپنے سامنے پڑے لمبے گلاسوں کو میٹھی اور مکھن سے بھری لسی سے بھرا تھا اور گاہک کو پکڑاتے ہوئے ایک بار پھر سے چاٹی میں مکھن کا پیڑاکچھ دہی ڈال کر بلونے لگا تھاتبھی اُس کے سر پروہ آدھمکا ۔
” ہاں بھئی بھولے کیسا چل را ہے؟ٹھیک ٹھاک اے؟” شریف بے تکلف تھا ہر گاہک سے ہر دوکاندار سے حتی کہ جب اُس کے پاس کو ئی موجود نہ ہوتا تب بھی وہ ہنستا مسکراتا رہتا اور کسی نا کسی کام میں جتا رہتا۔کام اُسے فارغ رہنے نہ دیتے تھے یا وہ فارغ رہنا پسند نہ کرتا تھا ،اگر خود اُس سے یہ سوال پو چھا جاتا تو وہ یقینا دوسرے آپشن کو چوز کرتا۔
” میرے بیٹے اب اس قابل ہیں کہ میں آرام سے گھر بیٹھ کر کھانے کو ترجیح دے سکتا ہوں مگر میرے با زوؤں میں اتنا دم خم ہے کہ سستی اور کاہلی کو خود سے پرے ہٹا سکوں۔” بڑے فخر سے شریف کچھ اسی قسم کے الفاظ اُن لوگوں کے سامنے دہرا یا کرتا جو اُسے مسلسل کچھ نہ کچھ کرتے ہو ئے دیکھ کر کہتے۔
اب بھی شریف کا لہجہ خوشگواریت لیے ہوئے تھا اور وہ ابھی تک اپنے کام میں مصروف تھا۔”ددھ۔۔ددھ۔۔” وہ چودہ پندرہ سالہ لڑکا بھولا جس کے منہ سے لعاب بہہ رہا تھا اور وہ قدرے توڑ پھو ڑ کر بے ہنگم انداز میں بولتا تھا۔اُس کی نظریں چا ٹی پر جمی تھیں۔” ابھی دیتے ہیں پلے مانس(بھلے مانس)۔” شریف نے ایک مٹی کا پیالہ مظہر کے سامنے کیا اور دہی نکالنے کو کہا۔” لے یہ دہی کھا تب تک میں یہ لسی بلور لوں پھر تجھے دیتا ہوں۔”
بھولا جسامت میں ٹھیک توانا تھا اور زور اُس میں اس قدر تھا کہ جب گلی میں کو ئی بچہ یا کچھ نو جوان لڑکے اُسے پاگل پاگل کہہ کر اُس کا مذاق اُڑاتے تو وہ اُنہیں اپنے دونوں ہاتھوں میں اُٹھا کر زمین پر پٹخ سکتا تھا۔اور ایسا وہ بہت بار کر چکا تھا۔لو گوں کے رویوں کی وجہ سے وہ پاگل پن سے زیادہ چڑ چڑے پن کا شکار تھا۔شریف وہ واحد انسان تھا اُس محلے میں جو بغیر گھن کھائے اُس سے باتیں بگھارتا اور دن اور رات میں اُس کے کھانے کا بھی بندوبست رکھتا۔فرشتہ ۔۔۔اگر وہ اس نام سے واقف تھا تو وہ شریف تھا اُس کے لیے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

بھولے نے جھپٹ کر پیالہ تھاما اور غوں غوں کی آوازیں نکالتا ہوا دکان سے تھوڑا سائیڈ پر ہو کر نیچے زمین پر بیٹھ کر دہی چاٹنے لگا تھا۔اُس کے گندے سندے ہاتھ جو مٹی سے بھرے تھے مگر وہ اُن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انگلیوں کی مدد سے مزے سے کھانے لگا۔
اُس سے کچھ فا صلے پر جینز شرٹ میں ملبوس ایک لڑکا اپنی باری کے انتظار میں کب سے کھڑا تھا اور خاموش تھا مگر پھر شاید اپنی مسلسل آتی جمائیوں کو روکنے کی خاطر اُس مشہور اور معروف دکان میں اپنی موجودگی کا اعلان کرنے کے لیے کھٹاکھٹ سیلفیاں بنا نی شروع کیں اور کچھ مزید سیلفی میں دم بھرنے کو شریفے انکل سے بھی سیلفی میں آنے کی فرمائش داغ دی اور یوں اُس کے دن کا آغاز ایک بھر پور قسم کے سٹیٹس کے ساتھ ہونے والا تھا مگر کون جانتا تھا اگلے لمحے کیا ہونے والا تھا۔
جیسے ہی وہ سیلفی لینے کے بعد خوشی اور مسرت سے رُخ موڑے دائیں طرف کو اپنی باری کا پھر سے انتظار کرنے کو مڑا،اُس کا وہ قیمتی مو بائل جو ابھی کچھ لمحے پہلے چند یادگار منا ظر قید کیے ہوئے تھا ایک دھپ کی آواز کے ساتھ دودھ سے بھرے دیگچے میں غائب ہو گیا۔
جمائیاں لیتے لوگ فورا ً اُس بلی کی طرح چوکنے ہوگئے جو اپنے شکار کو سامنے دیکھ کر فوراًدم سادھ لیتی ہے اور بس جھپٹنے کو تیار ہوتی ہے ۔بے شمار کلکس ہوئے اور منظر قید ہو گیا جس میں دکان کے تینوں مالک کھلے منہ کے ساتھ دیگچے میں جھانک رہے تھے اور وہ لڑکاتقریبا ً اپنے بال نو چنے کے قریب دیگچے میں بوتل کا جن بن کر گھس جانا چاہتا تھا مگر۔۔۔وہ بوتل کا جن نہیں تھا وہ ایک عام بے وقو ف لڑکا تھا جس پر ایک بھاری دود ھ سے بھرے دیگچے کی قیمت کسی بم کی طرح آ گری تھی لیکن صرف تب تک جب تک کہ اُن دونوں بیٹوں کا باپ اپنے حواس میں لوٹ نہ آیا اور قدرے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس نے نا صرف اپنے ایک بیٹے کو ہدایت کی کہ وہ چمٹے کے ساتھ اُس لڑکے کا فون نکال دے اور رقم جو دودھ خراب کرنے کے زمرے میں بنتی تھی وہ معاف کرد ی۔
یہ اُن دونوں بیٹوں کے باپ کی وہ نصیحت تھی جس پر خود پہلے اُس نے عمل کر کے دکھا یا تھا یعنی معاف کرنا سیکھو اور جہاں ضرورت پڑے بڑا پن دکھاؤ مگر بعض دفعہ کسی کی عمل کر کے دکھا ئی ہوئی نصیحت بھی کسی کام نہیں آتی کیونکہ جو اگر آزما ئش کا وقت چل رہا ہو تو آنکھیں اور دل کھلے رکھنے پڑتے ہیں اور دلوں کو کدورت سے پاک رکھنا پڑتا ہے۔
ہجوم شریفے مکھن ملا ئی والے کا دل سے قدردان ہو گیا تھا اور پھر بہت عرصے تک لوگوں کی زبانوں پر یہ قصہ زبان زد عام رہا اور لوگ جو اُس کی پیڑوں والی لسی دہی اور مٹھا ئیوں کے شیدائی تھے اب اُس کے میل سے پاک دل کے بھی قدر دان ہو نے لگے ۔
دکان کے چھجوں پر جوں جوں دھوپ پھیل رہی تھی اور وقت کھسکتا جا رہا تھا دکان کا رش بھی کم ہوتا جا رہا تھا اور وہ لوگ جو اس واقعے کے بعد کسی ہجوم کی صورت کھڑے ہو گئے تھے پھر سے قطاروں کی صور ت کھڑے ہو گئے، مگر کچھ لوگ اُس وقت بھی مو جود رہے جب اندر دکان میں موجود دہی کے پرات جو لبالب بھرے تھے خالی ہو گئے،لسی کے لیے بنے مکھن کے پیڑے پرات میں سے شہر کے آسمان کے ستاروں کی طرح کم ہوتے گئے اور دودھ کے دیو قامت دیگچے پیندے تک خالی ہوگئے اور اُس کے خواہش مندگاہک منہ لٹکاتے ہوئے واپس گھر کو ہو لیے کیونکہ شریفے مکھن ملا ئی والے کی دکان سراسر سحر خیز گاہکوں کے لیے تھی اور جو صبح اُٹھنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے وہ خا ص اہتمام سے اُس مشہور دکان پر آیا کرتے تھے۔
()٭٭٭()
سر پر کالاشی تکونی ٹو پیاں رکھے وہ اپنے لچکیلے اور خمدار بدن سے گھوم گھوم جاتی تھیں اور کسی قدر سر مستی اور خوشی کے عالم میں دنیا کے ایسے گوشے میں جہاں سکون تھا، سادگی تھی ، اطمینان تھا وہ ان سب کو اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے رقص کرتی تھیں۔
اپنے گلے سے پر جوش اور تیز آواز نکالتے ہوئے وہ تیزی سے دائرے میں گھو متیں اور ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر اور کچھ کچھ شرارت سے دیکھتیں۔دل دہلا دینے کی حد تک اُ ونچی آواز وہ اپنے گلے میں سے نکالتی تھیں۔
”ابی سے کیوں رقص میں لگ گیا تم؟ جو پول(پھول) تمارا برار (بھائی) تو ڑ کے لایا اے وہ کون دروازے پہ ٹانگے گا۔” ھو سئی ماں پیر گھیسٹتی ہوئیں لڑکیوں کے سر پر پہنچ گئیں اور اپنی چنی آنکھوں کو گول گول گھماتے ہوئے وہ غصے میں نظر آتی تھی مگر لڑکیاں جیسے کچھ اثر نہ لیتے ہوئے ہو ہو۔۔ہے ہے کی آوازیں نکالنے میں مصروف تھیں۔اس بار ھو سئی ماں کو قریب پڑی شاخ اُٹھا نی پڑی تھی مگر اُسے استعمال میں لانے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی لڑکیاں ایک دوسرے کے کندھوں سے ہاتھ ہٹائے ادھر اُدھر بھاگ کھڑی ہوئی تھیں۔اور ساتھ اُن کے قہقہے بھی جاری تھے جس سے اُن کے پھول سے چہروں پر گلابیاں گھل جاتیں اور چہرے کچھ اور کھلے کھلے محسوس ہوتے۔
ھو سئی ماں ہانپتی کانپتی کچھ دیر اُن کے پیچھے بھاگی تھیں اور پھر جیسے تھک کر واپس اخروٹ کے گھنے درخت کے نیچے آ کر بیٹھ گئیں۔”سف (سب) باہر نکلو اور۔۔۔پول ٹانگو۔” گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے ہاتھ چلا چلا کر کہتی ھوسئی ماں سب کو باہر نکال رہی تھیں پھر اُنہیں یاد آیا۔” ای۔۔ یہ گُل مکئی کدر غائب اے۔” زرد پھول دروازے کی چو کھٹ پر ٹانگتی دیوہ سے پوچھا ۔” ندی پہ بیٹھا بناؤ سنگھار کرتا اے۔” پشمینہ نے ٹوکر ی میں سے ایک اور گچھہ دیوہ کی طرف بڑھا یا تھا ۔نرم نازک پتیوںوالے خوبصورت زرد گچھے دروازے کے اُوپر اور دائیں بائیں آدھے سے کچھ اُوپر دروازے پر ترتیب سے لٹک رہے تھے اور دروازے کی چو کھٹ کو چار چاند لگا رہے تھے ۔ٹورسٹ جو خاص آج کے دن کے لیے صبح سے یہاں وہاں بھٹک رہے تھے، ان خوب صورت مناظر سے نظریں نہ ہٹا پاتے تھے حتی کہ وہ کھوار زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی یہاں موجود سادے ،بے ریا مگر روایات اور رسم و رواج کو سینے سے لگائے ہوئے با شندوں کے لیے اپنے دل میں ایک خاص قسم کا گوشہ رکھتے تھے اور خود کو اُن کے بنائے ہوئے خوب صورت لباسوں ، ٹوپیوں، زیورات حتی کہ کھانوں تک سے دور نہ رکھ پاتے تھے اور بلا جھجک اُن کے ساتھ گھل مل جانے پر خود کو مجبور پاتے تھے۔
جب ٹورسٹ ان حسین اور قدرت سے بے حد قریب وادیوں میں قدم رکھتے وہ محسوس کرتے جیسے اُنہوں نے کسی اور دُنیا میں قدم رکھ دیا ہو۔کالے لمبے چغوں میں ادھر سے اُدھر بھاگتی دوڑتی مخلوق اُن کے لیے عجیب ، حیران کُن اور اتنی پُر کشش تھی کہ وہ منہ کھولے آنکھیں پھاڑے اُنہیں دیکھتے تھے۔وادی کے پہاڑوں پر بنے عمدہ لکڑی کے خوب صورت مگر قدرے تنگ اور اندر سے کالک اٹے گھر اُن کی دلچسپی کا سماں تھے۔لوگ جو یہاں آتے تھے تو کالا شا لوگوں کے رسم و رواج اور پہنا وؤں کی وجہ سے آتے تھے۔ایسا تھا خود کالاشا لوگوں کا کہنا اور ماننا مگر ایک چیز جس سے وہ یکسر لا علم تھے اس لیے کہ وہ سادہ تھے اور گول گول سو چوں کے بھنور میں نہ پھنستے تھے،وہ نہیں جانتے تھے کہ لوگ اُن کی مہمان نوازی اور استقبالیہ نرم تا ثرات کی وجہ سے یہاں بھاگے آتے تھے۔
خوب صورت ننھے کا لا شا بچوں میں تصوریں بنوانے والا ایک” وہ ”بھی تھا ۔مخصوص کالاشا لباس میں ملبوس سفید پر لگی خوب صورت ٹوپی پہنے وہ بالکل تیار کھڑا تھا اپنے خوب صورت لکڑیوں کے بنے گھر کے سامنے۔۔۔جس کے بر آمدے میں پام کی مضبوط لکڑیاں چھت کو سہارا دیے شان سے کھڑی تھیں اور اُس کے ساتھ ساتھ بنے بے شمار خوب صورت نیچی چھتوں والے گھر۔۔جن کے دروازوں پر زرد پھول ٹنگے تھے،اور اُن گھروں کی چھتوں پر بنے راستے۔۔جو بل کھاتے اُوپر نیچے جاتے تھے اور اُن گھروں کے بالکل عقب میں جہاں اس وقت وہ خود کھڑا تھا مینیجر کے ہمراہ،ایک گھنا اخروٹ کا درخت۔۔بس ایک کلک ہوتا اور منظر اپنی جزئیات کے ساتھ کیمرے میں قید ہو جاتا اگر اُس کی نظر نیچے زمین پر نہ پڑتی ۔کاویر نے چونک کر اپنے پیروں کی طرف دیکھا اور مینیجر کو ہاتھ کے اشارے سے کچھ دیر رُکنے کا کہہ کر وہ اندر کو بھاگ کھڑا ہوا تھا۔
”کئے(بہن) ۔۔کئے۔۔آوا بٹ(میرے بوٹ) کدر اے؟” جلدی سے دروازہ پھلا نگتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوا اور ہر چیز کھنگالتے ہوئے وہ اپنی بہنوں میں سے کسی کو اُس کے بوٹ ڈھونڈنے کا کہہ رہا تھا۔مینیجر کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے وہ اپنے سب اچھے جوتے پہننا چاہتا تھا جبکہ اس وقت اُس نے چپلیں پہن رکھی تھیں ۔ھو سئی ماں گھر میں نہیں تھیں اور وہ اپنی ساتھی بوڑھیوں کے ساتھ وادی کی رونق دیکھنے چلی گئی تھی،اگر ہو تیں تو وہ ضر ور اس ہڑ بونگ پر کاویر کی کمر پر ایک دھپ رسید کرتیں ۔
زرمستہ نے اُس کے سامنے بوٹ رکھے تھے اور پیار سے اُس کی ٹوپی کو مزید اچھی طرح سے سیٹ کرنے لگی تھی۔ا یک تیز چمک کے ساتھ زرمستہ کے ذہن میں وہ جھریوں زدہ چہرہ اُتر آ یا جو اپنی جوانی میں یقینا بے حد خوب صورت تھا مگر بیماری نے اُسے تو ڑ پھو ڑ ڈالا تھا ،ایسی بیماری جس سے وہ معجزاتی طور پر بچ گئی تھی۔اُن سب کی ماں۔۔۔مندرسہ۔زرمستہ ہمیشہ مندرسہ کی ہم نوا رہی۔اُس کے کاویر کو بے انتہا پیار دیتی رہی اپنی باقی بہنوں سے کہیں زیادہ وہ مندرسہ کی زندگی میں بھی اور اُس کے بعد بھی وہ اُس کے ناز نخرے بڑے شوق سے اُٹھا تی۔زرمستہ اُس حادثے سے بارے میں سوچنے لگی جب مندرسہ اور اُن کا باپ اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔اس دُنیا سے۔۔۔
مندرسہ اور اُس کا شوہر دریا کا پل پار کرتے تھے اور آپس میں تیز تیز باتیں کیے جاتے تھے۔” مندرسہ وادی کا حالت بڑا کھراب ہوتا جا رہا اے۔” مندرسہ نے گود میں اُٹھا ئے پہا ڑی بکرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کی بات کو غور سے سنا۔” کیوں اب کیا ہو گیا اے؟” وزیر خان لکڑیوں کے بھاری بو جھ تلے تھا مگر اس قدر عادی لگتا تھا اس بو جھ کا کہ اُس کی آواز ذرہ نہ ہانپتی تھی اور وہ اُسی تیزی اور روانی سے بولتا تھا۔”ام اگر درخت گراتا اے تو اپنی ضرورت کو گراتا اے پر یہ جو لوگ اے نہ باہر کا ۔۔یہ یاں سے لکڑی لے کر جاتا اے بالکل کم قیمت پر اور جاکے بیچ دیتا اے مہنگے داموں۔ام بڑا دکھی اے یہ لوگ ذرا خیال نہیں کرتا اے اماری وادی کی خوبصورتی کا۔” مندرسہ نے بکرے کے ماتھے سے ہاتھ ہٹا یا اور بے حد حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے انگلی اپنے منہ میں داب لی۔” کیسا ظالم لوگ اے یہ۔”
مندرسہ کی حیرانی کو بھانپتے ہوئے وزیرخان پھرسے بول اُٹھا۔” کبی کبی ام سوچتا اے ام ان لوگوں کا دماغ ٹھکانے لگا دے۔۔۔”
دونوں ایک دم چونکے وزیر خان، مندرسہ حتی کہ پہاڑی بکرے کا بچہ بھی۔
پل قدرے ہلتا تھا اس طرح کہ جیسے وہ پہلے کبھی نہ ہلا تھا۔ وہ لکڑی سے بنا تھا مگر مضبوط تھا۔جس کے دو اطراف مو ٹی مو ٹی رسیاں کھینچی تھیں پھر کیو نکر۔۔وہ دونوں سمجھ نہ سکے اور سہم کر کھڑے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔جب اُن کے حواس ذرا بہتر ہوئے اُنہوں نے ایک بار پھر چلنا شروع کیا۔لکڑی کا پُل ایک بار سے ہلا تھا کچھ ڈھیلا ہوتے ہوئے۔۔۔دو دونوں اس بار رُکے نہیں اور ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے جیسے آنکھیں پڑھتے ہوئے بھاگنے لگے۔فرار کی کو شش زیادہ خطر ناک ثابت ہوئی اور مندرسہ ،وزیر خان اور بکری کا بچہ ایک غڑاپ کے ساتھ گہرے تیز شور کرتے پانی میں کھو گئے کبھی نہ ملنے کے لیے۔۔۔
وادی میں موجود بہت سے لوگوں نے پُل کو گرتے ہوئے دیکھا لیکن جب تک و ہ دونوں کو وہاں سے نکالنے کی کو ئی تد بیر کر پاتے مندرسہ کا سیاہ لبادہ تک اپنی آخری جھلک دکھا کر غائب ہو گیا۔اور اُس سیاہ لباس کے بالکل ارد گرد الفاظ چکر کھاتے تھے۔” مجھے کاویر نے زندگی دی ،یہ کاویر ہی تو ہے جس کی وجہ سے میں زندہ ہوں۔” وہ جو یہ سوچ رکھتی تھی کہ کاویر نے اُسے دوبارہ زندگی دی تھی اور کچھ اسی قسم کے الفاظ بڑے تنفر سے کہا کرتی تھی اب اُسکے اپنے کہے الفاظ اُسے ڈبو رہے تھے۔
یاک کی چمڑی سے بنے چمکدار بوٹ جلدی جلدی چڑ ھانے کے بعد کاویر تو کب کا با ہر بھاگ چکا تھا مگر زرمستہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ وہیں کھڑی تھی اور اپنی ماں کویا د کرتی تھی۔اور اُس وقت کو جب وہ صرف چارسال کی تھی اور ایک سال کے کاویر کو اپنی گود میں اُٹھا ئے پھرتی تھی۔بالکل ویسے ہی جیسے کے مندرسہ اُسے اُٹھا یا کرتی۔
اُس کے پیچھے بیٹھی دونوں بہنیں کسی بات پر زور سے ہنسیں۔زرمستہ نے بھی اپنے آنسو صاف کیے اور اُن کے درمیان جا کر بیٹھ گئی۔بہت ساری سیپیاں اور گلے میں ڈالنے والے رنگ برنگے ہار وہاں پڑے تھے۔زرمستہ نے کچھ نا رنجی ہار اُٹھا ئے اور اُنہیں اپنے گلے میں ڈال لیا۔ دیوہ پشمینہ کے با لوں کی مینڈھیاں گھو ندتی تھی۔اور ہنسے جاتی تھیں۔” کیوں ہنسے جا تا اے تم؟” زرمستہ نے کچھ نا را ضی سے پوچھا۔” ام رات کو بتا ئے گا جب ام دونوں رقص کرتا ہوئے گا۔” دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر پھر ہنس پڑیں۔زرمستہ جیسے بغیر سنے ہی سمجھ گئی اور اُٹھ کر گُل بو ٹوں سے سجی بیلٹ کو اپنی کمر پر گول گول لپیٹنے لگی۔جب وہ اس کام سے فارغ ہو گئی تو باہر نکل گئی۔” ام جاتا اے گُل مکئی کے پاس تم ہنسوں بیٹھ کے۔” دونوں ایک بار پھر سے زور سے ہنس پڑیں۔
”ملنگ موش۔۔(پاگل)” زرمستہ نے مسکرا کر خا موش سر گو شی کی اور دروازہ پار کر گئی۔
نیچے گُل مکئی ندی کے پاس ایک چوڑے پتھر پر بیٹھی شیشہ اپنے گھٹنو ں پر دھرے اپنی مینڈھیاں گوندھ رہی تھی ۔ ٹورسٹ عورتیں اُسے دیکھ دیکھ کر انگشت بداں تھیں اور بے اختیار سوچے جاتی تھیں ،مقامی جڑی بو ٹیوں میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ یہ پُرانوں زمانوں کی سی مخلوق اس قدر خوب صورت نظر آ تی تھیں،وہ بار بار نظر بھر بھر کر اُن سیپیوں اور پتھر جڑے ہاروں کو دیکھتی تھیں اور سوچتی تھیں آخر کیا تھا ان زیوارت میں جو ان کو اتنی خوب صورتی بخش رہا تھا۔اُن کے منہ حیرت کی زیادتی سے کھلے رہتے اور وہ بند کرنا بھول جاتیں یہاں تک کہ کو ئی اور خوب صورت منظر اُنہیں اپنی طرف متوجہ نا کر لیتا۔
اپنے کان کے پاس ایک مینڈھی گودنے کے بعد اُس نے آئینہ اُٹھا یا تھا اوراپنی آنکھوں کے گرد کالے نکتے لگا نے لگی تھی،اور اُس کی نیلی آنکھیں کچھ مزید بڑی اور گہری لگنے لگیں۔ایک آخری بار اپنے گالوں ،بالوں اور آنکھوں کا جا ئزہ لینے کے بعد وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
کھڑے ہونے پر اُس کا لباس واضح ہوا تھا جو ہرے اور گلابی رنگوں سے سجا تھا اور اُس کی کا پور (ٹوپی)پر جڑے پر کا رنگ گلابی تھا بالکل اُس کے رخساروں کی طرح۔۔۔
تیزی سے درخت کی سیڑھیاں چڑھتی اُوپر وادی میں پہنچ گئی وہیں اُسے زرمستہ نظر آ ئی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی کمر پر ہاتھ رکھے رقص کرنے میں مشغول ہو گئیں۔کالاش میں درختوں پر سیڑھیاں بھی وہاں کے با شندے با آسانی بنا لیتے ہیں اور اپنے روز مرہ کے لمبے اور تھکا دینے والے راستے سے بچے رہتے ہیں یہ ایک طرح کا اُن کے لیے شارت کٹ ہے۔
بہار کو خوش آمدید کرنے کا اُن کا ایک اپنا اندازاور کالاشا لوگوں کے لیے جشن کا ایک سماں بھی۔۔۔جس میں وہ صبح خود کو اور اپنے گھروں کو سجانے کے بعدرقص کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر رات گئے تک بغیر تھکے وہ اس رقص میں مگن رہتے ہیں ۔
دیوہ اور زرمستہ کے ساتھ گُل مکئی اور پشمینہ بھی آ ملیں وہ سب بہنیں اور وادی کی لڑکیاں ساتھ مل کر گول گول گھوم رہی تھیں۔اُنہوں نے اپنے بازو اپنے دائیں با ئیں کھڑی لڑکیوں کی کمروں کے گرد باندھ رکھے تھے اور کچھ گلے کے گرد بازو حمائل کیے چکر کا ٹ رہی تھیں۔اُن کے گلوں سے تیز اور تقریبا ً خوف میں مبتلا کر دینے والی آوازیں نکل رہی تھیں۔ہو ۔ہو۔ہے ۔ہے۔۔۔کورس میں گاتے ہوئے بغیر تھکے وہ مسلسل گا رہی تھیں۔کچھ کچھ ٹورسٹ عورتیں بھی خوشی سے بھر پور چہرے لیے اُن کے ساتھ ساتھ رقص کرنے اور گانے میں مصروف تھیں۔
دیوہ نے پشمینہ کو دیکھا اور بالکل اُسی لمحے پشمینہ نے دیوہ کو۔ تیزی سے گھومتے ہوئے وہ مسکرائی تھیں اور کھُلم کھُلا اپنے دائیں جانب کھڑے لڑکوں کو دیکھتی تھیں۔ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھے کالاشا سنہری گاؤن میں ملبوس وہ دونوں لڑکے بھی مسکراتے تھے۔اورآنکھ سے اشارہ بھی کرتے تھے۔
چلم جوش تہوار جو وہ مناتے تھے، راستہ ما پتا آج اُن کی وادی میں آ گیا تھا۔کا لا ش کی باقی دونوں وادیوں سے ہو تا ہوا بلا آخر رنمبور میں۔۔۔
اُن کے رقص میں بلا کی تیزی تھی اور وہ آدھا گول چکر کا ٹتیں اور پھر سے اُلٹا گھوم جا تیں یہ جیسے اُن کے لیے تفریح تھی مگر ٹورسٹ لڑکیاں تھکن سے چور بلآخر رقص سے پیچھے ہٹتی گئیں مگر کالاشا لڑکیوں میں جیسے رقص میں تیزی کے ساتھ پھر سے توا نائی بھرتی جارہی تھی اور وہ اپنے پیر آگے پیچھے گھماتے ہوئے وجد کی انتہا پر تھیں۔اُن کے چہروں میں ایک عجیب سی سادگی اور جوش تھا۔
وہ سب مرد و زن پہاڑوں سے اُترتے زرد پھولوں کے گھچے اپنے ہاتھوں میں تھامے اور لڑکیاں رقص کرنے میں مصروف ہو جاتیں۔مردوں میں سے با نسری کی خو بصورت لے فضا میں بکھرتی تو ڈھول کی تھاپ کے ساتھ وہ کچھ اور وجد پیدا کرتی اُن لڑکیوں میں اور لڑکوں میں بے اختیار رقص کرتے تھے اور جن کے چہروں سے خوشی روشنی بن کر پھو ٹتی تھی۔
جشن کے دوران دیوہ اور پشمینہ نے اُن دونوں کو پسند کیا جو بے خود ہو کر اُنہیں دیکھتے تھے ،کہ چلم جوش جہاں بہار کو خوش آمدید کہتا ہے وہیں لڑکیاں اپنے من پسند ساتھی کو بھی چُن لیتی ہیں ۔
اور اُن سب کے بیچ ھو سئی ماں اپنے بو ڑھے مگر لچکیلے بدن کے ساتھ محو رقص تھی اور نہ ہانپتی تھی نہ کا نپتی تھیں بلکہ جوش سے سب جوان لڑکیوں کو پیچھے چھو ڑ دینا چا ہتی تھیں ،اپنی شہتوت کی ٹہنیوں کے سے بازوں کو اپنی ساتھی کی کمر کے گرد حما ئل کیے اپنے بوڑھے جھریوں زدہ چہرے کے ساتھ وہ خوشی میں اپنے منہ سے ہو ہو ۔۔ہے ہے۔۔ کی سب سے چنگھا ڑتی آواز نکالتیں۔
وہ خو ش تھیں اپنی وادی میں اپنے لوگوں کے ساتھ جو محبت کی اٹوٹ مٹی سے جڑے تھے جن پر غموں کی پر چھا یاں ابھی نہیں پڑی تھیں مگر۔۔ہر ذی رو ح کو جیسے موت کا مزا چکھنا ہے بالکل ویسے ہی دکھوں اور غموں سے بھی اُس کا واسطہ پڑ نا ہے۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!