نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

لکڑی کے سخت اور قدرے غیر آرام تختے پر وہ آڑی تر چھی لیٹی تھی،درد سے بے حال۔اندھیرا کچھ باہر تھا اور بہت سارا اندر۔۔۔آنکھیں بند کیے مگر یو ں نہیں کہ اپنی مر ضی سے پھر کھول لے گی یہ کام اب اُسکے لیے مشکل تھا جیسے پانی کا اپنی مر ضی سے راستہ بنانا بے حد مشکل،جہاں راستہ ملے وہاں پانی رُخ پکڑے۔ویسے ہی وہ اپنے جگر سے اُٹھتے شدید درد سے دہری ہوتی آنکھیں بھینچے ضبط کر تی تھی اور کرا ہتی تھی۔اُس کے ارد گرد موجود وہ چاروں معصوم بچیاں جو اب تختے پر لیٹی اُس عورت کی ان آہوں کی اس قدر عادی ہو چکی تھیں کہ اپنے معمول کے کام جاری رکھتی تھیں۔
گھٹنوں کے بل بیٹھی اُس کی سب سے بڑی بیٹی زور زور سے ہلتے ہوئے اپنے سامنے پڑے چوڑے برتن میں آٹا گھو ندتی تھی،وہ جلدی جلدی اپنا کام کرتی اور کچھ بے بسی سے اپنی ماں کی جانب دیکھتی۔
اپنے سامنے پھیلے کالے کپڑے میں اُس کی تیسرے نمبر والی بیٹی رنگ بر نگے دھا گوں سے خوب صورت پھول بو ٹے بناتی۔لیکن وہ اپنی ماں کی جانب دیکھنے سے کتراتی۔اپنو ں کو تکلیف میں دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔وہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔نظریں جھکائے وہ اپنے کام کیے جاتیں کہ زندگی تو چلتی رہتی ہے۔
درد بیرونی ہوتا تو وہ اپنی جان وار دیتیں اب ایسا درد جو سراسر اندرونی تھا اور اُن کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیسے اپنی ماں کو اس بے رحم درد سے نجات دیں، وہ اپنے اندر شدید بے بسی محسوس کرتیں۔
اُس کی سب سے چھو ٹی بیٹی نے اپنے دل میں سوچااُس عضو کے بارے میں جس میں درد کی ماں شکایت کرتی تھی۔” جگر۔۔وہ اس قدر چھوٹی تھی کہ اُسے نام یاد کرنے میں بھی دشواری ہوئی،اگر یہ پیٹ میں موجود ہے تو یہ درد کیوں لگا رہا ہے ایسا تو پھر میرے پیٹ کے ساتھ بھی ہونا چاہیے،اُس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔ وہ کشمکش کا شکار نظر آتی تھی،اُلجھن اُس کے گول مٹول خوب صورت چہرے پر پھیلی تھی۔” ماں کے پیٹ کا درد ٹھیک ہو جائے گا؟” سر اُٹھا کر اُس نے اپنے اُوپر موجود کھلے آسمان کی جانب دیکھا ۔رات زیادہ سیاہ تھی یا بخاری میں موجود اندھیرا زیادہ، فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
چھو ٹی کو جب کو ئی جواب نہ ملا تووہ واپس اپنی ماں کو دیکھنے لگی جو مسلسل کراہ رہی تھی۔چھو ٹی کا اس قدر دل دکھا کہ وہ اُٹھی اور پانی کا پیالہ بھر کر اپنی ماں کے لبوں سے لگا دیا۔یہی وہ کام تھا جو وہ کچھ کچھ دیر بعد کرتیں اور کبھی دوائی کی کو ئی پڑیا جس کا خاطر خواہ کو ئی اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا تھا،پانی کے ساتھ اُس کے منہ میں ڈال دیتیں۔
مندرسہ کے لبوں سے بہت سا پانی اندر جانے کی بجائے باہر بہہ نکلا اور اُس کے کپڑے بھگو گیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب وہ چاروں اپنی زبان پر وہ دُعا یا شا یدبد دعا ۔۔لانے سے نہ رُوک سکیں وہ سب اپنے اپنے کام چھو ڑے اُس کے پاس آ بیٹھیں۔
” اﷲ تو اماری ماں کو صحت یاب کر دے یا پھر اس کو اپنے پاس بُلا لے۔اب مزید تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔”
مندرسہ نے اُن چاروں کو اپنے ارد گرد محسوس کرکے بمشکل آنکھیں کھولنا چاہیں تھیں حا لانکہ یہ کام قدرے تکلیف دہ تھا۔دھند لا ہٹ کے ساتھ وہ دیکھ سکتی تھی اپنی بیٹیوں کے ستے ہوئے چہرے وہ مسلسل رونے سے ہمہ وقت سر خ رہتے تھے ،کا نپتے ہاتھوں کے ساتھ اُس نے اُن کے چہرے تھا منا چاہے تھے ۔
اس بات کو محسوس کر کے کہ شاید وہ آخری بار ممتا کی گر مائش کو اپنے اندر سمو سکیں گی وہ مندرسہ سے لپٹ گئیں ۔اپنی بیٹیوں کے بہت سارے گرم آنسو مندرسہ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر محسوس کیے تھے،وہ اُس کے ہاتھ اورچہرہ چوم رہیں تھیں۔
شایدآنسوؤں نے اپنا آپ منوا لیا اور تبھی پہاڑوں پر وا قع اُس وادی میں ” وہ ” آ دھمکی جس کا آنا خوش آیند ثابت ہوا۔
رنمبور کے اُونچے نیچے راستوں کو عبو ر کرتی ہوئی وہ ھو سئی ماں کے ہمراہ تھی۔بے تحا شہ بو ڑھی اور جو اب اپنا زیادہ وقت اُوپر بریر کے بڑے پتھروں پر بتا تی تھی وہ جھکی کمر کے ساتھ ہاتھ میں ایک تھیلی تھامے نیچے اُترتی تھی تو قدرے ڈگمگا تی تھی۔
ہا نپتی کانپتی ھو سئی ماں کے سا تھ باتوں میں مصروف بلآخر وہ نیچے اُتریں او ر اُس گھر میں داخل ہو گئیں جہاں ایک بیمار اور لا غر ماں رہتی تھی،اور جہاں سے اب وقفے وقفے سے اُو نچی کرا ہوں کی آواز یں آتی تھی۔
بو ڑھی عورت نے اپنی چُنی آنکھوں کے ساتھ بخاری کا جا ئزہ لیا۔شاندار لکڑی سے بنا گھر جس کی دیواریں سیاہ تھیں اور جن سے لٹکے سوکھے لہسن کے گچھے اور سوکھی خوبانیوں کے ہار اپنی مہک چھو ڑتے تھے۔اُس کی آنکھوں میں ایک روشنی چمکی تھی۔’ماں بستر مر گ پر پڑی تھی مگر گھر ابھی بھی ماں کی موجودگی کا تا ثر دیتا تھا۔” یہ وہ بات تھی جو بڑھیا نے اپنے دل میں سوچی ۔” اور ماں کا بچنا بے حد ضروری ،ورنہ گھر سے ممتا کے بادل چھن جائیں۔” تیزی سے وہ مندرسہ کی جانب بڑھی۔اُس کے سر پر کھڑے کھڑے ہی اُس نے اپنی جھکی کمر کے ساتھ اپنی پو ٹلی کھولی اور اُس میں سے کچھ سبز بیج برآمد کر لیے۔اپنے بو ڑھے کانپتے ہاتھوں سے ” کاویر ” کی جڑوں کو مندرسہ کے منہ میں ڈالنے لگی۔
مندرسہ نے اپنے منہ میں کچھ جانا پہچانا سا ذائقہ محسوس کیا وہ بمشکل آنکھیں کھولے کچھ حیرانی سے بڑھیا کو تکنے لگی۔” کاویر” وہ اپنی زندگی میں بے شمار دفعہ کھا چکی تھی۔”کاویر کیا مجھے زندگی دے دے گا؟” چباتے ہوئے اُس نے اپنے دل میں سوچا۔
اور اُس دن کے بعد کاویر جوچترال کا خاص پودا تھا اور جسے وہ کبھی کبھار خاص یہاں لاتے تھے اپنی وادی میں وہ، اُس پر کچھ مزید ایمان لے آئے۔جا دوئی پودا۔۔جو مرتے ہوئے کو زندگی بخش دے۔ایسا ماننا تھا وہاں کہ لوگوں کا۔
مندرسہ یوں تندرست ہوگئی جیسے وہ خطر ناک درد کبھی اُس کے اندر نہیں اُٹھا تھا اور وہ کبھی اُس دردسے بے حال نہ ہو ئی تھی۔وہ بالکل پہلے کی ہی طر ح کھیتوں میں جاتی اور محنت طلب کام کرتی ،ندی کنارے بیٹھے وہ اپنی اور اپنی بیٹیوں کی خو ب صورت مینڈھیاں گو ندتی اور اُن کے چہروں پر خوب صورت نقش و نگار بنا تی۔لیکن ابھی بھی اُس کے دل میں ایک کسک تھی۔وہ موت کے منہ میں سے نکل آئی تھی اور اُس کا خوف اب اُس کے دل میں سے قدرے کم ہو چکا تھا۔تبھی اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک بیٹا پیدا کرے گی۔ایک تندرست خوب صورت لڑکا۔۔۔یہ مندرسہ کے لیے کسی حسین خواب سے کم نہیں تھا۔
اور جب لڑکا پیدا ہواتو مندرسہ کی حالت ایسی تھی جیسے اُس نے ابھی ابھی نیا جنم لیا ہو اور اُس کے چہرے سے ایسی روشنی پھوٹتی تھی جیسے وہ کئی گھنٹوں سے کسی بہت آرام دہ حالت میں ہو حالانکہ وہ پچھلے چو بیس گھنٹوں سے مسلسل تکلیف میں تھی اور تکلیف بھی ایسی جس کو ہر حال میں جھیلنا اُس پر لازم تھا ،دایہ نے اُ س سے بہت بار کہا تھا کہ وہ اپنے خواب سے دست بردار ہوجا ئے کیونکہ دوسری صورت میں اُس کی اپنی جان خطرے میں تھی۔ لیکن مندرسہ بضد رہی۔
بلا آخر چند گھنٹے مزید تکیے سے سر پٹخنے کے بعد گھر میں اطمینان اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔سرخ و سپید ،سر پر موجود چند بالوں اور اپنی جسامت میں ٹھیک توانا بچہ کچھ سیکنڈز بعد مندرسہ کے ہاتھوں میں تھا۔اُس نے خوشی سے بھر پور ایک آہ بھری اور بچے کو خود سے بھینچ لیا ۔کچھ دیر پہلی والی اذیت اُس کے چہرے سے تقریباً ختم تھی اور وہ کسی طا قتور درخت کی طرح پھول کو خود میں سموئے بیٹھی تھی۔
عورتین جو اُس کے ارد گرد مو جود تھیں اُنہوں نے اُسے یقین دلا یا کہ یہ سب ” کاویر” کی وجہ سے تھا کہ وہ بیماری سے لڑنے کے بعد ایک خوب صورت لڑکے کی ماں بن گئی تھی۔عورتوں میں مو جود ایک دانا اور بو ڑھی عورت آ گے بڑھی۔کافر بو ڑھی عورت نے بچے کے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنے پوپلے منہ کے ساتھ جیسے حکم صادر کیا۔” بچے کا نام۔۔کاویر ہو گا۔” اُس کے پیچھے کھڑی تما م عورتوں نے بھی ہا می بھری مگر ھو سئی ماں اور خود مندرسہ کے چہرے جیسے بجھ گئے۔مگر مندرسہ کے لیے یہ سب صرف کچھ لمحوں کے لیے تھا۔
خوشی سے بھر پور آنسوؤں کے درمیان اس کے منہ سے نکلا تھا۔کا ویر۔۔آہ میرا کا ویر ۔۔اور کہتے کہ ساتھ ہی اُس نے گول مٹول بچے کو پھر سے اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ تینوں ،باباخان، ھوسئی ماں اور مندرسہ کا شوہر، اس بیان پر ڈٹے رہے کہ بچے کا نام ہر گز بھی کا ویر نہیں ہو گا۔” کاویر کا دُنیا میں آنا کا ویر کے ذریعے صرف ایک کو شش تھا۔” ایسا با با خان کا کہنا تھا اور مندرسہ کے شوہر نے بھی سر ہلا یا تھا۔چاروں بچیاں گو ل مٹول خوب صورت بچے کے ارد گرد گھیرا ڈالے بیٹھیں تھیں۔ایک بھا ئی آخر کار اُن کی زندگی میں آن مو جود ہوا تھا۔وہ ہمیشہ سے اپنی ماں کی اس خواہش کے بارے میں جانتی تھیں۔آخری بچی کی پیدا ئش کے بعد مندرسہ جیسے بجھ سی گئی تھی اور یہ بات خود آخری بچی تک بھی کچھ سالوں بعد پہنچ گئی تھی۔اور یہی وہ وجہ تھی کہ زر مستہ ہمیشہ اپنی ماں کے ارد گرد رہنے کی کو شش کرتی اُس کی ایک پکار پر وہ دسویں کام نمٹانے کو تیار ہو جاتی۔اب بھی وہ نہیں جا نتی تھی بچے کا نام کیا ہو گا مگر اُس نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا وہ بچے کو ہمیشہ اُس نام سے پکارے گی جو نام اُس کی ماں تجویز کرے گی۔ مندرسہ کی گود میں لیٹے بچے کے پھولے پھولے سرخ گالوں پر پیار سے بوسہ دیتے ہوئے وہ بھی فیصلہ سننے کو بے تاب تھی۔تبھی اُس کی ماں بولی تھی۔
” باباخان بر سوں سے اس گھُل(وادی) میں یہی ہوتا آیا ہے یاں ندی کے بی نا م رکھا جاتا اے مچھلی بی اور گھاس بی پھر اب تم کیوں کہتا اے کہ میرے بیٹے کا نام کا ویر نئیں ہو گا؟” مندرسہ شاید پہلی بار بحث کرنے کو اُٹھ کھڑی ہو ئی تھی۔” کیونکہ تم سمجھتا اے کہ تم صرف کاویر کی وجہ سے بچا اے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔”باباخان نے اُسے سمجھایا مگر جب وہ ضد پر اُتر آئی تب باباخان کو سختی سے کہنا پڑا۔
‘ ام کا فر کا بچہ نئیں اے ،تم کیوں یہ سمجھتا اے کہ ایک جڑی بو ٹی تماری جان بچائے اے،وہ تو وسیلہ بنا تماری جان کا۔بچے تم کیوں اپنا ایمان کھراب کرتا اے؟” سختی سے شروع ہو نے والی بات نر می سے ختم ہو گئی ۔مندرسہ نے بے بسی سے اپنے بیٹے کی جانب دیکھا۔
وہ سب مسلما ن تھے مگر اُس وادی میں رہتے ہوئے وہ اپنے مذہب سے بہت دُور تھے ، صرف باباخان تھے جو ابھی تک اسلام کے مطابق جینے کی کوشش کرتے تھے مگر با قی سب تقریبا ً فرا موش کر چکے تھے اور پھر بڑوں کو ہی دیکھتے ہوئے چھو ٹوں نے اُن کی پیروی کی تھی ۔مگر باباخان ایسا نہیں چاہتے تھے اور اس کے لیے مقدور بھر کوشش بھی کرتے رہتے تھے۔باباخان کے احترام کی وجہ سے ہی مندرسہ کا شوہر اور ھوسئی ماں اُن کی بات مان رہے تھے اور اُن کے ہمنوا تھے ۔
” چلو تم کہتا اے تو ۔۔ام اس کا نا م کا وش رکھے گا۔کاوش خان۔کا ویر کی کاوش سے پیدا ہونے والا بچہ۔” بابا خان اور با قی سب اُٹھ کر چلے گئے تب مندرسہ نے اپنے بیٹے کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھا ۔” ام اس کو امیشہ کاویر ای بولے گا۔” اُس نے اپنے دل میں تہیہ کیا۔
اور تب سے کاوش خان پوری وادی کے لیے کاویر اور با باخان کے لیے کا وش ۔۔
()٭٭٭()
اپنے لمبے سیدھے بالوں کو اُس نے کس کر چو ٹی میں با ندھا اور میک اپ سے عاری اُداس چہرے کو ایک سرسری نظر سے آئینے میں دیکھنے کے بعد اچھی طر ح چادر اوڑھے باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔
کمرے کے وسط میں وہ رُکی تھی اور نیچے آڑھے ترچھے لیٹے انسان کو ایک ٹھنڈی اور سرد مہر آہ بھرتے ہوئے پھلانگ کر باہر نکل گئی۔
” اماں میں جا رہی ہوں۔” چادر سے اپنے چہرے کو ڈھا نپتے ہوئے گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اُس نے اطلا ع دی تھی۔جیسے کہ وہ ہمیشہ کیا کرتی تھی۔اُس کی ماںصحن کے دائیں طرف بنے کچن نما حصے میں برتن دھونے میں مصروف تھی اُس نے جھٹ برتن چھوڑ ے اور ا پنے صابن لگے ہاتھوں کو اپنے دوپٹے کے پلو کے ساتھ پو نچھتی ہوئی اُس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی ۔
” ضوفی پتر آج ذرا بل تو جمع کراتی جا ۔” اُس کی ماں کا لہجہ منت کرتا ہوا سا تھا مگر ضوفی کو وہ نئے سرے سے غصہ دلانے کے لیے کافی تھا۔” اماں اُن مسٹنڈوں کو بھی اُٹھا دیا کرو کبھی ۔کینچیوؤں کی طرح پڑے رہتے ہیں ہر وقت۔”
” پتر اُن ہڈحراموں کی وجہ سے ہی تو اب تک تجھے نہیں کہا تھا پر اتنے دن ہو گئے کو ئی نا ہلا بل جمع کرانے کو۔جا تو کرا دے نا آج آخری تاریخ ہے۔” ہاجرہ جلدی سے بھاگ کر اندر سے بل اُٹھا لائی تھی۔کچھ جزبز ہوتے ہوئے اُس نے بل پکڑ لیے مگر چہرے پہ واضح نا پسندیدگی تھی۔”اماں دیر ہو جا ئے گی مجھے بل جمع کرانے میں ،ہوٹل کا مالک نکال باہر کرے گا مجھے پھر بیٹھے رہنا بھو کوں۔” بڑبڑاتے ہوئے بل بیگ میں ٹھو نستے ہوئے وہ تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔ اپنے پیچھے اُس نے دھا ڑ سے دروازہ بند کیا تھا۔ہاجرہ بھی ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے واپس برتن دھونے بیٹھ گئی ۔
اپنے محلے کی تنگ اور تاریک گلیوں میں سے گزرتے ہوئے ہر طر ح کے منفی خیال کو اپنے ذہن میں سے جھٹکتے ہوئے وہ جتنی تیزی سے قدم اُٹھا سکتی تھی اُس نے اُٹھا ئے۔ہر روز ان سنسان گلیوں میں سے گزرتے ہوئے وہ طر ح طر ح کے وا ہموں سے خود کو آزاد کرنے کی کو شش کرتی تھی۔
ویران گلیاں نہ اُسے ڈرا تی تھیں جتنا کہ ویرانے میں موجود شیطان اُسے ہراساں کرتے تھے۔وہ نہ چڑیا جیسا دل رکھتی تھی نہ ہی شیر سا ، وہ عام لڑکی تھی جو آوارہ لڑکو ں کو اپنے سامنے دیکھ کر خوف سے قدم روکتی تھی نا تیزی سے آگے بڑھ کر اُنہیں دو تھپڑ رسید کر سکتی تھی۔صرف ایک کام جو وہ کر سکتی تھی اپنے قدموں کو تیزی سے آگے بڑ ھا نا اور اُس نے ایسا ہی کیا۔کچھ دیر پہلے والا غصہ ہوا ہو گیا تھااور وہ سر سے پیر تک پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی۔اپنے دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے وہ تیز قدموں کے ساتھ راستہ طے کرنے لگی ۔
” ابے مسجد میں علان کرا دے یار چاند نظر آ گیا ہے۔” گلی میں تین چار آوارہ لڑکے گروپ کی شکل میں دیوار سے ٹیک لگا ئے کھڑے تھے۔اور اُس پر آوازیں کسنے میں پیش پیش تھے۔ہر روز دوپہر جس وقت وہ ہوٹل جانے کے لیے باہر نکلا کرتی تھی تیز دھوپ اور شدید گرمی کے باعث گلیا ں سنسان پڑی ہوتی تھیں پہلے اُسے یہ ویرانی بڑی بھلی معلوم ہوئی تھی لیکن پھر کچھ آوارہ لڑکوں نے با قا عدگی کے ساتھ اُس کے راستے میں کھڑا ہو نا شروع کر دیا اور جیسے ہی وہ اپنی گلی کا موڑ مڑتی وہ اُس پر آوازیں کسنا شروع کردیتے ،اور ضوفی کا سارا اطمینان غارت ہو گیا۔
”مکھڑا تو دیکھاؤ آنکھیں تو غضب ہیں۔” اپنے چہرے کو نقاب سے کچھ مزید اچھی طر ح سے ڈھکتے ہوئے وہ کپکپا کر رہ گئی تھی۔مگرگلی شاید شیطان کی آنت جیسی لمبی تھی ختم ہونے کو نہیں آ رہی تھی۔” یہ ادا یہ ناز یہ انداز آ پ کا۔۔۔” کو ئی بے ڈھنگا بے سرا لفنگا لہک لہک کر گا رہا تھا اور باقی سب مسلسل اپنے پیلے دانتوں کی نما ئش کررہے تھے۔
بلآخر گلی ختم ہوئی تھی اور وہ ایک نسبتاً کھلی گلی میں نکل آ ئی تھی،بالکل پچھلی گلی کی طر ح یہ گلی بھی خالی تھی مگر وہ لڑکے اس گلی میں اُس کا پیچھا نہیں کرتے تھے بلکہ وہیں پیچھے کھڑے ہو جاتے تھے۔اُس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
اپنے پیچھے اُسے مسلسل ہلکی آہٹ کی آوازیں سنا ئی دے رہی تھیں لیکن پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وہ ہمت نہ کر سکی۔بھا گنا اگر اس لمحے اُس کے لیے آسان ہوتا تو وہ بھا گ کھڑ ی ہو تی ،اُس کے قدم لڑ کھڑاتے تھے۔تبھی اُس نے اپنے پیچھے آوازیں سنیں کچھ بلندمگر اتنی نہیں کہ لوگوں کو گھروں سے باہر نکل کر دیکھنے پر مجبور کر دیتیں وہ برا بر اُس کا تمسخر اُڑاتے رہے اور سگریٹ کا دھواں فضا ء میں بکھیرتے رہے۔
”کیا سمجھی آپ ساتھ چھو ڑ گئے ارے ایسے کیسے ابھی تو شروعات ہے آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا۔” ضوفی نے اپنے آپ کو بمشکل چیخ مارنے سے روکا ،ایک تمیز سے عاری سوکھا سڑا شیطان صفت لڑکا تقریبا ً اُس کے سر پر دھا ڑا تھا۔آج وہ اُس کے پیچھے یہاں تک نکل آئے تھے اور یہ چیز اُس کے اوسان خطا کرنے کے لیے کا فی تھی۔
” ارے جناب آپ کے بال۔۔کیا خوب صورت چو ٹی ہے آپ کی۔کہاں سے لی ؟کیا آڈر پہ بنوائی ؟بتا ئیے نا۔” تیز تیز چلتے ہوئے اُس کی چادر تھوڑی سر کی تھی اور کسی فلموں کے رسیا لڑکے نے ڈئیلا گ جھاڑا تھا ،ضو فی بمشکل چادر اپنے ہاتھوں سے سنبھالتی ہوئی سڑک پہ نکل آئی۔
”اچھا چلتا ہوں دعاؤں میں یاد رکھنا۔”سب نے اکھٹے گانا شروع کیا اور پھر وہ بلآخر واپس گلی میں غائب ہو گئے ۔ ضوفی کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اُس میں سما جائے۔اُس کے گال بھیگ رہے تھے ،بے بسی سے پُر آنسوؤں کے ساتھ۔۔۔
بھیگے چہرے کے ساتھ اپنے پاؤں گھسیٹتے ہوئے اور تقریبا ً سسکتے ہوئے بس سٹینڈ پہ جا کر کھڑی ہو گئی ۔پھوٹ پھو ٹ کر رونے کی خواہش اس قدر تھی کہ اُس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیااور بس آنے تک وہ بلکتی ہی رہی۔بس سٹینڈ پر مو جود کچھ مردوں نے اُسے تعجب سے دیکھا لیکن اُسے کو ئی شر مندگی محسوس نہ ہوئی ،جو وہ جھیل آئی تھی وہ اس شرم سے کہیں زیادہ تھا۔اُس نے اپنے دل میں سوچا ‘ زندگی میرے لیے صرف ایک تماشہ کیوں ہے؟’ کچھ اسی قسم کے شکوے جو وہ خود سے کیا کرتی تھی پچھلے بہت سے سالوں سے،درد بدر کی ٹھو کریں کھاتے ہوئے۔
بس کے چر چراتے ٹا ئر وں کی آواز اُسے واپس کھینچ لائے تھے اُن بے شمار نا خوشگوار سوچوں سے ،تیزی سے اپنی آنکھوں کو چادر کے پلو سے رگڑتے ہوئے وہ کھچا کھچ بھری بس میں سوار ہو گئی۔
” لفنگے۔کمینے ۔مر جا ئیں اﷲ کرے۔” ضوفی اُنہیں جتنا کوس سکتی تھی اُس نے کوسا ۔اُس کے ذہن میں ایک خیال گزرا، ضوفی نے جھٹکے سے اپنے سر پر ہاتھ رکھا اور گلے میں پھنسے آنسوؤں کے گولے کو اندر دکھیلتے ہوئے اپنے روزانہ کے سٹاپ سے ایک سٹاپ پیچھے اُتر گئی،ایسا اُس نے کیوں کیا؟ ضو فی خود نہ جان پائی مگر وہ چلتی رہی ۔
()٭٭٭()
صبح کی ٹھنڈی ہوا اُس کے بدن سے ٹکرا رہی تھی اور اپنی چادر میں لپٹا وہ کچھ اور سمٹا تھا۔ہلکی سی نرم اور نور لیے ہوئے روشنی پھیلتی تھی اور یقینا ً وہ چاند کی تھی مگر وہ خود کہیں نظر نہیں آتا تھا حالانکہ وہ ابھی غروب نہیں ہوا تھا اور سورج کے طلوع ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔یہ وقت یقینا خاص تھا۔
فضا میں سپیکر کی آواز گونج پیدا کرتی اور دُور تک پھیل جاتی۔
اﷲ اکبر ۔ اﷲ اکبر ۔
اپنے چہرے پر سے چادر ہٹاتے ہوئے وہ کسمسا کر ہوا اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔کبھی وہ اتنا ہی اچھا اور نیک ہوا کرتا تھا مگر پھر سوکھی شاخ کے پتوں کی مانند وہ جھڑ گیا اور اپنی تمام تر جوانی کے با وجود گزرے ہوئے وقت کی خو شگواریت میں سے کبھی نکل ہی نا سکا حتی کہ زندگی کچھ اور مشکل ہوتی گئی اور تکلیف دہ بھی۔کچھ اپنے لیے اور بہت ساری دوسروں کے لیے۔۔۔۔
اُٹھتے ہوئے اُس نے مندی آنکھوں کے ساتھ اپنے سے کچھ فاصلے پر سوئے ہوئے اپنے چھوٹے بھا ئی کو اُٹھا یا جو اُس سے چند سال ہی چھوٹا تھا لیکن محنت اور معصومیت میں تقریبا ً اُس کے ہی مقابل،وہ ایک دوسرے کے بھائی سے کہیں زیادہ دوست تھے ،ہمہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ،ایک سا کام کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کی ہی باتوں اور مشوروں پر عمل کیا کرتے اور ایک دوسرے کا بازو بنے رہتے۔
اپنے بڑے بھا ئی کی ہی طرح آنکھیں ملتا ہوا وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور پھر جب تک وہ قریبی مسجد سے نماز ادا کر کے لوٹے اُن کے اُس وسیع و عریض ڈیری فارم پر پندرہ بیس بھینسیں غرانے اور جگالی کرنے میں مصروف ہوتیں۔فارم میں مخصوص بو پھیلی تھی مگر اُن کے نتھنے اس بات کے غماز تھے کہ وہ عادی تھے اور پیدائش کے وقت سے یہ جیسے اُن کے ساتھ ساتھ تھی۔
فا رم میں نہ گندگی تھی اور نہ ہی۔۔۔لالچ۔عالم نے اپنے سر پر سفید صافہ لپیٹا بالکل اُس ہی طر ح جس طر ح اُس کا باپ عمو ماً کام کرتے لپیٹ لیا کرتا۔یہ باپ کے نقش قدم پر چلنے کی جیسے کو ئی کوشش تھی۔وہ تازہ دم تھا کچھ دیر پہلے کی نیند سے بوجھل آنکھیں اب پو ری کھلی تھیں اور سارا دھیان کام میں لگا ئے ہوئے تھیں اسی طر ح وہ بھینس کا دودھ دھونے لگا۔علیم پر ابھی کچھ نیند طاری تھی اور اُس کے بھورے بال پیشانی پر گرے تھے، خاموشی سے بھینسوں کے سامنے وہ چارہ پھیلانے لگا تھا۔
وہ بھوری آنکھوں اور بھورے ہی بالوں والے دونوں لڑکے مضبوط قد کاٹھ کے تھے اور جن کے بدن ڈیل ڈول نا تھے بلکہ توانا تھے۔جن کی آنکھوں پر حرص کی پٹی نہیں چڑھی تھی مگر کون جانتا تھا اﷲ کس کس طرح آزماتا ہے کبھی لے کر تو کبھی دے کر۔۔۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!