نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

بڑے سے کشادہ اور روشن کچن میں اُسے ایک ٹانگ پر کھڑے چار گھنٹے بیت گئے تھے۔کچن اس وقت تمام باورچیوں اور اُن کے معا ونین سے خالی تھا اور باقی معمول کے دنوں جیسی ہڑ بونگ اور افراتفری نظر نہیں آتی تھی حتی کہ فرائنگ پینز میں تیزی سے چلتے چمچ، کٹنگ بورڈ پر روانی سے چلتی چھری کی آواز ، تیزی اور کچھ عجلت میں اندر آتے ویٹرز کی آوازیں جو آرڈرز اپنی تیز آواز میں دہراتے اور کھانے کی پلیٹس تھامے اُسی طرح باہر نکل جاتے، سب کچھ جیسے کسی طلسمی طاقت کے زیر اثر غائب تھا، اور صرف ایک اکیلا وہ تھا اُس کچن میں موجود جو ہمہ وقت باورچیوں سے بھرا رہتا تھا اور جہاں کھانے بڑی تعداد میں چو لہوں پر چڑھے رہتے تھے مگر اس وقت وہ اپنے تمام باورچیوں کو چھٹی دئیے ہوئے تھا حا لا نکہ وہ جانتا تھا عالمی چھٹی والے دن شہر کے تمام ہر قسم کے ہوٹلوں میں معمول سے کہیں زیادہ رش ہو تا تھا اور یہ بات نہ صرف ہوٹل کے مالکوں کے لیے جہاں ایک خوشی کا عجیب سا احساس لیے ہوئے ہوتی تھی بلکہ وہ مصروفیت اور ہیجان کے ملے جلے تاثرات بھی اپنے اندر رکھتی تھی۔لیکن اُس نے ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی جیسے انجان بنتے ہوئے اپنے ہوٹل کے باہر ”کلو زڈ” کا بورڈ لگا رکھا تھا اور خود وہ جیسے ایک دعوت کا انتظام کرنے میں مصروف تھا۔لیکن ایسا صرف اُس کو بے انتہا مصروف اور ہیجان سے بھرپور ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے کام کرتے ہوئے دیکھ کر لگتا تھا ایسا ہے نہیں تھا ۔وہ کو ئی بڑی دعوت نہیں تھی جو اب سے کچھ دیر بعد ہوٹل کے سب سے خوبصورت ٹیبل پر لگنے والی تھی۔
وہ ایک بڑے کوکنگ رینج کے سامنے کھڑا تھا جس پر رکھی مٹی کی کڑاہی میں گا ڑھا شوربا اُبل رہا تھا۔” کیا وہ اس کو پسند کرے گی؟” اُس نے اپنے دل سے پوچھا تھا، کو ئی خاطر خواہ جواب نہ آنے پر وہ تند دہی سے دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا ۔
” ہر اچھی پکی ہوئی چیز چکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔” شاید دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے اُس نے جیسے ایک تو جیہہ اپنے آپ کو دی تھی۔لکڑی کے چمچے کو وہ آہستگی سے شوربے میں چلانے لگا تھا۔
جب وہ یہاں آیا تو یہ بات وہ جان گیا کہ کھانے اور رسومات بھی سفر کرتی ہیں۔اُس سے پہلے تک وہ انجان تھا ،میدے کی بنی وہ لمبی لڑیاں جسے وہ اپنی خاص ڈش ”کالی (kalli)” میں استعمال کرتے تھے کبھی اُسے اس طرح بھی ملیں گی۔پیکٹس میں ترتیب سے ڈالی ہوئی ،لیکن بہت جلد اُس نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ تا زگی اور عمدگی ہمیشہ اُسی چیز میں موجود ہوتی ہے جو اپنے ہاتھ سے پکانے سے کچھ دیر پہلے تک بنا ئی جانے والی چیزوں میں مو جود ہو تی ہے ۔
جب اُس نے چیزوں کو جان لیا اور تازگی اور بو سیدہ چیزوں میں سے کسی ایک چیز کے انتخاب کرنے کا مو قع اُس کے پاس آیا تب اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ تازگی کو اپنائے گا۔یہ جیسے اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنے کی ایک کوشش تھی۔مٹی کے برتن جو اُن کی اپنی وادی میں اب بہت کم استعمال کیے جاتے تھے وہ اُنہیں اب بھی بروئے کار لا رہا تھا وہ کھانا پکانے کے لیے مٹی کے برتن جبکہ اُن کو پیش کرنے کے لیے لکڑی کے برتن استعمال کرتا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا وہ کیوں ایسا کر رہا تھا شاید اُس بیان کی وجہ سے جو بہت پہلے بابا خان نے کبھی اُنہیں دیا تھا یا پھر یہ وہ محبت تھی جو اُس کے خون میں رچی بسی ہو ئی تھی اور اُسے ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔
اُس کے ہاتھ برق رفتاری سے کام کر رہے تھے اور اپنی دوسری ڈش کو بنانے سے پہلے بھی ایک بار پھر سے وہ اپنے آپ کو وہی سوال دہرانے سے روک نا پایا تھا۔یہی کہ وہ اس کو پسند کرے گی یا نہیں؟؟
حُمس ساس کے تما م ا جزا ء کو تیز چنگھا ڑتی آواز کے ساتھ اُس نے بلینڈ کیا تھا اور لکڑی کی سادہ مگر خو بصورت پیالی میں نکالنے کے بعد بلآخر اپنے ہاتھ پو نچھتے ہوئے وہ ر یفر یجر یٹر کی طرف بڑھا تھا ۔اپنے ہاتھوں میں ٹراؤ ٹ فش کی ٹرے پکڑے وہ واپس شیلف تک آیا تھا۔وہ مچھلی جو اُس کی یادوں سے جڑی تھی۔وہ اُسے یاد دلاتی تھی اُن بہت سی باتوں کی جو کبھی اُس کی زندگی کا ایک اہم جز رہی تھیں۔
ٹراؤٹ کی چمکدار سطح پر تیز چھری سے بڑی مہارت کے ساتھ اُس نے ایک دوسرے سے تھوڑے فا صلے پر کٹس لگانے شروع کیے تھے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے جب وہ مچھلی کو دیکھتا تو ایک ہی چہرہ اُس کے ذہن میں گردش کرنے لگتا اُس کے لبوں پر ایک مسکرا ہٹ بکھر جاتی۔ایک دکھ بھری مسکراہٹ۔۔
”مر چیں تمہیں اتنی پسند کیوں ہیں تیکھی مرچ؟”کچھ اسی قسم کے مذاق جو وہ ایک دوسرے سے کیا کرتے لیکن ایسا صرف تب ہوتا جب وہ مصروف سے کام کر رہے ہوتے اور جب اُنہیں اس بات کا ادراک ہوتا کہ دونوں اکٹھے ہی کسی بات پر ہنس پڑے ہیں ،تو وہ فورا سنبھل جاتے اور یوں اپنے کا م میں مگن ہو جاتے جیسے کو ئی بات نا ہوئی ہو۔اُن کے دل زور زور سے دھڑکتے اُس وقت تک جب تک کہ کو ئی دوسری بات نہ شروع ہو جاتی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اب بھی اُس نے غیر ارادی طور پر مرچوں کی مقدار زیادہ رکھی تھی۔ جبکہ خود اُس کے اپنے اندر اب بھی وہ بچہ موجود تھا جو کھانا کھاتے ہوئے ذرا سی مرچیں لگ جانے پر سی سی کرتا تھا اور اُس کے سفید گال دہک اُٹھتے تھے اور آنکھیں پانی سے بھر جا تی تھیں مگر اس باراُس نے کوئی اختیاط نہیں کی تھی۔بے تحا شہ لمبی تا زگی سے بھر پور موٹی اور کچھ تر چھی کٹی سبز مر چوں کو چا قو کی مدد سے کسی قدر مہارت اور بر ق رفتاری سے کٹنگ بورڈ سے ٹراؤٹ کے مسالہ لگے ٹکڑوں میں پھیلا یا اور اُسی مہارت اور تیزی کے ساتھ ٹکڑوں کو سلور پیپر میں لپیٹا اور اوون میں رکھ دیا تھا لیکن رکھنے سے پہلے اُس نے اُس گول اور سبز چیز کے چند ٹکڑے کیے تھے اور اُنہیں مچھلی پر پھیلا دیا تھا ،یہ یقینا اس کو مزید مزیدار بنا ئے گی،اُس نے دل میں سوچا تھا۔
یہ اُس کی آج کے دن کی آخری ڈش تھی اور جس کے بے حد لذیذ ہونے کا وہ گا رنٹی سے کہہ سکتا تھا۔حا لانکہ آج کے دن وہ اس ڈش کو تیار کرتے ہوئے اپنے اب تک کے کیر یئرمیں سب سے زیادہ کنفیو ژ تھا ۔
اپنے ہاتھوں کو صاف رومال سے پو نچھنے کے بعد وہ ایک بار پھر اُس بڑے ریفریجر یٹر کی طر ف بڑھا تھا۔اس بار وہ کسی قسم کی عجلت میں نہیں تھا اور کسی قدر سر شاری اُس کے قدموں میں محسوس کی جاسکتی تھی۔اپنے پیروں میں جھومتے ہوئے اُس نے اپنا مخصوص رقص کیا تھا اور گول گھوم گیا تھا،اور وہ خود ہی جیسے کچھ کچھ حیران سا اور خوشی سے بھر پور گنگناتے لبوں کے ساتھ مسکرا دیا تھا۔
آج جیسے سب نیا اور حیران کن تھا خود اُس کے لیے۔۔۔وہ جو پچھلے کئی سالوں سے اپنے روایتی گیتوں اور رقص سے انجان تھا اور جیسے اُنہیں اپنی زندگی سے الوادع کہہ چکا تھا ۔۔لیکن آج بھی وہ اُ س کے ساتھ تھے بالکل روز اول کی طر ح ،وہ خوش تھا اپنی ان پُرانی یادوں کو تازہ کرکے اور اس ۔۔۔نئی یاد کے ساتھ جو اُسے زندگی کے رنگ دوبارہ لُٹا رہی تھی۔اُس نے ایک نظر اپنی کلائی میں بندھی گھڑی پر ڈالی تھی۔وہ وقت کی پابند تھی اور یہ بات وہ بخوبی جانتا تھا۔
ریفر یجر یٹر کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھے وہ مختلف سوچوں میں غرق تھا۔Kalli،ٹراؤٹ فش ،حُمس ساس اورMantu تو ہوتے ہی ،اپنے ذہن میں مینیو ترتیب دیتے ہوئے اُس نے سوچا تھا مگر واحد مسئلہ جو اُسے پیش آیا تھا۔وہ یقینا میٹھے کا تھا۔کچھ ایسا جسے وہ پسند کرتی۔کیا مکھن اور سوکھی خوبانیوں سے بنی مزیدار بریڈ، چیریز سے بھری ہوئی کھویا پڈنگ یا پھر کھو پرا ٹافی،لیکن وہ ان سب کو رد کرتا رہا اورکچھ ایسا بنانے کا سوچنے لگا جس کی پریزنٹیشن ہی اُسے حیرانی میں مبتلا کر دے اور بے اختیار کھانے پر مجبور۔۔۔
بلا آخر اُس کی نظر انتخاب رشین میٹھے بر ڈز ملک کیک(Bird’s Milk Cake) پر جا رُکی تھی۔تین خوب صورت گلابی غلاب چڑھے چاکلیٹ بالز جو اب تک خاصے ٹھنڈے ہو چکے تھے اور جنہیں وہ اب ترتیب سے سو فلے پر رکھی کریم اور چا کلیٹ گلیز(glaze) لگانے والا تھا۔یہ ایک محنت طلب اور کہیں زیادہ یکسوئی سے کرنے والا کام تھا۔وہ جتنی احتیاط برت سکتا تھا اُس نے برتی اور باری باری تینوں بالز کو ٹرے میں سے اُٹھا یا اور ترتیب سے رکھنے لگا۔جب اُس نے تینوں بالز کوگلیز پر جما دیا تو اُس نے ایک اور پتلی کسی سٹک کی مانند جمی ہوئی گلیز کو اُن تینوں پر احتیاط سے رکھ دیا۔یوں جیسے کسی بھورے پرندے کا پر آہستگی سے زمین پر گر گیا ہو۔پلیٹ کے بالکل بیچ تھوڑا تر چھا کر کے رکھے اُس خوبصورت کیک کے دائیں جانب اُس نے چیریز کا وہ گا ڑھا مربع رکھا اور اسی طرح بائیں جانب۔تازہ پو دینہ وہ اُس کو پیش کرنے سے پہلے رکھتا،پلیٹ پر ایک آخری تو صیفی نگاہ ڈالتے ہوئے اُس نے سوچا تھا اور احتیاط سے اپنے ہاتھوں میں اُٹھا ئے وہ اُسے واپس ریفریجر یٹر میں رکھنے والا تھا جب وہ چونکا تھا اُسے اپنے ایپرن کے نیچے سینے کے پاس تھر تھرا ہٹ محسوس ہو ئی تھی۔ایک ہاتھ سے فون کان سے لگا ئے دوسرے سے پلیٹ تھامے،وہ چلتا رہا تھا اُس جانب جہاں ریفر یجر یٹر تھا۔
اُس کے لبوں سے اب تک سوائے ہیلو کے اور کو ئی الفاظ نہیں نکلے تھے لیکن یکدم جیسے اُس کے چہرے پر تا ریکی سی پھیل گئی تھی اور وہ وہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔اُس کی سرخ و سپید پیشانی عرق آلود ہو ئی تھی اور ہاتھ میں موجود پلیٹ بے اختیار اُس کے ہاتھوں سے اُلٹ گئی۔
وہ سن سا کھڑا تھا تبھی اُس کا فون والا ہاتھ دھپ سے نیچے گرا ۔اُس کے پیروں سے ننھی ننھی چیریز ٹکر کھاتے ہوئے دور تک لڑھک گئی تھیں اور چاکلیٹ کی نرم بالز اپنے گلابی غلاف کے ساتھ زمین پر لکیر کا نشان چھوڑتے ہوئے مختلف چیزوں سے ٹکرائے تھے اور بلآ خر بدشکل اور بھدی صورت میں تبدیل ہو گئے ۔وہ دیر تک یونہی کھڑا رہا حتی کہ کچن میں ہر طرف سڑن کی بو پھیلی تھی اور اوون سے دھواں نکل کر چہار سو پھیلنے لگا ۔ ناک میں گھستے ہوئے دھواں کی بو سے بلآخر اُسے ہوش آیا تھا اور وہ کھا نستے ہوئے تقریبا بھا گا تھا لیکن پیروں میں موجود بہت ساری چا کلیٹ اور جیلی جیسے اُسے چپک گئی تھی اور وہ گرتے گرتے بچا تھا،بمشکل اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے وہ اوون تک گیا اور بے تحاشہ کھانستے ہوئے اوون کھول کر بد حواسی کے عالم میں بغیر گلوز کے ٹرے باہر نکالنے کی کو شش میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ پاؤں بھی جلا بیٹھا تھا ۔
ٹرے اُس کے پاؤں کے اُوپر گری تھی اور ٹراؤٹ سیاہ لکڑ کی صورت زمین پر بکھری پڑی تھی۔
یہ اُس کے سارے دن کی محنت تھی اور جسے وہ اب ما یوسی بھری آنکھوں کے ساتھ زمین پر بکھرا ہوا دیکھ رہا تھا۔اُس معروف ہوٹل کے کچن میں جیسے ایک طوفان آ کر گزر گیا تھا۔اور اُس کا مالک اپنا سر پکڑے کاؤنٹر کے ساتھ ٹیک لگا ئے بیٹھا تھا۔
()٭٭٭()
اے دق ( لڑکے)۔۔کیا کرتا اے تم؟ھو سئی ماں اس قدر زور سے دھا ڑیں کہ اُن کے اپنے گلے میں خراشیں سی پڑ گئیں مگر جلدی سے تھوک نگلتے ہوئے اپنے خشک گلے کو تر کرتے ہوئے اُنہوں نے ہاتھ چلا کر اپنے سامنے پڑے پھل کو بچانے کی سعی تھی۔
دیوہ ، پشمینہ،گل مکئی اور زرمستہ وہ سب اس وقت بوڑھے گھنے اخروٹ کے درخت کے نیچے مو جود تھیں ،کھلکھلا اُٹھیں۔اور یہ چیز جیسے اُس گول مٹول سرخ و سپید لڑکے کو مزید شہہ دے گئی۔ اُس کے گال شرارت اور خوشی، کہ وہ نظروں میں رہتا ہے اور جانتا ہے کہ بے انتہا لاڈلا ہے ، کے احساس کے ساتھ مزید پھولتے اور وہ اُن سب کے درمیان میں سے بھاگتا اور آوازیں نکالتا رہا۔وہ ہانپ رہا تھا مگر اُس کے چہرے کی مسکراہٹ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آ رہی تھی اور لال ٹما ٹر ہوتا چہرہ مسلسل ہنسی بکھیررہا تھا ۔
صحن بہت بڑا نہیں تھا مگر جتنا تھا وہاں بہت ساری چادریں قطار در قطار بچھی تھیں اور طرح طرح کے پھل اپنی تقریبا ختم ہوتی رنگت کے ساتھ زمین پر بچھے تھے۔سرخ چیریز،پیلی اور کچھ کچھ نا رنجی خو بانیاں،گلابی کی چھب دکھلاتے کالے شہتوت ،رس سے پُر سیب اور اُن سب کو اپنے سا منے پھیلائے وہ چار وں بہنیں اور ھو سئی ماں۔ گل مکئی اور دیوہ سوکھی خوبانیوں جبکہ پشمینہ شہتوتوں میں سے خراب کو علیحدہ کرتی جا رہی تھیں۔
زر مستہ نے ایک نظر اُٹھا کر اخروٹ سے بھرے درخت کی طرف دیکھا ،اُس کے ہاتھ برابر چل رہے تھے۔” بر مو گھ(اخروٹ) اس بار بو(بہت) ہوا ھو سئی ماں۔” اُس نے سرخ رس بھرے سیب کے چار ٹکڑے کیے اور اُنہیں اپنے سامنے پڑے لکڑی کے معمول سے کچھ بڑے پیالے میں اُچھال دیا۔” آں۔۔۔ام بی یہی سوچتا اے ۔جب یاں آیا تھا تو امارے گھُل(وادی) میں اتنا برموگھ نہیں تھا ،گل مکئی اور دیوہ نے ایک دوسرے کو دیکھ کر دانت نکوسے کچھ ایسا ہی لڑکے نے بھی کیا مگر ھو سئی ماں مگن سی اپنے کام میں مصروف بولتی چلی جا رہی تھیں،ام اس درخت کے نیچے کھڑا بوکھت (پتھر) مارتا رہتا اور بر موگھ توڑتا رہتا پھر ایک دن۔۔لڑکے نے بات کاٹ دی ،پھر ایک دن دُن(دانت) ای ٹوٹ گیا۔بے تحاشہ ہنستے ہوئے اُس نے بات مکمل کی۔ھو سئی ماں نے غصے سے اُسے کچھ مارنے کے لیے ادھر اُدھر دیکھا مگر کچھ نا ملنے پر ایک خراب چیری اُٹھا ئی اور اُسے لڑکے کی جانب اُچھال دیا۔لڑکا برابر ہنستا رہا اور چاروں لڑکیاں بھی۔
ھو سئی ماں خود بھی اُن دنوں کو یاد کر کے مسکرا دیں جب وہ دُلہن بن کر اس گھر میں آئیں اور کیسے یہاں اُنہوں نے اپنی جوانی،کیونکہ جب اُن کی شادی ہوئی وہ صرف تیرہ سال کی تھیں،گزاری یہاں اُنہوں نے اپنا بیٹا پیدا کیا،ایک کڑیل جوان لڑکا جس کے گال سرخ رہتے اور پیشانی پر ایک بھورا تل جسے یاد کر کے اُن کی آنکھیں بھیگ گئیں۔زر مستہ نے ھو سئی ماں کی جانب دیکھا اوربا قی سب نے بھی۔یکدم وہ سب رنجیدہ نظر آنے لگے لیکن پھرزرمستہ نے اُنہیں مزید کسی یاد کے بھنور میں پھنسنے سے روکنے کے لیے ایک آزمودہ کو شش کی۔” اچھا تو برموگھ کیسے تم اپنے دُن (دانت) سے توڑ رہیں تھیں؟” ھو سئی ماں نے اپنے آنسو پو نچھے اور اشارے سے بتانے لگیں۔”بر موگھ( اخروٹ) بالکل بوکھت (پتھر) تھا یہ اپنے منہ میں رکھا اور دُن( دانت) باہر۔” ھو سئی ماں خود بھی ہنس پڑیں۔” یاں گھُل (وادی)میں سف (سب)کہتا تھا تمارے بابا خان کو۔۔ دُن ٹوٹی بوق(بیوی) والا۔ہزار بار کا سنا ہوا قصہ سن کر وہ سب ایک بار پھر سے ہنس پڑے۔پورے دل کے ساتھ کہ بعض سنے ہوئے قصے بار بار مزہ دیتے ہیں۔
زمین پر رنگ ہی رنگ بکھرے تھے کچھ مرجھاتے ہوئے اور کچھ تا زگی سے بھرپور۔۔
اپنے مخصوص کالے لبا س کو رنگ برنگے لال، سبز، نیلے ، پیلے گل بو ٹوں سے سجائے وہ سر پر تکونی ٹوپیاں رکھے بیٹھی تھیں جن پر جنگلی پرندوں کے پر شان سے لگے تھے اور وہ خود سرخ رخساروں کے ساتھ مہارت سے ہاتھ چلاتے ہوئے گلے سڑے اور ناکارہ پھلوں کو علیحدہ کرتی جا رہی تھیں۔اپنے ارد گرد بھا گتے دوڑتے بچے کی شرارتوں سے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑ تیں اور ہو ۔۔ہو ۔۔ہے ۔۔ہے کی آواز ایک کورس میں نکالتیں۔
یکدم لڑکے نے جست بھری اور اپنے لمبے لٹکتے سویٹر کے کونے کو پکڑ کر ہوا میں اچھلا اور کسی پرندے کی طرح جھپٹتے ہوئے سامنے رکھی سوکھی خوبا نیوں کے ڈھیر میں سے مٹھی بھر خوبا نیاں ضبط کیں اور ایک بار پھر سے بھا گتے دوڑتے ہوئے کچر کچر چبانے لگا ۔
”ام آخری بار تم کو کہہ رہا ہے شرافت سے نیچے بیٹھ جا اور ڈنڈی مارنا بند کر ورنہ ام خود اُٹھے گا۔” پیچھے ساؤنڈ میوزک کی طرح بہت ساری دبی دبی ہنسی کی آواز گو نجی تھی۔لڑکے پہ جیسے کو ئی اثر نہیں ہوا تھا اور اُس کی رفتار کچھ مزید تیز ہو گئی تھی۔
”کا وش خان ۔۔۔ او کاوش خان۔۔جلدی کرو ادر آؤ دیکھو ام کیسی عمدہ چیز لایا اے۔”
بہت ساری خوبا نیا ں اُس کے ہاتھ سے چھو ٹی تھیں اور زمین پر بکھرتی چلی گئیں تھیں۔کاوش خان منہ کھولے ساکت کھڑا تھا اور بھاگنا چھوڑکر یک ٹک اپنے سامنے کھڑے بابا خان کو دیکھ رہا تھا جو دھاڑ سے دروازہ کھولتے ہوئے ٹوکری والا ہاتھ فضا میں بلند کیے خوشی اور جوش سے بھرپور چہرے کے ساتھ کندھے اکڑا ئے کھڑے تھے۔
چاروں لڑکیوں نے بھی نظریں اونچی کر کے دروازے کی سمت دیکھا تھا اُن کی بڑی بڑی نیلی اور کچھ کی سرمئی رنگت لیے ہوئے آنکھیں جیسے حیرانی سے پھیل گئی تھیں۔
کاوش خان اُڑتا ہوا باباخان کے سر پر پہنچا تھا۔”بابا خان اتنی جلدی لے آیا تم؟؟ابی تو یہ پھول پوری وادی میں کھلا بھی نہیں تم کہاں سے لے آیا۔” کاوش خان نے تیزی سے اُن کے ہاتھ سے ٹوکری جھپٹی تھی اور نرم ہاتھوں سے پھولوں کو چھو کر دیکھنے لگا تھا۔اُس کی آنکھوں کا اشتیاق دیدنی تھا۔
”ام تمارے واسطے اُوپر جنگل میں چلا گیا تھا۔” باباخان نے اُس کے خوشی سے بھر پور پھولے پھولے گالوں پر پیار سے ایک چپت رسید کی تھی اور سفید پنکھ سے سجی چترالی ٹوپی اُتار کر اپنے ہاتھ میں پکڑ ے اندر کی طرف قدم بڑھا دئیے تھے۔
” اس کے واسطے تم کو اتنی اُوپر جانے کا کیا ضرورت تھا۔اس کا تو ویسے ای دماگ کھراب اے۔” ھو سئی ماں نے آخر میں اپنا تڑکا لگا نا ضروری سمجھا تھا۔
”آں۔۔۔ابی تم باتیں بنا تا اے جب یہ بنائے گا تو سب سے زیادہ چسکا تم ای لگا ئے گا۔” وہاں موجود سب لڑکیوں کے منہ سے جیسے ہنسی کا فوارہ پھو ٹ پڑا تھا حتی کہ خود ھو سئی ماں قدرے منہ موڑے اپنی ہنسی ضبط کرنے لگی تھیں۔مگر جواب دینا بھی لازم تھا سو پھر سے منہ موڑے بظاہر سوکھی چیریز کے ڈنٹھل علیحدہ کرتے ہوئے کہنے لگی تھیں۔
”ام کو تو لگتا اے تمارا بھی اُوپر جانے کا سوچ اے جو تم باگ باگ جاتا اے اُوپر والی وادی کو۔” ھو سئی ماں کے سو کھے جھر یوں زدہ چہرے پہ مسکراہٹ بکھری تھی اور ہاتھ میں پکڑی سوکھی چیری کو ڈنٹھل سے الگ کرتے ہوئے چیریز کے ڈھیر میں پھینک دیا تھا جو بالکل اُس ہی کی طرح اپنی اصل رنگت کھو چکی تھیں اور جن میں مو جود رس اب پہلے سے قدرے کم ہو چکا تھا لیکن ابھی بھی وہ کسی قدر اُن میں مو جود تھا،وہ خوش نما اور لذت سے بھر پور ابھی بھی تھیں۔
” تما را یہ خوشی ام اتنی جلدی پورا نہ ہونے دے گا ،ابی تو تمارے جانے کا وقت اے ،ابی اُوپر ام تماری ام جو لیوں (ہم جولیوں) کو دیکھ کے آیا اے۔۔ کیسے مزے میں وہ خلاؤں کو گھور را تھا تم بی جاؤ نا اور خلاؤں میں گھو رو ایسے ای تم یاں پہ اما را سر کھا تا اے۔”
گل مکئی دھیمے سے چلتی ہوئی آئی اور پانی کاکٹورہ بابا خان کے ہاتھوں میں تھما دیا۔پانی ٹھنڈا اورمزیدار تھا اس قدر کے اس علاقے سے بہت دور بسنے والے لوگ شاید یہ بات ساری زندگی نا جان سکیں کہ پانی بھی کبھی اتنا لذیذ اور شفا سے بھرپور ہو سکتا ہے جتنا کہ وہ یہاں پر موجود تھا۔ ”اپنی وادی کا پانی بھی نعمت ہے۔” باباخان نے اپنے د ل میں سو چا،مگر اس دوران بھی وہ ھو سئی ماں کی بات کا جواب دینا نہ بھولے۔
کالاش میں یہ رواج تھا بوڑھے جب شدید بوڑھے ہو جاتے تو وہ اُوپر چلے جاتے پھر وہ پہاڑوں کے دیو قامت پتھروں پر بیٹھے خلا میں گھورتے رہتے جیسے اپنی موت کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہوں اور وہ تب تک اُسی طرح بیٹھے رہتے جب تک کہ موت اُنہیں اپنی آغوش میں نا لے لیتی۔اس دوران وہ اتنے اجنبی اور کچھ اس قدر ڈراؤنے لگتے کہ سیاح اُن سے کنی کتراتے اور دور سے ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ پھر اُن کے پا س بھی نہ پھٹکتے۔
ھو سئی ماں نے میدان جنگ چھوڑا اور ہنہ کہہ کر دوبارہ سے چن چن کر خراب چیریز الگ کرنے لگیں۔
با باخا ن کاوش کی جانب متو جہ ہوئے جو اب ٹوکری میں سے رنگین اور تازہ پھول نکال کر اُن پہ سے ہلکا سا پانی نتھارنے کے بعدٹوکری میں موجود سلاد کے پتوں اور کچھ جڑی بو ٹیوں کو اچھی طرح دھونے لگا تھا جن پر مٹی کی تہیں جمی تھیں۔
”آں تم نے تیار ی شروع کر دیا چلو پھر ام بی ہاتھ شاتھ دھو کے آتا اے تم تو پانچ منٹ میں بنا لے گا۔”پشمینہ نے اُنہیں دیکھا تو کہنے لگی۔” کھانا لگا دو ں پھر باباخان؟” ” ہاں ہاں لگا دو۔” باباخان نے اُٹھتے ہوئے ہاتھ فضا میں بلند کر کے کہا اور اندر تاریک کمرے میں غائب ہوگئے۔
اپنے ہاتھوں سے چھری کو مہارت سے پکڑے وہ سلاد کے پتے کاٹتا جا رہا تھا اور بابا خان کی بات پر مسکرا کر پھر سے اپنے کام میں جت گیا تھا۔سارے پھولوں اور جڑی بو ٹیوں کے بعد بلا آخر ٹوکری میں سے کا ویرکی کلیوں کو برآمد کیا تھا اور تیز چھری سے اُنہیں کاٹنے لگا تھا۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!