نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

اُس وقت جب بہادر اندر بڑھنے کو تھا ضوفی نے تیز آواز میں آرڈرز بولتے ہوئے اندر قدم رکھا اور وہ لمحہ آ گیا جس کی کچھ دیر پہلے کا وش خواہش کر رہا تھا۔وہ منجمد ہو گیا مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا اُس نے تیزی سے اپنی نظریں ہٹا ئیں اور قدرے رُخ مو ڑ کر کھڑا ہو گیا۔بہادر نے یہ بات خا ص طور سے نو ٹس کرتے ہوئے پین کیک والی پلیٹ ضوفی کے سامنے رکھی اور اندر بڑھ گیا وہاں جہاں کاوش بت بنا کھڑا تھا۔وہ بھول گیا کہ اُس نے اشارہ کر کے بہادر کو یہاں کیوں بُلا یا تھا۔ہاتھ میں پکڑی لسٹ کو اُس نے غیر ارادی طور پر دیکھا،اور اُسے جیسے یاد آیا وہ کچھ بھول گیا تھا۔” یہ دیکھو ما رکیٹ سے جو چیزیں منگواناہیں سب پوری ہیں نا؟” لسٹ پکڑا کر وہ خود بیٹھ گیا اور اُس طرف دیکھنے سے گریز کیا جہاں کچھ دیر پہلے ضوفی کھڑی تھی۔” چترال سے بی کچھ منگوانا تھا ذہن میں نہیں آ رہا۔” کاوش نے اصل مسئلہ بیان کیا ،بہادر غور سے لسٹ دیکھ رہا تھا۔” کا وش تم کاویر لکھنا بھول گیا اے، کاویر منگوانا اے چترال سے۔” بہادر خان نے افسوس سے اُسے دیکھا اور جھک کر پین اُٹھا کر خود لکھنے لگا۔کاوش سُن سا بیٹھا تھا۔اُس کے لبوں سے نہ سمجھنے والے الفاظ ادا ہوئے۔” ام خود کو بھول گیا۔” بہادر نے چونک کر اُسے دیکھا اور کا غذ ٹیبل پر رکھے آہستگی سے باہر نکل گیا۔
()٭٭٭()
دُنیا سے اُس کا پا لا بڑے عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ پڑا۔وہ اپنے دل میں یہ خیال کرنے لگی کہ لوگ کسی نا کسی طرح اُس کے نقصان کا مو جب بنتے،چنا نچہ وہ اُن سب کے ساتھ جنہیں وہ جانتی تھی اور اُن سب کے ساتھ بھی جنہیں وہ نہیں جانتی تھی انتہائی بھو نڈے طریقے سے پیش آنے لگی۔کچھ روکھے پن سے اوربہت زیادہ نا راضی اپنے اندر لیے وہ اُن سے بات کرتی اور جیسے سر سے اُتارتی۔
اُس کا خیال کچھ ایسا غلط بھی نا تھا کہ لوگ اُسے مو قع مل جانے پر نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر انجانے میں ایک ایسا طریقہ اپنا لیا جو یقینا سب پر برو ئے کار لانا کسی قدر حما قت تھی۔وہ کسی پر بھی اعتماد نہ کرتی اور خا مو شی کو خود پر طاری کیے رکھتی۔لیکن یہ سب صرف تب تک تھا جب تک کہ بر سات کی پہلی بارش نا ہو گئی۔آج کے دن سے ٹھیک ایک دن بعد۔۔۔
Chitral Cuisine میں اُس کی شفٹ ختم ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا جب وہ کچن سے باہر تیزی مگر پر سکون طریقے سے آرڈرز لینے کے بعد کچن کے اندر تیزی، عجلت اور پھرتی سے اپنے روز مرہ کے کام سر انجام دیتی رہی۔کا وش خان اُسے بظا ہر اپنے کام میں مگن مگر نا محسوس طریقے سے دیکھتا رہا۔کاوش نے ایک چیز جو خاص طور سے نوٹس کی وہ یہی تھی کہ اُس کی آنکھیں کس قدر اُداس تھیں۔
” نظر وہ جو ایک بار پڑ جانے پر ازبر کر لے اندر کے حال کو ، پھر بار بار دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔” کا وش بھی بار بار دیکھنا نہیں چاہتا تھا وہ نہیں چا ہتا تھا لوگ ضوفشاں پر انگلیاں اُٹھا ئیں۔
ضوفشاں نے بلا آخر اپنا آخری آرڈر دیا اور مسکرا کر اپنی ساتھی گول مٹول چہرے والی شیف کو اپنے لبوں پر ایک اُداس مسکرا ہٹ سجائے خدا حافظ بولا اور کچن کے بالکل آخرمیں اُس کمرے میں داخل ہو گئی جہاں کچن کا اختتا م ہوتا تھا۔
کا وش نے اُس کیک پر جو اب تک خشک تھا کریم کی تہہ جما ئی کچھ سوچتے ہوئے،یوں جیسے کسی کشمکش کا شکار ہو۔اپنے دل میں عجیب قسم کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے اُس نے ایک آخری بار گردن مو ڑ کر دیکھا ،ضو فشاں بھاری دروازے کو دھکیلتے ہوئے باہر نکل رہی تھی،اُس کی چادر کا ایک کو نہ دروازہ بند ہونے سے پہلے ہوا کے زور سے پھڑ پھڑا یا لیکن پھر وہ بھی غا ئب ہو گیا،کا وش کا دل یکدم ڈوب کے اُبھرا۔
ضوفی جو اب اپنے آپ کو قدرے ہلکا پھلکا محسوس کرتی تھی مگر ایک چیز تھی جس نے اُس کی روح تک کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور وہ تھی اُس کا بو جھل پن۔۔وہ اس قدر بجھی بجھی رہتی کہ اُسے دیکھنے پر یوں محسوس ہوتا جیسے آنسو ابھی اُس کے رخساروں پر بہہ نکلیں گے۔اور یہی وہ حقیقت تھی جو وہ اپنے بارے میں جانتی تھی اور یہی وہ وجہ تھی جو اُسے خوش گمان بھی ہونے نہیں دیتی تھی۔وہ خوشی میں بھی غمگین نظر آتی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مو سم خوش گوار تھا پچھلے بہت سے دنوں کی بر عکس تیز دھوپ کا شا ئبہ تک نہیں تھا اور بادل گھرے ہونے کے ساتھ تیز ہوا بھی تھی۔ضوفی کے لیے بہت سی دوسری باتوں کی طر ح یہ بھی ایک پریشان کُن صورتحال تھی۔ہو ٹل سے اپنے مطلوبہ سٹاپ تک وہ پیدل جا یا کرتی تھی اور یہ ایک خاصا لمبا فا صلہ تھا۔کچھ تیز چلتے ہوئے اُسے کچھ لمحوں بعد ایسا محسوس ہوا کو ئی تھا جو اُس سے ایک دو قدم کے فا صلے پر چل رہا تھایوں جیسے پیچھا کرتے ہوئے۔اس سے پہلے کہ وہ مڑ کر پیچھے دیکھتی ،کا وش اُس کے بالکل برا بر میں چلنے لگا۔
ضو فشاں نے بے انتہا حیران ہوتے ہوئے بھی کو ئی سوال نہ کیا ۔اگر کو ئی اُسے اس وقت دیکھتا تو یقینا کہتا کہ وہ پریشان اور ڈری ہو ئی ہے مگر یہ بات سراسر اُس کے چہرے کے تا ثرات کو دیکھنے پر پتہ چلتی لیکن وہ اپنے اندر بالکل کو ئی ڈر اور حتی کہ پریشانی تک نہیں رکھتی تھی اگر کچھ تھا تو وہ صرف حیرانی تھی جو کاوش کو یوں اپنے ساتھ چلتے دیکھ کر اُس کے اندر اُمڈی تھی۔
” میں آپ سے کچھ بات کرنا چا ہتا تھا اور اُس کے لیے مجھے بس دو تین منٹ درکار ہیں۔” اس سے پہلے کہ ضوفشاں خود اُس سے کو ئی سوال کرتی ،اُس کی یہاں مو جو دگی کا،کا وش بول اُٹھا۔ ضو فشاں نے بغیر کو ئی جواب دیے اُسے بولنے دیا۔
” ضو فشاں میں آپ سے شادی کرنا چا ہتا ہوں۔” بادل اس قدر زور سے گر جے کہ ضو فی شاید بہت عرصے بعد اندر تک لرز گئی۔وہ کھلے آسمان کے نیچے کھڑے تھے اور ہلکی بو ندا باندی تیز بارش میں بدلتی ضو فشاں نے کسی چھت والے مقام پر کھڑا ہونا چاہا۔کاوش جو اب تک اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کے بعد سن سا کھڑا تھا اور اُسے اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ ضو فشاں نے اُس کی بات نہیں سُنی ،اُسے فوراً اس با ت کا احساس ہوا کے بارش مسلسل برسنا شروع ہو گئی تھی ۔کاوش نے اُسے اپنے دائیں طرف مو جود پھولوں کی دُکان کے سامنے شیڈ کے نیچے کھڑا ہو نے کو کہا اور وہ دونوں ایک ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔شیشے کے پار مو جود خو بصورت پیلے ٹیو لپس پر نظریں جما ئے ضو فشاں نے اُس سے پو چھا۔”آپ کیا کہہ رہے تھے؟” بارش نے اُس کی اُداسی میں کچھ اور اضا فہ کیا تھا ۔اور اُس کی آنکھیں مزید اُداسی چھلکانے لگیں تھیں۔اپنی بھو ری آنکھوں کے ساتھ وہ ٹیو لپس کو دیکھتی رہی بالکل غیر ارادی طور پر۔کاوش نے اُس کی نظروں کے تعا قب میں دیکھا اور جواب نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اُس نے کہا۔”شاید یہاں کھڑا ہونا کچھ مضحکہ خیز ہوگا میرا خیال ہے کہ ہمیں شاپ کے اندر جانا چاہیے۔” شیشے کے وزنی دروازے کو دھکیلتے ہوئے اُس نے ضوفشاں کو پہلے اندر جانے دیا۔اُسے پھول پسند تھے کا وش یہ بات فوراً جان گیا۔
دیر تک وہ اُس دُکان میں موجو د رہے مگر آپس میں کو ئی بھی مزید بات کیے بغیر وہ پھولوں کو نر می سے چھو تے رہے اور کسی انجانے جذبے کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے وہ مختلف پھولو ں کی ایک ایک ڈلی کو با سکٹ میں سے نکلواتے رہے۔با لکل بے مقصد۔۔۔ضوفشاں نے جس جس پھول کو نظر بھر دیکھا کا وش نے اُسے نکلوایا۔وہ وقت گزارتے رہے بارش کے مکمل ختم ہو جانے کے انتظار کے ساتھ۔۔۔
دُکان کے باہر مو جود شیڈ سے پانی کے قطرے گرنے لگے تب ضو فی وہاں سے باہر نکل آئی اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بچھڑ جانے کے احساس کے ساتھ ضو فی نے اُسے خدا خا فظ بولا حا لانکہ وہ کچھ اور بولنا چا ہتی تھی کسی قسم کے شکریے جیسے کو ئی الفا ظ مگر کچھ مزید بولے اور سنے بغیر وہ وہاں سے نکلی اور تیزی سے غا ئب ہو گئی ،کا وش کی نظروں سے۔۔۔کا وش نے اپنے ہاتھ میں مو جود بے شمار پھولوں کے گل دستے کو دیکھا اور کچھ آسو دگی بھری مسکرا ہٹ لیے پھولوں کی ادا ئی کرنے لگا۔
()٭٭٭()
کا وش کے لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ۔۔بار بار اُس کے ذہن میں گونجے۔زور دار گونج پیدا کرتے ہوئے۔۔مگر وہ جھٹلا تی رہی،کچھ بے رحمی سے کچھ ر نجیدگی سے۔ اُس نے شکر ادا کیا ،بجلی کی اُس کڑک کا جو خدا کی طرف سے عین اُس مو قعے پر اُس کا بھرم رکھ گئی۔کا وش کو لگا وہ سُن نہ سکی تھی،اچانک اُس کے لبوں سے نکلنے والے الفاظ۔۔”کا ش کے نا سُنے ہوتے ،ضوفی نے اپنے دل میں خوا ہش کی۔”
” محبت تو ہو جاتی ہے ۔” بہت بار بہت سے لوگوں سے سُنا تھا۔اور بہت بار اُس نے سوچا تھا۔” اگردل راضی نہ ہو تو محبت کی کیا مجال کے وہ ہو جائے۔”
اُسے شرمین یاد آئی چند سال پہلے جس لڑکی نے اُسے جوتوں اور پھر کپڑوں کی دکان میں کام دلوایا تھا۔شرمین کو ایک لڑکے سے محبت ہوئی تھی۔” اتنی مجبوریوں کے باوجود تم نے کیسے محبت کر لی؟” شرمین عشق میں پور پور ڈوبی تھی اور ضوفی کو اپنی محبت کے قصے سنا نے میں مصروف تھی،ضوفی نے اُسے بیچ میں ہی ٹوکا اور سوال کر کے شرمین کو مزید بولنے سے روکا۔محبت کے بارے میں سُنے ہوئے الفاظ ایک بار پھر سننے کو مل گئے۔۔” محبت کا مجبوریوں سے کیا لینا دینا؟” ضوفی نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔”محبت تو کچھ نہیں دیکھتی نا سوال کرتی ہے اور نا جواب ما نگتی ہے بس۔۔چپکے سے آتی ہے پور پور سماں جاتی ہے۔” جیسے کسی اور ہی جہاں میں ،ہواؤں میں اُڑتے ہو ئے ،رنگوں کے سنگ شرمین نے اُسے بتا یا۔مگر ضوفی چڑ گئی۔” فضول باتیں ہیں سب،حال کی مصیبتوں سے چھٹکا رہ پانے کے لیے ایک بے ہودہ طریقہ،خو ش کُن خواب دیکھو اور یہ ۔۔یہ دو ٹکے کے لڑکوں کے ساتھ تھوڑی دیر خوش گپیاں لگاؤ تا کہ تم غموں سے کچھ دیر کے لیے غا فل ہو جاؤ۔نشہ ہے یہ بھی۔۔۔نا م نہاد محبت کا نشہ۔” پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ضوفی بولتی رہی۔شرمین نے اُسے منہ کھولے دیکھا اُس کی آنکھوں میں حیرانی تھی اور اُس نے سوچایہ یقینا پاگل ہے ورنہ محبت کے بارے میں ایسے الفاظ۔۔”محبت تو میٹھا سرور ہے ۔” شرمین کے لبوں پر ایک دھیمی مسکراہٹ رینگ گئی،اور وہ ضوفی کو اُس کے حال پر چھو ڑ کر پھر سے بدمست ہو گئی۔ضوفی نے اُسے ایک نظر دیکھا اور منہ موڑ لیا۔
” محبت کا کو ئی وجود نہیں ہے۔” اپنے دل میں سوچتے ہوئے ضوفی نے کر وٹ بدلی،اُس کے ہلکے وجود سے بھی چارپائی چرمرانے لگی۔”کاوش اگر یہ جان لے کہ میرا پس منظر کیا ہے تو یقینا وہ ‘وہ ‘ الفاظ مجھ سے کبھی نا کہتا۔میرے بھا ئی جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور اب وہ میری کما ئی کھا رہے ہیں تو وہ ایک بار تو ضرور میرا مذا ق اُڑاتا اور نہیں تو ایک ترحم بھری نگاہ تو ضرور ہی مجھ پر ڈالتا۔” اپنی پلکیں جھپکتے ہوئے اُس نے بے دردی سے اپنے آنسو صاف کیے۔
” میں کبھی بھی کا وش کو ایسا مو قع دوبارہ نہیں دو ں گی۔” اپنے دل میں معصمم ارداہ کرتے ہوئے آنکھیں مو ندنے سے پہلے بھی وہ کا وش کو ہی سو چتی رہی اور کا وش کا چہرہ اُس کے ذہن میں اُس وقت تک گھو متا رہا جب تک کہ نیند مکمل طور پر اُس پر حا وی نا ہو گئی۔
()٭٭٭()
الفا ظ صرف لبوں سے نکلنے کے محتا ج نہیں ہوتے، آنکھیں، چہرے کے تاثرات اور حتی کہ بھنووں کی ہلکی سی جنبش بھی یہ کام بخوبی انجام دے دیتے ہیں۔اُن دونوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معا ملہ تھا۔بہت ساری باتیں تھیں جو ان کہی تھیں مگر وہ محتا ج نہیں تھیں کہے جانے کی۔
اگلی صبح کا وش نے اُسے دیکھاصرف ایک نظر اور ضوفی نے بھی ایسا ہی کیالگا جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔اُس ایک نظر سے کاوش نے سارے بھید پا لیے۔وہ جان گیا انجان بن جانا بھی بعض دفعہ کس قدر دشوار ہوتا ہے ،ضوفشاں کا چہرہ کس قدر دشوار گز اریاں سہا ہوا سا لگتا تھا۔
کچن میں جب سارے شیف نا شتے کے لوازمات تیار کرنے میں مصروف تھے ، تب ہی سب ویٹرز آرام سے ایک طرف کھڑے تھے اور ہلکی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں بگھا رنے میں لگے تھے ،کہ ابھی Chitral Cuisine میں کسٹمرز کا رش اس قدر نہیں بڑھا تھا کہ وہ ویٹرز کی دوڑیں لگوا دیتا۔ضوفشاں کے لیے وہ ایک نظر ہی بہت بھاری پڑی اور اُس نے کچن سے باہر بے شمار میز کر سیوں سے پرے ایک خا موش کونے میں کھڑے ہونے کو تر جیح دی۔
کا وش نے اُسے با ہر نکلتے دیکھا اور ایک بار پھر سے پین کیکس میں پگھلی ہو ئی چا کلیٹ بھرنے لگا۔وہ ایک سلجھے ہوئے شیف کی ہی طر ح کھانوں کو نئے اور عمدہ طریقوں سے پیش کرنے کا عادی تھا اور اس بات میں با لکل کو ئی جھجک محسوس نہیں کرتا تھا کہ کھانوں میں بیشک وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہو سکتی تھیں مگر اس چیز میں کو ئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ اپنا اصل ذائقہ ہی کھو دیں۔
” جدت کھانوں کے ذائقے کو مزید بڑھا نے کے لیے کا رآمد ثابت ہو سکتی ہے۔” کا وش نے ہمیشہ اس خیال کو مزید پر وان چڑھا یا۔لیکن ایک چیز جس میں وہ کبھی تر میم نہ کر سکا ،خود اُس کا روزانہ پہلا نا شتہ تیار کرنا جو سب سے پہلے کچن سے باہر جا تا،یہ اُس کا دن کے بہترین آغاز کرنے کی ایک کو شش تھی۔
کا وش نے اپنا پہلا آرڈر کاؤنٹر پر رکھا جب عین اُسی وقت ضو فشاں وہاں اپنے آڈر کے ساتھ نمو دار ہو ئی۔” کا ش کہ تم اتنا انجان بننے کی کو شش نہ کرتی۔” کا وش نے اپنے دل میں خواہش کی۔” لیکن میں چاہتا ہوں کہ ایک بار پھر سے میںتم سے وہی کہوں ،اس بار بالکل جلد بازی میں نہیں ،تمہا رے متو قع تا ثرات کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے۔”
” میں ایک بار پھر سننا چا ہوں گی۔” ضو فی نے خود اپنے آپ پر حیران ہوتے ہوئے بر اہ راست اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔اور اُس کا پیغام پہنچ گیا۔ایک دوسرے سے نظریں چرائے وہ مڑ گئے۔ضو فشاں باہر نکل گئی۔پلیٹ ہاتھ میں تھا مے ،اُس کی اُداسی بھری آنکھیں ملال سے بھر گئیں۔” یہ کیا کیا تم نے؟” خود سے سوال کرتے ہوئے وہ خود سے لڑنے لگی۔
()٭٭٭()
” شیف کاوش بلا رہے ہیں تمہیں ضو فشاں۔” گول مٹول چہرے والی شیف جو دھڑا دھڑ اپنے سامنے رکھے تین چار فرا ینگ پینز کو ہلا تے ہوئے اُن میں لذیذ کھانے بنا نے میں مصروف تھی، نے اُس سے کہا جو ابھی کچن میں داخل ہو ئی تھی اپنے چند آخری آرڈرز کے ساتھ،کچھ دیر میں اُس کی شفٹ ختم ہونے والی تھی۔ ضو فشاں نے کا وش کے آفس کی جانب دیکھا جہاںوہ اپنا لیپ ٹاپ کھولے کام میں مصروف تھا ،وہ حیران نہیں ہوئی صبح جو بات اُس کی آنکھوں تک آ گئی تھی اب وہ اُس کی وجہ سے اپنے اندر کچھ شرمندگی محسوس کررہی تھی۔” مجھے تم سے یہی اُمید تھی ضوفشاں۔” شدید نا را ضی کے ساتھ اُس نے اپنے آپ سے کہا۔
” جی شیف آپ نے بلایا؟” ایک ہاتھ سے لیپ ٹاپ بند کیے دوسرے سے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے کا وش نے بغیر کسی لگی پٹی کے اُس سے کہہ دیا۔” ضو فشاں اگر آپ کو بُرا نہ لگے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیں سپر ما رکیٹ،کچھ سبزیوں ،پھلوں اور گوشت کی خریداری کے لیے۔” کچھ گھبراتے ہوئے سے لہجے میں کاوش نے اُس سے بالکل ہی اُلٹ بات کی ،وہ نہیں جو وہ اُس سے کرنا چاہتا تھا جو وہ سوچے بیٹھا تھا۔وہ ارادہ رکھتا تھا اُسے کسی کا فی شاپ یا ایسی ہی کسی اور جگہ پر لے جا نے کا مگر اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ کے بعد اُس نے اپنے دانتوں تلے زبان دبا ئی۔” تجھ سے یہی اُمید تھی کا وش۔” شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اُس اپنے آپ سے کہا۔
” اور میں ایسا کیوں کروں؟” ابرو اچکاتے ہوئے ضوفشاں نے اُس سے پو چھا۔” مطلب یہ سب چیزوں کی خریداری کرنے کے لیے میں آپ کے ساتھ کیوں چلوں،آپ کسی اور کو بھی تو لے جا سکتے ہیں جیسے کہ بہادر۔” جواب جانتے ہوئے بھی اُس نے سوال کیا۔
” بہادر سے شادی تھو ڑی کر نی ہے مجھے۔” جواب جتنی تیزی سے اُس کے منہ سے نکلا اُتنی تیزی سے اُس نے اپنی زبان کا ٹی۔” میرا مطلب ہے میںکچھ بات کر نا چاہتا تھا آپ سے سو اسی بہانے۔۔۔” ضو فشاں کا چہرہ جو سرخ ہو چُکا تھا ،اور اس کے باوجود اُس نے کاوش کو بالکل یہ تاثر دیا جیسے اُس نے کچھ نہیں سنا تھا۔وہ اُسے کو ئی مثبت جواب دینے اور نا دینے کے فیصلے کے درمیان میں پھنسی رہی مگر پھر اُسے کو ئی جواب دیے بغیر ہی وہ وہاں سے نکل گئی۔کا وش کا چہرہ بجھا،اب تک جو ساری خوش فہمیاں وہ اپنے اندر پال چکا تھا ماند پڑنے لگیں۔اُس کی زبان میں ہلکی سی درد اُٹھی،اپنے ہو نٹوں پر ہاتھ رکھے اُس نے پھر سے لیپ ٹاپ کھول لیا۔” ایک بار پھر سے جلدی بازی کی ۔بے وقو ف۔” سر جھٹکتے وہ پھر اپنے آپ کو ہی ڈپٹ رہا تھا۔
()٭٭٭()
” بے وقو ف ہو تم ، با لکل بے وقو ف ۔۔۔جن با توں پر تم ہمیشہ دوسروں کو سر زنش کر تی رہی آج خود وہی کر آئی۔” ایک بار پھر سے صحن میںچارپائی پر لیٹے ہوئے تا روں کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے آپ کو کو س رہی تھی۔” کو ئی ضرورت نہیں ہے صبح جانے کی۔” ایک اور تنبیہہ اُس کے اندر سے اُٹھی۔اور پھر رات دیر تک اپنے آپ کو تسلیاں دلا سے دینے کے باو جود بھی وہ کا وش کو سو چتے ہوئے ہی سوئی۔
اور صبح اُس نے اپنے آپ کو تیار ہوتے دیکھا،اپنے مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے۔ہاجرہ کی تشویش پر ضو فی نے اپنے آپ کو کہتے سنا۔” اماں فنکشن ہے نا ہو ٹل میں تو اس لیے کھانا جلدی بننا شروع ہو جائے گا تو وہاں میری بھی مدد کی ضرورت ہو گی۔ہو ٹل کا ما لک کہہ رہا تھا کہ تنخواہ کے علاوہ بھی کچھ پیسے دے گا۔” اُسے ہنسی آئی خود اپنے جھو ٹ پر۔زیادہ پیسوں کا سُن کر ہاجرہ خوشی خوشی اُس سے نا شتے کا پو چھنے لگی۔” اچھا نا شتہ کرتی جا۔” ہا جرہ کچن میں بھا گی۔” نہیں اماں دیر ہو جائے گی۔” چادر اوڑھتے ہوئے وہ باہر نکل گئی مگر اپنے پیچھے اپنے لفظوں کی با زگشت چھوڑ گئی۔عالم نے مندی آنکھوں کے ساتھ اُسے دیکھا مگر پوری ہو ش مندی کے ساتھ اُس کے جھو ٹ کو سُنا ۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Read Next

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!