نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

” گڈ ایوننگ میم۔؟” مسکراتے ہوئے اپنے پٹھا نوں کے سے لہجے کے ساتھ اُس نے کہا تھا۔سرخ لپ سٹک لبوں پہ سجائے جدید لبا س میں ملبوس وہ عورت کچھ حیران نظر آئی تھی وہ تو اپنیTroq چائے اورRishiki کی منتظر تھی مگر۔۔”گڈ ایوننگ۔” حیرانی بھرا لیا لہجہ لیے اُس نے اپنے سامنے کھڑے کاوش کو ایک نظر دیکھا جو شاید کچھ کہنا چاہتا تھا اور مسکرا کر کہا ۔” میم اگر ہم Rishiki کو کچھ ڈیفریت ریسپی کے ساتھ آپ کو سرو کریں آئی مین کاٹیج چیز کی بجائے اگر ہم اُس میں کریم چیز لے لیں so i think the food will be more delicious. ” مودب لہجے میں ایک ہاتھ پیچھے کمر پر رکھے کچھ جھک کر اُس نے کہا تھا۔عورت نے ایک نظر مینیو دیکھا ۔” شیور ۔مگر ٹیسٹ پر کو ئی کمپرو مائز نہیں۔” ٹھو ڑی تلے ہاتھ رکھے وہ بولی تھی۔” جی بالکل۔آپ کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔” اسی طرح کھڑے وہ مسکراتے ہوئے خوش دلی سے کہتا جلدی سے واپس مڑ گیا تھا۔
کچھ دیر بعد ایک خوبصورت لکڑی کی پلیٹ میں تین پین کیکس رکھے تھے اور ہر پین کیک جو کریم چیز سے بھرے تھے۔شیرے میں ڈوبی چیریز اور کچھ اُس کا سیرپ جو قطروں کی صورت کیکس سے نیچے پلیٹ میں گر رہا تھا۔کریم چیز کے ساتھ اُس کا یہ پہلا تجربہ تھا جو خوش گوار ہونے والا تھا یا پھر ہمیشہ کے لیے اُس کی ریسیپیز میں سے غائب۔۔شیشے کے کا ؤنٹر کے پیچھے کھڑا وہ خاتون کے تاثرات چوری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
منہ میں پانی بھر لانے کی حد تک لذیذ دکھنے والے پین کیکس کا پہلا چمچ اُس نے کچھ عجلت میں بھرا تھا اور منہ میں رکھا تھا مگر۔۔۔یہ وہ پین کیک نہیں تھے جو پہلے اپنی زندگی میں کھا چکی تھی ،ذائقہ مختلف،طریقہ مختلف حتی کہ خوشبو مختلف۔۔۔یہ کچھ زیادہ خوش ذائقہ،پر فتن،اور کچھ زیادہ اچھی خوشبو لیے ہوئے تھے۔وہ ایک کے بعد دوسرا چمچ بھرنے لگی۔بل دیتے وقت اُس نے علی سے کاوش کو بُلانے کے لیے کہا تھا۔کا وش جو کب سے کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا اُس کے پہلے تا ثرات کے ساتھ ہی مطمین ہو گیا تھا اور دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا بلا ئے جانے پر ہاتھ جھاڑتا کاؤنٹر کے ساتھ بنے چھو ٹے دروازے سے نکل کر ٹیبل کی طرف چل پڑا۔ خاتون کو اُس کا کھانا بے حد لذیذ لگا تھا اور وہ اُس سے تعریفی کلمات کہتی رہی تھی۔
واپس کاؤنٹر کے پیچھے آنے تک اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی خوش آمدیدی مسکراہٹ جو وہ اپنے چہرے پر ہمہ وقت سجائے رکھتا تھا ہوٹل میں ،اُس سے بہت ہٹ کر دل کی مسکراہٹ۔۔وہ مسکراہٹ جو تب نکلتی ہے جب دل خوش ہوتا ہے۔وہ بھی خوش تھا بلا آخر وہ شیف مانے جانے لگا تھا۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اُس کے سامنے پڑے برتنوں کا ایک ڈھیر لگا تھا جنہیں وہ برق رفتاری سے دھونے میں مصروف تھی مگر اُن کی تعداد جیسے ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔ہر دوسرے لمحے جب وہ پانی کی دھار سے نظریں ہٹا کر دیکھتی تو برتن پہلے سے کچھ زیادہ اکٹھے ہو چکے ہوتے۔ہاتھ روک کر کچھ لمحے سانس لینے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اور سست روی یا بے دھیانی بھی نہیں دکھا سکتی کیونکہ وہ ایک بار پھر سے اپنے کام سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔بڑی دقتوں کے بعد اُسے اس ہوٹل میں بطور ڈش واشر رکھ لیا گیا تھا اب ذرا سی چوک سارے محنت پر پھیر دیتی اور ایسا وہ بالکل نہیں چاہتی تھی۔
پچھلے ہوٹل میں جب اُسے چوری کے الزام میں نکال دیا گیا تھا تب بے شمار منفی سوچیں اُس کے اندر اُبھری تھیں مگر اُن پر عمل پیرا نا ہو سکی تھی۔ برے کام کرنے کے لیے بھی بُرا دل چاہیے ہوتا ہے جو اُس کے پاس نہیں تھا۔وہ ہزار ہا منصوبے بناتی رہی مر جانے کے ،غلط راستوں کو اپنانے کہ مگر وہ سب سوچیں اُس کے دماغ میں شعلے کی طرح لپکتیں اور انجام کے بارے میں سوچ کر جیسے ٹھنڈے پانی کی زد میں آ جاتیں۔
اُس کے حالات ضرور خراب تھے مگر اُن کا اثر ابھی اُس کے دل و دماغ اتنا نہیں ہوا تھا کہ وہ اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتا اور اُسے دلدل میں دھکیل دیتا۔چنانچہ وہ اپنے ذہن میں مسلسل چلتی سوچوں کو ایک طرف رکھ کر ایک ہوٹل میں برتن دھونے پر مامور ہو گئی۔اُس نے مثبت سوچنا چھوڑ دیا ،کو ئی ایسا کام جو اُسے زیادہ تنخواہ دے سکتا وہ اُسے نظر انداز کرنے لگی اور اپنے موجود ہ کام جیسے ہی کسی کام کی تلاش میں سرگرداں رہتی۔وہ اپنے آپ اذیت دے رہی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی اُس کے پاس پچھلے کام کا تجربہ موجود تھا وہ چاہتی تو کسی اور ہوٹل میں قسمت آزما سکتی تھی مگر وہ ہار بیٹھی تھی اور خود اپنے آپ کو مشقت کرنا دیکھنا چاہتی تھی۔
”بے شک یہ خود اذیتی بڑی ظالم چیز ہے۔”
()٭٭٭()
یہ محنت تھی ،لگن یا پھر وہ محبت جووہ اپنی وادی کے لیے رکھتا تھا کہChitral Cuisine ترقی کرتا ایک کاؤنٹر سے بہت آگے مکمل ریسٹورانٹ میں بدل گیا۔وہ خوش تھا اور اسی خوشی کو سیلیبریٹ کرنے کے لیے وہ بابا خان کو اپنے ہوٹل لایا تھا۔وہ صرف ایک بار اُس کے پچھلے ہوٹل میں آئے تھے اور آج وہ دوسری بار اپنے ضعیف جسم کے ساتھ ”Chitral Cuisine” میں قدم رکھ رہے تھے۔
” بابا خان میرا خواب پورا ہوا۔” Chitral Cuisine میںاُنہیں ایک کرسی پر بٹھا تا وہ دل سے بولا تھااور خود وہ ہمیشہ کی طرح اُن کے گھٹنے پر ہاتھ رکھے نیچے بیٹھ گیا تھا۔” بابا خان اب لاہور میں ایک ایسا ہوٹل ہے جو چترال اور کالاش کے نام سے جانا جا تا ہے۔جہاں چترالی ذائقہ ملتا ہے۔”
وسیع ہال جس میں چترالی میز اور کرسیاں رکھی تھیں اور جس کی دیواروں پرما رخور کے سینگ اور اصلی سے قدرے مشابہ کالاش کی وادیوں کی خوبصورت تصویریں آویزہ تھیں،بابا خان نے بہتے آنسوؤں کے درمیان درو دیوار کو دیکھا اور اپنے کانپتے ہاتھ اُس کے سر پر رکھے تھے اور اُس تصویر کو غور سے دیکھا تھا جس میں ایک کالاش کا گھر تھااُس کا اپنا گھر جس میں ایک اخروٹ کا گھنا درخت لگا تھا مگر یہ سب عقب میں تھا کاوش کے اور ۔۔مینیجر کے ،وہ دونو ں دانت نکالے کیمرے میں دیکھ رہے تھے ۔باباخان نے ایک گہری سانس لی۔” یہ کیوں لگایا اے تم کاوش؟” کاوش بھی اُن کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ رہا تھا۔” وہ کبھی تو آئے گا یہاں باباخان۔۔بھولے بھٹکے ہی سہی،جب وہ یہاں آئے گا اور یہ تصویر دیکھے گا تو ضرور ایک بار اپنے الفاظ پر شرمندہ تو ہو گا ۔پھر ام اُس کو بتائے گا کہ ہمارے کھانے کیا تھے۔” کاوش نے غصے سے کہا۔” نہیں کا وش تم کچھ نہیں بولے گا۔یہ سب جو تم کھڑا کیا ہے نہ یہ جواب ہو گا ہر چیز کا سمجھا ہے تم؟” کاوش ہنس دیا۔” باباخان آپ تو ایسے کہتا ہے جیسے وہ آیا کھڑا ہے اور ام لڑتا اے اُس کے ساتھ۔” کاوش بے تحاشہ ہنس دیا اور اُس کی بات کو سنتے باباخان بھی مگر پھر وہ سنجیدہ ہو گئے۔” امارے رسم و رواج ،لباس اور امارے ذائقے کبھی نہیں مٹ سکتے ،ام اور اماری نسلیں ہمیشہ اُس کو زندہ رکھیں گی۔” اُنہوں نے ایک عزم سے کہا تھا۔کاوش نے اُن کی آواز کے ساتھ ہم آواز ہو کر کہا تھا۔
” ہمیشہ زندہ رکھیں گے ۔” سرخ آنکھوں کے ساتھ کا وش خان نے اُن کے گھٹنے پر اپنا سر رکھ دیا تھا۔
()٭٭٭()
وہ صبح سے وہاں کھڑی تھی سنک کے سامنے ۔۔صابن کی جھاگ سے برتن رگڑتے ہوئے روز کی ہی طرح تھکن محسوس کرتے ہوئے۔ابھی تک اُس کی ٹانگیں اور پلیٹس پکڑے پانی کی دھار کے نیچے لمبے کیے ہاتھ عادی نہ ہو پائے اس مشقت کے اور تھک کر شل ہو جاتے تھے مگر وہ اُنہیں سکون نہیں پہنچاتی تھی ۔” تمہیں تھکنا نہیں چاہیے ضوفشاں،تمہیں کیا حق ہے کہ تم تھکن بھی محسوس کرو۔” وہ بے در دی سے سوچتی۔” تمہیں عادت ہو جانی چاہیے اب تک آخر کو اتنے سالوں سے تم ذہنی اور جسمانی مشقت اُٹھا رہی ہو۔” وہ نہیں جانتی تھی بھلا تھکن کو محسوس کرنا بھی چھوڑا جا سکتا ہے اور مشقت ۔۔اس کا بھی عادی نہیں ہوا جا سکتا ۔
” سناہے یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک نیا ہوٹل کھل رہا ہے ۔” اُس سے کچھ فاصلے پر دو با ورچی کھانا بناتے ہوئے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔اور ضوفشاں کے کانوں تک اُن کی آوازیں با آسانی پہنچ رہی تھیں۔” اور وہاں شیف اور ویٹرز کی ضرورت ہے،بھئی میں تو وہاں جا رہا ہوں۔” ضوفشاں اُن کو بے دھیانی سے سن رہی تھی ۔” کہہ تو تم ایسے رہے ہو جیسے فورا ً رکھ لیں گے وہ تمہیں۔” دوسرے لڑکے نے تمسخر اُڑایا۔” یار یہاں یہ کام کر کے تنگ آ گیا ہوں میں،روزانہ آؤ اُسی ریسپی سے برگر چپس بناؤ اور واپس چلے جاؤ کچھ نیا نہیں ۔” وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا۔” ایک دفعہ قسمت آزمائی کر لینے میں کیا خرج ہے ۔خود کو جانتے بوجھتے ہوئے ضائع کرنا سسک سسک کر مرنے جیسا ہے ۔” ضوفشاں کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹی اور سنک میں جا گری۔کچن میں کھڑے سب باورچیوں نے اُسے گردن موڑ کر دیکھا۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ضوفشاں کے ہاتھ سے کچھ گرا تھا مگر صد شکر کہ ٹوٹنے سے بچ گیا تھا۔اپنے کانوں میں گونجتے اُس لڑکے کے الفاظ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس نے پلیٹ اُٹھا ئی اور پھر سے دھونے لگی۔مگر ا لفاظ تھے کہ مسلسل اُس کے ذہن میں تلا طم مچا رہے تھے ۔
()٭٭٭()
اپنے سامنے پڑے چو ڑے چکلے میں وہ مہارت اور تیزی سے میدے کی رو ٹی بیلتا ۔کام کے دوران اُس کے ہو نٹ بھینچے ہوئے رہتے اور کنپٹی کا بھورا تل نما یاں رہتا۔وہ بیگانہ نظر آتا اور اور اپنے کام پر نظر رکھے اپنی ڈش کو مزید مزیدار بنانے کے لیے محنت کرتا تھا دل و جان سے۔کھانے کو لذت بھرا بنانے کے لیے تمام اجزاء کے علاوہ جو ایک اہم چیز ضروری ہے وہ پوری کو شش کرتا کہ وہ بھی اپنی ہر ڈش میں کسی لازمی اجزاء کی طر ح لا زم و ملزم کر دے۔اور وہ یقینا تھی ۔۔لگن اور کچھ محبت۔ضروری نہیں کہ ہر کھانے والے کے لیے محبت کا ہونا ضروری ہوتا مگر کاوش کی سو چ تھی کہ محبت اور لگن اپنے کام کے ساتھ ہونی چاہیے یہ بے حد ضروری ہے۔
اب وہ چیڈر چیز کو کرش کرتا اُس کا ہاتھ پلیٹ کو کناروں تک بھرتا جا رہا تھا۔اُس کو کام میں بے انتہا مصروف دیکھ کر نارنجی گاڑھی ساس بنا تا کچھ بے انتہا لمبا شیف جھک کر اپنے پاس کھڑے شیف کے کان میں سر گو شی میں با تیں کرنے لگا۔اُس کی آنکھوں سے خو شی پھو ٹتی تھی یعنی وہ کسی ایسی بات کے بارے میں گفتگو کررہے تھے جو اُنہیں خو شی دیتی تھی۔
” خوش گپیاں ضرور لگاؤ ۔۔مگر کھانے کو اپنی تو جہ سے محروم مت کرو۔” اُسی طر ح کش بلیڈ پر جھکا وہ چیز کا ڈھیر لگا تے ہوئے بولا تھا۔کچن میں موجود سارے کے سارے شیف بالکل نہیں چو نکے۔صرف وہ دونوں جو یہاں نئے آئے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ ہیڈ شیف شاید کام کے دوران ہی زیادہ اپنی نظریں اپنے ارد گرد پر رکھتا تھا،با قی سب نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے نظروں کا تبا دلہ کرتے ہوئے جیسے دل ہی دل میں میٹھی ہنسی کو اپنے منہ سے پھو ٹنے سے رو کا تھا۔
نیا ۔۔۔ہر وہ انسان جو کسی بھی جگہ پر جاتا ہے وہ پُرانے لوگوں کے لیے مکمل تفریح کا سماں ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ بھی پُرانوں کے رنگ میں ہی رنگا نہیں جاتا۔دونوں ہو نق بنے تھو ڑے کھسیانے ہوئے لیکن پھر اپنے اپنے فرا ننگ پینز پہ جھک گئے۔” ساس میں نمک ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے اسے تم اب پھینکو گے اور پھر سے بناؤگے۔” یہ نر می کی انتہا تھی جو کا وش نے دکھا ئی تھی۔” لیکن ۔۔کیوں شیف یہ بالکل ٹھیک ہے؟”یہ بے وقوفی کی انتہا تھی جو نئے آنے والے شیف نے کی تھی۔کا وش نے بقیہ پنیر چھو ڑی اور لمبے شیف کے سر پر پہنچ گیا۔” اگر تم وا قعی شیف ہو تو تم یہ بات جان لیتے کہ ساسز سڑن کی بو جلدی اپنے اندر سمو لیتی ہیں۔” اپنے ہاتھ سے فرا ننگ پین پکڑے اُس نے اُسے ڈسٹ بین میں ڈالا اور اس بار خود سے ساس بنانے لگا۔ اپنے دل میں کانپتے ہوئے شیف اُسے دیکھنے لگا اور سیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
فریش او رنج جوس میں کارن فلور اور تل کا تیل ڈالے کا وش نے اُنہیں ہلکے ہاتھوں سے ہلا یاکچھ دیر تک وہ چمچ کومحسوس طریقے سے ہلاتارہا۔
”دو Mantu،چار Kalli،ایک Ghalmandi اور تین Kawirogh۔” بالکل غیر محسوس انداز میں کا وش نے نظر اُٹھا کر دیکھا اُس سمت جہاں سے تیز آواز اُبھری تھی۔کاوش اپنی نظریں نیچی نہ کر سکا۔اُس کے سامنے ‘وہ ‘ کھڑی تھی جس کے سر پر ایک پاکول تھی ۔۔کا لا شا ٹوپی۔۔، وہاں کام کرنے والے مرد ویٹرز ایک مردانہ پر لگی ٹوپی اور لڑکیاں کا پول پہنتیں۔۔ یہ چیز چترال اور کالاش کی ثقافت کو ظاہر کرتی تھی چنانچہ وہ بھی پہنے ہوئے تھی اور چٹیںلگانے کے بعد جھک کر لکڑی کی گول اور کچھ خوبصورت پلیٹس اُٹھانے لگی تھی۔اُس کے پتلے لب ایسی مسکراہٹ سے سینچے جو اُداسی اپنی اندر رکھتی تھی۔کا وش وہاں نہیں تھا ۔کھڑکھڑاتے برتن،بے شمار شیف سب کچھ جیسے یکدم اُس کے اردگرد سے غائب ہو گیا تھا۔
اُس کے ساتھ کھڑے شیف کے لیے یہ بڑا حیران کُن تھا،کچھ دیر پہلے اُس کا باس جو اُسے سر زنش کرتا تھا جلنے کی ہلکی سی بو کے آنے سے بھی وہ اس وقت بت بنا کھڑا تھا اور خود ساس میں لہسن کے جوے تک ڈالنا بھول گیا تھا۔یہ کیسا باس تھا؟اُس نے بے اختیا ر سوچا۔
اُس کے پتلے ہو نٹوں پر تلخی پھیل گئی۔دھیمے سے اپنے قریب کھڑی شیف کے کان میں کچھ کہنے کے بعد وہ جس تیزی اور عجلت میں آئی تھی اُسی کے ساتھ باہر نکل گئی۔کا وش بے چین ہو گیا۔اُس کے ناک میں جلنے کی بُو آئی اور وہ پیچھے مڑاا اتنی تیزی سے کہ چو لہے پر پڑا فرا ننگ پین اُس کا ہاتھ لگنے سے اُلٹ گیا ،ایسا اس قدر اچا نک ہوا کہ وہ خود بو کھلا گیا۔سب متو جہ ہوئے اور کام چھو ڑے اُنہیں دیکھنے لگے۔” یہ تم خود دیکھ لو۔” ہو نٹوں کی بالکل خفیف سی جنبش کے ساتھ اُس کے لبوں سے ادا ہوا اور خود وہ اُلٹے قدموں ،اپنے سر سے کھینچ کر ٹوپی اُتارتا اور گھبراہٹ کے عالم میں اپنے ماتھے پر ہاتھ رگڑتا وہاں سے نکل گیا۔وہ سیدھا اپنے کچن کے ساتھ منسلک آفس میں چلا گیااور اُن سب سے منہ مو ڑھے بیٹھ گیا ۔” یہ لڑکی۔۔” وہ اپنے ہاتھ مسلتا تھا اور بے چین نظر آتا تھا۔
()٭٭٭()
اُس کے سر پر ایک گھنا بالوں کا چھتا تھا جو کانوں تک آتا تھا ، اور وہ گرے اور سفید یو نیفارم میں ملبوس ہاتھ میں ٹرے تھامے تو کبھی مینیو کارڈ ایک سے دوسرے ٹیبل تک جاتی تھی۔وہ ایک خوش شکل اور ہمہ وقت مسکراتے رہنے والی و یٹریس تھی جو ہر ٹیبل پر ایک شائستہ دھیمی پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ سرو کرتی تھی۔
”دو Mantu،چار Kalli،ایک Ghalmandi اور تین Kawirogh۔”تیزی سے وہ کچن میں داخل ہوئی تھی اوراُو نچی آواز میں آrڈر بولنے لگی تھی۔اور ساتھ ہی ساتھ وہ چھوٹی چھو ٹی چٹیں پن کے ساتھ لگا تی جا رہی تھی۔جن پر آرڈر درج تھا۔اب وہ مڑی اورجھک کر پلیٹس اُٹھانے لگی۔ ” تم اُس ہینڈ سم لڑکے کی ٹیبل سے آرڈر لے کر آ ئی ہو نا۔” اُس کے پاس کھڑی وہ موٹی شیف نے تیزی سے لیمن گراس کے ٹکڑے کرتے ہوئے اُس کے کان کے پاس سر گو شی کی تھی ۔ضوفی مسکرا دی اپنے خوب صورت چمکتے دانتوں کے ساتھ ۔۔” فرق یاد رکھو ڈئیر شیف۔۔تلخ بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا،وہ یہاں کھانا کھانے آ یا ہے اور میں یہاں کھانا سرو کرتی ہوں۔” اُس کے کان کے پاس ہی سر گوشی کی اور دونوں ہاتھوں میں پلیٹس تھامے باہر نکل گئی۔ضوفی کے بالکل عین سامنے مگر ڈھیروں با ورچیوں اور کافی فاصلے سے کا وش کھڑا تھا۔بالکل سن۔۔۔یک ٹک دیکھتے ہوئے۔اگر ضوفی اُس کو وہاں یوں کھڑے دیکھتی تو ۔۔مگر اُس نے نہیں دیکھا اور واپس باہر نکل گئی۔
مو ٹی شیف اُس کی تلخ صاف گو ئی پر تھرا گئی اور ایک جھرجھری لیتے ہوئے دوبارہ سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔
ایک تھکن بھرے دن کا اختتام ہوا اور وہ و یڑس کا لباس اُتار کر اپنے اُسی حلیے میں واپس آ گئی جس میں وہ صبح اپنے گھر سے نکلی تھی۔
اُس شیف لڑکے کی بات کا اس قد اثر ہو اتھا کہ وہ اگلے ہی دن اس نئے بننے والے ریسٹورانٹ میں آ گئی تھی۔وہ زیادہ پر اُمید نہیں تھی مگر ایک بار قسمت آزما لینے میں کیا حرج تھا۔اور اس بار قسمت اُس پر مہربان ہو گئی تھی۔وہ حیران سی بیٹھی اُس لڑکے کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس نے اُس کا مختصر سا انٹر ویو لیا تھا اور کہا تھا کہ وہ کل سے جوائن کر سکتی ہے۔” ضوفشاں آپ کل سے جوائن کر سکتی ہیں۔” لڑکے نے اُس کا حیران پریشان چہرہ دیکھتے ہوئے ایک بار پھر کہا تھا ۔خوشی سے بھرپور چہرہ لیے وہ شکریہ کہہ کر وہاں سے اُٹھ گئی تھی۔پہلے پہل اُسے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ واقعی اُس بڑے ہوٹل میں کام کر رہی تھی جس کی بنا وٹ سجاوٹ بے حد عمدہ تھی اور جس کی ایک ایک چیز سے چترالی ثقافت کی جھلک دکھتی تھی۔بہت دنوں بعد وہ کھل کر مسکرائی تھی اور دل سے خوش تھی۔اُس کی تنخواہ بھی معقول تھی بلکہ اُن سب پیسوں سے زیادہ تھی جو وہ اب تک کما تی رہی تھی ۔پتہ نہیں کتنے عرصہ بعد اُس نے اُوپر دیکھا آسمان کی طرف اور بے اختیار اﷲ کا شکر ادا کیا۔
بس سٹاپ پر کھڑے اُسے پسینے سے شرابور ہوتے ہوئے بھی گرمی نہیں لگی اور اطمینا ن سے بس میں سوار ہوئے وہ اُس راستے طے لگی جو پہلے اُسے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔اپنی گلی میں داخل ہو تے ہوئے وہ سبک روی سے چل رہی تھی۔لڑکے جو وہاں کھڑے تھے دائیں بائیں بکھر گئے اور اُس کے راستے سے ہٹ گئے۔وہی جو پہلے ‘ اپنی گلی میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے’ کی مثال کے مصداق تھے مگر اب وہ بھیگی بلی بنے یوں انجان ہوگئے جیسے اُن کے پاس سے کسی صنف نازک کا گزر نا ہوا ہی نہ ہو حالانکہ پہلے وہ دُور سے ہی کسی عورت کو دیکھ کر تن کر کھڑے ہو جاتے تھے مگر اب وہ جوتے کھانے کا حو صلہ خود میں نہیں رکھتے تھے چنا نچہ وہ وہاں سے غائب ہو گئے۔ضوفی کے اندر تک خو شی و اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔
()٭٭٭()
لمحے آکر گزر جاتے ہیں مگر وہ اپنا اثر چھو ڑ جاتے ہیں۔کاش کہ ایسا ایک اور لمحہ بھی میری زندگی میں آئے۔اُس نے بے اختیار خواہش کی مگر اگلے چند سیکنڈز اُس نے اپنی خواہش پر حیران ہونے میں صرف کیے۔میں ایسا کو ئی لمحہ دوبارہ کیوں چاہتا ہوں جبکہ میں جانتا ہوں ایسا سوچنا بھی سراسر حما قت ہے۔سر جھٹک کر وہ اپنے سامنے رکھی لسٹ پر جھک گیا۔حما قت ۔۔کیسی حما قت؟ کو ئی اُس کے اندر سے نکلا اور تن کر کاوش کے رو برو کھڑا ہو گیا۔وہ چو نکا پھر سنبھل کر جواب دینے لگا،ایک بار پھر سے خود کو۔۔۔
” یہ بے و قو فی ہی تھی جو میں نے اُس دن کی،سارے باورچیوں کے سامنے ہو نقو ں کی طرح کھڑا ہو گیا،ذرا اختیار نا رہا خود پر بے وقوف ۔۔”سر کو دائیں بائیں مارا اور لسٹ کو غور سے دیکھنے لگا۔” اختیار کیوں نا رہا خود پر سو چو تو سہی۔ ” آواز ایک بار پھر سے سنا ئی دی۔اس بار وہ چلا اُٹھا۔” سو چنا نہیں چا ہتا ہوں میں۔” ہاتھ زور زور سے ماتھے پر رگڑا مگر کچھ اٹکا رہا اُس کے اندر۔سب گڈ مڈ ہونے لگا۔کو ئی کمی سی لگنے لگی۔اضطراب کے عالم میں وہ اُٹھ گیا۔اور اپنے کچن سے منسلک کمرے میں چکرانے لگا۔بہادر خان نے اُسے دیکھا ،شیشے سے بنی چار دیواری کے پار وہ صاف نظر آ رہا تھا ،بے مقصد کچھ کچھ بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلتا ہوا۔ایک نظر اُسے دیکھنے کے بعد وہ واپس یخنی میں اُبلی ہو ئی پالک کو پین کیک پر سجانے لگا۔اُس کے ذہن میں کل کی باتیں گردش کرنے لگیں جو کا وش نے اُس سے کی تھیں۔
” یہ لڑکی کون تھی؟” بظاہر لیپ ٹاپ پر جھکا وہ بیلنس شیٹ چیک کرنے میں مصروف تھا مگر بہادر بھانپ گیا سارا دھیان اُس کے جواب کی طرف تھا۔” کون لڑکی؟” ہونٹ کا کونہ دانتوں تلے دبائے بہادر نے جان بو جھ کر بات کو طول دی۔” وہی چھو ٹے بھورے بالوں والی، کو ئی نئی ویڑس ہائر کی ہے تم نے؟” انداز اس بار بھی سرسری تھا۔” آں وہ۔۔ ہاں وہ ضو فشاں ہے کچھ دن پہلے ہی ام رکھا اے اُسے۔کیوں کیا ہوا خیریت؟” بہادر نے کشن سر کے نیچے رکھا اور لیٹ گیا۔” ہونا کیا ہے کچھ بھی نہیں بس کل دیکھا اُسے کچن میں تو پو چھ لیا۔” لیپ ٹاپ کو گھٹنوں سے ٹیبل پر منتقل کرنے کے بعد وہ سیدھا ہو بیٹھا،بیلنس شیٹ میں کر یڈٹ کی جگہ ڈیبٹ کیوں نظر آ رہا ہے آخر۔۔۔” اُس کے سامنے لیپ ٹاپ میں سب گھومتا ہوا نظر آ رہا تھا۔
” آں وہ تو سب نے دیکھا کہ تم کل دیکھا اے اُسے۔” کاوش نے چونک کے سر اُٹھا یا اور بہادر کو دیکھا۔بہادر نے اپنی بھنو یںسوال پوچھنے اور اُسے تنگ کرنے کی غرض سے اچکائیں،اُس کی شرارت کو بھانپتے ہوئے کا وش نے کشن اُٹھا یا اور اُسے دے مارا۔
بہا در نے پالک پر کرش پنیر پھیلا ئی اور سوچا،” کا وش پہلی بار کسی لڑکی کو دیکھا اے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ ” گرم پالک پر پنیر فوراً پگھلنے لگی۔کاوش ابھی بھی اضطراب میں عالم میں ٹہلتا ہوا نظر آرہا تھا۔” آخر یہ مجھے یاد کیوں نہیں آرہی ۔” لسٹ کی جانب دیکھتے ہوئے اُس نے ایک بار پھر سے سوچا۔وہ مڑا اور کام میں بُری طر ح سے غرق باورچیوں پر ایک نظر ڈالی،تبھی بہادر نے بھی سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔کاوش نے اشارہ کیا اُسے اندر آنے کا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Read Next

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!