نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

ننھے ننھے کتنے ہی بچے اُس سے پڑھنے آنے لگے تھے۔وہ سب اتنے چھوٹے تھے کہ صاف نظر آتا تھا ٹیوشن کا تو بہانا تھا دراصل مائیں اُنہیں اپنے گلے سے اُتار کر ضوفی پر ڈال گئی تھیں اور اس وقت وہ اُنہی کے ساتھ سر کھپانے میں مصروف تھی جنہیں لکھنا تو کیا پینسل پکڑنا بھی نہیں آتی تھی مگر ضوفی چند سو روپے کے لیے سارا دن اُن کے ساتھ لگا تی۔
” یہ دیکھو ایسے۔۔ایسے پکڑو۔” چھو ٹے سے بچے کو اُس نے اپنی گود میں بیٹھا لیا تھا اور اُسے لکھنا سکھا رہی تھی جب اُس کا فون بجا۔فون بجنا بھی غیر متوقع تھا اور نمبر بھی انجان کیونکہ اُس کے موبائل پر کبھی کوئی کال نہیں کرتا تھا۔” ضو فشاں شریف بات کر رہی ہیں؟”کسی نے چھو ٹتے ہی اُس سے پوچھا تھا۔” جی کر رہی ہوں۔” ضوفی نے حیرانی سے جواب دیا۔” جی آپ کل ہوٹل آ جائیں ،آپ کو جاب پر رکھا جا رہا ہے۔” خوشی سے آنسو آنا کسے کہتے ہیں یہ ضوفشاں نے اُس لمحے جانا۔” جی ۔۔جی ٹھیک ہے۔بہت شکریہ۔”ہکلاتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے کے ساتھ اُس نے کہا۔فون کرنے والا اب اُسے باقی ضروری ہدایات دے رہا تھا جسے اُس نے غور سے سنا اور فون رکھ دیا۔
اچانک ملنے والی خوشی زیادہ خوشی دیتی ہے۔اور وہ خوشی تو اُس کے لیے مایوسیوں کو ختم کرنے آئی تھی ،اُس لمحے ضوفی کو لگا اﷲ واقعی اُس کی پریشانیوں دیکھ رہا تھا جو اب اُس کا امتحان لے رہا تھا تبھی اُس کے لیے ایسا انتظام کر دیا۔وہ یکدم ہلکی پھلکی ہو گئی اور کچھ دیر پہلے والی ساری کوفت ختم ہو گئی ۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کاؤنٹر پر کھڑے مختلف آرڈرز نوٹ کرنا اور پھر آرڈر تیار ہو جانے پر ٹرے پکڑے کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑے کسٹمر کو پکڑا دینا،کام زیادہ مشکل نہیں تھا اور ما حول بھی بہتر تھا ۔ضوفی کے لیے جیسے وہ انعام تھا اُس صبر کا جو اُس نے پچھلے کچھ مہینوں میں کیا تھا۔اپنی جاب کے دیر پا رہنے کے لیے اور مالک پر اچھا تاثر جھاڑنے کے لیے زائد محنت کرتی ۔اُس کی شفٹ دن بارہ بجے شروع ہوتی مگر وہ وہاں پہلے سے موجود ہوتی ا ور اگر عین بارہ بجے بھی کو ئی کسٹمر آ ن دھمکتا تو وہ خود کچن میں کھڑے ایک عدد برگر تو بنا ہی لیتی جب ابھی باورچی وہاں موجود نا ہوتے وہ کسٹمر کو خالی ہاتھ نہ لو ٹاتی حالانکہ ایسا ہوتا کبھی کبھا ر ہی تھا مگر وہ ہمہ وقت وہاں موجود ہوتی ۔اس طرح وہ اچھی تنخواہ کے ساتھ محنت اور لگن سے کام کر رہی تھی اور ہوٹل میں اُسے کو ئی پریشانی نہیں تھی سوائے اُس کے راستے میں آنے والی ایک پریشانی کے۔
پہلے وہ جہاں بھی کام کرتی تھی اُس کا ہاجرہ کا کام پر جانے کا وقت ایک تھا مگر اب وہ مختلف اوقات میں گھر سے نکلتیں اور یہی چیز ضوفشاں کی پریشانی میں دن بہ دن اضافہ کر رہی تھی۔وہ بزدل لڑکی تھی اور اپنی سنسان گلی میں کھڑے لفنگے لڑکوں سے خوف زدہ تھی مگر بہت جلد اُس چیز کا حل ڈھونڈ لیا۔بہت ساری دوسری مشکلات کو وہ اب تک برداشت کر کے دور کرتی رہی تھی مگر اس پریشانی کے لیے اُسے ہمت کے ساتھ ساتھ نڈر ہونے کی بھی ضرورت تھی۔
وہ آخری دن تھا جب وہ اپنے پیچھے لگے لڑکوں کی باتوں سے روئی تھی مگر اُس دن کے بعد وہ بہادر ہوتی چلی گئی ۔
” اپنے تک آنے والے ہر وار کو انسان کو خود ہی سہنا پڑتا ہے کو ئی دوسرا آپ کی مدد نہیں کر سکتا ۔۔کرنا چاہے تو بھی نہیں۔” ضوفی نے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا اور ایک انوکھا حل نکالا۔
()٭٭٭()
یہاں آتے ہوئے جو وہ ذرا سی اپنے اندر یہ سوچ رکھتی تھی کہ واپس چلی جائے اور وہ انتہا ئی قدم نہ اُٹھا ئے مگر پھر اُس ذلت جو وہ اپنی گلی میں لفنگے لڑکوں سے جھیل کر آئی تھی کو یاد کر کے و ہ احساس زائل ہو تا رہا۔پارلر میں رش نہیں تھا اور اکا دکا عورتیں بیٹھی تھیں جلد ہی اُس کی باری بھی آ گئی اور اس دوران وہ اس فیصلے کے ممکنہ نتا ئج کے بارے میں سوچتی رہی۔کچھ مثبت کچھ منفی۔مگر اُن میں زیادہ تر ایسے تھے جو اُسے خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔مگر وہ جم کراپنی نشست سنبھالے بیٹھی رہی تھی۔
لڑکی اُس کے بالوں کو سپرے سے بگھونے لگی تھی۔اُس کے چہرے میں ضوفی کو اپنا چہرہ نظر آیا تھا اور وہ نظریں چرا گئی تھی۔”آپ کے بال بے انتہا خوب صورت ہیں۔” بالکل اُس ہی کی طرح فہما ئشی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجاتے ہوئے اُس نے کہا تھا جب وہ اپنے کسی کسمٹر کا آرڈر نوٹ کرتی تھی۔کوئی جواب نہ پا کر وہ پھر سے بولی تھی۔”کو نسی کٹنگ؟ ” سوال اُس کے دماغ پر ہتھوڑا بن کر برسا تھا۔گلے میں اٹکے گولے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے وہ بڑ بڑ ائی تھی۔” کو ئی بھی نہیں اور سب ہی۔” ہونٹوں کی ہلکی جنبش جس کو پارلر گرل سمجھ نا سکی تھی۔”جی کونسی؟” ”سب کاٹ دو۔” بلا آخر وہ ہمت مجتمع کرتے ہوئے نسبتا ً اونچی آواز میں بولی تھی۔
” سب لیکن۔۔۔” ضوفی نے اُس کو بولنے کا مو قع نہیں دیا تھا اور ہاتھ سے اپنے کان کے پاس ہاتھ لے جا کر اُسے بتا یا تھا ۔” یہاں تک کاٹ دو” ۔اُس کی آواز میں بے رحمی تھی اور آنکھیں پتھر تھیں۔چور چور پتھر۔۔۔۔
پارلر گرل نے اپنی مالکن کی جانب دیکھا تھا اور اشارہ ملنے پر اُس خبطی لڑکی کے بال تیز کینچی سے کاٹنے لگی تھی۔وہ نہیں جانتی تھی لڑکی پاگل نہیں بلکہ دکھوں کی ماری تھی مگر شائد۔۔۔وہ جانتی تھی تبھی خامو شی سے اُس کے بال ایک ہی کٹ میں نیچے تھے پیروں کی دھول ہوتے ہوئے۔ضوفی کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اُس نے اپنے ماضی کو خوب جی بھر کر یاد کیا تھا اور حال کے دکھوں اور تکلیفوں پر خدا سے شکوے کیے ۔پارلر گرل اُسے خامو شی سے آنسوبہاتی دیکھتی رہی اور اپنا کام کرتی رہی تھی۔
جب وہ پارلر سے باہر نکلی تو وہ ایک نسبتا ً مضبوط لڑکی تھی اور معاشرے کے مگر مچھوں کو منہ توڑ جواب دینے والی تھی۔مگر یہ سب خیالات خود اُسے کچھ ہی دیر میں بڑے بودے لگنے لگے جب ہوٹل میں داخل ہونے پر ہر ایک اُسے بے حد عجیب نظروں کے ساتھ دیکھا۔اُس کی تازہ تازہ کٹے ہوئے بال جن کے نوکیلے سرے اُس کی کانوں کی لوؤں کو چھو رہے تھے،ضوفشاں نے اُن سب کے درمیان میں سے گزرتے ہوئے کنفیوژ سی اُنہیں ہاتھ لگاتی رہی مگر وہ اُنہیں کسی صورت اس بات کا پتہ لگنے کا دینا چاہتی تھی کہ وہ اپنے اندر اضطراب محسوس کر رہی تھی تبھی وہ اُن سب کو نظر انداز کرتی وہاں سے گزر کر کاؤنٹر تک آ گئی۔” یہ کیا کیا ضوفشاں تم نے۔۔؟” اُس کے ساتھ کھڑی لڑکی نے حیرانی سے استفسار کیا مگر جواب سننے سے پہلے ہی وہ دونوں اپنے سامنے کھڑے کسٹمرز کا آرڈر نوٹ کرنے لگیں۔
()٭٭٭()
” کاوش ام نے سوچا اے ام گلگت والا گھر بیچ دے گا۔” باباخان اُس کے سامنے بیٹھے تھے اور ہاتھ پکڑے دلگرفتہ لہجے میں اُس سے کہہ رہے تھے۔کاوش کے لیے اُن کا اس طرح اچانک آ جانا بہت حیران کُن تھا ، اور فوری طور پر اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ وہ اُنہیں کہاں بٹھا ئے ۔ایک کمرے کا فلیٹ جس میں نیچے زمین پر ہی بستر لگے تھے اور سہولیات بس بجلی ، پانی اور گیس تک ہی محدود تھیں ،ایسے میں کاوش بو کھلا یا بوکھلایا سا ادھر اُدھر بھاگ دوڑ کرنے لگا تا کہ باباخان کے بیٹھنے کا انتظام کر سکے۔بلا آخر ایک کرسی اُس نے ڈھونڈ نکالی تھی اور بازو سے پکڑ کر باباخان کو بیٹھنے میں مدد دی اور خود وہ اُن کے قدمو ں میں بیٹھ گیا تھا۔
باباخان کے الفاظ نے کاوش کو منجمد کیا تھا۔وہ یک ٹک اُن کی شکل دیکھنے لگا۔” کیوں باباخان آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟” بلآخر اُس نے پوچھنے کی ہمت کی۔” کاوش بچے ام سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی ۔” کاوش نے سر جھکا دیا۔” یہ تم کہاں رہتا اے؟” اُنہوں نے اردگرد نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
” آپ گھر نہیں بیچے گا باباخان۔” کاوش نے ہارے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔”امیں بیچنے دو کاوش ،ویسے بی وہ گھر بیکار اے زرمستہ بی شادی کر کے چلا گیا اور ام سارا دن مکھیاں مارتا اے وہاں ۔” باباخان نے اُسے مطمئن کرنا چاہا۔” پھر بھی باباخان گھر تو ہے نا۔۔” کاوش شش و پنج کا شکار نظر آتا تھا۔” بس کاوش اب کو ئی ضد نہیں چلے گا تمارا۔” اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مزید بولنے سے رُوکا۔” تو پھر گھر بیچ کے کرے گا کیا؟” اُلجھن کاوش کا ابھی بھی گھیراؤ کیے ہوئے تھی۔” تم پھر سے ہوٹل کھولے گا ۔”
نہیں باباخان بالکل نہیں۔۔۔ام یہ غلطی دوبارہ نہیں دہرائے گا۔” کاوش فورا ً اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس نے مضبوط لہجے میں کہا۔” جو کھانے تم سیکھ رہا ہے ،جو ان کو پسند اے ،تم اُسی کا ہوٹل کھولے گا۔” کاوش تو اُچھل کر کھڑا ہو گیا تھا اور اُس نے پوری بات نہیں سننی چاہی تھی مگر باباخان اُسے پوری بات سُنا کر رہے اور وہ بات یقینا اُس کے دل کو لگی تھی۔
” اور امارے کھانے باباخان؟” ٹوٹے ہوئے لہجے کے ساتھ کہتا کاوش دوبارہ اُ ن کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا۔” تم اپنے بھی بنا نا کاوش مگر ابھی تم اُنہیں اُن کے کھانے کھلاؤ۔” ہاتھ تھپکتے ہوئے باباخان نے کہا۔کاوش سمجھ گیا اور اُن سے گھر بیچنے کے متعلق بات کرنے لگا حالانکہ اپنے دل میں وہ شدید شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔اس عمر میں وہ اُن کا سہارا بننے کے بجائے بوجھ بن رہا تھا ،کاوش نے یکدم اپنے کاندھوں پر بوجھ محسوس کیا مگر ساتھ ہی اس بات پر شکر ادا کیا کہ چلو اُس کی بہنیں اپنے اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں ۔
سوچتے ہوئے کاوش اُن کے قدموں کے پاس سے اُٹھا اور اُن کے آرام کا کو ئی منا سب بندوبست کرنے لگا کیونکہ آج رات اُنہیں یہی رُکنا تھا اور پھر واپس ایک دو دن میں اُنہیں گلگت جانا تھا اور گھر بیچنا تھا ۔مگر ایک خیال آنے پر کاوش رُک گیا اور باباخان سے سوال کیا۔” گھر بیچنے کے بعد آپ کہاں رہے گا باباخان؟”
باباخان نے اُسے دیکھا جو کہیں سے ایک چارپائی لایا تھا اور اب اُس پر صاف ستھرا بستر بچھاتے ہوئے وہ اُن سے سوال کررہا تھا۔” ام واپس چلا جائے گا کاوش۔” کاوش چونکا۔” کہاں واپس۔” ”واپس کالاش۔۔ام وہاں رہ لے گا ام تو تمارے واسطے گلگت آیا تھا۔” اور کاوش نے اپنے دل پر مزید بوجھ محسوس کیا ۔اب کی بار بھی اگر وہ کامیاب نہ ہوا تو ۔۔۔اور اس سے آگے وہ سوچ نا سکا۔
()٭٭٭()
وہ کبھی بھی نہیں چا ہتی تھی کہ ایک جگہ سے کام چھو ڑ کر وہ کسی دوسری جگہ پر کام کرنے لگے مگر بہت بار وہ کاموں سے نکالی جا چکی تھی ۔مگر اس چیز کا ایک فائدہ اُسے ہوا تھا وہ یہ تھا اُس کے پاس کچھ تجربہ کچھ گُر اور ایسی صلا حیتیں آ گئیں جو اُس کے کام میں مدد گار ثابت ہو سکتی تھیں، جیسے کہ نوکری کے دوران اُسے اپنے کام سے کام رکھنا ہے،اپنے سے اُونچے لوگوں کے ساتھ نہ بلا وجہ فری ہونا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر انجان رہنا ہے بلکہ بہت غیر محسوس انداز میں ایک حد تک فاصلہ رکھتے ہوئے بھی اُن کی پسند و ناپسند کو جان لینا ہے،کسٹمرز کے ساتھ خوش دلی سے پیش آنا ہے اور ایسی بہت سی چیزیں وہ سیکھنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔اور یہ اب اُس کے کام آ رہی تھیں۔
” زندگی میں کبھی بھی کسی بھی چیز کو رائیگاں کا نا جانے دو اُس سے سیکھتے رہو۔” یہ محض اُس کا اپنا خیال تھا جس پر وہ عمل پیرا رہتی۔
اس عرصہ کے دوران اُس نے ‘ زندگی ‘ کو محض ‘ گزارنے’ کے گُر بھی سیکھ لیے تھے۔کاؤنٹر کے پیچھے اپنے سامنے رو شن سکرین کو غیر ارادی طور پر دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی اور پھر اُسی طر ح اپنا ہاتھ اُٹھا کر اُس نے اپنے کان کو لو کو چھو ا تھا،کچھ بھورے بال جن کی نوکیں ابھی تک شارپ تھیں اُس کی پوروں سے ٹکرا ئے تھے۔اپنے فیصلے کو وہ ابھی بھی غلط ثابت نہیں کرنا چا ہتی تھی اور بہا دری سے مقا بلہ کر رہی تھی نظروں کا رویوں کا ،لوگوں کی بے لگام چلتی زبانوں کا ،وہ اُس وقت کا انتظار کر رہی تھی جب لوگ عادی ہو جاتے اُس کے اس حلیے کے۔حلیہ۔۔۔کیا وہ غیر مناسب حلیے میں تھی۔اضطراب کے عالم میں تیز تیز اپنی انگلیاں کاؤنٹر پر بجاتے اُس نے خود سے سوال کیا۔ قدرے کھلی سیاہ جینز میں سر خ شرٹ پہنے وہ ہوٹل کے یو نیفارم میں ملبوس تھی۔ہ کچھ مضحکہ خیز لگتی تھی یہ اُس کا اپنا خیال تھا اور یہ چیز زیادہ اہم تھی کہ وہ خود ایسا لگنا چاہتی تھی۔اپنی عمر کی لڑکیوں سے قدرے مختلف سوچ۔۔۔وہ بُری لگنا چا ہتی تھی دوسرے لوگوں کو تا کہ وہ پھر اُس پر آوازیں کسنا بند کردیں اور اُس کا پیچھا کر نا بھی۔اور یہ بات اُسے اطمینان دلاتی تھی کہ جب پہلی بار چادر کو اپنے ماتھے تک اوڑھے باہر نکلی اپنے گھر سے مگر پہلی بار اپنے چہرے کو چھپائے بغیر اور ایک قدرے مردانہ قسم کی شلوار قمیض پہنے ہوئے تو وہ لو گوں کی نظروں میں تو آئی مگر ایک عورت کے رُوپ میں بالکل نہیں جو ڈری سہمی تھی اور اُن سب سے خا ئف تھی جو وہاں گلی کے نکڑ میں کھڑے رہتے تھے بلکہ وہ مضبوط نظر آتی تھی۔ضوفی کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب پہلی بار اُس کے اس حلیے کے ساتھ اُنہی لڑکوں نے اُسے وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ضو فی نے اپنے قدم روکے ،ایک بہادر اور نڈر لڑکی کے طور پر۔۔
” ایسے ٹکر ٹکر کیا دیکھ رہے ہو ؟ دوں گی نا ایک اُلٹے ہاتھ کا جھانپڑ سارے اگلے پچھلے کرتوت یاد آ جائیں گے۔” لڑکے کچھ خائف ہوئے اس کی اس کایا پلٹ پر اور گردن پر ہاتھ پھیرتے مڑ کر دیکھنے لگے مگر کھسیانے ہوتے ہوئے۔” چلو نکلویہاں سے کہ ۔۔دوں ایک۔” اپنا ہاتھ لہراتے وہ دو قدم آگے بڑھی ،تبھی لڑکے وہاں سے کھسک گئے اور ضوفشاں اسی طرح بہادری سے چلتی ہوئی گلی سے نکل گئی۔
” ایک پیپرونی (Pepperoni) پیزا پلیز۔” چو نکتے ہوئے وہ واپس وہا ں آئی جہاں وہ اس وقت مو جود تھی۔خوش آمدیدی اور قدرے مصنو عی مسکرا ہٹ ہونٹوں پر سجائے اُس نے آرڈر لیا اور اپنے چند دیگر کسٹمرز کو بھگتانے میں مصروف ہو گئی جو اچا نک ہی وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اُس سے پہلے تک ضوفی کے پاس سوچنے کے لیے خا صا وقت تھا مگر اب چار مزید گھنٹوں کے لیے وہ شدید مصروف ہو گئی تھی جب تک کہ اُس کا ڈیوٹی ٹا ئم ختم نہ ہو جا تا۔مگر اس بات سے وہ مکمل طور پر انجان تھی کہ دراصل اُس کا ڈیوٹی ٹائم ہمیشہ کے لیے ختم ہونے والا تھا۔
جیسے ہی چھ بجے ضوفشاں کاؤنٹر سے ہٹ گئی اور کچن کے ساتھ دائیں طرف بنے اُس چھوٹے کمرے میں آ گئی جہاں وہ سب لڑکیاں اپنے یونیفارم بدلتی تھیں اور واپس اپنے گھر کے کپڑوں میں آ جاتی تھیں۔وہاں پہلے سے ہی وہ لڑکی موجود تھی جو اُس کے ساتھ کاؤنٹر پر کھڑی ہوتی تھی۔ضوفشاں کو وہ کچھ پریشان اور ڈری ڈری لگی اور وہ اچانک ضوفشاں کے وہاں آ جانے پر چونکی بھی اُس پر بوکھلا ہٹ سوار ہوئی جب ضوفشاں نے اُس سے پوچھا۔” کیا ہوا تمہارے چہرے پر ہوائیاں کیوں اُڑی ہوئی ہیں؟”
”ک۔۔کچھ نہیں۔” اُس پر گھبراہٹ اتنی طاری تھی کہ وہ اپنی بات بھی مکمل نہیں کر پارہی تھی۔” کیا ہوا ہے تم اتنی ۔۔۔” ضوفشاں اپنی بات مکمل نا کر پائی اُس کی نظر اُس شاپر پر پڑی جس میں سے گوشت اور بند گوبھی وغیرہ کی جھلک نظر آ رہی تھی۔” تم چوری کر رہی تھیں؟” حیرانی سے وہ شاپر کھول کھول کر دیکھنے لگی۔” چوری میں نہیں تم کر رہی تھی۔” لڑکی نے تیزی سے بات مکمل کی اور تیز تیز چلتے باہر نکل گئی۔ضوفشاں کے لیے یہ صورتحال بڑی حیران کُن تھی اور اُسے سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ وہ اُس سے کیا کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھی۔وہ جو چیزیں نکال نکال کر دیکھ رہی تھی جلدی جلدی واپس اندر ڈالنے لگی اور جب وہ ایسا کر رہی تھی مینیجر نے عین اُس وقت اُس کے سر پر آپہنچا۔
” سر یہ تحریم ۔۔یہ سب لے جا رہی تھی۔” مینیجر کو اپنے سامنے دیکھ کر ضوفشاں کی وضاحت دینا چاہی تھی مگر بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ باہر تحریم اُسے یہ کہہ کر لائی تھی کہ ضوفشاں چیزیں چوری کر رہی ہے اور اندر اُسے وہ گوشت اورسبزیاں جلدی جلدی شاپر میں ڈالتی نظر آ ئی تھی ،تحریم کی بات کی تصدیق ہو گئی تھی۔
مینیجر نے اُسے خوب بے عزت کیا ،اس دوران وہ اپنی صفائی میں بولنے کی کوشش بھی کرتی رہی تھی مگر سب بیکار جاتا رہا کوئی اُس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔بے عزتی کے دوران کوئی نہ کوئی شیف اندر جھانکتا رہا تھا اور بیگانی نظروں سے ضوفشاں کو دیکھتے رہے تھے۔اُن سب کی نگاہیں ضوفشاں کو اندر تک چیر رہی تھیں اور وہ اپنے آپ کو زمین میں دھنسا ہوا محسوس کررہی تھی ۔
اپنے محلے میں وہ لڑکوں کو بے نقط سنا دیتی تھی اب اگر وہ مینیجر کے سامنے خاموش تھی تو صرف اس خیال کی وجہ سے کہ وہ وہاں جاب کرتی ہے اور اگر ضوفشاں کے بولنے پر اُس نے اُسے نکال دیا تو۔۔آنسو بہاتے ہوئے اپنی بے عزتی سنتی رہی ۔جب مینیجر خوب بھڑاس نکال چکا تو تحریم چپکے سے وہاں سے نکل گئی ضو فشاں نے اُسے جاتے دیکھا۔” کیا ضرورت تھی تمہیں یہ سب کرنے کی ،اگر تم اپنی مجبوری کے بارے میں ذرا سا بھی بتا دیتی تو میں تمہاری شکایت کبھی مینیجر سے نہ کرتی ۔” ضوفشاں نے اُسے جاتے دیکھ کر دکھ سے سوچا۔
” اور ہاں ۔۔کل سے ہو ٹل آنے کی ضرورت نہیں ہے ،فارغ ہو تم یہاں سے۔” مینیجر جو جانے لگا تھا پھر سے واپس مڑے اُسے کہہ رہا تھا۔ضوفشاں کی سیٹی گم ہو گئی۔” سر پلیز میں نے کوئی چوری نہیں کی ہے مجھے ہو ٹل سے۔۔۔” مینیجر نے بات کاٹ دی۔” یہ بات مجھے تم تب سے کہہ رہی ہو ،میں نے تمہیں خود دیکھا ہے یہ سب ڈالتے ہوئے۔” ” سر آئندہ ایسا نہیں ہو گا پلیزمجھے۔۔” یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُس نے چوری نہیں کی تھی اپنی نوکری بچانے کے لیے ضوفشاں نے کہا۔” تم جاتی ہو کہ پولیس بلواؤ؟” اور وہ وہاں سے نکل آ ئی۔ایک بار پھر سے وہ ستے ہوئے چہرے کے ساتھ سڑکوں کی خاک چھان رہی تھی۔” یااﷲ تو نے مجھے کیوں پیدا کیا جب میرے لیے کو ئی آسانی نہیں رکھی تو نے دُنیا میں۔” وہ اتنا رو چکی تھی کہ اب آنسو بھی آنا بند ہو گئے تھے اور آنکھیں پتھرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔” اب مجھے جو کام ملے گا جیسا ملے گا میں وہ کروں گی۔میں اب ہر گھٹیا کام کروں گی۔” اذیت کی انتہا تک سوچتے ہوئے وہ اپنے گھر کو جانے والی سٹرک پر چلتی جا رہی تھی۔
()٭٭٭()
Chitral Cuisineایک دفعہ پھر کھڑا ہوگیا ۔مگر اس بار تھو ڑے پرو فیشنل انداز کے ساتھ۔پہلے سے کہیں زیادہ پبلکسٹی کی گئی، کھانوں کو عمدہ انداز میں پیش کیا گیا، کسٹمرز کی چوائس کے مطابق ہر طرح کے کھانے بنا ئے گئے ۔کاوش ایک بار پھر سے اُسی قسم کا ایک کاؤنٹر لے لیا تھااور
کچھ ہی دنوں میں کاؤنٹر کے سامنے لگی کرسیوں پر رونق بڑھنے لگی مگر اتنی نہیں کہ وہاں بیٹھنے تک کی بھی جگہ نہ بچتی ۔
بڑھتے ہوئے آرڈرز کو دیکھتے ہوئے کاوش نے اپنے ساتھ ایک مددگار لڑکا رکھ لیا تھا ۔کاوش اُن کے کھانوں کو بنا رہا تھا پوری تعظیم اور محبت کے ساتھ ۔۔مگر اپنا مقصد وہ آج بھی نہیں بھولا تھا جسے لے کر وہ یہاں آیا تھا۔
بہت آہستہ آہستہ کاوش نے اپنے کھانوں کو متعارف کروانا شروع کیا ۔مہنگے اور تازہ ہونے کے باوجود وہ اپنے کھانوں کو کم قیمت پر مینیو میں درج کرتا رہا۔بہت کم مگر بلا آخر چترالی کھانوں کے آرڈرز آنے لگے۔تین چار دنوں میں کو ئی ایک چترالی آرڈر اُسے جیسے نئی توانائی بخش دیتا اور وہ سر شاری کو اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے اُس کی تیاری میں مصروف ہو جاتا۔
” باسKalliکا آرڈر آیا ہے۔”جب بھی کسی چترالی کھانے کا آرڈر آتا مدد گار لڑکا اُسے بڑے جوش سے بتا تا کیونکہ وہ جانتا تھا یہ بات کاوش کو بے انتہا خوشی دیتی تھی۔اپنے اندر اُمڈتی خوشی کو محسوس کرتا کاوش اُس کی تیاری میں لگ گیا۔
مٹی کے برتن میں لذیذ گوشت کا گا ڑھا شوربا اُبل رہا تھا ،کاویر نے شوربے میں چمچ ہلایا تھا اور میدے کی روٹی کو پھر سے بیلنے لگا تھا۔مددگار لڑکا آرڈرز لینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو سرو بھی کرتا جارہا تھا۔کا وش گلوز چڑھے ہاتھوں کے ساتھ جلدی جلدی میدے کی روٹی کا رول بنائے اب اُسے گول کا ٹنے میں مصروف تھا۔
”Rishiki کا بھی آرڈر آیا باس لیکن کا ٹیج چیز ختم ہے اور تقریبا ً شہد بھی۔” ایک دن میں دو چترالی آرڈرز ، کاوش جہاں خوش تھا وہیں اُس کی پریشانی کا سامان بھی موجود تھا۔علی نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا وہ جانتا تھا ساری غلطی اُس کی اپنی ہے۔چند لمحے کو کاو ش کے ہاتھ رُکے تھے۔” میں نے تمہیں یہی دونوں چیزیں یاد سے لانے کو کہا تھا۔” کاوش غصے میں نہیں تھا وہ فکر مند نظر آنے لگا تھا۔اپنے ہاتھوں سے لمبی لمبی نوڈلز کی طرح کی میدے کی لٹیں اُس نے اُبلتے شوربے میں ڈالی تھیں اور سوکھی کاویر کو برتن میں انڈیلا تھا اور ڈھکنے کے بعد اُس نے ایک فکر مند نظر کاؤنٹر کے باہر پھیلے خوش گپیوں میں مصروف لوگوں پر ڈالی تھی۔” اب کیا کرنا ہے باس؟” علی کام کرتے ہوئے پوچھ رہا تھالیکن پریشان وہ بھی نظر آتا تھا۔ایسا پہلی ہوا تھا کہ کو ئی چیز مینیو میں تو درج ہو مگر در حقیقت وہ اُس چھو ٹے شیشے کے کاؤنٹر کے پیچھے موجود نہ ہو۔
” کو نسا ٹیبل ہے۔؟” علی نے اشارے سے بتا یا تھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا،کاوش کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔”کبی بی اپنے ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے آئے لوگوں کو ما یوس مت کرنا۔بہترین سے بہترین چیز دینا تم۔سمجھا اے۔” بابا خان اُس کے کانوں میں بولے تھے۔کا وش لوگوں کے درمیان میں سے گزرتا ہوا اُس ٹیبل تک پہنچ گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Read Next

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!