نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

” جب تک شریف پائی تھے سچ پوچھو تو بڑے ٹھا ٹھ باٹھ تھے تم لوگوں کے، اور کیا خوب دکان چلتی تھی اپنے محلے میں اور کھلم کھلا دودھ الگ۔” عورت نے بے شمار پانی ملی چائے کا پہلا سپ لیتے ہوئے کہا جو ضوفی اُسے پکڑا کر خود بھی وہیں بیٹھ گئی تھی۔وہ اُن کی پرانی محلے دار تھی اور ہاجرہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کی بنا پر ملنے آئی تھی۔” بیڑا غرق ہو اُن سڑکوں کا ہمارا سب مٹی میں ملا دیا۔” تپے ہوئے لہجے میں ہاجرہ نے کہا۔” ہاں بھئی بُرا تو ہوا ۔وہ اپنی نسرین نہیں تھی ،بھئی اُس کے بچوں پر تو ایسا اثر ہوا گھر گرنے کا ۔۔صبح شام اپنے ماں باپ کا دماغ کھاتے ہیں کہ اب پھر سے تو ہمارے گھر نہیں گر جائیں گے ،گھر کی دیواروں کو ہاتھ لگا لگا کر کہتے ہیں کہ یہ پھر سے تو نہیں گر جائیں گی۔” عورت اب اُنہیں اُن کے علاقے کی ہی دوسری عورت کے بچوں کا حوال سنا رہی تھی جو اب اپنے نئے گھر جانے پر اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔ہاجرہ اور ضوفی کی آنکھوں میں دکھ سمٹ آیا۔
” مگر سچ پوچھو تو ایسا بُرا بھی ہوا مانو اچھا ہی ہو گیا۔” دونوں نے اُسے تعجب سے دیکھا اور سوچا یقینا اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے بھلا اُن کے گھر چلے گئے کاروبار ختم ہو گئے نفسیاتی طور پر وہ لوگ ہل کر رہ گئے اور یہ ۔۔۔” بُرا تو ہوا ہے بہن۔” ہاجرہ نے ہاتھ چلا کر نخوت سے کہا۔” بھئی ہمارے لیے تو بالکل بُرا نہیںہوا۔جہاں گھر گیا تو اُس کے بدلے نیا گھر بھی تو بنا لیا ہم نے جو پیسے ملے تھے اور تو اور میرے دونوں بیٹوں کو مزدوری پر بھی رکھ لیا تھا اُنہوں نے۔” ہاجرہ نے سوالیہ انداز میں اُس کی طرف دیکھا۔” ارے یاد نہیں جب آتے تھے پُل بنانے والے ہمیں منانے کو۔۔تب کہا تھا اُنہوں نے اگر مزدوری چاہیے ہو کسی کو وہاں پل بنانے میں وہ اُن کی مدد کر سکتا ہے ۔بس میرے دونوں بیٹے بھی وہیں کام کرنے لگے اور مانو زندگی سنور گئی ہے ہماری۔” ہاجرہ کو بھی یاد آگیا تھا ،تب اُن سب کا خیال تھا کہ وہ تو اپنا کاروبار شروع کر لیں گے مگر۔۔سب خیال ہی رہا۔عورت کی آواز ابھی بھی اُس کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔”تھوڑی محنت تو لگ جاتی ہے مگر تنخواہ اچھی دیتے ہیں وہ لوگ۔اور تو ضوفی پتر فارغ ہوتی ہے آج کل؟” عورت نے کہنے کے ساتھ ہی سوال بھی کر ڈالا۔ضوفی کسی خیال سے چونکی اور عورت کا چہرہ دیکھنے لگی۔” جی ۔۔بس کوئی کام ہی ڈھونڈ رہی ہوں۔”
” کام۔۔کیوں عالم علیم پھر فارغ ہیں کیا۔” عورت عالم علیم کے پچھلے ریکارڈ کے بارے میں جانتی تھی تبھی پوچھ بیٹھی مگر ہاجرہ اور ضوفی دونوں نظریں چراتے ہوئے خاموش رہیں۔تبھی ہاجرہ نے منت بھرے انداز میں عورت سے کہا۔” کو ئی کام ہو ا ضوفی کے لیے تو نظر میں رکھیں۔” ” کوئی کام۔۔” وہ خاموش ہو گئی مگر پھر کچھ یاد آنے پر کہنے لگی۔” میری جیٹھانی کی بیٹی ہے وہ ایک جگہ سیلز گرل ہے،وہ بڑے بڑے مال نہیں ہوتے وہیں لگی ہوئی ہے اچھی تنخواہ لیتی ہے۔” ضوفی سیدھی ہو بیٹھی بلآخر کوئی اُمید کی کرن نظر آئی تھی۔” میں اُس کو کہہ دوں گی تیرے لیے کچھ کرسکتی ہوئی توکر دے گی۔تو کل اُس مال میں چلی جانا۔” اور وہ اُسے ایڈریس وغیرہ سمجھاتے ہوئے اُٹھ کر چلی گئی۔
ہاجرہ اور خود اُس کا چہرہ پر سکون ہوا تھا ۔” اﷲ کرے کل کوئی بات بن جائے۔” اپنے اپنے دل میں اُن دونوں نے ایک ہی بات سوچی اور کل کا انتظار کرنے لگیں۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اُس دن کے بعد کاوش نے مختلف جگہ پر اپلا ئی کرنا شروع کیا ۔اور اپنے کاؤنٹر خالی کر دینے کی بات کو باباخان سے چھپا گیا ۔وہ اُنہیں کس منہ سے بتاتا کہ یہاں اُس پر کیا بیتی تھی اور وہ اپنے مقصد میں فیل ہو گیا تھا ،وہ باباخان کو یہ کڑوی حقیقت نہیں بتا سکتا تھا اس لیے وہ چھپا گیا۔اور دل و جان سے جاب کی تلاش میں لگ گیا۔اُس نے ہر اُس جگہ اپلا ئی کیا جہاں وہ جاب کرنے کے قابل تھا ۔اُس نے بے شمار جگہ انٹر ویوز دئیے مگر اُسے کہیں بھی مقرر نہیں کیا گیا ۔اُسے اپنی تعلیم مکمل کیے چند ماہ ہوئے تھے اور زیادہ تر جگہوں پر تجربہ مانگا جاتا تھا جو کہ اُس کے پاس نہیں تھا۔چند ایک ایسے آفیسز بھی تھے جو فریش اُمیدواروں کو رکھ رہے تھے مگر وہاں پر بھی کاوش کو منہ کی کھانی پڑی کیونکہ جب و ہ انٹرویو کے لیے جاتا تو اُس سے ریفرینس طلب کیا جاتا اور جب وہ اپنا سر انکار میں ہلاتا تو وہ فورا ً اُسے وہاں سے نکل جانے کا کہتے۔
No reference, no job. اورکا وش منہ لٹکائے وہاں سے آ جاتا۔
” اب کیا ہو گا؟” رات کو لیٹا وہ سوچتا رہتا۔تبھی لیٹے لیٹے اُس کے ذہن میں ایک خیال کوندے کی طرح لپکااور وہ اُٹھ بیٹھا۔” ان کو میرے کھانے پسند نہیں آئے مگر ان کو اپنے کھانے تو پسند ہیں نا تو اگر میں انہی کے کھانے بنا کر بیچنا شروع کردوں۔” وہ ماتھے پر ہاتھ ملتا جا رہا تھا اور اُس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔اور پھر اگلے دن اپنی اسی سوچ کو لیے وہ امداد کے سامنے موجود تھا۔
”کاوش وہ سب تو ٹھیک ہے مگر تجھے یہاں کے کھانے بھی تو بنا نے نہیں آتے۔ ” امداد نے سب سننے کے بعد ایک اور مسئلہ اُس کے سامنے رکھا۔” اور تو بنا ئے گا کیا ؟ بریانی؟ یا دال چاول یا کسی برگر شوارمے کا ٹھیلا؟ ” امداد اب اُسے حقائق بتانے لگا تھا۔” اور اگر بی الفرض تو یہ سب ریسپی سے دیکھ کر بنا نا شروع بھی کر دیتا ہے تو کو ئی فائدہ نہیں ہو گا۔پہلی بات تو یہ کہ فی الحال تو کسی چھو ٹی مو ٹی ریڑی کو بھی لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے دوسرا اگر تو کسی نہ کسی طرح پیسوں کا بندوبست کر بھی لیتا ہے تو لاہور جیسے شہر میں جہاں جگہ جگہ ایسی ریڑیاں موجود ہیں تجھ سے کون لے گا؟” امداد کی باتوں میں تلخی ضرور تھی مگر وہ حقیقت سے پُر تھیں۔کاوش نے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں ڈھانپ لیا ، یہ وہ باتیں تھیں جو اُس نے نہیں سوچی تھیں۔رات کا سا را جوش و خروش جو اس خیال کے ساتھ اُس کے اندر اُمڈآیا تھا یکدم ماند پڑ گیا تھا۔تبھی امداد نے اُس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اُس سے وہ کہا جو وہ سننا نہیں چاہتا تھا۔
()٭٭٭()
وہ دونوں شدید محنت کرنے لگیں اپنی بقاء کے لیے۔کام کی بنیا دی وجہ یہی تھی کہ وہ بھوکوں مرنا نہیں چا ہتی تھیں اور نا ہی اپنے بیٹے اور بھا ئی کو مرنے دینا چا ہتی تھیں۔
ضوفی اگلے دن اُس بڑے شاپنگ مال میں پہنچ گئی جہاں اُس لڑکی سے ملنے پر اُسے پتہ چلا کہ ایک سیلز گرل کی ضرورت تو ہے مگر اُس کو رکھنے اور نہ رکھنے کا فیصلہ اُس جوتوں کی دکان کے مالک نے کرنا تھا۔ضوفی نئی شش و پنج کا شکار ہوئی ۔” یہ ٹھیک لوگ تو ہیں نا مطلب۔۔” لڑکی اُس کی پریشانی سمجھ گئی تبھی اُس کی تسلی کروانے گی ۔” ہاں ہاں بالکل ٹھیک لوگ ہیں جبھی تو ہم یہاں کام کرتی ہیں۔” اُس کا اشارہ باقی تین چار لڑکیوں کی طرف تھا جو مارڈن کپڑوں میں ملبوس کسٹمرز کے سر پر طریقے سے کھڑی تھیں اور ایک مسکراہٹ اُنہوں نے اپنے چہروں پر سجا رکھی تھی۔ضوفی کی کسی حد تک تسلی ہو گئی تھی اور اب مالک کے انتظار میں کھڑی تھی۔
” فکر نہ کرو ایک سیلز گرل کی ضرورت ہے تمہیں رکھ لیا جائے گا۔” لڑکی کی تسلی پر وہ بھی ہلکا سا مسکرا دی حالانکہ اپنے اندر وہ ابھی بھی پریشانی محسوس کر رہی تھی۔مگر اُس کی یہ ساری پریشانی ہوا ہو گئی جب اُسے وہاں رکھ لیا گیا۔مالک نے کچھ ضروری معلومات کے بعد اُسے کل وہاں کام پر آنے کو کہہ دیا۔وہ خوش تھی تنخواہ بھی مناسب تھی اور ماحول بھی بہتر تھا واحد پریشانی جو اُسے لاحق ہوئی وہ اُ س یونیفارم کی تھی جو اُسے پہننے کو کہا گیا تھا۔لیڈیز کالا پینٹ کوٹ ۔ضوفی نے اپنی پوری زندگی میں شلوار قمیض کے سوا کچھ نہیں پہنا تھا اور اب وہ اسے پہننے پر مجبور تھی۔
” یہ۔۔یہ والا یونیفارم پہننا ضروری ہے کیا۔” اگلے دن اُس یونیفارم کو پہنے ہوئے اپنے آپ کو کچھ غیر آرام دہ محسوس کرتے ہوئے ضوفی گھبراہٹ کے ساتھ اُس لڑکی سے پوچھ رہی تھی۔” بھئی پہننا پڑتا ہے اتنا بڑی دکان ہے ،برانڈ ہے یہ ۔یہاں کی ڈیمانڈ ہے یہ ،اور اگر تم اسی طرح گھبرائی گھبرائی کھڑی رہو گی تو کسمٹرز کے ساتھ کیسے ڈیل کرو گی۔” لڑکی نے اُسے سمجھاتے ہوئے تقریبا ً ڈپٹا تھا ۔ضوفی چپکی کھڑی رہی کہ اب یہاں کام جو کرنا تھا۔
اُس کے گریز کو دیکھتے ہوئے اُس کا وہاں کام کرنا دیر پا ثابت نہ ہو سکا۔وہ پہلی بار ایسی کسی جگہ پر آئی تھی ۔بنی سنوری طرح دار عورتوں کے سامنے بیش قیمت جوتے رکھتے ہوئے اُس کے ہاتھ کانپتے ،اُس کے چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے گھبراہٹ ہوتی اور جب کسٹمرز وہاں سے جانے لگتے تو اُس کی زبان بالکل گنگ ہو جاتی اور وہ اُنہیں شکریہ تک ادا نہ کر پاتی۔یہی وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے صرف بیس دنوں کے اندر اپنی آدھی سے بھی کم تنخواہ کے ساتھ وہ ایک بار پھر فارغ تھی۔
لیکن اس بار اُسے کام کی تلاش میں زیادہ تگ و دود نا کرپڑی۔وہی لڑکی جس کے توسط سے وہ یہاں آئی تھی ایک بار پھر اُس کی مددگار بن گئی۔جوتوں کی دکان سے نکال دئیے جانے پر پہلے تو اُس نے ضوفی کو خوب سرزنش کی مگر وہ جانتی تھی کہ وہ ضرورت مند تھی اور کام کی تلا ش میں تھی اُس نے ضوفی کو اُسی مال میں ایک کپڑوں کی دکان پر بھیج دیا۔” میری ایک دوست وہاں کام کرتی ہے شادی ہو رہی ہے اُس کی،اس لیے ایک سیلز گرل کی ضرورت ہو گی اُنہیں، تم آج ہی وہاں چلی جاؤ۔” اور ضوفی وہاں آگئی اور اُسے ضرورت کے پیش نظر رکھ بھی لیا گیا۔
ایک بار پھر اُسے کچھ اسی قسم کا لباس پہننے کو دے دیا گیا مگر اب وہ اُس کے ساتھ کچھ کچھ آرام دہ ہو گئی تھی۔تنخواہ بھی تقریبا ً اُتنی ہی تھی مگر اب ضوفی کو خود جوتوں کی طرح کپڑے نکال نکال کر دکھانے نہیں پڑتے تھے بلکہ وہ کسٹمرز سے تھو ڑے فاصلے پر اپنے چہرے پر پر سکون تاثرات سجائے کھڑی رہتی ۔
وہ یہاں اپنے آپ کو پرسکون اور آرام دہ محسوس کررہی تھی مگر صرف تب تک جب تک کہ اُس پر وہ پہاڑ نا ٹوٹ پڑا۔
()٭٭٭()
” تم واپس چلے جاؤ کاوش۔” امداد کے الفا ظ اُس کے دما غ پر ہتھو ڑے بن کر برسے۔” اب کیسے واپس چلا جاؤں میں۔اب جبکہ میں باباخان کو اپنے یہاں ہوٹل کے بالکل ٹھیک ٹھاک چلنے کے بارے میں بتاتا رہا ہوں میں کیسے واپس جا کر کہہ دوں کہ درا صل ہو ٹل تو کب کابند ہو چکا اور اُن کے کھانوں کو وہاں کسی نے پسند نہیں کیا، میں اتنی تلخ حقیقت اُنہیں کیسے بتا دوں۔” امداد سے ملنے کے بعد وہ واپس جا رہا تھا اپنے فلیٹ اور اُس کا دماغ عجیب ادھیڑ بن کا شکار تھا۔ امداد نے جب اُس سے کہا کہ وہ واپس چلا جائے یہ سنتے ہی کاوش اُس سے کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے اُٹھ کر آ گیا تھا۔
” میں واپس نہیں جا سکتا اور یہاں بھی نہیں رہ سکتا تو پھر کیا کروں؟” وہ جو فٹ پاتھ پر چل رہا تھا اُس کا دل چاہا وہیں کھڑے کھڑے اپنے بال نوچ ڈالے۔اپنے راستے میں آئے ایک چھو ٹے سے پتھر کو ٹھوکر مارتے ہوئے اُس کی نظر اچانک وہاں اُٹھی جہاں دیوار پر اشتہار لگا تھا اور کاوش وہیں تھم گیا اور اشتہار کی تحریر کو غور سے پڑھنے لگا۔
()٭٭٭()
وہ اس وقت فارغ کھڑی تھی اور دوکان میں رش نہ ہونے کے برابر تھا اور جو اکا دکا کسٹمرز کھڑی تھیں اُن کو باقی لڑکیاں بھگتانے میں مصروف تھیں چنا نچہ وہ ہاتھ باندھے دکان کے شیشوں کے پار نظر آتے رش کو دیکھ رہی تھی جو فورڈ کورٹ میں لگا تھا۔فورڈ کوٹ اُس کی دکان کے بالکل سامنے تھا اور جہاں فاسٹ فورڈ کی دکانوں کی بہتات تھی۔ایسے ہی فاسٹ فوڈ کاؤنٹر پر نظریں جمائے وہ کھڑی تھی۔
اُس کے سامنے کاؤنٹر کے پیچھے اُس ہی کی طرح کی سیلز گرلز کھڑی تھیں اور ایک استقبالیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے جلدی جلدی آڈرز نوٹ کرتی تھیں۔ضوفی اُنہیں کبھی کبھی ہی فارغ کھڑے دیکھتی تھی زیادہ تر وہاں گاہکوں کا رش ہی رہتا تھا۔
” کچھ بھی ہو جائے دُنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے کھانا پینا نہیں چھوٹ سکتا۔” ضوفی دکھ سے مسکرااُٹھی مگر عین اُسی لمحے وہ بلبلا اُٹھی۔وہ جو بے دھیانی کے عالم میں کھڑی تھی کو ئی زور دار ٹکر سے اُس سے ٹکرایا تھا مگر یہ کیا تھا جو ضوفی کے ہاتھ جلا گیا تھا،کچھ لمحے وہ خود بھی سمجھ نہیں پائی۔مگر اپنے ہاتھ برابر مسل رہی تھی اور تکلیف اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔
” اندھی ہو کیا تم؟ تمہیں سینس نہیں ہے کھڑے ہونے کی بھی۔” جدید لباس میں ملبوس نازک سی لڑکی اُس پر گرج رہی تھی۔اُس کے ہاتھ میں موجود گرم گرم کا فی کا کپ ضوفی پر اُلٹ گیا تھا ۔ضوفی تکلیف بھول بھال کر حیرانی سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جو مسلسل اُسے کوس رہی تھی اُن کے ارد گرد کافی لوگوں کو جمع کر چکی تھی۔” یہ کس قسم کی لڑکیاں رکھی ہوئی ہیں آپ نے جن کو کھڑا ہونے کی بھی تمیز نہیں ہے۔” اب وہ براہ راست مینیجر سے مخاطب تھی جو کیش کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل کر آ گیا تھا اور لڑکی کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔” mam,we are sorry.ضوفشاں معافی مانگیں آپ ان سے۔” ہاتھ اُس کا جلا تکلیف اُس کو اُٹھا نی پڑی اور وہ بھی اک ذرا سی بے دھیانی پر اور وہ اگر راستے میں کھڑی تھی تو وہ خود سائیڈ سے ہو کر گزر جاتی کیوں اُس سے آ ٹکڑائی اس طرح تو اندھی وہ خود ہو ئی۔مگر ان سب باتوں کو جانتے ہوئے بھی جن کے بارے میں وہاں موجود ہر فرد جانتا تھا کہ غلطی خود اُس لڑکی کی تھی مگر چونکہ وہ امیر اور نازو اندام والی لگتی تھی سب نے ضوفشاں کو سرزنش کی اور اُسے مجبور کیا معافی مانگنے کے لیے۔
” سوری میم ۔مجھے دھیان سے کھڑے ہونا چاہیے تھا ۔آئی ایم سوری۔” مگر اس سب پر بھی بس نہیں ہوا وہ کچھ دیر مزید اُسے بولنے کے بعد تن فن کرتی وہاں سے نکل گئی اور مینیجر نے وہیں کھڑے کھڑے ضوفشاں کو جاب سے فارغ کر دیا۔یہ کہہ کر کہ اُسے بڑی جگہوں پر کھڑے ہونے کے اندازو اطوار نہیں آتے اور وہ ابھی اور اسی وقت اپنی اس مہینے کی اب تک کی تنخواہ لے کر وہاں سے چلی جائے۔
ضوفشاں نے ہکا بکا مینیجر کی بات سنی اور اُسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی بھی مہلت نہیں دی گئی تبھی وہ بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ وہاں سے نکل آئی۔ ضوفشاں کا دل چاہا کہ وہ کہیں ڈوب مرے۔اتنی ذلت اُٹھانے کے بعد بھی اُسے نکال دیا گیا۔کیوں؟؟ ایک بار پھر بے روز گار ہوتے ہوئے وہ سڑکوں کی دھول چھان رہی تھی۔کمانا اتنا مشکل کیوں ہے؟؟ ایک اور سوال اُس کے اندر اُٹھا جس کا جواب اُس کے پاس نہیں تھا۔
()٭٭٭()
وہ بھاگم بھاگ اُس رش سے بھری بس میں سوار ہوا تھا ۔اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر وہ بار بار نظر دوڑا رہا تھا مگر راستہ تھا کہ کٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔اُس دن اُس اشتہار کو پڑھنے کے بعد اگلے دن اپنے ڈاکو منٹس کے ساتھ وہ سیدھا اُس اکیڈمی میں گیا تھا جہاں ایک ٹیچر کی ضرورت تھی ۔اُس کی خوش قسمتی کہ اُسے وہاں دس ہزار ما ہوار کی تنخواہ پر رکھ لیا گیا اس کے علاوہ اُس نے مختلف گھروں میں انگلش، اکنا مکس اور اکاؤ نٹنگ بچوں کو پڑھانے جانے لگا۔کاوش کو کبھی بھی پڑھانا آسان نہیں لگا تھا مگر وہ اب اُس کے پاس کو ئی اور آپشن نہیں تھی۔مگر اُس کے ساتھ ساتھ جو ایک کام اُس نے عقلمندی کا کیا تھا وہ یہ تھا کہ کوکنگ کلاسز لینا شروع کر دی تھیں۔اب تک وہ صرف اپنے کھانے بنا نا جانتا تھا اب اٹالین، چائینیز، تھا ئی، پاکستانی ہر طرح کا کھانا بنانا سیکھ رہا تھا۔اور آج بھی وہ ٹیو شنز کے بعد کلا سز لینے ہی جا رہا تھا اور کلاس شروع ہونے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے جبکہ راستہ ابھی طویل تھا۔
ڈیڑھ سال وہ یہی کرتا رہا ٹویشنز پڑھانا اور پھر کوکنگ کلاسز لینا ۔مگر اپنے اس رو ٹین کے بارے میں وہ باباخان سے چھپا نا سکا دراصل وہ اُنہیں مزید دھوکے میں نہیں رکھ سکتا تھا۔اور ایک دن اُن سے فون پر بات کرتے ہوئے وہ تقریبا ً سسک اُٹھا جب باباخان نے اُس سے ہو ٹل کے متعلق استفسار کیا۔
” تمارا ہو ٹل کیسا چلتا اے کاوش؟ پسند کیا لوگ امارے کھانے کو؟” باباخان جوش سے پوچھ رہے تھے۔” باباخان کو ئی ہوٹل نہیں ہے۔سب ختم ہو گیا ہے۔لوگ ہمارے کھانے کو پسند نہیں کیا۔” آنسو بس اُس کی آنکھ سے نکلنے کو بے تاب تھا۔” سب ختم۔۔تم کیاکہتا ہے کاوش؟” باباخان کی آواز میں شدید پریشانی ظاہر کرتی تھی۔” باباخان لوگوں کو امارہ کھانا پسند نہیں آیا ہے۔” کاوش نے پتہ نہیں کس دل سے کہا۔اور اُنہیں سب بتاتا چلا گیااُس پر کیا بیتی اور اب وہ کیا کر رہا ہے۔
” کاوش بچے تم واپس آ جاؤ۔۔۔یہاں آ کر کو ئی چھو ٹا مو ٹا ہوٹل کھول لو یہاں تو بک ای جاتا اے سب۔” کاوش خود بھی جانتا تھا اگر وہ وہاں ہوٹل کھول لیتا تو گورے اور پاکستان سے ہی دور دراز کے مقامات سے آئے ہوئے لوگ جب اُن کا کھانا کھاتے تو بیشک بہت زیادہ پسند نہ کرتے ہوئے بھی وہ اُسے اُن کے سامنے بڑے شوق و رغبت سے کھاتے اور یہی نہیں ساتھ ہی ساتھ اُس کھانے کی تعریف بھی کیے جاتے، مگر لوگ اُس جگہ پہ جہاں انہیں اور دُنیا کی بہت بیش بہا نعمتیں میسر تھیں تو وہ کیونکر ایک ایسے کھانے کی تعریف کرتے جسے وہ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔مینیجر کے پیغام کو پڑھ کر جو اُبال اُس کے اندر اُٹھا تھا وہ اب بھی برقرار تھا مگر مسلسل ملتی ناکامیاں اُس کا حوصلہ توڑ رہی تھیں۔تبھی کاوش کو احساس ہوا کہ اُس نے غلطی کی تھی باباخان کو سب بتا کر وہ پریشان ہو گئے تھے۔” نہیں باباخان ۔۔جو خواب لے کر میں یہاں آیا تھا وہ تو میں پورا کر کے رہوں گا۔” باباخان کے لیے یہ کو ئی اور کاوش تھا جوعزم سے پُر تھا اور اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔خاموشی سے اُنہوں نے فون بند کر دیا مگر وہ کاوش کے لیے بہت پریشان ہو گئے تھے۔وہ سوچنے لگے اگر اُن کا گھر نا جاتا اور مینیجر کا اصل چہرہ کاوش کے سامنے نا آتا تو یقینا حالات مختلف ہوتے ۔۔۔مگر اب وہ کاوش کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے ، باباخان نے سر جھکا لیا مگر اگلے ہی لمحے اُنہوں نے دوبارہ سر اُٹھا یا ایک نئی سوچ اُن کے ذہن میں لہرائی،وہ اب بھی کچھ کر سکتے تھے کاوش کے لیے۔۔
()٭٭٭()
جس وقت وہ کچن میں داخل ہوئی تما م باورچی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ مگر جب وہ اُن سب کے درمیان میں گزری اُس کے آس پاس موجود ہر باورچی نے اُسے کھلے منہ کے ساتھ دیکھا تھا۔ سب سے پہلے بند گوبھی او jalapeño peppersکو تیز نوک دار چھری سے کاٹتا ہیلپر،بر گر بن کے دو ٹکڑے کرتا اور اُن میں کھیروں کے قتلے اور بریسٹ پیسز رکھتا شیف اور ونگز اور چپس کو ڈیپ فرائی کرتا شیف اور اُن سب سے آخر میں کاؤنٹر پر ٹرے پہنچا تا مدد گار لڑکا۔۔وہ سب ہاتھ روکے کھلے منہ کے ساتھ اُسے دیکھتے رہے تھے،پل بھر کے لیے ضوفی کو اپنا فیصلہ غلط لگا تھا لیکن پھر وہ مضبوط قدموں کے ساتھ وہاں سے کاؤنٹر پر آگئی تھی۔سب کے رُکے ہوئے ہاتھ دوبارہ سے تیزی سے چلنے لگے تھے مگر وہ اپنے دل میں تجسس کی گہری چھاپ رکھے ہوئے تھے۔
کاؤنٹر پر آ کر کھڑے ہونے پر بھی وہاں موجود تمام لڑکیوں نے اُسے حیرانی سے دیکھا تھا مگر وہ سب شدید بولنے کی خوا ہش کو اپنے دل میں چھپائے اپنے سا منے کھڑے کسٹمر ز کو بھگتانے پر مجبور تھیں۔ضوفی بھی اپنے کام میں مصروف ہو گئی اور ایک خوش آمدید گی کی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے وہ ہر کسٹمر کا خوش دلی سے آڈر نو ٹ کرتی رہی۔ حا لانکہ وہ اپنے دل میں بے شمار دکھ رکھتی تھی اس کے باوجود اپنے چہرے پر ایک مصنوعی مسکراہٹ سجاتی مگر اُس کی آنکھیں ۔۔۔جو اُداس تھیں اور اُس کے اندر کے درد کو عیاں کرتی تھیں۔
()٭٭٭()
وہ فاسٹ فوڈ چین تھی جدھر وہ اپنی باقی ماندہ اُمید کے ساتھ آئی تھی کیونکہ جب اُسے کپڑوں کی دوکان سے نکال دیا گیا وہ بے حد مایوس ہو گئی ہر شے سے حتی کہ اپنے آپ سے بھی۔۔اُسے لگنے لگا وہ کبھی کام حاصل نہ کر پائے گی اور ہمیشہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہے گی۔بہت ساری دوسری جگہوں پر کام ڈھونڈنے کے علاوہ وہ یہاں بھی آئی تھی کہ شاید اُسے رکھ لیا جائے۔مگر اُس کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی جب اُنہوں نے کو ئی مثبت جواب نا دیا اور ضوفی کو اُن کی کال کا انتظار کرنے کو کہا گیا۔وہ جانتی تھی یہ تو صرف بہلاوہ تھا کال دراصل کبھی نہیں آئے گی۔اگلے کچھ ہفتے وہ اسی طرح ماری ماری پھرتی رہی کہیں کام مل جاتا مگر شدید خراب ماحول کے ساتھ، کہیں کام تو بے بہا لیا جا رہا ہوتا مگر تنخواہ تقریبا ً نہ ہونے کے برابر ۔وہ میٹرک کے بعد پڑھ نا سکی تھی اور کو ئی ہنر اُس کے پاس موجود نہیں تھا کہ گھر بیٹھے ہی کچھ کما سکتی چنانچہ وہ اپنے آپ کو بیکار محسوس کرتی۔اُن دنوں ضوفی کو لگتا وہ بھی اپنے بھا ئیوں سے مختلف تو نہیں تھی۔علم اگر اُن کے پاس نہیں تھا تو خود اُس کے پاس بھی نہیں تھا، کام وہ نہیں کر رہے تھے تو وہ بھی تو صرف بیٹھی کھا ہی رہی تھی، ہاں مگر ایک چیز جو ضوفی کے پاس تھی وہ یہ تھی کہ وہ کوشش کرتی رہی تھی کام ڈھونڈنے کی مگر اب اُس کا بھی کو ئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا۔
کچن میں کھڑے ضوفی خالی ڈبوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی تبھی اُس کے ذہن میں خیال آیا۔” میٹرک تو کیا ہی ہے میں نے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھا لیتی ہوں۔” سوچتے ہی اُس کے ذہن کو کچھ سکون ملا اور ایک بار پھر سے خالی ڈبوں کو کھنگالنے لگی ۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Read Next

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!