نجات دہندہ — ردا کنول (دوسرا حصّہ)

لکڑی کی طشتری تھامے وہ تروق چائے سے بھری تین پیالیاں رکھے ہوئے تھی،یہ اُس سامان میں شامل تھا جو وہ رنمبور سے لائے تھے۔اپنے لکڑی کے برتن،خوب صورت قالین ،لکڑی کے تختے، چترالی مخصوص تکونی ٹوکریاں،سو کھی خو بانیوں کے ہار جو وہ آج بھی اپنے کچن میں سجا کر رکھتی تھی اور بہت ساری سوکھی کاویر ۔۔کچھ بیج کچھ جڑیں کچھ پتے۔۔۔وہ سب اُس کے پاس تھا اُس کے بخاری میں۔
” کاوش ام ڈسے ہوئے ہیں شہری لوگوں کے،بار بار کیوں اُن سے اپنی ہتک کر وانا چاہتے ہو؟ ” کاوش نے گرم پیالی اُٹھا لی تھی اور اُسے اپنے منہ سے لگا لیا۔وہ بے حد لذیذ تھی بالکل ہمیشہ کی طرح۔” میں اسی لیے جا نا چاہتا ہوں زر مستہ امارے کھانوں کی بے عزتی بر داشت نہیں ہوتی مجھے ۔” زرمستہ کو اُسے اس حالت میں دیکھ کر دُکھ سے چو ُر ہو گئی تھی۔” میں اُنہیں اپنے کھانے کھلاؤں گا اور وہ اُس کے عادی ہو جائیں گے اور پسند کرنے لگیں گے، میں ضرور جاؤں گا۔” چائے کا سپ لیتے ہوئے اُس نے اصرار کیا تھا۔” اور اگر برار (بھا ئی) ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟” زرمستہ نے ڈرتے ڈرتے کہا تھا وہ اُسے مزید تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔” میں مجبور کر دوں گا اُنہیں۔” چیلنج کرتا انداز ،زرمستہ کو یقین آ گیا طشتری تھا مے وہ اُٹھ گئی مگر اُٹھنے سے پہلے کاوش نے اُس سے کہا۔
” جانے سے پہلے بابا خان کو منا جاؤ زرمستہ۔” کاوش اب بے بس نظر آ تا تھا۔” کہاں جا نے سے پہلے؟” زرمستہ چو نکی تھی۔” باباخان تماری شادی کرتا اے یاں گلگت میں۔” اور زرمستہ دوبارہ ڈھے گئی ۔
” ام یاں گلگت کے کسی بندے سے شادی نہیں کرے گا ۔یہ لوگ نا امے پسند اے نا باباخان کو پھر اتنا بڑا فیصلہ کیوں؟” اُس کی آواز غم سے پھٹنے کے قریب تھی۔کاوش کو اپنی بابا خان کے ساتھ ہوئی بحث یاد آ گئی۔
”بابا خان گلگت والے۔۔آپ جانتے ہیں نہ ان لو گوں کو۔” شدت جذبات سے وہ اپنی بات بھی مکمل نہیں کر پا یا تھا۔” ام کبھی بی گلگت کو قبول نہیں کیا۔اماری ثقافت امارے رسم و رواج اما رہ رہن سہن سب سے اُونچا ہے۔” اُنہوں نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا تھا اور اپنی بات کو جاری رکھا تھا۔”یہ جب شندور ٹاپ پر پولو کا کھیل لگتا اے یہ اپنے خچر اور گدھے لاتا اے اور ام۔۔اب کی بار ہاتھ سینے پر ٹھونک کر کہا گیا،ام گھوڑے لاتا اے۔تندرست و توانا گھوڑے۔۔ جو بھا گتا اے تو کھیل جمتا اے نہیںتو۔۔” اُنہوں نے حقار ت سے منہ مو ڑ لیا۔
” لیکن ام مجبور اے اپنے علاقے سے دور اے اور امارہ زحور(بیٹی) ادر بوڑھا او جائے گا اس لیے ام اُس کا شادی گلگت کے بندے سے بنا تا اے۔” پہلے سے قدرے مختلف آواز و انداز کے ساتھ اُنہوں نے کہا تھازرمستہ کے لیے وہ بے بس نظرآتے تھے اورایساکرنے پرمجبورتھے۔
یہ وہ باتیں تھیں جو وہ زرمستہ کے سامنے کبھی نا کرتے اور وہ اُسے صرف کاوش کے سامنے کرنی تھیں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کو۔اب وہ اُسے رشتے کی تفصیلات بتا رہے تھے۔اور یہی سب کاویر نے تھوڑی ردو بدل کے بعد زرمستہ کے سامنے رکھ دیا۔
” با با خان کی بات مان لو زرمستہ وہ تمارا بُرا نہیں چاہتے۔” اُس کی ہاتھ میں موجود دونوں کپ جو وہ اپنے اور بابا خان کے لیے لائی تھی ٹھنڈے ٹھا ڑ ہو چکے تھے اور بلا ئی اُن کی سطح پر پھیل چکی تھی ۔اور زرمستہ اُٹھ گئی۔بنا کچھ بولے۔نجانے کس کے لیے دل میں شدید خفگی اور بے بسی محسوس کرتے ہوئے اور آنسو اُس کی نیلی آنکھوں میں ٹھہر گئے۔بے بس۔۔غصے سے بھرپور ٹھٹھرے ہوئے جامد آنسو۔۔۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
چند سال پہلے اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہو گا۔اس شہر میں۔۔وہ بھی ایک کاروبار کرنے کی غرض سے۔اجنبی شہر۔۔اجنبی لوگ اور سب سے بڑھ کر نا موافق موسم۔وہ ٹھنڈے علاقے کا رہنے والا تھا اب گرمی نے بلبلا نے پر مجبور کر دیا تھا۔ایسا نہیں تھا کہ وہ یہاں پہلی دفع آیا تھا ،کچھ عرصہ پہلے وہ لاہور کی سب سے اچھی یو نیورسٹی سے زیر تعلیم تھا مگر پھر ماسٹرز کرنے کے فورا ً بعد وہ واپس چلا گیا تھا لیکن واپس جانے پر تو جیسے اُسے سب بکھرا بکھرا ملا تھا۔ہنستے مسکراتے چہرے غم کی تصویر بنے تھے ،رقص کرتے ہاتھ سینہ کو بی کرتے تھے اور وہاں کی خوب صورتی۔۔۔جیسے گہنا گئی تھی۔وہ حسن اور خوشی کی تفسیر بنی وادی غم زدہ تھی ،اُس کی ہر چیز،پھول پودے، لکڑی سے بنے شاندار گھر ، کالاشا زیور،کالاشا کھانے،کالاشا رسم و رواج،گھروں میں موجودبخاری(کھانے پکانے کی جگہ) ،ندیاں دریا۔۔۔آہ دریا۔جن کے کناروں پر بیٹھ کر کالاشا لڑکیاں اپنے حسن کو سنوارا کرتی تھیں۔جن کے ہاتھوں میں موجود آئینے اُس پتھر کے نیچے چھپے ہوتے تھے جن پر وہ براجمان ہوتی تھیں۔۔آہ یہ تھیں کا لفظ۔
مہارت سے روٹی کے کنارے ایک دوسرے پر جماتے ہوئے وہ مختلف طرح کی سوچوں میں گم تھا۔قیمہ اور پنیر بھری روٹی کو احتیاط سے دیسی تندور میں لگا یا تھا اور پھر سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔وہ ایک اُونچے تھڑے پر بیٹھا تھا جس کے آگے ایک شیشے کا کاؤنٹر تھابا ئیں طرف تندور اور دائیں طرف سلیقے سے سجے مٹی کے گول مٹکے اور اور چند مختلف شیپس کے مٹی سے ہی بنے برتن پڑے تھے جن میں Mantu,Pilaf,Kalli اور اخروٹ ،شہتوت اور کا ٹیج چیز کا بنا ہوا کیک اورTroq چائے۔
تندور میں سے گرم اور خستہ روٹی کو نکال کر اُس نے کاؤنٹر پر پڑی لکڑی کی پلیٹ میں رکھ دیا تھا۔”میں نے یہ کیوں بنا ئی” ہو نٹ بھینچے وہ سوچنے لگا تھا۔اپنے سامنے نظر ڈالنے پہ ایک اُداسی بھری گہر ی چھاپ اُس کے اندر تک اُتر گئی تھی۔اُس کے سامنے رنگا رنگ رو شنیاں پھیلی تھیں ۔فاسٹ فو ڈ کارنر پر رش لگا تھا۔اُس کے عین سامنے ایک سنیما تھا اور جس کے ساتھ ایک آئس کریم پارلر،ایک شوارما شاپ،باربی کیو سٹاپ،ایک جوس کارنر اور جس میں فروٹ چاٹ اور دہی بڑے سے لے کر گول گوپوں تک کی آئٹمز دستیاب تھیں اور دکانوں کا یہ سلسلہ اُس کے کارنر تک آ کر رُک جاتا۔۔Chitral Cuisine۔۔۔
ہر شاپ کے آگے کرسیاں لگی تھیں اور وہ سب اس طرح بھری تھیں جیسے ۔۔۔کاویر کو اپنی وادی یاد آئی تھی،جب شادی کا سماں ہوتا تو پوری وادی اکٹھی ایک جگہ جمع ہو جاتی اور تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں بچتی تھی۔کاویر نے نظریں پھیرتے ہوئے ایک ٹھنڈ ی سانس بھری ۔وادی کی یاد کہاں کہاں نہیں آتی تھی۔
یہاں آنے پر خوش تھا ،بلآخر باباخان کی پوری رضا مندی کے ساتھ وہ لاہور آیا تھا۔وہ مان گئے تھے جب کاوش نے اُنہیں وہ خوش خبری سنا ئی تھی جو وہ کچھ عرصہ پہلے کالاش جا کر اُنہیں سنانے والا تھا مگر حالات ہی ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ وہ اُنہیں کچھ بھی نہ بتا سکا تھا ۔اور وہ خوش خبری سنتے ہی باباخان کی آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے۔خوشی سے بھر پور آنسو۔۔۔
اب وہ اس جگہ پر موجود تھا جو ایک مشہور اور ہر وقت گا ہکوں سے بھرا رہنے والا بازار تھا ۔
”یہاں پر مڈل کلاس سے لے کر اپر کلاس تک آتی ہے ،مڈل کلاس زیادہ تر ونڈو شاپنگ کی غرض سے اور اپر کلاس ہر طرح کی ضروری اور غیر ضروری شاپنگ کے لیے۔” اُسکے کلاس فیلو نے مسکراتے ہوئے کاوش کی معلو مات میں اضا فہ کیا تھا۔یہ کاؤنٹر کا وش کو اُسی کے تو سط سے ملا تھا۔”یہاں تمہارا کھانا ایک دم فرسٹ کلاس بکے گا دیکھ لینا تم،لا ہوری مستقل کھائیں نہ کھائیں ایک بار ٹیسٹ ضرور کریں گے۔” وہ پہلی بار اس مارکیٹ میں آیا تھا اور اب آگے پیچھے سے گھوم کر اپنے کاؤنٹر کا جا ئزہ لے رہا تھا۔امداد نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور مزید اضافہ کیا تھا۔”کھانا کسی اور نے کھایا یا نہیں کھا یا ہم لوگ تو ہر شام آ یا کریں گے خان بھا ئی۔” امداد کا اشارہ باقی کلاس فیلوز کی طرف تھا۔کاوش مسکرا یا تھا مگر اُس کے چہرے پر مسلسل پریشانی کے آثار تھے۔مستقبل کے اندیشے کسی دیو قا مت جن کی طر ح اُس کے سا منے کھڑے تھے۔” کاؤنٹر تو ٹھیک ٹھا ک اور صاف ستھرا اے مگر کرایہ کتنا ہے اس کا؟” اب وہ نیچے جھکا کیبنٹس میں جھانک رہا تھا۔کرایہ ٹھیک ٹھاک ہی ہے خان بھا ئی اب اتنے رش والی جگہ پر اور کرائے کا زیادہ ہونا بنتا بھی ہے۔” ” پھر بھی بتاؤ تو کتنے کا ہے؟” وہ ابھی بھی نیچے جھکا ہوا تھا۔”دو لاکھ روپے۔” کاویر کا دماغ بھک کر کے اُڑا تھا اور دل زور سے دھڑکا تھا۔” اس خالی شیشے کے کاؤنٹر اور اس تندور کا دو لاکھ۔۔امداد یہ بہت زیادہ ہے اور اگر میری بکری نا ہوئی تو۔۔” شدید پریشانی سے اُس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔” کاوش یہ زیادہ نہیں ہے تو جگہ دیکھ کمرشل ایریا ہے اور ابھی تو تم شکر کرو جو یہاں دکان مل رہی ہے تجھے جہاں پھر بھی بکری کے چانسز ہیں،لوگ تفریح کی غرض سے آ ئیں گے شغل مارنے کو تیرا چترالی کھانا بھی کھا کر دیکھیں گے اور اگر اُنہیں پسند آ گیا تو وارے نیارے۔۔اور تم پریشان کیوں ہو رہے ہو کچھ پبلکسٹی ہم بھی تو کریں گے نا یار۔۔آخر فیس بک کس کام آ ئے گی۔”دانت نکالتے ہوئے امداد نے جیسے چٹکیوں میں مسئلہ حل کر دیا تھا مگر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا کاوش اب صحیح معنوں میں یہ بات سمجھ رہا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا۔
”اور لکھ کے رکھ لے یار۔۔لاہوریوں کو اگر چکھنے کے بعد تیرے کھانے پسند آ گئے نا تو وارے نیارے تیرے پھر چاہے تو اُس کے بعد انڈر گراؤنڈ بھی ہو گیا نا وہ ڈھو نڈ نکالیںتجھے۔” امداد اُسے کانوں میں ہنستے ہوئے بول رہا تھا۔ایک تقریبا ً ما یوس مسکراہٹ کے ساتھ کا وش نے سر جھٹکا تھااور اپنے سامنے موجود لاہوریوں کو دیکھا تھا جو باربی کیو اور زنگر بر گر کے چٹخارے لے رہے تھے۔
()٭٭٭()
مصیبتوں کی زد میں آنا کسے کہتے ہیں یہ شریف کے خاندان نے جان لیا۔لیکن ان مصیبتوں سے چھٹکا رہ کیسے حاصل کرنا ہے یہ گُر وہ نہ جان پائے۔ہاجرہ خوش تھی کہ بلا آخر عالم کسی جگہ کام کرنے جانے لگا تھا۔اُس کا کچن ایک بار پھر سے راشن سے بھرنے لگا تھا۔اور بہت جلد اس میں کچھ اضافہ ہوا جب عالم نے علیم کو بھی اپنے ساتھ کام پر لے جانا شروع کر دیا۔ لیکن تب ہاجرہ کچھ شش وپنج کا شکار ہوئی تھی۔وہ دونوں نائٹ ڈیوٹی پر جاتے تھے ۔” گھر پر رات کے وقت ہم دونو ں اکیلی عورتیں کیسے رہیں گی ،یہ کوکو تو ڈر کے مارے سوتی تک نہیں ہے۔” ہاجرہ نے اُلجھن کھول کر اُن دونوں کے سامنے رکھ دی۔” اماں کچھ نہیں ہوتا اﷲ سب خیر کرے گا۔” عالم نے عجلت بھرے انداز میں کھاتے ہوئے کہا تھا۔” پر تو اپنی ورکشاپ کے مالک سے کہہ تو سہی صبح کو علیم چلا جایا کرے اور رات کی ڈیو ٹی پر تو خود۔” ہاجرہ نے مشورہ دیتے ہوئے چٹکی بجا کر مسئلہ حل کر دیا تھا۔” صبح کے ٹائم بھی جا یا کریں گے اماں پر ابھی نہیں۔” عالم نے گول مو ل بات کی اور وہ اُس کے قطعی پلے نہ پڑی۔وہ دونوں عجلت میں اُٹھ کر چلے گئے ۔ہاجرہ نے کوکو سے برتن اُٹھانے کو کہا اور خود وہ دو پٹہ سر پر لپیٹے سورتیں پڑھنے میں مشغول ہو گئی۔ہاجرہ کا دل ڈرتا تھا نجانے کس خو ف سے،مگر پچھلے کچھ دنوں سے اُس کا رواں رواں لرز رہا تھا۔
بمشکل چند گھنٹے بیتے ہوں گے جب ایک تیز چنگھا ڑتی آواز اُن کے کا نوں سے ٹکرائی۔وہ دونوں جیسے حال میں لو ٹ آئیں ،کو کو نے کچھ عجلت میں اپنے ارد گردبجتے فون کو ڈھونڈنا چاہا۔ انجان نمبر دیکھ کر اُس نے فون ہاجرہ کے ہاتھوں تھما دیا۔
ہاجرہ کے کانوں نے سنا”عالم کو پو لیس پکڑ کر لے گئی ہے۔” او روہ بیٹھے بیٹھے ڈھے گئی اُس کے انجانے خوف کی تصدیق ہو گئی۔اور اُس کا دوسرا بیٹا کدھر تھا ،یہ پہلا خیال تھا جو ہاجرہ کے ذہن میں آیا ،اپنی آواز بمشکل گلے میں سے نکالتے ہوئے وہ بس اتنا ہی پو چھ سکی۔فون کرنے والے نے لا علمی کا اظہار کیا اور ہاجرہ کی پریشانی حد سے سوا ہو گئی۔تبھی دروازے پر مسلسل اور تیز ی سے دستک ہونے لگی۔کوکو باہر کو لپکی مگر ہاجرہ نے اُسے روک دیا اور خود ننگے پیر وہ دروازہ کھولنے کو دوڑی۔تو قع کے بر خلا ف وہاں علیم کھڑا تھا اور پسینے سے شرا بور تھا۔وہ تیزی سے اندر بڑھا اور اُسی تیزی سے چٹخنی چڑھا دی۔” عالم کہاں ہے؟ کیا ہوا ہے؟ پو لیس کیوں لے گئی اُسے؟ کیا کر آئے ہو؟ سوالوں کی بو چھا ڑ کر دی ہا جرہ نے۔اور تب علیم نے پہلی بار کھل کر بتا یا ۔” سڑک پر موبائل اور پیسے چھینتے ہوئے وہاں ایک پو لیس مو با ئل آگئی میں ایک اور لڑکا مو ٹر سائیکل پر پیچھے تھے اس لیے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے مگر۔۔عالم کو پکڑ لیا اُنہوں نے تھانے لے گئے ہیں۔” مجرم بنا سر ہاتھوں میں گرائے وہ کانپ رہا تھا۔ہاجرہ کا دل زور سے کا نپا مگر فی الوقت اپنے حواسو ں کو قابو میں رکھتے ہوئے اُس نے جلدی جلدی دو جو ڑے ایک کپڑے میں با ندھے اور علیم کو اس شہر سے نکل جانے کو کہا وہ ایسا نہ کہتی تو اپنے دوسرے بیٹے کو بھی گنواتی۔پو لیس یقینا کچھ دیر میں اُس کے گھر آ جاتی اور۔۔اس سے پہلے ہی ہا جرہ نے علیم کو گھر سے احتیاط سے باہر نکال دیا۔
عالم پر بے شمار مقدمے تھے اس سے پہلے جو چوریا ں وہ کر چکا تھا لیکن اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر وہ سب بھی اُس کے سر پر آگریں اور خود کاشف با آسانی اُن سب سے بری کر وا لیاگیا۔
” تو خود کتنے آرام سے ان سب میں سے علیحدہ ہو رہا ہے؟” عالم کا لہجہ غم سے چور تھا۔پہلی بار دوست کی بے وفا ئی کا مزا چکھ رہا تھا۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب کاشف بھی اُس کے ساتھ حوالات میں بند تھا۔اور اگلے روز وہ وہاں سے رہا ہونے والا تھا۔” تیرے بھلے کے لیے ہی تجھے یہاں رکھ رہا ہوں،میں تو بے شمار دفع یہاں آچکا ہوں دوست،جو یہاں کی ہواکھا ئے بغیر چور بنا وہ کیا چور بنا۔یہ تو وہ جگہ ہے جہاں تو ‘ کام’ سیکھے گا۔بڑے بڑے لوگ ہیں یہاں بالکل اُستا د لوگ۔” عالم اُس وقت ہو نہہ کہہ کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔کاشف اُس کا انداز دیکھتے ہوئے ہنس کر اپنے اُوپر چادر اوڑھنے لگا۔” ابھی نہیں سمجھے گا تو کچا اے کچا۔۔” اُسی طرح قہقہہ مار کر ہنستا وہ لیٹ گیا۔
علیم شہر سے باہر چلا گیا اور اُس کے پیچھے عالم کو جیل سے چھو ٹنے میں کئی مہینے لگ گئے۔پہلے پہل ہاجرہ کے لیے اور کو کو کے لیے یہ چیز بڑی حیران کُن اور کہیں زیادہ تکلیف دہ تھی کہ وہ دونوں ایسے بھی کسی کام میں ملوث ہو سکتے تھے۔وہ جو اپنی بھینسوں کی دل و جان سے دیکھ بھال کرتے تھے اور دکان میں مٹھا ئیاں بنانے کے علا وہ شاید ہی کسی اور کام میں دلچپسی رکھتے تھے وہ خطر ناک ہتھیار پکڑنا کیسے سیکھ گئے تھے۔ایسا سوچتے ہوئے وہ یہ بھول جاتیں کہ زندگی سب سکھا دیتی ہے اور وہ خود بھی تو کتنا کچھ سیکھ گئیں تھیں وہ بھی جو اگر وہ اپنے ما ضی میں خیال بھی کرتیں تو فوراً جھٹک دیتیں یہ سوچتے ہوئے کہ ‘ایسا کبھی نہیں ہو سکتا’۔
اس عر صے کے دوران کوکو اور ہاجرہ نے ایک فیکٹری میں کام شروع کیا۔صبح سے شام تک وہ ایک ہی جگہ پر کھڑی رہتیں اور کپڑوں کے تھان ڈبوں میں پیک کرتی رہتیں۔فیکٹری بہت بڑی تھی مگر اُس میں وہ کمرہ جہاں وہ دونوں موجود ہو تی تھیں عورتوںسے کچھا کھچ بھرا رہتا۔پسینے میں شرابور عورتیں جن کے غموں کا حال اُن کے چہروں پر نقش تھا بغیر ہاتھ رُوکے اپنے کام کو جاری رکھتیں تا کہ وہ اپنی زیادہ سے زیادہ اُجرت وصول کر سکیں اور گھر میں موجود مسائل کے انبار وں کو خود سے دور کر سکیں۔ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کھڑی وہ دونوں کو کو اور ہاجرہ۔۔ ایک دوسرے سے نظریں چرا تیں کہ وہ نہیں دیکھ سکتی تھیں ،ایک دوسرے کو اس قدر غم زدہ،دکھوں سے چور اور جان تو ڑ محنت کے عذاب تلے۔” کوکو؟’ آہستگی سے ہاجرہ نے اُسے بلا یا۔وہ کو ئی جواب نہ دے سکی۔سوال جانتی تھی وہ یا شاید سوال کے بعد ہونے والی گھبرا ہٹ سے بخوبی واقف تھی تبھی وہ خامو شی اپنے اندر بے چینی کو چھپا ئے سفید تہیں لگے کپڑے کو ڈبے میں منتقل کیا ۔” کل تو بھی میرے ساتھ چلیں عدالت پتہ نہیں کیا فیصلہ آئے میرا تو دل گھبراتا ہے۔” کام کرتی عورتوں سے بھرے کمرے میں صرف دو پنکھے چل رہے تھے اور مسلسل مشقت سے پسینہ ہاجرہ کی ٹھو ڑی سے نیچے بہنے لگا تھا۔وہ ابھی بھی گھبرا ہٹ سے ہی بول رہی تھی اور کچھ آہستگی سے بھی۔کوکو نے نہ ہاں کی نہ ہی نفی میں سرہلا یا وہ کچھ دیر ایسے ہی کام کرتی رہی لیکن کچھ دیر بعد وہ بول اُٹھی شاید وہ اپنی ماں کو تسلی دینا چا ہتی اور گھبرا ہٹ سے بچا نا چا ہتی تھی جس کے لیے وہ بس اتنا ہی کہہ سکتی تھی۔”ٹھیک ہے اماں چلی جاؤں گی تمہا رے ساتھ۔” کہنے کے بعد اُسے اپنے ہی کہے الفا ظ کچھ نا کافی لگے تبھی وہ مزید کچھ کہنے سے خود کو نہ روک سکی۔” اماں تم فکر نہیں کرو عالم کل لا زمی گھر واپس آ جا ئے گا اور پھر علیم بھی۔” اور ایسا ہوا بھی وہ دونوں واپس آ گئے عالم کو جیل سے بری کر دیا گیااورعلیم بھی گھر واپس آ گیا لیکن پھر وہ دونوں دوبارہ سے اپنی زندگی شروع نہ کر سکے۔کسی ہا رے ہوئے انسان کی طر ح وہ اپنے گھر میں مقید ہو گئے اور کچھ ایسے کے با ہر نکلنے سے بھی کترانے لگے۔
زندگی اس قدر تنہا ،ما یوس اور خو شیوں سے مکمل انجان بھی ہو سکتی ہے؟؟؟ یہ وہ باتیں تھیں جو وہ سب اکثر سوچتے۔
()٭٭٭()
کاوش کا سا را جوش و خروش ہوا ہو گیا تھا۔وہ جو خواب سجا کر آیا تھا کہ اپنے کھانوں کی دھوم مچا دے گا ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔لوگ اُس کے کاؤنٹر پر آتے کو ئی چیز چکھتے اور بُرا سا منہ بناتے ہوئے وہاں سے چلے جاتے اور بعض تو منہ پھا ڑ کر کاوش کے منہ پر کھانے میں خوب مین میخ بھی نکالتے۔وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جس میں گاہک منہ بنا کر اُس کے کھانے میں نقص نکال رہا تھا۔
” اوہ۔۔یہ بالکل مزیدار نہیں تھا ۔ہم نے تو اسے dumplingsسمجھ کر منگوایا تھا مگر یہ تو بہت ہی عجیب ہے اور بالکل پھیکا۔” کاوش خاموشی سے اپنے سامنے کھڑے لڑکے کی باتیں سُنتا رہا تھا جو اب اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا اور اپنا والٹ ٹٹول رہا تھا۔” سر یہ dumplingsہی ہیں چترالی سٹائل میں بنے ہوئے۔” مگر لڑکے نے سر جھٹکتے ہوئے اُسے پیسے پکڑائے اور وہاں سے چلا گیا۔کاوش نے اپنی مٹھی کو بھینچا جس میں چند نوٹ دبے تھے اور شدید مایوسی کو اپنے اندر پھیلتے ہوئے محسوس کیا۔
وہ دو ماہ اُس کاؤنٹر پر بیٹھا رہا اور اپنے اُن پیسوں سے کاؤنٹر کا کرایہ ادا کرتا رہا جو وہ اپنے ساتھ لا یا تھا کیونکہ ہو ٹل سے اُس کی آمدنی بالکل نہ ہونے کے برابر تھی۔مگر اب آہستہ آہستہ مستقبل کا خوف اُ س کے دل میں جگہ بنا نے لگا تھا۔وہ جو بڑے بڑے دعوے کر آیا تھا کہ لاہور میں جا کر ایک اچھا مشہور ہو ٹل کھول سکے گا مگر ہوا بالکل اُس کے برعکس۔۔
وہ بے وقوف تھا یا خوش فہم جو اس خیال کے ساتھ یہاں آیا تھا، بہر حال وہ بری طرح ناکام ہوا تھا اور اب واپس جانے کا بھی کو ئی راستہ نہیں بچا تھا چنا نچہ کچھ دن وہ مزید اس اُمید کے ساتھ کاؤنٹر پر بیٹھا رہا کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں مگر یہ بھی اُس کی خام خیالی ثابت ہوئی۔
حالات تو کیا بہتر ہوتے اُلٹا اُس کے پاس موجود پیسے ضرور ختم ہو گئے۔اب سوائے ایک چیز کے وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا چنا نچہ اُس نے وہی کی۔اپنا کاؤنٹر خالی کر دینے سے سوا اُس کے پاس اور کو ئی چارہ نہیں تھا۔
” غلطی ہو گئی امداد مجھ سے ۔یہاں نہیں آنا چاہیے تھا مجھے۔” امداد کے سامنے بیٹھا وہ اپنا دکھ رو رہا تھا۔یہاں آ جانے کا دکھ۔۔۔
” یار نئے ٹیسٹ آسانی سے تھو ڑی لگتے ہیں لوگوں کو۔ٹائم تو لگے گا ،تجھے مستقل مزاجی سے کاؤنٹر پر بیٹھے رہنا چاہیے تھا۔” مستقل مزاجی کے لیے بھی پیسے چاہیے تھے جو میرے پاس نہیں ہیں۔” کاوش نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔” یہاں بے شمار خرچے ہیں۔کاؤنٹر کے کرائے کے علا وہ روزمرہ کی جو تازہ چیزیں لانی پڑتی ہیں وہ ۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ رہنے کا کرایہ الگ۔ جس فلیٹ کو میں شیئر کرتا ہوں دو اور لڑکوں کے ساتھ وہاں پر بجلی گیس کا بل بھی پے کرنا پڑتا ہے۔اور آمدنی میری صفر ہے۔” امداد کو اُس پر یکدم ترس آیا ۔وہ بے حد مایوس نظر آتا تھا اور کوئی حل اُسے نظر نہیں آتا تھا۔” کاوش تم چھو ڑو ہوٹل وغیرہ کے چکر کو کو ئی جاب کرلو اپنی فیلڈ میں مطلب اپنی ڈگری کے لحاظ سے۔” امداد نے اُسے ایک نئی راہ دکھا ئی۔” جاب کہاں ملے گی مجھے ؟” وہ اس قدر مایوس تھا کہ جاب کے حوالے سے بھی اُس نے مایوسی کا ہی اظہار کیا۔” اکاؤنٹس پڑھا ہے آخر ہم نے کہیں تو مل ہی جائے گی۔” امدا د نے اُس کا حوصلہ بڑھا یا اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔” اچھا میں چلتا ہوں۔تو اپلا ئی وغیرہ کر دے کہیں۔” کاوش نے سوچ میں ڈوبے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
()٭٭٭()
فیکٹری کی نو کری قلیل اُجرت اور بے آرامی سے زیادہ بے سکو نی پر مشتمل تھی،جہاں فیکٹری کے مالک کی نیت پل بہ پل بدلتی تھی ۔تبھی ہاجرہ نے اُس سے کہا کہ وہ گھر بیٹھ جائے اور کو ئی کام نہ کرے مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔جہاں کھانے والے چار اور کمانا والا صرف ایک ہو وہاں فارغ بیٹھنا ناممکنات میں سے تھا لیکن صرف اُن کے لیے جو اپنے دل میں احساس رکھتے ہیں۔عالم ،علیم تو ہاجرہ کے بے شمار دفعہ کہنے پر بھی کہیں کام کرنے نہیں نکلے تھے اور سچ تو یہ تھا ہاجرہ بھی اُن پر اب زیادہ زور نہیں ڈالتی تھی ،اُسے ڈر تھا کہ اگر پھر سے وہ کسی بُرے کام میں ملوث ہو گئے تو۔۔۔اور اس سوچ کے آتے ہی ہاجرہ سمٹ جاتی اور مشقت کی بھٹی میں خود کو اور ضوفی کو جھونک دیتی۔
آج بھی وہ سارا دن ایک ٹانگ پر کھڑے فیکٹری کا کام کر کے آئی تھی اور آتے ہی چارپائی پر ڈھیر ہو گئی۔ضوفی پانی کا گلاس تھماتے ہوئے بے بسی سے ہاجرہ کی طرف دیکھا۔” آج پھر بہت کام تھا فیکٹری میں؟” ہاجرہ نے پانی کا گلاس خالی کرنے کے بعد اُسے پکڑایا اور ایک گہری سانس لی۔” کام تو روزانہ ہی بہت ہوتا ہے۔” ہاجرہ نے ایک نظر اندر ڈالی جہاں عالم ،علیم آڑھے ترچھے لیٹے سو رہے تھے۔” اماں میں کام نہیں کروں گی تو گھر کیسے چلے گا؟” ہاجرہ کے پاؤں دباتے ہوئے وہ کہہ رہی تھی۔” کام ملے تو پھر نا۔۔” ہاجرہ نے دوپٹہ اپنے منہ پر رکھتے ہوئے کہا وہ اب سونے کی تیاری کرنے لگی تھی ، تبھی دروازہ بجا۔” میں دیکھتی ہوں اماں۔” سر دوپٹہ اُوڑتے ہوئے ضوفی باہر نکل گئی۔
جب وہ اندر آئی تو ایک عورت کے ہمراہ تھی ہاجرہ اُسے دیکھ کر فورا ً اُٹھ بیٹھی۔” ارے یہ کیا حالت بنا ئی ہوئی ہے ؟” وہ عورت حیرانی سے کہہ رہی تھی اس طرح کے بس منہ میں انگلیاں دابنے کی کسر رہ گئی تھی۔” بس ۔۔” ہاجرہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Read Next

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!