کیا کیا تھا جو ما ضی نہیں ہو گیا تھا۔گھر،کاروبار،رہن سہن،تہوار،حسین وادیاں،لباس،اپنے لوگ اور بہت سارا پیار جو اپنی وادی میں تھا اور جو یہاں نہیں تھا۔اس جگہ پر جس کو وہ اور اُن جیسے بے شمار چترالی اور کالاشا لوگ نا پسند کرتے تھے۔وہ یہاں کیوں تھے؟وہ روٹھ کے آئے تھے اپنی وادی سے۔۔؟ اُن کا دل چاہا دو ہتھڑ اپنے سر پر ماریں اور دھاڑیں مار مار کر روئیں۔وادی کے لوگوں کو وادی سے نکال دیا گیا۔اُن کا دل دو ٹکڑے ہوا تھا۔آنسو آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔ایسا ظلم۔۔۔
اپنے نئے گھر ،جو کہ اُنہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہ ایسا کریں گے،میں قدم رکھا تھا۔اُن کے قدم لڑکھڑائے تھے اور اس سے پہلے کہ وہ گر جاتے کاوش نے اُن کا بوڑھا اور نخیف ہاتھ تھا ما ۔برآمدہ جو کھلا نہیں تھا مگر اُس کے دائیں کونے میں ایک اخروٹ کا درخت تھا اور لکڑی سے بنے چو ڑے ستون جو تاریکی میں ڈوبے تھے اور بخاری ۔۔ہاں بخاری جو ایک نیم تاریک کمرے میں تھا اور جس کی چمنی سیاہ رنگ تھی۔باباخان نے اپنی آنکھیں مسلیں۔وہ کھلی آنکھوں سے اپنے پچھلے گھر کو اپنے نئے گھر میں دیکھ رہے تھے اور شاید اب وہ ساری زندگی اُس نظر سے ہی اپنے نئے گھر کو دیکھتے۔جو قدرے مختلف تھا اُن کے اُس گھر سے جو رنمبور میں ایک اُونچے پہاڑ پر تھا اور جو پام کی لکڑی سے بنا تھا باوجود اس کہ پام کی لکڑی مہنگی ہوتی ہے لیکن اُن کے لیے جو وادی کے نہیں تھے ،اور جو وادی کے تھے وہ وادی سے نکال دئیے گئے تھے۔آہ۔۔ بڑا تکلیف دہ تھا یہ سوچنا بھی ۔نم آنکھیں کاوش نے اپنی انگلیوں سے صاف کی تھیں۔اُس کے اپنے ہاتھ کا نپتے تھے مگر وہ حو صلے میں تھا اپنے پچھلے بہت سے دنوں کی نسبت۔۔جب اُس نے سنا تھا کہ اُس کا گھر گر رہا ہے اور تب بھی جب ھو سئی ماں اُنہیں چھو ڑ کر چلی گئی تھیں۔
زرمستہ اندر سے پورا گھر دیکھ آ ئی تھی تبھی وہ خامو شی سے آ کر خامو ش با با خان اور کاوش کے پاس بیٹھ گئی تھی۔” ھوسئی ماں ہوتی تو سب سے پہلے بخاری دیکھتی۔” بلا آخر زرمستہ بولی تھی۔بابا خان نے ایک گہری سا نس لی تھی۔” اپنی وادی میں دخن(دفن) ہونا تھا اُس کو۔”
” یاں کیوں آ گئے ہم بابا خان ؟ کالاش میں نہیں رہنا تھا تو چترار( چترال) میں ای رہ جا تا۔” زرمستہ ایک بار پھر شکوہ کر رہی تھی وہ بابا خان کے گلگت آنے کے فیصلے پر خوش نہیں تھی۔اور سچ تو یہ ہے خود باباخان اور کا وش بھی نہیں اور نا ہی گُل مکئی، پشمینہ اور دیوہ جو پیچھے وہیں بریر اور بمبوریت میں رہ گئی تھیں اپنے نئے خاندان کے ساتھ۔
” کاوش یاں کارو بار کرے گا واں چترار ( چترال )میں اب کو ئی سیاح نہیں آ ئے گا جب تک کہ وہ منحوس ڈیم نا جا ئے،اور لوگوںکے اس سارے مسئلے سے اپنے کام بند او جائیں گے ،فصلیں تباہ، لکڑ ی کا کاروبار تباہ کچھ نہیں بچے گا،اس لیے ام یاں آیا اے۔جو پیسہ ملا اے اُس سے یہ دُر( گھر) آ یا اے اور ام تماری شادی بی کر ے گا پھر کاوش یاں کو ئی کام کرے گا۔” بہت بار کی سنی بابا خان کی پلاننگ اُن دونوں نے ایک بار پھر سُنی تھی کاوش خاموش رہا تھا لیکن پھر اُس نے باباخان سے پوچھا۔” اور کارو بار باباخان؟ جو اچار اور مربعے ام بنا کے دیتا اے اُس کا کیا؟” بہت دنوں سے جو چیز وہ باباخان کو پریشان کر رہی تھی وہ یہی تھی کہ کہیں کاوش کو مینیجر کے پیغام کا نہ پتہ چل جائے۔وہ ابھی تک اُسے کاوش سے چھپا ئے ہوئے تھے۔وہ جانتے تھے کاوش جو پہلے ہی بپھراپڑا تھا اور دُکھی تھا مزید کو ئی دُکھ اُسے نا پہنچے اسی لیے اُنہوں نے زرمستہ کو بھی منع کر دیا تھا کہ وہ کاوش کو کچھ نہ بتا ئے ،مگر اب وہ خود اپنے منہ سے پو چھ رہا تھا۔
” کاوش تم یاں گلگت میں ای ہو ٹل کھول لو ۔ام وہ والا کارو بار نہیں کرے گا اب۔” باباخان نے ڈھکا چھپا جواب دیا ۔” لیکن کیوں باباخان۔۔” اُنہوں نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مزید بولنے سے رُوکا۔” ام آرام کرے گا اب ۔” اور اُٹھ کر اندر کمرے میں چلے گئے۔اُنہیں جاتا دیکھ کر کاوش نے زرمستہ کی جانب دیکھا ،وہ بھی منہ پھیر کر اندر چلی گئی ،کاوش کو پھر کسی انہونی کا احساس ہوا مگر زرمستہ اور باباخان سے پوچھنا بیکار تھا وہ اُسے کچھ نہ بتاتے اس لیے وہ بھی اُٹھ کر باہر نکل گیا اور ہو ٹل کے لیے کسی منا سب جگہ کی تلاش میں لگ گیا۔
()٭٭٭()
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اُس دن کے بعد شریف کے گھرانے میں کچھ بہت روشن اور خوش گوار دن طلوع ہو ئے ،اور پھر اُسی ایک روشن دن میں ہاجرہ کو یہ خیال چرایا کہ وہ عالم کو چھو ڑ کر جو گھر کا بڑا تھا عادل کی شادی کر دیں۔صاف ظاہر تھا خیال خود چُرا یا نہیں گیا تھا بلکہ مجبور کیا گیا تھا۔پیار ، محبت ، خیال اور لگاوٹ کی جھو ٹی پٹی آنکھوں پر چڑھا کر منا یا گیا تھا۔چناچہ یہ اُسی سلسلے کی کڑی تھی جو عادل نے شروع کی اور جس کا ایک سرا اُس کی کلاس فیلو سے جا ملتا تھا۔گھر۔۔بلکہ گھر نہیں کو ٹھی جسے عالم اور علیم جو جاہل تھے عادل کی نظر میں، کو ٹھی کہتے تھے،وہ سجی تھی روشنیوں کے سیلاب سے۔ چوڑا ماتھا جگ مگ کرتی لا ئیٹوں سے دمک رہا تھا اور امارت ایسی کے چھپائے نا چھپے۔علیم نے ٹھیک کہا تھا وہ گھر باجی جی کے گھر سے کہیں بڑا تھا اور نیا بھی۔
آج عادل کی مہندی تھی اور فنکشن کا ا ہتمام وسیع و عریض لان میں کیا گیا تھا۔پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا اور پیسہ کو نسا تھا۔۔سب جانتے تھے۔دُور پرے کے رشتہ دار بھی مدعو تھے مگر عادل کو رشتے داروں سے مطلب نہیں تھا اُسے مطلب تھا تو بس اس چیز سے کے ہال اچھے سے اچھا بُک کروایا جائے،اُس کے اپنے اور خاص کر کے دُلہن کے کپڑے اعلا سے اعلا معیار کے ہوں،کھا نا وہ جو بے شمار ڈشز پر مشتمل ہو۔
” امی سارہ کے گھر والوں سے مل چکی ہیں نا آپ ،دیکھا ہے نا آپ نے کتنا امیر خاندان ہے وہ۔ہماری طرف سے بھی کو ئی کمی نہیںہو نی چاہیے ورنہ پھر بعد میں آپ ہی دب دب کر رہیے گا جب وہ اپنی امیری جھاڑے گی آپ کے سامنے۔” یہ ہونے والی دُلہن کی کی طرف سے پہلا وار تھا جو عادل نے خود اپنی زبان سے کیا تھا ۔” ہاں ہاں تم فکر ہی نہ کرو دھوم دھام سے شادی کریں گے ہم تمہاری ۔” جواب ہاجرہ کی طرف سے نہیں بلکہ عالم کی طرف سے آیا تھا۔
عادل جتنی دھو م دھام سے شادی چاہتا تھا اُس سے کہیں زیادہ اُس کی شادی میں کیا گیا تھا۔یہ اُس کے باقی دونوں بھائیوں کی محبت تھی یابے وقو فی۔۔فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
سارہ امیر کبیر ماں باپ کی بیٹی دُلہن بن کر شریفے مکھن ملا ئی والے کے گھر آ گئی۔اور اُنہی پیسوں سے جو اُنہیں compensation ملی تھی عادل اُسے لیے بیرون ملک ہنی منانے چلا گیا واپس آنے پر اُسے علم ہوا تھا عالم اور علیم تو دراصل کاروبار کرنے کا سوچ رہے ہیں اور عادل ایک بار پھر سے اُن کی راہ میں آ گیا۔ درا صل اُن کی راہ کا روڑا بن گیا۔لیکن اس بار وہ خود بھی شاید اُس آرام کے اس قدر عادی ہو گئے تھے کہ اُنہیں مشکل لگنے لگا ،وہ باہر نکلیں اور خود کچھ کما کر لا ئیں یہ زندگی کچھ زیادہ اچھی تھی لیٹے لیٹے کھانے کو ملتا تھا آرام اور عیاشی الگ،چنا نچہ وہ تھوڑی سی شش و پنج کے بعد راضی ہو گئے گھر بیٹھنے کو۔
ہاجرہ بھی خوش تھی دن بھر ٹی وی دیکھنا بڑے سے صاف ستھرے کشادہ کچن میں مزے سے من پسند کھانے بنا نا اور بہو۔۔وہ تو بیٹے کی طرح اُن کی لاج دلاری تھی اُس کی لاکھ ناک بو چڑ ھانے کے باوجود بھی وہ اُس کے آگے پیچھے پھرتی تھی۔اور رہ گئی کوکو۔۔تو وہ بھی خوش تھی اتنے وسیع لان میں جو ہرا بھرا تھا اور پھولوں سے مہکتا تھا وہ ننگے پاؤں اوس گری گیلی گھاس پر چلتی اور مزے سے پینگ جھولتی۔
بھونچال تو تب آیا جب عادل کے بنک میں موجود پیسے ختم ہونے لگے۔اور اُس نے گھر میں اپنے حصے کی بات چھیڑ دی۔” امی اب مجھے لگتا ہے کہ پیسوں کو آپس میں تقسیم کر لینا چاہیے۔” ٹانگ پہ ٹانگ جمائے عادل شان سے اپنے نکمے بھا ئیوں کے سامنے بیٹھا تھا۔” ہیں۔۔پیسے بانٹ لیں۔” ہاجرہ تو ہاجرہ عالم ،علیم بھی چونک گئے تھے۔اُنہیں لگا کچھ غلط ہونے والا ہے وہ نکمے کہاں جانتے تھے غلط ہو چکا تھا۔” بنک میں کتنے پیسے رہ گئے ہیں۔” عالم کے دماغ میں کچھ کھٹکا تھا۔” چند لاکھ ،اور بٹوارہ کرنے کے بعد سب کے حصے میں دو دو لاکھ آئے گا۔میں نے حساب کر لیا ہے۔” بڑے آرام سے مطمین انداز میں عادل نے کہا تھا۔لیکن باقی سب پر برف گری تھی۔” اور تمہارے اپنے حصے میں؟” عالم بھی اب اُس کے مد مقابل تھا۔اُس کے عین سامنے صوفے پر آگے کو ہو کر بیٹھا تھا اور کہنیا ں اپنے گھٹنے پر جما رکھی تھیں۔” ظاہر ہے میرے حصے میں بھی اتنے ہی،ابھی گھر کا حساب کتاب با قی ہے۔” ” اور وہ جو تمہاری شادی پر خرچ اُٹھا اُس کا کیا؟” عالم اب صاف صاف بات کرنا چاہتا تھا۔” وہ میں نے اپنے پیسے لگا ئے تھے جو اپنی جاب کے دوران جمع کرتا رہا تھا اور اگر کچھ پیسے لگ بھی گئے compensation کے پیسوں میں سے تو کو نسی قیامت آ گئی۔وہ پیسے ابا کے پیسے تھے جو وہ میری شادی پر خرچ کرتے۔” ڈھٹا ئی کی اتنہا تھی یا جھو ٹ کی ،فرق کرنا مشکل تھا۔
تم جھوٹے انسان ہمارے سارے پیسے ہڑپ کر گئے اورہمیں مزید کاروبار کرنے سے بھی روک دیا تا کہ تم مزید عیا شیاں کر سکو۔تجھے تو میں چھو ڑو گا نہیں ۔کمینے۔” عالم بپھرا تھا اور غصے سے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ وہ تیزی سے اُٹھ کر اُس کا گریبان پکڑ لیا۔ہاجرہ چیختی ہوئی اُٹھی تھی۔اور اُنہیں چھڑوانے لگی تھی۔علیم نے بھی یہی کیا تھا مگر وہ ایک دوسرے کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔” میں نے روکا کاروبار کرنے سے اور تم چھُونے کاکے رُک گئے۔اصل میں تم دونوں خود کچھ کرنا نہیں چاہتے تھے۔بیٹھ کے کھانے کی عادت جو پڑ گئی تھی۔” ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ کھڑے تھے۔اس بار علیم کو بھی غصہ آیا اور وہ جو اُنہیں آپس میں مارنے سے چھڑوا رہا تھا اُس نے اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔کو کو خوف کے مارے آنسو بہاتی اپنے چہیتے بھائیوں کو لڑتے دیکھتی رہی۔” بعض چیزیں اپنے آغاز سے ہی بڑی جان لیوا ہوتی ہیں اور پھر جیسے جیسے وہ جڑ پکڑتی ہیں وہ مزید تکلیف دہ ہوتی چلی جاتی ہیں اُن کی عادت ہوتے ہوئے بھی ہر بار اُن کی تکلیف نئی ہوتی ہے۔” یہ آغاز تھا جو کوکو دیکھ رہی تھی۔
”ان پیسوں سے تو تجھے اب ایک پیسہ نہیں ملے گا۔”عالم نے اُسے دھمکی دی تھی۔جوابا ً عادل استہزا یہ ہنسا تھا۔” ہنہ ایک پیسہ۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں اب تم بنک سے اپنے باقی پیسے کیسے نکلواتے ہو۔” عالم ،علیم ایک نئے غصے کے ساتھ اُس پر جھپٹے تھے اور ہاجرہ کی چیخیں زور پکڑتی گئی تھیں۔
()٭٭٭()
اُس دن شدید قسم کے جھگڑے کے بعد عادل گھر چھو ڑ کر چلا گیا تھا اور رقم جو بنک میں موجود تھی عالم ،علیم اُس سے حاصل کر کے رہے تھے۔ اُس کے لیے وہ اُسے ہر طرح سے پریشر ائز کرتے رہے تھے اور یہاں تک کہ ہاجرہ نے اُس کے سامنے ہاتھ جو ڑ دئیے تھے اور اُسے مکان سے دست بردار ہونے کو کہا تھا مگر عادل بھی اپنے نا م کا ایک ہی تھا اُس نے اُس رقم میں سے بڑا حصہ اپنے پاس رکھ کر باقی اُنہیں بھجوا دیا اور اپنی بیوی کے ساتھ بیرون ملک چلا گیا۔عالم، علیم جتنا سر پٹخ سکتے تھے جتنا شور مچا سکتے تھے اُنہوں نے مچا یا مگریہ سب اُن کے کسی کام نا آ یا تھا اُلٹا جو رقم ہاتھ لگی تھی اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔کچھ ہی دنوں میں وہ کنگال ہو گئے۔ایک گھر تھا اور جس کو بیچنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اور اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔کیونکہ گھر جتنا بڑا تھا اور اُس کے اخراجات بھی اُتنے ہی زیادہ تھے چنا نچہ اُنہوں نے گھر بکنے لگا دیا ۔
اورگھر بکنے کے بعد جو رقم حاصل ہوئی اُس سے ایک چھو ٹا موٹا گھر خریدا گیا اور ایک دوکان ۔دودھ دہی کی دکان۔۔واحد چیز جو وہ کرنا جانتے تھے اور ان سب کے بعد اُن کے پاس جو آخری چند پیسے اُن کے ہاتھوں میں بچے اُس سے اُنہوں نے ایک بھینس خرید لی۔
مگراُن کی وہ دکان اور بھینس زیادہ دیر نہ چل سکیں جو اپنے محدود علم کے ساتھ خرید کر لائے تھے۔بھینس بیمار تھی اور اُنہیں اس بات کا علم اپنے گھر لانے کے بعد ہوا۔علیم نے اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیراتو وہ مغموم آنکھوں سے ساتھ اُسے تکنے لگی۔علیم کا دل پسیج گیا،اُسے وہ سب بھینسیں یاد آ ئیں جو اُن کی کبھی ہوا کرتی تھیں۔اور یہ وہ دن تھا جب اُن سب کو اپنا وہ گھر اور پچھلا بہت سارا کچھ جو اُنکے پاس تھا ٹوٹ کے یاد آیا اپنے گھر چھوڑ دینے کے بعدپہلی بار۔۔۔
اور یوں اُن کے پاس جو باقی پیسے بچے تھے وہ بھینس کے علاج معالجے میں خرچ ہوگئے۔لیکن اس سب کا کو ئی فا ئدہ نہ ہو ا بھینس چند دنوں میں چل بسی۔اب ایک دکان تھی اور وہ خود۔۔۔بے بس خالی ہاتھ۔خالی جیب۔
بازار سے دودھ خرید کر دکان کی شر وعات کی گئی۔پتلا پانی سا دودھ جس کی سفیدی چغلی کھاتی تھی ،وہ اُنہیں منا فع تو کیا دیتا اُلٹا مزید نقصان ہو گیا۔چند دن دود ھ دہی بیچنے کے بعد مگر در حقیقت خالی دکان میں مکھیاں مارنے کے بعد اُنہوں نے دکان کا شٹر گرا دیا۔اور دکان بیچ دی۔دودھ دہی بیچنے کے سوا وہ اور کچھ نہیں جانتے تھے بلکہ شاید وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔وہ بھینسوں کی دیکھ بھال کرنا جا نتے تھے،بھینسوں کے آگے چارہ ڈالنا دودھ دھونا اور اُن کی پیٹھ تھپک کہ اُنہی سے باتیں کرنا۔وہ جانتے تھے برفی بنا نا،لسی کے پیڑے بنا نا اور کنالیوں سے دہی نکال نکال کر شاپروں میں ڈالنا،یہ وہ کام تھے جو وہ کر سکتے تھے۔مگر اب وہ بھینسیں تھیں نا دودھ دہی۔۔۔سو وہ بیکار تھے۔وہ محنتی نہیں تھے وہ شوقین تھے اُس کام کے جو اُنہوں نے بچپن سے اب تک اپنے گھر میں ہوتا دیکھا تھا۔اس بُرے وقت میں اُن کے پاس اگر کچھ تھا تو وہ ایک مو ٹر سائیکل تھی جس پر کبھی وہ دودھ سے بھرے مٹکے رکھ کر بیچا کرتے تھے۔
جب اُن کی جیبوں سے اور ہاجرہ کے دوپٹے کے پلو سے ایک ایک روپیہ ختم ہو گیا تو وہ باہر نکلے ۔۔اس بار کام کرنے کی غرض سے۔ایک جنرل سٹور پر علیم کو سیلز مین رکھ لیا گیا مگر عالم ابھی بھی فی الحال کو ئی کام ڈھونڈنے میں ناکام رہا تھا۔
چند دنوں کی وہ امارت اب خواب و خیال سی لگتی تھی ۔وہ دولت جو کبھی آ ئی تھی مگر غلط استعمال کے باعث جیسے کہیں غائب ہو گئی تھی۔کوکو سوچتی،اچھا وقت جو زندگی میں ایک بار ہر انسان کی زندگی میں آتا ہے کیا ہمارا وہ اچھا وقت ہو کر گزر گیااب کبھی اچھے دن لوٹ کر نہیں آئیںگے۔۔۔؟ بے خیالی میں وہ اپنے لمبے بالوں کی ایک لٹ کو اپنی انگلی کے گرد لپیٹے جاتی۔” ابا کتنے اچھے وقت میں چلے گئے،اپنی اولاد سے خوش،مطمئن،اپنے گھر میں ۔” وہ گم صم رہنے لگی تھی اور وہ کیا سبھی عالم، علیم اور ہاجرہ۔آپس میں کو ئی بات نہ کرتے ۔مسکراہٹیں صرف خوش حالی کے دنوں میں ہی کیوں ساتھ دیا کرتی ہیں۔۔؟
ہاجرہ کی آواز ضوفی کو سوچوں کے گرداب سے باہر کھینچ لائی تھی۔” عالم تیرے کام کا کچھ کب ہو گا۔اتنے خرچے ہیں کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کروں۔” اپنے ماتھے پر دوپٹہ با ندھے ہاجرہ پریشانی سے استفسار کر رہی تھی۔عالم خاموش سا صوفے پر لیٹا تھا۔”اماں تمہارے سامنے روز ہی تو نکلتا ہوں ڈھونڈنے اب کیا کروں ،نہیں ملتا کو ئی کام۔” ” کام نہیں ملتا یا تیری مرضی کا نہیں ملتا؟” ہاجرہ بھری بیٹھی تھی۔اندر ہی اندر غم اُسے دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔وہ عادل سے بھی شدید مایوس ہو ئی تھی،لا ئق فائق بیٹا کیسے دھوکا دے کہ نکل گیا مگر پھر سوچتی ضرور اُس کی چڑیل بیوی کا کمال تھا ورنہ میرا عادل تو ایسا نہیں تھا۔ہزار تاویلیں خود کو دیتی مگر دل کے کسی کونے میں اصل بات بھی چھپی بیٹھی تھی۔بیویاں تو بھڑکا تی ہی ہیں بیٹے اتنے بے دید ہوتے ہیں کہ فوراً ماں بہن بھا ئیوں کو چھوڑا اور نکل گئے اپنی دنیا بسانے۔
وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔اب ساری اُمیدیں عالم، علیم سے تھیں،اپنے لیے نہیں ضوفی کے لیے۔کچھ ہاتھ سیدھا ہو تو ضو فی کی شادی کر دوں گی فوراً،وہ خامو ش گم صم بیٹھی ضوفی پر ایک نظر ڈالتی اور سوچ کے تانے بانے بنتی۔
”اماں کام کرنا چا ہتا ہوں میں خود بھی ،مجھے بھی فکر ہے گھر کی،تم ہر وقت مجھے طعنے دیتی رہتی ہو۔” ضوفی نے دونوں کو دیکھا اب ہا جرہ بھی آگے سے اُسے کچھ کہہ رہی تھی،یہ روز کا معمول ہو گیا تھا چھوٹی مو ٹی کتنی ہی لڑ ائیاں اب گھر میں دیکھنے کو ملتیں وہ سب ا یک دوسرے سے روٹھے روٹھے رہنے لگے تھے۔عالم زور سے دروازہ مارتا باہر نکل گیا ۔
()٭٭٭()
عالم تو پہلے ہی فارغ بیٹھا تھا علیم بھی بیٹھ گیا۔دکان دار سے ایک شدید قسم کی لڑا ئی کے بعد وہ ٹوٹے دانت اور خون بہتے نا ک کے ساتھ گھر میں داخل ہو ا تھا۔ہاجرہ نے اُسے اس حالت میں دیکھ کر اپنا سینہ پیٹ لیا تھا۔” دکاندار نے مجھ پر چوری کا الزام لگا یا تھا میں نے انکار کیا تو لگا ہاتھا پائی کرنے۔” پوچھنے پر علیم نے شدید غصے کے ساتھ کہا تھا۔” کمینہ۔۔۔۔” اب وہ مغلظات بکنے میں مصروف تھا۔اور ہاجرہ کو نئی فکر لاحق ہو گئی۔”اب کیا ہو گا؟” اُس کے ذہن میں کچن گھوم گیا جو خالی تھا سوائے چند دنوں کے راشن کے اُس میں کچھ نہ تھا۔اور وہ بل بھی تو۔۔وہ چارپائی پر ڈھے گئی۔” ہونا کیا ہے کو ئی نیا کام ڈھونڈوںگا اب۔” علیم اپنے زخم سہلاتا اُٹھ کر اندر چلا گیا۔ضوفی جو پانی کا گلاس لیے اُس کے سر پر کھڑی تھی ،اُس کے سائیڈ سے نکل کر وہ چلا گیا۔ضوفی کو یاد نہیں پڑتا تھا آخری بار اُس کے بھا ئیوں نے کب اُس سے ہنس کر بات کر کے گئے تھے۔شاید بہت عرصہ پہلے۔۔۔مایوس چہرہ لیے وہ بھی گلاس تھامے اندر بڑھ گئی ۔ہاجر ہ ابھی تک اپنا سر تھامے بیٹھی تھی۔
()٭٭٭()
علیم کی نوکری ہٹی تو عالم ایک ورکشاپ پرکام کرنے جانے لگا مگر جس طرح اچانک اُسے کام ملا تھا اچانک ہی ختم بھی ہو گیا۔گھر میں ایک مرد کمانے نکلتا تو دوسرا فارغ ہو جاتالیکن پھر ایک ایسا وقت آیا جب دونوں اپنے اپنے کام سے نکال دئیے گئے۔اور گھر میں فاقے ہونے لگے تبھی وہ واحد مو ٹر سائیکل اُن کے پاس موجود تھی وہ بھی بیچ دی گئی اور چند دن مزید گزارے گئے مگر کب تک ۔۔ایک بار پھر سے بھوک نے اُن کے گھر پر پنجے گاڑ دیے اور یہی وہ وقت تھا جب عالم کی دوستی کاشف سے ہو گئی۔
کاشف پہلے بھی بہت بار اُس کے حالات دیکھتے ہوئے اُسے اپنے ساتھ پارٹنر شپ کرنے کا کہہ چکا تھا مگر تب حالات اتنے خراب نہیں تھے کہ وہ اُس کا ساتھ دینے لگتا مگر اب جب وہ مکمل ما یوس تھا تو اس بارے میں سوچنے لگا تھا۔
کاشف نے اُس کی سوچ پڑھ لی تھی تبھی وہ اُسے ” پستول ” کا استعمال سمجھانے لگا تھا۔” اب بس پریشانی کے دن ختم۔۔میرے بھا ئی خوش ہو جا۔۔” پان کی پیک تھو کتے ہوئے کاشف نے اُس سے کہا تھا اور ایک سگریٹ کی ڈبی نکال کر ایک سگریٹ اُس کے ہاتھوں میں بھی زبردستی ٹھو نس دیا ۔
()٭٭٭()
کسی ہجرت کر جانے والے پرندے کی طرح وہ تینوں وہاں گلگت میں رہنے لگے۔مگرایک دن کاوش نے گلگت میں ہوٹل کھولنے سے انکار کر دیاجب اُس کے ہاتھ وہ پیغام لگ گیا۔مینیجر کا پیغام۔۔جو اُس کے بچپن میں اور پھر جوانی تک اُن کے گھر آتا رہا اور کا وش کے ہاتھ کے بنے لذیذ کھانے بے شمار تعریفوں کے ساتھ کھا تا رہا مگر اب وہ اس پیغام میں کیا پیغام دینا چاہ رہا تھا۔کاوش کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔اُس نے بابا خان کو پہلی بار انکار کر دیا۔گلگت میں ہو ٹل کھولنے کی بجائے وہ شہر میں ہو ٹل کھولنے کے پیچھے پڑ گیا۔جہاں وہ چترالی کھا نوں کی دھو م مچا دیتا۔مگر بابا خان نہیں مانے وہ سخت برا فروختہ نظر آتے تھے۔
” تم واں نہیں جا ئے گا ۔بس۔۔” ہاتھ اُٹھا کر اُنہوں نے منع کر دیا ۔” بابا خان ام وہاں جانا چاہتا ہے۔” کاوش نے ضدی لہجے میں کہا۔” کاوش جب تم یہاں پہ ہو ٹل کا جگہ دیکھ آ یا ہے کچھ دنوں میں کام شروع کرنے والا اے پھر تم کیوں ایسی ضد لگا تا ہے بچے۔۔؟” باباخان بے بس نظر آنے لگے۔
” بابا خان میں دکھانا چاہتا ہوں اُنہیں کہ ۔۔امارے کھانے کسی سے کم نہیں ہیں ۔ام اُن کو۔۔” باباخان نے اُسے مزید بولنے سے رُوک دیا۔” تم نہیں سمجھتا کاوش یہ اتنا آسان نہیں ہوتا ہے جتنا تم سمجھ رہا ہے ۔تم۔۔تم بس نہیں جائے گا۔” باباخان نے ایک آخری بار اُسے تنبیہہ کی اور چوکھٹ میں کھڑی زرمستہ کے پاس سے گزر گئے۔ زرمستہ جو یہاں آ کر اب اپنا کا لا شالباس نہیں پہنتی تھی مگر اپنے سر پر وہ پا کول(ٹوپی) اب بھی پہنے رکھتی تھی گویا اپنے لباس کے ساتھ رشتہ جو ڑے ہوئے تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});