میں لکھاری ہوں — اعتزاز سلیم وصلی

”السلام علیکم شہباز صاحب،آپ نہیں جانتے کتنی مشکل سے آپ کا پتا معلوم کیا ہے۔ آپ کو خط لکھتے وقت میرا دل زور زور سے دھڑک رہا ہے، میں اپنے احساسات بتا نہیں سکتی ۔شہباز صدیق میرے الفاظ پڑھیں گے یہ سوچ کر میں بے انتہاخوش ہوں۔میں نے آپ کی ہر کہانی پڑھ رکھی ہے۔ مجھے آپ کے کرداروں سے عشق ہے۔ اگر ہو سکے تو مہربانی فرما کر مجھے خط کا جواب ضرور دیجیے گااور ممکن ہو تو اپنا فون نمبر بھی بتا دیجیے گا۔آپ کے الفاظ کی فین۔ مناہل احمد۔”
شہباز کو اس سے پہلے بھی ڈائجسٹ/ قارئین کے خط ادارے کے ذریعے ملتے تھے مگر مناہل کا خط سب سے الگ تھا۔نہ جانے کیوں شہباز نے اسے بار بار پڑھا۔اپنی تعریف سب کو اچھی لگتی ہے اور جنس مخالف کی تعریف تو نشہ طاری کر دیتی ہے۔شہباز نے جوابی خط دو دن بعد بھیجا۔
”اتنی تعریف اور خلوص کے لیے شکریہ مناہل۔باقی باتیں کال پر کروں گا۔” اس کے آگے اس نے اپنا موبائل نمبر لکھ دیا۔ یہ سادہ موبائل اس نے کچھ دن پہلے ہی خریدا تھا۔ تین چار دن بعد جب وہ اپنے کمرے میں سورہا تھا، تو کالر ٹیون بجی۔ اجنبی نمبر تھا۔ اس نے کال ریسیو کی۔ایک سریلی آواز سنائی دی۔
”شہباز صاحب؟”
”جی بات کررہا ہوں۔”
”میں مناہل ،کچھ دن پہلے خط لکھا تھا آپ کو۔او مائی گاڈ مجھے یقین نہیں آرہا ہے میں شہباز صاحب سے بات کررہی ہوں۔” شہباز ہنس پڑا۔
”محترمہ ہم بھی زمین پر رہتے ہیں اور آ پ جیسے انسان ہی ہیں۔”
”ہاں سر پر آپ کے انوکھے انداز تحریر اور ناولز کی تو ایک دنیا دیوانی ہے۔” اس نے کھل کر تعریف کی۔
”شکریہ۔”اس کے بعد ادبی دنیا کی کئی شخصیات زیر بحث آئیں۔ مناہل کا علم محدود تھا، مگر اسے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔یہ فون کالز ہر گزرتے دن کے ساتھ لمبی ہوتی چلی گئیں۔ قاری لکھاری کے رشتے سے نکل کر دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔”آپ ”سے ”تم ”کا سفر جلدی طے ہو گیا۔کبھی کبھی مناہل ہنس کر کہتی۔
”تم صرف چوبیس سال کے ہو مجھے لگتا تھا پچاس سے اوپر ہو گا۔”
فون کال کی یہ ٹیکنالوجی رنگ لے آئی اور ایک دن مناہل ان کے فلیٹ کے دروازے پر آگئی۔ مہنگے ماڈل کی گاڑی میں، جینزاور شرٹ میں ملبوس لڑکی، آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ لگائے۔ ”گورے گورے مکھڑے پہ کالا کالا چشمہ”کی عملی مثال بنی ہوئی تھی۔ وہ واقعی خوبصورت تھی۔ فلیٹ اس کے معیار کا نہیں تھا پر صوفے پر بیٹھ کر لمبی گفتگو ہوئی۔ نسرین بھی خوش تھی، اس کا بیٹا اتنا مشہور ہو رہا تھا کہ لڑکیاں اس سے ملنے آرہی تھیں۔ چائے، چپس، سموسے اور پکوڑے۔ نازک ہاتھوں میں تھام کر کھانے کے ساتھ ساتھ انگلش کے الفاظ استعمال کرتی لڑکی شہباز کے دل میں گھسے جارہی تھی۔ اس نے اپنا لکھا ایک افسانہ بھی شہباز کو دکھایا۔ املا کی غلطیاں، الفاظ میں ربط نام کی چیز کا کوئی وجود نہ تھا اورپلاٹ بھی روایتی ساس بہو کے موضوع پر تھا۔ شہباز نے اس کا دل رکھنے کے لیے ”اچھا ہے”کہہ دیا۔
”میری رائٹنگ ابھی کافی کمزور ہے شہباز، میں چاہتی ہوں تم اس افسانے میں غلطیاں نکال کر درست کرو۔” شہباز نے حامی بھر لی حالاں کہ افسانے میں سے غلطیاں نکال دی جاتیں تو شاید خالی صفحے ہی رہ جاتے۔ شہباز کے پوچھنے پر مناہل نے بتایا:
”ڈیڈ بزنس کرتے ہیں۔ میں نے ماسٹر زکیا ہے اور آج کل ماڈلنگ کرتی ہوں۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس ماڈل لڑکی کا پہلا افسانہ شہباز نے وقت نکال کر سنوارا اور خواتین کے ایک ڈائجسٹ کو بھیج دیا۔شہباز کے الفاظ کا جادو اس افسانے میں شامل تھا۔شائع ہوا تو مناہل کی خوشی قابل دید تھی۔ وہ مٹھائی لے کر شہباز کے فلیٹ پر آگئی۔ تین ماہ کے عرصے میں وہ دوسری بار مل رہے تھے۔اب کی بار ایک عدد مکمل ناول مناہل کے ساتھ تشریف لایا تھا۔شہباز کا دل بیٹھ گیا، مگر عشق کے امتحانوں میں کامیاب ہونے کے لیے اس نے ناول خود دوبارہ ترتیب دے کر،غلطیاں نکال کر اپنے الفاظ میں لکھا اور اب کی بار بھی یہ ناول مناہل کے نام سے قابل اشاعت ٹھہرا۔ ناول کی اشاعت کے بعد شہباز نے ایک اخبار میں خبر دیکھی۔
”مشہور ماڈل مناہل کی ادبی دنیا میں دھوم۔افسانے کے بعد ان کا ناول بھی بہترین رہا۔” اخباری رپورٹر شاید مناہل کا فین تھا جس نے جی بھر کر اس کی تعریف کی تھی۔
”اب ادب کی تعریف بھی دولت کے سہارے ہوا کرے گی۔” اس نے تلخی سے سوچا۔مناہل نے اس بار خوشی میں اسے ایک مہنگا سیل فون تحفے میں دیا تھا اور اس کے ساتھ تحفے میں ایک ڈرامے کا اسکرپٹ تھا۔ ٹھیک ایک سال بعد مناہل احمد کا لکھا گیا ڈراما ایک مشہور چینل پر دکھایا گیا۔شہباز البتہ ابھی وہیں تھا جہاں سے ڈیڑھ سال پہلے تھا۔مالی حالات میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اسے حیرت تب ہوئی جب مناہل نے اسے نہ کوئی کال کی اور نہ ہی ملنے آئی۔
”مصروف ہو گی شاید۔” اس نے دل کو تسلی دی مگر دل نہ مانا۔ایک ہفتے بعد اس نے مناہل کو خود کال کی۔
”ہاں شہباز میں تمہیں بتانا بھول گئی میرا کزن امریکا سے واپس آگیا ہے۔ اس کے ساتھ میری شادی طے ہو گئی ہے اس سلسلے میں مصروف ہوں۔” اس کے بعد کال بند ہو گئی اور شہباز کے دل میں محبت والا خانہ بھی۔ الفاظ اس سے روٹھنے لگے تو ماں بیٹا صرف ایک وقت کا کھانا کھا کر گزارا کرنے لگے۔ نسرین نے ہمت بندھائی اور بیٹے کو واپس اس کی دنیا میں لے گئی۔ دل میں درد ہو تو اسے الفاظ کی شکل دینا آسان ہوتا ہے اور پڑھنے والا محسوس بھی کرتا ہے۔معاشرے کی تلخیاں اور خود غرض سوچ اس کے الفاظ میں الجھنے لگی۔ شہباز صدیق نے عشق و عاشقی اور محبوبہ کے رخساروں سے نکل کر کچھ الگ لکھا۔اس کی الگ پہچان بنتی گئی مگر ہمارے پاکستان میں یہ مسئلہ ہمیشہ رہا۔ ہمارا لکھاری ہمیشہ مالی پریشانیوں میں الجھا ہے۔ کئی بھوکے مرے تو کئی انقلابی سوچ والے جیل میں ڈال دیے گئے۔شہباز جتنا مرضی اچھا کیوں نہ لکھ لیتا وہ لوئر مڈل کلاس سے مڈل کلاس تک کا سفر طے نہ کرسکا۔ تعریفی خط اس نے پڑھنے چھوڑ دیے تھے۔نظر کا چشمہ لگائے، وہ چھبیس سال کا شخص وقت سے پہلے بوڑھا لگنے لگا تھا۔نسرین کو جگر کے کینسر نے لپیٹ میں لیا، تو اسے اچانک خیال آیا۔ ایک عدد بہو کی ضرورت تھی۔ یہ خیال پہلے بھی آتا مگر ارباز اور مہوش کی شادی کا تجربہ اسے اس پر عمل کرنے سے منع کر دیتا تھا۔ شہباز اس کا علاج کروانا چاہتا تھا مگر اک دن اس نے پاس بٹھا کر کہا۔
”میں نے اپنی زندگی کی تمام اونچ نیچ دیکھ لی ہے شہباز۔خوشیاں اور غم میری زندگی کا حصہ رہے، مگر ایک بات سیکھی ہے میں نے۔گزرے وقت کی تلاش میں ماضی کھنگالنا وقت کا ضیاع ہے۔اب تمہاری باری ہے شہباز شادی کر لو۔ اپنی زندگی جیو۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔” شہباز نے ماں کے حکم کے سامنے ہمیشہ کی طرح سرجھکایا۔نسرین نے اپنے آخری دن بستر پر گزارنے کے بجائے بیٹے کے رشتے کی تلاش میں گزارے تھے۔
٭…٭…٭
یہ مڈل کلاس لوگوں کا ایک محلہ تھے جس کے ایک عام سے گھر میں نسرین اور شہباز اپنے جاننے والے کے توسط سے آئے تھے۔ یہاں موجود لڑکی ثنا شکل وصورت کے اعتبار سے بہتر اور میٹرک پاس تھی۔ اسی نے شہباز اور نسرین کے سامنے چائے اور دیگر لوازمات رکھے۔ کچھ دیر بعد انٹرویو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ثنا کے والد نے پہلا سوال پوچھا ۔
”تو میاں کیا کام دھندا کرتے ہو؟”
”جی میں لکھاری ہوں مختلف ڈائجسٹ میں لکھتا ہوں اور میرے چند ناول کتابی شکل میں بھی آچکے ہیں۔” انہوں نے عدم دل چسپی سے یہ جواب سنا اور دوبارہ بولے۔
”یہ تو آپ کا شوق ہے۔ میں نے پیشہ پوچھا کام کیا کرتے ہیں کماتے کہاں سے ہیں؟”
”یہی میرا پیشہ ہے انکل۔”
”آج ڈائجسٹ تمہاری کہانی نہ شائع کریں ۔تمہارے قلم کو وقت کے ساتھ زوال آجائے تو کیا کرو گے تم؟کہاں سے کھلاوؑ گے ثنا کو۔ویسے بھی کتنا معاوضہ مل جاتا ہو گا تمہیں ان کہانیوں سے؟”بات سچ تھی مگر تلخ تھی۔ پہلے رشتے سے صاف انکار ہوا۔ دوسرا ،تیسرا،چوتھا اور نسرین کی حالت خراب ہوگئی۔ ہمت ہار کر دونوں ماں بیٹا گھربیٹھ گئے۔ ارباز پہلی بار گلناز کی شادی پر آیاتھااور دوسری بار نسرین کے جنازے پر جس نے ایک رات چپ چاپ شہباز کو دنیا میں تنہاچھوڑا اور چل بسی۔شہباز کی آنکھیں خشک نہیں ہو رہی تھیں۔آنسووؑں نے اپنا ٹھکانہ دیکھ لیا تھا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ناول، افسانے، سائنس فکشن،مائیکرو فکشن،رومینٹک ناولٹ اور نہ جانے کیا کیا۔ چالیس سال کی عمر میں شہباز بوڑھا نظرآنے لگا۔ سرکے بال سفید ہوئے تو عمر گزرنے کا احساس ہوا۔کئی سال سے وہ تنہا تھا۔کھانا ہوٹل سے کھاتا اور کسی مشین کی طرح کمرے میں بند ہو کر لکھتا رہتا۔مالی پریشانی ختم ہو چکی تھی اب بس وہ تھا اور تنہائی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود سے باتیں کرتا۔خود پہ ہنستا اور خود کو دکھی کرکے روتا۔ ماضی کی یادیں اس کا پیچھا نہ چھوڑتیں۔ انہی دنوں اس نے آب وہوا کی تبدیلی کا فیصلہ کیااورجمع پونجی اکٹھی کر کے شمالی علاقہ جات کی طرف نکل گیا۔ بند کمرا کئی سال سے اسے نفسیاتی مریض بنانے کی کوشش میں تھا۔پہاڑ،سبزہ ،بارش اور کہیں برف باری۔طبیعت سنبھلی تو وہ خود کو تروتازہ محسوس کرنے لگا۔اس شام وہ ایک ہوٹل پر بیٹھا چائے پی رہا تھا جب اس کے سامنے ایک بڑی بڑی ڈاڑھی والا شخص آیا۔
”تمہاری شکل کسی سے بہت ملتی ہے ”وہ اسی ہوٹل کا ویٹر تھا۔
”ملتی ہو گی۔”
”تم لاہورسے آئے ہو؟”
”ہاں۔” شہباز نے حیرت سے اسے دیکھا۔تھوڑی خاموش رہنے کے بعد وہ بولا۔
”اندرون لاہور کا محلہ۔” اس کے ساتھ ہی اس نے شہباز کے پرانے گھر کا ایڈریس بتایا۔
”ہاں مگر تم کیسے جانتے ہو یہ سب؟”
”میں جہانگیر۔”
”کون جہانگیر؟”
”وہی جس پر تمہارے باپ کے قتل کا الزام تھا۔”وہ تلخی سے بولا۔
”حالاں کہ قاتل خود تمہارا بھائی تھا۔” شہباز کو لگا وقت رک گیا ہے۔اس نے پھٹی نظروں سے شہباز کی طرف دیکھا۔
”تت تم جھوٹ بولتے ہو قاتل تم تھے۔”
”اسی الزام کے ڈر سے میں وہاں سے بھاگا۔حقیقت یہ تھی کہ کیس ہارنے کے بعد جب میں گھر آیا، تو ارباز میرے پاس آیا۔اس نے مجھے صدیق کو قتل کرنے کے بدلے آدھی دکان دینے کا وعدہ کیا، مگر میں نے انکار کردیا۔ لالچ نے اسے اندھا کردیا تھا۔ تیرا باپ اسے کچھ دن پہلے وہاں سے بھگا چکا تھا کیوں کہ ارباز دکان کی کمائی عیاشی میں اڑانا چاہتا تھا۔ میرے انکار کے بعد اس نے میرے ہی ایک دوست سے ریوالور خریدا اور مار دیا اس غریب انسان کو۔ الزام لگا مجھ پر اور میں جانتا تھا کوئی میری بے گناہی تسلیم نہیں کرے گا۔ میں نے گھربارچھوڑا اور ان برف کی وادیوں میں آگیا۔” آخری الفاظ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شہباز کو لگا وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہے۔ جہانگیر کے لہجے میں سچائی کی جھلک اسے بے چین کررہی تھی۔جہانگیر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ شہباز نے چائے چھوڑی اور واپسی کی تیاری پکڑلی۔
٭…٭…٭
دو دن بعد وہ اپنے باپ کی دکان کے سامنے کھڑا تھاجہاں ارباز کا چھوٹا بیٹا باپ کے ساتھ دکان پر موجود حیرت سے اردگرد موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ارباز نے اسے کرسی پیش کی اور آنے کی وجہ پوچھی۔
”ابو کو کیوں مارا ارباز؟”اس کے سوال نے ارباز کے چہرے کا رنگ بدل دیا۔
”مم میں نے نہیں مارا۔”
”آج جہانگیر ملا تھا مجھے،ابو تو ہم سے پیار کرتے تھے۔”
”ہاں کرتے تھے پر پیار سے پیٹ نہیں بھرتا شہباز۔میں بھی آج تمہاری طرح تنہا اور بھوکا مررہا ہوتا اگر ابو کو مارنے کا فیصلہ نہ کرتا۔”
”مجھے کوئی سوال کرنا ہے نہ جواب پر میرے الفاظ یاد رکھنا ارباز۔اک دن ایسے ہی یہ میرے بھتیجے کے ہاتھ میں ریوالور ہو گا اور تمہارا سینہ خون اگلے گا۔” وہ یہی کہہ کر چلا آیا۔اس رات کے بعد ہر رات صدیق احمدقریشی کا چہرہ اسے خوابوں میں دکھائی دینے لگا۔وہ بار بار ایک ہی سوال پوچھتا تھا۔
”میرا کیا قصور تھا شہباز؟میرا کیا قصور تھا؟”اور ملک کا مشہور لکھاری شہباز۔ چلاتا ہوا اٹھ بیٹھتا۔رفتہ رفتہ اسے جاگتی آنکھوں سے بھی صدیق دکھائی دینے لگا۔ بال بڑھ گئے۔ ڈاڑھی بڑھ گئی۔ کپڑے پھٹ گئے۔اسے نہائے ہوئے ایک ماہ ہو گیا اور پھر وہ چلاتا ہوا اپنے فلیٹ سے نکل آیا۔
٭…٭…٭
سنا ہے آج کل ایک بوڑھا شخص سڑکوں پر چلاتا پھرتا ہے۔
”سنو سنوسب لوگ سن لو۔ میں لکھاری ہوں،لکھاری ہوں میں۔میرے قلم کی کاٹ نے دنیا کو ادھیڑ دیا تھا۔میرے الفاظ کے جادو نے کئی لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑلیا تھا۔ہاں میں ہی وہ لکھاری ہوں جس کی لکھی گئی تحریروں کو تم لوگ پڑھتے ہو ۔سنو لوگوں! میں لکھاری ہوں۔میں جب چاہوں اپنے الفاظ سے کسی کو رلا سکتا ہوں کسی کے لبوں کی ہنسی بن سکتا ہوں۔کیوں کہ میں لکھاری ہوں۔”
لوگ اس پاگل کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں، مگر کچھ قارئین شہباز صدیق کے لیے اب بھی خط بھیجتے ہیں۔تعریفی خط…
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سرعیاں — افسانہ نگار: چیتین القان (مترجم: مسعود اختر شیخ)

Read Next

نارسا — فاطمہ رضوی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!