میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال کی لڑکی کو دیکھا۔ اس نے میلا کچیلا بدرنگ سا گھاگھرا پہنا ہوا تھا،سر کے بال بھورے اور کھچڑی تھے ،الجھے اور بے ہنگم سے،اس کے پائوں میں جوتے بھی پھٹے پرانے تھے۔اس نے دونوں ہاتھوں میں چوڑیوں کا ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا کہ ٹوکرا بتاتا تھا، لڑکی بھکاری نہیں محنت کش ہے۔ اس کے ساتھ ایک چار سال کا بچہ بھی تھا جس نے اس کی ایک ٹانگ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ وہ سڑک پار کرنا چاہ رہی تھی مگر ہاتھوں میں پکڑے ہوئے چوڑیوں کے ٹوکرے اور ٹانگ سے لپٹے ہوئے بچے کی وجہ سے اُسے مشکل پیش آ رہی تھی۔میں پل کے نیچے سائے میں کھڑے ہو کر دھوپ میں کھڑی اس لڑکی کے تذبذب کو دیکھ رہا تھا۔یہاں ہر طرف انسان تھے مگر سب اپنی اپنی دھن میں مگن تھے،کسی کے پاس چوڑیوں والی کی طرف دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔ میں پل کے نیچے سے نکل کر دھوپ میں کھڑا ہو گیا ،میں چاہ رہا تھا وہ مجھ سے مدد طلب کرے۔ اس نے کن اکھیوں سے مجھے دیکھا مگر پھر خود ہی بچے کو اٹھانے کی کوشش کی، میں جانتا تھا کہ یہ دھان پان سی لڑکی ایک ساتھ ٹوکرا اور بچہ نہیں اٹھا پائے گی اور دونوں میں سے ایک کو ضرور گرائے گی۔ میں آہستہ سے چلتے ہوئے اس کے پاس آ گیا،اب میرے اور اس کے درمیان چھے فٹ کا فاصلہ باقی تھا، اس نے ایک ہاتھ سے ٹوکرے کو سر پہ جمایا اور دوسرے ہاتھ سے جھک کر بچے کو اٹھانا چاہا ،مگر وہ بچے کو اٹھا نہیں پا رہی تھی اور ٹوکرا بھی اب کہ تب گرنے والا تھا،میں اب اس کے بالکل پاس کھڑا تھا۔میں نے اُردو میں کہا: ”ٹوکرا مجھے دو تم بچے کو اٹھا لو۔”اس نے بچے کو چھوڑا اور مڑ کے مجھے دیکھا،اس کا قد لگ بھگ پانچ فُٹ ہو گا یا اس سے ایک آدھ انچ کم۔اس کا چہرہ سفید مگر دیمک زدہ لکڑی کی طرح خشک تھا۔اس کی آنکھیں گہری نیلی اور بالکل بے تاثر تھیں … مجسمے کی طرح، اس میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی جسے دیکھتے ہوئے کوئی اسے مُڑ کر دیکھے،وہ ٹریفک میں چلتی ہوئی ایک گاڑی تھی یا سڑک پہ بہتا ہوا تارکول… سڑک کے آس پاس لگے ہوئے ٹھیلوں میں سے ایک تھی ،یا گاڑیوں کے انجن سے نکلتا ہوا شور، یا پھر گاڑیوں کے سائیلنسر سے نکلتا ہوا دھواں تھی ،وہ جو بھی تھی پر قابل توجہ نہیں تھی۔ وہ اپسرا نہیں تھی جو منظر میں کھڑے ہو کر منظر کو اپنی مُٹھی میں کر لے ،وہ تو منظر کا وہ رنگ تھی جس کے ہونے یا نہ ہونے سے منظر کو کوئی فرق نہیں پڑتا…
میں نے اس کی گہری نیلی آنکھوں میں جمی ہوئی برف کو نظر انداز کر کے ایک بار پھر اردو میں اسے مدد کی پیشکش کی۔وہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ مجھے تک رہی تھی ،اسے شاید اردو نہیں آتی تھی،میں نے اس کے سر پہ رکھے ہوئے ٹوکرے کی جانب اشارہ کیا اور پھر بچے کی طرف ،اس نے ٹوکرا اُٹھا کر مجھے تھما دیا اور خود بچے کو اٹھا کر سڑک پار کرنے لگی۔ہم سڑک کی دوسری طرف گئے ،وہ آگے آگے تھی اور میں اس کے پیچھے ،میں سڑک پار کر کے آہستہ ہوا ،میرا خیال تھا میرا کام ختم ہو گیا مگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر آگے آگے جا رہی تھی۔ تھوڑی دور جا کر میں نے اسے پیچھے سے مخاطب کیا مگر وہ بغیر کچھ بولے سُنے چلی جا رہی تھی ،مجھے اب غصہ آنے لگا تھا ،مگر پانچ سے سات منٹ کی واک کے بعد اب ہم چار منزلہ بلڈنگ کے تہ خانے میں موجود تھے ۔ یہاں اچھی خاصی چہل پہل تھی ،مختلف چیزوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ لڑکی ایک کونے میں گئی ،بچے کو اتارا اور میرے ہاتھ سے ٹوکرا لے کر زمین پہ رکھا۔ ٹوکرے کے اندر چوڑیوں کے اوپر ایک ٹاٹ کا ٹکڑا پڑا تھا ،یہ ٹاٹ اٹھا کر اس نے زمین پہ بچھایا اور خود اس کے اوپر بیٹھ کر ایک طرف سمٹتے ہوئے میرے لئے جگہ بنائی۔ میں نے اشارے سے منع کیا اور مُڑنا چاہا مگر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بیٹھنے کے لئے اشارہ کیا،میں نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور اس کے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھنے کی بہ جائے اس کے سامنے پائوں کے بل بیٹھ گیا۔ اب ہم دونوں کے درمیان چوڑیوں کا ٹوکرا تھا ،اس نے چوڑیوں کا ایک چھوٹا سیٹ اُٹھا کر میری طرف بڑھایا،میں نے انکار میں سر ہلایا۔اس نے پھر زبردستی سیٹ میرے ہاتھ میں دینا چاہا،میں نے سیٹ اس کے ہاتھ سے لے کر واپس ٹوکرے میں رکھ دیا اور مُسکرا کر کھڑا ہوکر واپسی کے لئے مڑا،تب میں نے پہلی بار اس کی آواز سنی ،اس نے کہا:
”نام؟”
میں نے مڑ کر اسے دیکھا،مجھے پہلی بار اس کی نیلی آنکھوں میں حرکت محسوس ہوئی،جیسے اچانک مجسمے میں جان پڑ جاتی ہو،جیسے خاموش جھیل میں اچانک کسی نے کنکر پھینک دیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں جان پڑتے ہی جیسے اس کا پورا چہرہ بدل گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے چہروں کو بدلتے دیکھا ہے مگر وہ بدلتے چہرے اذیت دیتے تھے ۔یہ پہلا چہرہ تھا جس نے اچانک بدل کر مجھے چند لمحوں کے لئے ہر طرف سے غافل کر کے اسے دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں اسے تکے جا رہا تھا ،اس نے اپنا سوال دہرایا: ”نام؟”
میں نے اس کے خشک اور پیپڑی زدہ ہونٹوں کو ہلتے ہوئے دیکھا،اور جیسے اچانک خواب سے جاگ گیا ”لعل خان۔” میں نے نیم خوابیدہ لہجے میں جواب دیا اور ایک بار پھر اس کی گہری نیلی آنکھوں میں گم ہو گیا۔
ایک ہلکی سی مسکان پہلے اس کی آنکھوں میں اُتری،پھر دھیرے سے سرکتے ہوئے اس کے ہونٹوں پہ آ کے رک گئی۔ ”لعل خان” اس نے میرا نام دُہرایا۔ خدا کی قسم ،مجھے اس سے پہلے اپنا نام اتنا خوب صورت کبھی نہیں لگا تھا ،میں مبہوت ہو کر اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ رہا تھا اور وہ ہولے سے مسکرا رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب طرح کا تفاخر تھا۔ وہ یقینا اپنی آنکھوں اور اپنے چہرے کے گرگٹ کی طرح بدلتے رنگوں کی طلسماتی کشش سے واقف تھی، تبھی تو آنکھوں میں برف اور چہرے کو دیمک میں چُھپا کر منظر کے بے وقعت رنگ میں رنگی رہتی تھی ،جانتی تھی وقعت ملے گی تو بہت کچھ چھن بھی جائے گا۔
اس نے اب کی بار بہت پرُاعتماد انداز میں مجھے اپنے ساتھ ٹاٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں ہار مانتے ہوئے اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا یہ ہماری پہلی اور آخری ملاقات اور ایک میٹھی یاد تھی۔
٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});