مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

” تمہی نے تو کہا ہے کہ کبھی کبھی اپنی بند گلی کا ایک سرا، کسی دوسرے کی زندگی سے ہو کر گزرتا ہے!”
”میں کچھ سمجھی نہیں ؟” اب کی بار بختاور سچ میں اُلجھی تھی۔
”سب جاننا یا سمجھنا، ہمارے لیے ضروری بھی نہیں ہوتا بختاور…! تم اپنی کہانی سناؤ! میں منتظر ہوں۔”عشنا کے کہنے پر بختاور گویا ہوئی۔
”ایک لڑکی کو بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا، مگر اس کے شوق کی کسی کی نظر میں کوئی اہمیت اور قدر نہیں تھی۔ وہ خواب دیکھتی، نیندوں کے دیس میں مہربان پری اور شہزادے کی منتظر رہتی، مگر جہاں پیٹ بھر کر کھانے کے لیے روٹی نہ ملے، وہاں خواب ایسے کب آتے ہیں۔ اس لیے اس کا بچپن بھی عام لڑکیوں کی طرح گڑیوں کی گرد گھومتا رہا، مگر اس کی قسمت کہ اس کے ماں باپ غریب تھے۔ اس کی ایسی خواہشیں پوری نہیں کر سکتے تھے یا وہ کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ لڑکی ان باتوں میں الجھنے کے بجائے، مٹی کے پتلے بناتی اور پھر ان سے کھیلتی۔ اس کھیل میں اسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب وہ بچپن کے سنہری دور سے نکل کر جوانی کی ست رنگی شام میں داخل ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں نت نئے خوابوں کی دھنک اترنے لگی، مگر اس کے فاقہ زدہ حالات اور عسرت بھری زندگی ،خواب دیکھنے کی اجازت کب دیتے تھے، یہ بھی دنیا کا سب سے بڑا سچ ہے کہ خوابوں کو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ وہ بس بسیرا ڈالنا جانتے ہیں۔ وہ آنکھوں کی زمین پر رہنا چاہتے ہیں۔ اب چاہے وہ آنکھیں کسی امیر کی ہوں یا غریب کی…! خوابوں کی تجارت تو بس آنکھوں کے ساتھ ہوتی ہے ، اسے کسی اور چیز کی کیا پرواہ…!”
”واو! انٹرسٹنگ تم تو بہت اچھا بولتی ہو۔” عشنا کی آنکھوں میں دلچسپی کے رنگ بہت واضح تھے۔
”مٹی سے پتلے بناتی تھی ، پڑھنے کا شوق تھا ، جو محلے میں قرآن پڑھانے والی عورت نے تھوڑا بہت پڑھا کر پورا کر دیا ۔ بس وہاں سے ہی لفظوں میں بسے ، زندہ سانس لیتے لفظوں نے اپنا اسیر بنا لیا۔ کوئی پرانا اخبار ، ردی کاغذ کا ٹکڑا ، کوئی پھٹا پرانا رسالہ، بس اس ہی تلاش میں رہتی تھی۔ ابا کا مزاج بڑا سخت تھا۔ اسے لڑکیوں کے ایسے شوق بہت برے لگتے تھے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اگر ابا چاہتا، تو ہم اسکول جاسکتے تھے۔ کیوں کہ ابا میرے تینوں بھائیوں کو تو اسکول بھیجتا تھا، لیکن ان کا پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ اسکول سے بھاگ آتے تھے۔ ابا پھر مار کر انھیں چھوڑ آتا۔ کتنی عجیب بات تھی کہ جو پڑھنا چاہتے تھے، ابا انہیں گھر میں بیٹھا کر رکھتا اور جو پڑھائی سے جان چھڑاتے تھے، اُن کے ساتھ زبردستی کرتا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ قسمت کی طرح ، لوگ بھی کسی کی مرضی اور خواہش کا اسے کچھ نہیں کرنے دیتے…!”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بختاور نے جھولی میں سے ایک سرخ رنگ کا پھول اٹھایا اور اسے عشنا کی طرف بڑھایا، تواس نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔
”آج پتا چلا کہ تم نہ صرف بولتی ہو بلکہ بہت اچھا بولتی ہو…!” عشنا کا لہجہ آج کل ایسے ہی خوش گوار رہتا تھا۔ بختاور اپنی سوچ میں بہتی دوبارہ ماضی میں پہنچ گئی۔
”ابا کو دیکھ کر بھائی بھی ہم دونوں بہنوں پر اسی طرح رعب جمانے لگے۔ یہ مت کرو، یوں مت کرو ، یہاں مت جاؤ! لگتا تھا کہ ہمیں زندگی جینے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کا غلام بننے کے لیے ملی تھی۔ ہماری ہر خواہش پر پابندیوں کی تالے پڑے تھے۔ ان حالات سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ ابا نے ہم دونوں بہنوں کو ایک بوجھ کی طرح اپنے سر سے اتار کر، کسی اور کے سر منڈھ دیا۔ نہ گھر بار دیکھا اور نہ کچھ اور بس رشتہ ملا اور ہاں کر دی ۔ جیسے ہم جیتی جاگتی لڑکیا ں نہیں، مٹی کی پتلیاں تھیں، بے جان گڑیاں تھیں۔ ستم گری دیکھیے جو لے کر گئے، انھوں نے بھی ہمیں اس سے زیادہ اہمیت کبھی نہیں دی۔ بہن اس لحاظ سے بہتر رہی کہ اسے اولاد کی نعمت مل گئی۔ مار اور گالیاں کھا کر بھی اسے وہاں رہنے کی وجہ مل گئی۔ جب کہ میں خزاں رسیدہ پودے کی طرح، بہار آنے کا انتظار کرتی رہی، لیکن تین سال بعد میرے مجازی خدا نے دوسری شادی کرکے ، مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا ۔نجانے کیا سوچ کر اس نے مجھے طلاق نہیں دی تھی ۔ والدین کے گھر پہلے کب من چاہی تھی ۔ اب تو بھائی بھی شادی شدہ تھے۔ ابا دنیا سے چلا تھا۔ ہوتا بھی تو اسے بیٹیوں سے کب محبت تھی کہ ان کی فکر کرتا ۔بھائی ماں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے ،مجھ جیسی گم صم ، خود سے باتیں کرنے والی کا بوجھ کیوں اٹھاتے۔ اس لیے اماں اپنے ساتھ مجھے یہاں لے آئی! روٹی کا بھی آسرا ہو گیا اور کام بھی مل گیا۔ ان سے بہتر کما تی ہوں میں!”
بختاور آج اپنے سب درد سنانے کے موڈ میں تھی۔ عشنا نے گہرا سانس لیا۔ اس کی کہانی بھی ایک عام عورت کی کہانی تھی۔ ایک ہی طرح کے دکھ اور درد سے بھری ہوئی۔
”تمہارا شوہر کبھی تمہیں لینے نہیں آیا؟” عشنا نے ہم دردی سے پوچھا
”پچھلے دوسالوں سے تو اس نے پلٹ کر میری خبر نہیں لی، مگر! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ان ہواؤں میں اوّلین بہار کی خوشبو شامل ہے ؟” اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ عشنا نے بھی اس کی تقلید کی۔ درخت پر لہراتے سرسبز پتے اور ان سے چھن کر آتی میٹھی دھوپ کی کرنیں براہ راست ان کے چہروں پر پڑ رہی تھیں۔ ہوا میں رچی خوشبو میں تازگی تھی۔
”ہاں! شاید ایسا ہی ہو…!” عشنا نے امید بھرے انداز میں کہا۔ اپنے وجود کی بہار کا انتظار تو اسے بھی نجانے کب سے تھا۔ اسے بھی لگنے لگا تھا کہ اس کا انتظار اب ختم ہونے کو ہے۔
ایک بات تو بتاؤ بختاور! کیا تمہارا شوہر بھی سب کی طرح تھا؟ بے حس اور خود غرض۔”
عشنا نے کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا جیسے وہ اس کے عکس میں خود کو دیکھنا چاہ رہی ہو۔ بختاور خاموشی سے سر جھکا کر کچھ سوچنے لگی۔
”میڈم صاحبہ! پہلے پہل تو وہ مجھے اپنے جیسا ہی لگا۔ جب وہ نرمی اور محبت سے مجھ سے بات کرتا یا میری فکر کرتا، تو مجھے ایسے لگتا جیسے مجھ میں زندگی دوڑتی ہے، سانس لیتی ہے ۔ اتنے سارے مٹی کے پتلوں میں ایک وہ ہی تو مجھے انسان لگا تھا، مگر میرا یہ سکون بہت سے لوگوں کی نظروں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا۔ میری ساس اور نندیں روایتی بن کر سوچتی تھیں۔وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بہو،کبھی خوشی اور سکون سے نہ رہ سکے۔ نجانے کیوں ان رشتوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت اور محبت نہیں ہوتی ہے۔ وہ ہر روز اپنے بیٹے کے کان بھرتیں اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب پہلی بار میرے شوہر نے اپنی ماں کے بھڑکانے پر مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ بس پھر وہ ہاتھ رکا نہیں…! میں ہر روز مار کھاتی ، اپنے زخم سہلاتی، آنسو بہاتی، اتنی مضبوط ہوگئی کہ پھر صرف جسم پٹتا تھا، مار کھاتا تھا، درد سہتا تھا اور میں تو بس دور کھڑی یہ سب دیکھتی رہتی۔ مجھے ایسے لگتا تھا کہ جیسے میں بھی مٹی کی بے جان پتلی بن گئی ہوں ۔سب کی طرح…!
میرے آس پاس ایسے ہی لوگ تو بستے تھے۔ چلتے پھرتے سانس لیتے، مگر احساس، محبت، ہمدردی سے عاری…!”
بختاور نے گم صم سی بیٹھی عشنا کی طرف دیکھا ۔ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیلی تھی۔
”اتنا حیران کیوں ہو رہی ہیں آپ؟اگر میری بات کا یقین نہیں، تو خود میں جھانک کر دیکھ لیں…! کیا وہاں بھی میری جیسی ایک بختاور بہت سے مٹی کے پتلوں کے درمیان قید نہیں ہے؟ کیا وہ عورت بھی ہر بار اپنی تذلیل ہونے پر، اپنے وجود کے ہر حصے کو سن ہوتے، جسم سے مٹی میں تبدیل ہوتے نہیں دیکھتی؟ مگر پھر بھی چپ ہے کیوں کہ وہ بھی روایات، مجبوریوں اور وفا شعاری کے بے شمار دھاگوں سے بندھی کٹ پتلی کی طرح ناچ رہی ہے ۔”
عشنا نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی زندگی کے اس تاریک پہلو کی طرف اشارہ کررہی تھی جسے وہ آج تک سب سے چھپاتی آئی تھی۔ یہ اس کے وجود کی وہ خزاں تھی، جسے اپنی بہار کا انتظار ایک مدت سے تھا۔
”ہم سب اپنی اپنی مجبوریوں اور غرض کی وجہ سے جیتے جاگتے انسانوں سے ، سانس لیتے ، حکم مانتے، سر جھکاتے، مٹی کے بنے پتلے ہی تو ہیں۔ کہیں آپ جیسی پڑھی لکھی عورت اپنے مجازی خدا کے سامنے سر جھکائے کھڑی ہے اور کہیں میری جیسی جاہل عورت بھی کئی لوگوں کی حکمرانی میں دن رات گزار رہی ہے ۔ فرق کیا ہے ہم میں…!
آپ کا وجود زبان کے تیروں سے زخمی ہے اور میرا وجود مار کے زخموں سے بھرا ہوا ہے…! جو بھی ہے، ہم کھڑے تو ایک ہی صف میں ہیں ناں…! میں اماں سے کہتی تھی کہ میرے آس پاس سب لوگ مٹی کے پتلے ہیں جن میں احساس اور محبت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ چاہے وہ میرا باپ تھا، میرا بھائی تھا، میرا شوہر یا اس کے گھر والے…! سب ایک سے تھے ۔ بس زندہ تھے، مگر ان میں زندگی نہیں تھی زندگی، تو احساس اور محبت کے جذبوں سے سانس لیتی ہے ۔اب اگر وہ ہی نہ ہو تو…، مگر پھر بھی ایک طریقہ ہے ۔ ہم سانس لے سکتے ہیں ۔ امید کا نغمہ ، ہر ساز پر گایا جا سکتا ہے ۔بس تھوڑی سی ہمت کرنی پڑتی ہے ۔زندگی میں جو ہماری بند گلی ہوتی ہے ، وہ کسی دوسرے کے لیے راستہ بھی بن جاتی ہے۔ جیسے آپ کی بند گلی سے میں نے اپنے جینے کے لیے ایک راستہ چن لیا ہے!” بختاور کے لہجے میں خوشی تھی ۔
” وہ کیا؟ ” عشنا اب بھی اپنی جگہ حیران و پریشان تھی۔
” بہت آسان سی بات ہے !آپ یہ سب کچھ کس لیے اور کیوں برداشت کر رہی ہیں ؟ کیوں کہ آپ اپنے بچوں کا محفوظ مستقبل چاہتی ہیں اور آپ کے شوہر اپنی ہرجائی صفت فطرت کے باوجود آج تک آ پ کو کیوں نہیں چھوڑ سکے، اس لیے کہ وہ اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی زندگی کو بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ۔ایسا ہی ہے ناں…!”
بختاور کے پوچھنے پر عشنا نے اداسی سے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ یہ اس کی زندگی کا وہ سچ تھا ، جو بختاور کے سامنے آگیا تھا ۔
”آپ دونوں کے پاس وجہ ایک ہی ہے، مگر سوچنے کا انداز الگ الگ ہے ۔ مرد اور عورت کو نکاح کے بعد جو رشتہ مضبوطی سے ایک دوسرے سے باندھتا ہے ، وہ اولاد ہی کا ہوتا ہے ۔ آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے کبھی اپنی طاقت کو جانا ہی نہیں ہے ۔ اپنے جینے کے لیے وہ ہوا اندر ضرور آنے دیں جو آپ کو جیتے ، جاگتے انسان سے ، بے جان مٹی میں تبدیل ہونے سے بچاتی ہے ۔ مجھے وہ راستہ سمجھ میں آگیا ہے ۔جانتی ہیں وہ راستہ کیا ہے ؟” بختاور پر جوش ہو کر اپنی جگہ سے اٹھی اور چند قدم چل کر گم صم بیٹھی عشنا کے پاس آکر رک گئی۔
”میڈم صاحبہ ! میں اپنے شوہر کے پاس واپس جا رہی ہوں!”
عشنا نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔
” اس کی دوسری بیوی دو بچے چھوڑ کر مر گئی ہے ۔ اسے اب میری ضرورت ہے اور اب کی بار مجھے یقین ہے کہ اس کی ضرورت ، کسی کی طاقت بن جائے گی ۔ آپ بھی تو کسی کی ضرورت ہیں، مگر آج تک اپنی طاقت سے انجان رہی ہیں۔ میں آپ سے ملنے ضرور آیا کروں گی ۔ اللہ نگہبان…!”
بختاور نے مضبوط لہجے میں کہا اور تیزی سے مڑی اور کچھ فاصلے پر درخت کے پیچھے حیرت زدہ کھڑے خاور رضا کے پاس سے گزر تے ہوئے ایک لمحے کے لیے رکی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی ۔ وہ جو اسے عام سا سمجھ کر تسخیر کرنے آتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں موجود سچ کی تاب نہ لا کر نظریں چراتا، فوراً پیچھے ہٹا تھا۔ وہ اپنی دیو قامت انا اور زعم کا مارا وہ مرد تھا جو عورت کے ”ہونے” کے ہر سچ سے آنکھیں چرا کر زندگی گزار رہا تھا۔ وہ کیسے آج اتنے بڑے سچ کا سامنا کر سکتا تھا۔ آج پھر وہ ایک معمولی سی عورت سے مات کھا کر پلٹا تھا۔
عشنا نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور ہوا میں پھیلی کسی کے پسندیدہ پرفیوم کی مخصو ص خوشبو کو گہری سانس لے کر اپنے اندر اتارا اور گردن گھما کر اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔ ایک تلخ مسکراہٹ نے اس کی ہونٹوں کو چھوا تھا ۔ وہ خاور رضا کے دل کے چور کو تو اوّل روز سے جانتی تھی، مگر آج بختاور نے اسے جس سچ سے روشناس کروایا تھا وہ اس کے وجود کی وہ بہار تھا، جس کا انتظار اسے کب سے تھا ۔ وہ اپنی بند گلی کا راستہ جان گئی تھی۔ اس نے سارے منظر کو دھندلاتے ہوئے دیکھا۔ آنکھوں میں پھیلی نمی بہت تیزی سے آنسوؤں کی برسات میں ڈھل گئی۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سرپرست — فوزیہ احسان رانا

Read Next

بارِ گراں — افشاں علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!