”اچھا اب ذرا تصور کریں کہ آپ ایک ڈوبتی کشتی میں سوار ہیں جس کے ارد گرد بہت سی شارک مچھلیاں ہیں۔ ان سے بچنے کی کیا تدبیر کریں گے آپ؟”
”اوہ اب یہ تھوڑا مشکل سوال ہے۔” اس نے پر سوچ انداز میں ہاتھ ملے۔ اس کی بات پر تمام لڑکیاں پر جوش نظر آنے لگیں۔ورنہ چند لمحے پہلے انہیں سزا کے سارے منصوبے بے فائدہ لگ رہے تھے۔
”میں تصور کروں کہ ایک ڈوبتی کشتی کے گرد شارک۔” وہ زیر لب سوال دہرا رہا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں خیال کوندا۔
”تصور… ہاں با لکل ٹھیک۔” وہ جوش سے بڑبڑایا۔
”یہ ایک تصور کردہ صورت حال ہے۔ سو شارک سے بچنے کی بہترین تدبیر یہی ہے کہ اپنے تصور کی دنیا سے باہر آیا جائے۔” اس کے جواب پر تمام لڑکیوں نے مایوسی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
”واہ زبردست یار۔ مان گئے تیری ذہانت کو۔” پیٹر نے ان تمام کی مایوس شکلیں دیکھ کر اسے داد دی۔
”اب ایک سوال میں پوچھوں؟ آپ سب تو ناکام ہو چکی ہیں اسے ہرانے میں۔” ڈینیل تمام لڑکیوں سے مخاطب ہوا۔
”تم آستین کے سانپ… دوست کہلانے کے لائق نہیں ہو۔” جبرائیل کو اس کی طوطا چشمی پر حیرت ہو رہی تھی۔
”ہاں تو میں مرم کا بھی تو دوست ہوں۔” وہ بے نیازی سے بولا۔
”تجھ جیسے دوست ہوں نا، تو سسرالیوں کی بندے کو ضرورت نہیں پڑتی۔” اس نے دھیمی آواز میں دانت پیستے ہوئے کہا۔
”ہاں ضرور پوچھیے آپ۔” ڈینیل کے کچھ بھی بولنے سے پہلے ایک لڑکی نے اسے اجازت دی۔
”یہ بتاؤ کہ اگر ایک دیوار کو آٹھ آدمی دس گھنٹے میں بناتے ہیں تو اسی دیوار کو چار آدمی کتنے گھنٹے میں بنا لیں گے؟”
”بڑا ہی مشکل سوال تھا یہ تو۔” اس نے ڈینیل پر طنز کیا۔
”اس کا جواب ہے بیس گھنٹے میں۔”
”جی نہیں غلط ۔ اس کا جواب ہے دیوار پہلے سے ہی بنی ہوئی ہے تو دوبارہ بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ لا بھئی ایک اور بسکٹ دو۔” اس نے مزے سے جواب بتایا تو سب ہنس پڑے۔
”بسکٹ نہیں اب چاکلیٹ کی باری ہے۔” تمام لڑکیاں دوبارہ پر جوش دکھائی دے رہی تھیں۔ اس نے ایک تیز نگاہ مسکراتے ڈینیل پر ڈالی اور انڈے کی شکل کی چاکلیٹ اٹھا کر ایک بائٹ لی۔ چاکلیٹ اور کچی پیاز کا ملا جلا ذائقہ اس کے منہ میں گھلتا چلا گیا۔
”کیسی ہے؟” ڈینیل نے شرارت سے پوچھا۔
”بہت مزے کی۔” اس نے اعتماد سے جواب دیا جس پر سب لڑکیاں پھر سے مایوس ہوگئیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”قسمت بھی کیاکیا کمال کرتی ہے۔ جب یہاں سے گیا تھا تو پیدل تھا۔جیب میں چند سو روپے تھے اور اب آیا ہوں تو اس شان دار سی گاڑی میں۔ بے انتہا دولت اور شہرت سمیٹ کر اور بہت ہی عجیب ہے یہ جگہ بھی اور یہاں کے رواج بھی۔” نیلم روڈ کے دائیں جانب بہتے دریا کا شور تھا۔ پہاڑوں کے پیچھے چھپے سورج کی چوری چوری جھانکتی کرنیں اور شفاف پانی کے اس شور سے اس کے ذہن کی اسکرین پر کچھ پرانے مناظر کے عکس بن بن کر مٹ رہے تھے۔ کبھی رتی گلی جھیل اور اس کے پس منظر میں بادلوں سے اٹے بلند و بالا پہاڑی سلسلے، کیل کے شاداب میدان اور آسمان پر سجے ستاروں کی کہکشاں، چٹا کتھا جھیل کا ٹھہرا ہوا پرسکون پانی جو دیو قامت پہاڑوں کو چیرتا ہوا اپنا راستہ بناتا تھا اور دل کش پھولوں سے سجی کیرن کی راہ گزر… اور وہ تمام جگہیں بھی جہاں وہ سیاحوں کو کبھی لے کر گیا تھا ایک گائیڈ کی حیثیت سے۔ وہ دنیا کے بہت سے ممالک میں جا چکا تھا، مگر جو انوکھا احساس یہاں آ کر ہو رہا تھا وہ کہیں اور نہیں ہوا تھا۔ اپنائیت کا احساس، ملکیت کا احساس، اپنی زمین، اپنی فضا…
”یہاں سے پیدل چلیں؟” مرم بہت دیر سے وہاں کے قدرتی مناظر میں کھوئی ہوئی تھی۔ ایک بار بھی اس نے جبرائیل کو مخاطب نہیں کیا تھا۔ شاید وہ اس کی دلی کیفیت کو سمجھ رہی تھی، مگر لکڑی کے پل کو دیکھ کر بے اختیار اس کا دل چاہا کہ وہ پل کے نیچے بہتے دریائے نیلم اور اس کے کنارے بنے خوبصورت گھروں کو جی بھر کے دیکھے۔
”لوگ صحیح کہتے ہیں کہ یہ جگہ جنت ہے۔ پاکستان کو بھی میں مور پنکھ کا دیس ہی نام دوں گی کہ مجھے یہاں کے ہر منظر میں وہی سبز اور نیلا رنگ جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں کا مکمل حسن انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ تم نے لوگوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لینے کی خاصیت اپنے وطن ہی سے لی ہے۔” اس کا ہاتھ تھام کر چلتی ہوئی وہ ارد گرد وادیوں کو دیکھ کر کہہ رہی تھی۔ اس بات پر جبرائیل نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا جس لڑکی کی زبان اپنے ملک کے حسن کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہتی تھی آج وہ کتنے کھلے دل اور جوش سے اس کے وطن کی تعریف و توصیف میں مگن تھی۔ اس نے مرم سے ہی سیکھا تھا کہ وطن سے محبت کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس کے عشق میں کس طرح گرفتار ہوا جاتا ہے۔ کیسے اپنے وطن کی ایک ایک چیز سے محبت جتائی جاتی ہے۔ کیسے ملک کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر مقدم جانا جاتا ہے۔کیسے وطن کی اچھی یا بری ہر چیز کو ڈیفینڈ کیا جاتا ہے۔اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب اپنے شوز میں دنیا کو پاکستان کی سیر کرائے گا۔ یہاں کے رسم و رواج اور دل چسپ میلوں کو اپنے انداز میں فلم بند کرے گا تاکہ کچھ تو قرض ادا ہو اس دھرتی کا۔وہ ہمیشہ ہی بہت متاثر ہوتا تھا اس کی وطن پرستی سے، مگر آج اسے یہ سب سن کر اور بھی اچھا لگ رہا تھا۔ یک دم اسے ایک شرارت سوجھی۔
”ہاں اگر جارج برنارڈ شا کبھی کشمیر آ جاتا، تو گارنش آئرلینڈ کے بجائے اسے جنت کا لقب دیتا۔” وہ نہایت سنجیدہ لہجے میں بولا۔ مرم نے کچھ لمحوں کے لیے اسے گھورا پھر سر جھٹک کر سامنے دیکھتے ہوئے بولی۔
”تمہارے اندازے کے عین برعکس میں تمہاری بات کا برا نہیں مانوں گی کیوں کہ پہلی مرتبہ تم نے اپنے دیس کے لیے کچھ اچھا کہا ہے۔” وہ شان بے نیازی سے بولی۔
”کیسا لگ رہا ہے یہاں آ کر؟”
”بہت اچھا۔ جانتے ہو کیوں؟ کیوں کہ مجھے اس پاک سرزمین سے محبت ہے جس نے تمہیں بنایا۔ میں اسی لیے یہاں آنا چاہتی تھی۔ تمہیں تمہارے ”اصل” کے پاس واپس لانا چاہتی تھی کیوں کہ ”اصل” کے بغیر رہنا تو ممکن ہے، مگر ”جینا” ممکن نہیں۔ ”
”میرا اصل نقل سب کچھ اب تم ہو۔ تمہارے بغیر جینا ممکن نہیں ہے۔” وہ اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا۔
”یعنی تم اپنی کتاب مجھے ڈیڈیکیٹ کرنے والے ہو؟” اُس کے انداز میں شرارت کے ساتھ ساتھ جوش نمایاں تھا۔
”کون سی کتاب؟ ” ابرو اچکا کر مشکوک انداز میں پوچھا گیا۔
”اپنی زندگی کی کتاب۔ اس میں تمام حالات و واقعات، اپنی جدو جہد، کامیابیاں، ناکامیاں، تمہاری زندگی میں آنے والے مثبت اور منفی ہر طرح کے کردار سب بیان کرنا اور پھر اپنی کہانی کے آخر میں کچھ نصیحتیں بھی کرنا۔” وہ ”اماں بی” کے سے انداز میں اسے سب سمجھا رہی تھی۔
”جیسا کہ تمہارے کردار سے یہ سبق حاصل ہو گا کہ ہر طرح کے حالات میں انسان کو مثبت رویہ اپنانا چاہیے اور ڈٹ کر ہر مشکل کا سامنا کرنا چاہیے۔” وہ بڑے مزے سے سب بتا رہی تھی جیسے کوئی چھوٹا بچہ کہانی سے حاصل ہونے والا سبق سنا رہا ہو۔
”اور جن کو ہم پرفیکٹ سمجھتے ہیں وہ اکثر حقیقت میں ادھورے ہوتے ہیں اور میرا کردار یہ بتاتا ہے کہ عزم اور ہمت سے بڑے سے بڑا پہاڑ سر کیا جا سکتا ہے جیسے میں نے تمہیں اپنی محبت اور سچی لگن سے جیت لیا اور یہ بھی کہ اپنا وطن ہی بس سب سے حسین ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ کوئی دوسری جگہ کر ہی نہیں سکتی۔” وہ انگلیوں پر ایک ایک بات گن رہی تھی۔
”بس؟ باقی کسی کردار سے کچھ حاصل نہیں ہوتا؟” وہ اس کی باتوں پر ہنستے ہوئے شرارت سے پوچھ رہا تھا۔
”اب کیا سب ہم کتاب میں ہی بتا دیں گے؟ کچھ ہوم ورک قارئین کے لیے بھی چھوڑ دو نا۔” اس نے مدبرانہ انداز میں کہا۔
”اوہ ہاں، یہ بھی ٹھیک ہے۔” سر ہلاتے ہوئے اس نے فوراً تسلیم کیا۔
اپنی باتوں میں مگن وہ دونوں چلتے چلتے دریا کنارے آبادی کے نزدیک پہنچ چکے تھے۔ تیرہ سال میں وہاں بہت کچھ بدل چکا تھا، مگر دریا کنارے وہ بڑا سا پتھر اب بھی موجود تھا جس پر کبھی بیٹھ کر وہ بہتے پانی سے اپنے دل کی باتیں کیا کرتا تھا۔ اسی پتھر کی سیدھ میں ان کا گھر ہوا کرتا تھا۔ اس نے مڑ کر بائیں جانب دیکھا۔ ایک جدید طرز کے مکان پر ”ولی ابراہیم خان” کی تختی نصب تھی۔
٭…٭…٭
بانکی ٹوٹی چارپائی موت سے پہلے اس کی آخری پناہ گاہ تھی، ان گنت پچھتاوے اس کا کل اثاثہ اور سود و زیاں کے حساب میں مکمل گھاٹا اس کی کل کمائی۔ کئی مکھیاں اس کے جھریوں زدہ، لاغر اور میلے وجود کے گرد منڈلا رہی تھیں اور کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے جو چند سال قبل تک غلاظت اور بدصورتی کو اپنے نزدیک بھٹکنے نہیں دیتی تھی۔ اندر کو دھنسی ہوئی زرد آنکھوں سے وہ اپنے سامنے چلتے پھرتے اپنے بیٹوں، بہوؤں اور ان کی اولادوں کو دیکھ رہی تھی اور ذہن ایک مرتبہ پھر جوڑ توڑ میں لگا ہوا تھا۔
”یہ ہے تمہارا وہ گھر جسے کبھی تم اپنی راجدھانی کا حصہ سمجھتی تھی۔ اپنی جنت اور یہ وہ اولاد ہے جس پر کبھی غرور تھا تمہیں۔ آج وہی اولاد تمہیں ناکارہ اور غیر ضروری چیز سمجھ کر ایک کونے میں ڈال چکی ہے۔ دیکھو ان سب کے حسین چہروں کو…کتنے مکمل اور بے عیب ہیں سب، مگر ان کا باطن کتنا مکروہ اور بد صورت ہے جنہیں اپنی ماں سے بات کرنا وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ سب کی اصلیت کھل کر سامنے آ چکی ہے، مگر شاید یہی تو مکافات عمل ہے۔ تم نے بھی تو ”اس” سے محبت کرنے کو وقت کا زیاں ہی سمجھا تھا۔
”کیسے جی پاؤں گا میں اس احساس کے ساتھ کہ میری ماں کو مجھ سے شدید نفرت ہے؟ آپ نے کبھی کوئی حق ادا نہیں کیا میرا۔ بہت سے حساب نکلتے ہیں میری طرف آپ کے۔”ایک بار پھر اس کے ذہن میں اس کے کہے آخری جملے گونجنے لگے جنہوں نے کئی سالوں سے اسے بے چین کیا ہوا تھا۔اس کا ٹوٹا بکھرا لہجہ، برستی آنکھیں اور شکستہ قدم سب کچھ یاد تھا اسے۔
”سانول۔” اس کے لبوں میں بے نام سی جنبش ہوئی۔
”نہیں نہیں اس کا نام سانول تو نہیں تھا، وہ تو جبرائیل تھا۔جبرائیل۔ معصوم فرشتہ، میرا فرشتہ ان جیسا نہیں تھا وہ۔ بہت حساس اور ذمے دار تھا۔ اپنے باپ کی طرح۔ کاش… کاش اس وقت ولی کو تھپڑ مار کر اسے چپ کرا دیتی میں۔کاش اسے کہیں نہ جانے دیتی۔اس ایک لمحے کی چپ نے ہمیشہ کے لیے قفل لگا دیے میری زبان پر۔ناجانے کہاں ہو گا وہ؟ کس دھرتی، کس نگر میں؟ کہاں ڈھونڈوں اسے میں؟ کیسے معافی مانگوں اس سے؟ کون دلائے گا مجھے اس سے معافی؟”
”ارے دیکھ سلیم کون ہے دروازے پر۔ کب سے بج رہا ہے۔ کسی کو کھولنے کی توفیق نہیں ہوئی۔” بہو کی چنگھاڑتی آواز اسے خیالوں کی دنیا سے واپس کھینچ لائی۔
”اماں کوئی آدمی آیا ہے ایک گوری میم کے ساتھ، اتی بڑی گاڑی میں۔” دروازہ کھولنے کے بعد سلیم دوڑ کر برآمدے میں آیا اور اپنے بازوؤں کو پھیلا کر ”بڑی گاڑی” کا حدود اربعہ بھی بتایا۔
”کون ہے؟ کسے اندر گھسا لیا؟ سلیم کب عقل آئے گی تجھے ؟” شور سن کر ولی اپنے کمرے سے باہر نکلا۔
آنے والا تب تک اندر آچکا تھا۔ تب ہی ولی کی نظر نووارد پر پڑی اور وہ چونک کر اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ نگار بھی اپنے نحیف وجود کو سنبھالے چارپائی سے اٹھ چکی تھی۔
”کون؟ کون ہو تم؟ میں پہچانا نہیں۔” ولی کے لہجے میں تشویش تھی۔یہ وہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اتنے شان دار اور قیمتی کپڑوں میں سانول؟ کیا یہ ممکن تھا؟
”سا…سانول؟ یہ تم ہو؟” بے یقینی سے پوچھا گیا۔
”سانول نہیں جبرائیل ابراہیم خان بلکہ دنیا مجھے جیف ابراہیم کے نام سے بھی جانتی ہے۔” اس نے سپاٹ لہجے میں تصحیح کی۔ گھر کے تمام افراد اب وہاں جمع ہو چکے تھے اور مرعوب نظروں سے شان دار سے ”سانول” اور اس کے ساتھ کھڑی طرح دار لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو چاروں جانب دل چسپ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ان دونوں کا قیمتی لباس اور باہر کھڑی لاکھوں مالیت کی گاڑی ان کی امارت کا پتا دے رہی تھی۔ کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ گھر بدر کیا جانے والا ”سانولا” ایک دن یوں اچانک لوٹے گا وہ بھی اتنی شان سے۔
”جبرائیل۔میرے بیٹے۔” نگار لڑکھڑاتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کا چہرہ تھامنا چاہا مگر…
”میں یہاں تجدید تعلقات کے لیے نہیں آیا۔” اس کے لہجے میں گریز اور تکلف نمایاں تھا۔
”بس بابا کا گھر دیکھا، تو بے اختیار ادھر آ گیا ان کی خوش بو کے تعاقب میں، مگر اب یہ یقینا بابا کا گھر نہیں رہا بلکہ ولی ابراہیم خان کا گھر ہے جس میں میرے لیے جگہ نہیں تھی، تو اب میں اس گھر میں جگہ پانا نہیں چاہتا۔” بے نیازی، لاتعلقی کا تاثر دیتی نگاہوں کو کسی ایک پر مرکوز کیے بغیر وہ متوازن لہجے میں بول رہا تھا۔
”میں بس آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں مجھ سے نفرت کرنے کے لیے۔ آپ سب کی نفرت نے میری زندگی سنوار دی۔ اگر آپ کی نفرت میرے ساتھ نہ ہوتی تو آج میں اس مقام پر نہ ہوتا۔ نہ ہی شہرت میرا نصیب بنتی نہ ہی دولت۔ اسی نفرت کے باعث مجھے مائیکل جیسے ہم درد کی سرپرستی ملی، پیٹر اور ڈینیل کی پرخلوص دوستی اور مرم جبرائیل کی سچی محبت ملی۔ میں چاہوں بھی تو آپ لوگوں کا یہ احسان زندگی بھر نہیں اتار سکتا۔” سب سامعین کو جیسے سانپ سونگھا ہوا تھا۔ بات مکمل کر کے اس نے گہری سانس لی اور اپنے برابر کھڑی مرم کو مخاطب کیا۔
”چلیں؟ اب آگے بڑھتے ہیں؟” آنکھوں میں اب یقین اور اعتبار کے دیے روشن تھے۔ مرم نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔ وہ دونوں چوکھٹ کی طرف پلٹنے لگے۔
”جبرائیل بات سنو مجھے معاف…” نگار تڑپ کر بولی، مگر بات مکمل نہ کر سکی۔ وہ چلتے چلتے پلٹا۔
”میں نے معاف کیا آپ سب کو مرم سے اپنی محبت کے صدقے، مگر دل میں جگہ دینا اب ممکن نہیں رہا۔” ان سب کو مرعوبیت میں گھرا چھوڑ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
مرم کا ہاتھ تھامے دہلیز پار کرتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب وہ اپنی تقدیر کے بدلنے کی دعا روز مانگا کرتا تھا، مگر آج وہ یہ جان چکا تھا کہ اگر اس کی تقدیر میں کچھ اور لکھ دیا جاتا، تو مرم اسے نہ ملتی۔انسان کو قسمت کے بدلنے کی خواہش کرنے سے پہلے یہ لازمی سوچنا چاہیے کہ بری چیزوں کے ساتھ ساتھ اچھی چیزیں بھی چلی جائیں گی اور کچھ چیزیں اتنی اچھی لگتی ہیں انسان کو کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ خصوصاً کسی انسان کا۔ سو جو جہاں، جیسا ہے ویسا ہی اسے قبول کرنا چاہیے یہ سوچ کر کہ اللہ کا فیصلہ ہی بہترین اور بے عیب ہوتا ہے۔
”مسٹر ٹریولر! کیا آپ جانتے ہیں کہ ”مس زندگی” آپ سے کتنی محبت کرتی ہے؟” وہ اب اکثر اس سے یہ سوال کرنے لگی تھی۔
”ہاں، مس زندگی کی سبز نشیلی آنکھیں اور کھنکتا لہجہ یہ بات وقتاً فوقتاً بتاتا رہتا ہے مجھے۔” اس کی طرف جھکتے ہوئے وہ معنی خیزی سے بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
” من و تو
بہ عنوان ‘ما’
برای ھمیشہ زیستن”
مور پنکھ کے دیس کی حسین وادی میں مرم کے سنگ چلتا ہوا وہ ہولے سے گنگنا رہا تھا اس یقین کے ساتھ کہ اب تا ابد انہوں نے ”ہم” بن کر زندگی کا سفر طے کرنا ہے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});