مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

”نہیں موری نے سختی سے باہر سے کچھ کھانے کو منع کیا ہے۔” بالن آسلو کی سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد اس نے مرم سے کھانے کا پوچھا، تو اس نے صاف انکار کر دیا۔
”کیوں کیا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں؟”
”جی نہیں۔ بس وہ تمہارے لیے ناجانے کون کون سی اسپیشل ڈشز بنا رہی ہیں۔ کہہ رہی تھیں کھانا گھر پر کھانا۔”
”آج پھر؟ یار روز روز تم لوگوں کی طرف کھانا پینا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ میری وجہ سے وہ روز اتنا اہتمام کر لیتی ہیں۔ تم منع کر دیتی نا۔” اسے ان کا روز روز اتنی محنت کرنا مناسب نہیں لگتا تھا۔ یہ ضرور تھا کہ وہ دل ہی دل میں موری کی اس محبت پر سرشار ہوتا تھا اور ان کا اس کی فکر کرنا بھی بہت اچھا لگتا تھا، مگر کبھی کبھی وہ نادم ہو جاتا کہ وہ اس کی خاطر اس عمر میں اتنی محنت کرتی ہیں۔
”میں کیوں منع کرتی۔ یہ تمہارا اور ان کا معاملہ ہے خود منع کرو۔” اور وہ جانتی تھی کہ اب وہ پہلے والا جبرائیل ابراہیم نہیں رہا جسے مروت اور دل رکھنے والے الفاظ سے شناسائی نہیں تھی۔” ویسے بھی تم اب تک خود کو الگ سمجھتے ہو ہم سے حالاںکہ اب وہ دونوں بھی مان چکے ہیں اور چند ہی ہفتوں میں شادی ہے ہماری۔”
”ایسی بات نہیں ہے۔ بس میں اپنی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف یا بے آرامی نہیں دینا چاہتا۔”
”کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی۔ ویسے بھی ناجانے تم نے ان پر کیا جادو کر دیا ہے۔ ہر وقت تو وہ مجھے سمجھاتی رہتی ہیں کہ شادی کے بعد تمہیں بالکل تنگ نہ کروں اور کوئی الٹی سیدھی فرمائش نہ کروں اور بھی ناجانے کیا کیا۔” اس کے شکایتی انداز کو دیکھ کر وہ بے ساختہ مسکرا دیا۔
”اُنہیں مجھ میں اپنا بیٹا نظر آتا ہے تو بس اسی لیے۔” اس کے لہجے میں بے پناہ عقیدت و احترام تھا۔
”ہاں مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ شادی سے پہلے مجھے ہوٹل میں ٹھہرنے اور تمہیں گھر شفٹ ہونے کا حکم نہ دے دیں یہ سوچ کر کہ انہیں داماد سے زیادہ بہو لانے کا ارمان ہے۔”
”تمہاری یہ بے تکی باتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں۔” وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”اچھا گھر سے یاد آیا، میں گھر خریدنے کا سوچ رہا ہوں۔ تم بتاؤ کہاں رہنا چاہو گی؟ یہیں بالن آسلو میں؟ یا ڈبلن؟” وہ بہت دنوں سے یہ بات کرنا چاہ رہا تھا۔
” نیا گھر خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو تمہارا گھر لندن میں ہے وہی ٹھیک ہے۔ ” اس نے سہولت سے انکار کیا۔
”کیا مطلب تم میرے ساتھ وہاں رہ لو گی؟ ”
”ہاں تو اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے؟” وہ اس کے رویے پر حیران تھی۔
”نہیں وہ مجھے لگا کہ تم بھی اپنی موری کی طرح اپنا دیس چھوڑنا نہیں چاہو گی، تو میں نے سوچا کہ…”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تو تم نے سوچا کہ تمہیں بھی ددا کی طرح قربانی دینی پڑے گی؟” وہ چلتے چلتے اچانک رک گئی اور کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے کڑی نظر سے گھورنے لگی۔ ” مسٹر ٹریولر! میں اگر موری کی پوتی ہوں تو اپنے ددا کی بھی پوتی ہوں۔ انہی کی طرح تمہاری محبت میں اپنا دیس، اپنے رشتے اور اپنا کام سب چیزیں چھوڑ سکتی ہوں اور چھوڑوں گی۔ میری محبت کو آیندہ انڈرایسٹیمیٹ مت کرنا۔”اس کی اونچی آواز پر آس پاس سے گزرتے لوگ انہیں تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ وہ خجل سا اِدھر اُدھر دیکھ کر مسکرا دیا۔
” گستاخی معاف مس زندگی۔ آئندہ میری توبہ ایسا کچھ نہیں سوچوں گا۔ ہم لندن میں ہی رہیں گے۔”
”شادی کے بعد رہنے کی فکر پڑ گئی۔ شادی سے پہلے کی تیاریوں کی کوئی فکر نہیں تمہیں۔” سر جھٹکتے ہوئے وہ دوبارہ چلنے لگی۔
”کون سی تیاری؟” اُس کا لہجہ حیرانی لیے ہوئے تھا۔
”شادی کی تیاری اور کون سی؟ ہمارے کپڑے کیسے ہوں گے؟ کون کون سی رسمیں ہوں گی اور یہ سب کچھ۔”
”ڈریس کا کیا ہے وہ تو ابھی اسی وقت ہم کسی بھی بوتیک سے خرید لیتے ہیں اور رسمیں کون سی؟ میں سادگی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے تمام بکھیڑا ہی ختم کر دیا۔
”تم تو رہنے ہی دو۔ یہ دیکھو یہ کیسا برائیڈل ڈریس ہے؟” اپنے فون پر اس نے اسے ایک تصویر دکھائی۔ آف وائٹ نیٹ کے گان پر دھاگے کی کڑھائی کے ساتھ ساتھ نگوں کا نفیس کام بنا ہوا تھا اور ساتھ میںگہرے سبز رنگ کا لہنگا تھا۔
”آئرلینڈ میں شادی پر اس طرح کا ڈریس پہنا جاتا ہے؟ اتنا کام والا لہنگا؟”وہ حیرت کی زیاتی سے چلا اٹھا۔
”آئرلینڈ میں نہیں، مگر پاکستان میں تو شادی پر ایسا ہی ڈریس ہوتا ہے دلہن کا۔” فون واپس رکھ کر وہ بڑے اطمینان سے بولی۔
”ہاں شاید، مگر تمہیں کیسے پتا؟”وہ پھر حیران ہوا۔
”گوگل پر سرچ کیا تھا وہاں کی شادی اور رسموں کے متعلق۔ سچ مجھے تو بڑا مزا آیا سب پڑھ کر۔ اتنی ڈھیر ساری رسموں میں کتنا مزا آتا ہو گا نا۔ مجھے بس یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کون سی رسمیں ادا کرنی ہیں اور کون سی نہیں۔” وہ واقعی فکرمند تھی۔
”مگر اس سب کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وقت اور پیسے کا فضول ضیاع۔”
”ضرورت ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ کچھ سالوں بعد تمہارے دل میں یہ حسرت جاگے کہ کاش تمہاری شادی بھی پاکستانی رسم و رواج کے مطابق ہوتی اور پھر تم اسی وجہ سے دوسری شادی کرنے کا سوچو۔” وہ شرارت سے کہہ رہی تھی۔ جبرائیل کو اس کی بات اچھی نہیں لگی۔
”فضول باتیں مت کرو مرم۔ میں ایسا کیوں کروں گا۔” اس نے مرم کو گھورا۔
”مذاق کر رہی تھی۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ ہماری شادی پاکستانی، آئرش اور ایرانی رسومات کے سنگم کا دل چسپ فنکشن ہو۔” اس نے بلا جھجک اپنی خواہش ظاہر کی۔
”ٹھیک ہے جو تمہاری خوشی ہو، مگر ایک بات کہ سارا خرچہ میں اٹھاؤں گا۔ پلیز تم ددا اور موری کو کسی بات کے لیے تنگ نہ کرنا۔ میں نہیں چاہتا کہ مالی لحاظ سے ان پر کوئی دباؤ پڑے۔ مجھ پر ان کا یہی بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے تمہاری پرورش کر دی میرے لیے اور ایک دو ہفتے تک پیٹر اور ڈینیل بھی پہنچ رہے ہیں۔ سو سارے انتظامات ان کے حوالے کریں گے۔” وہ تمام پلان اسے بتا رہا تھا۔
”اور ہنی مون پر ہم کہاں جا رہے ہیں؟” وہ آج ہی کی تاریخ میں تمام معاملات طے کرنا چاہتی تھی۔
”جہاں تم کہو۔” اس مرتبہ وہ کھل کر مسکرایا۔
”سوچ لو اتنی کھلی آفر تمہیں مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔”
”پروا نہیں۔ اتنے سالوں بعد کسی کی فرمائشیں پوری کرنا بہت اچھا لگ رہا ہے مجھے۔ تم بتاؤ کہاں جانا چاہتی ہو؟” وہ ہنوز مسکرا رہا تھا۔
”پاکستان، نیلم ویلی۔” اس نے فوراً اپنی خواہش بتائی۔ جبرائیل نے مسکراتے لبوں کو یک لخت بھینچا۔
”کیا…؟ کیا کہا تم نے؟” اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے۔
”میں ہنی مون کے لیے نیلم ویلی جانا چاہتی ہوں۔” اس کی بات پر وہ رک کر اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگا۔
”کیوں؟”
”کیوں کا کیا مطلب ہے؟ میں بس تمہارا دیس دیکھنا چاہتی ہوں۔ تم میرے دیس میں آئے اب میں تمہارے دیس جانا چاہتی ہوں۔”
”ایسا ممکن نہیں۔” لہجہ دو ٹوک اور بے لچک تھا۔
”کیوں ممکن نہیں؟ وہ تمہارا ملک ہے۔ تمہاری زمین۔ تم دنیا میں کہیں بھی چلے جاؤ، جو کچھ بھی بن جاؤ مگر تمہاری پہچان تمہارا ملک ہی رہے گا۔ کسی دوسرے ملک کی نیشنیلٹی حاصل ہونے سے تم اس ملک کے باشندے نہیں بن جاؤ گے۔ پاکستانی ہی رہو گے۔” وہ بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔
”ایک مشہور آدمی نے کہا ہے کہ سیاحت انسان کو ہزاروں اجنبی جگہوں پر گھر دیتی ہے اور پھر ایک دن اسے اپنی ہی سرزمین میں اجنبی بنا دیتی ہے۔” وہ تلخی سے بولتا ہوا مرم کو بہت کچھ جتا گیا تھا۔
”وہ مشہور آدمی یقینا تم ہی ہو گے۔” اس نے جل کر کہا۔
”میں نے نہیں ابن بطوطہ نے کہا ہے۔” کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
”پلیز جبرائیل، تمہارا دل نہیں چاہتا اپنے ملک واپس جانے کا؟” وہ اس کے پیچھے لپکی۔
”میں نے تمہارے دیس کی ویڈیوز اور تصویریں دیکھی تھیں۔ صرف تصویریں دیکھ کر ہی میں وہاں کی خوب صورتی سے متاثر ہو گئی ہوں۔ وہ جگہ در حقیقت جنت ہے۔تم جنت کو چھوڑ کر دنیا میں کیوں بھٹک رہے ہو؟” اس کے لب و لہجہ میں کچھ ایسا ضرور تھا جو وہ ایک مرتبہ پھر بے اختیار رکا اور چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ ”تمہارے ملک نے تمہیں بہت کچھ دیا۔ تمہیں گھر دیا، اپنا اناج کھلایا، پڑھایا، لکھایا، چاہنے والا باپ دیا، مہربان استاد دیا، کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھنے کا پہلا موقع وہیں ملا تمہیں مائیکل کی صورت میں، اپنی پہلی کامیابی وہیں ملی ہو گی تمہیں مگر تم نے کیا دیا اس ملک کو؟ اپنی نیشنیلٹی تک تو بدل لی تم نے۔ بڑے فخر سے خود کو برٹش کہتے ہو تم۔ یاد ہے جب لیپریکان ہنٹ پر میں نے تم سے تمہارے ملک کا نام پوچھا، تو تم نے اپنے آپ کو برٹش نیشنیلٹی ہولڈر بتایا تھا۔ یعنی تمہیں شرم آتی ہے خود کو پاکستانی کہتے ہوئے؟ کیوں؟ اتنی نفرت کیوں اپنے ہی ملک سے؟ ٹھیک ہے جنہوں نے تمہیں دکھ دیا ان سے کرو نفرت، مگر اپنی سرزمین سے نفرت کیسے کر سکتے ہو تم؟ ” آخر میں اس کا لہجہ جذبات سے بوجھل ہو گیا تھا۔ جبرائیل کے پاس کہنے کو اب کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ وہ ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
آئینے پر بکھری زرد افشاں
اس میں جھلملاتا ہوا ان کا عکس
مخمل پر سجے سچے موتی کا سا عکس
ساون کی پہلی پھوار جیسا اجلا، شفاف عکس
سیپ کے من میں چھپے انمول گوہر کا سا قیمتی عکس
چہروں پر الوہی مسکراہٹ اور پا لینے کی سرشاری
جیسے بہار میں کھلتے پھول گلابی
خاموش لبوں پر لکھی پیار کی ان گنت باتیں
جیسے لاتعداد ستاروں سے سجی کہکشاں
ایک مکمل منظر
مکمل ساعت
تکمیل کی ساعت
وہ ایک ٹک اس کے سجے سنورے عکس کو دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں کی اٹھتی گرتی چلمن اس کی گھبراہٹ اور خوشی کا راز عیاں کر رہی تھی۔ بھورے سنہری بالوں میں سجے موتیا کے پھول ستاروں کے مانند جڑے تھے۔
”بیٹے باقی بعد میں جی بھر کر دیکھ لینا ایک دوسرے کو۔ اب تو ساری زندگی یہی کرنا ہے۔” ڈینیل کا معنی خیز لہجہ انہیں پرستان سے واپس کھینچ لایا۔ وہ دونوں شاید بھول چکے تھے کہ ان کے سر پر موجود سرخ جالی کا کپڑا آس پاس بیٹھے لوگوں کو ان کی بے اختیاری سے خوب لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔ دونوں ہی جھینپ کر سر جھکا گئے۔
”نکاح کے بعد پہلا حق شوہر کا ہی ہوتا ہے کہ وہ جتنا مرضی اپنی بیوی کو دیکھے۔ آپ کیوں روک ٹوک کر رہے ہیں؟” مرم کی کسی دور پار کی کزن نے اس پر لطیف سا طنز کیا، تو ڈینیل اسے گھور کر رہ گیا۔
اس رسم کے بعد چند معمر خواتین نے ان کے سروں پر موجود جلی دار کپڑے پر گڑ اور نمک کی ڈلی، خشک میوہ جات، مٹر کے دانے اور انگور وغیرہ رکھے تاکہ ان کی شادی شدہ زندگی صحت اور مالی لحاظ سے خوش و خرم اور شادمان رہے۔
”ٹن۔ٹن۔ٹن۔” چاندی کی ایک چھوٹی سی گھنٹی کو کرسٹی نے ان کے نزدیک لا کر بجایا جس کا مقصد بری روحوں کو ان کی زندگی سے دور ہٹانا تھا۔
”آئرش کلچر کے مطابق اب اس گھنٹی کو تم نے اپنے گھر میں سجا کر رکھنا ہے اور جب بھی کوئی جھگڑا ہو تم دونوں کے بیچ تو تم میں سے کوئی ایک اس گھنٹی کو بجا کر صلح کا اعلان کر سکتا ہے اور دوسرے فریق کو بھی لازمی سب بھول کر صلح کرنی ہو گی۔” وہ تمام تفصیل جیف کو سمجھا رہی تھی۔
”یہ گھنٹی تو ہر وقت ہمارا یار ہی بجائے گا کیوں کہ مس آئرلینڈ تو ہر وقت لڑنے مرنے پر تیار رہتی ہے۔” ڈینیل کی اس بکواس پر مرم دل میں اسے کوسنے لگی۔
”اب باری ہے آپ کی ذہانت کا امتحان لینے کی۔” کچھ دیر بعد مرم کی تین چار سہیلیاں ان دونوں کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولیں۔
”کیسا امتحان؟”
”ہم آپ سے چند پہیلیاں پوچھیں گی جن کا جواب منطقی بھی ہو اور دلچسپ بھی۔”
”یہ کیسی رسم ہے؟” وہ مسکراتے ہوئے حیرت سے پوچھ رہا تھا۔
”اب اتنی آسانی سے تو ہم آپ کو اپنی سہیلی نہیں لے جانے دیں گی نا۔ تھوڑی محنت تو کرنی ہی ہو گی آپ کو۔” ایک سہیلی نے شریر لہجے میں کہا۔ وہاں بیٹھے تمام لوگ ان کی طرف دل چسپ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
”مطلب میرے پاس کوئی سیکنڈ چوائس نہیں، تو پھر پوچھیے۔” اس نے فوراً ہتھیار ڈالے۔
”سب سے پہلے یہ بتائیں کہ کہاں پر اتوار ، ہفتے سے پہلے آتا ہے؟”
”ان ممالک میں جہاں اتوار کو ہفتے کا پہلا دن سمجھا جاتا ہے۔” کچھ دیر سوچ کر اس نے جواب دیا۔
”بالکل غلط جواب۔ سزا کے طور پر آپ کو یہ کھانا پڑے گا۔” ایک لڑکی نے کریم کوکیز کی ایک پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔
”سزا کیسی؟ یہ تو آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا کہ سزا بھی ہو گی غلط جواب کی صورت میں۔” وہ کوکیز کو دیکھتے ہوئے بولا۔
”یار کھا لے۔ کریم کوکیز ہی تو ہیں۔ اتنی بے ضرر سی سزا ہے۔” ڈینیل نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا، تو وہ اس کی دوستی پر افسوس سے سر ہلا کر رہ گیا۔ پلیٹ سے ایک کوکی اٹھا کر اس نے منہ میں رکھ لیا، مگر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو گئے۔ تمام لڑکیاں غور سے اس کی جانب شرارت سے دیکھ رہی تھیں۔ سو وہ آدھا چبایا ہوا بسکٹ نگل سکتا تھا نہ اُگل سکتا تھا۔
”کیا ہوا اتنا سڑا ہوا منہ کیوں بنا لیا؟” پیٹر نے تشویش سے پوچھا۔
”وہ بس ہم نے اس میں کریم کے بجائے توٹھ پیسٹ ڈال دیا تھا ٹیسٹ بدلنے کی خاطر۔ آپ کو پسند نہیں آیا ہماری بیکری کا اسپیشل بسکٹ؟” ایک لڑکی کے معصومیت سے پوچھنے پر کمرے میں جان دار قہقہے گونجے۔ سب ان کی شرارت کو انجوائے کر رہے تھے۔
”ویری سیڈ یار، مگر کوئی بات نہیں۔ شادی پر سب چلتا ہے۔”پیٹر نے ہنستے ہوئے اس کی پیٹھ تھپکی۔
”اف بے وفا لڑکی۔ ابھی سے اپنے سرتاج کی اتنی فکر ہو گئی۔” اس بے تکے مذاق پر مرم اپنی سہیلیوں کو گھور رہی تھی تب ہی ایک سہیلی نے اسے شرم دلائی۔
”ویسے اس کا صحیح جواب تو بتا دیجیے۔”ڈینیل نے پہیلی پوچھنے والی لڑکی سے پوچھا۔
”اس کا صحیح جواب تھا ڈکشنری۔ اب اگلا سوال۔ وہ کیا چیز ہے جسے آپ ناشتے کے طور پر نہیں کھا سکتے؟” اس بار اس نے فوراً جواب دینے کے بجائے سوچنا مناسب سمجھا کیوں کہ دوبارہ وہ بدمزہ بسکٹ کھانے کی ہمت نہیں تھی اس میں۔
”لنچ یا ڈنر۔”
”بالکل صحیح۔بچ گئے آپ سزا سے اس بار۔” اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔
”اب یہ بتائیں کہ ایک بندہ دس دن بغیر سوئے کیسے گزار سکتا ہے؟”
”کیوںکہ وہ رات میں اپنی نیند پوری کر لیتا ہو گا۔” اس بار لہجے میں پہلے سے زیادہ اعتماد تھا۔
”بالکل ٹھیک۔ لگتا ہے کہ آپ گیم سمجھ چکے ہیں۔” لڑکی کی بات پر اس نے کندھے اچکا دیے۔
”ایسا کون سا لفظ ہے جسے ہمیشہ غلط ادا کیا جاتا ہے؟” اگلا سوال پوچھا گیا۔
”غلط لفظ کو ہی ہمیشہ ”غلط” ادا کیا جاتا ہے۔” چند لمحے سوچنے کے بعد پراعتماد سی میٹھی مسکراہٹ سمیت جواب دیا گیا۔ اس کا اعتماد لمحہ بہ لمحہ بحال ہو رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Read Next

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!