مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

”مرم مجھے تم سے امید نہیں تھی۔ کتنی تاکید کی تھی میں نے کہ گھر جانے سے پہلے انگوٹھی اتار دینا۔ دیکھا تمہارے اس اقدام سے انہیں کتنا دکھ پہنچا۔ کیا سوچتے ہوں گے وہ میرے بارے میں کہ میری وجہ سے ان کی اہمیت کم ہو گئی۔ مرم میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ میری وجہ سے کوئی تمہیں برا کہے۔”
”ایسی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے ایسا کچھ نہیں سوچا۔ نا ہی وہ ناراض ہیں ہم سے۔ ویسے بھی میرا دل ہی نہیں چاہا اسے اتارنے کو۔ عجیب لگ رہا تھا اتارنا۔ خیر چھوڑو، کل پھر وقت پر تیار رہنا وہ بھی تمہاری طرح وقت کے پابند ہیں۔”
”مجھے تو یہ بات ہی عجیب لگ رہی ہے کہ وہ میرے ”ایسکورٹ” بن کر آ رہے ہیں۔ تم منع کر دیتی میں آجاتا خود۔”
”میں کیوں منع کرتی۔ اچھا ہے نا تم راستے میں ہی انہیں امپریس کر دینا۔” اس نے اپنی طرف سے بڑے کام کا مشورہ دیا۔
”تم بھی عجیب ہو، پندرہ منٹ کے راستے میں کیسے انہیں امپریس کروں گا میں؟ مجھے کوئی کرتب ورتب نہیں آتے نا ہی چلتی گاڑی کو ایک ہاتھ سے روکنے کا فن آتا ہے اور علمی یا سیاسی بحث کے بارے میں تو سوچنا بھی مت۔”
”تم اپنے آپ کو ہمیشہ انڈر ایسٹیمیٹ ہی کرنا بس۔ تمہارے پاس یہ سب نا صحیح، مگر ایک فن ہے، بولنے کا فن۔ بس مجھے یقین ہے وہ راستے میں ہی تمہیں اوکے کر دیں گے۔ دیکھنا تم بس۔” اس کے پر یقین لہجے پر وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔
”اب ہر کوئی مرم داد تو نہیں ہوتا نا جو دنیا سے بے گانہ ہو کر مجھے سنتی ہے۔” مذاق اڑاتا لہجہ مرم کو تپا گیا۔
”بہ جائے میری قدر کرنے کے تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟ ٹھیک ہے آیندہ دیکھنا ذرا۔ اب میں فون بند کر رہی ہوں کیوں کہ تم مجھے مزید تپانے کا سوچ رہے ہو۔ سو اللہ حافظ۔” اس کی اگلی بات سنے بغیر وہ فون بند کر چکی تھی۔ اس کے تپے تپے انداز پر وہ ایک مرتبہ پھر مسکرا دیا اور کل کے متعلق سوچنے لگا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”آپ کا بہت شکریہ کہ آپ مجھے لینے آئے۔” ددا سے ایک قدم پیچھے چلتے ہوئے وہ بولا۔
”نہیں شکریہ کی کوئی بات نہیں۔ تم یہاں کے راستوں سے ناواقف ہو بلکہ میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے پاس آمد و رفت کا کوئی ذریعہ نہیں اسی لیے پیدل خوار کروا رہا ہوں تمہیں۔”
”ارے نہیں سر آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے تو اس سرسبز راستے میں پیدل چلنا اچھا لگ رہا ہے۔ آپ کا گاؤں دیکھنے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہو سکتا تھا۔” جس اچھے اور مہذب طریقے سے وہ بات کر رہا تھا وہ انداز انہیں متاثر کر رہا تھا اور ان کے ادب اور احترام میں جس طرح وہ ایک قدم پیچھے چل رہا تھا وہ بھی ددا اچھی طرح محسوس کر رہے تھے۔ اس کے یہ انداز و اطوار فیملی کے ساتھ نہ رہتے ہوئے بھی اسے کسی اچھے خاندان کا ظاہر کر رہے تھے۔
”پاکستان میں کہاں سے ہو تم؟”
”کشمیر سے۔ نیلم ویلی کے چھوٹے سے گاؤں کیرن سے تعلق ہے میرا۔” گو کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح کے سوالوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کر چکا تھا، مگر پھر بھی اتنے سالوں بعد اپنے گاؤں کے متعلق کسی کو بتانا اسے عجیب لگ رہا تھا۔ پھر انہوں نے اس کے پیشے کے متعلق مزید کچھ سوالات کیے۔
”دیکھو برخودار میں سیدھی اور صاف بات کرنے کا عادی ہوں۔ تم خود بھی سمجھتے ہو گے کہ ایک باپ کے لیے اپنی بیٹی کا ہاتھ ان جان پردیسی کے ہاتھ میں تھمانا مشکل امر ہے۔ تم مجھے کوئی ایک ایسی مضبوط وجہ بتاؤ کہ میں قائل ہو جاؤں۔”
”سر وجہ وہی ہے جو مرم کی موری کے والد کو آپ نے بتائی ہو گی۔ میرے اور آپ کے حالات کافی ملتے ہیں اس لیے مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھ پر بھروسا کر لیں گے۔ باقی یہ کہ اگر میں آپ کو اپنی بیٹی کے لیے مناسب لگوں تو اپنا عندیہ دے دیجیے گا ورنہ انکار کا حق تو آپ رکھتے ہی ہیں۔”
”اوہ تو وہ تمہیں میرے متعلق بتا چکی ہے۔” اس لڑکی کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ انہیں دل میں یہ ماننا پڑا تھا کہ مرم اور جبرائیل کے سوچنے کا انداز ایک سا تھا اور یہ بھی کہ اس نے بڑی خوبصورتی سے ”وجہ” ان تک پہنچا دی تھی روایتی الفاظ کا سہارا لیے بغیر۔ ایک بار وہ پھر اس کے انداز بیان سے متاثر ہوئے۔
”اس کی کوئی بھی بات آپ دونوں کے ذکر سے خالی نہیں ہوتی۔”
”ہاں میں جانتا ہوں۔ اس کا بس چلے تو ہر دوسرے بندے کو پہلے اپنی موری کے سنہری اقوال سنائے پھر کوئی دوسری بات۔”
”جی ہماری ٹیم کے ساتھ بھی اس نے کچھ ایسا ہی کیا تھا۔” وہ دھیرے سے ہنستے ہوئے بتا رہا تھا جیسے ماضی کی کوئی یاد تازہ ہو گئی ہو۔
”مطلب تم واقعی دل سے راضی ہو ساری زندگی کے لیے۔ ”موری اور ان کا اقوال نامہ” سننے کے لیے؟ حیرت ہے بھئی۔” وہ محظوظ انداز میں مسکرا کر کہہ رہے تھے۔
”جی سر بالکل۔ بس آپ سے ایک درخواست ہے کہ بارہ سال ”قید وطن” کی دفع مت لگائیے گا۔ میرا پیشہ اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا اور کوئی دوسرا کام مجھے کرنا نہیں آتا۔” اسے بس ایک اسی چیز کی فکر تھی کہ ملک نہ چھوڑنے کی پابندی کافی مہنگی پڑ سکتی تھی اس کے پیشے کے لیے۔
”ہاں میں جانتا ہوں وہ ایک انتہائی نامعقول شرط تھی۔” ان کے جلے بھنے انداز پر وہ بدقت اپنی مسکراہٹ چھپا سکا تھا۔
”سنو اس موری کی چیلی کو یہ بات مت بتانا ورنہ تمہاری شامت پکی۔ تم اچھے آدمی ہو، پسند آئے ہو مجھے تبھی تمہیں سمجھا رہا ہوں۔” ان کے دوستانہ انداز پر اس بار وہ کھل کر مسکرا دیا۔
”جی سر میں بالکل سمجھ گیا، آپ فکر نہ کریں۔یہ ہمارا سیکرٹ ہے۔” وہ بھی دوستانہ لہجے میں بولا۔
”اور یہ سر سر کیا لگا رکھی ہے؟ مجھے ”استادی” دکھانے سے سخت چڑ ہے۔ ددا کہہ سکتے ہو تم مجھے۔” انہوں نے ڈپٹنے والے انداز میں کہا، تو وہ اپنا سر کھجانے لگا۔
”جی بہتر ددا۔”یاہو بات بن گئی جبرائیل بیٹے۔ تو یوںہی ٹینشن لے رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھا۔
وہ دونوں اب گھر کے گیٹ کے پاس پہنچ چکے تھے جہاں ”کیک پیلس” کا بورڈ آویزاں تھا۔ یہ اینٹوں اور لکڑی سے بنا ایک خوبصورت سا کاٹیج نما گھر تھا جس کی چھت پر تنکوں کا منظم جال بچھا ہوا تھا جو اسے جدید جھونپڑی کا روپ عطا کر رہا تھا۔ اوپر والا حصہ بیکری کے لیے مخصوص تھا جب کہ بیسمنٹ کو رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
”آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے ددا۔ آج مجھے وجہ سمجھ آ رہی ہے کہ مرم فیری ٹیل کاٹجِز اتنے کیوں پسند ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ جہاں بھی جائے اسے وہاں اپنے گھر جیسا کاٹیج ہی نظر آئے جو سبزے میں گھرا ہو اسی طرح۔”
”ہاں یہ تو ٹھیک کہا تم نے۔ اپنی موری سے ماورائی کہانیاں سن سن کر وہ بڑی ہوئی ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ خیر تم ایک معقول انسان لگے ہو مجھے۔ وہ تمہارے ساتھ رہ کر سدھر جائے گی۔” وہ شگفتہ انداز میں ہنسے۔
گھر کے اندر داخل ہوتے وقت وہ سوچ رہا تھا کہ ددا کو امپریس کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے وہ یقینا کیوں؟کیسے؟ یہ بات تو وہ خود بھی سمجھ نہیں پایا تھا بس اب موری کی باری ہے۔
٭…٭…٭
”یہ آپ کے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ۔ ” موری کے ہاتھ میں ایک بیگ تھماتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔ ”ایک بیکر کے گھر میں کسی اور کا بنایا کیک لانے کی گستاخی نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ اور میٹھا سمجھ نہیں آیا، تو یہ چاکلیٹس لے لیں۔”
”شکریہ بیٹا، مگر اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔” انہوں نے مسکرا کر بیگ تھام لیا۔
”یہ تو تم نے بڑی عقل مندی کی ورنہ ہماری بیگم اپنے گھر میں کسی اور بیکری کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتیں۔” اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خوش دلی سے بولے۔
”باری صاحب کم از کم کسی آئے گئے کا ہی لحاظ کر لیا کریں۔” شکوہ کناں نظر ان پر ڈال کر وہ لاؤنج سے ملحق اوپن کچن کی جانب بڑھ گئیں اور وہ دونوں اس کے یہاں کے ٹرپ کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ بڑے نا محسوس انداز میں وہ مرم کو تلاش کر رہا تھا۔ اسے یہاں آئے آدھا گھنٹا ہونے کو تھا اور اس کا کچھ پتا نہیں تھا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ اسے ایک کمرے سے نکلتی دکھائی دی۔
”السلام و علیکم۔” نزدیک آنے پر اس نے سلام کیا۔ وہ اسی کی جانب متوجہ تھا۔
”وعلیکم السلام۔ کیسی ہو؟”
”ٹھیک۔ تم سناؤ؟ سوری مجھے آپ لوگوں کے آنے کا پتا نہیں چلا۔” وہ ان کے مقابل صوفے پر بیٹھ گئی۔
”ہاں جب ہم آئے تب تم اپنے شاہی حجرے میں موجود ناجانے کس کام میں مصروف تھی۔” ددا نے اسے چھیڑا۔
”میں تیار ہو رہی تھی ددا۔” لہجہ خفگی لیے ہوئے تھا۔
”اچھا واقعی تو تم تیار ہو، یقین نہیں آتا بھئی۔ تمہیں یقین آ رہا ہے کیا؟” وہ جبرائیل سے پوچھ رہے تھے۔ ان کی بات پر وہ بس مسکرا کر رہ گیا۔ اسے کوئی جواب نہیں سوجھا۔ آج پہلی بار اسے وہ ”گھریلو” حلیے میں دیکھ رہا تھا۔ ہمیشہ اسکرٹ پہننے والی نے آج سرخ رنگ کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ کے ساتھ کھلا سا پلازو ٹراوزر پہن رکھا تھا۔ بال بھی جوڑے کی شکل میں تھے۔ میک اپ کرنے کا تردد بھی نہیں کیا گیا تھا اور جیولری کے نام پر اس کی پہنائی ہوئی انگوٹھی اور بریسلٹ تھا۔
”میں موری کی ہیلپ کرا دوں۔” اس کی گہری نظروں سے گھبرا کر وہ اٹھی تو وہ دونوں بھی اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے۔ کچھ دیر بعد جب ددا کسی کا فون سننے اٹھے تو وہ کچن میں کام کرتی مرم کا جائزہ لینے لگا۔ تیز تیز کام نپٹاتی وہ اس مرم سے بہت مختلف لگ رہی تھی جسے وہ جانتا تھا۔ اس کی آنکھیں ایک بہت خوبصورت خواب بننے لگیں تو اس کے لب خود بہ خود مسکرا اٹھے۔
”مسٹر ٹریولر! یوں تنہا بیٹھ کر مسکرانے والے کو لوگ مشکوک نظر سے دیکھتے ہیں۔” ہوش تو اسے تب آیا جب وہ اس کے سر پر کھڑی مسکرا رہی تھی۔
”سوری میں بس کچھ سوچ رہا تھا۔ ” وہ خفت کے مارے مسکرا بھی نہ سکا۔
”کھانے میں ابھی کچھ ٹائم لگے گا۔ اتنے میں تمہیں اپنی بیکری دکھاتی ہوں۔”
”ہاں چلو۔” وہ اس کے پیچھے چل پڑا۔
”یہ وہی ڈیکوریشن ہے نا جو تم نے انگلش مارکیٹ سے لیا تھا؟”بیکری کے کاؤنٹر پر رکھے پیس کو دیکھ کر اُس نے پوچھا۔
”اچھا لگ رہا ہے نا؟”
”ہاں بہت۔” وہ بیکری کا جائزہ لینے لگا۔
”یہ تو بتاؤ تم نے ددا کو امپریس کیسے کیا؟”
”اچھا یہ کب ہوا؟ مجھے تو نہیں پتا۔” وہ مصنوعی حیرت سے بولا۔
”ایکٹنگ مت کرو۔ تم دونوں کی بے تکلفی صاف نظر آ رہی ہے۔ دیکھا میں نے کہا تھا نا وہ تو پہلی ملاقات میں ہی مان جائیں گے۔”
”ہاں مگر تمہاری موری۔ یار مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے ان سے۔ مجھے لگتا ہے وہ ضرور انکار کریں گیں۔” اس نے اپنے دل کی بات بالآخر کہہ ڈالی۔
”تم اتنا منفی کیوں سوچتے ہو جبرائیل؟”وہ افسردہ بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”کیا کروں یار اس معاملے میں کبھی اچھا نہیں ہوا میرے ساتھ بس اسی لیے۔” وہ بے بسی سے بولا۔
”میں کشمالا یا ریم نہیں ہوں جبرائیل اور تمہاری یہ بے اعتباری مجھے تکلیف دیتی ہے۔ ” لہجہ بلا کا سنجیدہ تھا۔
”میں جانتا تھا تمہیں دکھ دینے کے سوا میں کچھ نہیں کروں گا۔ اسی لیے سمجھاتا تھا تمہیں کہ مت خوار ہو میرے پیچھے۔” وہ گہری سانس لے کر بولا۔ اس کے خدشے درست ثابت ہو رہے تھے، مگر اتنی جلد یہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔
”جبرائیل تم کتنے کٹھور ہو نا، سنگ دل اور بے نیاز۔” اس کے بوجھل لہجے پر وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں۔
”آئی ایم سوری، پتا نہیں مجھے کبھی کبھی کیا ہو جاتا ہے؟ میں خود بھی ایسا سوچنا نہیں چاہتا، مگر میری ذات میں جو منفی سوچیں بسی ہوئی ہیں وہ اتنی جلد تو ختم نہیں ہو سکتیں نا۔” وہ دل گرفتگی سے کہہ رہا تھا۔
” اچھا چھوڑو ہم اب کوئی اور بات کر لیں۔” آنکھوں میں آئے پانی کو انگلیوں سے خشک کیا۔
”اور ہاں آیندہ یاد رکھنا مجھے تمہاری پرانی گرل فرینڈز کو ڈسکس کرنا بالکل پسند نہیں۔” اس کے جلے کٹے انداز پر وہ ایک لمحے کو اسے دیکھتا رہ گیا۔
”گرل فرینڈز؟” وہ زیر لب بڑبڑایا۔ پھر بات سمجھ کر کھل کر مسکرا دیا۔
”یعنی جیلسی… آہاں۔” وہ محظوظ انداز میں بولا۔
”جی ہاں بالکل، ہوں جیلس۔” دوسری طرف سے بھی فوراً اقرار کر لیا گیا۔
” وہ کیسے آئیں مجھ سے پہلے تمہاری زندگی میں؟”
”وہ آئیں اور چلی گئیں مجھ پر یہ ثابت کر کے جبرائیل ابراہیم کی زندگی میں صرف ایک ”مس زندگی” ہی ہو سکتی ہے اور ہو گی۔ان شااللہ۔” وہ اس کے چہرے پر آئے بالوں کو ہولے سے چھوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”ان شااللہ۔” وہ بھی مسکرا کر دھیرے سے بولی۔
٭…٭…٭
بارش ہورہی تھی اور خوب برس رہی تھی۔ یوں جیسے دھرتی کی ساری پیاس آج ہی دور کرنے کا ارادہ ہو۔ سرسراتی ہوائیں اس کے کمرے کی کھڑکیوں سے ٹکرا کر بہت ہیبت ناک آواز پیدا کر رہی تھیں۔ پھر سوتے میں اسے یوں محسوس ہوا کہ اس کے چہرے پر بارش کی بوندیں گری ہوں، مگر سردیوں کی بارش کی بوندیں نرم گرم کیوں کر تھیں؟ منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ گہری نیند سے جاگا۔ ایک سایہ سا جو کہ شاید اب سے چند پل قبل اس پر جھکا ہوا تھا اسے اٹھتا دیکھ کر سیدھا ہو چکا تھا۔
”کک…کون؟” لیمپ کی تلاش میں ہاتھ چلاتے ہوئے وہ دہشت سے بولا۔ وہ ڈرپوک تو ہرگز نہیں تھا، مگر کسی اور کے گھر میں رات کے اس پہر اور اس طوفانی موسم میں کسی سائے کا اس کے نزدیک ہونا بہرحال ایک تشویش ناک بات تھی۔ وہ لیمپ جلا چکا تھا اور سامنے جو شخصیت اسے کھڑی دکھائی دی اسے دیکھ کر وہ حقیقتاً بوکھلا گیا۔
”آپ اس وقت یہاں؟” ان کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور اب اسے احساس ہوا کہ اس کے چہرے پر بارش کی بوندیں نہیں بلکہ ان کے آنسو گرے تھے۔ وہ اب بھی ہچکیوں سے رو رہی تھیں اور بار بار ہاتھوں کو اضطرابی انداز میں مروڑ رہی تھیں۔ پھر اچانک نفی میں سر ہلاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹیں۔
”مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ میں ددا یا مرم کو بلاتا ہوں۔” ایک ہی جست میں وہ بستر سے اٹھا اور دروازے کی جانب بڑھا۔ تیز بارش کی وجہ سے آج اسے نا چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے بے حد اصرار پر وہاں ٹھہرنا پڑا تھا۔ گزرے ایک ہفتے میں وہ متعدد بار یہاں آ چکا تھا اور ان دونوں سے کافی بار بے تکلفی سے گفتگو بھی ہو چکی تھی۔ اسے یہاں داماد کا سا ہی پروٹوکول ملنا شروع ہو چکا تھا۔
”وہ بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ مجھے روتے یا پریشان دیکھتا تو فوراً باپ کو بلانے بھاگتا۔” ان کی بوجھل سرگوشی اس طوفانی بارش میں بھی واضح تھی اور وہ وہیں جکڑ دیا گیا۔ اس میں اب کمرے سے باہر جانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ ان کی طرف پشت کیے وہ وہیں کھڑا رہا۔
”تمہاری ماں کتنی بدقسمت عورت ہے۔ جوان بیٹے کے زندہ ہوتے ہوئے بھی اس سے دور ہے اور شاید بد قسمت تو میں بھی ہوں جو پاس ہوتے ہوئے بھی اپنی مامتا کی پیاس نہیں بجھا سکتی، تمہارا چہرہ نہیں چوم سکتی۔ حالاںکہ پہلی ساعت ہی سے تم میں مجھے اپنا بیٹا دکھائی دیتا ہے، اپنا داد نظر آتا ہے مجھے تم میں۔ جی چاہتا ہے تم بھی مجھے ماں پکارو۔ بہت سالوں سے میرے کانوں نے یہ لفظ نہیں سنا۔ ” اس کی کیفیت سے بے خبر وہ مسلسل بول رہی تھیں۔
”ماں” وہ زیر لب حیرت سے بڑبڑایا۔ پھر آہستگی سے ان کی جانب گھوما۔ وہاں نیم روشنی میں زارو قطار روتی ”ماں” کھڑی تھی۔ وہ اس کی اپنی سگی ماں تو نہیں تھی مگر کسی ”ماں” کا چہرہ ضرور تھا جو ممتا کے احساس سے تمتما رہا تھا۔ چند لمحے دونوں ایک دوسرے میں اپنا اپنا کھویا رشتہ کھوجتے رہے۔ پھر وہ اپنی کیفیت پر قابو پا کر معذرت خواہ لہجے میں بولیں ۔
”بیٹا مجھے معاف کر دو۔ رات کے اس پہر تمہاری نیند خراب ہوئی، مگر میں کیا کرتی میری بے چینی ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ داد بچپن میں اکثر ایسی طوفانی بارش میں ڈر کر مجھے پکارا کرتا تھا۔ نہ جانے کیا سوچ کر میں یہاں چلی آئی۔” اس کی سوچوں سے ان جان وہ تیزی سے اس کے قریب سے گزر کر باہر جانے لگیں۔
”ماں” وہ بے ساختہ پکار اٹھا۔ آج پہلی مرتبہ کسی ماں کی بے اختیاری دیکھی تھی اس سے تو دل کیسے نا موم ہوتا؟ اپنے لیے ”ماں” کا پریشان چہرہ دیکھنا اس کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ آج نہ اس چہرے پر بے نیازی تحریر تھی نہ ہی نفرت۔ سالوں پہلے کی خواہش اس طرح پوری ہونے پر اس کا دل پگھلتا چلا گیا۔
اس رات ایک کو اپنا کھویا ہوا بیٹا ملا تھا، تو ایک کو مل کے بھی نہ ملی ماں۔ رات مٹتی گئی اور ان دونوں کی تشنگی بھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Read Next

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!