”پہلے بھی تم نے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔”مور پانکھ۔” اس نے بہ دقت وہ الفاظ دہرائے۔” کیا مطلب ہے اس کا؟”
”اس کا مطلب ہے طاس کے پروں کا دیس۔ طاس تو تم جانتی ہی ہو گی؟ اردو میں اسے مور کہا جاتا ہے۔ مور کے پر ہرے اور نیلے رنگ سے سجے ہوتے ہیں جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو تازگی بخشتے ہیں اور تمہارے آئرلینڈ کے ہر منظر میں مجھے یہی دو رنگ جھلکتے نظر آتے ہیں۔ کہیں سر سبز وادیاں اور شاداب کھیت اور ان پر سایہ فگن نیلا آسمان اور کہیں نیلا سمندر اور دور دور تک پھیلا سبزہ اور پھر میری معلومات کے مطابق یہی دو رنگ آئرلینڈ کے قومی رنگ سمجھے جاتے ہیں، تو بس اسی نسبت کی بنا پر میں نے اس کا نام ”مور پنکھ کا دیس رکھا ہے۔” اس کے گہرے، دھیمے لہجے میں وہ ایک مرتبہ پھر کھو سی گئی۔
”بہت خوب۔ کتنا دل چسپ اور منفرد پہلو نکالا ہے تم نے اور بہت منفرد نام بھی دیا ہے میرے دیس کو۔ مورر پانکھ… اس کے لیے شکریہ ادا کرتی ہوں میں تمہارا۔”
”صرف شکریہ؟ مجھے لگا تھا تم مجھے شکریے کا کارڈ بھی دو گی ساتھ۔” اور اس کے انداز پر وہ خفیف سی ہو کر مسکرا دی۔
”اچھا سنو کیا تم نے اپنے دادا اور موری کو کچھ بتایا میرے بارے میں؟” جو اہم بات کرنے کے لیے اسے یہاں بلایا تھا وہ اب جا کہ یاد آئی تھی اسے۔
”نہیں ابھی تک تو نہیں۔میں سوچ رہی ہوں آج رات بات کر لوں ان سے۔”
”نہیں میرا خیال ہے کہ یوں بات کرنا مناسب نہیں۔ تمہیں یہ بات ان دونوں کے روبرو کرنی چاہیے۔ میں سوچ رہا تھا ایک دو ہفتے تک ہمارا ٹور مکمل ہو رہا ہے، تو اگر تم اپنے باس سے مزید چھٹیوں کی درخواست کرو اور پھر یہاں سے اپنے گھر جا کر ان سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرو تو یہ زیادہ مناسب ہو گا۔ پتا نہیں ان کا کیا ردعمل ہو جب انہیں سب پتا چلے گا۔” اس نے بڑے سرسری انداز میں اپنا خدشہ ظاہر کیا ورنہ پچھلی کئی راتیں وہ یہ سوچتے ہوئے جاگا تھا کہ وہ مانے گے بھی یا نہیں؟
”ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو میں ٹور کے بعد وہاں جا کر ہی ان سے بات کروں گی۔ پھر تم مل لینا ان سے۔”
”ہاں ٹھیک ہے جیسے ہی وہ مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کریں گے میں پہلی فلائٹ سے آئرلینڈ واپس آ جاؤں گا۔” اس نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔
”آئرلینڈ واپس آ جاؤں گا کا کیا مطلب ہے؟ ہم ایک ساتھ ہی جائیں گے بالن آسلو۔ میں تمہیں بنا شادی کیے کہیں بھاگنے نہیں دوں گی یاد رکھنا جبرائیل ابراہیم۔” اس نے دھونس بھرے انداز میں کہا۔
”مرم اتنی بے اعتباری؟ بے فکر رہو اب میں کہیں نہیں بھاگ رہا۔ اپنے وعدے کا پاس رکھنا آتا ہے مجھے۔ اپنے الفاظ سے پھرنے والا آدمی نہیں ہوں میں۔” اس کے لہجے میں شکوہ در آیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا جبرائیل۔ مجھے تم پر پورا بھروسا ہے۔ میں بس یہ چاہتی ہوں کہ تم جلد از جلد ان سے مل لو۔”
”ہاں جب وہ مجھ سے ملنا چاہیں گے تبھی ملوں گا نا میں ان سے اور نہ جانے تمہیں انہیں منانے میں کتنے دن لگ جائیں؟”
”اوہ تو اب میں سمجھ گئی کہ تمہارا ذہن کیا سوچ رہا ہے۔ جبرائیل کیا تمہیں لگتا ہے کہ اگر مجھے ذرا سا بھی شک ہوتا کہ میرے ددا اور موری ہماری شادی کے لیے نہیں مانیں گے، تو میں کبھی اس حد تک انوالو ہوتی؟ کبھی پرپوزل قبول کرتی تمہارا؟ نہیں جبرائیل کبھی بھی نہیں۔ تم میری اچھی عادتوں کے معترف ہو نا تو پھر یقین رکھو کہ مجھے پالنے والے بھی میری طرح ہی سوچتے ہیں۔ انہیں سطحی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک بار وہ تم سے مل لیں، تو مجھے یقین ہے وہ فوراً مان جائیں گے۔ بس یہ فائنل ہے کہ ہم ساتھ ہی یہاں سے جائیں گے ددا اور موری سے ملنے۔” مرم کے قطعی لہجے پر وہ گہری سانس بھرتا سر اثبات میں ہلا گیا۔
٭…٭…٭
”کتنی کم زور ہو کر واپس آئی ہو تم۔ کیا وہاں کچھ نہیں کھایا پیا؟ اور بال تو دیکھو اپنے کتنے رف ہو رہے ہیں۔” وہ ابھی لاؤنج میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ موری کا لیکچر شروع ہو گیا۔
وہ کل شام ہی بالن آسلو پہنچے تھے۔ پیٹر اور ڈینیل واپس انگلینڈ چلے گئے۔ طے یہ ہوا تھا کہ جیسے ہی شادی کی ڈیٹ فائنل ہو گی وہ کرسٹی اور نینسی کے ہمراہ وہاں پہنچ جائیں گے۔ جبرائیل نے پہلے ہی اپنے لیے وہاں کے ایک ہوٹل میں کمرا بک کروا لیا تھا سو اسے وہاں چھوڑ کر وہ سیدھی ددا اور موری کے پاس آ گئی۔ کل کی رات اور آج کا سارا دن اس نے سو کر اپنی تکان اتاری اور اب ترو تازہ ہو کر موری کے ہاتھ کی بنی پیسٹریز سے انصاف کر رہی تھی۔
”اوہو موری آپ کو تو میں ہر بار کمزور ہی لگتی ہوں، مگر بال تو واقعی میرے جھاڑ جھنکار لگ رہے ہیں۔ کل ہی کٹواتی ہوں۔” اس نے جان بوجھ کر بال کٹوانے کی بات کہی تھی۔ جانتی جو تھی کہ موری کو اس کے لمبے سنہرے بال کتنے پسند ہیں۔
”خبردار جو دوبارہ بال کٹوانے کی بات کی۔ اتنے اچھے ہیں بس تمہاری بے پروائی کے باعث اتنے خراب لگتے ہیں۔” موری حسب توقع بگڑیں۔ ددا ان دونوں کی باتوں سے بے نیاز ٹی وی دیکھنے میں مگن تھے۔
”اوہ ایک چیز تو آپ لوگوں کو دینا بھول ہی گئی۔” ماتھے پر ہاتھ مارتی وہ تیزی سے کمرے کی جانب بڑھی۔ چند لمحوں بعد وہ ایک بڑے سے شاپر سمیت واپس آئی۔
”یہ میں نے آپ دونوں کے لیے انگلش مارکیٹ سے خریدا تھا۔” اُس نے موری کے ہاتھ میں شاپر تھماتے ہوئے بتایا۔ ان دونوں کو ہی اپنے تحائف بے حد پسند آئے۔ پھر اس نے پیٹر اور ڈینیل کے دیے گئے تحفے بھی انہیں دکھائے۔
”سب چیزیں بہت اچھی ہیں۔ تم نے بھی انہیں کچھ دیا یا نہیں؟” ددا نے پوچھا۔
”جی ددا ابھی واپسی پر میں نے ان دونوں سمیت ان کی بیگمات کے لیے بھی تحفے بھیجے ہیں۔”
”اور یہ انگوٹھی اور بریسلٹ کیا تم نے اپنے لیے خریدا ہے؟ بہت خوب صورت ہے۔ ہاتھ آگے دکھانا ذرا۔ اس کمزور نظر نے عاجز کر رکھا ہے۔” موری کی نظر اس کے ہاتھوں پر پڑی تو پوچھ لیا۔ اس نے سٹ پٹا کر اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھا جہاں وہ دونوں چیزیں اس کے ہاتھوں کی کشش میں اضافہ کر رہی تھیں۔ جبرائیل کی تاکید وہ بالکل بھول گئی تھی۔اس نے کہا تھا کہ گھر جانے سے پہلے وہ انگوٹھی اتار کر بیگ میں رکھ لینا۔ ورنہ اس کے ہاتھ میں آئرلینڈ کی روایتی منگنی کی انگوٹھی دیکھ کر نہ جانے وہ کیا سوچیں۔ انہیں سب بتانے سے پہلے ان دونوں کا وہ انگوٹھی دیکھنا مناسب نہیں، مگر اب اس سے بھول ہو گئی تھی سو اس نے اسی لمحے فیصلہ کیا سب سچ بتانے کا۔
”یہ دونوں چیزیں مجھے جبرائیل نے گفٹ کی ہیں۔” ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اس نے دھیرے سے بتایا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر وہ اب غور سے دونوں چیزیں دیکھ رہی تھیں۔ انگوٹھی کے ڈیزائن پر ان کی نظر پڑی تو بے ساختہ انہوں نے اس کی جانب دیکھا۔
”مرم یہ کیا ہے؟” ان کا لہجہ بے لچک اور کچھ کچھ حیرت زدہ تھا۔ وہ اچھی طرح یہ انگوٹھی پہننے کے طریقوں اور معنی سے واقف تھیں۔ مرم نے وہ انگوٹھی اپنے الٹے ہاتھ کی تیسری انگلی میں اس طرح سے پہنی ہوئی تھی کہ دل کا رخ باہر ناخن کی جانب تھا جس کا صاف اور واضح مطلب یہی تھا کہ وہ انگوٹھی دینے والے سے عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کر چکی ہے۔ دوسرے معنوں میں وہ ”اینگیجڈ” ہوچکی تھی۔
”موری وہ بہت اچھا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس نے مجھے پرپوز کیا ہے۔” وہ جھجکتے ہوئے بولی۔ ددا بھی اب ان دونوں کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
”اور تم نے قبول بھی کر لیا ہم سے پوچھے یا بتائے بغیر؟ ٹھیک ہے کہ تم ایک آزاد اور خودمختار لڑکی ہو اور ہم نے تمہیں اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی بھی دی ہوئی ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم ہماری رائے لیے بغیر شادی جیسا فیصلہ کر لو۔ بس یہ اہمیت تھی ہماری؟” موری کا لہجہ سرد اور تلخ تھا۔ ان کا گھرانہ بہت زیادہ مذہبی تو نہیں تھا، مگر بہرحال روایتی ضرور تھا اور خاص طور پر موری مذہبی اور اخلاقی اقدار کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔
”نہیں موری ایسی بات نہیں۔ میں آپ لوگوں کو بتانے ہی تو یہاں آئی ہوں۔ ہمیں لگا فون پر سب بات کرنا مناسب نہیں۔ میں نے اسے بھی یہی بتایا کہ آخری فیصلہ آپ دونوں ہی کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے ملیں گے تو آپ کا جواب ہاں ہو گا اسی لیے یہ انگوٹھی اس طرح پہنی۔” وہ بڑے پر اعتماد انداز میں بول رہی تھی۔
”لیکن بیٹا آپ کو اسے ہاں نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب اگر ہم انکار کرتے ہیں تو کیا آپ پھر بھی اسی سے شادی کرو گی یا انکار کر دو گی اسے؟ اگر انکار کرو گی تو بے وفا اور وعدہ شکن بنو گی ایک غیر ملکی شخص کی نظر میں۔” ددا نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں گفتگو میں حصہ لیا۔
”یہ وہی غیر ملکی ہے نا جس سے کچھ ماہ قبل تک تم نالاں تھی؟ اور وہ تمہیں مغرور اور بد دماغ لگتا تھا؟ ” موری کا غصہ جوں کا توں برقرار تھا۔
”جی موری وہی ہے، مگر وہ بہت اچھا ہے۔ آپ پلیز اس سے ایک مرتبہ مل تو لیں۔” مرم نے اتنی لجاجت سے کہا کہ ددا خود کو کہنے سے نہ روک سکے۔
”تو وہ ٹریول گائیڈ ہے؟”
”جی ددا۔”
”اور رہتا کہاں ہے؟ فیملی کہاں ہوتی ہے اس کی؟” مگر مرم کے جواب دینے سے پہلے ہی موری بول پڑیں۔
”سب سے اہم سوال تو پوچھ لیں اپنی لاڈلی سے کہ وہ مسلمان بھی ہے یا نہیں۔” ان کا لہجہ جتاتا ہوا تھا۔
”موری؟” چند لمحوں کے لیے تو وہ گم صم ہو گئی اس بے اعتباری پر ۔” آپ کو مجھ پر بھروسا نہیں تو اپنی تربیت پر تو اعتماد رکھیں۔ میں جانتی ہوں میں مسلمان ہوں اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاؤں گی جو اسلام کے منافی ہو۔ وہ مسلمان ہے اور اس کا تعلق بھی دنیا کے اسی خطے سے ہے جہاں سے ددا کا تعلق ہے۔”
”مطلب کیا وہ بھی ایرانی ہے؟” ددا نے اچنبھے سے پوچھا۔
”نہیں آپ کا پڑوسی ہے وہ۔ اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔” ددا اور موری حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔” جبرائیل نے مجھے آپ لوگوں کو سب سچ بتانے کا کہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا کہ آپ لوگ اس کے ماضی سے ناواقف ہوں۔ حالاں کہ وہ مجھے سب بتا چکا ہے، مگر اسے آپ لوگوں سے چھپانا دھوکا دینے کے مترادف لگا۔ دراصل تیرہ سال پہلے اس کے والد کی وفات پر اس کے بھائی نے جھگڑا کر کے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ تب وہ انگلینڈ چلا گیا اور اب تک وہیں رہتا ہے۔ اپنی فیملی سے وہ تیرہ سال سے نہیں ملا۔”
”اور پھر بھی تمہیں یقین ہے کہ ہم تمہاری شادی اس سے کر دیں گے؟ کون جانے اب تک کیسے رہا ہے وہ؟ کون اس کی گارنٹی دے گا کہ وہ نیک اور شریف انسان ہے۔”
”ددا آپ کی گارنٹی بھی تو آپ کے دوستوں نے دی تھی نا۔ آپ بھی تو غیر ملکی تھے؟ اور آپ کی بھی کوئی فیملی نہیں تھی، مگر پھر بھی موری کے بابا نے آپ پر اعتماد کیا اور آپ دونوں کی شادی کی۔ جبرائیل اور آپ کے حالات میں کچھ زیادہ فرق تو نہیں۔ ”وہ ایک ایک کر کے وہ تمام نقطے ان کے سامنے رکھتی جا رہی تھی جو اس نے سوچ رکھے تھے۔
”مگر میرا تعلق شوبز سے نہیں تھا بیٹا۔ تم جانتی ہو نا کہ اس فیلڈ میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں۔ انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے صحیح بھی اور غلط بھی۔”
”یہ بات آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ابھی تک اس سے ملے نہیں۔ ایک بار اس سے مل کر اسے جان لیں گے، تو آپ کے سارے خدشات ختم ہو جائیں گے۔ ددا میں نے آٹھ مہینے اس کے ساتھ گزارے ہیں۔ دن رات ایک ساتھ سفر کرتے تھے ہم۔ اگر اس کے کردار میں کوئی کمی ہوتی تو کبھی نہ کبھی وہ سامنے آ ہی جاتی۔ اس میں ایسی کوئی اخلاقی خامی نہیں جو ایک مسلمان میں نہیں ہونی چاہیے۔ ددا کیا آپ کو لگتا ہے میں نے یوں ہی جذبات میں آکر اس سے شادی کا فیصلہ کیا ہے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ وہ مجھے اچھا ہی اپنی حساس اور پرخلوص فطرت کے باعث لگا تھا۔ بالکل ویسا جیسے آپ ہیں۔ پرخلوص، سچے اور کھرے۔ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی بالکل اپنے باپ جیسا ہم سفر چاہتی ہے۔ بابا تو میرے بچپن ہی میں چلے گئے تھے۔ آپ ہی میرے باپ ہیں اسی لیے مجھے آپ کی طرح کے شخص سے شادی کرنی تھی اور جبرائیل میں آپ جیسی ہی خوبیاں ہیں۔”
”ٹھیک ہے اس سے کہو ہم سے آ کر ملے۔” ددا نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سنجیدگی سے کہا، تو مرم خوشی سے نہال ہو گئی جب کہ موری نے تعجب سے انہیں دیکھا۔
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
”اب بچی اتنا اصرار کر رہی ہے، تو ایک بار ملنے میں کیا حرج ہے۔”لہجہ سمجھانے والا تھا۔
”تھینک یو سو مچ ددا۔ تو پھر میں کل اسے لنچ پر بلا لوں؟”
”کیا مطلب وہ یہاں پر ہی ہے؟” انہوں نے حیرانی سے پوچھا۔
”جی وہ ”شیئر واٹر” ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔ میں ہی اسے زبردستی ساتھ لائی ہوں ورنہ وہ تو کہہ رہا تھا کہ انگلینڈ واپس جا کر کچھ عرصہ بعد آپ سے ملنے آئے گا جب آپ مان جائیں گے، مگر میں نے اسے کہا کہ اپنے ددا اور موری پر پورا یقین ہے مجھے کہ وہ فوراً ملنے کے لیے راضی ہو جائیں گے۔” وہ مسکراتے ہوئے انہیں اپنا کارنامہ بتا رہی تھی۔
”ٹھیک ہے بلا لو۔” وہ عندیہ دے کر دوبارہ ٹی وی کی جانب متوجہ ہو گئے اور موری اپنی سوچوں میں گم تھیں۔ اس نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔ آخر جبرائیل کو ایک معرکہ سر کر لینے کی خوش خبری بھی تو سنانی تھی۔
”اس سے کہنا میں اسے کل خود لینے جاؤں گا ہوٹل۔ اسے کہاں یہاں کے راستوں کا علم ہو گا۔” ابھی وہ دروازے تک پہنچی ہی تھی جب اسے ددا کی آواز سنائی دی۔
”تو گویا ددا جانتے ہیں کہ میں اسے ہی فون کرنے والی ہوں۔” وہ سوچ کر رہ گئی۔
”جی ددا۔” فرمابرداری سے کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
ہوٹل کی لابی میں بیٹھا وہ بے دلی سے کافی پیتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ دو دن میں ہی وہ یہاں سے اکتا گیا تھا۔ اپنی تنہائی سے اسے وحشت ہو رہی تھی۔ اتنے مہینے وہ اپنے جن دوستوں کے ساتھ رہا اُن کی کمی شدت سے محسوس ہورہی تھی اور اب وہاں بیٹھا ان کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کر رہا تھا۔
پیٹر اور ڈینیل سے اس کی بات ابھی کچھ ہی دیر قبل ہوئی تھی، مگر مرم سے اب تک اس کی کوئی بات نہیں ہو سکی تھی۔ اس نے خود فون کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ ناجانے وہ کہاں مصروف ہو۔ روزانہ اسے دیکھنے کی عادت سی ہو چکی تھی سو دل شدت سے اس کے دیدار کے لیے مچل رہا تھا۔ اب جب وہ ساتھ نہیں تھی تو اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر وہ واقعی اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا جاتا تو ناجانے کیسے رہ پاتا اسے دیکھے بغیر؟ اب تو پھر چند روز میں اس سے ملنے کی امید تھی تو دل کی بے قراری کا یہ عالم تھا اور اگر جو یہ امید نہ ہوتی تو؟
ابھی وہ کافی کا آخری گھونٹ لے رہا تھا جب اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اسکرین پر اس کی اور مرم کی سیلفی نظر آ رہی تھی جو مرم نے ساحل کنارے کھینچی تھی اور اس تصویر کو جبرائیل کے موبائل پر اپنے ”کنٹیکٹ فوٹو” کے طور پر لگا دیا تھا اور ساتھ ساتھ اپنا نام بدل کر آئرش زبان کا ایک مشکل سا لفظ لکھ دیا تھا۔
اسکرین پر mo shorghr کے الفاظ جگمگا رہے تھے جس کا انگریزی میں مطلب تھا ”مائی ایٹرنل لو” (دائمی محبت) مرم نے تو یہی بتایا تھا۔
فون کان سے لگاتے وقت اس کے چہرے پر بڑی جان دار مسکراہٹ ابھری تھی۔
”بے وفا لڑکی! اپنے شہر میں آئے مہمان کی اب یاد آ رہی ہے۔ کل سے تمہارے فون کا انتظار کر رہا تھا میں۔” اپنا شرارتی لہجہ اسے خود بھی اجنبی لگا۔
”بس واپس آتے ہی سو گئی تھی۔ اتنے ماہ کی تکان بھی تو تھی۔ ابھی اٹھی ہوں تھوڑی دیر پہلے۔” اس کی آواز سے بھی تکان نمایاں تھی۔
”مجھے تو لگا تھا میری جدائی میں محترمہ کو نیند نہیں آ رہی ہو گی، مگر یہاں تو مس زندگی صاحبہ اپنے ساتھ ساتھ پڑوسی کا اصطبل بھی بیچ کر سو رہی تھیں۔” اسے چڑانے کے واسطے وہ لطیف سا طنز کر گیا۔
”ہاں تو خود کر لیتے نا فون۔” حسب توقع وہ فارم میں آ چکی تھی۔
”میں نے سوچا اتنے عرصے بعد اپنے ددا اور موری سے ملی ہو۔ تھوڑی پرائیویسی چاہیے ہو گی تمہیں۔ بس یہی سوچ کر تمہیں ڈسٹرب نہیں کیا۔”
”بالکل صحیح۔ کافی پرائیویٹ باتیں ہوئیں ہمارے درمیان جس میں صرف تمہارا ذکر تھا۔” وہ بھی طنز کر گئی۔
”کیا مطلب؟تم نے بتا دیا انہیں میرے بارے میں؟” اس کے لہجے میں دبا دبا سا اشتیاق تھا۔
” ہاں مگر میرے بتانے سے پہلے ہی انہیں پتا چل گیا۔” پھر وہ اسے تمام تفصیلات بتاتی گئی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});