مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

اور وہ بہت قیمتی لمحہ تھا۔ فیصلے کا لمحہ،بہت خاص، خاص الخاص۔ اس نے چہرہ موڑ کر مرم کی جانب دیکھا۔ وہ بھی منتظر نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ آس اور امید کے کئی جگنو لیے۔ اس کی منتظر اور فیصلہ ہو گیا تھا۔
وہ اپنی نشست سے اٹھا اور مرم کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ اس نے بے یقینی و خوشی کی ملی جلی کیفیت میں اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔ سب منتظر تھے جیف کے کچھ بولنے کے، مگر وہ اب نرمی سے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے کرسی سے اٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی جیف اس کے ہمراہ آفس کے دروازے کی سمت بڑھا۔ وہ ٹرانس کی کیفیت میں اس سے دو قدم پیچھے چل رہی تھی اور اس کا ہاتھ اب تک جیف کے پُرحدت ہاتھ میں تھا۔ وہ سب اسے ناسمجھی سے تکے گئے۔
”کہاں جا رہے ہو جیف؟” پیٹر نے حیرانی سے پوچھا، مگر جواب ندارد۔
آفس کے باہر کیفے کا مرکزی حصہ تھا جہاں بہت سے لوگ میزوں پر بیٹھے گفتگو میں مگن تھے۔ وہاں دھیمے سروں میں آئرش لوک موسیقی کی کوئی میٹھی دھن بج رہی تھی۔ وہ اسے لیے ہال کے بیچوں بیچ آ کر رک گیا۔ پھر اس کا ہاتھ چھوڑ کر دو قدم کے فاصلے پر جا کر گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گیا۔
”میں جبرائیل ابراہیم آج اس میچ میکر کیفے میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ مرم داد کی محبت اور اس کا ساتھ میرے دل کی اوّلین خواہش ہے۔ اس کی ہر ادا سے مجھے عشق ہے، اس کے بے تکان بولنے سے، اس کے ناراض ناراض پھولے ہوئے چہرے سے، اس کے حب الوطنی کے جذبے سے، اس کی مسکراتی آنکھوں میں بسی چمک سے اور اس کے سنہرے بالوں میں بندھے ربن سے بھی۔” اور مرم داد اس لمحے دم سادھے کھڑی تھی۔ وقت کی سوئیاں وہیں تھم سی گئی تھیں۔ وہ بے یقین سی سامنے بیٹھے جیف کو تک رہی تھی جو اپنے دل کے راز عیاں کر رہا تھا۔ ہر مرتبہ کی طرح آج بھی وہ اس کے لفظوں کے سحر میں جکڑ ی گئی تھی۔ وہاں بیٹھے لوگ ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
”میں تمہارا دیس، تمہارا گھر بننا چاہتا ہوں۔ کیا تم ہمیشہ کے لیے میری ٹریول گائیڈ بنو گی؟” پرپوزل کے اس انوکھے اور منفرد انداز پر وہ مسکرا کر سر ہلا گئی۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ نکال رہا تھا۔
”ود دیز ہینڈز آئی آفر مائی ہارٹ اینڈ کراون اٹ ود مائی لایلیٹی۔ لیٹ لو اینڈ فرینڈشپ رین۔”
(with these hands i offer my heart and crown it with my loyalty. let love and friendship reign…)
اسے وہی کلاڈہ رنگ پہناتے ہوئے وہ مسکراتے لب و لہجے میں بول رہا تھا۔
اس کے رنگ پہناتے ہی ہال میں تالیاں گونج اُٹھیں۔ بہت سے لوگ ان دونوں کے پاس آکر انہیں دعائیں اور مبارک باد پیش کر رہے تھے ۔ ہجوم میں گھرے جیف نے مسکرا کر دور کھڑے میچ میکر کی جانب دیکھا جو اسے وکٹری کا نشان دکھا رہاتھا۔ اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی اور پھر جیف نے بھی اپنے ہاتھوں کی مدد سے دل کا نشان بنایا۔
”جبرائیل ابراہیم صاحب آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔ یعنی ایسا بلاسٹ کیا کہ ہم سب دنگ رہ گئے۔” ڈینیل ان دونوں کے پاس آ کر شرارت سے بولا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”بہت بہت مبارک ہو۔ بالآخر ہار مان ہی لی تم نے۔” پیٹر نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”بہت شکریہ۔” وہ خوش دلی سے مسکرا دیا۔ پھر کچھ سوچ کر سنجیدگی سے بولا۔
”پیٹر میں نہیں چاہتا کہ وہ ویڈیو آن ائیر آئے۔ ہم دوبارہ شوٹ کر لیں گے، تم…”
”ایک منٹ میرے یار حوصلہ رکھ۔ نہیں دکھا رہے ہم کسی کو وہ ویڈیو۔ یہ سب تمہارے منہ سے سچ اگلوانے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔” ڈینیل نے اس کی بات کاٹ کر اسے سارا معاملہ سمجھایا۔
”تو مطلب…”
”یار مطلب وغیرہ بعد میں سوچ لینا۔ فی الحال اس پل کو انجوائے کرو۔” پیٹر نے اسے بیچ میں ٹوک دیا۔ وہ ان دونوں کو گھور کے رہ گیا۔
”تم کیوں اتنی خاموش ہو ، کچھ تو بولو۔ اس وقت بھی صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا تم نے۔” اب وہ مرم کی جانب متوجہ ہوا۔
”میں بس یہ منظر اور اس سے ملنے والی خوشی ذہن نشین کر رہی تھی تاکہ اداسی میں اسے دہرا لیا کروں۔” وہ اپنے ازلی پر اعتماد انداز میں بولی۔
”اب کیسی اداسی؟”وہ تعجب سے پوچھ رہا تھا۔
”جب تم آدھا سال گھر سے غائب رہو گے تو اُداسی تو ہونی ہے نا۔” اس کے لہجے میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر مسکرا دیے۔ ان کے چاروں اور دُھن تھی، محبت کی دُھن۔
٭…٭…٭
وہ اپنے کمرے کے ٹیرس میں کھڑا صبح کے حسن سے لطف اندوز ہو رہا تھا جب اسے مرم کی جانب سے میسج موصول ہوا۔ اس نے مسکراتے ہوئے میسج کھولا۔
”فقط سزاوار تو ام
حافظ اسرار تو ام
بخوان کھ تکرار تو ام
صبح بخیر۔”
اس نے ” اب اس میسج کا مطلب بھی بتا دو” لکھا اور پیغام بھیج دیا۔ چند ہی لمحوں بعد اسے ایک اور پیغام موصول ہوا جسے پڑھ کر وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔ اسے مرم سے ایسے ہی تپے تپے جواب کی امید تھی۔
”گوگل کر لو۔ اسمارٹ فون تو ہے تمہارے پاس جس میں انٹرنیٹ بھی چلتا ہو گا اور اگر نہیں تو اس ڈبا فون کو سمندر میں پھینک دو۔”
اب وہ اسے کال ملا رہا تھا۔
”السلام و علیکم، صبح بہ خیر۔” اس نے جان بوجھ کر گڈمارننگ کے بجائے فارسی میں اسے وش کیا۔
”وعلیکم السلام، صبح بہ خیر۔ ابھی چند لمحے پہلے تو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔” وہ اب تک تپی ہوئی تھی اس کے جواب پر۔ اتنے رومینٹک پیغام کے جواب میں اسے اتنے غیر رومانوی جواب کی ہرگز امید نہیں تھی۔
”نہیں صرف صبح بہ خیر کا مطلب ہی سمجھ آیا مجھے کیوں کہ ہمارے ہاں اردو میں بھی یہی بولا جاتا ہے۔” اس کا تپا تپا سا لہجہ اسے مسکرانے پر اکسا رہا تھا۔
”خوشی ہوئی سن کر۔”
”اچھا مطلب تو بتا دو مجھے۔” چند جانے پہچانے الفاظ کی وجہ سے وہ اس نظم کا مطلب سمجھ چکا تھا، مگر پھر بھی اسے مرم کو چڑانے میں مزا آرہا تھا۔ ایک انوکھا اور نیا احساس جاگ رہا تھا اس کے اندر کہ اس کے پاس بھی کوئی ایسی ہستی ہے جس پر اپنا حق سمجھتے ہوئے وہ اس سے بے تکلفی سے مذاق کر سکتا ہے۔
”کہا نا گوگل پر سرچ کر لو۔”
” مگر تمہاری زبان سے مطلب جان کر مجھے زیادہ خوشی محسوس ہو گی، سمجھا کرو نا۔ پھر دل کی گہرائیوں سے میں تمہارے الفاظ کو محسوس کروں گا۔”
”مسٹر ٹریولر تم اتنے بھی بے ضرر اور سیدھے نہیں جتنا پوز کرتے ہو۔” اب کے اس کا لہجہ تھوڑا نرم تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد دھیمے لہجے میں گویا ہوئی۔
”فقط میں ہی تمہاری اہل ہوں اور تمہارے تمام رازوں کی امین بھی۔ مجھے پڑھو کہ میں ہی تمہاری تکرار ہوں۔”
”میں جانتا ہوں مرم۔” دور بادلوں پر جگر جگر کرتی آنکھیں مرکوز کیے وہ مسکراتے لبوں سے بول رہا تھا۔
”تھینک یو مرم مجھے اپنے قابل سمجھنے کے لیے۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ تم نے میری اتنی بد تمیزی کے بعد بھی میرا پرپوزل قبول کیا۔”
”ہاں بالکل اس بات کے لیے تو تمہیں میرا ساری زندگی احسان مند رہنا چاہیے۔” اس کے مصنوعی طنز پر وہ ایک مرتبہ پھر ہنس دیا۔
”کیا تم دو گھنٹے میں مجھ سے سمندر کنارے مل سکتی ہو؟”
”ہاں ٹھیک ہے میں آ جاؤں گی، مگر ہم ابھی فوراً ہوٹل کی لابی میں بھی تو مل سکتے ہیں پھر ساحل پر ہی کیوں؟” وہ حیران سی پوچھ رہی تھی۔
”یار اپنے ”ڈبا” فون کو سمندر میں بھی تو پھینکنا ہے نا۔ تو میں نے سوچا کیوں نہ یہ نیک کام تمہارے ہاتھوں ہی سے انجام پائے۔” وہ شرارت سے بولا۔ دوسری طرف سے اس کا بے ساختہ قہقہہ بلند ہوا۔
” تم واقعی لفظوں کے کھلاڑی ہو جبرائیل۔ دوسروں کی بات لوٹانے کا فن خوب آتا ہے تمہیں۔” وہ ہنستے ہوئے کہہ رہی تھی۔
٭…٭…٭
”تو رحمان کی خلقت میں کوئی بے ضابطگی نہیں دیکھے گا، تو نظر اٹھا کر دیکھ، کیا آسمان میں کوئی شگاف ہے۔ پھر دوبارہ آنکھ اٹھا کر دیکھ ہر بار تیری نظر ناکام اور تھک کر تیری طرف پلٹ آئے گی۔” وہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور نیلے آسمان کی وسعتوں پر نگاہیں مرکوز کیے ہوئے تھی اور اس کے ذہن میں سورہ ملک کی آیت کا مفہوم گونج رہا تھا۔
اور وہ سوچ رہی تھی کہ بے شک اللہ نے ہر چیز کتنی مکمل اور پرفیکٹ بنائی ہے جو ذات خود پرفیکٹ اور کامل ہو بھلا اس کی خلقت میں نقص کیوں کر ہو گا؟ یہ تو ہم انسانوں کے ناقص ایمان، چھوٹے ظرف اور محدود سوچ کا نقص ہے کہ ہم اس کی بنائی ہوئی چیزوں کی عیب جوئی میں لگ جاتے ہیں۔ مثلاً ذہنی یا جسمانی طور پر مفلوج انسان کو ”نامکمل” اور ” عیب دار” قرار دیتے ہیں۔ حالاںکہ ہماری محدود اور لاعلم عقل اس کی حکمتوں کو جاننے اور سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ رب جو بلندی کے کامل ترین رتبے پر ہے اور جو ہر عیب سے پاک ہے وہ کیوں کر کوئی ناقص چیز پیدا کرے گا؟ بلکہ ”کامل” اور ”پرفیکٹ” یہ سب تو انسان کے اپنے ایجاد کردہ لفظ ہیں۔ بھلا انسان کے ایجاد کردہ نامکمل اور ناقص الفاظ اس کی بڑائی اور بلندی کے بیان کے لیے کیوں کر استعمال ہو سکتے ہیں؟ جب کہ قرآن میں خود اس پاک ذات نے اپنی شان بیان کی ہے۔ کہیں وہ خود کو رحیم کہتا ہے، تو کہیں رحمان۔ کہیں مالک، کہیں غفور، کبھی مولا تو کبھی ولی۔ کہیں رازق اور کہیں خالق۔
”واہ میرے مالک تیری بھی کیا شان ہے۔” گہری سانس لیتے ہوئے وہ بڑبڑائی۔ پھر اپنے فون پر وقت دیکھا۔ وہ اب پورے بیس منٹ لیٹ ہو چکا تھا۔ نہ جانے وقت کا اتنا پابند بندہ آج کہاں رہ گیا تھا۔
”سوری میں لیٹ ہو گیا۔” دبے قدموں اس کے برابر کھڑے ہوتے اس نے دھیرے سے معذرت کی۔ مرم نے مُڑ کر اسے دیکھا۔
”پچھلے بیس منٹ سے انتظار کر رہی تھی میں تمہارا۔ تم نے کب سے وقت کی پابندی کرنا چھوڑ دی؟” اس نے خفگی بھرے لہجے میں کہا۔
”جب سے عشق کیا۔” وہ اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپاتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”کیا…؟” وہ حیرانی سے چلائی۔
”میرا مطلب ہے کہ کسی نے کہا ہے عشق انسان کو نکما اور ناکارہ بنا دیتا ہے۔ وقت اور زمانے کا اسے کچھ ہوش نہیں رہتا۔ سو میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔” وہ ہنوز شرارت پر آمادہ تھا۔ مسکراہٹ اب اکثر اس کے ہونٹوں پر محو رقصاں رہتی تھی۔ مرم اسے کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی۔
”یار میں نے سوچا پہلی بار ڈیٹ پر جا رہا ہوں سو کچھ اسپیشل گفٹ لے لوں تمہارے لیے۔ بازار کی خاک چھان کر آ رہا ہوں۔” ایک مرتبہ پھر مسکراتا لہجہ۔
”ڈیٹ؟ تمہیں کس نے کہا یہ ڈیٹ ہے؟ پرپوزل قبول کرنے پر تم مجھے کس طرح کی لڑکی سمجھ رہے ہو؟ میں ابھی اور اسی وقت واپس جا رہی ہوں۔” ڈیٹ کا لفظ سنتے ہی اس کا دماغ گھوم گیا تھا۔
”مجھے تم سے اسی ری ایکشن کی امید تھی۔ مذاق کر رہا تھا میں یار۔” وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”کیا کام تھا ؟ کیوں بلایا ہے مجھے یہاں؟”
”آج کل تم زیادہ ہی خفا نہیں رہنے لگی؟” جبرائیل کا اشارہ اس کے خفگی بھرے انداز کی طرف تھا۔
”آج کل تم زیادہ ہی مذاق کے موڈ میں نہیں رہنے لگے؟” اسی کے انداز میں پوچھا گیا۔
”ہاں بالکل درست اندازہ ہے تمہارا۔ اچھا اب ہاتھ آگے کرو۔” جبرائیل کے کہنے پر مرم نے مشکوک نظر اس پر ڈال کر ہاتھ آگے بڑھایا۔
”تم نے کہا تھا نا کہ آئرلینڈ میں کلوور کے پتے کو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے مجھے بہت مہنگے اور قیمتی زیورات میں سے تمہیں دینے کے لیے یہ سب سے بہترین لگا۔ میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ اسے کلائی میں پہنے رہو تاکہ یہ بریسلٹ تمہیں ہمیشہ یاد دلائے کہ تم میری خوش بختی اور خوش قسمتی ہو۔” اس کے ہاتھ میں بریسلٹ پہناتے ہوئے وہ دھیمے، آنچ دیتے لہجے میں بولا۔ سلور اور سبز نگینوں سے بنا انتہائی نفیس بریسلٹ تھا اور چند نگینوں کے ساتھ شبدر کے سبز اور سلور پتے لٹک رہے تھے۔ کلاڈہ رنگ کے ساتھ ساتھ اب اس کے ہاتھ میں وہ بریسلٹ بھی خوب جچ رہا تھا۔
”بہت خوبصورت ہے یہ۔ کسی بھی مہنگی ترین چیز سے زیادہ قیمتی ہے یہ میرے لیے کیوں کہ یہ ہماری خوش بختی کی علامت ہے۔” بریسلٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے مسکرا کر کہا۔
”آسمانی رنگ کے کپڑوں میں تم اس سمندر سے نکلی جل پری لگ رہی ہو۔” وہ اس کے لباس پر غور کرتے ہوئے بولا۔ آج اس نے سفید اور آسمانی نیلے رنگ کا اسکرٹ اور شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اور ساتھ ہم رنگ اسکارف سر پر جما رکھا تھا۔ اس کی بات پر وہ بے اختیار ہنس پڑی۔
”میں مذاق نہیں کر رہا ۔ سچ میں تم مجھے کوئی جل پری ہی لگ رہی ہو۔” وہ برا مان کر دوبارہ اپنی بات دوہرا گیا۔
”میں جانتی ہوں تم سچ کہہ رہے ہو، مگر میں تو یہ دیکھ کر خوش اور حیران ہو رہی ہوں کہ تم کتنا بدل چکے ہو؟ کیا تمہیں خود اندازہ ہے اس تبدیلی کا جبرائیل؟ یعنی جو بندہ کل تک مجھ سے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا آج اتنے منفرد انداز میں میری تعریفیں کرتا ہے۔ کل تک میں تم سے بات کرنے کے مواقع تلاش کرتی تھی اور آج ہم کتنے بے تکلف ہو چکے ہیں۔ تمہیں یاد ہے پہلی بار جب میں نے تمہیں مسٹر ابراہیم کہہ کر مخاطب کیا تھا، تو کتنا برا لگا تھا تمہیں؟ مجھے یقین نہیں آرہا کہ آٹھ، نو مہینوں میں تم کتنا بدل گئے ہو۔”
”ہاں میں جانتا ہوں میں بدل چکا ہوں اور مجھے یہ سب بہت اچھا بھی لگ رہا ہے۔ پہلے واقعی مجھے بے تکلفی پسند نہیں تھی، مگر اب دل چاہتا ہے کہ تم سے اپنے دل میں آئی ہر بات کہہ دوں۔”
یہی تو میں کہہ رہی ہوں کافی سدھر گئے ہو تم۔” اس کے شرارتی انداز پر وہ ہنس پڑا۔
”ویسے اب تم مجھے ابراہیم کیوں نہیں کہتی؟”
”اب اتنی بے تکلفی سے تمہارے بابا کا نام تو نہیں لے سکتی نا میں۔ ویسے بھی تمہارا اصل نام تو جبرائیل ہی ہے۔ پہلے مجھے تمہارا نام معلوم نہیں تھا نا۔” اس پل وہ اسے بہت اپنی اپنی لگی تھی اس کے مرحوم والد کے نام کا احترام کرتی ہوئی۔
”بابا سے آج بھی میں شدید محبت کرتا ہوں۔ آج بھی ان کی برسی کے دن کمرا بند کر کے میں اسی نو عمر بچے کی طرح روتا ہوں جو اپنے گھر کے اسٹور میں تنہا بے تحاشا رویا تھا اپنے بابا کو یاد کرکے۔ وہ واحد رشتہ تھا میرا جس سے مجھے سچا اور کھرا پیار ملا تھا اور شاید اسی محبت کی وجہ سے میں نے کبھی اپنے قدموں کو غلط سمت بھٹکنے نہیں دیا یہ سوچ کر کہ بابا کی روح کو تکلیف ہو گی۔” محمد ابراہیم خان کے ذکر پر وہ آب دیدہ ہو گیا۔ آج پہلی مرتبہ وہ اپنے باپ کا ذکر کر رہا تھا کسی دوسرے کے سامنے۔ بغیر کسی جھجک کے وہ مرم کے سامنے اپنے بابا کو یاد کر رہا تھا۔
”مجھے یقین ہے کہ آج وہ تمہیں اس مقام پر دیکھ کر بہت خوش ہوں گے اور مجھے تمہارے ساتھ دیکھ کر ان کی خوشی ہزار گنا بڑھ گئی ہو گی۔” اس کی اداسی دور کرنے کے لیے مرم کچھ اس انداز سے بولی کہ وہ دوبارہ مسکرا دیا۔
”اپنی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینا۔”
”ہاں تو ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں میں۔ اب بابا کی روح کو اطمینان ہو گا کہ ان کے بیٹے کی زندگی کو سنوارنے کے لیے آنسہ مرم داد موجود ہیں۔ ویسے ایک بات تو بتاؤ اس دن کیفے میں اس طرح اچانک کیسے فیصلہ کر لیا تم نے کہ میرا ہاتھ پکڑا اور چل دیے۔”
”یہ تو میں بھی ٹھیک سے نہیں جانتا کہ کیسے ایک پل میں فیصلہ ہو گیا۔ بس اس میچ میکر کی باتیں شاید واقعی پر اثر تھیں کہ میرے دل نے کہا کہ ابھی نہیں تو شاید کبھی نہیں اور پھر تمہاری چمکتی، پر امید آنکھوں کی روشنی کو ماند ہوتے دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا سو بس اسی پل فیصلہ کر لیا۔”
”ہوں یعنی کہ اپنی آنکھوں کی چمک کو ختم کرنے کی دھمکی دے کر میں بڑی آسانی سے تم سے ہر بات منوا سکتی ہوں۔ واہ زبردست بھئی۔” اور اس بات پر دونوں ہنس دیے۔
”تمہارا یہ مور پنکھ کا دیس بہت خوبصورت ہے۔” کچھ لمحوں بعد وہ سمندر کی بے چین لہروں کو دیکھتے ہوئے بولا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Read Next

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!