”دیکھو ڈرو نہیں یہ بس راستے میں ہمارے احترام میں کھڑے ہیں۔ آگے بڑھو۔” ڈینیل نے اسے دلاسا دیا۔
”جو بھی ہو چلتے رہنا، رکنا مت۔” پیٹر کی ہدایت پر سب نے سر ہلا کر اگلا قدم اٹھایا۔ تمام چغہ پوشوں کے چہرے ان کی جانب مڑے۔ وہ موم سے بنے انسانی شکل کے پتلے تھے۔ ان کی آنکھیں ابھری ہوئی اور وحشت ناک تھیں۔ ان کے اگلے قدم پر تمام کی نظریں ان کی جانب مرکوز ہو گئیں۔پھر اگلے قدم پر ان کے لب مسکرانے لگے اور اگلے قدم پر جناتی قہقہے فضا میں گونجنے لگے، مگر ان چاروں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اب وہ قالین کے بیچ میں پہنچ چکے تھے۔ پیٹر اور جیف آگے آگے تھے جب کہ وہ دونوں ان کے ایک قدم پیچھے۔ اچانک ایک چغہ پوش نے اپنا مومی ہاتھ ڈینیل کے کندھے پر رکھ دیا۔ ایک مرتبہ پھر وہ چاروں کورس میں چلائے اور دروازے کی جانب لپکے۔
اگلے دروازے سے داخل ہونے پر انہیں لگا کہ وہ انسانی اعضا کی منڈی میں کھڑے ہوں جہاں خون آلود انسانی ہاتھ، پیر، سر، دھڑ، بازو،ٹانگیں یہاں تک کہ انسانی دماغ، گردے، دل سبھی کچھ موجود تھا۔ وہاں انتہائی ناگوار بدبو بھی پھیلی ہوئی تھی اور بائیں جانب ایک قصائی کی دکان موجود تھی جہاں ایک کانا آدمی ہاتھ میں چھری پکڑے ایک انسانی شکل کے پتلے کا سر کاٹ رہا تھا۔ ان کے داخل ہونے پر اس نے مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر ان کا استقبال کیا۔ کمرے کے دائیں جانب دو مزید دروازے تھے جن میں سے ایک پر ”exit” لکھا ہوا تھا۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھے پیٹر نے ابھی اس دروازے پر ہاتھ رکھا ہی تھا جب جیف نے اسے روکا۔
”ایک منٹ پیٹر مجھے لگ رہا ہے کہ دوسرا دروازہ باہر کا راستہ ہے یہ والا نہیں۔”
”لیکن ایگزٹ تو اس پر لکھا ہے۔” پیٹر نے ناسمجھی سے کہا۔
”ہاں یار مگر اس درندے نما آدمی کی جانب ایک بار غور سے دیکھو۔ کیا یہ تمہیں اتنا سیدھا معلوم ہوتا ہے کہ ہم دروازے کی جانب بڑھیں اور یہ کچھ نہ کرے؟ میرا خیال میں یہ دوسرا دروازہ بے مقصد نہیں بنایا گیا۔ جو بھی اس بھوت بنگلے سے ڈر کر باہر جانا چاہے گا وہ ایگزٹ والے دروازے کو ہی ترجیح دے گا اور میرا خیال ہے اسے مزید ڈرانے کے لیے اس دروازے کے پار اور بہت کچھ ہو گا۔ اور جو لوگ بھی ”اور مزے” کے چکر میں یہ دوسرا دروازہ کھولیں گے یہ سوچ کر کہ ابھی ان کا موڈ نہیں باہر جانے کا وہ یقینا باہر قدم رکھے گے کہ ”دھوکا” ہی یہاں کا اصول معلوم ہو رہا ہے۔” جیف نے پر سوچ نظروں سے دروازوں کو دیکھتے ہوئے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”میرا خیال میں جیف ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ہمیں یہ دوسرا دروازہ ٹرائی کرنا چاہیے۔” ڈینیل نے اس کے اندازے کی تائید کی اور پھر واقعی جیف کا اندازہ درست نکلا کیوں کہ دروازہ کھولنے پر وہ چاروں ”اپنی دنیا” میں واپس آ گئے۔ باہر آتے ساتھ ہی سب اپنی تیز ہوتی دھڑکنیں سنبھالنے لگے۔ پھر جب پرسکون ہوئے تو ایک دوسرے کا جائزہ لینے لگے۔ بے اختیار قہقہے فضا میں گونجے کیوں کہ سب ہی دوسروں کی مضحکہ خیز، ڈری، سہمی حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ ان چاروں کے چہروں سے ڈر اب تک جھلک رہا تھا اور اپنی اپنی بزدلی پر وہ خوب دل کھول کر ہنس رہے تھے۔
”مرم مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی ڈرپوک ہو گی۔” ڈینیل کہاں باز آنے والا تھا۔
”ہاں اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس موم کے آدمی نے جب تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھا تب دیکھنے لائق تھی تمہاری شکل۔” ڈھلتی شام میں یونہی ایک دوسرے پر جملے کستے وہ آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ دن ان چاروں کی دوستی کے چمن میں گلاب کے پھول کی مانند کھلا تھا جس کی خوشبو تا ابد ان کی یادوں کو مہکانے والی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”آپ لوگوں کے کام میں مخل ہونے کی معذرت چاہتی ہوں میں۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ وہی ہیں نا جو کریزی فیسٹیولز آف یورپ کے نام سے شو کرتے ہیں؟”میلے کے اگلے دن وہ معمول کے مطابق اپنا کام کر رہے تھے جب ایک لڑکی نے انتہائی پر جوش لہجے میں جیف کو مخاطب کیا۔ کیمرے کی طرف دیکھتا وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
”جی بالکل میں وہی ہوں۔” سنجیدگی سے جواب دے کر وہ پھر سے سیدھا کیمرے کی جانب دیکھنے لگا جب کہ وہ لڑکی تیزی سے ان کے نزدیک آئی۔
”میں نے پچھلے ہفتے ہی لیپریکان ہنٹ اور کریگ غار کے متعلق آپ کا شودیکھاتھا اور وہ دونوں ہی بہت زبردست تھے۔ آپ بہت اچھا بولتے ہیں۔ میں ان دونوں جگہ پر کبھی نہیں گئی، مگر آپ کی زبانی وہاں کے بارے میں سن کر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں اس لمحے وہیں آپ کی ٹیم کے ساتھ ہوں۔ آپ کا انداز بیان بہت جامع اور متاثر کن ہے۔” ایک لمحے کا بھی وقفہ کیے بغیر وہ بولے جا رہی تھی اور وہ چاروں بڑی دل چسپی سے اسے سن رہے تھے۔ ان کی دو ویڈیوز پچھلے دو ہفتوں میں بالترتیب آن ائیر ہو چکی تھیں جن کا حوالہ وہ دے رہی تھی۔
”آئر لینڈ کے متعلق ڈاکومنٹری سے پہلے میں نے کبھی آپ کا شو نہیں دیکھا، مگر اب آپ کو یہاں دیکھ کر میں سوچ رہی ہوں واپس گھر جا کر پہلا کام میں یہی کروں گی کہ آپ کی پچھلی تمام ڈاکومنٹریز دیکھوں۔ یقینا وہ بھی بہت دل چسپ اور معلوماتی ہوں گی۔”
”میرے پروگرام دیکھنے اور پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کے یہ الفاظ میرے اور میری ٹیم کے لیے بہت قیمتی ہیں۔” عاجزی سے مسکرا کر کہتا وہ اس لڑکی کو چونکا گیا تھا۔
”اوہ معاف کیجیے گا میں نے باقی ٹیم پر غور ہی نہیں کیا۔ دراصل آپ کی شخصیت آپ کی دل کش آواز کی طرح اتنی چھا جانے والی ہے کہ باقی سب پس منظر میں جاتا دکھائی دیتا ہے۔” شوخ لہجے میں کہتی وہ باقی تینوں کو محظوظ انداز میں مسکرانے پر مجبور کر گئی جب کہ جیف کے چہرے کی مہربان مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
”آپ کیا مجھے اپنا نمبر دے سکتے ہیں؟”اس کی بدلتی کیفیت سے انجان وہ اس سے اسی بے تکلفی سے مخاطب تھی۔
”آپ شو کے آفیشل ٹویٹر اکائونٹ یا فیس بک پیج پر ہم سے رابطہ کر سکتی ہیں۔ سو نمبر دینے کا سوال غیر ضروری ہے۔” بڑی کوشش کے بعد وہ اپنا لہجہ نارمل رکھ پایا۔
”آپ کا بہت شکریہ ہمارا شو پسند کرنے کا۔ آپ اسی طرح ہمارے شو دیکھتی اور سراہتی رہیے گا۔” جیف کے بدلتے تاثرات نوٹ کر کے مرم نے اس لڑکی کے نزدیک آتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ جیف کی فین پر اس کا تاثر مغرور اور اکھڑ مزاج بندے کا پڑے۔ سو بڑی خوب صورتی سے اس نے اسے باتوں میں الجھا لیا۔
”آئی ٹولڈ یو۔” چند مزید باتوں کے بعد جب وہ رخصت ہوئی تو مرم نے مسکرا کر اسے کچھ جتایا تھا۔
”کیا بتایا تھا تم نے اسے؟” مرم کی بات سن کر ڈینیل کے کان فوراً کھڑے ہوگئے۔
”یہی کہ اس کے فین اس کی شان دار شخصیت سے بہت متاثر ہیں۔”
”ہاں تو اس میں اب بھی کوئی شک ہے کیا؟ ابھی ابھی تو ایک محترمہ ہمیں ”پس منظر” بنا کر چلتی بنی ہیں۔ اپنی تو کوئی مارکیٹ ویلیو ہی نہیں۔” ڈینیل کی دھائی پر پیٹر اور مرم دونوں ہنس دیے جب کہ جیف بے زاری سے انہیں سن رہا تھا۔
”مجھے تو نہیں ہاں جیف کو ضرور شک ہے اس بات پر۔” مرم کے شرارتی انداز پر جیف نے اسے گھورا۔
”یہ تو پاگل ہے۔” ڈینیل نے جیسے بات ہی ختم کر دی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اب کام کر لیں؟” جیف نے استفہامیہ نظروں سے تینوں کو دیکھ کر پوچھا۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری ہو گی انہیں دوبارہ کام شروع کیے جب پیٹر کو کسی نے مخاطب کیا۔
”انکل یہ آپ کے لیے۔” ایک چھے، سات سال کا بچہ اس کی طرف گلاب کا سرخ پھول بڑھائے اس سے مخاطب تھا۔
”میرے لیے؟ ” ڈینیل نے پھول پکڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
”تمہیں واقعی یقین ہے کہ یہ میرے لیے ہی دیا گیا ہے؟” اس کے لہجے میں بے یقینی نمایاں تھی۔
”جی بالکل مس ٹیولپ نے یہ مجھے آپ کو دینے کو کہا تھا۔” بچے نے اعتماد سے جواب دیا۔
”چلو شکر ہے کسی کو میں بھی نظر آیا ۔ اب اتنی بھی بری نہیں میری مارکیٹ ویلیو۔” ڈینیل کافی خوش دکھائی دے رہا تھا۔
”اچھا یہ تو بتائو کہ یہ دیا کس نے؟ کون ہیں آخر یہ مس ٹیولپ؟”
”وہ انہوں نے۔” بچے نے دور کسی کی طرف اشارہ کیا۔ ان چاروں نے ایک ساتھ اِس سمت دیکھا اور چند لمحے بے یقینی سے دیکھتے رہے۔ وہاں ایک نہایت موٹی اور کالی عورت نما لڑکی کھڑی ان کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلا رہی تھی۔ اورنج اور پیلے رنگ کے کاسٹیوم میں وہ انتہائی مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔
”ڈین واقعی تمہاری مارکیٹ ویلیو اب اتنی بھی بری نہیں۔” پیٹر نے سکتے کی حالت میں ساکت کھڑے ڈینیل کو چھیڑا تو وہ بس ہاتھ میں پکڑے پھولوں کو دیکھ کر رہ گیا۔
”اپنی ٹیولپ آنٹی سے کہہ دینا مجھے نہیں چاہیے یہ۔” پھول واپس لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے وہ تپے تپے اندازِ میں بولا۔ وہ تینوں مسکراتے ہوئے کبھی اسے تو کبھی دور کھڑی۔ ” بلیک بیوٹی” کو دیکھ رہے تھے جو اب بھی ڈینیل کو مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔
”بری بات ڈین اتنے پیار سے تو دیا ہے اس نے، رکھ لو ۔” مرم کے لبوں کے کنارے پر مسکراہٹ مچل رہی تھی۔
”تم تو میری فیلنگز کا کچھ اِحساس کرو۔” اس نے بگڑے ہوئے تیور کے ساتھ کہا۔ بچے نے بڑی شرافت سے پھول واپس پکڑے اور کندھے اُچکا کر چلتا بنا۔ ڈینیل بھی خراب موڈ سمیت وہاں سے واک آئوٹ کر گیا۔ مگر”مس ٹیولپ” نے ڈینیل کو زچ کرنے کا تہیہ کیا تھا شاید کیوںکہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا بس ہر بار بچہ اور پھول دینے والی کا نام مختلف ہوتا۔ کوئی کہتا یہ مس روز نے دیا ہے ، کوئی کہتا کہ مس جازمین اپنی محبت کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں اور ہر مرتبہ ڈینیل اپنی قسمت کو کوس کر رہ جاتا جب بلیک بیوٹی نزدیک ہی کہیں نظر آتی اپنے دانتوں کی نمائش کرتی ہوئی۔ جب پانچویں بار یہی سب ہوا تو اس کا صبر جواب دے گیا ۔ اس نے اس کا دماغ درست کرنے کا فیصلہ کیا۔
”ایکسکیوز می کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ یہ حرکت بار بار کیوں کر رہی ہیں؟ جب ایک بار پھول لینے سے انکار کر دیا میں نے تو پھر بار بار کیوں مجھے تنگ کر رہی ہیں آپ؟” وہ کڑے تیور لیے اس کے سر پر کھڑا پوچھ رہا تھا۔ چند منٹ تو وہ اسے دیکھتی رہی پھر قہقہہ مار کر ہنسنے لگی۔ وہ حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات سمیت اسے دیکھتا رہا۔
”سوری یہ سب ایک مذاق تھا۔ ایک پریکٹیکل جوک ، میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو برا لگا، مگر میں یہ سب کرنے کی پابند تھی۔” اپنی ہنسی پر قابو پا کر اس نے وضاحت دی۔
”پابند مطلب؟ کس نے کیا آپ کو پابند؟ ”
”دراصل یہاں خفیہ طور پر پریکٹیکل جوکس کا ایک سلسلہ چل رہا ہے جس میں کبھی بھی کسی کو بھی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ کب کسے بے وقوف بنانا ہے یہ یہاں کی انتظامیہ بتاتی ہے۔ صبح مجھے آپ کی شکل دکھا کر یہ سب کرنے کو کہا گیا سو میں نے کیا کیوںکہ میرے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی ۔ ایک بار پھر معافی چاہتی ہوں۔
”کوئی بات نہیں ۔” وہ بس اتنا ہی کہہ سکا۔
پھر وہ دوستانہ مزاج میں چند مزید باتیں کر کے وہاں سے رخصت ہو گئی۔
”کوئی نہیں ڈینیل ایسابھی ہوتا ہے کبھی کبھی۔” جیف نے اس کے کندھے کے گرد بازو رکھ کر اسے تسلی دی۔
”یار انہیں میں ہی ملا تھا بے وقوف بنانے کو آٹھ ہزار لوگوں میں سے۔” اسے یہی صدمہ کھائے جا رہا تھا۔
”لیکن تم یہ بھی تو سوچو کے تم بے وقوف بنے تو نہیں نا ؟” مرم نے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
”ہاں یہ تو ہے۔” اس کا مطمئن اندازدیکھ کر وہ تینوں ہی اپنی مسکراہٹ چھپا گئے۔ دراصل یہ سب انہی تینوں کی شرارت تھی ۔ ان تینوں نے ہی اِس جوک کے منتظمین کے پاس جا کر ڈینیل کا نام لیا تھا ورنہ آٹھ ہزار کے اِس مجمع میں ایسا اتفاق ہونا ناممکن ہی تھا، مگر فی الحال ڈینیل کو یہ سب بتانے کا ان کا کوئی اِرادہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
جیسے جیسے رات اترتی جا رہی تھی ویسے ویسے میلے کی ہنگامہ خیزی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اسٹیج پر آئرلینڈ کا ایک مشہور راک بینڈ پرفارم کر رہا تھا اور پنڈال میں موجود ہجوم میں اِس قدر جوش اور ولولہ تھا کہ ان چاروں کا ساتھ رہنا ممکن ہی نہ ہو سکا ۔ بہ مشکل چند منٹ ہی وہ ساتھ رہے ہوں گے اور پھر ناچتے تھرکتے لوگوں کے ساتھ مختلف سمتوں میں چلے گئے۔ جیف نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر زیادہ آگے جانے کی کوشش نہیں کی اور اب وہ اپنے قدموں کو مضبوطی سے ایک جگہ جمائے کھڑا تھا اور ساتھ ساتھ اس کی نظریں چاروں جانب سفر کر رہی تھیں کہ کہیں کسی کی جھلک نظر آ جائے۔ چند منٹ بعد وہ پنڈال سے باہر آ گیا یہ سوچ کر کہ باہر آنے کا فقط یہی ایک راستہ ہے سو وہ داخلی حصے کے نزدیک کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرنے لگا۔
یونہی کھڑے کھڑے اس کے ذہن میں پرسوں صبح مرم سے کی گئی گفتگو چلنے لگی۔ ابھی تک وہ اِس کے متعلق کچھ بھی نہیں سوچ سکا تھا کہ پچھلے دو دن انتہائی مصروف اور تھکن زدہ گزرے تھے۔ وہ خود اپنے آپ پر حیران تھا کہ اس نے یہ دو دن اتنے مختلف انداز میں کیسے گزارے ۔ ہنستے ، مسکراتے، شرارت کرتے، بھرپور اور خوش باش ۔ ان تین لوگوں کی سنگت کتنے آرام سے اسے اپنے خول سے باہر نکال لائی تھی ۔ شاید مخلص اور سچے دوستوں کی یہی تو خوبی ہوتی ہے کہ انسان ان کی سنگت میں وہ نہیں رہتا جیسا باقی دنیا کو نظر آتا ہے ۔ ان لمحوں میں بڑی شدت سے اس نے یہ محسوس کیا کہ اس سفر نے اسے کس حد تک بدل دیا تھا ۔ وہ ،وہ نہیں رہا تھا جیسا سفر کے آغاز میں تھا۔ سیر و سیاحت کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ گھر لوٹنے والا انسان مختلف ہوتا ہے سفر کے لیے نکلنے والے شخص سے اور تبدیلی کا یہ عمل شاید ابھی جاری تھا کیوںکہ اس کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا تھا ۔
پچھلے دو دنوں میں اس نے کافی حد تک اِس سوچ کو اپنے ذہن کے کسی خانے میں دبائے رکھا تھا، مگر اب اچانک موقع پاتے ہی یہ سوچ اس پر حملہ آور ہوئی کہ مرم کو اس نے کیوں سب بتا دیا ؟ وہ اس کے متعلق کیا سوچتی ہو گی کہ بظاہر مضبوط اور پر اعتماد نظر آنے والا مشہور ٹریول گائیڈ جیف ابراہیم اندر سے اتنا محروم اور بے چارہ شخص ہے؟
وہ چاہتا تھا کہ مرم دنیا کی آخری انسان بھی نہ ہو جو اس کی اِس کمزوری سے واقف ہو کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ مرم داد بہت مضبوط اور اپنی دھن کی پکی لڑکی ہے جو بھرپور کوشش کرے گی کہ وہ تنہا ہونے کے اِس احساس سے نجات پا لے اور اس کی تمام باتوں سے تو اسے یہی محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بڑی اچھی طرح جانتی ہے کہ جیف اپنے دِل کے نہاں خانوں میں اس کے لیے کون سے جذبات چھپائے بیٹھا ہے ، مگر اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ بہت مشکل تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اسے اعتبار نہیں تھا مرم پر … اس کا دِل گواہی دے رہا تھا کہ وہ کشمالا اور ریم سے بہت مختلف ہے۔ وہ کبھی اسے لیٹ ڈان نہیں کرے گی۔اس کا دل کیسے دھڑک دھڑک اٹھا تھا جب اس نے اسے جبرائیل ابراہیم پکارا تھا۔ آج تک صرف دو لڑکیوں نے اس کو پورے نام سے مخاطب کیا تھا۔ پہلی لڑکی کے لہجے میں طنز ،تمسخر، نفرت اور حقارت کا نشتر تھا جب کہ دوسری لڑکی کے لہجے میں مان، عزت اور اپنائیت کی چاشنی تھی، مگر وہ اپنا آپ بھی جانتا تھا کہ منفی سوچیں اس کے اندر اپنی جڑ پکڑ چکی تھیں ۔ وہ ہر چیز کا منفی پہلو دیکھنے کا عادی ہو چکا تھا ۔ خاص طور پر ایک لڑکی کے حوالے سے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اس کے ساتھ رہا تو زندگی میں کبھی نا کبھی اس کے بارے میں بھی منفی اندازِ سے ضرور سوچے گا اور شاید اس پر ظاہر بھی کر دے کہ اس کا دماغ اس کو مرم کے متعلق کیا کیا بتاتا ہے۔ تب یہ سب جان کر اس کو سوائے دکھ اور اذیت کے اور کچھ نہیں ملنا تھا ۔ سو یہی بہتر تھا کہ وہ انکار کر دے۔ ان کا ساتھ ممکن تو تھا مگر یہ سفر وہموں اور دکھوں سے پُر ہونا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});