”تم ہمارے گھر سے دفع کیوں نہیں ہو جاتے؟” طبیعت کی خرابی کے باعث اپنے مقررہ وقت پر گھر لوٹنے کے بجائے آج میں جلدی واپس آیا تو صحن میں قدم رکھتے ہی ولی کی دھاڑتی آواز سنائی دی۔ آج ہفتے بعد اس واقعے کے بعد ہمارا سامنا ہوا تھا۔ ورنہ اس ذلت کے بعد میری یہی کوشش ہوتی کہ گھر والوں کا سامنا نہ ہی ہو۔ میں خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ ولی نے پیچھے سے میری قمیص پکڑ کر آگے بڑھنے سے روکا۔
”کیا کالے کے ساتھ ساتھ گونگے، بہرے بھی ہو گئے ہو؟ سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟ ” جھٹکے سے مجھے اپنی طرف موڑ تے ہوئے اس نے ترشی سے پوچھا۔
”ولی میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ خدا کا واسطہ ہے مجھے آرام کرنے دو۔” میں نے بھاری آواز میں کہا۔ میری آنکھوں کی سرخی اور چہرے پر چھائی تھکن طبیعت ناسازی کی گواہ تھی، مگر ولی کو پروا نہیں تھی۔
”آرام کرنا ہے، تو اپنے گھر جا کر کرو۔ ابا کے بعد تمہارا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اپنا ضروری سامان اٹھاؤ اور جاؤ ہماری زندگی سے۔ میں مزید تمہیں یہاں برداشت نہیں کر سکتا۔ تمہاری نحوست کی وجہ سے ہی وہ بے حیا لڑکی مجھے اتنا کچھ سنا گئی۔ تمہاری شکل کے ساتھ ساتھ اب مجھے تمہارے پورے وجود سے نفرت ہے۔ یہ گھر اب میرے نام ہے سو میری مرضی کے بغیر کوئی یہاں نہیں رہ سکتا۔اس سے پہلے کہ میں دھکے دے کر تمہیں یہاں سے نکالوں خود ہی کہیں دفع ہو جاؤ۔” ولی نے اپنی ساری بھڑاس نکالی۔ پہلے بھی ولی مجھ پر طنز کرنے سے باز نہیں آتا تھا، مگر اب وہ کھلے الفاظ میں مجھ سے نفرت کا اظہار کررہا تھا، کیوںکہ میری وجہ سے کشمالا، ولی کی بھی بے عزتی کر گئی تھی اور یہ بات ولی کی مردانگی پر ضرب تھی۔
”میرا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا۔ چاہے ابا رہیں نہ رہیں ہمارا رشتہ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ خون کا رشتہ ہے ہمارا۔” میں نے ولی کو ٹھہرے ہوئے لہجے میں سمجھانا چاہا ۔
”کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے ہمارا۔ ” اگلے ہی لمحے ولی نے بھڑک کر انکار کیا۔ اب وہ زور زور سے ماں کو باہر آنے کو کہہ رہا تھا۔ نگار جو کمرے میں ولی کی چیخ پکار سن رہی تھی اس کے بلانے پر تیزی سے باہر آئی۔
”کیا ہوا ولی کیوں شور مچا رہے ہو۔ اس گھر میں دو پل کا سکون بھی میسر نہیں ہے۔” وہ بے زاری سے بڑبڑائی تھی۔ محمدابراہیم خان کے بعد اسے یہ گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اماں اس سے کہیں یہ چلا جائے یہاں سے کہیں دور۔ میں اسے اب اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کالے سانڈھ کے لیے نہیں کماتا میں۔ اس سے کہیں دفع ہو جائے ہماری زندگیوں سے۔” ولی تلخی سے میری طرف اشارہ کر کے چلایا تھا۔ ”کالے سانڈھ” کے الفاظ میرے دل پر بھالے کی طرح پیوست ہوگئے۔ مجھے اپنا وجود زخموں سے چور ہوتا محسوس ہوا۔ گھر کے سارے افراد اب صحن میں کھڑے یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔
”اماں آج پہلی بار تو میری طرف داری کر دیں۔کم از کم مجھے یہ تو یقین آ جائے کہ تم ہی میری سگی ماں ہو۔” اس سے پہلے کہ نگار کچھ بولتی میں تیزی سے ماں کے قریب گیا اور آنکھوں میں آس اور امید کے بہت سے جگنو لیے بھیگے لہجے میں التجا کی۔
”بس ایک بار ہی کہہ دیں کہ میرے چاند کو کچھ مت کہو۔ ایک بار تو مجھے محبت سے بیٹا بول دیں اماں۔ ایسی بھی کیا نفرت؟ آپ کی سگی اولاد ہی ہوں۔ کیا کبھی مجھ پر رحم نہیں آیا آپ کو؟” برستی آنکھوں سے اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپی خواہش بیان کرتا میں کوئی بلکتا ہوا چند سالہ معصوم بچہ ہی لگ رہا تھا۔ اماں کے دل کو پہلی بار کچھ ہوا تھا کیوں کہ اس کا لٹھے کے مانند سفید پڑتا چہرہ…
”زیادہ ڈرامے بازیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنا سامان اٹھاؤ اور نکلو یہاں سے۔” ولی نے تیزی سے مجھے ماں سے دور دھکیلا۔ نگار پرسوچ نظروں سے کبھی مجھے اور کبھی ولی کو دیکھ رہی تھی۔ ایک طرف خوب صورت اور شان دار سا ولی تھا۔ شوہر کے بعد اس کا سائبان، اس کے بڑھاپے کا سہارا اور دوسری طرف اس کا وہ بیٹا جس کی صورت دیکھ کر اسے کراہت محسوس ہوتی تھی۔ ایک بیٹا اسے چپ رہنے کا اشارہ کر رہا تھا، تو دوسرا اپنی طرف داری میں بولنے کی التجا کر رہا تھا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کس کا ساتھ دے۔ بالآخر بہت دیر سوچنے کے بعد فیصلہ ہو گیا۔ اس نے اپنے اس بیٹے کو ترجیح دی جسے وہ بے حساب چاہتی تھی۔ اس کی بات رد کرنے کا مطلب گھر میں اپنی حیثیت گھٹانا تھا کیوں کہ اب وہی گھر کا سربراہ تھا۔اس نے مصلحتاً خاموش رہنے کو ترجیح دی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اسے ساری زندگی چپ ہی رہنا تھا۔
چند لمحوں بعد اپنا سامان ہاتھ میں تھامے جب میں دوبارہ باہر آیا تو سب اب تک وہیں تھے۔میں اُن کے نزدیک رکا۔
”اس دن کشمالا کی باتوں کا اعتبار نہیں کیا تھا میں نے۔ میں سمجھا تھا اماں آپ کو واقعی میرا مستقبل محفوظ کرنے کی فکر ہے، مگر آج مجھے یقین ہوگیا کہ آپ نے اس لیے وہ سب کہا تھا کہ آپ کو نفرت ہے میرے سانولے رنگ سے۔ اب کیسے جی پاؤں گا میں اس احساس کے ساتھ کہ میری ماں کو مجھ سے شدید نفرت ہے۔” اپنے ہونٹ بھینچ کر میں چند لمحوں کے لیے رکا اور اپنے بہتے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کیا۔
”آپ یہی چاہتی ہیں کہ میں چلا جاؤں تو ٹھیک ہے میں ہمیشہ کے لیے چلا جاؤں گا، مگر میری ایک بات یاد رکھنا اماں آپ نے کبھی کوئی حق ادا نہیں کیا میرا، کبھی اپنا فرض ادا نہیں کیا۔ بہت سے قرض نکلتے ہیں میری طرف آپ کے۔” ٹوٹے لہجے میں جتا کر میں دہلیز پار کر گیا۔
٭…٭…٭
”ذلت کی موت پر میں نے بے غیرتی کی زندگی کو ترجیح دی تھی۔ آخرت میں جہنم کی آگ کا حق دار بننے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا اس لیے ایک بار پھر خودکشی کرنے کی ہمت نہیں کر پایا۔ فیروز انکل کے خیال میں، میں بہت باہمت تھا، مگر میرا اپنا خیال تھا کہ میں بہت ڈھیٹ اور بے حس ہوں کہ اتنی ذلت سہنے کے بعد بھی مجھ میں موت کو گلے لگانے کی ہمت نہیں تھی؟ میں اب مائیکل کے پاس ہوٹل جا رہا تھا، اس کی پیش کش قبول کرنے۔ پہلے میں نے کشمالا کے لیے انکار کیا تھا اور اب اس کی وجہ ہی سے اقرار کر رہا تھا۔
پھر مائیکل مجھے اپنے ساتھ برطانیہ لے آیا۔ اسی کے مشورے پر میں نے وہاں ٹریول گائیڈ سے متعلق بہت سے کورسز کیے اور ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی دستاویزی فلموں میں صدا کاری بھی کرتا رہا اور پھر گھر چھوڑنے کے دو سال بعد مائیکل کے اسسٹنٹ کے طور پر اپنے کیرئر کا آغاز کیا۔ اپنا اصل نام ترک کر کے میں نے ”جیف ابراہیم” کا لیبل خود پر چسپاں کر دیا۔ بہت چاہ کر بھی میں بابا کا نام اپنے نام سے نہیں ہٹا پایا کہ اس پوری دنیا میں وہی تھے جنہوں نے مجھے بے لوث محبت دی تھی۔ آج تیرہ سال ہو چکے ہیں مجھے وہ گھر چھوڑے اور ان تیرہ سالوں میں خود کو منوانے کے لیے بہت ٹھوکریں کھائی ہیں میں نے۔ میری کام یابی میں بہت بڑا ہاتھ مائیکل کا بھی ہے جو میرے لیے ایک مخلص سرپرست ثابت ہوا تھا۔ قدم قدم پر اس نے میری راہنمائی کی تھی۔بہت سے ایسے مقام بھی آئے جہاں میں نے بالکل ہمت ہار دی۔ خاص طور پر جب مجھے ریم کی اصلیت کا پتا چلا۔ اس وقت اگر وہ نہ ہوتا، تو میں شاید غلط راستوں کا مسافر بن جاتا، مگر اس کے سمجھانے پر ہی میں نے اس مقام پر پہنچنے کا فیصلہ کیا جہاں آج دنیا مجھے جانتی ہے۔” وہ افق سے نمودار ہوتے سورج کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں سورج سے عکس سمیت ماضی کے اذیت ناک لمحے جل رہے تھے۔ مرم مستقل ایک ہی انداز میں بیٹھی اسے بہ غور سن رہی تھی۔ اس کے نم چہرے پر کرب اور اذیت کے تاثرات نمایاں تھے جیسے اس نے ابراہیم کی ہر تکلیف دل سے محسوس کی ہو۔
”جبرائیل ابراہیم۔” اس نے زیر لب اس کا نام لیا، تو اس نے چونک کر مرم کی جانب دیکھا۔ زندگی میں دوسری بار کسی نے اس کا صحیح اور پورا نام لیا تھا، مگر وہاں تضحیک کے بجائے مٹھاس سی گھلی تھی۔
”میں ہمیشہ سے جانتی تھی کہ تم بہت مضبوط اور بہت خاص ہو۔ سب سے الگ اور آج تم نے میرے اس یقین پر مہر ثبت کر دی ہے جو انسان اتنی نفرت،نظر اندازی اور مشکلات سہنے کے بعد بھی اس قدر مثبت سوچ رکھتا ہو کہ کبھی اس نے کسی کا بھی برا نہ چاہا ہو اور نہ ہی اس کے قدم کبھی ڈگمگائے ہوں۔سو تم میرے نزدیک بہت قابل توصیف اور لائق احترام ہو کیوں کہ تم ایک سچے اور کھرے انسان ہو۔تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ مجھے یہ باور کروا رہا ہے کہ اگر انسان ” من ” سے اچھا ہو، تو پھر دنیا چاہے لاکھ اسے بدی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے، مگر وہ اسے بھٹکا نہیں پاتی اور میں ان تمام لوگوں کی بدقسمتی پر افسوس ہی کر سکتی ہوں جنہوں نے پاس رہتے ہوئے بھی کبھی تمہارے دل کی خوبصورتی کو نہیں جانا صرف اور صرف ایک ظاہری خوبی کی وجہ سے جس پر تمہارا کوئی اختیار بھی نہیں تھا۔” اس کی آخری بات پر جبرائیل ابراہیم نے بہت تعجب سے اسے دیکھا تھا۔ خوبی؟ وہ دنیا کی پہلی لڑکی تھی جس نے اس کی سانولی رنگت کو ”خوبی” کہا تھا۔
”ہاں اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو؟” اس کی نظروں کا مفہوم پڑھ کر وہ مسکرائی ۔
”دیکھو نا اتنے سارے گورے لوگوں کے خاندان میں تم واحد سانولے، گندمی رنگت والے، یعنی کچھ تو خاص ہو گا نا تمہارے جینز میں جو اپنے باقی خاندان سے مختلف ہو۔یہی انفرادیت ہی تو تمہاری اضافی خوبی ہے۔”اور یہاں یورپ میں رہنے کے بعد تمہیں اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ سانولی رنگت یہاں پر مردوں کی ایک خوبی ہی سمجھی جاتی ہے کیوں کہ یہاں لوگ ضرورت سے زیادہ گورے، پیل(pale) اور بے رنگ ہوتے ہیں۔ بڑی آسانی سے وہ اسے اس کی ”انفرادیت” بتا رہی تھی۔ اس کے اپنے جس چیز کو اس کی خامی کہتے رہے آج ”گوروں” کے ملک کی ایک ”گوری” اسے بتا رہی تھی کہ اس کی سرزمین میں اس رنگ کو خوبی جانا جاتا ہے۔
”اور میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ تمہاری فی میل فینز تمہاری صورت پر فدا ہوں گی۔ صرف تمہیں دیکھنے کے لیے وہ تمہارا شو دیکھتی ہوں گی ورنہ انہیں کسی بھی کریزی فیسٹیول میں کوئی دل چسپی نہیں ہو گی۔” گو کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد اس کی شخصیت بہت متاثر کن ہو چکی تھی۔ اچھے، پرسکون ماحول میں رہنے کی وجہ سے سانولی رنگت، اس کی شان دار پرسنیلٹی کی ایک اضافی خوبی ہی سمجھی جاتی تھی، مگر وہ بھی کیا کرتاجو کچھ بچپن میں وہ اپنے متعلق سن چکا تھا وہ کسی آسیب کی طرح اس کے ذہن سے چمٹا ہوا تھا۔ سو جب بھی کوئی اس کی شکل وصورت کی تعریف کرتا تو وہ دل ہی دل میں استہزا سے مسکرا دیتا، مگر اس لمحے وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کس رد عمل کا اظہار کرے۔
”جب تم نے مجھے وہ رنگ دی تو مجھے یہی لگا کہ تم بھی مجھ میں دل چسپی رکھتے ہو۔ ہاں آج میں اس غلطی کا اعتراف کرتی ہوں کہ مجھے اتنی جلد بازی میں اتنا سب نہیں سوچ لینا چاہیے بلکہ تمہارے رویے پر غور کرتے ہوئے مجھے ایک مرتبہ تو ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ وہ رنگ صرف دوستی کے جذبے کے تحت بھی تو دے سکتے ہو، مگر میں بھی مجبور تھی اپنی محبت کے ہاتھوں۔ محبت میں دل یوں ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش گمان ہوتا ہے۔” عجیب تھی یہ لڑکی بھی اپنی باتوں اور حرکتوں سمیت جو بڑے پر اعتماد انداز میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کر رہی تھی۔ وہ ایک ٹک اسے دیکھتا چلا گیا۔
”لیکن جبرائیل اپنے دل سے پوچھ کر بتا ؤکیا میں اپنی سوچ میں غلط ہوں؟ کیا تمہارے دل میں میرے لیے کوئی خاص جذبہ ہے ؟ اگر تمہارے دل کا جواب مثبت ہوا تو بس ایک مرتبہ اس سچائی پر بھی غور کر لینا کہ میں بھی چاہتی ہوں تمہیں اور ہمارے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے اس بات کا یقین رکھنا کہ ددا اور موری کو میری خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی عزیز نہیں ہے۔ جب وہ تم سے ملیں گے اور تمہیں جانیں گے تو تب تمہاری شکل و صورت کی پہلی تو کیا ثانوی حیثیت بھی نہیں رہے گی کیوںکہ وہ ظاہری خوبصورتی کو باطنی خوب صورتی پر کبھی ترجیح نہیں دیتے میری طرح۔ جب اپنے دل کو اچھی طرح سے ٹٹول کر فیصلہ کر لو تو مجھے اس سے آگاہ کر دینا۔ تمہارا جو بھی فیصلہ ہو گا مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کا احترام کروں کیوں کہ محبت زبردستی باندھ کر ساتھ رکھنے کا نام نہیں ہے۔”
”صبح ہونے والی ہے۔ ہمیں اب چلنا چاہیے۔” کچھ لمحے وہ اس کے جھکے چہرے کو کھوجتی رہی، مگر وہ ہمیشہ کی طرح بے تاثر ہی تھا۔ وہ بال جبرائیل ابراہیم کے کورٹ میں پھینک کر وہاں سے اٹھ آئی۔
٭…٭…٭
وہ چاروں کانٹی میتھ میں واقع ایک قدیمی قلعہ ”بالن لاگ” میں موجود تھے جہاں آج سے آئرلینڈ کے سب سے مشہور سہ روزہ میلے ”باڈی اینڈ سول” کا آغاز ہونا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک میوزک اور آرٹ فیسٹیول ہے جو ہر سال جون میں منعقد کیا جاتا ہے۔ہر سال تقریباً آٹھ سے دس ہزار لوگ اس میلے میں شریک ہوتے ہیں۔
میلے کے پہلے دن کا آغاز بہت ہی خوش گوار موسم میں ہوا تھا۔ صبح صبح ہی غیر متوقع بارش کی بوندوں نے لوگوں کو اپنے اپنے خیموں سے باہر آ کر بارش کا مزہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔باقی سب کی طرح ان چاروں نے بھی بارش کا خوب مزہ لیا تھا اور پھر کچھ ہی دیر بعد جب میلے کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو انہوں نے ویڈیو بنانے کا آغاز کر دیا۔
سب سے پہلے وہ ”ونڈر لسٹ” کے دل چسپ حصے کی جانب بڑھے جہاں لوگوں نے اپنے اپنے کمال کے عروج پر پہنچتے ہوئے عجیب و غریب لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ مثلاً ایک صاحب نے ”جنگلی” بننے کی پوری پوری کوشش کی ہوئی تھی۔ چہرے پر سبز رنگ، تمام جسم سبز پتوں سے ڈھکا ہوا تھا اور سر پر پتوں سے بنا عجیب ہیئت کا تاج تھا۔یوں لگتا تھا کہ موصوف سیدھا جنگل ہی سے تشریف لائے تھے۔ پھر کچھ منچلی لڑکیوں نے ”مورنی” بننے کی سر توڑ کوشش کی تھی۔ چہرے پر مور کی شکل کا ماسک تھا اور مورنی کی طرح ہی پیچھے مور کے اصلی پر لگائے ہوئے تھے اور اس پر مورنی جیسی چال… اور ایک صاحب کو شاید سورج کی روشنی کم معلوم ہو رہی تھی جبھی اپنے پورے جسم پر برقی روشنیاں چپکائے گھوم رہے تھے۔ ایک اور نو عمر لڑکے نے اپنے پورے سر اور چہرے کو تربوز کے چھلکے سے ڈھانپا ہوا تھا۔آنکھوں، ناک اور ہونٹوں کی جگہ سوراخ موجود تھے۔غرض ہر انسان نے ایک دوسرے سے سبقت لینے کے چکر میں کچھ نا کچھ انوکھا پہن رکھا تھا اور انہی لوگوں کے لیے وہاں پر ”سیلفی کارنر ” بھی موجود تھا۔
وہاں سے وہ ایروبکس اور جمناسٹک کے خیمے کی طرف بڑھے جہاں کرتب باز بہت مہارت سے حیرت انگیز کرتب دکھا رہے تھے۔ کوئی چھت سے لٹک کر کرتب دکھاتا اور کوئی آگ کے رنگ پر اپنی مہارت سے داد وصول کرتا۔ وہیں ایک کونے میں عام لوگوں کے لیے چار فٹ اونچی ایک رسی باندھی گئی تھی جس پر چل کر وہ اپنا شوق پورا کر سکتے تھے۔ پیٹر نے بڑی آسانی سے وہ رسی چند ہی منٹ میں پار کر لی جب کہ جیف اور ڈینیل آدھی رسی ہی عبور کر پائے اور مرم اپنے لانگ اسکرٹ کی وجہ سے اس پر چلنے سے قاصر تھی۔
پھر انہوں نے ”جھولے” لینے کا فیصلہ کیا۔جیف کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ان تینوں نے اسے زبردستی اپنے ساتھ ”ڈسکوری” نامی جھولے پر بٹھایا جس میں انسان کئی منٹ تک ہوا میں الٹا لٹکتا ہے وہ بھی صرف ایک سیٹ بیلٹ کے سہارے۔
”یہ میری زندگی کی سب سے خوفناک ڈسکوری تھی۔” اترنے کے بعد جیف نے گھومتے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔ اس کی رنگت واقعی سرخ ہو رہی تھی۔ باقی تینوں نے تو خیر اس سے بھی زیادہ خطرناک جھولے لیے ہوئے تھے مگر جیف کو کبھی ان میں دل چسپی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
”نہیں ابھی ایک اور خوف ناک ڈسکوری باقی ہے۔ وہ سامنے دیکھو۔” مرم نے ”ہانٹڈ ہٹ” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”چلو وہاں چلیں۔” اس نے پر جوش لہجے میں کہا۔
”کیا بچوں والی جگہ ہے۔” جیف بے زار دکھائی دے رہا تھا۔
” یار آج کے دن تو اپنا یہ سڑیل منہ کہیں رکھ دو اور اس میلے کو ایسے ہی انجوائے کرو جیسے باقی سب کر رہے ہیں۔ بھول جاؤ کہ ہم کام کے لیے آئے ہیں یہاں۔ بس یہ یاد رکھو کہ تم دوستوں کے ساتھ اس رنگا رنگ میلے کو دیکھنے آئے ہو۔” ڈینیل نے اسے ٹوکا تو وہ خاموشی سے ان کے ہمراہ ہٹ کی جانب بڑھ گیا۔
ہٹ کا تابوت نما دروازہ بند ہوتے ہی اس گول کمرے میں یک دم اندھیرا چھا گیا۔ پھر اگلے ہی لمحے ان کے پیروں کے نیچے جو زمین کا ٹکڑا تھا وہ تیزی سے گھومنے لگا۔ ٹھیک چالیس سیکنڈ بعد یک دم مدھم روشنی آنے لگی اور پھر انتہائی مکروہ شکل کی چار نرسیں ہاتھوں میں خون آلود قینچیاں لیے دہاڑتی ہوئی تیزی سے ان چاروں کی جانب بڑھیں۔ ان چاروں کی دہشت ناک چیخیں فضا میں ابھریں تھیں۔ مرم تیزی سے جیف کے نزدیک ہوئی اور مارے خوف کے اس نے اس کا بازو مضبوطی سے تھام لیا۔ جب ان کے بیچ ایک فٹ کا فاصلہ رہ گیا تو یکایک ان کے سامنے ایک اور تابوت نما دروازہ نمودار ہوا۔ ان چاروں نے ہی اس دروازے کو داخلی دروازہ جانتے ہوئے اس کی طرف دوڑ لگا دی، مگردروازہ کھولتے ہی وہ ایک اور کمرے میں داخل ہو گئے۔ کمرے کے بیچ میں ایک لال قالین بچا ہوا تھا جو کمرے کے دوسری جانب بنے دروازے کی طرف جانے والا واحد راستہ تھا، مگر اس راستے کے دونوں اطراف میں بہت سے لوگ سر جھکائے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے اور پورا جسم سیاہ چغے سے ڈھکا ہوا تھا۔
”اوہ مجھے لگا یہ دروازہ ہمیں واپس باہر لے جائے گا۔” ڈینیل خوف سے بڑبڑایا۔
”میرا خیال ہے وہ سامنے جو دروازہ بنا ہے وہ باہر جانے کا راستہ ہے۔” پیٹر نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں چلو۔”
”نہیں میں آگے نہیں جاؤں گی۔ مجھے ان سے ڈر لگ رہا ہے۔” مرم نے کپکپاتی آواز میں ان چغہ پوشوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
”کیوں؟ تمہیں ہی شوق تھا نا کہ ”ہانٹڈ ہٹ” دیکھنا ہے۔ اب کرو شوق پورا۔” جیف نے دھیمی آواز میں اسے ڈپٹا۔ اس کا بازو اب تک مرم کے کانپتے ہاتھوں میں تھا۔ ایک ناراض سی نظر اس پر ڈال کر مرم نے اگلا قدم بڑھایا، مگر اگلے ہی لمحے دہشت سے پاؤں واپس کھینچ لیا کیوں کہ اس کے قدم بڑھاتے ہی ان چغہ پوشوں کے جھکے سر اٹھے تھے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});