مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

سترہ سال کی عمر میں ہی میں نے اپنا خرچہ خود اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ بہت چاہ کر بھی میں کالج نہیں چھوڑ سکا تھا۔ ایک تو بابا نے بہت ارمانوں سے مجھے مظفرآباد کے ایک سرکاری کالج میں داخلہ دلوایا تھا۔ مجھے اعلیٰ تعلیم دلوانا اس کا خواب تھا اور بابا کا یہ خواب میں ہر صورت پورا کرنا چاہتا تھااور دوسری وجہ تھی کشمالا۔میںجانتا تھا کہ کشمالا لاہور کے ایک نجی کالج میں پڑھ رہی ہے۔ اسی لیے اس کے قابل بننے کے لیے مجھے بھی تعلیم یافتہ ہونا ہے اور اسی سوچ نے مجھے حوصلہ دیا تھا جو میں یہ غم خاموشی سے سہہ گیا ورنہ شروع شروع میں میرا بھی دریا میں کود کر مرنے کا دل چاہا تھا۔ میں ایسا کر بھی گزرتا اگر وہاں پتھر پر بیٹھے ہوئے مجھے اپنی اور کشمالا کی باتیں اور فیروز انکل کا مثبت جواب یاد نہ آ جاتا۔ صرف کشمالا کے خیال نے ہی مجھ میں جینے کی ایک نئی امنگ پیدا کر دی تھی۔ صبح صبح کیرن سے مظفرآباد کا چار گھنٹے کا طویل سفر کر کے میں کالج پہنچتا تھا۔ ایک بجے تک وہاں سے فارغ ہو کر مظفرآباد کے ایک نجی ہوٹل پہنچتا جہاں میں پاکستان کے دوسرے علاقوں سمیت دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو بطور سیاحتی راہنما وادی نیلم کی سیر کرواتا تھا۔ پورا دن سیاحوں کو قدرتی حسن سے مالا مال کیل، پرستان جیسی کشش رکھتا گاؤں کٹن، کنڈل شاہی اور اٹھمقام کی دھند اور بادلوں سے اٹی سرسبز وادیاں ، کیرن کے روح پرور نظارے اور شاردا کے سردی کے موسم میں جمے دریا کے ساتھ ساتھ آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھتے سیاحوں کے لیے بدھسٹ دور کی یونیورسٹی بھی وزٹ کرواکرتا تھا۔ ان علاقوںسمیت میںچٹا کتھا جھیل، شاونٹر جھیل اور رتی گلی جھیل وغیرہ کی معلومات بھی تفصیلا فراہم کرتا تھا۔ کالج کے جس مہربان ٹیچر نے مجھے یہ ملازمت دلوائی تھی انہوں نے ہی خصوصی محنت کر کے میری انگریزی کو اس قابل بنا دیا کہ میں غیر ملکی سیاحوں سے بغیر کسی دشواری کے بات کر سکوں۔ اپنے گھر والوں سے زیادہ مجھے ان سیاحوں میں رہنا اچھا لگتا جو میری رنگت پر چوٹ نہیں کرتے تھے بلکہ بہت جوش اور دل چسپی سے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں کے متعلق سنتے تھے۔
اپنے گھر والوں سے میرا تعلق پہلے بھی برائے نام تھا اور اب بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ رات گئے جب میں گھر لوٹتا تو سب سو چکے ہوتے۔ ولی جس نے باپ کا سارا کاروبار سنبھال لیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں سارا دن آوارہ گردی میں گزارتا ہوں۔ باقی گھر والوں کے بھی کچھ ایسے ہی خیالات تھے، مگر مجھے اب ان لوگوں کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیوںکہ میں جانتا تھا کہ جلد یا بدیر مجھے یہاں سے جانا ہی ہے کہ میں کشمالا کو اس گھٹن زدہ ماحول میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اس ایک سال اور چار ماہ میں، میں کشمالا کو شدت سے چاہنے لگا تھا۔ کسی امربیل کی طرح کشمالا فیروز کی محبت سانول کے دل میں پروان چڑھی تھی۔ میرا مقصدِ حیات ہی اب پڑھ لکھ کر اچھی نوکری کر کے کشمالا کو حاصل کرنا تھا۔ جب کبھی میں مایوس ہو کر تھک جاتا، تو صرف کشمالا کی محبت ہی دوبارہ ہمت کرنے پر اکساتی۔ یہ محبت شاید میری زادِ راہ تھی۔ اس کٹھن اور جد و جہد سے بھرپور سفر میں میری واحد ہم سفر۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سیاہ چیتا ناجانے کیسے علاقہ غیر میں داخل ہو گیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ جان نہیں پایا تھا کہ وہ بھٹک کر اپنی راجدھانی کے علاقے سے بہت دور آچکا تھا یا پھر شاید وہ جان بوجھ کر وہاں داخل ہوا تھا۔ شاید اسے اپنی چستی اورقوت پر بہت زیادہ ناز تھا جبھی وہاں چلا آیا جو بھی تھا، مگر اب وہ نہایت ہوشیاری اور احتیاط سے اپنی بھوک مٹانے کا کوئی سامان ڈھونڈ رہا تھا۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس کی موجودگی کا احساس اس کی سنہری چمکتی آنکھوں سے ہو رہا تھا یا پھر اس کی سیاہ لمبی دم کی سرسراہٹ سے۔
اپنی خوف ناک چمکتی آنکھوں کو وہ بہت پھرتی سے دائیں بائیں گھوما رہا تھا کہ کہیں کسی شکار کا سراغ مل جائے۔ چند لمحوں بعد وہچونک کر رک گیا پھر اس نے ایک ان دیکھے دائرے کے گرد دو سے تین چکر لگائے۔ وہ اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے میں مگن تھا کہ اچانک خاموش فضا میں کہیں سے ایک خوفناک غراہٹ گونجی اور اس کا جواب بہت سی ایسی ہی وحشت ناک غراہٹوں سے دیا گیا۔ شاید اس علاقے کا اصل بادشاہ اپنی ”فوج” سمیت وہاں پہنچ چکا تھا۔ سیاہ چیتا اب گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔
اب اندھیری رات میں مزید چمکتی آنکھیں پودوں اور جھاڑیوں میں سے جھلکتی دکھائی دے رہی تھیں اور پھر بہت آہستہ آہستہ تمام آنکھیں جھاڑیوں میں سے نکل کر اس سیاہ چیتے کے رو برو آتی گئیں۔ لگ بھگ آٹھ سے دس بھورے چیتے اس کو خون خوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
سیاہ چیتے کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا تھا کیوںکہ اب وہ غیر محسوس طریقے سے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ شاید وہ جان چکا تھا کہ وہ واقعی ”غیر” کا علاقہ تھا۔ اس کے مقابل کھڑے تمام چیتوں کی ”نسل” اِس کی اپنی ”نسل” سے مختلف تھی۔ وہ سب اسے ”غیر” نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ وہاں تنہا تھا اور اس کے بھوکے وجود میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ان سب کا مقابلہ کر پاتا۔ وہ تمام اب بھی غراتے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہے تھے اور چند ہی لمحوں میں ان تمام چیتوں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ سیاہ چیتا بھی اب غرانے لگا تھا اور مسلسل چکر کاٹ رہا تھا۔ گھیرا لمحہ با لمحہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ سیاہ چیتے کو اپنی موت چند قدموں کے فاصلے پر دکھائی دے رہی تھی، لیکن اگلے ہی لمحے ایک سفید چیتا منظر میں نمودار ہوا تھا جو پھرتی سے پھلانگتے ہوئے اس سیاہ چیتے کی مدد کو آن پہنچا تھا، مگر…
اس خواب کی دہشت سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ چند لمحے وہ سکتے کی حالت میں یوں ہی پڑا اپنے سفری خیمے کی چھت کو گھورتا رہا۔پھر اس عجیب و غریب اور دہشت ناک خواب کو ذہن سے جھٹک کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا، مگر چند لمحوں بعد وہ گہری سانس لے کر اٹھ بیٹھا کیوں کہ وہ اس خواب کے ساتھ ساتھ بے ہنگم موسیقی کی آوازوں سے اپنی توجہ ہٹا نہیں پا رہا تھا جو نزدیک ہی کہیں سے آ رہی تھیں۔ کچھ سوچ کر وہ خیمے سے باہر آ گیا۔ برقی قمقموں کی طرح ستاروں نے رات کو روشن کیا ہوا تھا۔ چند منچلے لڑکے اچھلتے کودتے، گٹار بجاتے اپنے لمحوں کو یادگار بنا رہے تھے۔گویا آج رات سے ہی وہ ”باڈی اینڈ سول” میلے کا آغاز کر چکے تھے۔ واپس خیمے میں جانے کا ارادہ ترک کر کے اس نے مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا کہ اسے اس وقت اپنے ارد گرد آوازوں کی سخت طلب ہو رہی تھی تاکہ وہ اپنے اندر کے شور کو دبا سکے۔ ان پر ایک نظر ڈال کر وہ جھیل کی سمت بڑھنے لگا۔ وہاں بھی چند لڑکے موجود تھے اور ان کے انداز و اطوار سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ سب نشے میں تھے۔ اس نے اپنے قدم مخالف سمت بڑھا لیے۔ چند قدم چل کر وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ وہاں جھیل کنارے مرم بیٹھی ہوئی تھی اور بہت محویت سے پانی میں پڑتے چاند کے عکس کو تک رہی تھی۔ ایک لمحے کو مڑ کر اس نے ان لڑکوں کو دیکھا اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے نزدیک پہنچ گیا۔
”ایڈونچر اور پاگل پن میں بہت فرق ہوتا ہے مس مرم داد۔” وہ سخت لہجے میں بولا۔ چونک کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہ کڑے تیور لیے اسے گھور رہا تھا۔
” مطلب؟” اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
”تمہیں وہ لڑکے نظر نہیں آ رہے کیا؟ اس طرح یہاں تنہا بیٹھنے کی تک کیا بنتی ہے؟ وہ بھی رات کے اس پہر۔” وہ چاہ کر بھی اپنا غصہ کم نہیں کر پایا۔
”اوہ اب سمجھی میں۔” اس نے ایک نظر ان لڑکوں کی جانب دیکھا۔
” تو تمہیں میرے یہاں تنہا بیٹھنے پر اعتراض ہے؟ تو چلو تم بیٹھ جاؤ میرے ساتھ پھر میں تنہا نہیں ہوں گی ۔” اس نے چٹکی بجاتے ہوئے حل پیش کیا۔
”تم اچھی طرح جانتی ہو میں کیا کہہ رہا ہوں۔وہ لڑکے اگر کوئی بدتمیزی کرتے۔” اس کی بے پروائی نے جیف کو اچھا خاصا تپا دیا تھا۔
”ہاں تو اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ تم بیٹھ جاؤ یہاں۔ تمہیں میرے ساتھ دیکھیں گے تو میرے ساتھ بدتمیزی کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔” مرم نے اس کی بات کاٹ کر اپنی پیش کش کی وضاحت کی اور پھر دوبارہ چہرہ جھیل کی جانب موڑ لیا۔
”تو تم نہیں ہلو گی یہاں سے؟”
”نہیں فی الحال موڈ نہیں میرا۔ ابھی مجھے چاند کے عکس کو مزید دیکھنا ہے۔” اس کی بے نیازی عروج پر تھی غالباً۔ جیف ایک گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
”اب بیٹھ بھی جاؤ یا یونہی کھڑے کھڑے میری نگرانی کرو گے۔” وہ اس کی جانب دیکھے بغیر بولی۔ نہ جانے کیوں جیف کو محسوس ہوا کہ اس کا لہجہ متبسم تھا۔ چند لمحوں بعد وہ اس کے برابر تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گیا اور اپنا اسمارٹ فون نکال کر یوں ہی وقت گزاری کرنے لگا۔ کافی دیر دونوں کے بیچ خاموشی چھائی رہی۔ دونوں اپنے اپنے مشغلوں میں مگن ایک دوسرے کے بولنے کا انتظار کرتے رہے۔
”ویسے ایک بات تو بتاؤ یہ تمہیں میری اتنی فکر کس وجہ سے رہتی ہے کہ تمہیں میرا اکیلے کہیں جانا اچھا نہیں لگتا؟” وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ جیف ابھی کچھ بولنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ وہ مزید گویا ہوئی۔
”اور دیکھو ہمیشہ کی طرح وہ فضول بہانہ مت گھڑنا کہ تم دوست ہو، ذمے داری ہو وغیرہ وغیرہ۔” مرم نے بہت ہوشیاری سے اس کے منہ کے الفاظ چھین لیے تھے کہ وہ یہی سب کہنے جا رہا تھا۔
”یہ بہانہ نہیں حقیقت ہے۔” اسکرین پر سے نظریں ہٹا کر اس نے ٹھہراؤ اور متانت سے جواب دیا۔
”مجھے اس بہانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا تمہارے دل کو ہے۔” ایک ہی جملے میں مرم نے اسے جتا دیا کہ وہ اس بہانے کی حقیقت اور اس کے دل کی حقیقت سب سے واقف ہے۔ جیف نے مزید بات کرنے کے بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
”ویسے بہانے سے یاد آیا میں نے تمہیں بلارنی میں ایک ٹاسک دیا تھا، تو پھر سوچا کوئی بہانہ جس سے مجھے مطمئن کر سکو؟ آج بتا ہی دو۔” مرم نے اچانک ہی آر یا پار کا فیصلہ کیا ۔
”تم میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکو گی کبھی۔” فون اسکرین پر نظریں جمائے وہ دھیمے سے بڑبڑایا۔
”اچھا وہ کیوں؟” ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے دل چسپی سے پوچھا۔
”جب لوگ ہمیں ایک ساتھ کھڑا دیکھ کر تمہاری بے وقوفی پر ہنسیں گے تب تمہیں احساس ہو گا کہ مجھ سے شادی کر کے تم نے غلطی کی ہے۔ تب پھر کیسے خوش رہ سکو گی تم؟ اور کیا تم میرے لیے اپنی موری اور دادا کو چھوڑ دو گی؟ کیوں کہ میں جانتا ہوں وہ کبھی اس شادی کے لیے راضی نہیں ہوں گے، تو کیا تم ان کے بغیر خوش رہو گی؟ نہیں کبھی نہیں۔” ازلی سنجیدگی سمیت وہ قطعیت سے بولا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا تم ایسا بھی سوچ سکتے ہو؟ میں سمجھتی تھی تم احساس برتری کا شکار ہو، مگر نہیں… مجھے یہ جان کر حیرت ہو رہی ہے کہ تم تو احساس کمتری میں مبتلا ہو۔ جیف ابراہیم جسے ایک دنیا پسند کرتی ہے وہ ایسا بھی سوچ سکتا ہے خود کے بارے میں؟” بے یقین نظریں اس کے چہرے پر گاڑ کو وہ استعجاب سے بولی۔
”ہاں ہوں میں احساس کمتری کا شکار کیوں کہ دنیا نے مجھے یہی ایک چیز تو دی ہے۔ کم تر اور محروم ہونے کا احساس۔ تمہیں کوئی حق نہیں مجھے یوں جج کرنے کا۔” وہ تلخی سے بولا۔ پھر چہرہ اس کی جانب کیا۔
”اور تم جو مجھ سے انکار کی وجہ پوچھنے چلی ہو کیا تمہارے پاس کوئی ایک وجہ ہے ایسی جو مجھے قائل کر سکے تم سے شادی پر؟ ہے کوئی دلیل؟ بولو؟”
”میرے پاس ایک ہی مضبوط دلیل ہے۔محبت۔” وہ پرسکون لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولی۔
”میں اس سفر میں تمہاری وجہ سے آئی تھی۔ تمہارے لیے آئی تھی۔ تمہیں قریب سے جاننے کے لیے۔ تمہیں سمجھنے، تم سے باتیں کرنے کے لیے۔ تمہاری شخصیت نے ایک سحر پھونک دیا تھا تبھی سب چھوڑ چھاڑ کر میں پردیسی لوگوں کے ساتھ چلی آئی، مگر نہ جانے کیوں تم میرے لیے کبھی اجنبی نہیں رہے۔” وہ دم سادھے اسے سن رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں حیرت کا تاثر بہت نمایاں تھا۔
”دنیا سے خفا، اداس اور بے نیاز مسٹر ٹریولر سے میں دل کی تمام تر شدتوں سے محبت کر تی ہوں اور اسی ایک وجہ کے سہارے میں اپنی پوری زندگی خوشی خوشی اس کے ساتھ بتا سکتی ہوں۔” پر اعتماد لہجے میں آئر لینڈ کی نڈر ”کالن” نے اپنی دلی کیفیت بیان کر دی۔ اظہار محبت کر کے وہ بہت مطمئن اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے چہرے کی روشنی کئی گنا بڑھ گئی تھی۔
”ہونہہ محبت۔ میرے سامنے یہ الفظ استعمال مت کرنا۔ نفرت ہے مجھے محبت نام کے جذبے سے۔” وہ طنزیہ انداز سے بولا۔
”تم جانتی کیا ہو میرے بارے میں؟ میرے ماضی کے بارے ؟ نام تک تو جانتی نہیں ہو تم میرا اور چاہتی ہو شادی کر لوں میں تم سے۔” اس کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ وہ اس کے ایک بھی لفظ سے متاثر نہیں ہوا۔
”تو بتاؤ نا مجھے اپنے بارے میں سب؟ آج وہ سب کہہ ڈالو جو اتنے سالوں سے تم اپنے اندر چھپائے بیٹھے ہو۔” مرم کو اس کی بے اعتباری سے دکھ تو پہنچا تھا، مگر اس کا رویہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اس کے محتاط رویے کو دیکھتے ہوئے مرم نے ہمیشہ ایسا ہی ردعمل سوچا تھا۔ سو بڑے صبر سے اس نے یہ الفاظ برداشت کر لیے۔ وہ جانتی تھی کہ آج رات اگر سب جان لینے کا موقع اس نے گنوا دیا، تو پھر یہ لمحہ پلٹ کر نہیں آئے گا۔ وہ سر جھکائے اپنے جوتوں کی جانب دیکھ رہا تھا اور مرم اس کو… بہت سے لمحے یوں ہی خاموشی سے سرکتے گئے۔
”میرا نام جبرائیل ہے،جبرائیل ابراہیم۔ ابراہیم میرے والد کا نام تھا سو اپنے ماضی میں سے میں نے صرف ان کا نام ہی لیا۔ باقی سب میں ان فضاؤں میں ہی چھوڑ آیا تھا۔” وہ کتاب ماضی کا ایک ایک ورق مرم کو سنا رہا تھا۔
٭…٭…٭
دو تین دن سے میں عجیب قسم کی بے چینی کا شکار تھا جس کی وجہ وہ انکار تھا جو میں نے اس گورے سیاح کو کیا تھا۔ مائیکل انگلینڈ سے یہاں وادی نیلم پر دستاویزی فلمیں بنانے آیا تھا۔ میں نے بھی ایک دو مرتبہ ان فلموں میں متعلقہ جگہ کی معلومات بتائی تھیں۔ اس کے لیے کام کرنے پر اس نے مجھے معاوضہ بھی ادا کیا تھا جو میں نے مائیکل کے بے حد اصرار پر مجبوراً لیا اور اب تین دن پہلے اس نے مجھے اپنے ساتھ باقاعدہ کام کرنے کی پیش کش کی تھی ایک معقول معاوضے سمیت۔ دراصل اسے میرے بولنے کا انداز بہت پسند آیا تھا کہ میں مختصر الفاظ میں بہت مہارت سے پوری بات سمجھا دیتا تھا۔ میری آواز میں کچھ ایسا جادو تھا جو سامع کی دل چسپی کو برقرار رکھتا تھا ورنہ مائیکل کا کہنا تھا کہ اس نے ایسی بہت سی دستاویزی فلمیںدیکھی تھیں جنہیں کو دیکھ کر کوئی بے خوابی کا مریض بھی سو سکتا تھا۔ وہ اب پاکستان کے دیگر شمالی علاقوں کی طرف سفر شروع کرنے والا تھا اور چاہتا تھا کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔ جب اس نے مجھے یہ پیش کش کی تو ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر میں نے انکار کر دیا۔ وجہ اس بار بھی کشمالا ہی تھی اور جلد ہی میری اس بے چینی کا خاتمہ ہو گیا، مگر…
کالج میں امتحانات ہو رہے تھے سو ہوٹل سے چھٹی لے کر میں گھر میں بیٹھا پڑھنے میں مصروف تھا جب پھپھو سمیت فیروز انکل اور کشمالا کی آمد ہوئی۔ فیروز انکل جو بابا کی ڈیتھ پر نہیں آسکے تھے بہت دیر تک مجھے سینے سے لپٹا کر روتے رہے۔ شاید اپنی آخری ملاقات کو یاد کر کے۔ پھپھو ہمیشہ کی طرح سردمہری سے ملیں جب کہ کشمالا کا وہی دوستانہ رویہ تھا اور جب اس نے ان لوگوں کے آنے کا مقصد بتایا، تو میں حیران رہ گیا۔ وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ لاہور لے جانے آئے تھے۔
”مجھے تو بڑی خوشی ہوئی جب بابا نے بتایا کہ اب تم ہمارے ساتھ ہی رہو گے۔ مزہ آئے گا بہت، ہم ڈھیروں باتیں کیا کریں گے۔ بابا کا یہ فیصلہ مجھے بہت پسند آیا۔ اچھا ہے تمہیں یہاں کے بے حس لوگوں سے نجات تو ملے گی۔” ہمیشہ کی طرح وہ بغیر رکے بولے جا رہی تھی جب کہ میں حیرت سے سوچ رہا تھا کہ کیا فیروز انکل نے اسے سب بتا دیا ہے کہ مستقبل میں ہمارا کیا تعلق بندھنے جا رہا ہے؟ میں نے کشمالا کے چہرے پر حیا کی لالی کھوجنا چاہی، مگر وہاں ازلی بے پروائی ہی تھی۔
یک دم ہی مجھے ڈھیر ساری خوشی نے آگھیرا۔ مجھے اپنے انکار کے سو فیصد درست ہونے کا ادراک ہوا۔ اگر میں مائیکل سے حامی بھر لیتا تو مجھے فیروز انکل کو انکار کرنا پڑتا کہ میں ایک غیر ملکی کی نظر میں وعدہ خلاف نہیں بننا چاہتا تھا اور فیروز انکل کو ناراض میں مر کر بھی نہیں کر سکتا تھا۔
دو دن تو معمول کے مطابق ہی گزرے۔ ایک دو مرتبہ میں نے بڑوں کو آپس میں رازو نیاز کرتے بھی دیکھا، مگر ٹوہ لینا ضروری نہیں سمجھا۔ تیسرے دن جب میں امتحان دے کر آیا، تو گھر میں غیر معمولی ہلچل کا احساس ہوا۔ تمام لوگ صحن میں ہی بیٹھے تھے اور میرے داخل ہونے پر سب نے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ بہن بھائیوں کی آنکھوں میں طنز اور استہزا تھا، دادی اور پھپھو کی آنکھوں میں حقارت اور سردمہری، ماں کی آنکھوں میں کوئی ناقابل فہم جذبہ۔ جب کہ فیروز انکل کی آنکھوں میں شرمندگی۔ ابھی میں ان لوگوں کی طرف بڑھ ہی رہا تھا معاملہ پوچھنے کہ ایک کمرے سے نکل کر کشمالا تیزی سے میرے مقابل آ کر کھڑی ہو گئی۔
”مسٹر جبرائیل ابراہیم عرف سانول تمہیں کیا لگتا ہے، میں تم جیسے سے شادی کرنا پسند کروں گی؟” وہ آہانت آمیز لہجے میں چلائی۔
”میری ہم دردی اور ترس کو نہ جانے ابراہیم انکل نے کیا سمجھا جو میرا رشتہ تم جیسے دبو، نیم پاگل، ناکارہ اور دیہاتی شخص سے طے کر دیا اور میرے باپ نے قبول بھی کر لیا، مگر میں اس منگنی کو نہیں مانتی۔ میں ولی جیسے خوبصورت اور مکمل شخص سے شادی نہ کروں کہ یہ ایک پینڈو دیہاتی ہے تو تم کیا چیز ہو جسے ساری زندگی صرف حقارت اور تمسخر ہی سے دیکھا گیا ہے۔ تم جیسوں سے دوستی اور ہم دردی تو کی جا سکتی ہے، مگر شادی نہیں۔ تم تو اپنا دفاع تک کرنا نہیں جانتے۔ بے غیرتوں کی طرح ہر ایک کی سنتے رہتے ہو اور مجھے بے غیرت مردوں سے شدید نفرت ہے ۔” کشمالا کی آنکھوں اور زبان سے شعلے نکل رہے تھے جب کہ میری نظریں اپنے جوتوں کی نوک پر جمی ہوئی تھیں۔ کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس دو سالہ محبت کا اتنا بھیانک انجام ہو گا۔
”تمہاری ماں چاہتی ہے کہ تمہیں لے جانے سے پہلے ہمارا نکاح ہو جائے تاکہ تمہارا مستقبل محفوظ ہو جائے۔” وہ تمسخر سے ہنسی۔
”ساری زندگی تم سے نفرت کرنے والی کو آج نہ جانے کیوں تمہاری فکر ہو گئی؟ میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ انہیں یہ فکر ہے کہ کہیں تم واپس نہ آ جاؤ دوبارہ اپنا یہ کالا سیاہ چہرہ دکھانے ان جیسی حسن پرست عورت کو۔” اس بات پر بہت تڑپ کر میں نے پہلے کشمالا کے لال انگارہ چہرے کو دیکھا اور پھر ایک شکوہ کرتی نظر، نظریں چراتی اماں پر ڈالی۔ کیا کوئی ماں اتنی حسن پرست بھی ہو سکتی ہے کہ ”صرف” رنگت کی وجہ سے اولاد سے نفرت کرے؟ مگر یہ ”صرف” تو میرے لیے ہی تھا۔ باقیوں کے لیے تو یہ ”بہت” کچھ تھا۔
”میرے حساب سے تو تمہیں بہت پہلے ہی دریا میں ڈوب کر مر جانا چاہیے تھا، مگر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ تم ایک کام کیوں نہیں کرتے؟ تھوڑا وقت نکال کر مر جاؤ۔ خود بھی سکون میں رہو گے اور دوسرے بھی۔” تند لہجے میں اسے مشورہ دے کر وہ سب پر نگاہ غلط ڈالے بغیر باہر نکل گئی۔
اگر وہ بادشاہ ہوتا تو کوئی بات بھی ہوتی
سنا ہے بادشاہوں کو دیں ایسا کوئی نذرانہ
جو ہر تحفے سے بڑھ کر ہو
تو اپنی بادشاہی تک لٹا دیتے ہیں وہ اکثر
محبت ہے ہمارے پاس
مگر وہ بادشاہ کب ہے
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!