ما بہ ھم نمی رسیم۔ (نہیں ممکن ہمارا ملن)
مثل خورشیدیم و ماہ ( سورج اور چاند کی مانند)
تن تو خاک بہشت (تیرا تن جنتی مٹی کی طرح پاک)
تن من پر از گناہ ( میرا تن گناہوں سے بھرا ہوا، ناپاک)
جون کی ایک اور سنہری شام ڈھلنے کو تھی۔ گزشتہ دن کی بارش نے قلعے کے باغات کو مزید دل رُبا اور شاداب بنا دیا تھا۔ وہ ہیڈفون کانوں میں لگائے باغ کے ایک ویران گوشے میں چہل قدمی کر رہی تھی۔ پچھلے ڈیڑھ دن سے اس کی جیف سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ بارش کی وجہ سے شوٹنگ ملتوی ہو گئی تھی سو اسے پہلی بار آئرلینڈ کی غیر متوقع بارشوں پر غصہ نہیں آیا تھا کیوں کہ ان بارشوں نے اس سے نہ ملنے کا اچھا موقع فراہم کر دیا تھا۔ وہ ناشتا اور کھانا سب اپنے کمرے میں ہی کر رہی تھی ۔ پیٹر اور ڈینیل کئی بار اس سے ملنے آ چکے تھے اور انہوں نے بہت مرتبہ اس سے اِس حوالے سے بات کرنے کی کوشش بھی کی، مگر اس نے دو ٹوک انداز میں انہیں مزید اس پر بات کرنے سے روک دیا تھا۔ وہ ایک بار پھر ان دونوں کے سامنے ٹھکرائے جانے کی یاد تازہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ایک مرتبہ پھر جیف کا سرد لہجہ یاد کرنے کی کوئی آرزو نہیں تھی اسے۔
تویی یک روز بہار ( تو بہار کا اک دلکش دن)
یار تو خورشید گرم ( گرماتے سورج کا ساتھی تیرا من)
من شبی بی ہمد مم (میں ایک تنہا رات)
یک شب سرد و سیاہ (ایک سرد، سیاہ رات)
غائب دماغی کی کیفیت میں وہ اچانک سے رکی اور اپنے دائیں ہاتھ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی۔اسے ایک دم اپنا ہاتھ خالی خالی لگا۔اس خاص انگوٹھی کو وہاں سجے زیادہ دن بھی نہیں ہوئے تھے، مگر اسے لگا کہ ناجانے ایسا کیا تھا اس میں جو وہ انگوٹھی اپنے ساتھ اس کے ہاتھ کی تمام کشش بھی لی جا چکی تھی۔ اپنے تمام اعضا میں اسے یہ ہاتھ ہی تو سب سے زیادہ پسند تھے۔ لامبی ، مخروطی انگلیوں سے سجے نازک گورے ہاتھ۔ جیسے کسی مصور نے بہت محنت اور محبت سے انہیں تراشا ہو، مگر وہی ہاتھ اب اسے نہایت عام سے دکھائی دے رہے تھے۔
”چند دن پہلے سب اتنا مختلف اور اچھا تھا نا۔ ان ہاتھوں سمیت میری زندگی بھی، مگر اب۔” ایک تلخ سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا۔ سر جھٹک کر وہ ایک مرتبہ پھر گانے کے بول کی طرف متوجہ ہو گئی۔
تویی یک مرغ سپید ( تو ایک سپید پرندہ)
عاشق چشمہ و نور (چشموں اور روشںیوں کا عاشق)
من گل آلودہ و تلخ (میں کیچڑ میں کھلا آلودہ اور تلخ پھول)
قطرہ آبی تہ چاہ ( جیسے کنویں کی تہ میں پانی کے قطرے کی دھول)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
گوگوش کا یہ گانا اسے بہت پسند تھا اور خوبصورت الفاظ کی وجہ سے اکثر اِس گانے کو سنتی بھی تھی، مگر آج سے پہلے کبھی اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ اِس گانے کو اپنی ذات سے منسوب کر سکے گی۔ ایک بار اس کی سوچیں وہیں بھٹک گئیں۔
” ناجانے کب سے میں اس سے محبت کرتی آ رہی ہوں۔ شاید پہلی ملاقات کے پہلے لمحے سے یا پھر جب میں نے اِس کی سحر انگیز آواز میں اس کی تمام ویڈیوز دیکھی تھیں۔ کہیں بہت اندر میرے دِل میں یہ خواہش جاگی تھی کہ میں اسے بس سنتی رہوں۔ شاید اسی وجہ سے میں نے ان کے ساتھ یہاں تک آنے کی حامی بھری اور جب موری اور ددا مجھ سے اصل وجہ پوچھ رہے تھے تب بھی میرے دِل نے بہت چپکے سے زبان سے ادا ہوئے الفاظ کی نفی کی تھی۔ پھر جوں جوں مجھ پر اس کی خوبیاں کھلتی گئیں تو میری پسند گہری انسیت اور محبت میں بدلتی گئی۔ مجھ جیسی سر پھری لڑکی جسے باتوں میں کوئی ہرا نہیں سکتا تھا صرف وہی مجھے اپنے ہی کہے الفاظ میں الجھانے کا فن جانتا تھا۔ تو پھر میں کیسے اس کی طرف ملتفت نہ ہوتی، مگر اس نے میرے ساتھ کیا کیا ؟” اس کے ذہن میں اپنی سالگرہ کے دن والا منظر آیا جب وہ اسے تحفہ دے رہا تھا اور جب اسی رات اپنے کمرے میں اس نے بچوں کی طرح اچھل اچھل کر خوشی کے نعرے لگائے تھے۔ اس رات وہ خوشی اور جوش سے بے قابو ہو رہی تھی۔اس یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ابراہیم نے اسے کلاڈہ رنگ دی ہے۔اِس نے تو سوچا تھا کہ ابراہیم کو اپنے دِل کی بات بتانے اور پھر شادی پر آمادہ کرنے کے لیے اسے اچھی خاصی بحث اور سر کھپائی کرنی پڑے گی، کیوںکہ اِس کے خیال میں وہ اتنی آسانی سے مانے والا نہیں تھا، مگر رنگ دے کر اِس نے مرم کو واقعی حیران کر دیا تھا۔ اِس ایک رات میں اِس نے اپنے خوابوں کو جو ناجانے کب سے اِس کی پلکوں میں بس رہے تھے، انہیں شرمندہ تعبیر ہوتا محسوس کر لیا تھا۔ اِس ایک رات میں اس نے فرش سے عرش تک کا سفر طے کیا ، مگر اس کے سخت الفاظ نے اسے لمحوں ہی میں دوبارہ فرش پر دھکیل دیا تھا۔
تویی در راہ سفر (تو راہ کا مسافر)
سفری دور و دراز (اک دور اور طویل سفر کا مسافر)
تن بی قدرت من عاجز از این ہمہ را (اس سفر پر جانے کی قدرت نہیں رکھتا میرا کم زور بدن)
ما بہ ھم نمی رسیم (نہیں ممکن ہمارا ملن)
”کتنی بڑی بے وقوف ہوں نا میں جو بنا کچھ سوچے سمجھے اس تحفے کا وہ مطلب نکال لیا۔کیا میں جانتی نہیں تھی اسے؟ کیسے وہ اتنی آسانی سے مان سکتا تھا بھلا؟ کیسے میرے جذبوں کی پزیرائی کر سکتا تھا؟ اپنے گرد جو بے حسی کی دیواریں اس نے کھڑی کر رکھی ہیں ان سے واقف ہونے کے باوجود کیسے میں نے یقین کر لیا اپنی خود ساختہ سوچ پر؟ اس نے ترس کھا کر مجھے رنگ دے دی کہ یہ تو افورڈ نہیں کر سکتی اتنی مہنگی رنگ تو کیوں نہ میں ہی یہ دے دوں۔ ہونہہ بے حس آدمی۔ میں کیوں اس کے لیے اپنا خون جلا رہی ہوں، دفع کرو مرم اسے۔ وہ قابل ہی نہیں کہ اس کے بارے میں اچھا، برا کچھ بھی سوچا جائے۔” ایک بار پھر اپنے سر کو جھٹک کر اس نے دماغ کو مزید سوچنے سے روکا۔
پہلا گانا کب کا ختم ہو چکا تھا اور اب ایک اور گانا اِس کی سماعت میں گونج رہا تھا۔انگریزی گلوکارہ للکارتے اندازِ میں بار بار دہرا رہی تھی۔
21 st century girl
i do what I like
i m born to be wild
i am a rebel
21 st century girl
a beautiful life
us walking side by side
اِس گانے کے بول اسے راستہ دکھا رہے تھے ۔ اپنی غم زدہ کیفیت سے وہ باہر آرہی تھی دھیرے دھیرے۔اس کے لب بے ساختہ مسکرا اٹھے ۔
21 st century girl
i set the boundaries
its the new girl thinking
and this sond is just the start!
”ہاں وہ اکیسویں صدی کی باہمت اور با اعتماد لڑکی تھی۔ اپنا رستہ خود بنانے والی۔ جو سوچ لیا اسی پر ڈٹ جانے والی۔ باغی طبیعت کی مالک۔ کسی بھی چیز کو ایسے ہی قبول نہ کرنے والی۔ایسے کیسے ہار مان سکتی تھی وہ ؟” وہ یہ سب سوچ رہی تھی تبھی اسے جیف آتا دکھائی دیا۔ اس نے بھی مرم کو دیکھ لیا تھا، مگر وہ بے تاثر اندازِ میں اس کی مخالف سمت مڑ گیا۔ یک دم اس کے دِل میں ناجانے کیا سمائی کہ وہ اس کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ اس کے قدموں میں مضبوطی اور چال میں اعتماد تھا جیسے واقعی دنیا فتح کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور اِس کی دنیا فی الحال جیف ابراہیم پر ختم ہوتی تھی۔
٭…٭…٭
”ابراہیم بات سنو میری تم کہاں بھاگ رہے ہو، مجھے بات کرنی ہے تم سے۔” مرم کی پکار پر اس نے اپنے قدموں کی رفتار خاصی تیز کر لی تھی، مگر مقابل بھی پھر مرم داد ہی تھی۔
”میں تمہیں اس طرح منہ چھپا کر بھاگنے نہیں دوں گی۔ تمہیں میری بات سننا ہی ہو گی۔” تیز بھاگنے کی وجہ سے وہ ہانپ رہی تھی۔ اس کی بات کا سو فیصد نتیجہ نکلا تھا۔وہ جو آگے بڑھ رہا تھا یک دم کڑے تیوروں سمیت پیچھے مڑا۔
”اپنی حد میں رہو۔” کینہ توز نظروں سے اسے گھورتے ہوئے وہ غرایا، مگر مخاطب پر کچھ خاص اثر نہ ہوا۔
”تم نے کبھی بتائی ہی نہیں میری حد۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے شان بے نیازی سے کہا۔
”تم اب کیا چاہتی ہو؟ واضح الفاظ میں بتا چکا ہوں کہ مجھے تم میں کوئی دل چسپی نہیں ہے؟” اب کہ اس کا لہجہ بے زار کن تھا۔
”کیوں؟” تحمل اور سنجیدگی سے پوچھا گیا۔
”کیوں؟” وہ تعجب سے بڑبڑایا۔
”کیوں کا کیا مطلب ہے؟ نہیں ہے تو نہیں ہے۔” وہ اس لڑکی کی باتوں پر جتنا حیران ہوتا کم تھا۔
”مجھے یہی جاننا ہے کہ کیوں تمہیں مجھ سے شادی میں دل چسپی نہیں ہے جب کہ تم کہیں اور کمیٹڈ بھی نہیں ہو ؟ اس عدم دل چسپی کی وجہ جاننا چاہتی ہوں میں اور بس۔” وہ پرسکون انداز میں پوچھ رہی تھی۔
”کیوںکہ مجھے تم سے محبت نہیں۔” کچھ لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد وہ بولا۔ اس کا لہجہ ترش اور طنزیہ تھا۔
”شادی کے لیے محبت کا ہونا ضروری تو نہیں۔ بہت سے لوگ بنا محبت کے شادی کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارے کیس میں یک طرفہ محبت تو ہے ہی میری طرف سے۔ اس لیے میں اس وجہ کو نہیں مانتی۔ کوئی ایسی وجہ بتاؤ دلائل سمیت جس سے میں قائل ہو سکوں۔ میں یہی کہنے آئی تھی کہ تم مجھے قائل کر لو مضبوط دلائل دے کر میں آیندہ کبھی تمہارے راستے میں نہیں آؤں گی۔” وہ اپنے ازلی پر اعتماد لہجے میں گویا ہوئی۔ بازو سینے پر لپیٹے وہ دھیمی مسکان سمیت اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ جیف کو پہلی مرتبہ اس کے انداز و اطوار سے عجیب سا ڈر محسوس ہوا۔
”دیکھو مرم تم بات کو سمجھ نہیں رہی ہو،میں…” اب کہ وہ دھیما پڑا کیوں کہ وہ جان گیا تھا کہ تیز اور ترش لہجے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔اس سر پھری لڑکی کو کسی اور طریقے سے ہینڈل کرنا ہو گا۔
”میں سمجھ چکی ہوں بات کو کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔ سمجھی ہوں تبھی تو تم سے وجہ پوچھ رہی ہوں اور وجہ جاننا میرا بنیادی حق ہے۔ مجھے حق حاصل ہے کہ میں اپنے مسترد کیے جانے کی وجہ پوچھوں۔ تم کوئی ایک ٹھوس وجہ مجھے بتا دو میں پیچھے ہٹ جاؤں گی۔” جیف شاید اپنے الفاظ کھو چکا تھا۔ وہ بس حیرت اور بے یقینی سے سامنے کھڑی مرم کو تکے جا رہا تھا۔ وہ جب بہت دیر تک خاموش رہا تو اس نے مزید کہا۔
”میں تمہیں وقت دیتی ہوں۔تم سوچ لو،اچھی طرح سوچ سمجھ کر کوئی ایسی وجہ نکالنا جو میرے لیے قابل قبول ہو جس کا میں یقین کر لوں اور اگر ایسا نہ ہوا تو… خیر اس حوالے سے بعد میں بات کریں گے۔ چلتی ہوں اب تم جاگنگ کر سکتے ہو۔” ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتے ہوئے وہ الٹے قدموں واپس مڑ گئی۔ وہ اب بھی اسی کیفیت میں گھرااسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ وہ بغیر ”سوچے” بھی جانتا تھا کہ اس کے پاس ایسی کوئی ٹھوس ”وجہ” نہیں جس سے آئرش کالن کو قائل کیا جا سکے جس کی مٹی کی خاصیت ہی بلند حوصلہ اور پر عزم سوچ ہے۔
٭…٭…٭
”اوہ میرا مگ تو جھیل پر ہی رہ گیا۔” وہ لوگ ریسٹ ہاؤس سے چیک آؤٹ کر چکے تھے جب مرم کو خیال آیا کہ اپنا مگ وہ بلارنی کی جھیل کنارے بھول آئی ہے ۔
”کون سا مگ ؟ ” پیٹر نے بے زار لہجے میں پوچھا۔
”وہی جو ڈینیل نے گفٹ کیا تھا۔ تم لوگ گاڑی میں بیٹھو میں ابھی آتی ہوں بس پانچ منٹ میں۔” انہیں بتا کر وہ قلعے کے داخلی حصے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ تینوں بس کوفت اور بے بسی سے سر ہلا کر رہ گئے۔
”ڈینیل پلیز تم اس کے ساتھ جاؤ۔ پتا نہیں کہاں بھول آئی ہو گی وہ مگ۔ شام بھی گہری ہو رہی ہے۔ وہاں تو اب کوئی ہو گا بھی نہیں سنسان پڑا ہو گا سارا باغ۔” چند ہی منٹ گزرے ہوں گے جب جیف بے چینی سے ڈینیل سے مخاطب ہوا۔
”میں کیوں جاؤں؟ تم خود چلے جا نا اتنی ہی فکر ہے اس کی تو۔” ڈینیل نے اسے ٹکا سا جواب دیا تو وہ بے بسی سے ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
”پلیز یار دوست ہے ہماری وہ۔ اسے ایسے ویران جگہ پر اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا نا۔” اگر مرم اس کے لہجے میں چھپی فکر اور بے چینی سن لیتی تو خوشی سے پاگل ہی ہو جاتی۔ ایک طنزیہ نظر اس پر ڈال کر ڈینیل تیزی سے اس کے تعاقب میں چل پڑا۔
”ملا مگ؟” جھیل کنارے اس کے پاس پہنچ کر ڈینیل نے پوچھا۔
”ہاں شکر ہے مل گیا۔ ویسے تم کیوں آئے میں آ ہی رہی تھی۔”
”وہ تمہارا کچھ لگتا پریشان ہو رہا تھا کہ ہماری ”دوست” اکیلی سنسان جگہ پر کیسے جائے گی۔آیا بڑا دوست کہیں کا۔اتنی فکر تھی تو خود آجاتا نا۔” وہ جلے بھنے لہجے میں بولی۔
”سچ تمہیں ابراہیم نے بھیجا ہے میرے پیچھے؟ واؤ”میں جانتی تھی وہ میری پروا کرتا ہے۔ بس اوپر اوپر سے یوں ہی پوز کرتا ہے۔” واپسی کے لیے قدم بڑھاتے ہوئے وہ بے انتہا خوشی سے بولی۔
”ہاں اب تو مجھے بھی یقین ہے کہ وہ بن رہا ہے۔ کل رات مجھے بول رہا تھا کہ میں تمہیں سمجھاؤں۔ سو اپنا وعدہ پورا کر رہا ہوں۔” ایک پل کے لیے وہ رکا۔ مرم اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کا پیچھا کبھی نہ چھوڑنا بلکہ شادی کر کے اس کی ناک میں دم کر دینا۔ یہی ڈیزرو کرتا ہے وہ۔” اس نے بڑے ڈرامائی اندازمیں بات مکمل کی۔ اس کی بات سن کر مرم بے اختیار ہنستی چلی گئی۔
”مجھے یقین ہے اس نے تمہیں یہ سمجھانے کو نہیں کہا ہو گا۔” اپنی ہنسی پر قابو پا کر وہ بولی۔
”اس نے صرف یہ کہا تھا کہ تمہیں سمجھاؤں۔ یہ نہیں بتایا تھا کہ کیا سمجھانا ہے۔” ڈینیل نے ایک آنکھ دبا کر معنی خیز لہجے میں بتایا۔
”آستین کے سانپ ہو تم تو۔بے چارے ابراہیم کو پتا ہی نہیں کہ کیسا دھوکے باز اور فراڈیہ دوست ہے اس کا۔” مرم نے اسے شریر لہجے میں چھیڑا ۔
”تو اور کیا کروں ؟ اسے پاگل پن کرنے دوں؟اپنی انا میں اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔” ایڈیٹ۔”ڈینیل کے لہجے میں دوست اور بھائی کی سی فکر تھی۔
”نہیں خیر یہ انا نہیں کچھ اور ہے۔” مرم نے سنجیدگی سے اس کی بات کی نفی کی۔
”کیا کچھ اور؟”
”یہ تو ابھی میں بھی ٹھیک سے نہیں جانتی، مگر جان کر رہوں گی۔” پرعزم لہجے میں کہا گیا۔
”ہاں جب جان جاؤ تو مجھے بھی بتانا۔”
”اگر اس نے اِجازت دی تو ضرور بتا دوں گی۔” اس نے ایک بار پھر اسے چھیڑا ۔
”کیا ؟ اِجازت ؟ ایکسکیوزمی میں دوست ہوں اس کا۔” ڈینیل جل ہی تو گیا تھا اس بات سے۔
”ہاں دوست جو کچھ بھی اگلوا نہیں سکا اس سے آج تک۔” مرم نے بھی اسے جتا دیا۔
”یار تم جانتی تو ہو وہ کسی سے کچھ شیئر نہیں کرتا۔” بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اس نے سارا ملبہ جیف پر ڈال دیا۔
”پتا ہے، مگر میں اس کے لیے ”کسی” نہیں بننا چاہوں گی۔” وہی پرعزم لہجہ۔
”ہاں تمہیں تو اس کی ”مسز” بننا ہے نا۔”ڈینیل نے شرارت سے کہا۔
ہاں بالکل۔” اِس بار وہ کھل کر مسکرائی تھی ۔
”اب جلدی جلدی چلو ورنہ وہ گھڑی کی سوئی تمہارا تو نہیں، ہاں میرا سر پھاڑ دے گا دیر کرنے پر۔ مجھے تو لگتا ہے کچھ ہی عرصے میں لوگ گرین وچ مین ٹائم کو چھوڑ کر ”جیف ابراہیم اسٹینڈرڈ ٹائم” کے مطابق اپنی گھڑیاں سیٹ کر لیں گے۔” اسے تیز چلنے کا اِشارہ کرتے ہوئے وہ مصنوعی طنز سے بولا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});