”ڈین کیوں تنگ کر رہے ہو اسے؟ بس کر دو کافی ہے اتنا مذاق۔ مرم یہ سب ایک ڈراما تھا اس کا۔ تمہارا اصل کیک یہ رہا۔” پیٹر نے مرم کے چہرے کے مایوس کن تاثرات دیکھتے ہوئے ڈینیل کو ٹوکا۔ اور پھر برابر والی خالی ٹیبل سے ایک اور ڈبا اٹھا کر اپنی ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ٹھیک ہے۔” ڈینیل کپ کیک مرم کے سامنے سے اٹھاتے ہوئے مصنوعی دکھ وغم سے گویا ہوا تھا۔
”بڑی محبت اور خلوص سے میں نے یہ اپنی دوست کے لیے لیا تھا،مگر…آہ۔” آخر میں دل پر ہاتھ رکھ کر ڈرامائی ” آہ” بھی بھری گئی تھی۔
”کھولو اسے یقین مانو اس میں کپ کیک ہرگز نہیں ہے۔” پیٹر نے سنجیدگی سے اسے ڈبا کھولنے کا اشارہ کیا۔
”نہیں بس اب میرا کیک کاٹنے کا موڈ نہیں۔” وہ دونوں بازو ایک دوسرے میں پیوست کیے شدید ناراضی کا اظہار کر رہی تھی۔
”اچھا یار معاف کر دو۔ مذاق کیا تھا میں نے۔ چلو اب جلدی سے کاٹو کیک۔” اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر ڈینیل معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔ چند لمحے کچھ سوچ کر مرم نے بالآخر ڈبا کھولا،مگر…
”دیکھا میں نے کہا تھا نا کہ اس میں کپ کیک نہیں ہے۔”
”تم دونوں کا میں سر پھاڑ دوں گی۔” مرم ایک بار پھر غصے سے گویا ہوئی تھی۔ ڈبے میں رکھے سادہ فروٹ کیک کو دیکھ کر اس کادر حقیقت دماغ گھوم گیا تھا۔ اپنی سالگرہ کے دن کیک کے نام پر ایسے بے ہودہ مذاق آخر کون برداشت کر سکتا تھا؟
”اب اس میں کیا مسئلہ ہے؟ ” پیٹر کے لہجے میں حیرت و استعجاب واضح تھا۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تم لوگوں سے سنجیدگی کی توقع رکھنا ہی بے کار ہے۔ اس سے بہتر تھا تم مجھے وش ہی نہ کرتے۔” اس کا انداز غصہ اور خفگی لیے ہوئے تھا۔ اس تمام عرصے میں صرف ایک جیف ہی تھا جو خاموشی سے سارا تماشا ملاحظہ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی مسکراہٹ کا گلا گھوٹنے کی مسلسل کوشش بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔
”تم تو بہت ہی نخرے والی اور بے مروت ہو۔ اگلے بندے کے خلوص کا تمہیں کوئی احساس ہی نہیں۔” ڈینیل کی باتیں مسلسل اسے زچ کر رہیں تھیں۔
”اس سال تمہاری قسمت میں یہی کیک تھا سو شاباش کاٹ بھی لو۔” ڈینیل بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے بولا۔
”جیف تم ہی کہو اس سے۔ شاید یہ تمہاری بات مان لے۔”
”مرم۔” لمحے کا توقف دے کر اس نے بڑی کوشش کے بعد بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو دبایا۔
”کیک کاٹ لو۔” مرم کے تپے ہوئے چہرے پر نظر پڑنے کی دیر تھی اور پھر وہ اپنے جان دار قہقہے پر قابو نہیں پا سکا۔ اسے یوں ہنستے دیکھ کر ڈینیل اور پیٹر بھی بے تحاشا ہنسنا شروع کر چکے تھے۔ آس پاس بیٹھے لوگ سوالیہ انداز میں ان تینوں کے چھت پھاڑ قہقہے سن رہے تھے۔
”جیف مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔” شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ بولی۔
”سر یہ آپ کا کیک۔” اسی وقت ایک بندہ خوب صورتی سے سجا کیک تھامے ان کی ٹیبل کے نزدیک رکا تھا اور وہ لوگ اپنی ہنسی پر قابو پا کر اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تم لوگ تھوڑی دیر یہاں رکو میں اس شاپ سے ہو کر آتی ہوں۔” مرم کی نظر ایک دکان پر پڑی تو اس نے وہاں جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
”کیا تمہارے ملک میں یہ بھی رواج ہے کہ اپنی سالگرہ پر خود کے لیے تحفہ خریدا جائے؟” گفٹ شاپ کا نام پڑھتے ہی ڈینیل نے شرارت سے استفسار کیا۔
”ہاں مجھ جسے لوگ جنہیں اپنی سالگرہ کے دن تحفے ملنے کی امید نہیں ہوتی وہ اپنے لیے خود ہی خرید لیتے ہیں۔” ان تینوں کو شرم دلانے والے انداز میں کہہ کر وہ دکان کے اندر داخل ہو گئی۔ وہ ددا موری کے لیے کچھ خریدنا چاہتی تھی۔ موری کے لیے اس نے ایک خوب صورت اسکارف پسند کیا اور ددا کے لیے شرٹ۔ اس کے علاوہ بیکری میں رکھنے کے لیے ایک خوب صورت سا ڈیکوریشن پیس خریدا جس میں نان بائی کے جوڑے کے مسکراتے مجسمے بنے تھے جنہوں نے شیف کی مخصوص ٹوپی اور ایپرن پہن رکھا تھا۔ یہ سب خریدنے کے بعد وہ اپنے لیے کوئی چیز خریدنے کا سوچ کر زیورات کے حصے کی طرف بڑھی جہاں اس کی نظر انتخاب ایک انگوٹھی پر ٹھہر گئی۔
” مجھے یہ رنگ دیکھائیے گا۔” وہ کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی سے مخاطب ہوئی۔ لڑکی نے اس کی مطلوبہ انگوٹھی کا ڈبا اسے تھمایا۔
”میم اس رنگ میں لگے سبز زمرد اور ہیرے سو فیصد اصلی ہیں۔ خالص وائٹ گولڈ کی یہ رنگ آج ہی ہماری شاپ پر آئی ہے۔” لڑکی نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے اسے انگوٹھی کے متعلق آگاہ کیا۔ مرم اب انگوٹھی کو اس کے سیاہ کیس سے نکال چکی تھی۔ وائٹ گولڈ کی رنگ کے دونوں کنارے نازک ہاتھوں کی شکل کے تھے۔ دل کی شکل والا سبز زمرد اس طرح سے جڑا ہوا تھا جیسے ان ہاتھوں نے سبز دل کو احتیاط سے تھاما ہوا ہو۔ دل کے عین اوپر ایک ننھا سا تاج بنا ہوا تھا جس میں تین نازک سے ہیرے جڑے تھے۔
”آپ کی دل چسپی دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی تک آپ کو کسی نے کلاڈہ رنگ(Claddagh) آئر لینڈ کی روایتی انگوٹھی پیش نہیں کی ہے۔” اسے گہری نظروں سے انگوٹھی کو دیکھتا محسوس کر کے وہ لڑکی دوبارہ گویا ہوئی۔
”ہاں ابھی تک تو نہیں۔” مرم نے حسرت بھرے انداز میں مسکرا کر جواب دیا۔
”پھر تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ اس انگوٹھی کو کب کس انداز سے پہنا جاتا ہے؟” وہ لڑکی کافی باتونی معلوم ہو رہی تھی۔
”اتنا تو میں جانتی ہی ہوں۔ خیر کیا قیمت ہے اس کی ؟” طنزیہ لہجے میں اسے جتا کر اس نے قیمت پوچھی۔
”اب تو تم نے ہمیں شرم دلا ہی دی، تو ہم نے سوچا کہ ہم کوئی تحفہ لے ہی لیں تمہارے لیے۔” ڈینیل نہ جانے کب اس کے برابر آ کر کھڑا ہوا تھا۔
”یہ جھوٹ بول رہا ہے مرم۔ دراصل یہ نینسی کے لیے یہاں سے کوئی تحفہ خریدنا چاہتا تھا، مگر اسے سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا خریدے۔ پھر خود ہی تم سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور اب میرے شرم دلانے پر کہ تمہاری سالگرہ والے دن تمہاری رائے لے کر یہ کسی اور کے لیے تحفہ خریدے گا؟ تب کہیں جا کر اس کی موٹی عقل میں بات سمائی۔”
”تم بھی تو اپنی بیوی کے لیے تحفہ خریدنے یہاں آئے ہو؟ تو میں نے اپنی منگیتر کے لیے یہ سوچ کر کون سا جرم کر دیا؟” ڈینیل نے لڑاکا عورتوں کی طرز میں ہاتھ نچا کر کہا۔
”اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ اپنی آئرش دوست دونوں کے لیے تحفہ خریدنے کا ارادہ تھا میرا۔ تمہاری طرح نہیں میں جسے مینرز کی کچھ پروا نہیں۔” اسی طرح ایک دوسرے پر جملے کستے وہ دوسری جانب بڑھنے لگے۔
”کیا تم نے کچھ نہیں خریدنا؟ کم از کم مرم کے لیے کوئی تحفہ ہی خرید لو۔ بے چاری خوش ہو جائے گی۔” ڈینیل اچانک پلٹ کر دروازے کی جانب دیکھ کر بولا تھا۔ تبھی اس کی نظروہاں کھڑے جیف پر پڑی جو پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے صرف وقت گزاری کے لیے سرسری انداز میں دکان کا جائزہ لے رہا تھا۔ ڈینیل کی بات پر بے ساختہ ان دونوں کی نظریں ملی تھیں۔ جیف کی بے تاثر نگاہیں خود پرجمی دیکھ کر وہ پھیکے انداز میں مسکرا کر دوبارہ لڑکی کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
”میم اس کی قیمت صرف تیرہ ہزار یورو ہے ۔” اس کے دوبارہ متوجہ ہونے پر لڑکی نے قیمت بتائی۔
”صرف؟ خیر یہ میرے بجٹ سے بہت زیادہ قیمت ہے۔ آپ کے وقت کا شکریہ۔” انگوٹھی اس کی طرف بڑھا کر شکریہ ادا کر کے وہ اعتماد سے وہاں سے چلی گئی۔
” خوامخواہ اتنا وقت برباد کیا میرا۔ جن کی خریدنے کی حیثیت نہ ہو انہیں قیمتی چیزوں کو چھونے کا بھی کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔” انگوٹھی واپس ڈبے میں رکھتے ہوئے لڑکی تلخی سے بڑبڑائی۔ اس کی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی جسے وہاں کھڑے جیف نے بہ آسانی سنا تھا۔ اسے مرم کے لیے اس طرح کے الفاظ سن کر نہ جانے کیوں بہت برا محسوس ہوا۔ کڑے تیور لیے وہ تیزی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔
”اس چیز کو پیک کر دیجیے جو ابھی وہ لڑکی دیکھ کر گئی ہے۔” کینہ توز نگاہیں اس لڑکی پر گاڑے وہ سپاٹ لہجے میں گویا ہوا۔
”سر اس کی قیمت تیرہ ہزار یورو ہے کیوں کہ اس میں خالص اور اصلی…” مگر جیف نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا۔
”میں نے نہ اس کی قیمت پوچھی ہے اور نہ ہی خاصیت۔” اس نے ترش لہجے میں کہا۔
”کہاں ہے اس دکان کا اونر۔ ذرا بلائیے اسے؟ اس نے اپنے ورکرز کو یہ نہیں بتایا کہ کسٹمرز کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے؟ کیا کبھی آپ کو کسی نے بتایا کہ صرف کسٹمر کے پوچھنے پر ہی چیزوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے۔” جیف کو یہ جاننے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ مرم اب سے چند لمحوں پہلے کیا پسند کر کے گئی تھی۔
”سوری سر میں ابھی پیک کر دیتی ہوں۔” جیف کی شان دار شخصیت اور غصیلے لہجے سے مرعوب ہو کر وہ معذرت خواہ لہجے میں بولی اور تیزی سے انگوٹھی پیک کرنے لگی۔
جیف نے کیش کاؤنٹر پر قیمت ادا کر کے چھوٹا سا بیگ پکڑا اور ایک طرف پرسکون سا کھڑا ہو گیا۔ اس نے بل پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی کہ اتنی زیادہ رقم وہ کس چیز پر خرچ کر چکا ہے؟ اگر وہ دیکھ لیتا تو کم از کم مرم کو وہ چیز بطور تحفہ کبھی نہ دیتا،مگر…
کچھ دیر بعد وہ تینوں اسے آتے دکھائی دیے۔ سبھی کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ موجود تھا۔
”ویسے ڈینیل مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم مجھے ایسا تحفہ بھی دے سکتے ہو۔ تم جس طرح میری وطن پرستی سے چڑتے ہو اس کے بعد تو میں کبھی تم سے اس بات کی توقع نہیں رکھ سکتی تھی۔” وہ ہاتھ میں پکڑے مگ کو دیکھتے ہوئے بولی۔ مگ کے درمیان جلی حروف میں a true Irish looks like this(ایک سچا آئرش ایسا نظر آتا ہے) لکھا ہوا تھا اور ان الفاظ کے دونوں جانب دو ہنستے ہوئے لیپریکانز کے خاکے بنے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں کا اشارہ اوپر کی جانب تھا۔
”نہیں بالکل غلط۔ میں تمہاری حب الوطنی سے کبھی چڑ ہی نہیں سکتا کیوں کہ میں تمہاری اس عادت سے بہت متاثر ہوں۔ وہ تو تمہیں چڑانے کے لیے کبھی کبھی کوئی الٹا سیدھا جملہ بول دیتا ہوں ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔”ڈینیل نے سنجیدگی سے وضاحت کی۔ وہ مسکرا کر پیٹر کی جانب متوجہ ہو گئی جو اپنی خریدی چیزوں کی ادائیگی کرنے کے بعد اس سے مخاطب ہوا تھا۔
”تم ان چیزوں کو پیک کرانا چاہو گی یا ایسے ہی قبول کر لو گی؟ ” وہ کلوور کے پتے (سہ شاخہ شبدر) کی شکل والی کرسٹل کی چین اور کرسٹل ہی سے بنے نازک اور نفیس بربط(harp) کی طرف اشارہ کر کے شرارت سے بولا۔
”نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے بلکہ اس کی چین کو میں ابھی اور اسی وقت اپنے بیگ پر لگا رہی ہوں۔ کلوور آئر لینڈ کا روایتی نشان ہے جو خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ” پیٹر کے ہاتھ سے کی چین لے کر وہ اپنے بیگ پر لگا چکی تھی اور بربط کو احتیاط سے بیگ میں رکھ لیا۔ پھر جیف کو مخاطب کر کے پوچھا ۔
”اور تم نے کیا لیا میرے لیے؟ دیکھو انکار مت کرنا۔ میں تمہیں کنجوس بالکل نہیں سمجھتی۔” اس کے لہجے میں دوستی کا مان تھا۔
”ہیپی برتھ ڈے مرم۔ میری دعا ہے تم یوں ہی مسکراتے ہوئے ایسی بے شمار بہاریں دیکھو۔” مسکرا کر اسے وش کرتے ہوئے اس نے پیکٹ اسے تھمایا جسے ویسی ہی مسکراہٹ کے ساتھ تھاما گیا تھا۔ وہ اب اس کا دیا تحفہ دیکھ رہی تھی۔ شاپر سے نکلنے والے چھوٹے سے سیاہ ڈبے کو دیکھ کر اسے بس حیران ہونے کا ہی موقع مل سکا۔ تب تک وہ ڈبا کھول چکی تھی۔ اس کے لبوں پر رقص کرتی مسکراہٹ اچانک تھم سی گئی۔ پوری دنیا اس لمحے اُسے ٹھہری ہوئی محسوس ہوئی۔ بے یقینی، حیرت، خوشی، جوش کے ملے جلے تاثرات سے وہ انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی۔جب مرم کو یقین ہوگیا کہ سامنے موجود چیز خواب نہیں حقیقت ہے تو اس لمحے سارا خون اس کے چہرے پر سمٹ آیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے جیف کی جانب دیکھا۔ وہ جانچتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اگلے لمحے جیف نے اپنی زندگی کا شاید سب سے خوبصورت ترین منظر دیکھا۔ گلنار ہوتا صبیح چہرہ، جگر جگر کرتی پر کشش آنکھیں اور لبوں پر رقصاں الوہی مسکراہٹ، لمحہ بہ لمحہ وہ مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی اور ساتھ ہی آنکھوں کی چمک بھی۔
”تھینک یو ابراہیم۔” اپنی بے اختیاری کیفیت پر قابو پا کر وہ دھیمے لہجے میں بہمشکل بولی۔ ابراہیم نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
وہ مرم کا ردعمل دیکھ کر حیرا ن رہ گیا تھا۔ کیا وہ چیز اسے اس حد تک پسند آ چکی تھی کہ تحفے میں ملنے پر وہ اپنی بے انتہا خوشی چھپا نہیں پا رہی تھی؟ ایک چھوٹا سا تحفہ ملنے پر کوئی اس طرح خوش بھی ہو سکتا ہے بھلا جیسے وہ ہوئی تھی؟ جیسے اسے کل کائنات کا خزانہ مل گیا ہو، لیکن اگر جیف اس ”چھوٹی سی چیز” پر ایک نظر ڈال لیتا، تووہ حیران ہونے کے بجائے پریشان ہوتا۔
”پیٹر تمہاری دی گئی کی چین پہلے لمحے میں ہی بہت لکی ثابت ہوئی ہے میرے لیے۔” دکان سے باہر جاتے جیف نے مرم کو آسودگی بھرے لہجے میں پیٹر سے کہتے سنا تھا۔
٭…٭…٭
O, Ireland! isn’t grand you look, Like a Bride in her rich adorning!
With all th pent-up love of my heart, I bid you the top of the morning!
(آئر لینڈ تم کتنے شان دار نظر آتے ہو، زینت سے آراستہ کسی دلہن کی مانند، میں اپنے من میں پنہاں تمام محبتوں سمیت، سب سے بہترین صبح کی دعا دیتا ہوں۔)
اپنی بات کا آغاز اس نے ایک آئرش شاعر کی مشہور نظم کے چند جملوںسے کیا تھا۔
”میرے پاس جان لاک کی اس نظم سے زیادہ بہترین الفاظ نہیں تھے اس سرزمین کی ستائش میں بولنے کے لیے۔ اس زمین نے مجھے اسی لمحے اپنے سحر میں جکڑ لیا جب میں نے پہلی بار یہاں کی ٹھنڈی،معطر فضا میں سانس لی تھی۔ دھیرے دھیرے مجھے عشق ہوتا چلا گیا یہاں کے موسموں سے، یہاں کے رنگوں اور پھولوں سے، سرسبز و حسین ہریالی سے، یہاں بستے بامروت، پر خلوص اور رحم دل لوگوں سے، کھیت، کھلیانوں سے سجے دیہی علاقوں سے، روئی کے گالوں کے سے سفید بادلوں اور آسمان پر چہچہاتے پرندوں سے، یہاں کی تاریخ و ثقافت حتیٰ کہ یہاں کے تہواروں سے بھی۔” کیمرے کے سامنے کھڑے جیف ابراہیم کے پس منظر میں جھلکتا نوے فٹ اونچا بلارنی کا قلعہ اس وقت حقیقتاً پس منظر میں چلا گیا تھا۔ اسے دکھائی دے رہا تھا تو صرف جیف ابراہیم۔ سنائی دے رہا تھا تو صرف اس کا ٹھہرا ہوا گمبھیر لہجہ جس میں وہ مرم کے ملک کی سوغاتوں سے عشق ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ آج بالآخر اس کے دل میں بسی خواہش پوری ہو رہی تھی کہ وہ جیف کے دلکش لب و لہجے میں اپنے وطن کے پرکشش نظاروں کی داستان سنے۔” میرا یہ سفر امیدوں اور خواہشوں کا سفر ہے۔ خیالات و جذبات سے سجا یہ سفر یہاں بستے لوگوں کے دکھ سکھ، رسم و رواج، قصے اور کہانیاں سبھی کا خوبصورت ملاپ ہے۔ میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اپنے ہر سفر میں آپ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھوں، آپ کو وہی سب دکھاؤں جو میں دیکھتا یا محسوس کرتا ہوں۔ اس مسافرت میں کبھی آپ ہنسے ہوں گے تو کبھی حیرت زدہ سے یہاں کے دل کش و دل فریب حسن کو دیکھتے رہے ہوں گے، تو آئیے آج ایک بار پھر میں آپ کو سیاحت کے ایک اور پر لطف سفر میں میرا ساتھ دینے کی دعوت دیتا ہوں، ایک ایسی سرزمین کا روح پرور سفر جسے کبھی بزرگ اولیا کی زمین کے نام سے پکارا جاتا ہے، تو کبھی غیر متوقع بارش کی زمین کا نام دیا جاتا ہے اور کوئی اسے ہزار مسکراہٹوں کی سرزمین کے حوالے سے جانتا ہے، جب کہ میں…” وہ چند لمحوں کے لیے رکا پھر کچھ سوچ کر مسکرایا۔ ”مور پنکھ کا دیس” کے نام سے اس سرزمین کو اپنی یادداشت کے خانوں میں محفوظ رکھنا چاہوں گا۔” اس کے مقابل کھڑے وہ تینوں ہی چونک کر تعجب سے اسے دیکھنے لگے جس نے اپنے دیے گئے خطاب کو کسی ان جانی زبان میں ادا کیا تھا۔
”بلارنی کا قلعہ قدیم مذہبی اسرار اور جادوئی تاریخ کا عمدہ نمونہ ہے جسے جنگی زمانے میں مضبوط گھاٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کئی ہزار ایکڑ پر مشتمل اپنے شان دارباغات سمیت یہ ایک آئیڈیل جگہ ہے جہاں بلارنی کی صاف و تازہ فضا سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ یہ قلعہ اپنے حسن کے علاوہ ایک اور خاص وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور وہ وجہ ہے بلارنی کا مقدس اور قدیم پتھر جسے یہاں کے لوگ ”سٹون آف ڈیسٹنی” کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص ایک خاص انداز سے لیٹ کر جادوئی طاقت کے حامل اس پتھر کو بوسا دے، تو اس کی زبان و لہجے میں فصاحت و بلاغت کا کرشمہ گھل جاتا ہے اور وہ اپنی خوش گوار گفتگو کے ذریعے سامعین کو قائل کرنے کا راز پا لیتا ہے۔اس پتھر کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ کیسے اور کس طریقے سے اس پتھر میں ایسی صلاحیت آئی اس کا جواب یہاں کے مقامی لوگ اس پتھر کو انبیا سے منسلک کر کے دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسلک کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ یہی وہ پتھر ہے جس پر آپ نے اپنا عصا مار کر پانی میں سے راستہ بنایا تھا اور کچھ لوگ اس پتھر کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس پتھر پر وہ اپنا سر رکھا کرتے تھے، لیکن کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کب اور کس طرح یہاں اس قلعے تک پہنچا، مگر پھر بھی کئی لوگ ان داستانوں پر یقین رکھتے ہوئے اس پتھر کو بوسہ دینے یہاں آتے ہیں۔ تو آئیے اب اس قلعے کو دور دور سے دیکھنے کے بجائے قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔” مسکراتے ہوئے بالآخر اس نے اپنی گفتگو کا اختتام کیا۔
”تو آج بالآخرمجھے پتا چل ہی گیا کہ تم اتنا اچھا کیسے بول لیتے ہو۔” ڈینیل ریکارڈنگ بند کرتے ہوئے شرارت سے مسکرایا۔
”سچ سچ بتاؤ تم کتنی بار یہاں آ کر اس آفاقی پتھر کو بوسہ دے چکے ہو؟”
”میں آج پہلی بار یہاں آیا ہوں اور میں ان سب باتوں پر قطعی یقین نہیں رکھتا۔” اس نے کن انکھیوں سے مرم کی طرف دیکھا کہیں وہ پھر لیکچر دینے لگے کہ جب یقین نہیں رکھتے تو الفاظ میں اثر کیسے آئے گا تمہارے؟
”میں مان ہی نہیں سکتا۔” ڈینیل اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
”نہ مانو۔” اس نے سہولت سے کندھے اُچکائے۔
”خیر میں تو ضرور ہی اس پتھر کو بوسا دوں گا تاکہ نینسی کو قائل کر سکوں کہ وہ مرے نگر نگر پھرنے کے شوق سمیت ہی مجھ سے شادی کر لے۔” وہ نینسی کی طرف سے ازحد پریشان دکھائی دے رہا تھا جس نے شادی کی شرط ہی یہی رکھی تھی کہ وہ اپنے فارن ٹورز کو خیرباد کہہ دے۔
”ہاں ہاں ضرور ڈینیل شاید ایسے تمہارا مسئلہ حل ہو جائے۔” مرم نے اس کی اس سوچ کو سراہا۔
”اور تم کسی کو قائل کرنا چاہتی ہو تو تم بھی۔” ڈینیل نے ایک نظر پیٹر سے بات کرتے جیف پر ڈالی اور مبہم انداز میں گویا ہوا۔
”اگر کچھ دن پہلے میں یہاں آتی تو ضرور ایسا کرتی، مگر اب میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔” اس کے لہجے میں یقین اور اعتماد نمایاں تھا اور ساتھ ہی لاشعوری طور پر اس نے اپنے دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں پہنی رنگ کو گھمایا۔ بار بار اس انگوٹھی کو چھونا اس کی عادت بنتی جا رہی تھی۔
”میں تم دونوں کے لیے بہت خوش ہوں۔ تم یقینا ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہو۔” ڈینیل کی سرگوشی بس وہ خود ہی سن سکی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});