مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ کمرے میں پھیلا دھواں بھی۔سولہویں سگریٹ جلا کر اس نے ایک اور گہرا کش لیا اور دھویں کے ساتھ ساتھ ذہنی غبار کو بھی فضا کے سپرد کیا۔ وہ سگریٹ کو عادتاً نہیں بلکہ ضرورتاً استعمال کرتا تھا۔ آج بہت عرصے بعد وہ پھر اسی ذہنی انتشار کا شکار ہوا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگاکر راکھ بنا رہا تھا۔ اسے سگریٹ نوشی ناپسند تھی، مگر ماضی کی زہریلی سوچوں کو دبانے کے لیے وہ عموماً اس کا سہارا لے ہی لیا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ شراب اور نشہ آور ادویات سے بہتر ہے۔
”جیف ابراہیم تم جیسا بے وقوف شاید ہی کوئی ہو گا۔ تم ایک بار پھر اسی دل فریب دھوکے میں جکڑتے جا رہے ہو۔” اس کا ذہن ماضی کے کچھ مناظر کی یادیں تازہ کراتے ہوئے اسے تنبیہ کر رہا تھا۔
”عقل مندی اسی میں ہے کہ دور ہو جاؤ تم اس لڑکی سے۔ وہ بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے تمہارے لیے۔تمہیں اب تک یہ بات سمجھ لینی چاہیے تھی کہ وہ تمہارے گرد کھڑی بے نیازی اور ضبط کی مضبوط دیواروں کو تار تار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ دیواریں جو تم نے بہت سالوں کی محنت کے بعد اپنے گرد کھڑی کی ہیں۔ کیا تم اپنی اتنے سالوں کی محنت کو بے ثمر کرنا چاہو گے؟ کیا تم چاہو گے کہ ایک بار پھر تم اسی مقام پر آ جاؤ جہاں سے کئی سال پہلے چلے تھے؟ کیا تم خود میں اتنا حوصلہ رکھتے ہو کہ ایک بار پھر خود کو استعمال ہوتے دیکھو جس طرح پہلے ہوئے تھے؟ نہیں نا؟ تو پھر باز آجاؤ اپنے دل کی پیش قدمی سے۔ کچھ تو سیکھو اپنے ماضی کے تجربوں سے۔ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر جو پچھتاوا تمہیں ہے اس سے کوئی تو سبق حاصل کرو۔
ایسا کرتے ہیں الٹ دیتے ہیں زنبیل حیات
اور اس میں سے کوئی کام کا پل ڈھونڈتے ہیں
”تم بہت اچھا بولتے ہو۔ تمہاری آواز میں ایک سحر ہے۔” اس کے ذہن میں ایک ستائش بھری آواز گونجی۔
”شکریہ۔” جواب میں اس نے وہی عام سا لفظ کہا تھا جو وہ اکثر اس طرح کے جملے سننے کے موقع پر بولا کرتا تھا۔ اسے آج بھی ریم سے اپنی پہلی ملاقات کا منظر یاد تھا۔ وہ جانے کے لیے پلٹا ہی تھا جب اس نے اسے دوبارہ پکارا تھا۔
”تمہارا کیا نام ہے؟” اپنا نام بتانے کے بعد وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔
منظر تبدیل ہوا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ارے تم یہاں ؟ زبردست۔ تم سے دوبارہ مل کر خوشی ہوئی۔ دوستوں کے ساتھ آئے ہو یہاں ؟” ریم سے اگلی ملاقات ایک کیفے میں ہوئی تھی۔
”کیا؟ تم ان لوگوں سے واقف ہو؟ تم واقعی ان کے ساتھ یہاں آئے ہو؟ زبردست۔پھر تو تم ایک بڑے آدمی ہو۔” چند لوگوں کے نام لینے پر جن کے ساتھ وہ یہاں آیا تھا، اسے یہ حیرت آمیز جملہ سننے کو ملا تھا۔ وہ تمام نام ان لوگوں کے تھے جو کسی نا کسی طرح شو بز کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ جیف ان لوگوں میں سے ایک پروڈیوسر کے ساتھ یہاں آیا تھا جس کی ایک دستاویزی فلم کے لیے اس نے صداکاری کی تھی۔ باقی تمام لوگ اسی پروڈیوسر کے دوستوں میں سے تھے جن سے اس کی صرف سلام دعا تھی، مگر ریم جانے کیا سمجھی تھی جو اس سے اتنی متاثر ہوئی تھی۔
ذہن میں چلتا منظر ایک بار پھر بدلا۔
”میں تم سے دوستی کرنا چاہتی ہوں۔”
” مجھ سے؟ مگر کیوں ؟” اسے اپنی حیرت میں ڈوبی آواز کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
”کیوں کہ تم مجھے اچھے لگے ہو۔ چند ہی ملاقاتوں میں تم نے بہت متاثر کیا ہے مجھے۔تمہاری شخصیت میں ایک جادو ہے۔” وہ بے یقینی میں گھرا بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا تھا۔ اسے اس آفر کا مقصد سمجھ نہیں آ سکا اور وہ بنا جواب دیے وہاں سے چلا گیا۔
”میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ایک کامیاب ماڈل بننا اور ڈھیر ساری دولت کمانا ہے۔” اب ایک اور منظر ابھرا۔ بہت سی ملاقاتوں اور کئی مرتبہ کے اصرار کے بعد وہ بالآخر جیف سے دوستی کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی۔اس کے لاکھ گریز کے باوجود ریم نے اس سے دوستی کر لی تھی۔ انیس بیس سال کی ناسمجھ اور نادان عمر میں وہ آخر کب تک ایک بے باک اور جرأت مند لڑکی کو انکار کر سکتا تھا جو اس سے مراسم بڑھانے کے لیے اپنے تمام حربے استعمال کر رہی تھی۔ بہت تھوڑے عرصے میں ان کی دوستی گہری محبت میں تبدیل ہو گئی۔ بہت سی شامیں وہ اکثر ساتھ گزارنے لگے۔
ایسی ہی ڈھلتی شام کا ایک منظر جیف کے ذہن میں تازہ ہوا۔
”تم بہت خوبصورت ہو ریم۔ تمہاری ہر ادا خاص ہے۔” وہ خود کو کہتے سن رہا تھا۔ اسے ریم کی بھرپور ہنسی آس پاس ہی سنائی دے رہی تھی۔
”بڑے پہنچے ہوئے ہو تم اس معاملے میں۔”
”اپنی خواہشوں کی لسٹ میں ماڈل بننے اور بہت سی دولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مجھ سے شادی کرنے کی خواہش بھی شامل کر لو نا۔” وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تم مجھے پرپوز کر رہے ہو؟” ابرو اچکا کر اعتماد سے ریم نے پوچھا تھا۔
”کچھ ایسا ہی ہے۔” سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بولا تھا۔
” بڑا انوکھا اور نیا طریقہ ہے یہ۔” اس کی کھنکتی ہنسی کی گونج آج اتنے سالوں بعد بھی صاف سنائی دی تھی جیف کو۔
سگریٹ کے ایک اور کش کے ساتھ ہی ایک نیا منظر ذہن میں چلنے لگا جس کی وجہ سے اس کے لبوں پر تلخ مسکراہٹ ابھری۔
”میں تم سے شادی کو تیار ہوں، مگر…مگر مجھے ابھی کچھ وقت چاہیے۔” وہ بہت سوچ سوچ کر بول رہی تھی۔
”پہلے مجھے ایک کام یاب ترین ماڈل بننا ہے پھر دولت اور شہرت حاصل کرنی ہے۔کسی بڑے فوٹوگرافر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت محنت اور جدوجہد کرنی ہے مجھے۔تم بھی ابھی اپنا نام بنانے کی جدوجہد میں ہو۔ بے شک تم بہت بڑے بڑے لوگوں کو جانتے ہو، ان کی محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے ہو، وہ بھی تمہارے ساتھ یا تمہارے لیے کام کرنے پر خوشی سے آمادہ ہو جائیں گے، مگر ابھی تمہیں بھی وقت درکار ہے اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے۔ اس وقت تو نہیں پر آج دس سال بعد وہ بڑی اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا کہ اس وقت ریم اتنا اٹک اٹک کر اور سوچ سمجھ کر محتاط طریقے سے کیوں بول رہی تھی؟ بڑی مہارت سے اس نے جیف کو اپنے لفظوں کے جال میں پھانسا تھا۔باتوں ہی باتوں میں وہ بڑی آسانی سے اسے باور کروا گئی تھی کہ وہ ان نامی گرامی لوگوں کا واقف کار ہے سو آسانی سے ان سے اپنے کام نکلوا سکتا ہے اور چند لمحوں بعد جیف نے ریم کو اس کے حسب توقع جواب دیا تھا۔
”دولت اور شہرت کی تم پروا نہ کرو۔ وہ میں تمہارے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا۔” اپنی جوشیلی اور پرعزم آواز آج بھی اسے واضح سنائی دی تھی۔
”اور باقی رہا ماڈل بننے کا سوال تو ایک بہت اچھا فوٹوگرافر میرا دوست ہے۔ مجھے اپنا پورٹ فولیو دینا میں اسے دکھاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں اگلے شوٹ کے لیے سائن کر لے گا۔”جیف کی بات پر ریم کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھی تھی۔
دماغ نے ایک بار پھر کچھ ڈستی ہوئی یادوں کا سرا تھاما۔ ریم کے وہ زہر اگلتے الفاظ، اس کی طنزیہ ہنسی،اپنی محبت کی تذلیل، تعریفوں کے پیچھے چھپی اصل حقیقت جب اس پر واضح ہوئی تھی۔ وہ آج ایک بار پھر خود کو اسی بند دروازے کے سامنے کھڑا محسوس کر رہا تھا اور ریم اور اس کے دوستوں کی آوازیں ویسے ہی صاف اور واضح تھیں جیسے وہ حقیقت میں دروازے کے اس پار موجود ہوں۔ ریم نے کبھی بھی واضح اور کھلے الفاظ میں اس سے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ ریم کو اپنے کسی شوبز سے تعلق رکھتے دوست سے متعارف کرائے بلکہ ہمیشہ وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں حیرت اور خوشی کا اظہار کیا کرتی تھی کہ وہ اتنے بڑے بڑے ناموں کے واقف کاروں میں سے ہے اور ہر بار وہ بڑی حسرت سے کہتی تھی کہ کاش وہ بھی کسی ایسے کو جانتی ہوتی تو کیا ہی بات ہوتی۔
انہی یادوں کی بازگشت سے پیچھا چھڑانے میں نہ جانے کس پہر وہ کامیاب ہو کر سو گیا تھا۔
بہت ہی مدت کے بعد کل جب
کتاب ماضی کو میں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر میں اترے
بہت سے ناموں پے دل پسیجا
ایک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا
لکھا ہوا تھا جو آنسوؤں سے
کہ جس کا عنوان ”ہم سفر” تھا
یہ ورق سب سے ہی معتبر تھا
کچھ اور آنسو پھر اس پہ ٹپکے
پھر اس سے آگے میں پڑھ نہ پایا
کتاب ماضی کو بند کر کے
اسی کی یادوں میں کھو گیا میں
اگر وہ ملتی تو کیسا ہوتا
انہی خیالوں میں سو گیا میں
٭…٭…٭
”اور آج جس جگہ کو آپ لوگ دیکھیں گے وہ بالخصوص ایسے لوگوں کے لیے گہری دل چسپی کا باعث ہو گی جن کا موٹو ”کھا پی کر جینا” ہے۔” پلے کا بٹن دباتے ہی ویڈیو کیمرے سے جیف کی گمبھیر آواز گونجنے لگی۔ پیٹر بڑی تنقیدی نظروں سے اس فلم کو دیکھ رہا تھا جو اب سے کچھ دیر قبل فلمائی گئی تھی۔ اس کی پرسوچ نظریں ہنوز کیمرے پر جمی ہوئیں تھیں جس میں جیف کارک کی مصروف ترین سڑک ”پرنس سٹریٹ” پر کھڑا تھا اور اس کے عقب میں وکٹورین طرز کی بنی عمارت کا مرکزی داخلی دروازہ تھا۔انگلش مارکیٹ، آئر لینڈ سمیت یورپ کی سب سے مشہور کورڈ فوڈ مارکیٹ اندرون خانہ کھانے کا بازار ہے جسے اٹھارہویں صدی میں قائم کیا گیا تھا۔ یہاں آئرش روایتی کھانوں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی غیرملکی غذا بھی دستیاب ہے۔ آپ اس جگہ کو جادو کا چراغ بھی کہہ سکتے ہیں اور یہاں موجود دکان داروں کو ”جن” جو آپ کی ایک آواز پر آپ کا پسندیدہ کھانا حاضر کر دیتے ہیں۔ ان کا نعرہ ہی ”فوڈ ایٹ اٹس پرفیکشن” ہے۔ فلم میں اب بازار کے اندرونی حصے کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ لکڑی کی کئی سو فٹ اونچی چھت کے سائبان میں چھوٹی بڑی سینکڑوں دکانیں موجود تھیں۔ چمک دار کاؤنٹرز پر سلیقے سے کھانے پینے کی اشیا سجی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے کھڑے شائستگی سے مسکراتے دکان دار سرعت سے گاہکوں کو ان کی مطلوبہ چیزیں فراہم کر رہے تھے۔
”یار پلیز بند کرو اسے۔ کچھ دیر تو سانس لے لو۔ لنچ کے بعد جائزہ لے لینا اس کا۔” ڈینیل نے ایک جھٹکے سے پیٹر کے ہاتھ سے کیمرا کھینچا اور اسے بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ وہ خاصا جھنجھلایا ہوا اور بے زار دکھائی دے رہا تھا۔
”بھوک سے میرا برا حال ہو رہا ہے اور تمہارے کام ہی ختم نہیں ہوتے۔ اب بھی اگر میں وقت نہ بتاتا، تو کسی کو لنچ کا خیال ہی نہیں آنا تھا۔ تمہارا اور جیف کا یہ خیال غلط ہے کہ یہ اشیا صرف شو کے لیے رکھی گئیں ہیں۔” آس پاس بنے کیفے کی طرف اشارہ کر کے اس نے پیٹر سمیت جیف پر بھی غصہ نکالا۔
”کوئی حد بھی ہوتی ہے یار بد تہذیبی کی۔ ڈیڑھ گھنٹے سے میں اس بازار میں موجود ہوں اور یہاں موجود مزے دار چیزوں کو صرف آنکھوں کے رستے ہی اندر اتار پایا ہوں اور بدقسمتی کی انتہا دیکھو، آنکھ بھی کس کی؟ کیمرے کی اچھا مذاق ہے۔”
”اچھا عالم پناہ غلطی ہو گئی۔ ہمیں یاد ہی نہیں رہا تھا کہ لارڈڈینیل کھانے سے کتنا شغف رکھتے ہیں۔” جیف نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ آج انہیں واقعی کام کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ جیف اور پیٹر کام کے معاملے میں ایک جیسے ہی خبطی تھے سو ڈینیل ان دونوں کی اس عادت سے خاصا چڑتا تھا۔ اسی کے شور مچانے پر وہ لوگ کام روک کر اب ایک ٹیبل پر بیٹھے ہوئے کھانے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
”مجھے آج معلوم ہوا ہے ڈینیل کے تم اس قدر بھوک کے کچے ہو۔” مرم نے ہنستے ہوئے اپنی حیرت کا اظہار کیا۔
”ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے اور میری کمزوری کھانا ہے۔؟” ڈینیل نے اسی جلے کٹے انداز میں جواب دیا۔
”ویسے تم میں صبر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کچھ دیر اور اپنے موٹے پیٹ کو سمجھا نہیں سکتے تھے؟” پیٹر کیمرے کے اس طرح چھینے جانے پر خاصا خفا تھا۔
”نہیں بالکل نہیں۔” اس نے ڈھٹائی سے کہا اور پھر آس پاس کی دکانوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ایک بیکری پر نظر پڑتے ہی وہ چونک کر دوبارہ پیٹر سے مخاطب ہوا ۔
”پیٹر کے بچے تمہیں یاد بھی ہے کہ یہاں آنے سے پہلے میں نے ایک کام کہا تھا تمہیں، انتہائی غیر ذمہ دار آدمی ہو تم۔”
”مجھے؟ کون سا کام؟ مجھے تو کچھ…” پیٹر نے حیرت سے ڈینیل کی جانب دیکھا جو اسے ہی گھور رہا تھا۔ اچانک اس کیذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
”اوہ ہاں یاد آیا، ویری سوری میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔”
”تم ہو ہی فضول آدمی۔”ڈینیل اب بھی غصے میں تھا۔
”اچھا یار خفا کیوں ہوتے ہو، ابھی ہم یہیں ہیں۔ آچل کر لے آتے ہیں۔” پیٹر مصالحت آمیز لہجے میں بولا اور اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”کیا ہوا کیا لانا ہے؟ پہلے کھانا تو کھا لو۔” ان دونوں کو تیزی سے اٹھتا دیکھ کر جیف نے انہیں مخاطب کیا تھا۔
”بس ایک ضروری کام ہے، ہم دس منٹ تک آتے ہیں اور مرم تم کہیں غائب مت ہونا اب۔” ڈینیل اونچی آواز میں بول کر پیٹر کے پیچھے لپکا۔
”عجیب بندہ ہے ابھی بھوک بھوک کر رہا تھا اور اب پتا نہیں کہاں نکل گیا ہے پیٹر کو لے کر۔” جیف ان دونوں کو ہجوم میں گم ہوتا دیکھ کر بولا۔
”ہاں اور مجھے ایسے حکم دے رہا تھا جیسے کہ میرا واقعی کہیں گم ہونے کا ارادہ ہو۔” مرم اداس لہجے میں گویا ہوئی۔ آج وہ معمول کے برعکس کافی سنجیدہ اور کھوئی کھوئی لگ رہی تھی۔
” وہ اس لیے کہہ کر گیا ہے کہ تم اکثر شوٹ کے بعد غائب ہو جاتی ہو۔”
”ہاں تو میں شکرانے کے نفل پڑھنے جاتی ہوں۔” اس کا لہجہ عام سا تھا۔
”شکرانے کے نفل؟” جیف کے سوال میں حیرت کا عنصر غالب تھا۔
”ہاں موری کہتی ہیں کہ جب بھی تمہیں یہ احساس ہو کہ اللہ نے تمہیں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں، تو اس کا شکر ادا کرواور شکر کا سب سے احسن طریقہ شکرانے کے نفل ادا کرنا ہے۔ میں جب بھی کسی نئی جگہ جاتی ہوں تو انہیں دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایک تو اللہ نے میرے ملک کو اتنی خوبصورتی عطا کی ہے، دوسرا مجھے مالی، جسمانی اور دماغی لحاظ سے اس قابل بنایا کہ میں ان جگہوں کو دیکھ سکوں۔ انہیں خوب صورت کہہ سکوں۔ یہ سب اسی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ میری آنکھیں، کان، زبان اور دماغ سب بالکل پرفیکٹ ہیں۔ سو شکرانے کے طور پر میں اپنے رب کو سجدہ کرتی ہوں کہ اس نے یہ سب نعمتیں مجھے عطا کیں۔” وہ بہت دھیمے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بولتی ہوئی کوئی نورانی ہستی لگ ہی تھی۔ اتنی نورانی کہ وہ چاہ کر بھی اپنی بے یقین نظریں اس پر سے نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ اس وقت اس لڑکی سے فاصلہ رکھنے اور اسے نظر انداز کرنے کی ساری منصوبہ بندی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئی تھی۔
”اور اس کا ایک اور فائدہ بھی ہے۔” چند لمحوں بعد وہ جیف کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
”موری یہ بھی کہتی ہیں کہ اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ قیامت کے دن وہ ہر ہر چیز کو گویائی کی طاقت عطا کرے گا۔ چاہے وہ انسانی اعضا ہوں یا اس زمین پر موجود مٹی کا ایک ذرہ۔ وہ سب انسان کے اعمال بیان کریں گے جو اس نے ان اعضا کی مدد سے انجام دیے یا پھر وہ جو اس نے اس ریت کے ذرے پر ادا کیے۔ سو موری کے کہے پرعمل کرتے ہوئے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں جس بھی نئی جگہ جاؤں وہاں ضرور ایک ایسا ذرہ چھوڑ آؤں جس پر میرے سجدے کی مہر ہو تاکہ قیامت کے دن اس ذرے کی شکل میں میرے پاس ثبوت ہو کہ میں نے اس ذرے پر اپنے رب کی وحدانیت کا اقرار کیا تھا۔”
”امیزنگ…تمہاری موری کی باتوں سے میں متاثر ہوا ہوں۔ یقینا وہ بہت اچھی خاتون ہیں۔” جیف نے اپنے آپ کو بے یقین لہجے میں کہتے سنا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ الفاظ اس کی زبان سے ادا ہو رہے تھے۔ اس کا ذہن جو چند راتوں قبل دل کو تنبیہ کر رہا تھا آج خود ہی بے اختیار ہو کر زبان کو نہ جانے کیا کیا ادا کرنے کی ترغیب دینے لگا تھا۔ جب دل بے قابو ہو جائے تو دماغ کسی نہ کسی طرح اسے سمجھا ہی لیتا ہے، مگر جب دماغ ہی اختیار میں نہ رہے تو پھر دل سمیت تمام اعضا پر کون بند باندھے؟
”ایسے موقع پر امیزنگ کے بہ جائے سبحان اللہ کہتے ہیں ابراہیم۔” اس کے تعریفی کلمات سے متاثر ہوئے بغیر مرم نے سنجیدہ لہجے میں بتایا۔
”اوہ ہاں سوری، مجھے دھیان نہیں رہا۔” وہ کھسیا کر مسکرا دیا اور پھر کچھ سوچ کر گویا ہوا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں یہ بول رہا ہوں، مگرکبھی موقع ملا تو میں تمہاری موری سے ضرور ملنا چاہوں گا۔” یہ وہ کیا بول رہا تھا؟ ایک غیر ملک کی ان جانی، ان دیکھی عورت سے وہ کیوں کر متاثر ہو رہا تھا؟ جیف کی بات سن کر مرم کے اداس چہرے پر یک دم اشتیاق ابھرا تھا۔
”سچ؟ تم ملو گے ان سے؟” چمکتی آنکھیں جیف کے چہرے پر جمائے وہ بہت خوشی سے پوچھ رہی تھی۔ جیف کو ایک لمحے کے لیے ایسا لگا جیسے وہ بہت عرصے سے یہ سننے کی منتظر تھی۔
”ہاں کیوں نہیں میں۔” وہ ابھی کوئی بات بنانا ہی چاہتا تھا کہ اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
”ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔ ہیپی برتھ ڈے ڈئیر مرم۔ مے یو ہیو مینی مور۔” پیٹر اور ڈینیل نے گا کر اسے وش کیا اور ایک بڑا سا ڈبا اس کے سامنے ٹیبل پر رکھا۔ مرم حیران نظروں سے کبھی ڈبے کو، تو کبھی ان دونوں کی جانب دیکھ رہی تھی جو کھڑے مسکرا رہے تھے۔
”تمہیں کیسے پتا چلا کہ آج میری سالگرہ ہے؟ مرم کے لہجے میں حیرانی و خوشی کی آمیزش تھی۔”
”کیوں تمہیں کیا لگا کہ تم بتاؤ گی نہیں تو ہمیں پتا نہیں چلے گا کہ آنسہ مرم ڈیوڈ آج کے دن یعنی پانچ جون کو دنیا میں تشریف لائی تھیں۔” شرارت سے کہتے ہوئے اب وہ دونوں اس کے مقابل کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔
”بہت بہت شکریہ مجھے وش کرنے کا۔ تم دونوں نے میرے آج کے فضول اور اداس دن کو کافی اچھا بنا دیا۔”
”اداس اور فضول؟ وہ کیوں بھئی۔” پیٹر نے حیرت سے پوچھا۔
”کیوں کہ ددا اور موری کے علاوہ مجھے کسی نے وش نہیں کیا۔ کسی دوست کو بھی میری سالگرہ یاد نہیں رہی۔ ورنہ ہر سال سب وش کرتے ہیں۔ اس بار ڈبلن میں نہیں ہوں میں تو سب بھول گئے۔” وہ منہ پھلا کر افسوس سے بولی۔
”چلو ہم نے تو وش کر دیا نا۔”
”ہاں بس اب جلدی سے ڈبا کھولو اور کیک کاٹو۔ صرف تمہارے کیک کی خاطر میں نے اپنی بھوک کو آدھا گھنٹا مزید نظر انداز کیا۔” ڈینیل کے کہنے پر مرم ڈبے کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ہلکے جامنی رنگ کا بڑا سا ڈبا دیکھ کر صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کم از کم تین پاؤنڈ کا کیک تو ہو گا ہی۔
”اتنا بڑا کیک لانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم چار ہی تو لوگ تھے۔” ڈبے پر لگی ٹیپ اتارتے ہوئے وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
”اس سے چھوٹا کیک ملا ہی نہیں۔” معنی خیزی سے پیٹر کی طرف دیکھتے ہوئے ڈینیل نے دھیرے سے جواب دیا۔ بالآخر مرم نے ڈبا کھول لیا اور اس میں رکھے کیک کو دیکھ کر مرم کے مسکراتے لب لمحوں میں سکڑ گئے تھے۔ چند منٹ غیر یقینی سے کیک کو دیکھنے کے بعد اس نے نظر اٹھا کر ڈینیل اور پیٹر کو باری باری دیکھا جو سنجیدگی کا تاثر دیتے اسی کی طرف متوجہ تھے۔ اس عرصے میں جیف کی نظر بھی کیک پر پڑ چکی تھی اور پھر اس نے محظوظ نظروں سے مرم کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھا جسے دیکھنے پر وہ بے اختیار مسکرایا تھا۔
”اس کی بھی کیا ضرورت تھی؟” ڈبے کے بیچوں بیچ رکھے ننھے سے کپ کیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”ارے کیوں ضرورت نہیں تھی۔ کیسی باتیں…ہیں۔” بولتے بولتے ڈینیل نے کپ کیک کی طرف نظر کی اور اگلے لمحے غضب کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کرنٹ کھا کر اچھلا جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو کہ ڈبے کے اندر تین پاؤنڈ کے مزے دار کیک کے بجائے ایک چاکلیٹ کپ کیک موجود ہے۔ ارے یہ کہاں سے آیا؟ ” حیرت کی زیادتی کے باعث اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی ہوئی تھیں۔ جب کہ مرم ان دونوں کو مشکوک نظروں سے گھور رہی تھی۔
”ہم نے تو کافی کیک کا کہا تھا بیکری والے کو۔ لگتا ہے کہ اس نے غلطی سے یہ دے دیا۔”
”کافی کیک؟ لیکن میں نے تو…” پیٹر نے غیر محسوس انداز میں جملہ ادھورہ چھوڑا۔
”خیر اب کیا ہو سکتا ہے۔چلو مرم کاٹو نا کیک۔” ڈینیل نے اس مسئلے کو سرسری انداز میں لے کر ہاتھ جھاڑے۔
”کپ کیک بھی کوئی کاٹتا ہو گا بھلا؟ نہیں میں یہ ہرگز نہیں کاٹوں گی۔ سارا موڈ خراب کر دیا میرا۔” ہاتھ میں پکڑی چھری ٹیبل پر واپس رکھتے ہوئے اس نے کیک کاٹنے سے صاف انکار کردیا۔
”کپ میں ہے تو کیا ہوا کیک تو ہے نا؟ اس کا سائز نہ دیکھو ہمارا خلوص دیکھو۔” ڈینیل اس کے خفا خفا تاثرات دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
”دیکھا ڈین میں نے کہا تھا کہ مرم کو یہ کیک بالکل پسند نہیں آئے گا ۔” پیٹر نے تادیبی انداز میں پہلے مرم اور پھر ڈینیل کو دیکھا جو اب تک محظوظ انداز میں مسکرا رہا تھا۔
”لیکن یار میں نے سوچا کہ اتنا بڑا کیک کھا کر یہ موٹی نہ ہو جائے اس لیے یہ چھوٹا سا کپ کیک لے لیا۔ لڑکیاں تو بڑی حساس ہوتیں ہیں اس معاملے میں۔” وہ اب بھی غیر سنجیدہ تھا۔ مرم کا دل چاہا کہ یہ کپ کیک اس کے منہ پر مل دے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!