مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

شوٹنگ کے بعد چائے خانے میں بیٹھ کر انہوں نے ہلکا پھلکا لنچ کیا اور پھر باتوں کے درمیان کافی کا دور چلا۔ مرم حسب معمول کھانے کے بعد سے غائب تھی۔
”تم دونوں بیٹھو یہاں میں ابھی آیا۔” کافی کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے اس نے ڈینیل اور پیٹر کو مطلع کیا اور میز پر سے اپنا فون اٹھاتے ہوئے روش کی طرف بڑھ گیا جو چار دیواری میں گھرے خوبصورت باغ کی طرف جاتی تھی۔
”دیکھا میری پیش گوئی کتنی صحیح تھی۔ یہ موصوف مرم کے پیچھے ہی گئے ہیں۔” ڈینیل نے جیف کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
” دونوں ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ایک کو احساس بھی نہیں اس پیش رفت کا جب کہ دوسری پوری آمادگی کے ساتھ محبت کی وادی میں قدم رکھ چکی ہے۔”
”ضروری تو نہیں ایسا کچھ ہو۔ ہو سکتا ہے وہ اچھے ساتھیوں کی طرح وقت بتاتے ہوں، کام کے متعلق باتیں کرتے ہوئے۔” پیٹر اس کی بات سے متفق نہیں تھا۔
”ہمیشہ ہماری غیر موجودگی میں ہی انہیں کام کی باتیں یاد آتیں ہیں؟ تم میری بات لکھ لو یہ محبت ہونے کے ابتدائی آثار ہیں۔” ڈینیل کو اپنے مشاہدے پر مکمل بھروسا تھا۔
”چلو یہ تو پھر اچھی بات ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے موزوں ہیں۔ ایک طرف آئرش دیو مالائی داستانوں میں پنہاں حسینہ مرم ڈیوڈ، تو دوسری طرف سیاحت کی دنیا کا کھوجی جیف ابراہیم” پیٹر نے اس بار مسکراتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
”ہاں کم از کم میں مرم کی طرف سے پر یقین ہوں۔ اس کی جگمگاتی نظریں اور شرمگیں مسکراہٹ مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم کیلارنی کے بازار میں بیٹھے تھے۔ اس دن جیف کو واپس آتے ہوئے وہ جس محویت سے تک رہی تھی اس سے مرم کے دل کا حال عیاں ہو رہا تھا۔” ڈینیل پر سوچ انداز میں وہ منظر یاد کرتے ہوئے بولا۔
”میں خوش ہوں اس کے لیے۔ وہ مرم جیسی بہترین لڑکی ہی ڈیزرو کرتا ہے۔” پیٹر اپنے اس کم گو اور سنجیدہ دوست کے لیے دل سے خوش تھا۔ اس کے دو مخلص دوستوں کے دل سے اس وقت جیف ابراہیم کے لیے خوشی اور آسودگی کی دعائیں نکل رہیں تھیں۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

فصیل بند باغ کی درمیانی روش پر چلتے ہوئے اس کی نظریں مسلسل مرم کو ڈھونڈ رہیں تھی۔ روش کے دونوں اطراف کی زیبائش بے شمار رنگ و نسل کے پودوں اور پھولوں سے کی گئی تھی۔سبزے اور پھولوں کی ملی جلی خوشبو فضا میں بکھری ہوئی تھی۔ باغبانی سے شغف رکھنے والے بہت سے لوگ وہاں موجود تھے۔ زیادہ ہجوم ہونے کے باعث مرم کی غیر موجودگی کا اسے یقین تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح کسی سنسان اور چھپی ہوئی جگہ پر نماز ادا کر رہی ہو گی۔ چند لمحوں بعد وہ قدیم”کلاک ٹاور” کی جانب بڑھ گیا۔ وہاں پہنچ کر بھی اسے ناکامی ہوئی۔ وہ اب اسے فون کرنے کا سوچ رہا تھا۔
”آج تم پھر میری جاسوسی پر معمور ہو کیا؟” اپنے پیچھے سے اسے مرم کی طنز آمیز آواز سنائی دی۔ وہ مسکراتے ہوئے پیچھے مڑا۔ مرم کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ اس سے کافی خفا ہے۔
”میں تمہیں ہی ڈھونڈ رہا تھا سوری بولنے کے لیے۔ پتا نہیں کیسے میرے منہ سے وہ سب نکل گیا۔” جیف نے اپنے چہرے پر سنجیدگی لاتے ہوئے کہا۔ مرم کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر اسے اپنی مسکراہٹ چھپانے میں خاصی دقت پیش آئی۔
”تم ایسے کام کرتے ہی کیوں ہو ابراہیم کہ تمہیں بعد میں اس کے لیے معافی مانگنی پڑے؟ مجھے غصہ تو آیا تمہاری بات پر مگر زیادہ حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ تم بھی یورپ کے ان نام نہاد مسلمانوں میں سے ہو جو بڑے غرور اور تکبر سے ایشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک کو ”تیسری دنیا” کہتے ہیں؟” غصہ میں وہ ہمیشہ اپنے ہاتھوں کو مخصوص انداز سے چلاتی تھی۔
”وہ مسلمان اگر ایک ترقی پزیر ملک میں پیدا ہوئے تو کیا یہ ان کا جرم ہو گیا؟ یا تم نے یہاں ایک ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہو کر ترہ مار لیا؟ انگریزوں کی اندھی تقلید۔ہونہہ۔” بات کے اختتام پر اس نے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور دوسری جانب رخ موڑ لیا۔
”تم میرے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتی پھر اس طرح کی بات کیوں کر رہی ہو۔” جیف نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ اسے مرم کی بات سے دکھ پہنچا تھا۔
”ابراہیم تم شکایت کرنے کا حق نہیں رکھتے کیوںکہ تم نے کبھی اپنے بارے میں کچھ بتایاہی نہیں۔” مرم نے اس بار تھوڑے نرم لہجے میں اسے جتایا تھا۔
”اس طرح تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بھی اپنے بارے میں نہیں بتایا کہ تمہارے دادا ایرانی ہیں۔” جیف نے ابرو اچکا کر اس کا دھیان اس نقطے پر دلانا چاہا۔
”کیا جاننا چاہتے ہو تم میرے بارے میں؟” مرم نے گہرا سانس فضا کے سپرد کرتے ہوئے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”وہ سب جو تم بتانا چاہو؟” جیف نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”چلو واک کریں۔ مجھے چہل قدمی کرتے ہوئے باتیں کرنا زیادہ پسند ہے۔”
” جی بہتر مس زندگی۔” جیف کارنش بجا لاتے ہوئے بولا اور دونوں مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
”میرے ددا عبدالباری سن ستر کی دہائی میں اسفہان سے گلاسگو آئے تھے۔ تلاش معاش کے سلسلے میں۔” اس نے اپنی رام کتھا سنانی شروع کی۔ وہاں کئی سالہ ملازمت کے دوران ان کا آئر لینڈ میں دفتری کام کے سلسلے میں کافی آنا جانا رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک دورے میں ان کی ملاقات موری سے ہو گئی۔موری کا آبائی گاؤں بالن آسلو (Ballinasloe) ہے جہاں ان کے والد کی چھوٹی سی بیکری تھی۔ اسی بیکری میں ددا کو کپ کیکس پیک کرتی، گھنگریالے گولڈن بالوں والی آئرش لڑکی پہلی ہی نظر میں بھاگئی۔” مرم کا انداز بیان کافی شوخ اور شرارتی سا تھا۔ ددا نے جس انداز میں اپنی داستان محبت سنائی تھی اسی انداز میں وہ بھی بیان کر رہی تھی ۔
” واہ زبردست،تمہارے ددا کی لو سٹوری کافی افسانوی سی ہے۔” محویت سے اپنے کام میں مگن، لمبی سی فراک یا اسکرٹ میں ایپرن باندھے ہوئے خوبصورت حسینہ۔ تمہاری طرح ان کے سنہری بال بھی جالی دار اسکارف میں سے جھلکتے ہوں گے جو کہ اپنے نرم ملائم ہاتھوں سے خستہ اور مزے دار کپ کیکس بناتی ہو گی۔” جیف نے اس کی بات کاٹ کر کافی ڈرامائی نقشہ کھینچا ان دونوں کی پہلی ملاقات کا۔
”تم سے بہتر منظر کشی کوئی کر سکتا ہے بھلا؟ میں اتنی دیر سے کوشش کر رہی تھی کہ تمہاری طرح ہی دل چسپ انداز میں یہ لازوال داستان سناؤں، مگر شاید پیٹر ٹھیک ہی کہتا ہے کہ ہر کوئی جیف ابراہیم تو نہیں ہوتا نا۔” مرم نے اپنا ٹوکے جانے کا برا منائے بغیر خوش دلی سے کہا تھا۔
”نہیں تم بھی کافی اچھا بول لیتی ہو۔ابھی تک تو میں بور نہیں ہوا۔” جیف نے مرم کی تعریف کا ذرہ برا بر بھی نوٹس نہیں لیا۔
”تم بور ہو کے تو دکھا ؤ میرے ددا اور موری کی لو سٹوری ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے۔” اس کا لہجہ چیلنج کرتا ہوا تھا۔
”اچھا آگے تو بتاؤ۔” جیف نے مسکراتے ہوئے اسے کہانی جاری رکھنے کا کہا۔
”پہلی نظر کی اس محبت کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے یہ یقین کرنے کے بعد کہ ان کا تعلق مسلم گھرانے سے ہے، موری سے اپنے جذبات کا اظہار کر دیا اور ساتھ ہی شادی کی خواہش بھی ظاہر کی۔ موری پہلے ہی حیران تھیں کہ سرخ و سپید پردیسی روز بلاناغہ ان کے بنائے ہوئے عام سے کپ کیکس کھانے کیوں آجاتا ہے؟ددا کے اظہار سے ان کی الجھنیں دور ہو گئیں۔ بس پھر موری کی شرمیلی مسکراہٹ پر ددا کو مثبت جواب ملا اور انہوں نے اپنے ایک کولیگ کی والدہ کے ذریعے رشتہ بھجوایا کیوںکہ ان کے اپنے والدین حیات نہیں تھے۔” وہ دونوں اب چلتے چلتے ”ہیپی ویلی” تک آ گئے تھے۔ یہ ایک کچا راستہ تھا جس کے دونوں اطراف میں اونچے قدیم اطالوی درختوں کا جنگل تھا۔ وہاں صرف دو طرح کی آوازیں تھیں۔ ایک مرم کی کھنکتی آواز اور دوسری پرندوں کی چہچہاہٹ۔ مرم کو سننے کے ساتھ ساتھ وہ سوچ رہا تھا کہ جارج برنارڈشا نے شاید اس جگہ کا صحیح تجزیہ کیا تھا کہ یہ جنت ہی ہے جہاں سکون ہی سکون تھا۔ چلتے ہوئے اس نے ایک گہری نظر مرم پر ڈالی۔ وہ سفید لانگ اسکرٹ پر سبز قمیص اور گردن کے گرد ہم رنگ اسکارف سلیقے سے پہنے ہوئے تھی۔ کمر تک آتے گھنے، سنہری گھنگریالے بال جالی دار کپڑے کی مدد سے پونی ٹیل کی صورت میں سمٹے ہوئے تھے۔ اپنی سبزی مائل آنکھوں اور تیکھے آئرش نقوش سمیت وہ بلاشبہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
”ہریالی اور سبزے سے سجی راہ گزر اور خوب صورت ہم سفر۔” یک دم جیف نے اپنے دماغ کو دپٹا اس سوچ پر پھر سر جھٹک کر سامنے دیکھنے لگا اور اپنا دھیان دوبارہ سے مرم کی گفتگو پر لگایا۔
”اب یہاں سے آتا ہے کہانی میں ٹوئسٹ۔” مرم نے اپنی ہی بات کا مزہ لے کر ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ وہ جیف کی سوچوں سے بے خبر مسلسل بول رہی تھی۔
”موری کے والد بیٹی کے لیے ایک غیر ملکی ایشیائی کا رشتہ آنے پر خاصے حیران ہوئے تھے۔ ان کا پہلا جواب حسب توقع انکار ہی تھا، مگر ددا کے مخلص دوستوں اور ان کے والدین نے انہیں آخر کار راضی کر ہی لیا یا یوں کہنا چاہیے کہ ددا کی لگن سچی تھی سو، لیکن نکاح نامے کے شرائط میں یہ شرط رکھی گئی کہ ددا شادی کے بارہ سال تک آئر لینڈ سے باہر نہیں جا سکتے کیوں کہ وہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کا تحفظ چاہتے تھے۔ ددا نے بنا کسی پس وپیش کے ان کی ہر شرط قبول کر لی۔ بس پھر وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر وہیں رہنے لگے۔ شادی کے چند سال بعد جب موری کے والد کی وفات ہوئی تو بیکری کا تمام نظام ددا اور موری کے ہاتھوں میں آ گیا۔ تب سے لے کر آج تک وہ دونوں اسی بیکری کو چلاتے ہیں۔ بس یہ تھی میرے ددا کی کہانی۔”
”تو تمہارے ددا واپس ایران نہیں گئے بارہ سال بعد؟” جیف نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں حالاں کہ موری نے کہا بھی مگر وہ مانے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہاں ان کا کوئی اپنا نہیں تو جانے کا فائدہ۔ دراصل ددا کے والد نے دو شادیاں کیں تھیں اور ایران میں ان کے جو بھائی بہنیں ہیں وہ سب سوتیلے ہیں جنہوں نے باپ کے انتقال کے بعد ددا کے حصے کی زمین ضبط کر کے انہیں بے گھر کر دیا۔ تبھی وہ سب چھوڑ کر یورپ آئے تھے۔ اتنے سال بعد وہ کس کے لیے واپس جاتے؟ جب کہ وہ جانتے بھی تھے کہ موری کو اپنے دیس سے کتنی محبت ہے سو اُنہی کی خاطر ددا نے ہمیشہ یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ وطن اور اپنوں کی دوری سہنا کتنا کٹھن ہوتا ہے سو وہ موری کو اس آزمائش میں نہیں ڈال سکتے تھے۔”
”تو کیا ایران میں کسی سے بھی رابطہ نہیں ان کا؟”
”نہیں چند ایک رشتے داروں سے ددا کا مسلسل رابطہ رہتا ہے۔ عید اور دیگر تہواروں پر ددا کی خالہ اور چچی وغیرہ میرے اور موری کے لیے تحائف بھجواتی رہتیں ہیں۔”
اب وہ دونوں ”اٹالین گارڈن” میں داخل ہو رہے جہاں اطالوی کلچر کی طرز پر ہی پھولوں اور پودوں میں گھرا چکور تالاب موجود تھا۔ تالاب میں موجود گلابی کنول کے پھول اس کی خوبصورتی اور کشش میں اضافہ کر رہے تھے۔ تالاب کے درمیان کسی اطالوی دیوتا کا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔ باغ میں رکھے گئے شیروں کے مجسمے اوراطالوی طرز کے گملے سینکڑوں سال قدیم تھے۔
”یہ اٹالین گارڈن اس گارنش آئرلینڈ کی پہچان ہے۔ یہاں موجود بہت سے پودے ایسے ہیں جو پورے آئر لینڈ میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ ہر موسم کے ساتھ یہاں کے پھول بھی رنگ بدلتے ہیں اور اسی حساب سے پانی میں پڑتا ان کا عکس بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔” مرم زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تالاب میں اگے کنول کے پھولوں کو چھو کر ان کی ملائمت محسوس کرتے ہوئے گویا ہوئی۔ جب کہ جیف پرسکون کھڑا اسے بچگانہ حرکتیں کرتا دیکھ رہا تھا جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ تالاب کے پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھ جائے۔
”چلو اس چبوترے پر جا کر پہاڑوں اور سمندر کا نظارہ کرتے ہیں۔” مرم کو اس کے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے اس نے سامنے بنے اطالوی طرز کے چبوترے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے کاہا کی پہاڑیوں اور سیلٹک کے سمندر کا دل فریب نظارہ کیا جا سکتا تھا۔
”میں نے اپنے بارے میں اتنا کچھ بتایا۔ اب تم بھی بتاؤ کچھ؟”ہاتھ جھاڑ کر وہ سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
”خاموش زبان زیادہ مدھر ہوتی ہے۔” ایک لمحے کا وقفہ دیے بغیر سنجیدہ لہجے میں ایک آئرش کہاوت بیان کر کے وہ آگے بڑھ گیا تھا۔ جیسے وہ جانتا تھا کہ مرم یہ سوال ضرور کرے گی اس لیے پہلے ہی سے جیف نے جواب سوچ رکھا تھا۔
”رازوں کے بوجھ سے پاک دل کی عمرطویل ہوتی ہے۔” مرم نے بھی آئرش کہاوت کے ذریعے سے جواب دیا۔
”یہ ایک راز نہیں اگر اس سے تین لوگ واقف ہوں۔” پہاڑوں پر نظر جماتے ہوئے جیف نے دھیمی آواز میں ایک اور آئرش کہاوت بیان کی۔
”دو لوگ طویل سڑک کو مختصر بناتے ہیں۔” مرم بھی کب ہار ماننے والی تھی۔
”ایک اچھا گھوڑا اپنا بوجھ خود ڈھوتا ہے۔” وہ دونوں اب ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔ ایک دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے اعتماد سے کھڑا تھا، تو دوسری دونوں بازو باہم سینے پر لپیٹے سب جان لینے کا پختہ ارادہ لیے کھڑی تھی۔
”آفت کے وقت لوگ ایک دوسرے کی پناہ گاہ ہوتے ہیں۔”
”خاموش لوگ اپنی مشکلات بہتر طریقے سے حل کرتے ہیں۔” دونوں کو ہی اب اس ”ریپڈ فائر” کھیل میں مزہ آ رہا تھا۔
” ایک دوست کی آنکھ بہترین عکس ہے۔” مرم نے ابرو اچکاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”تینوں ہی یکساں ہیں: ٹیلی فون، ٹیلی گراف اور ایک عورت۔” جیف نے اس کے جواب میں کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ اس بار مرم لاجواب ہوئی تھی، مگر اگلے لمحے اس کے چہرے پر برہمی کے تاثرات ابھرے۔
”تم…تم نے مجھے ایسا سمجھا ہے؟ اتنا بے اعتبار کہ اگر تم مجھے کچھ بتاؤ گے، تو میں پوری دنیا میں نشر کر دوں گی؟ جیف ابراہیم تمہاری یہ سوچ انتہائی غلط ہے۔”
”میں نے تو بس ایک آئرش کہاوت بیان کی تھی۔ تم اسے سنجیدگی سے کیوں لے رہی ہو۔” جیف مصنوعی حیران ہوتے ہوئے بولا۔
”ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو پھر ایسا ہی صحیح… دیکھتے ہیں جیف ابراہیم تم کب تک بچو گے۔ آئرش لوگوں کی خصوصیت سے تم ابھی واقف نہیں ہو۔ عزم اور مستقل مزاجی ہماری قوم کی خصوصیات ہیں۔ ہار ماننا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں۔” مرم کا انداز بڑا پرعزم تھا۔ جیف اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ نہ جانے کیوں اسے مرم کا اصرار اچھا لگ رہا تھا۔
”کیا تم اس التفات کے قابل ہو؟ کیا واقعی ایسا ہے؟ کبھی فرصت ملے تو غور سے دیکھ لینا خود کو۔” جیف کے ذہن نے یک دم اسے ڈسا۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں ہی اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
”چلو واپس چلیں کافی دیر ہو گئی ہے۔” یک دم وہ سپاٹ و بے گانے انداز میں گویا ہوا اور واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے جب کہ ساکت کھڑی مرم کو شدت سے اس کا لہجہ محسوس ہوا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!