مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

”تو آج ایک اور پڑا ؤمکمل ہوا۔ ” ڈینیل نے دونوں بازو ہوا میں بلند کرتے ہوئے انگڑائی لی۔
”ہاں اور اب کل ہم کانٹی کارک کی جانب سفر شروع کریں گے۔ اس لیے اس قدیم افسانوی شہر کی رونقوں کو جی بھر کر دیکھ لو۔” کیلارنی مارکیٹ کی کشادہ سڑک کنارے رکھی میزوں میں سے ایک پر بیٹھے وہ اپنی آخری شام گزار رہے تھے۔
”اچھی جگہ تھی ویسے یہ۔” کلب سینڈوچ کا آخری نوالہ لیتے ہوئے پیٹر نے سرسری انداز میں کہا۔ اس کنجوسی پر مرم اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ان تینوں کے منہ سے کچھ اور ہی سننا چاہتی تھی۔
”جگہ تو یہ بہت خوب صورت تھی۔ بالخصوص یہاں کی قدیم جگہیں اور ان سے متعلق قصے کہانیاں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ لوک داستانوں کی سرزمین ہے۔”
”ہاں تمہیں اپنے مستقبل کے بچوں کو سنانے کے لیے کہانیاں مل گئیں یہاں۔ ” پیٹر نے ڈینیل کو شرارت سے چھیڑا۔
”یار ٹھیک کہہ رہے ہو، تمہیں تو پتا ہے نا میری گھڑی ہوئی کہانیاں کتنی بکواس اور بورنگ ہوتیں ہیں۔”
”ہاں اب ہر کوئی جیف ابراہیم تو نہیں ہوتا نا۔” پیٹر جیف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”بالکل صحیح، اس کے بچے تو اس سے ہمیشہ خوش رہیں گے۔” ڈینیل ایک آنکھ دبا کر مسکراتے ہوئے بولا۔
”تم بے فکر رہو میں کہانیاں سنانے کا کام تمہارے بچوں کے لیے بھی کر سکتا ہوں۔ اپنی آواز میں بہت سی کہانیاں تمہیں ریکارڈ کر کے دے دوں گا۔ روز رات میں تم سنوا دیا کرنا انہیں۔” جیف نے نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ سنجیدگی سے کہا۔
”ہاں یہ اچھا طریقہ ہے۔” ڈینیل نے اس کے خیال کی تائید کی۔ پھر کچھ لمحوں بعد مرم کو دیکھ کر گویا ہوا جو نہ جانے آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ کر کیا سوچ رہی تھی۔
”مرم تم کہاں غائب ہو، اتنی خاموش کیوں ہو؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟” ڈینیل کے پکارنے پر وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ تینوں اسی کی جانب دیکھ رہے تھے۔
”ہاں، نہیں بس سب ٹھیک ہے۔” اُداسی سے جواب آیا۔
”پھر اتنی اداس کیوں ہو؟” ڈینیل کہاں مطمئن ہونے والا تھا۔
”ابھی کچھ دیر پہلے میں ددا سے بات کر رہی تھی۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ بس اسی کی پریشانی ہے۔” اس نے گہری سانس فضا کے سپرد کرتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں بتایا تو ان تینوں کو ہی کافی حیرت ہوئی۔ ہمیشہ خوش رہنے اور پٹر پٹر بولنے والی آج واقعی بہت خاموش تھی۔
”کیا زیادہ طبیعت خراب ہے؟ کیا ہوا انہیں؟” ڈینیل نے تشویش سے پوچھا۔
”نہیں بس بخار سا ہے انہیں۔ وہ تو کبھی نہ بتاتے مجھے مگر میں نے ان کی آواز میں تھکاوٹ اور بوجھل پن محسوس کر لیا تھا۔ بہت زیادہ کھانس رہے تھے۔ شاید گلا بھی شدید خراب ہے۔” وہ فکرمندی سے بولتے ہوئے اتنی اچھی لگ رہی تھی کہ جیف اسے کئی لمحوں تک دیکھتا رہا۔ وہ حیران تھا کہ یہ لڑکی کبھی اتنی سنجیدہ اور پریشان بھی دکھائی دے سکتی ہے؟

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”پریشان مت ہو، ٹھیک ہو جائیں گے وہ اور اگر تم جانا چاہتی ہو ان کے پاس تو ضرور جاؤ۔ ہم کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے۔” پیٹر نے اسے جانے کی اجازت دی کیوں کہ فی الحال وہ ان کی پابند تھی۔
”نہیں ددا نے سختی سے منع کیا ہے کہ میں اپنا کام پورا کر کے ہی وہاں آؤں۔ اس لیے جا تو نہیں سکتی۔ بس موری اور ددا میں سے کوئی ذرا سا بھی بیمار ہوتا ہے نا تو میں پریشان ہو جاتی ہوں۔”
”فکر مت کرو وہاں کوئی تو ہو گا ان کا خیال رکھنے کے لیے۔ تمہارے والدین وغیرہ۔” جیف نے اسے تسلی دی۔
” نہیں میرے والدین کی ڈیتھ ہو چکی ہے جب میں سات سال کی تھی۔” مرم نے دھیمی آواز میں بتایا۔
” اوہ آئی ایم سوری۔مجھے معلوم نہیں تھا۔” جیف کے ساتھ ساتھ ڈینیل اور پیٹر کو بھی دُکھ ہوا۔
”کیا بہت محبت کرتی ہو ان سے ؟” ڈینیل نے پوچھا۔
”ہاں بہت۔ ان کے بعد ددا اور موری نے ہی مجھے پالا، پڑھایا، لکھایا۔ سو بہت محبت کرتی ہوں میں ان سے اور چاہتی ہوں کہ جیسے انہوں نے بچپن میں میرا دھیان رکھا اب میں بھی ویسے ہی وہ سب ان دونوں کے لیے کروں، مگر اپنی جاب کی وجہ سے مجھے ڈبلن رہنا پڑتا ہے۔ اس لیے جب بھی مجھے ان کی معمولی سی بیماری کا پتا چلتا ہے، تو میں بہت ڈر جاتی ہوں۔ اسی سات سال کی بچی کی طرح جس کے ماں باپ اچانک چلے گئے تھے اس سے دور۔ اب ددا اور موری کو کھونا میرے بس میں نہیں ہے۔” پلکیں جھپک جھپک کر وہ اپنے آنسو اندر دھکیل رہی تھی۔ اس پل وہ کہیں سے بھی شوخ اور چنچل مرم نہیں لگ رہی تھی جسے وہ اتنے عرصے سے جانتے تھے۔کچھ پل وہاں خاموشی چھائی رہی ۔
” مرم وہ دیکھو اس بندر کی شکل پیٹر سے کتنی ملتی ہے نا۔” مرم کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی خاطر ڈینیل نے کچھ اس طرح سے چونکتے ہوئے بائیں طرف اشارہ کیا کہ وہ تینوں بے ساختہ اس جانب متوجہ ہوگئے۔ سڑک کے دوسری جانب لال کوٹ اور ٹوپی میں ملبوس ایک بندر ہاتھوں میں چھوٹا سا گٹار لیے کھڑا تھا۔ اس کے مالک نے بھی بالکل اسی جیسا کوٹ اور ٹوپی پہن رکھی تھی اور ہاتھوں میں پکڑے گٹار کو بڑی مہارت سے بجا رہا تھا۔ مالک کی دیکھا دیکھی وہ بندر اس کی نقل اتارتا، لہک لہک کر گٹار بجاتا بڑا دل چسپ اور مزاحیہ لگ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر مرم کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی جب کہ پیٹر نے اسے ایک دھپ رسید کی جو ڈینیل نے جوابی کارروائی کے بغیر سہ بھی لی کیوں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا۔
”ہاں بس وہاں تمہاری کمی ہے۔ تم بھی جاؤ اور ان کے گانے پر ناچنا شروع کر دو۔ پھر میں ویڈیو بناؤں گا اور کہوں گا کہ کیلارنی کی مارکیٹ میں تین نہایت باصلاحیت اور خوبرو بندر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔” پیٹر نے دانت پیستے ہوئے اسے مشورہ دیا۔ ابھی ڈینیل کوئی جواب دینے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک دم جیف اپنی جگہ سے اٹھا اور سڑک پار کرنے لگا۔
”یہ کہاں جا رہا ہے؟” مرم نے تعجب سے پوچھا۔
”دیکھو لو پیٹر اسے کہتے ہیں دوستی۔ وہی میرا سچا یار ہے۔اب اس نے سوچا کے نازک مزاج ڈینیل کہاں ناچتا پھرے گا تو خود ہی اپنی خدمات پیش کر دیں۔ شرم کر اور سیکھ اس سے کچھ۔” پیٹر سنی ان سنی کرتے ہوئے جیف کو ہی دیکھ رہا تھا جو اب سڑک پار کر چکا تھا، مگر وہ بندر اور اس کے مالک کے نزدیک جانے کے بہ جائے ان کی مخالف سمت مڑ گیا۔ ان تینوں کی نظریں اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہیں تھیں۔ کچھ آگے چل کر وہ ایک ضعیف اور لاغرعورت کے قریب رک گیا اور اس سے بات کرنے لگا۔ پھر جیف نے اس عورت کے ہاتھوں میں موجود بہت سے شاپرز پکڑ لیے۔ ناتواں ہاتھوں کے خالی ہوتے ہی اس نے تشکر سے جیف کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے کچھ بولی۔ جیف نے کمر کو ہلکا سا خم دیا اور اپنا سر اس عورت کے قریب جھکا دیا۔ پھر اس نے جیف کے جھکے سر پر اپنے نقاہت زدہ، مگر پر شفقت ہاتھ رکھے اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ وہ تینوں بغور یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ جیف کے تاثرات تو انہیں نظر نہیں آ رہے تھے کیوں کہ ان کی طرف اس کی پشت تھی البتہ اس عورت کی برستی آنکھیں اور مسکراتے لب وہ ملاحظہ کررہے تھے۔ کچھ لمحوں بعد جیف سڑک پار کرنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ سڑک پار کرنے کے بعد وہ ایک گلی کے اندر چلے گئے۔ گویا وہ اسے گھر تک چھوڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
”کہو کیا اب بھی تمہیں یہ مغرور، بدتمیز اور بد اخلاق لگتا ہے؟” اس کے گلی میں غائب ہونے کے چند لمحوں بعد ڈینیل نے مرم سے سوال کیا۔
”نہیں بالکل نہیں بلکہ آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ جیف بہت حساس اور نیک سیرت انسان ہے۔ وہ بے نیاز اور بے پروا نہیں ہے پر نہ جانے اس نے اپنے اوپر بے نیازی کا خول کیوں چڑھایا ہوا ہے؟”مرم نے بلا تامل اعتراف کیا۔
”ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ یہاں سینکڑوں لوگ ہیں۔ ہم تینوں سمیت بہت سے لوگ یہاں ایسے ہوں گے جن کی نظر گئی ہی نہیں ہو گی اس عورت پر۔ ہم نے ایک ناچتے بندر کو تو نوٹ کر لیا، مگر ایک بوڑھی، ناتواں عورت نظر نہیں آئی ہمیں۔ یہی آج کل کے لوگوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ انہیں صرف اپنی دل چسپی اور ہنسی مذاق کی چیزیں ہی نظر آتیں ہیں۔ پھر بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے دیکھا تو ہو گا کہ کس مشکل سے اس بڑھیا نے وزن اٹھایا ہوا ہے، مگر انہوں نے مدد کرنے کا سوچا نہیں ہو گا۔ جب کہ جیف نے اسے دیکھا بھی اور اس کی مدد بھی کی۔ ورنہ اگر وہ اصل میں بے نیاز اور بیپروا ہوتا تو ”مجھے کیا” کہہ کر نظریں ہٹا لیتا۔ اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اعلان کر کے نیکی کرنے کا عادی نہیں ہے۔ ہمیں بتانے کے بہ جائے وہ خاموشی سے اٹھا اور چل پڑا۔” پیٹر نے بڑی گہرائی میں جا کر وہاں موجود لوگوں کا اور جیف کا تجزیہ کیا تھا۔ ڈینیل اور مرم نے اس کی تائید میں سر ہلایا۔
مرم کی نظریں اسی جگہ ٹکی تھیں جہاں سے اسے واپس آنا تھا۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ واپس آتا دکھائی دیا۔ دونوں ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالے، سر جھکائے اپنی سوچوں میں گم، دنیا سے بہ ظاہر بے نیاز اور لاتعلق سا چلتا ہوا۔ ایک مرتبہ پھر مرم اسے بہ غور دیکھ رہی تھی۔ آج ایک مرتبہ پھر وہ جیف ابراہیم کے سحر میں جکڑی گئی تھی، مگر آج آواز کے سحر کے بجائے اس کے کردار اور شخصیت کے سحر نے اسے باندھ دیا تھا۔ مرم کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے جیف ابراہیم کے قدم سڑک پر نہیں بلکہ اس کے دل کی دہلیز پر پڑ رہے ہوں اور جیف ابراہیم ان لوگوں کے قریب آنے کے بجائے لمحہ بہ لمحہ مرم کے دل کی مسند کی طرف بڑھ رہا ہو۔
٭…٭…٭
میری خوشیوں کی عمر نہ جانے اتنی تھوڑی کیوں تھی۔ مظفرآباد سے گاؤں واپس آتے ہوئے بابا کی وین کھائی میں جا گری تھی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ سال پہلے جہاں خوشیوں کی برات اتری تھی اب وہاں سوگ کا عالم تھا۔ اماں اور دادی کو غش پرغش پڑ رہے تھے۔ بچوں کی آہ وبکا گھر سے باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ ایسے میں چپ تھا تو صرف میں سانول۔ جو بس ایک کونے میں کھڑا باپ کی کفن میں لپٹی لاش کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہا تھا۔ کسی نے مجھے گلے لگا کر دلاسا نہیں دیا تھا۔ محمد خان کے بچوں میں اگر حقیقت میں کوئی یتیم اور بے سہارہ ہوا تھا تو وہ میں ہی تھا۔ کیوں کہ باقیوں کے پاس تو ماں تھی اور بھی بہت سے رشتے موجود تھے۔ جب کہ میری تو حقیقتاً دنیا اندھیر ہو گئی تھی۔ اس دنیا میں میرا واحد چاہنے والا آج قدرت نے واپس لے لیا تھا۔ دفنانے کے دوران بھی میں دور کھڑا خشک آنکھوں سمیت ساری کارروائی دیکھتا رہا تھا، مگر گھر واپس آنے کے بعد چھت پر بنے اسٹور میں چھپ کر میرا ضبط جواب دے گیا اور پھر میں اس طرح رویا جس طرح بچپنے میں ماں کے لاتعلق رویے اور خاندان کی دل چیرنے والی باتوں پر رویا کرتا تھا۔ پورے ستائیس گھنٹے تک وہاں نیم بے ہوشی کی حالت میں تنہا پڑا اپنی یتیمی کا پرسہ خود کو ہی دیتا رہا تھا۔
٭…٭…٭
”پھولوں کے جزیرے پر خوش آمدید۔” مرم نے بھی گائیڈ کے انداز میں ہی جھک کر انہیں گارنش کے جزیرے میں خوش آمدید کہا تھا۔ دراصل ان کا گائیڈ ایک سولہ سترہ سالہ نو عمر لڑکا تھا جسے انگریزی برائے نام ہی آتی تھی۔ وہ اپنی مقامی زبان میں سب جگہوں کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا اور مرم اس وقت مترجم کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔
”یہ جگہ جارج برنارڈشا سے منسوب ہے۔ اپنے بہت سے ناول اور اسکرپٹس اس نے یہاں کے باغات میں ہی تحریر کیے تھے۔ جب وہ آخری بار جا رہا تھا یہاں سے تو اس کی میزبان نے الودائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب تم سے جنت میں ملاقات ہو گی۔اس کے جواب میں جارج نے بڑے تعجب سے پوچھا تھا کہ کیا ہم ابھی جنت میں نہیں ہیں؟” مرم حرف بہ حرف ترجمہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔
”اور یہ یہاں کا چھوٹا سا ٹی روم ہے۔” بندرگاہ پر اترتے ہی گارنش جزیرے کے باغات کا مرکزی داخلی حصہ تھا جہاں پر کئی قسم کے پودے اور درخت تھے اور اِن سب کے بیچوں بیچ بہت سی میزیں اور کرسیاں رکھی تھیں جنہیں مرم چائے خانہ کا نام دے رہی تھی۔
”بہت خوب۔” پیٹر نے ہرے بھرے باغ پر ستائشی نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”تو آج تم ہمیں یہ دکھانے لائی ہو کہ تمہارے پیارے وطن میں پودے اور پھول کس طرح سے اُگتے ہیں۔” پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے ڈینیل نے سرسری انداز میں مرم کو تپایا۔
”ہر ملک میں پودے ایک ہی طرح سے اُگتے ہیں ڈینیل، زمین سے۔” آخری الفاظ اس نے دانت پستے ہوئے ادا کیے۔
”اوہ یہ نئی اطلاع ہے میرے لیے۔” ڈینیل نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔ مرم کو اس کے ملک کے حوالے سے چڑانے میں ڈینیل کو نہ جانے کیوں مزا آتا تھا۔
”اب اگر تم نے کوئی فضول بات کی نا تو میں…”
”تم لوگ بحث کرنا بند کرو گے اب؟ چلو آگے وہ لڑکا کب سے ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کررہا ہے۔” جیف نے ان دونوں کو حسب معمول الجھتے دیکھا، تو انہیں ٹوک کر آگے چلنے کو کہا۔ ڈینیل اس کی طرف شرارتی مسکراہٹ ڈال کر آگے بڑھ گیا جب کہ مرم نے جیف کو گھورا تھا جس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ابھی وہ جیف کو کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ اتنے میں مرم کے موبائل پر کال آنے لگی۔
”السلام وعلیکم ددا۔” فون کو کان سے لگاتے ہوئے مرم نے پر جوش انداز میں سلام کیا۔ وہ جیف سے ذرا فاصلے پر چل رہی تھی۔” جیف نے مڑ کر ایک لمحے کے لیے اس کی آواز میں موجود کھنک کو متاثر ہوتی نظروں سے دیکھا اور مسکرا کر اگلا قدم بڑھا دیا۔ مرم کی رفتار اب خاصی دھیمی ہو چکی تھی۔
(من خوبم حال شما چطور است؟ (”میں اچھی ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟” چند لمحوں کے بعد دوسری جانب کی بات سن کر وہ گویا ہوئی۔ اس کی آواز جیف کے کانوں سے ٹکرائی۔ ایک لمحے کے لیے اسے وہم ہوا تھامگر اگلے لمحے…
(در حال حاضر مادر گارنش آیلینڈ (”ابھی ہم گارنش آئر لینڈ میں ہیں۔” شاید دوسری جانب سے پوچھا گیا تھا کہ وہ کدھر ہے ابھی، اسی کے جواب میں مرم نے گارنش آئر لینڈ کا نام بتایا تھا۔ اس بار جیف نے اچنبھے سے مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی بلکہ فون کان سے لگائے دوسری جانب دیکھ رہی تھی۔
(آب و ھوا در اینجا لذت بخش است۔ در اینجا یک نسیم خنک، گل ہای زیبا و باغ ہای سرسبز است۔)
”جی یہاں کا موسم بہت خوش گوار ہے۔ یہاں ٹھنڈی ہوا ہے، خوبصورت پھول اور سرسبز باغات ہیں۔” جیف حیرت و استعجاب میں گھرا آئرش لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بالکل صحیح لہجے اور تلفظ کے ساتھ بڑی روانی سے فارسی بول رہی تھی۔ کیا ابھی کوئی اور انکشاف ہونا باقی تھا؟ جیف یہ زبان جانتا تو نہیں تھا، مگر اسے فارسی سے اتنی واقفیت تو تھی ہی کہ وہ مرم کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کی شناخت کر پاتا۔
(بلہ من احساس خوبی۔ ( ”جی مجھے اچھا لگ رہا ہے یہاں آ کر”
(شما استراحت۔ ما بعدا صحبت۔خداحافظ( ”آپ آرام کریں اب۔ بعد میں بات کریں گے۔ خداحافظ” کچھ دیر بات کر کے مرم نے فون بند کر دیا اور جیف کی خود پر جمی حیران نظروں کی طرف متوجہ ہوئی۔
”ارے تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو؟ چلو وہ لوگ کب کے آگے بڑھ چکے ہیں۔” مرم نے اس کی سوالیہ نظروں کو مکمل نظر انداز کردیا۔
”تم…تم ابھی فارسی بول رہی تھی نا؟” جیف نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا جب اس نے مرم سے اس کے مذہب کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اسے مرم کا رد عمل پوری جزئیات کے ساتھ یاد تھا۔
”ہاں تو؟” اس نے عام سے انداز میں تائید کی۔
”مگر تم کیسے یہ زبان جانتی ہو؟ میرا مطلب ہے کہ کیا تمہیں زبانیں سیکھنے کا شوق ہے؟ اور کون کون سی زبانیں بول لیتی ہو؟” جیف اب دل میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ اس بات کو وہ سرسری اور معمولی کیوں نہیں لے سکا تھا؟
”آئرش، فارسی اور انگلش بول لیتی ہوں میں۔” مرم کو کچھ کچھ اس کی حیرت کی وجہ سمجھ آ رہی تھی۔
”آئرش اور انگلش تو ٹھیک ہے مگر یہ فارسی زبان کچھ ہضم نہیں ہو رہا مجھے؟ میرا مطلب ہے کہ لوگ اٹالین، چائنیز، اسپینش اور فرنچ سیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ تمہیں کہاں سے شوق ہوا ایک تیسری دنیا کے ملک کی زبان سیکھنے میں؟” وہ واقعی حیران ہوا تھا کہ ایک ترقی یافتہ ملک کی لڑکی ایک ترقی پزیر ملک کی زبان میں کیوں کر دل چسپی رکھ سکتی ہے جب کہ اسے غیر ملکی زبانیں بولنے اور سیکھنے میں بہ ظاہر کوئی دل چسپی بھی نہیں۔
”اپنے ددا سے کیوںکہ وہ اس ”تیسری دنیا کے ترقی پزیر” ملک کے باشندے ہیں۔ ” مرم نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”جیسے مجھے موری کی وجہ سے آئر لینڈ سے عشق ہے بالکل اسی طرح مجھے ددا کے دیس سے بھی ویسی ہی انسیت اور لگاؤ ہے۔ آج تو میں نے تمہارے الفاظ برداشت کر لیے اپنے ملک کے لیے۔ آیندہ احتیاط برتنا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔” شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے تیز لہجے میں خبردار کرنے کے بعد وہ وہاں سے جا چکی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!