”تم …تم مسلمان ہو مرم ؟” بالآخر اس نے سیدھے سیدھے پوچھ ہی ڈالا۔ گو کہ وہ جواب جانتا تھا، مگر پھر بھی۔
”ہاں میں مسلمان ہوں اور اب تمہارا اگلا سوال یہ ہو گا کہ کیا تم دہشت گرد ہو تو میں تمہاری تسلی کے لیے بتا دوں کہ میں دہشت گرد ہرگز نہیں ہوں۔” اس بار مرم نے تپے ہوئے لہجے میں جواب دیا تھا۔ اس کے اس جواب پر جیف نے اپنے آپ کو کوسا ایک بے تکا سوال پوچھنے پر۔ کیا وہ پاگل ہو گیا تھا جو ایسے سوال کر رہا تھا؟
”میں کیوں کہوں گا ایسا۔ میں خود ایک مسلمان ہوں اور جانتا ہوں کہ ایک سچا، پکا مسلمان دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتا۔” مرم کے جواب پر عجیب سا سکون محسوس کیا تھا اس نے۔
”ہاں گوگل پر مجھے تمہارے نام کے بعد یہی ایک بات پتا چلی تھی تمہارے متعلق۔ تم نے کبھی سوچا کہ میں تمہیں ”ابراہیم” ہی کیوں کہتی ہوں ہمیشہ؟ یا اس بات پر غور کیا کہ اس رات مدد کے لیے میں نے تمہیں ہی کیوں پکارا ؟ پیٹر یا ڈینیل میں سے کسی کو کیوں نہیں؟ غور تو تم اس بات پر بھی کر سکتے تھے کہ میں ہمیشہ تمہاری طرح صرف سبزیاں ہی کیوں کھاتی ہوں؟ اور سوچا تو اس بات پر بھی بہت کچھ جا سکتا تھا کہ میرا لباس مغرب میں رہنے کے باوجود اتنا غیر مغربی کیوں ہے؟ مگر نہیں تمہیں اپنے کام سے فرصت ملے تب نا۔” دوستی کے پہلے لمحوں میں ہی مرم نے اسے ٹھیک ٹھاک شرمندہ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ نہ جانے پھر اس کے ہاتھ یہ نادر موقع آتا بھی یا نہیں؟
”اچھا اچھا میں مان لیتا ہوں میری ہی سب غلطی ہے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے تمہارے متعلق جان کر۔ عرصے بعد کام کے دوران مجھے میرا کوئی ہم مذہب ملا ہے اور تمہارے یہ طنزیہ جملے بھی میں اسی وجہ سے اگنور کر رہا ہوں۔” وہ حقیقت میں آسودہ اور خوش دکھائی دے رہا تھا۔
”اب دوستی ہو گئی ہے تو یہ بھی بتا دو کہ تم اس وقت کون سی نماز پڑھ رہی تھی جب کہ کسی فرض نماز کا وقت بھی نہیں تھا۔” جیف اب ریلیکس ہو کر اپنے ذہن میں آئے سارے سوال پوچھ رہا تھا۔
”اب ہماری دوستی اتنی بھی گہری نہیں ہوئی جو میں تمہیں سب ہی کچھ بتا دوں اپنے بارے میں۔” مرم نے سہولت سے ٹالا تو وہ خفیف سا مسکرا دیا۔
”تمہیں نماز پڑھتا نہ دیکھتا تو میں کبھی نہ پہچان پاتا کہ تم مسلمان ہو کیوں کہ تمہارے نام سے تو ظاہر…”
”ہاں میرا نام اگر زینب یا فاطمہ ہوتا تبھی تم جان پاتے؟ ہونہہ …نام پر بھی اعتراض ہے اور اب یقینا تمہیں ”ڈیوڈ” پر بھی اعتراض ہو گا تو میں پہلے ہی واضح کر دوں کہ میرا نام مرم داد ہے، مگر یہاں کے لوگ ہمیشہ میرا غلط نام ہی پکارتے تھے اس لے ددا نے داد سے ڈیوڈ کر دیا کیوں کہ بائبل میں حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر اسی نام سے ہے۔” مرم کو آگ ہی لگ گئی تھی اس کی بات سے اس لیے اس نے پوری وضاحت دی مع سیاق و سباق کے۔
”اعتراض نہیں ہے بس پہلے کبھی سنا نہیں یہ نام۔” اسے غصے میں آتا دیکھ کر جیف نے اپنی مسکراہٹ سمیٹی۔
”کیوں تم کیا عربی لغت پر عبور رکھتے ہو؟ مرم عربی کا لفظ ہے جس کا لفظی معنی سانس لینا ہے۔ مطلب انھیل، ایگزھیل، مطلب آکسیجن۔ مطلب زندگی۔” تپے تپے لہجے میں بولتے ہوئے اس نے اپنے نام کے کئی معنی گنوائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اچھا اچھا زندگی صاحبہ بس کر دیں۔ وہ بندہ بھی پریشان ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔” جیف نے صلح جو انداز میں کہا اور بگھی والے کی طرف اشارہ کیا جو مرم کی اونچی آواز میں بولنے پر ان دونوں کو مڑ کر دیکھ رہا تھا۔
”ویسے اگر میں تمہاری ہم مذہب نہ ہوتی تو تم کبھی معافی نہ مانگتے مجھ سے نہ ہی دوستی کی آفر کرتے ہے نا؟” کچھ لمحوں بعد مرم نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
”نہیں معافی تو مانگ لیتا، مگر ہاں دوستی نہیں۔” اس نے کندھے اچکا کر اعتراف کیا۔
”عجیب شخص ہو تم جیف ابراہیم۔” مرم نے افسوس سے کہا۔
”ویسے تم یہی نام کیوں استعمال کرتے ہو؟”
”اب ہماری دوستی اتنی بھی گہری نہیں ہوئی جو میں تمہیں سب ہی کچھ بتا دوں اپنے بارے میں۔” جیف نے اس کا فقرہ حرف با حرف لوٹایا۔
”یہ بھی ٹھیک ہے۔” برا مانے بغیر وہ کندھے جھٹک کربولی۔
” ویسے ایک بات کا اعتراف میں ضرور کرنا چاہوں گا کہ تمہارا آئر لینڈ بہت خوب صورت ہے۔ یہاں کی ہر چیز میں ایک عجیب سی کشش ہے۔” بہتی ندی کے اس پار بلند و بالا پہاڑوں پر نظریں جماتے ہوئے اس نے سچائی سے اعتراف کیا۔ جیف کی بات پر مرم مسکرا دی تھی۔ پھر وہ دونوں سامنے نظر آتے درختوں میں گھرے قدیم کاٹیج کی طرف متوجہ ہو گئے جو ان کے آج کے سفر کا پہلا پڑاؤ تھا۔
٭…٭…٭
”علم کی جھیل… کیلارنی کی ایک اور حسین اور شفاف جھیل۔ میرے پیچھے جو پہاڑ موجود ہیں ان کے عکس اس جھیل کے صاف شفاف پانی میں اتنے مکمل اور نمایاں ہیں کہ مجھے یہ گمان ہو رہا ہے کہ کسی نے ان دیو ہیکل پہاڑوں کو اس جھیل میں سمیٹ دیا ہو۔” اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ ہلا تا ہوا، کبھی کیمرے تو کبھی کسی نظارے کی طرف دیکھ کر بولتا ہوا وہ ایک مرتبہ پھر مرم کو اپنے لفظوں کے سحر میں باندھ گیا تھا۔ وہ لوگ کشتی میں بیٹھ کر کیلارنی کی ہم وار ترین جھیلوں کی ویڈیو بناتے ہوئے گھوم رہے تھے۔
”اس جھیل کا یہ نام اس لیے ہے کہ سینکڑوں سال پہلے یہاں قریب ہی ایک بہت بڑی درس گاہ تھی جہاں جنگجوؤں کی تربیت کی جاتی تھی اور ساتھ ساتھ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس جھیل سے منسلک ایک بہت ہی دل چسپ رومانوی لوک داستان بھی ہے۔کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں ایک مرتبہ آئرش جنگجو اس جھیل کنارے شکار کے لیے آئے تھے۔ تبھی اس جھیل میں سے ایک سنہرے بالوں والی بہت حسین شہزادی سفید جادوئی گھوڑے پر نمودار ہوئی۔ سپاہ سالار آسن لمحوں میں ہی اس حسین شہزادی جس کا نام نیامہ تھا کی زلفوں کا اسیر ہوا گیا اور بنا کچھ سوچے وہ نیامہ کی دعوت پر ” لینڈ آف یوتھ” کی سیر کرنے نکل پڑا جو نیامہ کے مطابق اس جھیل کے اندر موجود تھی اور اس سرزمین پرموت، بڑھاپے، بیماری، دکھ اور خزاں کا کوئی گزر نہیں۔ آسن، نیامہ سے شادی کر کے وہاں بظاہرخوش اور مطمئن رہنے لگا، مگر اس کے دل کا ایک کونا اب بھی اپنے لوگوں اور سرزمین کی یاد میں دھڑکتا تھا۔ بالآخر ایک دن اس نے نیامہ سے واپس جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ آسن کی خوشی دیکھتے ہوئے اس نے اجازت دے دی، مگر ساتھ ہی اسے خبردار بھی کیا کہ آسن کی دنیا کے مطابق تین سو سال بیت چکے ہیں اسے یہاں آئے ہوئے۔ نیامہ نے اسے اپنا سفید جادوئی گھوڑا بھی دیا یہ کہہ کر کہ اس گھوڑے سے کبھی مت اترنا ورنہ تم اسی لمحے بوڑھے اور ناتواں ہو جاؤ گے۔ جب آسن واپس آیا، تو اس نے دیکھا کہ واقعی تین صدیاں بیت چکی تھیں اور اس کے دوستوں اور گھر والوں میں سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ سو دل برداشتہ ہو کر اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ پلٹتے پلٹتے اس کی نظر ایک پتھر پر پڑی تو اس نے سوچا کہ کیوں نا اس پتھر کو اپنے ساتھ واپس لے جائے کہ جب بھی اسے آئر لینڈ کی یاد ستائے تو وہ اس پتھر کو دیکھ لیا کرے۔ یہ سوچتے ہوئے جیسے ہی وہ گھوڑے سے اترا اسی لمحے وہ انتہائی کمزور اور نقاہت زدہ بوڑھے میں تبدیل ہو گیا۔ جھیل کے پاس موجود کچھ مچھیروں نے بہت تعجب سے اس نوجوان کو لمحوں میں بوڑھے ہوتے دیکھا اور ساتھ ہی اس جادوئی گھوڑے کو جو آسن کے بوڑھا ہوتے ہی جھیل کے اندر چلا گیا تھا۔ وہ لوگ آسن کو ایک پادری کے پاس لے کر گئے تاکہ اس کے جادو کا اثر ختم کیا جا سکے۔ آسن نے اس بزرگ کو اپنے متعلق سب کچھ بتا دیا پھر اسی لمحے آسن کی موت ہو گئی اور لوگوں نے اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش جھیل میں بہا دی۔ یہاں کے لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ تب سے اب تک پہلی مئی کی ہر صبح آسن اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہو کر جھیل سے نمودار ہوتا ہے کیوں کہ اسی دن وہ یہاں سے غائب ہوا تھا۔ صرف چند ”خوش نصیب” لوگوں کو وہ اس دن نظر آتا ہے۔ اس کا نظر آنا ہی ان لوگوں کی نیک بختی کی علامت ہے۔ میں شاید اتنا خوش نصیب نہیں کیوں کہ آج مئی کی سترہ تاریخ ہے۔ ہم کافی تاخیر سے آئے ہیں یہاں، لیکن کوئی بات نہیں مجھے اپنے دیکھنے والوں کو یہاں کے سحر زدہ حسن ہی سے متعارف کروانا تھا جس میں میرے خیال سے میں کامیاب ہو ہی جاؤں گا۔” جیف نے دھیمی سی مسکراہٹ میں بات کا اختتام کیا۔
”یار تمہاری یادداشت کتنی غضب کی ہے۔ ایک مرتبہ سننے پر ہی سب یاد ہو جاتا ہے تمہیں۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پرانے اور مشکل نام بھی۔ ” ڈینیل نے کیمرے کو ایک طرف احتیاط سے رکھتے ہوئے جیف کو سراہا جو اتنی لمبی داستان سنانے کے بعد اب گھونٹ گھونٹ پانی پی رہا تھا۔
”میں نے یہ کہانی موری کی زبانی کئی مرتبہ سنی ہے، مگر آج تک اتنی دل چسپ محسوس نہیں ہوئی مجھے، لیکن آج تمہارے منفرد لہجے اور الفاظ میں یہ داستان سن کر مجھے بڑا انوکھا اور نیا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں پہلی بار سن رہی ہوں اسے۔”مرم نے اپنے احساسات کو الفاظ کا لباس زیب تن کرایا۔ ان دونوں کی تعریف پر وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔
”تم کچھ نہیں کہو گے پیٹر؟” ڈینیل نے اسے متوجہ کروانا چاہا جو جھیل کی گہرائی میں نہ جانے کیا تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں سوچ رہا ہوں کہ اگر آسن ابھی جھیل سے باہر آگیا، تو اس سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ حسین بیوی کے ساتھ زندگی، خوشی، صحت، دولت اور بہار کی کشش ہونے کے باوجود اس کا دل وہاں کیوں نہیں لگا؟ وہ واپس کیوں آیا؟” پیٹر پر سوچ انداز میں پھر سے جھیل کو دیکھنیلگا۔
”مجھے یقین ہے اس کا جواب یہی ہو گا کہ وہاں سب کچھ ضرور تھا، مگر وہ اس کی سرزمین نہیں تھی۔ اس کا اپنا ملک، اپنے لوگ نہیں تھے وہاں۔ پھر کیسے اس کا دل لگتا؟ ہم سب جہاں مرضی چلے جائیں مگر ایک دن تھک ہار کر اپنے گھر،اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ تم تینوں بھی تو کئی مہینے گھر سے باہر رہتے ہو۔ کیا تمہارا دل نہیں چاہا کسی ٹور کے دوران کہ تم سب چھوڑ کر واپس پلٹ جاؤ؟” مرم یقین سے پوچھ رہی تھی اور پیٹر اور ڈینیل کے تاثرات اسے یہ باور کروا رہے تھے کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے جب کہ جیف کے پتھریلے تاثرات سے مرم چونک گئی۔ وہ دم سادھے اسے دیکھ رہا تھا۔ مرم کے اپنی طرف متوجہ ہونے پر وہ خود پر قابو پاتا سرعت سے نگاہیں پھیر گیا۔
”اور ویسے بھی وہ دنیا کی سب سے خوبصورت سرزمین اور لوگوں کو چھوڑ کے گیا تھا۔ اسے واپس پلٹنا تو تھا ہی۔” مرم نے سر جھٹکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
”دیکھو اب تم مبالغہ آرائی سے کام لے رہی ہو۔” ڈینیل نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسے ٹوکا۔
”جی نہیں میں بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ تم نے وہ مشہورآئرش کہاوت تو سنی ہی ہو گی کہ دنیا میں صرف دو طرح کے ہی لوگ ہیں۔ ایک وہ جو آئرش ہیں اور دوسرے وہ جو آئرش ہونے کی حسرت رکھتے ہیں۔” بہت ٹھوس اور با اعتماد لہجے میں مرم نے مشہور کہاوت کا ذکر کیا۔ اس کے لہجے اور انداز میں اپنے آئرش ہونے پر مان اور فخر نمایاں تھا۔ اس کی بات پر ڈینیل اور پیٹر کا قہقہہ بے ساختہ ابھرا۔
”اپنے وطن کی عظمت بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے مت دینا تم۔” پیٹر نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
”بالکل ایک سچے آئرش کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ محب وطن اور اپنی سرزمین اور کلچر کے لیے حد سے زیادہ حساس اور جذباتی ہوتا ہے۔” مرم نے سنجیدگی سے انہیں آئرش قوم کی خصوصیت سے آگاہ کیا۔ اس ساری گفتگو کے دوران جیف خاموشی سے افق کی جانب نظریں جمائے، مئی کی اس خنک شام کو ڈھلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ان لوگوں کی گفتگو میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ مرم کو اس لمحے شدت سے احساس ہوا کہ چند گھنٹے پہلے جو خول بگھی میں بیٹھے ہوئے چٹخا تھا اب بھی وہ مضبوطی سے اداس آنکھوں والے اس ساحر کے گرد اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے۔
٭…٭…٭
میں خوش تھا، بے انتہا خوش۔آج مجھے یہ نظارے حسین ترین لگ رہے تھے اور اپنا آپ خوش قسمت ترین۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری زندگی میں کبھی سچی خوشی کے لمحات بھی آئیں گے اور یہ خوشی میرے چہرے سے بھی جھلک رہی تھی۔ میری سانولی رنگت جیسے کہیں پیچھے چھپ گئی تھی۔ اسکول میں بہت سے لڑکوں نے بطور خاص مجھ سے پوچھا تھا کہ ”سانول آج بہت خوش لگ رہے ہو کیا کوئی خزانہ ہاتھ آ گیا ہے؟” اور میں نے بھی بہت اعتماد سے ”ہاں” کہا تھا۔ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھا آج میں سچے دل سے خوش اور شاد تھا۔ زری کی شادی نے اس کی اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ میری زندگی کو بھی یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ یہ سات دن میری زندگی کے سب سے یادگار اور اچھے دن تھے اور اس خوشی کا سبب تھی کشمالا فیروز۔
ان سات دنوں میں کشمالا نے مجھ سے ڈھیروں باتیں کی تھیں۔ کچھ اپنے متعلق سنایا اور کچھ میرے متعلق سنا۔ اس کی پسند نا پسند، اس کے اسکول اور دوستوں کے بارے میں، میں کافی کچھ جاننے لگا تھا۔ میرے پاس ایسا کچھ تو نہیں تھا بتانے کے لیے، مگر پھر بھی میں نے بہت جھجکتے ہوئے اپنے دل کی بہت سی باتیں کشمالا کو بتائی تھیں جو میں اپنے باپ سے بھی نہیں کرپایا تھا۔ اپنی سوچیں، احساسات، اپنی محرومیاں سب اس پر عیاں کر دیں تھیں ایک مخلص اور مہربان دوست سمجھ کر۔ جواب میں کشمالا نے بھی تمام گھر والوں کے رویے کی دل کھول کر مذمت کی تھی اور اس نے باتوں پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ عملی طور پر بھی میری سچی ہمدرد ہونے کا حق ادا کیا تھا۔ جب دادی میرے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
”شروع شروع میں تو یہ سانول مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔بعد میں یہ سوچ کر خود کو سمجھا لیا کہ کیا پتا اللہ نے اسے ہمارے خاندان کا ”نظر بٹو” بنا کر بھیجا ہو۔ آخر کو اتنا سرخ و سپید اور حسین خاندان ہے ہمارا۔” ان کی اس بات پر کشمالا نے اپنی نانی کو کافی کچھ سنایا تھا۔ میرے دفاع میں بہت سے دلائل بھی دیے اور واضح الفاظ میں کہا تھا کہ رنگت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کشمالا تمام عورتوں کے سامنے میری طرف داری کر رہی تھی، وہ لمحہ میرے لیے کوہ نور کی طرح قیمتی تھا۔ اس لمحے مجھے ایسا لگا کہ جیسے میری ساری محرومیوں کا ازالہ ہو رہا ہو، جو الفاظ میں اپنی ماں کے منہ سے سننا چاہتا تھا وہی سب جب کشمالا نے کہے تو ایک لمحے میں ہی میرے دل نے کشمالا کو سب سے خاص، سب سے منفرد اور سب سے قیمتی تسلیم کر لیا اور اسے دل کی مسند پر ملکہ کی حیثیت سے بیٹھا دیا اور پھر دل کے اس فیصلے کے بعد میں نے بابا اور فیروز جمال انکل کا فیصلہ بھی سن لیا۔
”فیروز بھائی میں سانول کے لیے بہت پریشان ہوں۔ اس کی بہت فکر رہتی ہے مجھے۔ اگر آج مجھے کچھ ہوتا ہے تو کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھے۔ یہاں تک کہ اس کی سگی ماں بھی۔ نہ جانے سب لوگوں کو کیا ملتا ہے اس کا دل دکھا کے۔” رات کے دوسرے پہر جب میں بیٹھک کے باہر سے گزرا تو اپنا نام سن کر رک گیا۔ ذرا سا دروازہ کھولنے پر مجھے بابا اور فیروز انکل بیٹھے نظر آئے۔ بابا بہت دل گرفتگی سے بول رہے تھے۔
”ایسا کیوں سوچ رہے ہو یار۔ اللہ تمہیں لمبی زندگی دے۔ سانول بہت پیارا بچہ ہے۔ بہت سمجھ دار، باہمت اور حوصلہ مند ۔ ورنہ جس ماحول میں اس نے زندگی گزاری ہے اس ماحول میں کوئی اور ہوتا تو کب کا ہار مان چکا ہوتا۔ تم فکر کیوں کرتے ہو وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” جواب میں فیروز انکل نے انہیں تسلی دی۔
”مجھ سے وعدہ کریں فیروز بھائی اگر میں نہ رہوں تو آپ اس کی سرپرستی کریں گے۔ میں اسے آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔” بابا کے لہجے میں بے چینی تھی۔
”محمد خان کیا ہو گیا ہے یار۔” فیروز انکل نے ان کی پریشان صورت کو تشویش سے دیکھا اور پھر گہری سانس لی۔
”ٹھیک ہے تمہارا اطمینان اگر اس میں ہے، تو ایسا ہی صحیح۔ تم فکر نہ کرو میں اس کی سرپرستی کروں گا۔” فیروز انکل کی بات پر بابا مسکرا دیے۔
”اور اگر میں آپ کو یہ سرپرستی ہمیشہ کے لیے سونپ دوں۔”
”کیا مطلب ؟” فیروز انکل نے چونک کر پوچھا۔
”مجھے کشمالا بیٹی بہت اچھی لگی ہے۔ بہت با اعتماد اور سمجھ دار۔ ایک دو بار میں نے اسے اماں سے بحث کرتے ہوئے بھی سنا ہے جب وہ سانول کی طرف داری کر رہی تھی۔ مجھے لگتا ہے وہی ایسی لڑکی ہے جسے سانول کی بیوی بننا چاہیے۔ میں جانتا ہوں وہ دونوں ابھی بہت چھوٹے ہیں اور ابھی یہ مناسب وقت نہیں، مگر یہ رشتہ ہم دونوں کے بیچ تو طے پا ہی سکتا ہے نا۔ کشمالا بیٹی کو مجھے دے دیں فیروز بھائی میرے سانول کے لیے۔” بابا کی آنکھوں میں آس اور امید کی پرچھائیں تھی۔ فیروز انکل نے ایک نظر انہیں دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
”ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں، مگر ابھی بچوں کو بتانا مناسب نہیں۔” فیروز انکل کے مثبت جواب پر جہاں بابا کے چہرے پر سکون اترا تھا وہیں میرے دل میں بھی ان جانی سی ہلچل مچی تھی۔ دبے قدموں دروازہ بند کر کے میں اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا اور ساری رات سپنے بنتے ہوئے گزار دی اور اب اسکول سے واپسی پر گھر جانے کے بجائے اپنی پسندیدہ جگہ بیٹھ کر ایک بار پھر میں اپنے اور کشمالا کے متعلق سوچ رہا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});