مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

”کیا ؟ کہاں جا رہی ہے وہ؟” اس کے سوال کو دوبارہ نظر انداز کر کے اس نے اپنا سوال پوچھ ڈالا۔
”واپس ڈبلن…کہہ رہی تھی کہ کیلارنی ٹان کے ٹرپ کے بعد وہ واپس چلی جائے گی اور کسی دوسرے گائیڈ کا بندوبست کروا دے گی ۔اپنے جانے کی وجہ وہ تمہیں قرار دے رہی ہے۔پوری بات بتانے سے اس نے انکار کر دیا ہے۔” ڈینیل نے اسے تفصیل بتائی ۔
”اوہ !” جیف نے گہری سانس لی۔ اسے مرم سے کچھ ایسی ہی امید تھی۔
”دیکھو اگر تم مجھے پوری بات بتانا نہیں چاہتے تو بے شک مت بتاؤ۔ بس اس سے سوری بول کر سارا معاملہ ختم کرو۔ وہ چلی گئی تو بہت مشکل ہو گی ہمیں یہاں۔ پتا نہیں اگلا گائیڈ کیسا ہو؟ اتنا تو تم بھی مانو گے نا کہ وہ بہت ایمان داری اور محنت سے ہماری مدد کرتی ہے۔ بہت سے ایسے کام بھی وہ کر دیتی ہے جو اس کے کرنے کے نہیں ہیں۔ پہلے کی طرح ہمیں ایک ایک جگہ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے خوار نہیں ہونا پڑتا بلکہ وہ خود ہی ساری تفصیلات ڈھونڈ کر تمہارے لیے اسکرپٹ تیار کر دیتی ہے۔ ” جیف کی رازدارانہ فطرت کو سمجھتے ہوئے اس نے پوری بات جاننے کا ارادہ ترک کر دیا اور رسان سے اسے سمجھانے لگا۔
”میں نے اسے جانے کو ہرگز نہیں کہا۔ بس اتنا کہا تھا کہ وہ کام کے علاوہ غیر ضروری بات نہ کرے آیندہ۔ پتا نہیں کیوں وہ میری کھوج میں پڑی ہوئی ہے۔ وہ بری نہیں لگتی مجھے بس اس کی فطرت میں جو بے ساختگی اور بے تکلفی ہے اس سے الجھن ہوتی ہے۔” جیف نے اپنا دفاع کیا۔
”جو بھی بات ہے بس کل صبح ہی سب ٹھیک ہو جانا چاہیے۔ میں بھی اس سے بات کروں گا کہ وہ آیندہ احتیاط کرے۔ سمجھ دار لڑکی ہے وہ۔ اسے آرام سے سمجھاؤ گے تو سمجھ جائے گی کہ تمہیں کیا پسند ہے اور کیا نہیں۔” اپنی معاملہ فہم طبیعت کے باعث ڈینیل ہر معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
”ٹھیک ہے میں کوشش کروں گا کہ معاملہ سلجھ جائے۔”
”کوشش نہیں تمہیں یہ کرنا ہے۔ ویسے ایک بات تو سچ ہے کہ تم واقعی کوئی معما ہی ہو۔ میں اور پیٹر بھی تمہارے متعلق بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں، مگر تمہارے گریز کو دیکھتے ہوئے ہم نے کبھی تمہاری فیملی اور ماضی کے مطابق کچھ نہیں پوچھا۔ اس معاملے میں مرم کافی بہادر ثابت ہوئی ہے۔” ڈینیل اب پرسکون سا بیٹھا اسے چھیڑ رہا تھا۔
”کوئی معما نہیں ہوں میں۔ بس یہ چاہتا ہوں کہ اپنی سوچیں، مسائل اور معاملات اپنے تک ہی محدود رکھوں اور انسان ہونے کے ناتے یہ میرا بنیادی حق ہے۔ میری تم دونوں سے دوستی بھی اسی وجہ سے ہے کہ تم دونوں کو بلاوجہ ٹوہ لینے کی عادت نہیں ہے اور تم لوگ دوسروں کی خواہشات کا احترم کرنا بھی جانتے ہو۔” جیف نے سچائی سے اعتراف کیا۔ پھر چند مزید باتوں کے بعد وہ چلا گیا، تو جیف معذرت کے لیے الفاظ ترتیب دیتے دیتے نہ جانے کب سو گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مرم تم میری بات مانو گی یا نہیں؟ مجھے تمہارا چہرہ دیکھنا ہے ۔ابھی اور اسی وقت اسکائپ پر کال کرو مجھے۔” موری اسے کافی دیر سے نرمی سے کہہ رہیں تھیں مگر وہ مسلسل ٹال رہی تھی۔
”موری ابھی نہیں، میں بہت تھک گئی ہوں آج۔ کل بات کر لوں گی اسکائپ پر۔ بس ابھی واپس لوٹے ہیں ہم لوگ۔ددا کی مس کال دیکھی تو خیریت پوچھنے کے لیے فون کر لیا ۔ابھی لمبی بات نہیں کر سکتی، سونا ہے مجھے ۔”وہ جانتی تھی کہ اس شکل اور حلیے کے ساتھ اگر موری نے اسے دیکھا، تو وہ اسے فوراً سے بھی پہلے واپس بلا لیں گی۔ ایک تو آج کے سخت تھکا دینے والے شیڈول کی وجہ سے وہ کافی تھک چکی تھی۔ اوپر سے جیف کی کڑوی باتوں کی وجہ سے وہ اور بھی دکھی تھی اور اگر موری اسے دیکھ لیتیں تو ایک لمحے میں ہی سمجھ جاتیں کہ اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور پھر ساری بات اگلوا کر ہی دم لیتیں۔ پھر وہ ہوتیں اور ان کی لاڈلی پوتی کو دکھی اور پریشان کرنے والا بندہ ہوتا۔جانے کا تو وہ ویسے ہی ارادہ کر چکی تھی، مگر وہ اس گھٹیا ذہنیت رکھنے والے شخص کو موری کے ہاتھوں ذلیل بھی نہیں کروانا چاہتی تھی کہ اس سے معاملہ اور بگڑ جاتا۔
”مرم!” اب کی بار موری نے تھوڑے سخت لہجے میں اسے پکارا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب اگر اس نے بات نہ مانی تو وہ ناراض ہو کر فون بند کر دیں گی۔
”اُف اچھا موری کرتی ہوں بات اسکائپ پر۔ ایک تو آپ ہیں بہت… ہمیشہ اپنی بات منوا کر ہی دم لیتیں ہیں۔” پھر کال کاٹ کر اس نے فون پر ہی اسکائپ کھولا اور موری کو ویڈیو کال ملانے لگی۔
”جی دیکھ لیں مجھے ہر ہر اینگل سے۔ کہیں آپ محروم نہ رہ جائیں۔ اتنا تھک گئی تھی نا میں کہ کیا بتاؤں،مگر آپ سمجھتی ہی نہیں ہیں۔” اس نے منہ پھلاتے ہوئے شکوہ کیا۔
”مرم تم کتنی کم زور لگ رہی ہو بیٹا؟کیا اپنا بالکل بھی دھیان نہیں رکھتیں؟کچھ کھاتی بھی ہو وہاں یا وہ لوگ تمہیں فاقے کراتے ہیں ؟” اپنی عینک درست کرتے ہوئے انہوں نے مرم کا باغور جائزہ لیا اور پھر فکرمندی سے گویا ہوئیں۔ اس کی آواز ہی سے وہ پہچان گئی تھیں کہ کوئی مسئلہ ہے تبھی تو اسے دیکھنا چاہتی تھیں۔
”بس تھک گئی ہوں اور کچھ نہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں، میں ویسے بھی کچھ دنوں میں آنے والی ہوں آپ کے پاس۔” مرم نے سہولت سے ٹالنا چاہا ۔
”کیوں ہو گیا شوق پورا؟ میں نے تو پہلے ہی منع کیا تھا ،مگر تم سنتی کس کی ہو؟ اب بیمار پڑ گئی ہو گی اور وہ لوگ تمہاری تیمارداری کرنے سے تو رہے۔ اس لیے واپس بھجوا رہے ہوں گے۔ ہائے میری بچی پتا نہیں کہاں کہاں رل رہی ہے۔” ایک ہی جملے میں موری نے اپنے غصے اور ممتا کا کھل کر اظہار کیا۔”
”ایسا کچھ نہیں ہے موری۔ وہ کیوں بھیجیں گے مجھے ؟میرا دل نہیں لگ رہا بس یہاں۔ سوچ رہی ہوں واپس ڈبلن جانے کے بجائے آپ لوگوں کے پاس آ جاؤں چند دنوں کے لیے۔”
”مرم مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟ وہ سیاح ٹھیک قسم کے لوگ تو ہیں نا؟” موری نے فکرمندی سے پوچھا۔
”ہاں موری اچھے لوگ ہیں۔ بس ایک ان میں سے کافی کھڑوس اور مغرور ہے۔ نہ جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ آیا بڑا پرنس آف یورپ…ایک آواز کیا اچھی دے دی خدا نے اسے قینچی کی طرح استعمال کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔” بس مرم کو اسی بات کا ڈر تھا کہ وہ موری کے سامنے اپنی زبان پر تالا نہیں ڈال سکتی تھی۔
” کچھ کہا ہے اس نے تمہیں؟ کیا بہت بولتا ہے؟ اسی ہوسٹ کی بات کر رہی ہو نا؟”
”نہیں بہت تو نہیں بولتا مگر جب بھی بولتا ہے تو انگارے اُگلتا ہے۔ خیر میں نپٹ لوں گی اس سے، آپ فکر نہ کریں۔” مرم نے انہیں تسلی دی ۔
”چلو خیریت سے رہو وہاں۔ ہر مشکل آسان ہو تمہاری۔ اب چلو بند کرو اور سو جاؤ۔” موری نے پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اسے دعائیں دیں اور اس کے آرام کا احساس کرتے ہوئے کال ختم کر دی۔ اس سے بات کر کے ان کے دل کو سکون ملا تھا ورنہ وہ کافی بے چین تھیں صبح سے۔ نہ جانے کیوں، بیٹے بہو کے بعد اب وہی ان کے جینے کا مقصد تھی۔
مرم کے ماں باپ کار ایکسیڈنٹ میں اس وقت فوت ہو گئے تھے جب وہ صرف سات سال کی تھی۔ جب انہوں نے اپنے بیٹے اور بہو کے خون آلود وجود کے ساتھ بیٹھی ڈری سہمی مرم کو دیکھا، تو اپنا غم بھول کر وہ اس کی دل جوئی میں لگ گئیں تھیں۔ اسی کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کی دائمی جدائی جیسے غم کو برداشت کرنے کا حوصلہ کر پائی تھیں۔ بیٹے کی موت کے بعد ددا اور موری نے بہت مشکلات جھیلیں تھیں۔ مرم کے والد کے ایک قریبی دوست نے دھوکے سے ان کے کاروبار اور گھر وغیرہ کو جالی دستخط کر کے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ مرم کو اس کا حق دلانے میں ناکام رہے تھے۔ بالآخر وہ مرم کو لے کر ڈبلن سے اپنے آبائی گھر چلے گئے جہاں وہ دونوں میاں بیوی اپنی ایک چھوٹی سی بیکری چلاتے تھے۔ پوری ذمہ داری اور ایمان داری سے ان دونوں نے مرم کی پرورش کی تھی۔ اپنی بساط کے مطابق انہوں نے مرم کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی پوری کوشش کی تھی کیوں کہ انہیں پیسے کے معاملے میں کافی مشکلات درپیش تھیں۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی مرم کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ددا اور موری مشکل سے اس کے بنیادی خرچے برداشت کرتے ہیں اس لیے اس نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ان سے اضافی فرمائش کرنا ترک کر دی۔
موری کے ہاتھوں پرورش پانے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے مرم کی شخصیت میں بہت سے مثبت پہلو تراشے تھے۔ وہ حساس ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار، با ہمت اور با اعتماد بھی تھی اور ساتھ ساتھ زندہ دل اور دوستانہ مزاج کی حامل چلبلی لڑکی تھی جس لمحے وہ خوش دلی سے ہلا گلا کر رہی ہوتی اس وقت کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ کچھ دیر بعد یہی لڑکی سنجیدگی سے بیٹھی ملکی سیاست پر دھواں دار تقریر بھی کر سکتی ہے۔
ایک اور چیز جو موری کے ذریعے اس میں منتقل ہوئی تھی وہ اپنے وطن سے عشق کی حد تک لائی تھی۔ موری نے ہی اسے وطن پرستی اور حب الوطنی کا صحیح مطلب سکھایا تھا۔ اس طرح سے اس کی پرورش کی تھی کہ کوئی کام کرنے سے پہلے اس کی ہر سوچ میں سب سے پہلے اپنے وطن کا فائدہ اور ترقی کا خیال ہی آتا۔ کٹھن وقت آہستہ آہستہ گزرتا چلا گیا اور اسی محبت کے پیش نظر اس نے ڈبلن کے ایک کالج سے سیاحت اور مہمان نوازی کے کورسز مکمل کرنے کے بعد وہیں ایک ٹریول ایجنسی میں ملازمت اختیار کر لی۔ جب کہ ددا اور موری اب بھی آبائی گاؤں میں رہائش پزیر تھے۔
٭…٭…٭
”دیکھو سانول میرے ہاتھوں پر مہندی کتنی اچھی لگ رہی ہے۔ کتنا زبردست رنگ چڑھا ہے نا؟” میں صحن میں رکھے پھولوں کے ٹوکرے اٹھانے آیا تھا جب مجھے کسی نے چہکتی آواز میں پکارا۔ بے اختیار پلٹ کے دیکھنے پر کشمالا نزدیک کھڑی نظر آئی۔ اس نے سرخ اور پیلے رنگ کی روایتی کشمیری فراک پہنی ہوئی تھی۔ اپنے سفید حنائی ہاتھوں کو میری سمت بڑھائے اب مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی، جب کہ میں نا سمجھی کے عالم میں اسے کے جا رہا تھا۔
”ایسے کھڑے گھور کیا رہے ہو؟ کچھ تو بولو؟ اگر تعریف نہیں کرنی تو برا ہی کہہ دو۔” جب بہت دیر تک میں کچھ نہ بولا تو کشمالا جھنجھلا کر گویا ہوئی۔
”نن…نہیں…نہیں…اچھی…اچھی لگ رہی ہے بہت۔” میں تھوک نگلتے ہوئے اٹک اٹک کر گویا ہوا۔
”اور دیکھو اس کی خوش بو بھی بہت اچھی ہے۔” مسکرا کر کہتے ہوئے اس نے اپنا دایاں ہاتھ میرے چہرے کے نزدیک کر دیا۔ مہندی کی بھینی بھینی مہک میری سانسوں میں اترتی چلی گئی۔ میں نے محتاط انداز میں چاروں جانب نگاہ دوڑائی کہ کہیں کسی نے یہ منظر دیکھا تو نہیں ورنہ شامت پکی تھی۔ صد شکر کے ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ایک طمانیت بھری سانس خارج کر کے میں ہولے سے مسکرایا۔
”بہت اچھی خوش بو ہے اس کی۔ جیسے ہلکی بارش میں مٹی کی مہک ہوتی ہے نا جو روح میں اترتی چلی جاتی ہے۔ مجھے ہمیشہ ہی سے پسند ہے مہندی کی خوش بو۔” آخری جملہ سرا سر مبالغہ آرائی تھا۔ آج سے پہلے کبھی بھی میں نے یہ خوش بو نہیں سونگھی تھی، مگر میرے دل نے ایک بے ضرر سا جھوٹ بولنے کا مشورہ دیا تھا۔
”تمہیں پسند آئی نا؟ چلو شکر ہے۔ ورنہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ولی سے یہی پوچھا تھا، تو اس نے ناگواری سے میرا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے بہت بری بو کہا تھا۔” ہاتھ پیچھے ہٹاتے ہوئے وہ سادگی سے مسکرائی۔
”ویسے پوری زندگی میں آج پہلی بار مجھے کسی لڑکے نے کہا ہے کہ اسے مہندی کی مہک پسند ہے، ورنہ عموماً لڑکوں کو بہت بری لگتی ہے۔ چلو تمہاری بیوی تم سے بہت خوش رہے گی۔ جب تم اسے مہندی لگانے سے روکو گے نہیں ۔” دوستانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ لڑکی مجھے کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگی تھی۔ اس کی بات پر میں جھینپ کر مسکرا دیا۔
”تمہیں مہندی پسند ہے؟” میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں بہت، ایسی کوئی لڑکی نہیں ہو گی دنیا میں جسے مہندی نہ پسند ہو۔” کشمالا نے ٹوکرے میں سے ایک آدھ کھلا گلاب اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔ ایک لمبی سانس لے کر سرخ گلاب کی مہک کو اپنے اندر اتار کر میں بڑی محویت سے اسے تکے جا رہا تھا۔ میرے اندر کہیں بہت عجیب سی ہلچل مچ رہی تھی۔
”جیسے لوگوں کو پھول اپنے رنگوں اور خوش بو کی وجہ سے پسند ہوتا ہے اسی طرح مجھے مہندی بھی اسی وجہ سے پسند ہے اور ویسے بھی۔”
”ارے لڑکی تم یہاں ہو اور تمہاری ماں تمہیں اوپر کی منزل میں تلاش کرتی پھر رہی ہے۔” آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتی دادی کی نظر کشمالا پر پڑی تو انہوں نے دور ہی سے اسے مخاطب کیا۔ آخری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ان کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چونک گئیں۔ ان کی لاڈلی نواسی اور نظر بٹو پوتا۔ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔ نواسی کے ہاتھ میں سرخ پھول دیکھ کر ان کا ماتھا ٹھنکا۔ یقینا وہ پھول میرے ہاتھ میں موجود پھولوں کے ٹوکرے میں سے ہی دیا گیا تھا۔
”اور تم ادھر کیا کر رہے ہو؟ ابھی تک پھول بھجوائے نہیں تم نے؟” دادی نے ناگواری اور غصے سے مجھے دیکھا۔
”وہ …وہ دادی، بس جا ہی رہا تھا۔” میں منمنایا۔
”کوئی ایک کام جو ڈھنگ سے ہو تم سے۔ پتا نہیں یہ سیاہ بلا کہاں سے نازل ہو گئی ہمارے گھر میں۔” مجھے اس انداز میں کشمالا کے ساتھ کھڑا دیکھ کر ان کا خون کھول رہا تھا۔
”نانو معاف کیجیے گا، مگر آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ اللہ کی مخلوق میں عیب نکالنا یا اسے برے لفظوں سے پکارنا گناہ ہے۔” کشمالا نے بہت سنجیدگی سے اپنی نانو کو سمجھایا۔ اس کی بات پر میں نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ولی تک تو ٹھیک ہے، مگر اس کی حمایت دادی کے سامنے کرنا؟
”میری نانی نا بنو زیادہ اور لڑکے تم گئے نہیں اب تک۔ کیا رات تک یہیں کھڑے رہنے کا ارادہ ہے؟” نواسی کو ٹوک کر ایک بار پھر وہ مجھ پر چڑھ دوڑیں تو میں سر جھکا کر چلتا بنا۔
”سنو یہ پھول کیا تمہیں اس نے دیا ہے۔” چند قدم دور جا کر مجھے اپنے پیچھے دادی کی سرگوشی سنائی دی۔
”نہیں نانو یہ بے چارہ کیوں دے گا ؟ مجھے اچھا لگا تو میں نے اٹھا لیا۔ آپ لوگ کیوں اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک…” دہلیز پار کرنے تک میں بس اتنا ہی سن سکا اور مطمئن سا آگے بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
”اس بگھی میں بیٹھے ہوئے سبزے میں گھرے ان کاٹجِز کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں ڈزنی لینڈ میں آ گئی ہوں۔ ان موویز میں بھی تو ایسے ہی خوب صورت کاٹیج دکھاتے ہیں نا۔ ڈزنی ”پرنسز” ہونے کی خواہش آج ایک بار پھر بڑی شدت سے ہو رہی ہے مجھے۔”مرم نے ایک قدیم افسانوی کاٹیج کو دیکھتے ہوئے کہا تو ویڈیو بناتا ڈینیل بس افسوس سے سر ہلا کر رہ گیا۔ کیلارنی ٹان میں پائی جانے والی منفرد بگھیوں میں سے دو پر بیٹھے وہ چاروں اس وقت اس قصبے کے دو سو سال قدیم کاٹجِز، عمارات اور نیشنل پارک کی سیر رہے تھے۔
”تم لڑکیوں کی فنٹیسی کبھی ختم نہیں ہو سکتی چاہے کتنی بڑی ہو جاؤ۔ حد ہے ویسے۔ اس دن نینسی بھی یہی فرما رہی تھی کہ اس کے لیے اس کا پسندیدہ، جیتا جاگتا لیپریکان لے کر جاؤں یہاں سے۔”
”ہاں تو ہم لڑکیاں حساس ہوتی ہیں۔ تم لڑکوں کی طرح نہیں کہ ہر وقت بے حسی کی چادر اوڑھ کر کام، مصروفیات اور مسائل کا راگ الاپیں۔” مرم نے جلے بھنے لہجے میں کہا تو ڈینیل کچھ سوچ کر مسکرا دیا۔
”غالباً یہ اشارہ جیف کی طرف ہے۔”
”وہ انتہائی مغرور، بد دماغ اور سڑیل شخص ہے۔ اس کا نام بھی مت لو میرے سامنے۔ پتا نہیں تم دونوں کی اس کے ساتھ دوستی قائم کیسے ہے اب تک؟” ڈینیل نے ابھی صرف جیف کا نام ہی لیا تھا کہ وہ اس کی اگلی کوئی بھی بات سنے بغیر جیف کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کر چکی تھی۔ ڈینیل نے افسوس بھری نظروں سے پہلے ساتھ بیٹھی مرم اور پھر جیف کی پشت کو دیکھا جو آگے چلتی بگھی میں پیٹر کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مصروف تھا۔
”وہ اتنا بھی برا نہیں جتنا تم سمجھتی ہو۔ دیکھو مرم ہم سب کی زندگی میں کچھ نا کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ جسے ہم ساری دنیا سے چھپانا چاہتے ہیں اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کچھ لوگوں کی فطرت میں ہی رازداری ہوتی ہے۔ انہیں پسند نہیں ہوتا کہ کوئی ان سے وہ بات پوچھے جو وہ بتانا نہ چاہتے ہوں۔ جیف بھی انہی میں سے ایک ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ مجھے یا پیٹر کو اس کی فکر نہیں؟ جیسی زندگی وہ گزار رہا ہے ایسی زندگی کوئی نارمل شخص نہیں گزار سکتا، مگر ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم خود سے اس کے متعلق کچھ بھی نہیں پوچھیں گے جب تک وہ خود تیار نہ ہو اپنے ماضی کے بارے میں بتانے کے لیے۔ بہت سے سوال ہمارے ذہنوں میں بھی آتے ہیں، مگر ہم بس یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ چاہے جو بھی صحیح،لیکن جب وہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے تو کچھ دیر کے لیے اپنے خول سے باہر ضرور آ جاتا ہے۔ اس لیے پلیز میری گزارش ہے تم سے کہ اس سے صرف کام کے متعلق ہی بات کیا کرو۔” ڈینیل کے لہجے میں فکر اور پریشانی کی جھلک محسوس کر کے مرم کو کافی حیرت ہوئی تھی اور ساتھ ساتھ افسوس بھی کہ بد اخلاق بندے کو دوست کتنے وفادار اور مخلص ملے ہیں۔
”میں اب اس سے کسی بھی طرح کی کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔” مرم نے بے نیازی سے کندھے اچکائے تو ڈینیل نے بھی مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!