مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

”آپ اتنی نرمی سے بات کیوں کر رہی ہیں مجھ سے؟ کیا آپ نہیں جانتیں کہ یہاں لوگ کیسی باتیں کرتے ہیں میرے متعلق؟ آپ بہت خوبصورت ہیں جب کہ میں…” میں نے الجھتے ہوئے پوچھا اور آخر میں بات ادھوری چھوڑ دی۔
”پہلے تو یہ آپ جناب بند کرو۔ مجھے اپنے لیے اتنے بھاری لفظ پسند نہیں ہیں۔ دوسرا میری تعریف کا بہت شکریہ اور تیسری بات یہ کہ ان جاہل لوگوں کی باتیں میں سن چکی ہوں۔ سب بیکار کی باتیں ہیں۔ اس لیے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان باتوں سے۔ دوستی میں اگلے بندے کی سیرت دیکھی جاتی ہے،صورت نہیں۔” بہت ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولتے اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیا تھا۔ اس کے لہجے میں سادگی اور سچائی تھی۔ زندگی میں پہلی بار بابا کے علاوہ کسی نے مجھ سے اتنے میٹھے لہجے میں بات کی تھی۔ تو دل کیسے نہ خوش ہوتا۔ میں ابھی کچھ بولنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے کشمالا کو پکارا گیا۔
”کشمالا تم یہاں ہو اور ہم سب تمہیں گھر میں تلاش کر رہے تھے۔” وہ ولی تھا جو اسے ڈھونڈتا ہوا وہاں آیا تھا۔
”تم ”اس” کے ساتھ یہاں بیٹھی کیا کر رہی تھی۔” اس نے ہتک آمیز لہجے میں میری جانب اشارہ کر کے پوچھا تو میں اپنے ہونٹ بھینچ کے رہ گیا۔
”باتیں کر رہی تھی اور اس منظر کا مزہ لے رہی تھی۔” کشمالا نے سکون سے جواب دیا۔
”اس ”سانولے” کے ساتھ ؟” ولی کے حیران لہجے میں طنز کی آمیزش تھی۔
”تو؟ کوئی گناہ ہے کیا؟ تم گاؤں والوں کی انہی باتوں نے اس بے چارے کی ساری شخصیت مسخ کر دی ہے۔ جاہل لوگ ہیں سب کے سب یہاں۔آیندہ اگر میرے سامنے اسے سانولا کہا تو پھر دیکھنا اپنا حشر۔” کڑے تیور لیے وہ تنک کر بولی تھی۔
”اچھا اچھا ابھی تو چلو۔” ولی نے نہ جانے کیسے اس کے اس لہجے کو برداشت کیا تھا۔ وہ اٹھی اور تیزی سے چلتی ہوئی گھر کی طرف بڑھنے لگی۔ میں اپنا چہرہ موڑے ان دونوں کو دور جاتا دیکھ رہا تھا۔ میرے ذہن میں اب تک کشمالا کے بولے گئے الفاظ گونج رہے تھے۔ پہلی بار باپ کے علاوہ کوئی میری حمایت میں بولا تھا۔ پہلی بار کسی نے میری وجہ سے ولی کو ڈانٹ دیا تھا۔ دل جتنا حیران ہوتا کم تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سیاہ شاہ باز اپنے پنکھ شان اور غرور سے ہوا میں پھیلائے اپنے شکار پر نظریں جمائے بہت چستی اور ہوشیاری سے شکار کے بہت نزدیک پہنچ چکا تھا۔ اگلے لمحے باز نے جھپٹ کر اپنے شکار کو پنجوں میں جکڑ لیا اور اسے لے کر اڑتا ہوا درختوں میں غائب ہو گیا۔
”واہ بہت خوب۔” وہاں کھڑے تمام لوگوں نے برڈ شو کے اختتام پر زور دار تالیاں بجائیں۔ کچھ لمحوں بعد ایک آدمی نے مخصوص سیٹی بجائی جسے سن کر وہی باز تیزی سے اڑتا ہوا اس آدمی کے دستانہ پہنے ہاتھ پر آ کر بیٹھ گیا۔ اب بہت سے لوگ اس باز کے ساتھ ”سیلفی” لینے میں مصروف تھے جن میں مرم اور ڈینیل پیش پیش تھے۔
جیف ابراہیم دور کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اس کے ذہن میں بہت سالوں پہلے کسی کے کہے گئے الفاظ گونج رہے تھے۔ اس سیاہ باز کو دیکھ کر ماضی کی کچھ یادیں اس کے سامنے کسی فلم کے مانند چلنے لگی۔
”کبھی کسی باز کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے تم نے؟ آسمان کی وسعتوں پر اپنے پروں کو پھیلا کر اس طرح سے اڑتا ہے کہ جیسے اسے تسخیر کر لینے کا اٹل ارادہ ہو۔ تمہارے اندر بھی مجھے ایسا ہی جذبہ نظر آتا ہے میرے دوست۔ اگر تم اپنے اس جذبے پر بند باندھنا چھوڑ دو تو یقین مانو تمہیں پھر کوئی آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتا۔”
”میں جیف ابراہیم، آج اس مقام تک بالآخر پہنچ ہی گیا جس پر تم مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔” اپنی سوچوں میں وہ اپنے محسن سے مخاطب ہوا۔ نام، شہرت اور دولت سب حاصل ہے مجھے۔ ایک دنیا مجھے جانتی ہے، میرے شوز دیکھتی ہے، مجھے سراہتی ہے، مجھے دیکھنا اور سننا چاہتی ہے۔” اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ فخریہ مسکراہٹ نہیں بلکہ طنز اور تمسخر سے بھرپور مسکراہٹ۔ وہ دنیا کا پہلا شخص تھا جو اپنی کامیابی پر اپنے اوپر ہی تمسخر سے مسکرا رہا تھا۔
”مگر تمہیں پتا ہے اپنے بارے میں، میں خود کیا سوچتا ہوں؟”
”ابراہیم تم بھی آؤ نا۔ وہاں کیوں کھڑے ہو؟ سب مل کر سیلفی لیتے ہیں۔” اس کی سوچوں کا سلسلہ مرم کی پکار پر ٹوٹا۔ پیٹر اور ڈینیل بھی اسے آنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ گہری سانس فضا کے سپرد کر کے وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچا۔
”لو یہ دستانہ پہن کر تم بھی اسے پکڑنے کا شوق پورا کر لو۔ بہت ہی فرینڈلی ہے یہ۔” دستانہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے مرم نے باز کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ ہی اسے تسلی بھی دی کہ باز تربیت یافتہ اور بے ضرر ہے۔
” نہیں یوں ہی ٹھیک ہے۔” وہ کبھی انکار نہ کرتا اگر یہ مشورہ مرم کی جانب سے نہ ہوتا تو۔ا س کی ہر بات سے انکار کرنا اس کی عادت بنتی جا رہی تھی شاید۔ پھر بہت دیر تک وہ تصاویر لیتے رہے تھے، مگر جیف جلد ہی اس مشغلے سے اکتا گیا تھا سو ان سے معذرت کرتا دور بنے ایک بنچ پر بیٹھ کر اس فالکنری کا جائزہ لینے لگا۔ یہ ایک کھلا سر سبز میدان تھا جس کے ارد گرد گھنے درخت تھے۔ وہ لوگ آج کاسل لینڈ میں واقع دل چسپ غار (crag cave) اور اسی سے منسلک فالکنری کی دستاویزی ویڈیو بنانے آئے تھے۔ یہاں لوگوں کو باز ، عقاب، شاہین اور الو جیسے خطرناک شکاری پرندوں کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کے ساتھ ساتھ انہیں چھونے اور اپنے کندھوں اور ہاتھوں پر بیٹھا کر ان سے مخصوص سیٹیوں کی مدد سے بات چیت کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا تھا۔ تربیت یافتہ ہونے کے باعث تمام پرندے انسانوں سے میل جول کے عادی تھے۔
چند ہی لمحے گزرے ہوں گے جب ایک بڑا سا برفانی الو اس کے بنچ پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کی سفید ملائم فر دھوپ میں مزید شفاف اور خوبصورت لگ رہی تھی۔ جیف نے بے اختیار ہولے سے اس کے سر کو سہلایا تو وہ بھی اپنی کٹیلی آواز نکالنے کے ساتھ سر کو جنبش دینے لگا۔ اس کے دوستانہ رویے کو دیکھتے ہوئے اب وہ اس کے پروں کو بھی سہلا رہا تھا۔
”لگتا ہے تمہاری اس سے کافی دوستی ہو گئی ہے۔” وہ پھر تشریف لے آئی تھی اسے کوفت میں مبتلا کرنے کے لیے۔ کتنا شان دار ہے نا یہ الو ؟ اسے دیکھ کر مجھے ہیری پوٹر کا ہیڈوگ یاد آ رہا ہے۔ چلتے ہوئے اب وہ بنچ کے نزدیک کھڑی ہو گئی تھی۔
”ویسے ایک بات کہوں تمہاری اور الو کی عادتیں ایک سی ہے۔” پرسوچ انداز میں بولتی ہوئی وہ اسے چونکا گئی تھی۔ کافی تیز نظروں سے جیف نے مرم کو گھورا تھا۔ اسے مرم کی بے عزتی کی حد تک بے تکلفی بہت ناگوار گزری تھی۔
”اوہ نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ ایک تو لوگوں نے پتا نہیں کیوں ”الو” کو بے وقوفی کی علامت بنا لیا ہے۔ حالاں کہ بچپن میں ہم سب نے ہی پڑھا ہے کہ الو بہت ہی دانا اور عاقل پرندہ ہے۔ پتا ہے ایسا کیوں کہتے ہیں ؟” جیف کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ فوراً ہی بے تکان شروع ہو چکی تھی۔
”مجھے پتا ہے تمہیں نہیں معلوم ہو گا۔ موری بتاتی ہیں کہ پہلے الو بھی باقی پرندوں اور جانوروں کی طرح آبادیوں میں رہتا تھا۔ ان ہی کی طرح دن میں شکار اور رات کو آرام کرتا تھا، مگر پھر کسی زمانے میں اس نے ظالم اور جابر انسانوں کو مظلوموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہوئے دیکھا۔ الو اتنا عاقل ہے کہ اسے معلوم تھا کہ یہ سب بہت برا، بہت غلط ہے۔ بس اسی وجہ سے اسے انسانوں سے نفرت ہوتی چلی گئی اور پھر اس نے ویرانوں میں جا کر بسیرا کر لیا۔” جیف یہ ”الو نامہ” سننے میں دل چسپی رکھتا بھی ہے یا نہیں یہ پوچھے بغیر ہی وہ اسے داستان سنا رہی تھی۔
”اور تم بھی اسی کی طرح سے ساری دنیا سے دور دور اور ناراض رہتے ہو۔ روشنیوں اور ہنگاموں سے بے زار اور اندھیروں کے شیدائی۔ مجھے لگتا ہے تم بھی انسانوں کے گھناؤنے چہرے دیکھ کر ہی الو کی طرح آدم بیزار ہو گئے ہو، ہے نا ؟ صحیح کہا نا میں نے؟بڑے پر یقین لہجے میں پوچھا گیا تھا۔
”میں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔” جیف نے ایک نظر اسے دیکھ کر سرد مہری سے کہا اور بنچ سے اٹھ گیا۔
”دیکھا بالکل ٹھیک اندازہ تھا میرا۔” چند قدم دور جا کر اسے اپنی پشت سے آواز آئی، مگر اس نے رکنا مناسب نہیں سمجھا ۔ جو سمجھنا ہے سمجھتی رہے، میری بلا سے ۔ جیف نے بے نیازی سے سوچا۔
مرم کچھ دیر تک اسے پر سوچ نظروں سے دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر الو کی سفید فر کو سہلانے لگی۔
٭…٭…٭
غار میں محصور کر دینے والی خاموشی کا راج تھا۔ سیاحوں کا زیادہ ہجوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا کام تسلی اور سکون سے کر رہا تھا۔ وہاں کی ویڈیو وغیرہ بنانے کے بعد پیٹر اور ڈینیل غار کے باہر بنے ریستوران میں لنچ کے لیے جا چکے تھے جب کہ وہ وہیں رک کر غار کے مختلف حصوں کی فوٹو گرافی کرنے لگا۔ ہزاروں سال قدیم، تقریباً چار کلومیٹر لمبا وہ غار آئر لینڈ کا ساتواں طویل ترین غار تھا جو کہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ چونے کے پتھر سے بنا وہ غار قدرت کا ایک عجیب و غریب شاہکار تھا۔
جیف کو ایسی خاموش اور ویران جگہیں ہمیشہ سے پرکشش اور سحر انگیزلگتی تھیں جو اس کے اندر ناقابل فہم احساسات جگاتی تھیں جنہیں سمجھا اور پرکھا نہیں جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ برقی روشنیاں وہاں کی جادوئی پراسراریت ختم کرنے میں ناکام ثابت ہو رہیں تھیں۔ ان غاروں کے علاوہ اور کون سی جگہ ہو گی جہاں اتنی خاموشی، اتنی گہرائی اور اتنی تنہائی تھی؟ اس غار کی دنیا اسے اپنے اندر کی دنیا سے مشابہ لگی تھی۔ ایک ایسی دنیا جسے دوسرے انسانوں کی نہ ضرورت تھی، نہ خواہش۔ وہ غار جیسے اس کے دل کی دنیا کا آئینہ تھا۔ اس وقت اگر کوئی اس سے یہ سوال کرتا کہ تمہارے دل میں کیا ہے تو لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ یہی کہتا ”جو اس غار میں ہے۔” اپنی ہی تنہائی کے احساس کے ساتھ زندہ دفن ہونا اسے یہاں آ کر اور بھی شدت سے محسوس ہو رہا تھا، مگر اس کے باوجود وہ باہر سے پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور پر اعتماد قدموں سے اِدھر اُدھر گھومتا ہوا اپنا کام مکمل کر رہا تھا۔
پہلے اس نے ”کچن” کی بہت سی تصاویر لی تھیں جہاں پر کھانے اور کچن میں استعمال ہونے والی اشیا سے مشابہت رکھتی بہت حیرت انگیز اور دل چسپ چونے سے بنی قدرتی چیزیں تھیں۔ پھر وہ ”کرسٹل گیلری ” کی طرف بڑھا جس کی چھت سے خالص چونے کے ہزاروں لمبے، باریک، نوکیلے چمکتے فانوس لٹکے ہوئے تھے جو اس جگہ کو برف کے محل کا سا روپ دیتے تھے اور آنکھیں ایک لمحے کے لیے ضرور اس منظر کی دل کشی میں ٹھہر سی جاتی تھیں۔ وہ اب جس حصے میں کھڑا تھا وہاں چونے کے کرسٹلز کا ”دریا” تھا۔ برقی قمقموں کی روشنی میں ہیروں کے مانند چمکتا فرش جسے ”فلو سٹون” کا نام دیا گیا تھا۔
”تم ابھی تک یہیں ہو ابراہیم؟ تم نے کھانا نہیں کھانا کیا؟” بوتل کے جن کی طرح وہ پھر حاضر تھی۔یہ لڑکی آخر اس کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتی؟ اس نے کوفت سے سوچا۔ اس کے سوال کو جیف نے نظرانداز کیا اوراپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
”ویڈیو بن تو چکی ہے اب ان تصویروں کا کیا کرنا ہے؟” مرم نے جھنجھلا کر پوچھا۔
”فیس بک پیج پر اپ لوڈ کرنی ہے۔” مختصر جواب دیا گیا۔
”اوہ اچھا تو تمہیں فوٹو گرافی میں بھی خاصی دل چسپی ہے۔”اس کے لہجے میں بے یقینی تھی۔ جیف خاموش ہی رہا۔
”اس ایک مہینے میں یہ چوتھی بات ہے جو مجھے تمہارے بارے میں پتا چلی ہے۔” اس نے خوش دلی سے بتایا جب کہ جیف نے پہلی تین باتوں کے بارے میں دریافت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
”تمہیں پتا ہے تم لوگوں کی ساری ویڈیوز دیکھنے کے بعد میں نے تم تینوں کے بارے معلومات گوگل پر تلاش کی تھیں۔ ان دونوں کے بارے میں تو مجھے کافی کچھ ملا، مگر تمہارے متعلق وہاں صرف یہ لکھا تھا کہ تم ٹریول گائیڈ ہو اور فلاں فلاں دن تمہارا پروگرام ٹریول چینل پر آتا ہے۔ مجھے بتاؤ ایسا کیوں ہے؟ کوئی تمہارا انٹرویو کیوں نہیں لیتا؟ حالاں کہ میرا خیال ہے کہ تم ان دونوں سے زیادہ مشہور اور ناظرین کے پسندیدہ ہو۔”
”مجھے انٹرویو دینا پسند نہیں۔” بیش قیمت کیمرے کو ایک لمحے کے لیے آنکھ پر سے ہٹا کر اس نے مرم کی جانب سنجیدہ نظروں سے دیکھا اور جواب دے کر فوراً نظریں پھیر لیں۔
”موری کہتی ہیں کہ جو بہت کم بولتا ہے دراصل اسی کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔” مرم نے بہت پتے کی بات بہت غیر معمولی انداز میں کی تھی۔ جیف بے اختیار اس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوا۔ وہ بازوؤں کو باہم لپیٹے، کھوجتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی جیسے اس کے تاثرات کے اتار چڑھاؤ کا اندازہ لگانا چاہتی ہو۔ کندھے اچکاتا ہوا وہ دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گیا۔
”اور موری یہ بھی کہتی ہیں کہ…”
”موری کیا کہتی ہیں مجھے کوئی دل چسپی نہیں یہ سننے میں۔ نہ ہی مجھے ان محترمہ کے اقوال زریں حفظ کرنے ہیں۔ مس مرم آپ میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتی ؟” بالآخر جیف کے صبر کا پیمانہ چھلک ہی گیا۔
”حد ہوتی ہے ایک چیز کی، ایک بندہ آپ سے بے تکلف نہیں ہونا چاہتا یہ سمجھنے کے باوجود آپ کوئی اہمیت نہیں دیتی اس بات کو۔ اتنا بھی ڈھیٹ اور ہٹ دھرم نہیں ہونا چاہیے انسان کو کہ اگلا بندہ زچ ہو جائے اس کی حرکتوں سے۔ اگر آپ صاف صاف لفظوں میں سننا چاہتی ہیں تو سنیں۔” اس کی دھیمی آواز میں غراہٹ خاموش غار میں گونج رہی تھی۔ وہاں کھڑے اِکا دُکا لوگ تعجب سے اسے بولتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
”مجھے کوئی دل چسپی نہیں ہے آپ سے دوستی کرنے میں، حتیٰ کہ بات کرنے میں بھی۔ کام کی وجہ سے مجبور ہو جاتا ہوں میں آپ کو مخاطب کرنے پر۔ آپ کو اپنے ساتھ آنے کی آفر کرنے پر میں ہر روز پچھتاتا ہوں۔آپ کا بہت احسان ہو گا اگر آپ اپنی دوستی پیٹر اور ڈینیل تک ہی محدود رکھیں تو۔مجھے نفرت ہے ایسی لڑکیوں سے جو بلاوجہ بے تکلف ہوتی ہیں اور پھر اگلے کو سیڑھی کی طرح استعمال کرتی ہیں۔” برہم لہجے میں اپنی بات مکمل کر کے جیف نے سکتے کی کیفیت میں کھڑی مرم کو ایک نظر دیکھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔
٭…٭…٭
وہ کروٹیں بدل بدل کر اکتا چکا تھا، مگر نیند کسی روٹھی محبوبہ کی طرح آنکھوں سے ناراض اور دور، دور سی تھی۔ بالآخر سونے کی کوشش ترک کر کے وہ اٹھ بیٹھا اور ٹیوی پر چینل سرچنگ میں مصروف ہو گیا، مگر پھر جلد ہی اس کام سے بھی اکتا گیا ۔اس کی کیفیت بہت عجیب سی ہو رہی تھی۔ اپنے غصے اور سخت الفاظ پر اسے خود بھی حیرت تھی ۔ اسے افسوس ہو رہا تھا اپنے رویے پر۔ کیا تھا جو وہ آج ایک بار پھر برداشت کر لیتا؟ صبر اور برداشت اس کی شخصیت کا خاصا تھا، تو پھر آج ان کا دامن چھوٹ کیوں گیا اس کے ہاتھوں سے ؟
ڈور بیل کی آواز پر بے ساختہ اس کی نظریں گھڑی کی جانب اٹھ گئیں۔ رات کے اس پہر کون ہو سکتا ہے ؟ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو وہاں ڈینیل کھڑا تھا ۔
”سوری تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے ؟ ”اندر آتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں بیٹھو۔”
”دراصل مجھے کچھ پوچھنا تھا ۔”صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے آنے کا مقصد بتایا۔
”نینسی اگر دوبارہ ناراض ہو گئی ہے، تو اسے منانے کے لیے میں کوئی مشورہ دینے سے قاصر ہوں کیوں کہ ان معاملات میں میرا تجربہ صفر ہے۔” اس کی سنجیدہ صورت دیکھ کر جیف کو یہی لگا کہ اس کا نینسی کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے کیوں کہ اس قسم کی سنجیدگی وہ اسی کے لیے دکھاتا تھا۔
”نینسی نہیں مرم…مجھے مرم کے بارے میں بات کرنی ہے۔” وہ ہنوز سنجیدہ تھا۔جیف نے اس بار چونک کر اسے دیکھا تھا۔
”تم نے اسے کچھ کہا ہے کیا؟ کوئی بات تو نہیں ہوئی تمہارے بیچ ؟ آج راستے بھر وہ بہت خاموش اور چپ چپ رہی تھی۔ طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے وہ آتے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ آج سے پہلے میں نے کبھی اسے اتنا اداس نہیں دیکھا۔وہ تو بہت زندہ دل اور ہنسنے ہنسانے والی لڑکی ہے۔ ”
”آج غار میں تھوڑا غصہ آ گیا تھا مجھے اُس پر ۔” جیف نے بات ادھوری چھوڑی۔ ضمیر اسے پہلے ہی ملامت کر رہا تھا سو اس نے بتا دینا ہی بہتر سمجھا۔
”تم جانتے تو ہو اس کی بے تکلفی مجھے پسند نہیں بلکہ اس کی کیا کسی کی بھی نہیں۔ مجھے حق ہے کہ میں جس کسی کو اپنے متعلق بتانا چاہوں یا نہیں۔”
”لیکن تم نے ایسا بھی کیا کہہ دیا کہ وہ واپس جانے کی بات کر رہی ہے؟ میں اتنا تو جانتا ہوں اس کے بارے میں کہ وہ ایک مضبوط اور با ہمت لڑکی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح سے اداس ہونا اور یوں چلے جانا اس کی فطرت میں نہیں ہے۔ ایسا کیا کہہ دیا تم نے اسے؟” ڈینیل نے تشویش سے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!