مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

”نیشنل لیپریکان ہنٹ national leprechaun hunt) ( آئر لینڈ کے شہر کارلنگ فورڈ میں ہر سال اپریل کے مہینے منایا جاتا ہے جس میں آئرش لوک داستانوں میں موجود ایک چھوٹے قد کی افسانوی مخلوق ”لیپریکانز ” کو تلاش کیا جاتا ہے۔ لیپریکانز کے بارے میں یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا پیشہ جوتے بنانا اور ان کی مرمت کرنا ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ انہیں دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ اس تہوار کا پس منظر یہ ہے کہ تقریباً بیس سال پہلے شہر کے نزدیک واقع پہاڑی علاقے میں ایک مقامی آدمی کو اس مخلوق کے سبز رنگ کے مخصوص لباس کے ساتھ چند سونے کے سکے اور ٹوٹی ہڈیاں ملیں تھیں۔ شہر واپس آکر جب اس نے اپنے دوست مسٹر وڈز کو وہ سب چیزیں دکھائیں تو اس نے اس افسانوی مخلوق کے حقیقت میں موجود ہونے سے انکار کر دیا اور خود اپنے دوست کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گیا۔ بہت دیر تلاشنے کے بعد اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ وہ واپس پلٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا جب اسے سبز رنگ کی ٹوپی اور کوٹ میں ملبوس ایک لیپریکان نظر آ ہی گیا۔ اس نے مسٹر وڈز کو بتایا کہ وہ اور اس کے چند ساتھی ایک مدت سے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کی نسل اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانوں نے اس سرزمین پر ان کی موجودگی کا یقین کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس نے مسٹر وڈز کو اپنی مکمل داستان سنائی تھی کہ کس طرح وہ یہاں تک پہنچے جس کو وڈز نے اپنی کتاب ”دی لاسٹ لیپریکان آف آئر لینڈ” کے نام سے شائع کیا تھا۔ اس پر اب تک بہت سی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ تب سے اب تک ہر سال اپریل میں اس ہنٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں سینکڑوں مٹی کے بنے ہوئے لیپریکانز کے پتلے اس پہاڑی علاقے میں چھپا دیے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ سونے کے کئی سکے بھی۔ یہاں کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے لوگوں کا اس مخلوق پر یقین بڑھے گا اور اسی طرح سے لیپریکانز کو ختم ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہر سال آئر لینڈ سمیت دوسرے ممالک سے لوگ یہاں آتے اور اس مخلوق کے پتلوں کو ڈھونڈ کر انعام کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ تو چلیے میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ مجھے بھی سونے کے سکے کمانے کا سنہری موقع مل جائے۔” کیمرے کے سامنے کھڑا جیف اپنی سحر انگیز آوازمیں آئرلینڈ کی ایک مشہور لوک داستان سنا رہا تھا جب کہ وہ ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ بہت اشتیاق سے اس کا ایک ایک لفظ سن رہی تھی جیسے وہ کوئی چھوٹی سی بچی ہو جو پہلی بار ماورائی مخلوق کی یہ داستان سن رہی ہو حالاں کہ کل رات اسی نے جیف ابراہیم کو یہ سب معلومات فراہم کیں تھیں، مگر یہ داستان اسے کل رات اتنی دل چسپ نہیں لگی تھی جتنی کہ اس وقت جیف کی گمبھیر آواز میں لگ رہی تھی۔ اس کے پس منظر میں نظر آتے پہاڑ اور یہاں سے وہاں بھاگتے دوڑتے لوگ نظر آ رہے تھے مگر مرم کی نظریں بس جیف کے چہرے پر جمی ہوئیں تھیں۔ اس کا پورا وجود سماعت بنا ہوا تھا۔
”بہت خوب یار زبردست۔” ڈینیل نے ویڈیو کیمرا بند کر کے اس کی سنائی داستان کی تعریف کی۔
”بڑے مختصر اور جامع الفاظ میں تم نے پوری تفصیل بتا دی۔ بلاشبہ تم ایک زبردست داستان گو ہو۔ یوں ہی تو لوگ تمہارے دیوانے نہیں ہوئے ہیں نا۔” پیٹر بھی خوش دلی سے مسکرا کر اس کے ساتھ آکھڑا ہوا۔ جیف نے مسکرا کر داد وصول کی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مسٹر ابراہیم آپ کا طرز تخاطب بہت متاثر کن ہے۔” مرم نے اس ساحر کے سحر سے نکلتے ہوئے کہا۔ اب کی بار اس نے مسکرانے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ جیف کو اس لڑکی کی خود پر جمی ستائشی نظروں سے چڑ سی ہو رہی تھی جو پوری ریکارڈنگ کے دوران دنیا سے بے گانہ ہو کر اسے دیکھتی رہی تھی۔
پھر وہ لوگ وہاں آئے لوگوں کی اس ہنٹ کے بارے میں فلم بند کرنے لگے۔ سونے کے سکے ڈھونڈنے والوں کے چہرے پر خوشی کے تاثرات رقم تھے جب کہ بہت سے مایوس ہوئے بغیر اب بھی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔ پھر کچھ دیر بعد پیٹر،ڈینیل اور مرم اپنی مہم جو طبیعت سے مجبور ہو کر خود بھی اس تلاش کا حصہ بن کر جگہ جگہ لیپریکان کے پتلوں کو تلاش کرنے لگے۔ جب کہ جیف ابراہیم وہیں ایک پتھر پر بیٹھ کر لوگوں کی یہ بچگانہ حرکتیں دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔ ہر چند کہ اسے یہ سب بہت دل چسپ لگ رہا تھا، مگر بونوں اور سکوں کی حسرت دل میں دبائے بھاگتے، دوڑتے اور ہنستے، کھیلتے لوگ اسے بچے ہی لگ رہے تھے۔ اسے ایک فیصد بھی اپنی ہی سنائی گئی کہانی پر یقین نہیں تھا۔ اسے یہ سب تفریح کے لیے گھڑی گئی کہانی لگ رہی تھی۔
”ارے ابراہیم یہاں پر ہی بیٹھے ہو اب تک ؟ یہاں تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ اب تو پہاڑی میں موجود غار میں ہی مل سکیں گے سکے۔” وہ پر سوچ نظروں سے سامنے لوگوں کے ہجوم کو دیکھ رہا تھا کہ جب جانی پہچانی آواز میں اسے بے تکلفی سے مخاطب کیا گیا۔
”مجھے کچھ ڈھونڈنا بھی نہیں ہے۔ میں یہاں جو کام کرنے آیا تھا وہ کر چکا ہوں۔ اب ان دونوں کا انتظار کر رہا ہوں کہ کب وہ لوگ آئیں اور ہم والپسی کی تیاری کریں۔” جیف نے سنجیدگی سے مرم کے سوال کا جواب دیا۔
”تم یہاں ہنٹ میں آئے ہو تو ڈھونڈو تو سہی بونوں کو۔”مرم نے دوستانہ لہجے میں اسے مفت مشورہ دیا ۔
”شکریہ مگر مجھے دل چسپی نہیں۔” اس نے رکھائی سے جواب دیا۔
”مگر کیوں؟” مرم نے اس کے لہجے کا نوٹس نہیں لیا تھا کیوںکہ وہ بھاگتے دوڑتے لوگوں کو دیکھنے میں مگن تھی۔
”کیوں کہ مجھے لگتا ہے یہ سب صرف گھڑی ہوئی داستان ہے۔ ورنہ ایسی مخلوق کی کوئی حقیقت نہیں۔ ضروری نہیں جو چیز یہاں کے لوگ مانتے ہوں وہ میں بھی مانوں۔ میرا ایمان اِس ماورائی مخلوق پر نہیں ہے۔” اب کی بار جیف جھنجھلا کر بولا۔
”تو پھر تم یہاں آئے ہی کیوں؟” مرم نے تعجب سے پوچھا۔
”کام کرنے۔” مختصر جواب دیا گیا۔
”جس چیز پر تم خود یقین نہیں رکھتے پھر کیسے اپنے دیکھنے والوں کو اس کا یقین دلا سکتے ہو؟ اس طرح تمہارے الفاظ میں اثر ختم ہو جائے گاابراہیم۔”
”میرا کام یقین دلانا نہیں ہے۔ میرا کام لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ یقین کرنا نہ کرنا ان پر منحصر ہے ضروری تو نہیں ہوتا نا کہ جو انسان بول رہا ہو یا دیکھ رہا ہو اس پر یقین بھی کرے کیوں کہ الوژن، جادو، نظر کا دھوکا اسی دنیا کی پیداوار ہے۔” جیف کو کوفت ہونے لگی تھی اب اس ساری گفتگو سے۔ نہ جانے پیٹر اور ڈینیل کہاں چلے گئے تھے۔ اس جواب پر مرم اسے تاسف اور حیرت سے دیکھ کر رہ گئی۔
”اور ہاں میرا نام جیف ہے اور مجھے پسند ہے کہ ”اجنبی” لوگ مجھے اسی نام سے پکاریں ۔” اس نے ”اجنبی” لفظ پر زور دیتے ہوئے مرم کو بہت کچھ باور کرایا۔
”ابراہیم یقینا تمہارا سر نیم یا پھر تمہارے والد کا نام ہو گا ؟ کیا تمہیں اپنے والد کے حوالے سے پکارے جانا برا لگتا ہے ؟” اتنی بڑی بات اس نے اتنے عام سے انداز میں پوچھی تھی کہ کچھ لمحوں کے لیے تو جیف ساکت ہو گیا پھر سر جھٹک کر بات بدل دی۔
”یہ آپ کا ملک ہے تو آپ یقین کریں گی ہی اس کی ہر بات ،ہر داستان پر مگر میں…”
”تو کیا تم یقین نہیں رکھتے اپنے ملک کی داستانوں اور کہاوتوں پر؟ کون سا ملک ہے تمہارا مجھے بتائیں میں ابھی گوگل کر کے تمہاری سرزمین کی کہانیاں ڈھونڈتی ہوں پھر کہنا یہ سب۔ کون سا ملک ہے بولو ؟” مرم نے چیلنج دیتی نظروں سے اپنے پرس میں سے اسمارٹ فون نکالا اور اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ اسے جیف کی بے یقینی کافی ناگوار گزری تھی۔ اس کا انداز اسے مذاق اڑاتا ہوا لگا تھا۔ اس کا شدت سے دل چاہا تھا کہ وہ بھی جیف کی سرزمین کی لوک داستانوں کا ایسے ہی مذاق اڑائے۔
” میری نیشنیلٹی برٹش ہے ۔” دور افق پر نظریں جما کر اس نے دھیرے سے بتایا تھا طویل خاموشی کے بعد۔ مرم نے اس بار بہت چونک کر اسے دیکھا۔
٭…٭…٭
پورے گاؤں کے لوگوں کے لیے میں تفریح کا ایک سامان تھا۔ بابا کے سامنے تو نہیں ہاں اکیلے میں وہ سب میرا خوب مذاق اُڑاتے۔ میرے بہن بھائی اور گاؤں کے باقی بچے ہر بات میں میری رنگت پر چوٹ کیا کرتے تھے۔مجھے دیکھتے ہی ”سانولا” کہہ کر چھیڑتے تھے۔
میں صابر، شاکر اور خاموش بچہ ہونے کے ساتھ ساتھ حساس بھی تھا۔ چھے، سات سال کی عمر میں ہی میں نے لوگوں کے رویوں پر غور کرنا شروع کر دیا تھا۔ بالخصوص اپنی ماں کے امتیازی سلوک پر میں شروع شروع میں بہت روتا تھا۔ اس سے پوچھتا بھی تھا کہ اماں آپ مجھے پیار کیوں نہیں کرتیں؟ بہن بھائیوں سے لڑائی میں کبھی میری طرف داری کیوں نہیں کرتیں؟ اماں کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کوشش بھی کرتا رہتا۔ کبھی اپنی کاپی لا کر اسے دکھاتا کہ اماں آج ٹیسٹ میں پورے نمبر آئے ہیں میرے، مگر اماں میری پیشانی چوم کر شاباش دینے کے بجائے بس ”اچھی بات ہے” کہہ کر وہاں سے اٹھ جاتی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا کہ اماں بہت سوچتی نظروں سے مجھے دیکھتی ہیں، مگر جب میں متوجہ ہوتا تو وہ تیزی سے اپنی نظریں ہٹا لیتی۔ پھر اماں پر کوئی اثر نہ ہوتے دیکھ کر آہستہ آہستہ میں نے اندر ہی اندر کڑھنا شروع کر دیا۔ میری ماں ہمیشہ ہی سے حسن پرست رہی تھی کیوںکہ وہ خود بھی بلا کی حسین تھی۔ اس کا معیار بہت اونچا تھا۔ اسی لیے جب اس کے لیے بر ڈھونڈنے کا مرحلہ آیا، تو اس کے مزاج آشنا ماں باپ نے بابا کے رشتے کو ترجیح دی کیوں کہ وہ بھی بہت شان دار اور بھرپور مردانہ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے پہلے دو بچے محمد خان اور زری اسی کی طرح خوب صورت تھے، مگر میری پیدائش پر وہ بہت مایوس ہوئی تھی۔ پہلی بار مجھے دیکھ کر ممتا سے لبریز جذبات کے بجائے ناپسندیدگی کے جذبات جاگے تھے اور جب دادی نے میرے متعلق وہ باتیں کہیں تھیں، ان باتوں نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔ ان کے طعنے اور شک نے کچھ ایسا اثر کیا تھا کہ اماں کو اپنی ممتا کو تھپک تھپک کر سلانا بھی نہیں پڑا تھا، کیوں کہ اوّل روز ہی سے وہ ممتا شاید کہیں موجود ہی نہیں تھی۔
اس گھر میں صرف بابا تھے جو مجھے محبت اور اہمیت دیتے۔ شام میں گھر آ کر سب سے پہلے وہ میرے متعلق دریافت کرتے۔ پاس بیٹھا کر اسکول میں گزارے گئے وقت کے بارے میں پوچھتے جو بھی کپڑے یا کھلونے لاتے سب سے پہلے مجھے ہی پسند کرنے کا کہتے۔ میرے بہن بھائی بھی باپ کے ڈر سے اس کے سامنے مجھے کچھ نہیں کہتے تھے، مگر یہ چند گھنٹے کی محبت اور اہمیت اس اذیت کا مرہم نہیں ہو سکتی تھی جو سارا دن اس گھر کے باقی مکین مجھے اپنی باتوں اور رویوں سے پہنچاتے تھے۔ چودہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تنہائی اور محرومی کا احساس میرے اندر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا۔
٭…٭…٭
بیزاری سے لیپ ٹاپ بند کر کے اس نے ہاتھ میں بندھی گھڑی پر نظریں دوڑائیں۔ فلائٹ ٹیک آف ہوئے تقریباً آدھا گھنٹا گزر چکا تھا۔ کچھ مسافر میگزین اور اخبار پڑھنے میں مصروف تھے، تو کچھ کانوں میں ہیڈ فون لگائے میوزک سننے میں مگن اور چند ایک ڈینیل کی طرح نیند کے مزے لوٹ رہے تھے۔ برابر والی سیٹ پر ریلیکس انداز میں سوئے ڈینیل کو ایک نظر دیکھ کر اس نے اپنی سیٹ کی دائیں جانب دو سیٹیں چھوڑ کر بیٹھے ہوئے مرم اور پیٹر پر نظریں جما دیں جو آیندہ آنے والے دنوں کی پلاننگ کر رہے تھے۔ بیس دن کانٹی لاؤتھ میں گزارنے کے بعد اب وہ کانٹی کیری کے قدرتی حسن کو اپنے انداز سے دریافت کرنے نکلے تھے۔ ان بیس دنوں میں اپنے دو بہت ہی پیارے دوستوں کی سنگت میں اس نے بہت یادگار دن گزارے تھے۔ ان تینوں کی دوستی نے بے تکلفی کے مزید مرحلے طے کیے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ گزرے وقت نے دوستی کو مزید پختہ کیا تھا۔ ہاں بس مرم کا اس تمام سفر میں ساتھ ہونا اسے کوفت میں مبتلا کر دیتا تھا۔ پیٹر اور ڈینیل کی مرم سے بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی کیوں کہ وہ کم و بیش ایک جیسی فطرت رکھتے تھے، مگر وہ اب تک اس سے اتنا ہی بے زار اور پر تکلف تھا کہ جتنا پہلے روز۔ یہ الگ بات تھی کہ کام کے معاملے میں سب سے زیادہ واسطہ اسی کا مرم سے پڑتا تھا اور وہ دل پر پتھر رکھ کر کسی نہ کسی طرح اسے برداشت کر ہی لیتا، مگر کام کے علاوہ وہ کبھی بھولے سے بھی اسے مخاطب نہیں کرتا تھا، جب کہ مرم ہر وقت اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش میں سرگرداں رہتی تھی۔ کئی بار تو اس کا دل چاہا کہ اسے ٹھیک ٹھاک سنا دے، مگر پیٹر کی دی گئی وارننگ کی وجہ سے ہر بار خاموش ہو جاتا۔ نہ جانے اس کا صبر اور تحمل مرم کو دیکھ کر کیوں رخصت ہونے لگتا تھا۔ اسے غور سے دیکھتے ہوئے جیف کو چار دن پہلے گزرا واقعہ یاد آ گیا۔ وہ اب تک حیران تھا کہ اس نے ان دونوں کے بجائے جیف ہی کو کیوں مدد کے لیے پکارا۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ رات کے تقریباً ایک بجے اس کے موبائل پر مرم کے نمبر سے کال آئی تھی۔
”ہیلو ۔” گہری نیند سے جاگ کر اس نے فون اٹھایا۔
”ابراہیم۔ابراہیم پل…پلیز… میری مدد کرو۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔” دوسری طرف سے مرم کی گھٹی گھٹی آواز سن کر وہ چونک گیا۔
” مس ڈیوڈ آپ اس وقت ؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟ کہاں ہیں آپ ؟” بے ساختگی سے جیف نے دریافت کیا۔ ائیر بیس میں سے آتی مرم کی گہری گہری سانسوں کی آواز وہ بہ آسانی سن سکتا تھا۔
”مم… میں اپنے روم کے واش روم میں لاک ہو گئی ہوں۔ یہاں کا سٹیم شاور خراب ہو گیا ہے اور شاید ڈور لاک بھی، میری مدد…” دوسری طرف شاید اسے بھاپ کی وجہ سے کھانسی کے دورہ پڑا تھا جس کے باعث وہ مزید کچھ نہ بول پائی۔
”ہیلو۔ ہیلو ۔؟” دروازے کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے وہ اسے پکار رہا تھا، مگر دوسری طرف صرف بے تحاشا کھانسنے کی آواز ہی آ رہی تھی۔ ہوٹل کے عملے کے ہمراہ جب وہ مرم کے روم میں پہنچا، تو وہ واش روم کا دروازہ زور زور سے بجا رہی تھی۔ لاک توڑ کر جب دروازہ کھولا گیا تو گرما گرم بھاپ کا ایک ریلہ برآمد ہوا اور اس کے ساتھ ہی مرم گہری گہری سانسیں لیتی بے جان ہوتے وجود کو گھسیٹتے ہوئے باہر آئی۔ اس کی حالت اس قدر خراب ہو رہی تھی کہ جیف تیزی سے آگے بڑھا اور اس کے نیم مردہ وجود کو تھام کر صوفے تک لے آیا۔
”مرم… مرم ہوش میں آئیں۔” آنسوؤں سے تر، سرخ پڑتے گالوں کو تھپتھپا کر وہ اسے حواسوں میں لانے کی کوشش رہا تھا۔ جب کہ وہ ابھی تک کھانس رہی اور گہری گہری سانسیں لے کر زندگی کو اپنے وجود میں اتار رہی تھی۔
”میرا دم گھٹ رہا ہے۔ کھڑ کھڑکی کھولو۔” نیم وا آنکھوں سے کھڑکی کی طرف اشارہ کر کے اس نے دوبارہ آنکھیں میچ لیں۔ ایک ویٹر تیزی سے کھڑکی کی جانب بڑھا اور تمام کھڑکیاں کھول دیں، جب کہ ایک دوسرے ویٹر نے جیف کے اشارے پر پانی کا گلاس اسے تھمایا۔
”مرم لو پانی پی لو تھوڑا سا۔” گلاس اس کے لبوں پر لگا کر اس نے پانی پلایا ،تو کھانسی میں افاقہ ہوا۔ بہت دقت سے اس نے دوبارہ آنکھیں کھول کر جیف کو دیکھا۔ اس کا تنفس کافی حد تک بحال ہو چکا تھا۔
”اب ٹھیک ہیں آپ ؟” جیف نے اس کی سرخ نم آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ مرم نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک بار پھر صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند کر پرسکون ہونے کے لیے گہری سانس لی۔
پھر جیف ہوٹل کے عملے کی طرف متوجہ ہوا اور منیجر سمیت وہاں موجود سب لوگوں کو ناقص انتظامات پر خوب کھری کھری سنائیں اور ساتھ ہوٹل کے حکام اعلیٰ سے شکایت کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔
اگلے دن معمول کے مطابق کام کرتے ہوئے مرم نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
”ابراہیم تمہارا بہت بہت شکریہ کہ اپنا آرام چھوڑ کر تم اتنی رات گئے میری مدد کو آئے اور مجھے نئی زندگی دی۔ ورنہ ایک لمحے کے لیے تو مجھے ایسا لگا تھا کہ میری موت بھاپ سے بھری، ڈربے نما جگہ پر لکھی ہے۔” مرم نے ممنون لہجے میں اس کا شکریہ ادا کیا۔
”نہیں شکریہ کیسا، یہ میرا فرض تھا۔ آپ ہمارے ساتھ آئیں ہیں سو ہماری ذمہ داری ہیں۔” اس نے بھی شائستہ لہجے میں اس کا شکریہ قبول کر لیا۔ پر نہ جانے اس سر پھری لڑکی نے اس کی مدد کو کس انداز میں لیا کہ اس دن کے بعد وہ بنا اس سے پوچھے اسے اپنا دوست مان چکی تھی۔ ایک تو اسے بلاوجہ اور بے تکان بولنے کی عادت تھی اور پیٹر اور ڈینیل کے ساتھ ساتھ اسے بھی ہر بات میں گھسیٹ لیتی تھی۔ اتنے دنوں سے وہ اس کے حد سے بڑھے ہوئے دوستانہ رویے کو اگنور کر رہا تھا، مگر دل ہی دل میں شدید کوفت اور جھنجھلاہٹ کا شکار ضرور ہوتا۔
اپنی سوچوں میں وہ اس قدر مگن تھا کہ اسے یہ احساس بھی نہیں ہوسکا کہ وہ بہت دیر سے مسلسل مرم پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ نہ جانے کیوں مرم نے چونک کر پہلے اپنے بائیں جانب نظریں دوڑائیں اور پھر اچانک سے پیچھے مڑ کر سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھا اور ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کی سمت اچھالی۔ اپنی نظروں کے ارتکاز پر خفیف ہو کر وہ فوراً اپنا چہرہ دوسری جانب موڑ گیا۔ جہاز میں اب کچھ ہی دیر کے بعد منزل تک پہنچنے کا اعلان ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
گھر میں میری بڑی بہن زری کی شادی کا ہنگامہ جاگا ہوا تھا۔ بہت سے رشتے دار آس پاس کے علاقوں سے وہاں آئے ہوئے تھے اور میں ہمیشہ کی طرح ان کی نظروں سے چھپنے اور دل دکھانے والی باتوں سے بچنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ ایسے ہر موقع پر مجھے بہتے دریا کے کنارے پڑا بڑا سا پتھر ہی وہ بہترین جگہ لگتی جہاں میں چند پل سکون سے سانس لے سکتا تھا، مگر…
”زبردست…یہ جگہ کتنی رومانوی ہے۔ بہتے پانی کا شور، تازگی کا احساس بخشتا سبزہ، پرسکون وادی، آسمان کی وسعتیں اور خاموشی۔ واقعی لوگ صحیح کہتے ہیں یہ جگہ جنت ہے۔” میں نے اپنی سوچوں سے چونک کر اپنے دائیں جانب دیکھا۔ وہ دونوں بازوؤں کو پھیلائے، آنکھیں بند گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔ چہرے پر پڑتی سورج کی کرنیں اس کی شفاف جلد کو اور بھی پرکشش بنا رہیں تھیں۔ وہ کشمالا تھی، کشمالا فیروز۔میری پھپھو کی بیٹی جو لاہور سے آئی تھی۔
”بڑے ہی بے مروت میزبان ہو تم۔ نہ جانے کتنی دیر سے اکیلے ہی اس خوبصورت جگہ کے مزے لوٹ رہے تھے۔ مجھے بتا ہی دیا ہوتا کہ یہاں آ رہے ہو۔ فضول میں اتنی دیر میں وہاں عورتوں کی سیاست سنتی رہی۔” وہ بہت بے تکلفی سے مجھ سے مخاطب ہوئی تھی جیسے ہم بچپن کے دوست ہوں۔ وہ میرے برابر پتھر پر بیٹھ چکی تھی جب کہ میں اچنبھے سے اپنی اس کزن کو دیکھتا رہا جس سے زندگی میں دوسری بار مل رہا تھا۔ میری حیرت بجا تھی کیوں کہ ایک تو گاؤں کا ماحول ایسا نہیں تھا کہ لڑکا لڑکی اتنی بے تکلفی سے بیٹھ کر باتیں کریں اور دوسرا آج تک مجھے کسی نے اس قابل نہیں سمجھا تھا کہ چند منٹ بیٹھ کر کوئی بات کر لے۔
”ایسے حیرت سے منہ کھولے دیکھتے ہوئے بالکل الو لگ رہے ہو۔” کشمالا نے لطیف سا طنز کیا تو میں جھینپ کر مسکرا دیا۔
”پہلی بار دیکھ رہی ہوں کہ کوئی لڑکا بھی ایسے شرماتا ہے۔ بڑی حیرت انگیز بات ہے یہ میرے لیے۔ ویسے تم ہمیشہ خاموش اور گم صم کیوں رہتے ہو؟ دو دن ہو چکے ہیں مجھے یہاں آئے اور دو دنوں میں میں نے تمہیں سب سے الگ تھلگ ہی دیکھا ہے۔ لگ ہی نہیں رہا کہ تمہاری بہن کی شادی ہے۔” اس کا مشاہدہ غضب کا تھا۔
”نہیں ایسا تو نہیں ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔” اس کے درست اندازے پر حیران ہوتے ہوئے میں نے دھیمے لہجے میں اس کی نفی کی۔
”سانول ویسے تمہارا نام بہت رومانوی سا ہے۔ اکثر ناول میں، میں نے ہیرو کا یہ نام پڑھا ہے۔ اچھا نام ہے کافی۔” اس کی بات پر پھر مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا تھا۔ کیا وہ اس کے نام کے پیچھے چھپی کہانی کو نہیں جانتی تھی یا پھر وہ بھی جان بوجھ کر طنز کر رہی تھی؟ باتونی ہونے کے ساتھ وہ کافی نڈر اور بے باک معلوم ہو رہی تھی جو ایک لڑکے کے سامنے اس کے نام کی بے دھڑک تعریف کر رہی تھی اور لڑکا بھی کون؟سانول…
”تم بھی تو کچھ بولو نا ؟ کیا میں ہی بولتی رہوں گی سارا وقت؟” اب کے اس نے مجھے بولنے پر اکسایا۔ میں جو لوگوں کی باتیں سن سن کر احساس کمتری کا شکار تھا نہیں جانتا تھا کہ ایک لڑکی سے کیا اور کس طرح بات کرنی ہے؟ میری بہنیں مجھے بات کرنے کے قابل نہیں سمجھتیں تھیں۔ گاؤں کے لڑکوں سے میری دوستی نہیں تھی تو لڑکیوں کا شمار ہی کیا؟ لے دے کر ایک بابا ہی بچتے تھے جن سے میں بات کر لیا کرتا تھا، مگر وہ باتیں بھی اسکول اور میرے مستقبل پر مبنی ہوتیں تھیں۔ بہت سوچ کر میں نے بالآخر اپنی الجھن سلجھانے کا فیصلہ کیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!