مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

”آگیا میرا چاند اسکول سے؟” ہم دونوں جیسے ہی گھر داخل ہوئے نگار نے ولی (سانول کا بڑا بھائی) کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے مخاطب کیا اور پھر اس کا بیگ لے کر اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اسے خوب پیار کیا۔ میں نے بڑی حسرت بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے ذہن میں بھی یہ خواہش جاگی کہ مجھے بھی اماں ایسے ہی پیار کرے،مگر بچپن کی حسرت ایک بار پھر حسرت ہی بن کر سینے میں دب گئی۔
” اماں کیا پکا ہے آج؟ بڑی سخت بھوک لگی ہے۔” ولی نے پوچھا۔
” آج میں نے اپنے چاند کی پسند کا کھانا بنایا ہے۔ جلدی سے کپڑے بدل لو۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔” اماں نے ایک بار پھر ممتا سے لبریز لہجے میں بتایا۔ وہ ان تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور پرکشش تھا اور ساتھ ساتھ ماں کا بے انتہا لاڈلا بھی اور اسی لاڈ پیار نے اسے بدتمیز اور سرکش بنا دیا تھا۔
” نہیں اماں پہلے کھانا دو۔” ولی بھوک کا بہت کچا واقع ہوا تھا۔ میں اب تک گھر کی دہلیز پر ہی کھڑا تھا اور ایک بار پھر میرا نادان دل یہ خواہش کر رہا تھا کہ کاش اماں مجھے بھی ایسے ہی بولیں کہ سانول میرے چاند جا کپڑے تبدیل کرو، مگر میں ”چاند” نہیں تھااور یہ بات میرے لاشعور میں کہیں نہ کہیں بیٹھ چکی تھی۔ ایک خاموش نظر کام کرتی اماں پر ڈال کر میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
کپڑے تبدیل کر کے بہت دیربعد کمرے سے آیا، تو میرے باقی بہن بھائی بھی اسکول سے آچکے تھے اور سب دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔کسی نے بھی میرے آنے کا انتظار نہیں کیا۔ حالاں کہ یہ گھر کا اصول تھا کہ جب تک گھر کے سارے افراد دسترخوان پر نہ آ جائیں کھانا شروع نہ کیا جائے، مگر یہ اصول ”سانول” کے لیے نہیں تھایا شاید کوئی بھی مجھے گھر کا فرد ماننے کو تیار نہیں تھا۔سوائے بابا کے۔ میں خاموشی سے آ کر اپنی چھوٹی بہن نور کے برابر بیٹھ گیا۔ میرے بیٹھتے ہی نور تیزی سے مجھ سے دور کھسکی جیسے میں کوئی اچھوت ہوںیا پھر میرے کپڑوں میں لگی گندگی کہیں نور کو بھی نہ میلا کر دے۔ نور کے اس اقدام کو میں نے بہت شدت سے محسوس کیا۔ اس تذلیل کے بعد مجھ میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ کسی کو سالن کا ڈونگا اٹھا کر دینے کو کہتا۔ میں بس سر جھکائے اپنے آنسوؤں پر بند باندھ رہا تھا کہ کسی نے ہاتھ بڑھا کر ڈونگا میرے سامنے رکھا اور فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔سر اٹھا کر دیکھنے پر مجھے معلوم ہوا کہ اماں نے یہ مہربانی کی تھی۔ایک نظر مجھے دیکھ کر وہ دوبارہ کھانے میں مشغول ہو گئی۔ میں نے ڈونگے کی طرف دیکھا۔آج بھی خالی سالن میرا منہ چڑا رہا تھا۔ ہمیشہ میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔یہ نہیں تھا کہ گھر کے حالات خراب تھے مگر مجھے چھوڑ کر سب بہن بھائی کافی خوش خوراک تھے اور ساتھ ساتھ گوشت کے شوقین بھی۔ اس لیے دوپہر کو اکثر مجھے سادہ سالن ہی ملتا تھا۔ ہاں رات میں چوں کہ بابا گھر ہوتے تو وہ پہلے میری پلیٹ میں کھانا ڈالتے تھے۔ شروع شروع میں اس نا انصافی پر ایک دو مرتبہ میں نے بہن بھائیوں سے لڑنے کی کوشش بھی کی تھی اور مجھے جواب میں دادی سے سننے کو ملا تھا کہ ” تو کیا کرے گا گوشت کھا کر گورے تو نہیں ہو جاؤ گے ۔کالے کے کالے ہی رہو گے۔” اس دن کے بعد جو کچھ بھی میرے سامنے رکھا جاتا وہ خاموشی سے کھا لیتا۔ اب بھی میں نے ذرا سا سالن لے کر روٹی سے کھانا شروع کر دیا تھا۔ سب بہن بھائی اپنی اپنی روداد سنانے میں مگن تھے۔ کوئی اپنے دوستوں اور استاد کے قصے سنا رہا تھا، تو کوئی اپنی سہیلیوں کی کہانیاں۔ ایک خاموش تھا تو بس میں جو چپ چاپ سر جھکائے کھانے میں ایسے مگن تھا جیسے وہاں کوئی اور موجود نہ ہو۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

” اماں پلیز ابا سے کہہ کر سانول کا اسکول بدلوا دیں۔ اتنی شرمندگی ہوتی ہے مجھے اس کی وجہ سے جب لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ سانولا تمہارا سگا بھائی ہے؟ ” ولی کبھی بھی مجھ پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آتا تھا۔اس کا پسندیدہ مشغلہ ہی میری تذلیل کرنا تھا۔ اس کی بات پر میں نے ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھا جو آنکھوں میں کمینی سی چمک لیے میری طرف متوجہ تھا۔ ” اب تو میں نے سوچ لیا ہے کہ آیندہ سے میں بول دوں گا کہ ابا نے اسے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا۔” مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر اس نے بڑا کاری وار کیا تھا۔مجھ میں مزید سننے کی تاب نہیں تھی اس لیے منہ میں جاتا نوالہ پلیٹ میں واپس ڈال کر خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
”ولی خاموشی سے کھانا کھاؤ۔ کیوں ہر وقت اسے تنگ کرتے رہتے ہو؟ کیا کہتا ہے وہ تمہیں؟” ولی کی بات سیدھی ماں کے دل پر جا کر لگی اس لیے تھوڑا سختی سے پوچھا تھا۔
” وہ آیا ہی کیوں اس گھر میں ؟ کیوں پیدا ہوا وہ ہمارے گھر ہمارا مذاق بنوانے کے لیے۔” ولی اونچی آواز میں بولا۔
” اچھا چپ کر کے کھانا کھا۔ میں کروں گی تمہارے ابا سے بات۔” نگار نے اسے چپ کرانے کی خاطر حامی بھری تھی۔
٭…٭…٭
ڈبلن ہوٹل کے گارڈن میں کھڑے وہ تینوں مرم کا انتظار کر رہے تھے۔ آج ان کے سفر کا آغاز تھا۔ ان کے سفر کا پہلا پڑاؤ آئر لینڈ کے شمال مشرق میں واقع ایک خوبصورت شہر کارلنگ فورڈ میں تھا۔ جہاں ٹھیک دو دن بعد آئر لینڈ کا ایک مشہور ترین دن منایا جانا تھا۔
” مجھے تو یہ لڑکی بہت غیر ذمہ دار لگتی ہے۔ اب تک نہیں آئی، پچھلے آدھے گھنٹے سے ہمیں یہاں بلایا ہوا ہے۔” جیف جو اب کھڑے کھڑے بے زار ہو چکا تھا کوفت سے بولا۔
” یار ہو سکتا ہے کہ کسی وجہ سے دیر ہو گئی ہو اسے یا کوئی ضروری انتظام کرنا رہ گیا ہو۔” ڈینیل نے روڈ پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو لگ رہا ہے ہم اس کے ساتھ جا کر غلطی کر رہے ہیں، پہلے دن یہ حال ہے محترمہ کا آگے نہ جانے کیا ہو، وقت کا کوئی احساس ہی نہیں۔” جیف گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ چلنے والا بندہ تھا اور وقت کی یہ ناقدری اس کی برداشت سے باہر تھی۔ اسی وجہ سے اسے مرم کوئی خاص پسند نہیں آئی تھی۔پیٹر اور ڈینیل اس کے مزاج سے واقف تھے اس لیے کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔ چند لمحوں بعد ایک سیاہ جیپ ان کے نزدیک آ کر رکی۔ مرم اپنے باس سمیت تیزی سے اتری اور دونوں اب انہی کی طرف بڑھ رہے تھے۔
” ہیلو! صبح بہ خیر۔” دونوں نے مجموعی طور پر انہیں وش کیا۔
”دیر سے آنے کی معذرت چاہتا ہوں۔ کچھ ضروری انتظامات میں وقت لگ گیا تھا۔” باس نے شائستگی سے دیر ہونے کی وجہ بتائی۔
” مرم نے جب مجھے بتایا کہ آپ نے اسے بطور گائیڈ اپنے ساتھ جانے کی دعوت دی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آپ لوگ اپنے ساتھ محب وطن آئرش گرل کو لے جا رہے ہیں اس لیے پورا یقین رکھیے کہ یہ ایک اچھی گائیڈ ثابت ہو گی۔”
” جی بالکل ہمیں اس بات کا یقین ہے تبھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔” پیٹر نے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
”سر آپ کا بہت بہت شکریہ کہ ہماری درخواست پر مس مرم کو اتنی لمبی چھٹی دے کر ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دی ۔” ڈینیل کو اخلاقیات نبھانے خوب آتے تھے۔
”آپ ہمارے ملک میں مہمان ہیں ۔آپ کی ہر ممکن مدد کرنا ہمارا فرض ہے ۔”
”میرا خیال ہے اب ہمیں سفر کا آغاز کرنا چاہیے۔ پہلے ہی کافی وقت برباد ہو گیا ہے۔”ہاتھ میں بندھی ٹائمیکس کی قیمتی گھڑی دیکھتے ہوئے جیف نے دیر ہونے کا احساس دلایا۔
”ہاں بالکل اب چلنا چاہیے۔” پیٹر نے اس بد اخلاقی پر اسے گھورا اور اجازت چاہی۔ ان کا سامان ڈرائیور پہلے ہی جیپ میں رکھ چکا تھا۔ وہ چاروں باری باری باس سے مل کر جیپ میں بیٹھے اور پھر سفرکا آغازکیا۔
٭…٭…٭
”تو سیاحت آپ کا شوق ہے۔” ڈینیل نے مرم سے استفسار کیا۔اسے یہ لڑکی بہت دوستانہ مزاج کی لگی تھی۔ پورے راستے ان دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی رہی۔ وہ اس وقت کارلنگ فورڈ کے ایک ہوٹل میں بیٹھے لنچ کر رہے تھے۔
” نہیں میری ہابی… یہ الگ بات ہے کہ اس ہابی کے لیے نہ میری موری اجازت دیتی ہیں نہ ہی میرا بینک بیلنس۔” مرم نے پر اعتماد انداز سے بتایا۔
”اور سیاحت آپ لوگوں کا پیشہ ہے شاید۔”چند لمحوں کا وقفہ دے کر ساتھ ہی ان سے بھی پوچھ لیا۔
” نہیں ہمارا جنون۔” پیٹر نے مسکراتے ہوئے تصحیح کی۔
”جو لوگ سیاحت کو پیشہ بناتے یا سمجھتے ہیں وہ میری نظر میں سیاح کہلانے کے مستحق نہیں۔ سیاحت ہمارے لیے زندگی کا دوسرا نام ہے۔مختلف ملکوں میں جا کر مختلف لوگوں سے ملنا، ان کا رہن سہن اور ان کا کلچر دیکھنا۔وہاں کے تہواروں کے پس منظر کو جاننا۔یہ سب اتنا دل چسپ ہوتا ہے کہ اسے پیشے جیسے خشک لفظ کے ساتھ جوڑنا نا انصافی ہے۔یہ تھوڑا مشکل اور مہنگا شوق ہے مگر ہے بہت دل چسپ۔ مشکل اس لیے کہ کسی نئی جگہ جا کر چند مہینوں کے لیے ہی سہی پر اپنی عادات اور مزاج کو بدلنا پڑتا ہے۔ پھر مقامی لوگوں سے ملنا، ان کے تہوار کے متعلق بنیادی معلومات حاصل کرنا بھی اکثر مشکل ثابت ہوتا ہے۔” پیٹر کو وہ اپنے پہلے منفی تاثر سے بہت مختلف لگی تھی۔ وہ پہلے اسے بہت لاابالی اور سر پھری سمجھا تھا، مگر راستے بھر وہ ان لوگوں کو یہاں کے متعلق جس طرح سے بتاتی رہی اس سے انہیں اندازہ ہوگیا کہ انہوں نے مرم کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی کی تھی۔
” چلیں یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ بہت ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کو یہ اندازہ بھی ہے کہ یہ کافی مہنگا شوق ہے ورنہ اپنی اس جاب کے دوران میں ایسے لوگوں سے بھی ملی ہوں جو سیاحت کے تو شوقین ہیں مگر ان کی جیب سے پیسے برآمد کرنا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔”
” یعنی دوسرے الفاظ میں آپ ہمیں یہ بتانا چاہ رہی ہیں کہ آپ نے بڑی آسانی سے ہماری جیبیں خالی کروا دی ہیں۔” ڈینیل نے شریر سی مسکراہٹ سے کہا، تو وہ کندھے اُچکا کر مسکرا دی۔ جیف اس ساری گفتگو میں سامع کے فرائض انجام دیتا رہا تھا۔ ان دونوں کے برعکس جیف نے مرم سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی۔اس گفتگو کو مکمل طور پر نظر انداز کیے وہ کھانے میں مگن تھا ۔اس کی یہ لاتعلقی مرم کو بہت عجیب لگ رہی تھی۔
” نہیں میں نے تو یوںہی ایک بات کی ہے۔ خیر چھوڑئیے اس بات کو۔ مسٹر ابراہیم آپ بتائیے آپ بہت خاموش ہیں حالاں کہ میرا تو خیال تھا کہ شو ہوسٹ ہونے کے ناتے آپ میری طرح بہت زیادہ بولنے کے شوقین ہوں گے۔” بالآخر ڈھیٹ بن کر اس نے اسے مخاطب کر ہی لیا جس کی آواز و انداز کے سحر سے متاثر ہو کر وہ یہاں تک آئی تھی۔ وہ ہی کچھ بولنے کو تیار نہیں تھا بس گونگوں کی طرح پلیٹ پر ایسے جھکا ہوا تھا جیسے کوئی دل چسپ منظر چل رہا ہو پلیٹ پر۔جیف کی بلا وجہ کی لاتعلقی اور بے نیازی پر اسے حیرت ہو رہی تھی۔
” معذرت کے ساتھ مگر میں اجنبیوں سے بے تکلف ہونا پسند نہیں کرتا۔” اپنا اس انداز سے مخاطب کیا جانا اسے نہ جانے کیوں غصہ دلا گیا تھا اسی لیے روکھے لہجے میں اسے جتا کر اس نے ساتھ ہی پیٹر کو مخاطب کیا۔
”پیٹر میں اپنے روم میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ کھانے کے بعد آجانا۔ کل کے حوالے سے کچھ پوائنٹس پر بات کرنی ہے۔” بات مکمل کر کے وہ کرسی پیچھے دھکیل کر اٹھا اور تیزی سے لفٹ کی طرف بڑھ گیا۔ مرم اس کے ہتک آمیز لہجے کو سن کر اپنے لب بھینچ گئی۔ اس کے منہ پھٹ انداز پر اسے بہت سبکی محسوس ہوئی تھی۔
”مرم پلیز آپ اس کی بات کا برا مت مانیے گا۔ وہ بس ایسا ہی ہے۔ تھوڑا سنجیدہ، کم گو اور ریزرو سا ۔ شروع شروع میں ہمارے ساتھ اس کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ زیادہ گھلنا ملنا اور بے تکلف ہونا پسند نہیں کرتا۔اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ ہم دونوں کو بھی حیرت ہوئی تھی کہ اس مزاج کا بندہ اتنا اچھا کیسے بول لیتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ وہ ہم سے کافی بے تکلف ہوتا گیا اور اب جیف ہم دونوں کا بہت اچھا دوست اور ساتھی ہے۔” ڈینیل نے معذرت خواہانہ لہجے میں جیف ابراہیم کے مزاج کی وضاحت کی۔
” میں نے ایسی تو کوئی بات نہیں کی تھی۔ شو ہوسٹ ہے تو ہو گا۔ چند لوگ اسے جانتے ہیں اور اس کا پروگرام دیکھتے اور پسند کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ مغرور ہی ہو جائے۔ اسکرین پر تو بڑا شائستہ اور مہذب لگتا ہے مگر حقیقت میں نہایت اکھڑ ہیں موصوف۔” اپنی بے عزتی پر اس کے گال دہک اٹھے اور پھر جب وہ شروع ہوئی تو سامعین کی پروا کیے بغیر بولتی چلی گئی۔ یہ سوچے بغیر کہ سامنے بیٹھے وہ دونوں لوگ اس شخص کے دوست ہیں جس کے بارے میں وہ اپنی ”نایاب” رائے بیان کر رہی ہے۔
”اس کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں۔ وہ بے شک تھوڑا ریزرو ہے مگر مغرور ہرگز نہیں ہے بلکہ دل کا بہت اچھا، مخلص اور کھرا بندہ ہے۔” اب کہ پیٹر نے اس بدتمیز انسان کی طرف داری کی تو وہ سر جھٹک کر کھانے میں مصروف ہو گئی یہ سوچ کر کہ وہ دونوں تو اس کے دوست ہیں اس کی طرف داری تو کریں گے ہی۔ نہ جانے اتنے مغرور اور بدلحاظ بندے کو اتنے مخلص دوست کیوں کر ملے۔
٭…٭…٭
دو کپ کافی کا آرڈر کرنے کے بعد وہ صوفے پر نیم دراز پیٹر کا انتظار کرنے لگا ۔وہ جانتا تھا پیٹر کھانے کے بعد سیدھا اسی کے روم میں آئے گا اسی لیے اس نے پہلے ہی کمرے میں کافی منگوا لی کیوں کہ ان دونوں کو ہی عادت تھی کھانے کے فوراً بعد کافی پینے کی۔ڈینیل ان دونوں کی اس عادت سے چڑتا اور اکثر جیف کو سناتا بھی تھا کہ جس نے پیٹر کو بھی یہ فضول عادت ڈال دی تھی۔ سردی ہو یا گرمی وہ دونوں ہی کھانے کے بعد کافی ضرور لیتے تھے۔ پیٹر اور ڈینیل کا خیال آتے ہی ایک جان دار مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی۔ ان دونوں کی دوستی پر اسے فخر تھا۔ اس کے مزاج کے تمام منفی پہلو جاننے کے باوجود وہ دونوں ہی بہت مخلص اور بے غرض دوست تھے۔ خاص طور پر ڈینیل۔اتنا جیف کو اپنا خیال نہیں تھا جتنا ڈینیل اس کا خیال رکھتا تھا۔ کبھی دوست اور بھائی بن کر اسے پر خلوص مشورے دیتا تو کبھی باپ بن کر اس کی بیپروائیوں پر اسے لمبا چوڑا لیکچر دیتااور کبھی ماں کی طرح اس کی صحت کے لیے پریشان ہوتا۔ اپنی سوچوں سے چونک کر وہ ڈور بیل کی طرف متوجہ ہوا جو نہ جانے کب سے بج رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
” کب سے بیل دے رہا ہوں کھولا کیوں نہیں۔”پیٹر اندر آتے ہوئے بولا۔ اس کے پیچھے ڈینیل اور ایک ویٹر بھی ٹرالی تھامے اندر داخل ہوا۔
”بس آنکھ لگ گئی تھی۔” ویٹر کو جانے کا اشارہ کرتے ہوئے ڈینیل صوفے پر بیٹھ گیا جب کہ پیٹر نے بستر سنبھال لیا۔ جیف بھی دوبارہ صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔
” کھانا چھوڑ کر کیوں آ گئے تھے؟” کافی بناتے ہوئے ڈینیل، جیف کی خبر لینے کے فل موڈ میں تھا۔
”کھا لیا تھا بس آرام کرنے کا موڈ تھا سو اٹھ آیا۔” جیف نے سنجیدگی سے بتایا۔
” کھا لیا تھا کے بچے۔مروت اور تہذیب بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کتنی بدتمیزی کر کے آئے ہو تم اس سے۔ کیا سوچتی ہو گی وہ تمہارے بارے میں۔” ڈینیل نے کافی کا کپ پکڑاتے ہوئے اسے بے نقط سنائیں۔
”تمہیں پتا تو ہے کہ مجھے یوں لڑکیوں کا بے تکلف ہونا پسند نہیں۔ فضول میں گلے پڑنے والوں کے ساتھ میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ اب چاہے وہ جو سمجھے، مجھے پروا نہیں۔ مجھے کون سا اس کے ساتھ کام کرنا ہے۔” جیف کی بے نیازی عروج پر تھی۔
” ہاں تمہیں کیوں پروا ہونے لگی۔ تمہارا کیا جاتا ہے۔ سوچ تو وہ ہمارے بارے میں رہی ہو گی کہ ہم جیسے شائستہ لوگوں کا اتنا بدتمیز دوست بھی ہو سکتا ہے۔” ڈینیل اسے معاف کرنے پر راضی نہیں تھا۔
”اپنی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے مت دینا۔” جیف نے اسے مزید تپایا۔
”ڈین ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تمہیں پروا ہونی چاہیے کیوں کہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ تمہارا ہی اس کے ساتھ واسطہ پڑنا ہے۔ تم بھول رہے ہو کہ تم ہی نے اسے گائیڈ بننے کی دعوت دی تھی۔ اس سے ہر جگہ کے متعلق معلومات لینا تمہارا کام ہے۔ وہی تمہارا سکرپٹ تیار کرنے میں تمہاری مدد کرے گی۔” پیٹر نے سنجیدگی سے اسے یاد دلایا کہ وہی مرم کو ساتھ لانے کا ذمہ دار ہے اور ساتھ ساتھ مرم کی اس پورے ٹور میں اہمیت بھی اسے جتا دی۔ کام کے معاملے میں پیٹر بہت اصول پرست تھا ۔
”مگر یار۔” پیٹر نے جیف کی بات کاٹی۔
”اگر مگر کچھ نہیں، وہ ہماری گائیڈ ہے اور اس کے ساتھ بدمزگی ہمارا پورا ٹور برباد کر سکتی ہے۔ جیف، اس لیے پلیز آیندہ احتیاط کرنا۔ ہم مہمان ہیں اس کے، مگر اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم جو کچھ کہیں گے وہ برداشت کر لے گی۔” پیٹر نے طریقے سے اسے آیندہ کے لیے محتاط کر دیا تھا۔
”ویسے اتنی بری کیوں لگی ہے وہ تمہیں؟ جب کہ میرا تو خیال ہے وہ بہت سود مند ثابت ہو سکتی ہے اس پورے ٹور میں… جس محبت سے وہ اپنے ملک کا ذکر کرتی ہے میں تو بڑا متاثر ہوا ہوں اس کی حب الوطنی دیکھ کر۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ملک سے عشق کرتے ہیں۔ جب وہ پرجوش انداز میں اپنے وطن کی خوبصورتی کا تذکرہ کرتی ہے تو عجیب سی خوشی ہوتی ہے اس کے چہرے پر جیسے وہ چاہتی ہو کہ ہم بھی ایسے ہی اس کے ملک سے عشق کرنے لگیں۔” ڈینیل کا مشاہدہ بلاشبہ غضب کا تھا۔
”بیٹا خیر ہے؟ کچھ زیادہ ہی پسند نہیں آگئیں تمہیں یہ محترمہ؟ لگتا ہے مجھے نینسی کو فون کر کے حالات سے آگاہ کرنا پڑے گا۔”جیف اب بھی غیرسنجیدہ تھا۔
”بکواس مت کرو، یہ آگ کسی اور کی زندگی میں جا کر لگانا۔ نینسی جانتی ہے کہ میں اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔” ڈینیل اپنی منگیتر کے خود پر اعتماد سے اچھی طرح واقف تھا۔ جیف مسکرا کر کافی ختم کرنے لگا۔ ڈینیل کا سوال آیا گیا ہو گیا تھا۔ پھر وہ تینوں کل کے تہوار کے حوالے سے بات چیت کرنے لگے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!