”اوہ آج پھر بارش، ایک تو یہاں کا غیر متوقع موسم بھی نا۔” داخلی دروازہ لاک کر کے جیسے ہی وہ مڑی سامنے کے دھندلے منظر کو دیکھ کر بیزاری سے بڑبڑائی۔ گو کہ بارش تھم چکی تھی مگر اس کے لیے دھند میں لپٹی اس صبح میں گیلی سڑک پر سائیکل چلانا خاصا دشوار ثابت ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ کوفت اور جھنجھلاہٹ کاباعث بھی۔ اس کے باس نے آج اسے کسی میٹنگ کی وجہ سے جلد پہنچنے کو کہا تھا مگر رات میں اس نے نکلولس سپارکس کے ناول ”میسج ان باٹل” کو مکمل کرنے کی قسم کھائی تھی اس لیے صبح اس کی آنکھ کافی دیر سے کھلی اور اب اس رپٹی سڑک کی وجہ سے سائیکل بھی آہستہ چلانی پڑ رہی تھی کہ وہ اسپتال جانے کا خطرہ کم از کم آج نہیں لے سکتی تھی۔ اس کا باس کافی سخت گیر اور اصول پسندآدمی تھا سو ڈانٹ یقینی تھی کیوں کہ وہ دفتری اوقات سے ڈیڑھ گھنٹا لیٹ پہنچی تھی۔ بالآخر پندرہ منٹ کے اس کٹھن سفر کے بعد اس نے پارکنگ میں اپنی ”شاہی سواری” کھڑی کی اور تیزی سے ”آئرلینڈ ٹریولز اینڈ ٹورز” کی عمارت کی جانب بڑھی۔
” گڈ مارننگ سر!” ہلکی سی دستک دے کر اس نے دروازہ کھولا۔ اس کا باس جو کہ چند لوگوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا، نے چونک کر پہلے اسے پھر ایک نظر گھڑی کو دیکھا۔
”غالباً میری گھڑی خراب ہے جو نو کے بجائے ساڑھے دس کا وقت بتا رہی ہے۔میں آج ہی اسے ٹھیک کرواتا ہوں۔” باس نے گہرا طنز کیا تو وہ سر جھکا کر صرف ”سوری” کہہ سکیکہ کمرے میں موجود تین اجنبیوں کے سامنے وہ اپنے ذہن میں آنے والے اوٹ پٹانگ بہانے نہیں بتا سکتی تھی۔
”خیر بیٹھو۔” اسے کلائنٹس کے سامنے جھاڑنے کا ارادہ موقوف کر کے باس نے خالی کرسی کی طرف اشارہ کیا، تو وہ سست روی سے چلتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔
” یہ مس مرم ڈیوڈ ہیں، ہماری سروس کوآرڈی نیٹر۔ یہی آپ کو مطلوبہ معلومات فراہم کریں گی اور آپ کی خواہش اور ضرورت کے مطابق آئرلینڈ کے تہواروں کی تفصیل سے آگاہ کریں گی۔” باس نے سامنے بیٹھے لوگوں سے اس کا تعارف کرایا۔
” اور مرم یہ مسٹر پیٹر گرانٹ ہیں، ان کی ٹیم یوکے کے ایک سیاحتی چینل کے لیے منفرد تہواروں کی دستا ویزی فلمیںبناتی ہے اور اس بار انہوں نے ہمارے ملک کا انتخاب کیا ہے۔میں چاہوں گا کہ آپ ان کی بھرپور مدد کریں تاکہ انہیں کہیں دشواری پیش نہ آئے۔ میں نے آپ کو کچھ لنکس میل کیے تھے آپ نے وہ دیکھے؟” اس نے باس کی میل دیکھی تھی جس میں انہوں نے ایک سیاحتی چینل پر نشر ہونے والے چند پروگراموں کا لنک بھیجا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ وہ انہیں دیکھ لے تاکہ اسے بہتر طور پر اندازہ ہو جائے کہ کلائنٹ کس نوعیت کے تہواروں کی دستاویزی فلمیں بناتا ہے،مگر اس وقت وہ ناول کے نقطہ عروج پر تھی سو لنک کھولنے کی زحمت نہیں کی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
” جی…جی سر۔” اس نے جھوٹ کا سہارا لیا اور ساتھ ساتھ اس ناول کے ہیرو، ہیروئین کو دل ہی دل میں کوسا۔
” اوکے مسٹر گرانٹ مس مرم آپ کو باقی معلومات فراہم کریں گی۔ سوری میں مزید آپ لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکوں گا۔مجھے دراصل ابھی ایک جگہ میٹنگ میں جانا ہے۔میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کا آئر لینڈ کا سفر یادگار رہے اور آپ کو بہت منفرد اور انوکھے تہوار فلم بند کرنے کا موقع ملے۔” باس نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے کہا اور ان تینوں سے ہاتھ ملاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
”جی تو مسٹر گرانٹ آپ ذرا مجھے تفصیل سے بتا سکتے ہیں کہ آپ کس نوعیت کے تہوار فلم بند کرتے ہیں؟” مرم نے پوچھا تو وہ اسے تفصیل بتانے لگا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”میں سانول ہوں۔ دریائے نیلم کنارے بسے ایک خوب صورت گاؤں کیرن کا باسی۔ وہ جگہ جس قدر حسین اور خوب صورت تھی وہاں کے لوگ میرے لیے اتنے ہی بدصورت اور تلخ تھے۔ چھے بہن بھائیوں میں، میں تیسرے نمبر پر ہوں، مگر خوب صورتی میں شاید چھٹے نمبر پر بھی نہیں آتا۔ اپنے پورے خاندان اور برادری میں، میں واحد ایسا ہوں جس کا رنگ پیدائشی سانولا ہے۔ میرے نقوش گو کہ روایتی کشمیری کی طرح بہت بھرے بھرے اور خوب صورت تھے، مگر میری سانولی رنگت کے نیچے دب گئے۔ جب میں پیدا ہوا، تو میری دادی نے مجھے حیرت سے دیکھتے ہوئے میری ماں نگار کو کہا تھا ”ہمارے پورے خاندان میں کبھی ایسے رنگ کا بچہ پیدا نہیں ہوا۔ ایسا کالا بچہ پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ مجھے تو کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔” ان کی بات سن کر میری ماں نے تڑپ کر پہلے اپنی ساس کو دیکھا پھر ایک جانچتی نظر سوتے ہوئے بچے پر ڈالی اور گہری سانس لے کر مجھے ایک کونے میں پڑے جھولے میں ڈال دیا۔میں پرسکون سا میٹھی نیند سوتا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ میری ماں کی ممتا بھی ہمیشہ کے لیے سو چکی ہے۔اس دن کے بعد سے کبھی ماں نے مجھ پر اپنی ممتا ضائع نہیں کی۔سارا سارا دن میں یا تو جھولے میں پڑا سوتا رہتا یا پھر بھوک لگنے پر روتا۔ ساس کے طعنے کے ڈر سے ماں نے اپنے کانوں کو میری کسی فریاد کے لیے بند کر لیا تھا۔ ترس کھا کر کوئی نا کوئی ملازمہ ہی مجھے کچھ نہ کچھ کھانے کو دے کر دوبارہ سلا دیتی۔
جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا اپنے لیے لوگوں کی آنکھوں میں حیرانی، سردمہری یا پھر تضحیک ہی دیکھی اور ان لوگوں میں میری ماں سر فہرست تھی۔جب بھی کوئی سسرالی رشتے دار گھر آتا تو ایک ہی مسئلہ زیر بحث ہوتا کہ آخر خوبصورت اور گورے چٹے لوگوں سے بھرے خاندان میں یہ ”سانولا” آیا کیسے؟ روز روز کی اس بحث کی وجہ سے میری ماں کو میرے وجود سے شدید چڑ ہونے لگی۔ اس کا بس چلتا تو وہ مجھے دریا میں ہی پھینک دیتی اگراس کے شوہر کو اس ”سانولے” سے شدید محبت نہ ہوتی۔
میرا باپ محمد خان ایک پڑھا لکھا با شعور انسان تھا۔اس کا لکڑی کا کاروبار تھا اور ہر طرح سے خوش حال اور آسودہ تھا۔ میری پیدائش پر جب اس نے ماں سمیت لوگوں کے رویے دیکھے تو دکھ اور افسوس کے ساتھ ساتھ اسے شدید تشویش بھی ہوئی۔ اپنی ماں بہنوں اور بیوی کو وہ ہر ممکن طریقے سے سمجھاتا کہ سانولی رنگت ہونا کوئی عیب نہیں اور یہ کہ اللہ کے بنائے ہوئے میں کیڑے نکالنا گناہ ہے،مگر ان بے عقل عورتوں نے نہ سمجھنا تھا اور نہ ہی سمجھیں۔الٹا ان کے رویوں کو دیکھ کر ان کے بچے بھی میرا مذاق اڑانے لگے۔ انہی سب باتوں کے باعث محمد خان لاشعوری طور پر مجھے اپنے باقی بچوں کی نسبت زیادہ چاہنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
بہت دیر سے وہ اس لڑکی کو پیٹر سے بحث کرتا سن رہا تھا۔ جیف کو پیٹر کے ضبط پر حیرت ہو رہی تھی ورنہ وہ اسے غصے کا کافی تیز سمجھتا تھا۔ وہ دونوں آج ایک بار پھرآئر لینڈ ٹریولز کے دفتر میں موجود تھے جہاں وہ اپنے سفر کو حتمی شکل دینے آئے تھے۔ مرم ڈیوڈ نامی اس لڑکی نے ان کی خواہش اور دل چسپی کے مطابق ان کا یہاں کا سفر مرتب کر کے جب انہیں تفصیل سے آگاہ کیا تو دونوں نے کافی حیرت سے اسے دیکھا تھا۔وہ بڑے پر اعتماد انداز میں انہیں بتا رہی تھی کہ یہاں کے تہواروں کو فلم بند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم کو یہاں کی پرکشش اور خوبصورت جگہوں کو بھی اپنے ناظرین تک پہچانا چاہیے۔صرف تہواروں کو ترجیح دینا اس ملک کے حسن کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے پیٹر اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان کی ٹیم کے اپنے کچھ اصول ہیں اور وہ ہمیشہ سے صرف منفرد تہواروں کو فلم بند کرتے آئے ہیں اور آئر لینڈ میں بھی یہی کرنے آئے ہیں۔ جب کہ وہ لڑکی اسے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اب وہ یہاں آ ہی گئے ہیں تو بھرپور طریقے سے یہاں کے سفر سے لطف اندوز ہوں۔
” پیٹر پلیز میں بات کروں۔” پیٹر کے چہرے پر برہمی کے تاثرات دیکھتے ہوئے جیف نے اس سے کہا، تو وہ کندھے اچکا کر رہ گیا۔
” دیکھیے مس ڈیوڈ ہم یہاں اپنی چھٹیاں منانے نہیں آئے بلکہ کام کرنے آئے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ یہ ملک بہت خوب صورت ہو گا، مگر ہمیں صرف یہاں کے منفرد تہواروں ہی سے دل چسپی ہے۔ سو پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔” جیف نے بہت طریقے سے اسے سمجھانا چاہا۔
”کام کے ساتھ ساتھ اگر آپ تھوڑی تفریح بھی کر لیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں نے آپ لوگوں کا سفر اس طریقے سے ترتیب دیا ہے کہ کم سے کم وقت اور پیسوں میں بہت آسانی سے ہر کام ہو جائے گا۔ رہنے اور ٹرانسپورٹ کی ساری سہولیات ہماری کمپنی فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر جگہ کے لیے الگ الگ سیاحتی راہنمامہیا کرنا بھی ہماری ذمے داری ہو گا۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ سات مہینے کے اس سفر کے اختتام پر آپ خود مجھ سے کہیں گے کہ یہ ایک یادگار اور شان دار سفر تھا۔” مرم نے پر اعتماد لہجے میں پیشہ ورانہ مسکراہٹ سمیت کہا، تو پیٹر نے جیف کو ایک جتاتی نظر سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو۔ ” میں جانتا تھایہ لڑکی کھسکی ہوئی اور سنکی ہے۔”
”آپ کی یہ ساری باتیں صحیح ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے مس کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی جائیں صرف ایک ہی ایسے سیاحتی راہنما کو لے کر جائیں جو ہمیں ہماری مطلوبہ تمام تفصیلات سے آگاہ کرے۔ مختلف جگہوں پر مختلف سیاحتی راہنماؤں سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔” وہ چند پل کے لیے رکا اور پھر کچھ سوچ کر گویا ہوا۔
” یقینا آپ کو اپنے ملک سے بہت محبت ہے اور آپ یہاں کے تہواروں کے بارے میں بھی بہت سی تفصیلات جانتی ہوں گی، تو آپ راہنما کے طور پر کیوں نہیں آجاتیں ہمارے ساتھ اس سفر میں۔” اس کی بات پر پیٹر نے اسے چونک کر جب کہ سامنے بیٹھی لڑکی نے حیرت سے دیکھا۔
” یہ میرا کام نہیں۔ میں یہاں…” وہ ابھی اتنا ہی بول پائی تھی کہ جیف نے اس کی بات کاٹی۔
” آپ کی بات کاٹنے کی معذرت چاہتا ہوں۔ جیسے سیاح کو گائیڈ بن کر راہنمائی فراہم کرنا آپ کا کام نہیں بالکل اسی طرح تہواروں کے علاوہ کسی دوسری چیز کی دستاویزی فلم بنانا ہمارا کام نہیں۔ تو آپ اپنا کام چھوڑ کر ہماری راہنما بن جائیں۔ ہم بھی آپ کے ملک کے تہواروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدرتی حسن کو فلم بند کر لیں گے۔” جیف نے بڑی سنجیدگی سے اسے آفر کی۔ اب کی بار پیٹر کھل کر مسکرایا اور کن انکھیوں سے مرم کو دیکھنے لگا۔ ان دونوں کو یقین تھا کہ اب وہ اپنی بات کی ضد سے پیچھے ہٹ جائے گی،مگر آئر لینڈ کی کالن(لیڈی) مرم سے ابھی وہ واقف نہیں تھے۔
” ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔” کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے پرسکون لہجے میں جواب دیا، تو پیٹر نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔اسے مرم کے اقرار کی امید نہیں تھی۔جب کہ جیف ابراہیم کا چہرہ بے تاثر ہی رہا۔
” اچھی بات ہے۔ آپ اپنے باس سے سارے معاملات طے کر لیجیے۔ ٹھیک تین دن بعد ہم اپنا سفر شروع کریں گے۔” پیٹر کو چلنے کا اشارہ کرتے وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا اور پھر دونوں اسے گڈبائے کہتے باہر نکل گئے۔
ان کے جانے کے بعد مرم سوچ رہی تھی کہ یہ جیف ابراہیم واقعی لفظوں کا کھلاڑی ہے۔ کیسے آسانی سے مجھے اپنے ہی کہے الفاظ میں پھنسا کر مجھے اپنا راہنما بنا لیا اور انہیں جو لگ رہا تھا کہ میں انکار کر دوں گی تو وہ مجھے ابھی جانتے نہیں۔ خیر مزہ آئے گا سفر پر،بس موری مان جائیں۔
پھر وہ ان لوگوں کی کئی بار دیکھی گئی ویڈیوز دوبارہ دیکھنے لگی تھی۔
٭…٭…٭
”تو وہ لڑکی ہماری گائیڈ ہو گی۔” پچھلے پون گھنٹے میں ڈینیل نے یہ جملہ پندرہ مرتبہ دہرایا تھا۔ طبیعت خرابی کے باعث وہ ان کے ہمراہ نہیں جا سکا اور اب ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے اس نے کوئی چھے مرتبہ ان تینوں کے مابین ہوئی گفتگو سنی تھی، مگر حیرت تھی کہ کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔کوئی لڑکی ایسے کیسے کسی سیاح پر اپنی مرضی مسلط کر سکتی تھی؟ اور یہی نہیں سیاح کے ایک دفع کہہ دینے سے اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر سات مہینے کے سفر پر بھلا کیسے نکل سکتی تھی؟
”میں تو آج تک اسپین کے لوگوں کو عجیب ترین سمجھتا تھا، مگر مرم نامی اس لڑکی نے مجھے اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تم دونوں کی باتیں سن کر مجھے تو کافی دل چسپ معلوم ہو رہی ہیں محترمہ۔” بالآخر اپنی حیرت پر قابو پا کر ڈینیل نے اپنی رائے دی۔
”پیٹر آئی ایم سوری یار، سفر ترتیب دینا یا گائیڈ وغیرہ کا بندوبست کرنا میرا کام نہیں ہے، مگر یقین مانو اگر مجھے ایک فیصد بھی یہ گمان ہوتا کہ وہ حامی بھر لے گی تو میں ایسی کوئی بات نہ کرتا۔” جیف ابراہیم پیٹر کے سامنے شرمندگی محسوس کر رہا تھا کہ اس نے پیٹر کے معاملات میں دخل اندازی کی ۔
”نہیں یار تمہارا کیا قصور، ہم اچھے دوست ہیں اور دوستی میں سب چلتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس لڑکی نے مجھے بھی حیران کیا ہے۔ کافی جذباتی اور بغیر سوچے سمجھے فیصلہ کرنے والی معلوم ہو رہی ہے۔”
” نہیں یار پھر بھی، اب ہمیں فضول میں پتا نہیں کہاں کہاں خوار کرے گی وہ۔ تم ایک کام کرو مسٹر گراہم سے بات کر کے کسی اور ٹریولنگ ایجنسی سے رابطہ کر لو۔ ان لوگوں سے ہم معذرت کر لیں گے۔” جیف نے سنجیدگی سے پیٹر کو مشورہ دیا اپنے شو کے ایگزیکٹو پروڈیوسر سے بات کرنے کا۔
”نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ ایک طرح سے اس کی بات ٹھیک بھی ہے۔ ویڈیوز بنانے ہم بہت سی جگہوں پر گئے اور اسے کام کا حصہ سمجھ کر ہم کسی بھی جگہ پر کھل کر تفریح نہ کر سکے۔ اس بار اگر کام کے ساتھ ساتھ تھوڑی تفریح بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ویسے بھی میں اب دیکھنا چاہتا ہوں کہ ایسا یہاں کیا ہے جو وہ لڑکی ہمیں دکھانا چاہتی ہے۔
” ٹھیک ہے جو تمہیں بہتر لگے۔”جیف ابراہیم نے بے نیازی سے کندھے اُچکا دیے۔
٭…٭…٭
”موری پلیز مان جائیں نا۔ میں کہہ رہی ہوں نا اپنا بہت خیال رکھوں گی۔” اسکائپ پر دادا، دادی سے بات کرتے ہوئے وہ انہیں منانے کی کوشش کر رہی تھی۔ دادا تو نیم رضامند تھے، مگر موری کو نہ جانے کون کون سی فکر ستا رہی تھی۔
” ایسے کیسے جانے دوں تمہیں بیٹا۔ پتا نہیں کون لوگ ہیں؟ اور پھرغیر ملکی سیاح ہیں۔ کس طرح کے لوگ ہوں کون جانے، نہیں بالکل نہیں۔ تمہیں اسی وقت انکار کر دینا چاہیے تھا۔” موری نے قطعیت سے کہا ۔ماں چاہے جس بھی ملک اور کلچر کی ہو وہ اپنی اولاد کے لیے ایک سی ہی سوچ اور فکر رکھتی ہے۔
” موری پہلی بات تو یہ کہ وہ میڈیا کے لوگ ہیں ۔ان کا پروگرام کافی مشہور ہے یوکے میں اور دوسری بات یہ کہ وہ میرے ملک میں آئے ہیں، میں ان کے ملک نہیں ۔اس لیے میں انہیں غائب کروا سکتی ہوں وہ نہیں۔” مرم نے جھنجھلا کر کہا۔
”فضول باتیں مت کرو ۔تمہارا کام گائیڈ بننا تو نہیں ہے۔ غضب خدا کا کسی انجان بندے نے تمہیں چلنے کو کہا اور تم بنا کچھ سوچے چل پڑیں۔”موری کو رہ رہ کر اس کی بے وقوفی پر تاؤ آ رہا تھا۔
” دراصل موری میرا اس انجان بندے پر دل آ گیا ہے۔ بڑا زبردست بندہ ہے۔ہینڈسم اور درازقداور کیا غضب کا بولتا ہے وہ۔آپ اسے سنیں تو بس اس کی آواز کے سحر میں کھو جائیں۔ بس یہ سمجھ لیں آپ کی پوتی دیوانی ہو گئی ہے اس کے عشق میں۔اسی لیے اس کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔” اپنا اور موری دونوں کا غصہ کم کرنے کی غرض سے اس نے بے تکی ہانکی۔
”بکو مت۔” موری نے ہنستے ہوئے اسے گُھرکا۔ وہ اپنی اس سر پھری پوتی کو اچھی طرح جانتی تھیں جو پر اعتماد، شوخ، چنچل اور زندہ دل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت چوزی بھی تھی۔ ایسے ایک ہی ملاقات میں کسی کو دل دینا اس کی سرشت میں تھا ہی نہیں۔
”ددا آپ ہی سمجھائیں نا موری کو۔” کب سے خاموش بیٹھے دادا کو مخاطب کیا گیا۔
”دیکھو مرم بیٹا مجھے سنجیدگی سے بتاؤ کہ تم کیوں جانا چاہتی ہو؟ اس نے دعوت دی اور تم نے مان لی یہ بے تکا بہانہ میں نے سن لیا ہے اب اصل بات بتا۔” دادا نے پر سوچ انداز میں پوچھا۔
”دراصل ددا میں نے ان کی ٹیم کی بنائی ہوئی ویڈیوز دیکھیں ہیں۔ بہت زبردست ہیں وہ سب۔ جو شو ہوسٹ ہے ان کی ٹیم میں وہ بہت اچھا بولتا ہے۔ اپنی بارعب، گمبھیر اور پرکشش آواز میں جب وہ کسی بھی جگہ کے متعلق بولتا ہے تو اس ان دیکھی جگہ سے خود بہ خود عشق ہو جاتا ہے۔ ددا میں چاہتی ہوں کہ جیسے وہ دوسرے ملکوں کی جگہوں اور تہواروں کی تعریف کرتا ہے ایسے ہی میرے ملک کی بھی کرے تاکہ جیسا عشق مجھے، موری اور آپ کو اس ملک سے ہے ویسا ہی ہر دیکھنے والے کو ہو جائے۔ مجھے اس غیرملکی سیاح میں بس اتنی سی دل چسپی ہے۔ آپ پلیز کچھ اور مت سمجھیں اور وہ اس کام کے لیے اسی شرط پر راضی ہوگا کہ میں بطور راہنما ان کے ساتھ جاؤں۔ موری آپ نے ہی تو مجھے اپنے وطن سے محبت کرنا سکھایا ہے۔ اب مجھے موقع مل رہا ہے کہ میں اس کی خوب صورتی اور دل کش مناظر کو تصویروں کے بہ جائے جیتی جاگتی آنکھوں سے دکھوں تو پلیز مجھے مت روکیں۔ ٹیبلٹ کی اسکرین کو دیکھتے ہوئے وہ بہت مدھم لہجے میں گویا تھی۔ اس کی سنجیدگی دوسری جانب بیٹھے ددا اور موری کو چونکا گئی تھی۔ کچھ توعجیب تھا جو انہیں کھٹک رہا تھا۔ کیا؟ یہ وہ سمجھ نہ پائے۔
” ٹھیک ہے بیٹا۔ تم جانا چاہتی ہو تو ضرور جاؤ۔ ہم تمہیں نہیں روکیں گے ۔ ہمیں تم پر مکمل اعتماد ہے۔ جن اقدار پر ہم نے تمہاری پرورش کی ہے انہیں کبھی بھی فراموش نہ کرنا۔” بالآخر موری نے کہا، تو مرم نے ددا کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ان کے تائید میں سر ہلانے پر وہ مسکرا دی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});