معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

”مبارک ہو شہزاد۔ ہنی کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں۔”
”اللہ کا شکر ہے ہمارا داماد ہزاروں میں ایک ہے۔” ان کی بات سن کر پروفیسر شہزاد نے سکھ کی لمبی سانس لی۔” کل شام میں نے اُسے بلایا ہے اور وہ رشتے کے حوالے سے ہی آئے گا۔ ہوسکتا ہے اس سے بات چیت کے بعد ہی اسی ہفتے نکاح کی تاریخ مقرر کردوں۔”
”نکاح کی جلدی کیا ہے۔ منگنی کرلیتے ہیں جب تک۔” نورین نے صلاح دی۔
”منگنی؟” پروفیسر شہزاد اندر سے کانپ گئے۔ ”منگنی ٹوٹنے کے لئے ہوتی ہے نورین… میری منگنی ٹوٹی تھی تو میں بھی اندر سے کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ اس لفظ کا ذکر نہ کرنا۔ یہ بہت خوفناک ہے۔ انہیں کچھ یاد آگیا تھا وہ دھپ سے کرسی پہ گر گئے۔ ”ارے کیا ہوا… وہ پانی کا گلاس لئے دوڑیں ۔
”نہیں نہیں…آپ نکاح کریں۔ میں نے تو یونہی کہہ دیا تھا تاکہ ہمارے گھر میں آئے دن کوئی نہ کوئی اہتمام ہوتا رہے۔”
”اس کی تیاری تو ہے نا؟” انہوں نے پروفیسر سے پوچھا تو وہ بولے۔
”وہ تو برسوں سے تیاری کئے بیٹھا ہے۔” پروفیسر کی بات نورین نہیں سمجھ سکیں۔ وہ سمجھتی بھی کیسے۔ انہیں تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔
دوسری شام ان کے گھر میں جگمگانے لگی۔ آج ڈاکٹر خلیل سلمان نے ہلکے نسواری کلر کی قمیص اور آف وائٹ شلوار زیب تن کر رکھا تھا۔ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے دیوار پر آوایزاں پینٹنگ میں دلچسپی لے رہے تھے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ نورین نے ہنی کو شربت کا گلاس لے جانے کے لئے کہا۔ وہ لائٹ پنک جدید تراش خراش کی قمیض اور ٹراؤزر میں ملبوس بہت دلکش لگ رہی تھی۔ اس کی نگاہوں میں سوخی اور لبوں پر حسبِ سابق تبسم کھیلرہی تھی۔ اس نے ٹرے لے جاکر خلیل کے سامنے کردیا۔ اور آداب کے لئے سر کو ہلکا سا خم کیا۔ خلیل کے چہرے پر سنجیدگی کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی اس نے آداب کا جواب آنکھیں جھکا کر دیں۔ شربت تھما کر اس نے ٹرے وہیں دکھی اور واپس پلٹنے لگی۔
” ہنی…” اس نے یہ پیار بھری آواز، بالکل منفرد اور جداگانہ انداز پہلی بار سنی۔ وہ پلٹی … اُس نے اُسے غور سے دیکھا جیسے خود کو یقین دلانا چاہ رہی ہو کہ اُسے آواز دینے والاو یہی شخص ہے… اُس کے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔ اس کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح کچھ بول رہی تھیں۔ وہ … وہاں رکنا چاہ رہی تھی کیونکہ اس ”پکار” نے ہنی کے قدم تھام لئے تھے۔ وہ اپنے محبت کی طاقت پر ایمان رکھنے والے والدین کی محبت بھری دنیا میں رہتی تھی۔ اُسے لاکھوں بار پکارا گیا تھا… مگر اُس آواز میں جو ”پیار” بھرا تھا۔ وہ صرف ایک عاشق کی آواز ہی ہوسکتی ہے۔ جو دل سے آتی ہے۔ دل کے نہاں خانوں سے۔ وہ ان کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ یہ مسکراہٹوں کا تبادلہ آج مختلف انداز کا تھا۔ جو زندگی میں سر بکھیر دیتا ہے۔ جس سے نیا ولولہ نئی فرحت انگیزی جنم لیتی ہے۔ اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے جامِ الفت اس کے اندر اُنڈیل دیا ہو۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نورین نے کمرے میں جیسے ہی قدم رکھا وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ادب سے سلام کرتے ہوئے سرجھکایا۔ نورین نے اپنا شفقت بھر ا ہاتھ اس کے سر پہ رکھ کر اُسے خوش رہنے کی دعا دی۔
وہ بولا۔ ”شاید میں آپ لوگوں کے آرام میں مخل ہوا؟”
”نہیں بیٹے… تمہارا اپنا گھر ہے۔ نورین نے شفقت بھرے انداز میں کہا تو اس نے جواب دیا۔ ”آپ کی ذرہ نوازی ہے۔”
اسی اثناء میں پروفیسر شہزاد اندر داخل ہوئے۔ آج پروفیسر شہزاد نے اسے گلے لگایا۔ اسے دیر تک اپنے سینے سے لگائے رکھا اور اس کی پیٹھ تھپکتے رہے۔ ان کی آنکھیں مریم کے بیٹے سے معانقہ کرتے ہوئے بھیگ گئیں۔
پروفیسر نے اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے نورین سے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کی… چند لمحے توقف کے بعد پروفیسر نے شہزاد سے کہا۔
”اپنی آنٹی سے کچھ کہا ہے تو کہہ سکتے ہو۔”
اس نے باادب انداز میں جواب دیا۔ ”ساری باتیں آپ کے گوش گزار کرچکا ہوں۔ آپ کے فیصلے کا منتظر ہوں۔ آپ کی ہر بات ہر شرط مجھے منظور ہے۔”
نورین نے کہا۔ ”سامنے ٹی وی لاؤنج میں ہنی موجود ہے… آؤ میں تمہیں راستہ بتاؤں۔ کوئی بات کہنی ہو تو اُسے کہہ سکتے ہو۔”
نورین ہاتھ میں ریموٹ تھامے مختلف چینل بدل رہی تھی۔ نورین واپس آگئیں اور وہ ٹی وی اور ہنی کے درمیان حائل ہوکر کھڑا رہ گیا۔ ہنی نے نظریں اٹھائیں۔ خلیل نے نگاہیں جھکائیں۔ کوئی صدا نہیں آئی مگر لگا جیسے دل نے دل کو پکارا ہو۔
چند لمحے بعد ہنی نے خاموشی توڑی۔
”تشریف رکھیئے۔”
جواباً دنیا مسکرانے لگی۔
”آنٹی نے کہا ہے کہ آپ سے کچھ پوچھنا ہے تو پوچھ لوں۔”
وہ شوخی سے بولی۔ ”پوچھئے۔”
”آپ ہمارے رشتے سے خوش ہیںنا۔”
وہ پھر بولی۔ ”آپ نے یہ فیصلہ اکیلے اکیلے ہی کرلیا ۔” اس کے لہجے میں شوخی تھی۔
اس نے کہا۔ ”میں کسی گستاخی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ آپ کے تاحیات ساتھ کی آرزو، میری دیرینہ خواہش ہے۔” اس نے یہ بات اپنی نگاہ جھکا کر کہی مگر جواب کے لئے اس کی جانب تکتا رہا۔
ہنی کی پلکیں بار بار اُٹھتی اور جھکتی رہیں۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔ ” کاغذ قلم لائے ہیں آپ؟”
”کیوں۔” اس نے پوچھا۔
”لکھ کر دے دوں۔” وہ بے ساختہ ہنس پڑا اور کہا۔ میں قاضی نہیں دولہا ہوں۔ لکھنے والے لوگ بعد میں آئیں گے۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ ہنی کی جانب بڑھایا۔ ہنی پہلے اسے پھر اس کی مضبوط ہتھیلی کو دیر تک تکتی رہی پھر اپنا سیدھا نرم و نازک ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ جسے اس کے مضبوط ہاتھوں نے تھام لیا۔ پھر وہ واپس پلٹا۔ ہنی کاجی چاہا وہ اس کا ہاتھ تھامے وہیں کھڑا رہے اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہے۔ وہ اٹھی اور دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں جاکر بستر پر گرسی گئی۔ خوشی و انبساط کی ایک جھڑی سی اس کے اندر کہیں پھوٹنے لگی۔ اور پورے وجود میں پھیل گئی۔ وہ جب ڈرائنگ روم میں واپس آیا تو اس کے چہرے کے سفید رنگت پر گلاب بکھرے ہوئے پروفیسر اور نورین دونوں نے دیکھا۔
وہ خاموش بیٹھا رہا۔
پروفیسر شہزاد نے ماحول کے سکوت کو توڑتے ہوئے کہا۔ ”میں اس ہفتے تمہارے نکاح کی سادہ سی تقریب رکھنا چاہتا ہوں۔ تمہاری والدہ ہوتیں تو یقینا یہ عقدکی تقریب بہت دھوم دھام سے منعقد ہوتی۔”
”سر! آج ممی کی روح خوش ہوجائے گی۔” اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ ”میں ہنی کو ساتھ ہی لندن لے جاوؑں گا۔ تاکہ اس کی مزید ایجوکیشن ہوسکے۔ میرے پاس اپارٹمنٹ ہے۔ وہاں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ بلکہ آپ اور آنٹی چاہیں تو ہمارے ساتھ چلیں۔”
”لو میاں… تم تو اپنی پوری تیاری کئے بیٹھے ہو۔” نورین نے کہا۔
”میں پچھلے برس بھی اس مقصد سے آیا تھا۔ مگر میری ہمت نہیں تھی۔ کچھ کہنے کی یا اس موضوع پر بات کرنے کی۔ اس بار ہنی کا فائنل ائیر تھا مجھے خدشہ تھا کہ کہیں اور رشتہ نہ طے ہوجائے۔” اس نے شرما شرما کر اپنی بات مکمل کی۔
تو شہزاد اور نورین دونو ں ہی ہنس پڑے۔ ”ٹھیک ہے اسی جمعے کی شام تمہارا عقد ہے۔ تم اپنے دوست احباب کو بھی مدعو کرلیا۔ نکاح کے بعد اپنے اور ہنی کے ڈاکومنٹس تیار کرلینا۔ لندن جاتے وقت میں ہنی کو رخصت کردوں گا۔ تم اپنی دلہن لے جانا۔”
”آپ نے میری مرحومہ والدہ کی خواہش کی لاج رکھی ہے۔ میں آپ کا تاحیات احسان مند رہوں گا۔” خلیل نے کہا۔
”کیا یہ مریم کی آرزو تھی۔” نورین نے پوچھا۔
”جی… میری بھی…” اس نے مختصراً کہا۔
”میں کہتی تھی نا آپ سے مریم بہت اچھی ہے۔” نورین نے اپنے شوہر کے کان میں سرگوشی کی۔
”وہ میری قسمت میں نہیں تھی، مگر میں بیٹی اس کے بیٹے کے نصیب میں ہے۔” دیکھو… اس نے اپنی بے وفائی کا ازالہ کسی چاہت سے کیا ہے۔ میرا سر اب اس کے آگے ہمیشہ جھکا ہی رہے گا۔”
”مجھے نہیں معلوم… ممی نے آپ لوگوں سے کیا زیادتی کی تھی۔ مگر آپ لوگ اب انہیں معاف کردیجئے گا۔ میں ہنی کو بہت خوش رکھوں گا۔ اپنی زندگی کا سارا سفر میں نے ہنی کے لئے ہی طے کیا ہے۔ وہ ہمیشہ محبت کے معطر فضاؤں میں سانس لے گی۔ جو بقول میری ممی کے وہ نہیں لے سکیں۔”
مریم کے تذکرے پر اس بار پروفیسر شہزاد ازل کے ساتھ ان کی شریک حیات کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ ورنہ اب تک پروفیسر شہزاد نے مریم کا دکھ اپنے تک ہی محدود رکھا تھا۔واقعی محبتوں کے دکھ سکھ دونوں سانجھے ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
پروفیسر شہزاد نے رات کو طاہرہ سے اسکائپ پر بات کی اور اُسے سمجھاتے رہے۔ ” ہنی کے نصیب میں خلیل لکھا ہے طاہرہ تم میری بات سمجھو۔ میں نے ان کے عقد کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہنی بھی راضی ہے اور خلیل نے تو خود ہی پروپوزل دیا ہے۔ اب تم مہران کو لے کر آنے کی تیاری کرو اور جاوید کو وہیں رہنے دو۔”
”مگر بھیا… مجھے کچھ ٹائم تو دیں۔”
اگر مگر کچھ نہیں… ویسے بھی ہنی کا لندن میں ایڈمیشن کا سلسلہ چل رہا ہے۔ اور خلیل کو بھی واپس جانا ہے۔ وہ تمہیں بھی یاد کررہا تھا آکر مل لینا اُس سے۔ تمہارا دل خوش ہوجائے گا۔”
پروفیسر نے بہن کو سمجھایا۔
”اچھا بھیا۔ جیسا آپ کہیں۔ مگر ہنی کی شادی دھوم دھام سے ہوگی۔ میرے اکلوتے بھائی کی اکلوتی بہن ہے۔”
”تم آکر کرلینا دھوم دھڑکا۔”
٭…٭…٭
اُس رات شہزاد ولا جگمگا رہا تھا۔ جیسے زمین پر ستارے اتر آئے ہوں۔ حسین و جمیل افراد نہایت سج دھج اور شان و شوکت کے ساتھ گھر کی اور تقریب کی رونق میں اضافہ کررہے تھے۔ سارے مہمان پروفیسر شہزاد کے قریبی دوست تھے۔نکاح کے بعد ڈنر کا بھی شاندار اہتمام تھا۔ رات گئے مہمانوں کے جانے کے بعد سب تھک کر وہیں سو رہے۔ خلیل اور ہنی وہیں باتوں میں مشغول ہوگئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ان کے لئے بالائی منزل پر پھولوں سے مہکتا کمرہ موجود تھا۔ مگر وہ دونوں تاروں کی چھاؤں میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔
” ہنی … مجھے بچپن میں ہی ممی نے تمہارا نام یاد کرادیا تھا۔ مجھے یہ مختصر مگر میٹھا میٹھا سا نام بہت پسند آیا تھا۔ وہ کہتی تھیں ہنی تمہاری دلہن ہے۔ پھر یہ نام میرے دماغ میں چسپاں ہو کر رہ گیا۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا ممی نے میری تعلیم و تربیت پہ خوب توجہ دی اور تمہارے پپا کو رول ماڈل بناکر میرے سامنے رکھا۔ میں ممی کی امیدوں پر پورا ترا لیکن ہوش سنبھالتے ہی مجھے ہنی کو دیکھنے کا بہت شوق رہا۔ ممی نے مجھے روکے رکھا کہ کبھی کوئی غلط حرکت یا غلط بات نہ کرنا۔ میں بڑا ہوگیا تو تمہارے کالج بھی جایا کرتا۔ بس میری زندگی یہی تھی۔ پروفیسر شہزاد ازل ان کی بیٹی ہنی ازل اور اپنی اسٹڈیز۔ ممی کہتی تمہیں کچھ بننا ہے تبھی ہنی تمہیں مل سکے گی۔ جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو میری خوشی کا کوئی تھکانا نہ رہا۔ تم بے حد حسین جمیل اور نازک اندام تھیں۔”
وہ بات کاٹ کر بولی۔ ”آپ نے کبھی مجھ سے ملنے یا بات کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟”
”ممی کی اجازت نہیں تھی۔”
”آپ نے نوجوانی کے بہت خوب صورت جذبوں کے تبادلے سے مجھے محروم رکھا۔” ہنی نے شکوہ کیا۔
”لو اب کون سا ہم بوڑھے ہوگئے ہیں۔” خلیل نے کہا۔
”مگر وہ دور تو گزر گیا نا جس میں چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو ہوتی ہے۔ کسی کی تلاش اور ملنے کی جستجو ہوتی ہے۔”
”میں تو اس سارے کرب سے گزرا ہوں نا… اور دیکھو تمہاری خاطر کتنی بلند پرواز کی ہے… یہ بھی تو سوچو۔” خلیل نے کہا۔
”اور میں بالکل لاعلم رہی۔ قطعی بے خبر۔”
”تمہاری خاطر میں نے کالج میں لیکچر دینے شروع کئے۔ تم تک پہنچا بھی مگر رسائی حاصل نہ ہوسکی۔ میرا دل تنہا ہی دھڑکتا رہا۔”
”ہاں… مجھے لڑکیاں کہتی تھیں… دیکھو دیکھو وہ تمہیں ہی دیکھ رہے ہیں۔” ہنی نے بتایا۔
”ہاں… واقعی میں تمہیں ہی دیکھ رہا ہوتا تھا۔ ممی نے مجھے بہت مضبوط بنادیا تھا۔ اسی وجہ سے میں تم سے کچھ کہہ نہیں سکا۔”
”میں آپ کی ممی کی پسند ہوں…؟” اس نے پوچھا۔
”ممی کی بھی اور میری بھی…”
”آپ مجھے پہلے کیوںنہیںملے؟” ہنی نے کہا۔
”پہلے ہی مل کر سب کچھ کہہ دیتے… کتنا مزہ آتا نا… اس نے خواب آگیں انداز میں کہا۔
”ہاں… مزہ تو آتا… مگر اتنا مزہ نہیں آتا جتنا کہ اب آئے گا۔”
”کیوں؟” ہنی نے پوچھا۔
”اس لئے کہ اب تم میری ہوچکی ہو… صرف میری۔ میرے پاس تمہیں چھونے کا یعنی اپنے خواب کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کا اجازت نامہ ہے۔ میرے ساتھ تمہارے والدین کی دعائیں ہیں۔”
یہ کہہ کر اس نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اُسے اور قریب کرلیا اور اس کے رخسار پر اپنے جذبوں کی سرخی بکھیر دی۔ سانسوں کے جل ترنگ بج اٹھے۔ محبتوں کے نغمے بکھرنے لگے۔ دھڑکنوں نے ایک دوسرے میں مدغم ہونے کا آغاز کردیا۔
شہزاد نے خلیل کی صورت اختیار کرلی… اور نورین، ہنی کی شکل میں سامنے آئی۔ پھر ایک اور داستانِ محبت نے جنم لیا۔ زمین پر نور بکھرنے لگا۔
وہ نور
جس کی ٹھنڈک
قلب ِ مزیں کو
طماسیت عطا کرتی ہے
جو راحت ِ جاں ہوتی ہے
جس سے زندگی نمو پاتی ہے
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!