معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

”جی ممی… سر خلیل، ہر سال نیو ڈاکٹرز کو لیکچر دینے لندن سے آتے ہیں۔”
”ارے واہ! یہ توبہت اچھی بات بتائی تم نے۔” پروفیسر شہزاد نے اپنی بیوی کو بہت خوش دیکھا۔
نورین نے ہنی کو وہیں بیٹھنے کا کہا۔
ہنی بولی۔ ”سر آپ سیکنڈ لیکچر دینے کب آئیں گے؟”
”لو… یہ تو تمہارے گھر آگئے ہیں۔ یہیں سن لو لیکچر…” نورین نے خلیل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو خلیل اور پروفیسر شہزاد نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔
”بھئی تم سب ایک دوسرے سے واقف ہو سوائے میرے۔” نورین نے مصنوعی ناراضی کا اظہار کیا۔
”آنٹی اب میں آپ ہی سے ملنے آجایا کروں گا۔ سر تو بہت بزی رہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے تو ٹائم میلا ہے آج۔” اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں… کیوں نہیں۔ میرے پاس بہت ٹائم ہے تمہارے لئے… ویسے کب تک ہویہاں۔” جی تو چاہا کہ بہت سارے سوالات کرے مگر فی الحال ایک سوال پر ہی اکتفا کیا۔
پروفیسر شہزاد بولے۔ ” ہنی کا فائنل تو مکمل ہوگیا ہے اب اسے اسپیشلائزیشن کے لئے، میں بیرون ملک بھیجنے کا سوچ رہا ہوں۔”
”بالکل ٹھیک ہے۔ لندن میں بہت اچھی یونیورسٹیز ہیں۔ میں جس حد تک ممکن ہوا ہیلپ کروں گا۔ خلیل نے ہنی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم لوگ باتیں کرو۔میں کھانے کے انتظامات دیکھتی ہوں۔” نورین یہ کہہ کر اٹھنے لگی۔
”نہیں آنٹی۔ آج کے لئے چائے کافی ہے۔ کھانا پھر کبھی سہی۔”
”آپ پہلی بار آئے ہیں بیٹا… چائے کی دعوت تو تمہارے پروفیسر صاحب کی تھی… اب ڈنر میری طرف سے کرنا۔”
”نہیں… پھر کبھی…” وہ جلدی سے بولا۔
”نہیں… بس میں نے کہہ دیا…” وہ اٹھ کر اندر جانے لگی۔
اندر سے پروفیسر کو فون کرکے سرگوشی میں کہا۔ ”ذرا اپنی جگہ سے دور آکر میری بات سنیئے۔” پروفیسر نے فون کان سے لگایا اور اندر آتے ہوئے پوچھا۔ ”فون کرنے کی کیا ضرورت تھی۔”
”میں کہہ رہی ہوں ذرا تھوڑٰ دیر کے لئے وہاں سے اٹھ جایئے۔ لڑکا لڑکی کو اکیلے بیٹھنے دیجئے۔” اچھا کہہ کر پروفیسر نے کسی فائل کو لینے کا کہہ کر اندر چلے گئے۔
نورین بیگم بالائی منزل کی کھڑکی سے انہیں جھانک کر دیکھ رہی تھیں۔ ہنی کا انداز تو وہی شوخی لئے ہوئے تھا۔ مگر خلیل سنجیدگی کے ساتھ دھیرے دھیرے باتیں کررہا تھا مگر اس کا انداز نہایت مہذب تھا۔ وہ جلدی سے سیڑھیا طے کرکے نیچے اتریں اور ان کے پاس آکر بیٹھ گئیں… وہ نورین سے طب کے ہی کسی موضوع پر بات کررہ اتھا۔ جلدی ہی پروفیسر شہزاد بھی وہاں رونق افروز ہوئے۔
ہنی نے پوچھا۔ ”سر ڈنر میں آپ کے لئے کیا بنواؤں؟”
”نو … تھینکس…” وہ مسکرا کر رہ گیا۔
نورین نے کہا۔ ”ہاں… ہاں بیٹا بتادو… ”
”بہت شکریہ… آپ جو کھلائیں گی ۔ کھالوں گا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ہنی اور نورین دونوں کچن کی جانب چلی گئیں۔ یونہی بات چیت میں شام ڈھل گئی۔ تو پروفیسر شہزاد نے کہا۔”آج تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا کتنی جلدی گزر گیا۔”
کچھ دیر بعد وہ سب ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے تھے۔ نورین نے پوچھا۔ تمہارے بہن بھائی…؟”
”ایک چھوٹا بھائی ہے لندن میں۔ ممی جب حیات تھیں تبھی اس کی شادی ہوگئی تھی۔ اس کی دو بچیاں ہیں۔ وہ پاکستان نہیں آتا۔”
”اور…تم؟” نورین بیگم کو اس کے بارے میں جاننے کی بے قرار تھی۔
”ابھی میری شادی نہیں ہوئی۔” اس نے قدرے شرما کر کہا۔
نورین نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ وہ ابھی کنوارہ ہے۔
”تم یہاں کس کے گھر ٹھہرے ہو؟” نورین نے اپنے دماغ میں کلبلاتے ہوئے سوالات پوچھنے کا آغاز کردیا۔
”ہوٹل میں۔”
”اب آئندہ ہمارے گھر ٹھہروگے سمجھے۔” نورین نے جھٹ آفر کردی۔
”ہمارا کوئی بیٹا نہیں ہے صرف ہنی ہی ہے ہمارے گھر میں۔ تم آجانا۔”
”تھینکس…” وہ مسکرایا۔
پروفیسر شہزاد نے مذاقاً کہا… ”پہلی بار ملی ہے نا تم سے اس لئے انسپائر ہوگئی ہے۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ”میں آپ لوگوں کے درمیان بہت اچھا محسوس کررہا ہوں۔”
”بہت بہت شکریہ بیٹا۔” نورین نے کہا۔
ڈنر پر گفتگو اتنی طویل ہوگئی کہ اچھا خاصا وقت گزر گیا۔ نورین نے کہا۔ ”آج تو ہلکا پھلکا ڈنر تھا۔ روز مرہ کا ۔ آئندہ انشاء اللہ تمہاری بھرپور دعوت ہوگی۔”
”نہیں آنٹی… یہی بہت تھا۔ آپ نے تکلف کی۔”
وہ جانے کے لئے اٹھا۔ گیٹ تک جاتے جاتے پروفیسر شہزاد اور خلیل کئی بار کے، پھر چلے، دو چار قدم چلنے کے بعد پھر رک کر گفتگو شروع کردی۔ پھر کھڑے رہے۔ بالآخر وہ اس وقت رخصت ہوئے جب نورین نے دوبارہ گیٹ تک آگئیں ۔
”ارے اسے جانے بھی دیجیے۔ آرام کرے گا۔” نورین کے کہنے پر وہ بولا۔ ”آنٹی آپ کو اللہ حافظ کہنے کے لئے کھڑا تھا۔ پھر وہ رخصت ہوگیا۔
نورین کی بے تابی، بے چینی، بے قرار، خوشی سب اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
”سنیے…جلدی رشتے کی بات چیت شروع کیجئے۔” نورین نے کہا۔
”پہلے ہنی سے پوچھ لو اُسے کیسا لگا خلیل۔”
”ہاں ضرور… کیوں نہیں۔” پروفیسر نورین کی بے قرار دیکھ کر مسکرانے لگے۔
رات سونے سے قبل نورین بیگم ہنی کے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ مطالعے میں غرق تھی۔
”سنو! ہنی بیٹا… خلیل کو کب سے جانتی ہو؟”
”بتایا تھا نا ممی… ہر سال کالج میں لیکچر دینے آتے ہیں دو بار۔”
”اچھا… کیا تم سے کبھی بات ہوئی؟”
”جی ممی… بلکہ مجھے تو لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں میری طرف زیادہ متوجہ رہتے ہیں۔ لیکن میں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے وہ پپا کی وجہ سے مجھے جانتے ہوں جیسا کہ کالج میں سبھی کو معلوم ہے کہ میں مشہور شاعر و ادیب پروفیسر شہزاد ازل کی اکلوتی بیٹی ہوں ۔”
”اچھا… یہ بتاؤ… تمہیں کیسے لگے خلیل۔”
”اب وہ پپا کے چہیتے شاگرد ہیں تو خوبیاں تو ہوں گی نا ان میں۔” ہنی کا جواب نورین کے سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید اس لئے کہ وہ واضح جواب سننا چاہ رہی تھیں۔
”اچھا ہنی بیٹا… جب ہم لان میں نہیں تھے تو وہ تمہیں کیا سمجھا رہے تھے۔کہیں تمہارے پپا کی طرح نصیحتیں اور مشورے تو نہیں دے رہے تھے۔
”جی نہیں… وہ میری دوستوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں نے کہہ دیا ساری لڑکیاں انہیں بہت پسند کرتی ہیں۔”
”ہا… تم نے یہ کیا کہہ دیا؟” نورین نے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا۔
”پھر…” نورین نے بے چینی سے پوچھا۔
”پھر… انہوں نے پوچھا…” ہنی بولتی ہوئی لمحے بھر کو رکی۔
”کیا پوچھا…” نورین نے ہنی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
”انہوں نے پوچھا کہ ان کے بارے میں میری رائے کیا ہے۔”
”تم نے کیا جواب دیا؟”
”میں نے کہا آپ بہت خوبصورت ہیں سر۔”
”پھر…”
وہ شرماگئے اور میں ہنس پڑی۔ ہنی کے لہجے میں شوخی تھی۔
پھر کیا کہا؟
”پھر… پھر ممی… انہوں نے میرے دوستوں کے نام پوچھے۔ میں نے بتادیئے۔ پھر انہوں نے کہا میں انہیں بھی اپنا دوست بنالوں۔”
”اچھا…” نورین کی باچھیں کھل گئیں۔
”میں نے کہا آپ تو پپا کے دوست ہیں۔”
وہ بولے۔ ”ان کا دوست نہیں ہوں۔ وہ مجھ سے بہت بڑے ہیں۔ استاد روحانی والدین ہوتے ہیں۔ دوستی اپنے برابر کے لوگوں سے کی جاتی ہے۔”
تو میں نے کہا کہ۔ ”آپ تو ہمیں بھی لیکچر دیتے ہیں نا… اس لئے میرے بھی استاد ہوئے؟”
تو وہ کہنے لگے کہ۔ ”ہم میں ایج ڈفرنس زیادہ نہیں ہے اس لئے دوستی ہوسکتی ہے۔”
نورین مسکرائیں۔ ”پھر تم نے کیا کہا؟”
ممی میں نے کہا ۔ ”اچھا تو لایئے ہاتھ ملایئے…”
مگر وہ بولے ”نہیں ہاتھ ملانے والی دوستی نہیں۔ پکی والی دوستی۔”
”اچھا… پھر…”
”پھر یہ کہ امی آپ آگئیں تو وہ خاموش ہوگئے بلکہ خاموش نہیں ہوئے انہوں نے بات بدل دی تھی۔”
”آپ اتنے سوال کیوں کررہی ہیں؟” ہنی نے پوچھ ہی لیا۔
”وہ… دراصل ہنی ہمارے ہاں کوئی لڑکا پہلی بار اپنی فیملی کے بغیر آیا ہے نااس لئے۔” نورین نے بات کو ٹالنا چاہا۔
٭…٭…٭
دوسری شام پروفیسر حسب ِ عادت لان میں کرسی ڈالے مطالعے میں مصروف تھے کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
”ہیلو…”
”السلام علیکم سر…”
”ارے خلیل … کیسے ہو۔ کل تھک تو نہیں گئے تھے ہماری باتوںسے۔”
”جی نہیں سر فریش ہوگیا تھا آپ کی فیملی سے مل کر بہت اچھا لگا۔”
”لیکن سر…”
”ہاں بولو۔”
”میں جس مقصد سے آپ سے ملنا چاہتا تھا۔ قدرت نے مجھے اس کا موقع بھی دیا پھر بھی وہ بات رہ گئی۔”
”ارے کیوں بھئی؟”
”سر میری ہمت نہیں ہوئی۔”
”ایسی کون سی بات تھی جس کے لئے ہمت چاہیے؟”
”چلو! تو پھر آجانا۔”
”نہیں… شاید میں آپ کے سامنے نہیں کہہ سکوں۔”
”تو ابھی کہہ دو۔”
”سر! میں نے ہمیشہ ہر بات آپ سے ڈسکس کی ہے۔ اس لئے یہ بات بھی آپ سے ہی کہوں گا… مگر اس سے قبل آپ سے… معذرت چاہتا ہوں۔اگر آپ برا مانیں تو مجھے نا سمجھ جان کر معاف کردیجئے گا۔”
”اچھا… چلو… معاف کرتا ہوں ابھی کہہ دو۔”
”سر ممی نے آخری وقت یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ…”
”ہاں ہاں بتاؤ…”
”وہ آپ کے پاس اس مقصد سے آئی بھی تھیں مگر… شاید وہ اپنی بات نہ کہہ سکیں۔”
”بولو… بیٹے۔” پروفیسر نے اسے ہمت دلائی۔
”ممی نے کہا تھا کہ تم اپنے پروفیسر شہزاد از کی بیٹی ہنی سے شادی کرنا۔ اس طرح وہ آخرت میں سکون سے رہیں گی۔”
”تم مجھے یہ بات پہلے کہہ دیتے۔” پروفیسر نے کہا۔
”مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا سر…سر ممی نے بہت چھوٹی عمر سے ہنی کا نام میرے ذہن میں بٹھا دیا تھا اور آپ کو مثال بناکر مجھے بھی آپ کے جیسا بننے کی نصیحت کرتی رہی تھیں۔ وہ اگر آج حیات ہوتیں تو مجھے یہ سب کچھ کہنے کی ضرورت نہ رہتی… میں اس مرتبہ خاص اسی مقصد سے آیا تھا… میں آپ کے جواب کا بے چینی سے منتظر ہوں۔”
”ہوں ں ں … قدرے توقف کے بعد پروفیسر نے ایک ہنکارا بھرا اور گویا ہوئے۔ ”کل تم گھر آجاؤ۔ کوئی رشتہ دار ہو تو ساتھ لے آنا۔”
”سر ممی نے کبھی کسی سے نہیں ملوایا بس آپ کا اور طاہرہ آنٹی کا تذکرہ کرتی رہی تھیںاور انہیں ہی رشتہ دار بتاتی تھیں… میں کئی سالوں سے اپنی والدہ کی باتوں کی ڈور میں بندھا یہاں چلا آتا ہوں۔ اور ہنی کو اپنی امانت سمجھتا رہا ہوں۔ (آپ سے معذرت کے ساتھ)
”تم کل گھر آجاؤ… آج نورین کے سامنے یہ بات رکھوں گا۔”
”بہت شکریہ… اللہ حافظ۔”
فون بند ہوتے ہی پروفیسر شہزاد نے لان میں ہی چہل قدمی شروع کردی۔ ان کی آنکھوں کے گوشے نم ناک ہونے لگے۔ آج طویل عرصے بعد مریم کی یاد نے انہیں رلادیا تھا۔ ان کی آنکھیں آج خوب برسیں۔ وہ اپنے گھر کے بیک یارڈ میں چلے گئے۔ کبھی ٹہلتے کبھی بنچ پر بیٹھ جاتے۔ وہ زیر لب بڑبڑائے۔ ”یہ عورتیں بھی کیسے کیسے محبتوں کے ڈور باندھتی ہیں۔”
”اپنی بیٹی ہنی اور خلیل کے بارے میں وہ اب جو سوچ رہے تھے مریم اس کا فیصلہ بہت پہلے کر گئی تھی۔ گویا اس نے میری بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹے سے بچپن میں ہی طے کردیا تھا۔ ہوں ں ں۔ انہوں نے طویل سانس لی… بہتر ہے کہ طاہرہ سے مزید بحث کروں… ہنی سے ہی بات کرلوں بلکہ ڈائریکٹ اس کی مرض و منشاء معلوم کرلوں۔”
انہوں نے آستین میں آنکھیں خشک کیں اور اندر کمرے میں چلے گئے۔
نورین الماری کے دونوں پٹ کھولے صبح کے لئے ان کا سوٹ نکال رہی تھیں۔
وہ بولے۔ ”سنو! وہ تم نے ہنی سے کوئی بات کی،رشتے کے سلسلے میں۔” وہ فوراً متوجہ ہوئیں۔
”جی… میں نے پوچھا تھا مگر اس کا جواب میں سمجھ نہ پائی یا شاید میرا سوال واضح نہیں تھا۔”
” ہنی کو بلاؤ… میں ابھی اس سے بات کرکے فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔” نورین تقریباً برق رفتاری سے ہنی کے کمرے میں گئیں۔ وہ کسی سے فون پر گفتگو میں مصروف تھی۔ نورین نے اشارے سے اسے اپنے والد کے کمرے میں آنے کا کہا اور واپس ہوگئیں۔ ان کے پیچھے ہی ہنی آگئی۔
پروفیسر شہزاد نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”بیٹا خلیل سے میں تمہیں وابستہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بھی تم سے شادی کرنے کا خواہش مند ہے۔ تم بھی اپنی رائے کھل کر دے دو۔ تمہاری ممی کی بھی یہی مرضی ہے۔ تم اس سلسلے میں خلیل سے خود کوئی بات کرنی چاہو تو کرسکتی ہو۔ تم خود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سمجھ داری سے کام لینے والی ہو لہٰذا میں کوئی بھی فیصلہ تم پر زبردستی ٹھونسنے کا قائل نہیں ہوں۔”
ہنی نے اپنے والد کی بات غور سے سنی اور ماں کی جانب دیکھا وہ جی جان سے اپنی صاحبزادی کی طرف متوجہ تھیں۔ ”آپ جیسا چاہیں پپا۔” ہنی نے فرمانبرداری سے جواب دیا۔
”تمہاری پسند صاف ظاہر ہونی چاہیے۔”
”اوکے پپا۔” یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں لوٹ گئی۔ نورین اس کے پیچھے پیچھے دوڑیں۔
” ہنی بیٹا تمہیں یہ بیٹا پسند آیا نا… تمہارے پپا اسے بہت عرصے سے جانتے ہیں۔” خلیل نے تمہیں خود پروپوز کیا ہے۔”
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ممی… وہ اچھے ہیں۔ پپا ان سے واقف ہیں یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں ان سے میری بات چیت ہوتی ہے مگر کبھی کوئی ذاتی بات نہیں ہوئی۔ وہ سلجھے ہوئی شخصیت کے مالک ہیں کیونکہ آج کل کے لڑکے پہلے لڑکیوں سے بات کرکے معاملات طے کرلیتے ہیں پھر ان کے گھر والوں سے بات ہوتی ہے مگر خلیل نے اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کی اور عقلمندی سے درست راستہ اختیار کیا۔” ہنی کی بات سن کر نورین نے اس کی پیشانی چوم لی۔ اور کہا ، آج لگا مجھے کہ میری ہنی واقعی بڑی ہوگئی ہے اور ڈاکٹر بن چکی ہے ۔ ورنہ تو میں تمہیں وہی چھوٹی سی بچی سمجھ رہی تھی۔ ماشاء اللہ۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!