معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

یہ دونوں اسکول لائف سے ہی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ طاہرہ نے ہر مرحلے میں اس کی رہنمائی کی ہے۔ ساتھ رہا جائے تو محبت ہوہی جاتی ہے۔ مگر طاہرہ اور جاوید کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ انہیں واقعی ایک دوسرے سے محبت ہے۔ مگر اس محبت کو ”دریافت” طاہرہ نے ہی کیا ہے۔ یہ ہمارا پرانا محلے دار تھا لہٰذا ہم نے بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ان کا گھر انا بہت سیدھا سادا ہے۔ شہزاد اور نورین جاوید اور طاہرہ کے بارے میں بات چیت کررہے تھے۔
”جاوید کے بڑے بھائی تو ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ اب آپ ہی ہمارے خاندان کے بڑے ہیں۔ جبھی تو میں وقتاً فوقتاً ان سب کی خیریت دریافت کرتا رہتا ہوں یہ لوگ میری بات بھی مانتے ہیں جو کہتا ہوں ویسا ہی کرتے ہیں۔”
”طاہرہ بھی سب کا خیال رکھنے والی ، بے لوث لڑکی ہے۔” نورین نے کہا۔
”وہ میری اکلوتی اور چھوٹی بہن ہے۔ میں بھی اسی کے جیسا ہوں۔ محبت بھری رہگز ر کا راہی۔” پروفیسر شہزاد مسکرائے۔
وہ تیزی سے آگے بڑھی اور ان سے لپٹ گئی۔ جیسے کہہ رہی جو بھی ہو بس میرے ہو۔
”اس دنیا میں جو لوگ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ دنیا بھی ان ہی کی وجہ سے قائم ہے۔ ان محبتوں کو دیگر لوگوں کے اذہان میں منتقل ہونا چاہیے تاکہ معاشرہ مستحکم ہوسکے دونوں کی محبت گھروں کو آباد رکھتی ہے۔ گھروں سے محبت محلے، شہر اور ریاست میں پھیلتی جاتی ہے۔ خوشبو کی طرح۔ مگر اس کے راستے دشوار گزار ہوتے ہیں۔ کہیں فضا کثیف ملتی ہے تو ، کہیں ماحول پراگندہ۔ مگر خوشبو کا سفر تو جاری و ساری رہتا ہے۔ خوشبو ایک پھول میں سمٹ آئے یا فضا میں بکھر جائے ہر دو صورت میں سانسوں کو معطر کرتی ہے۔”
”خدا آپ کوبہت کامیابی عطا کرے۔” نورین کے دل سے دعا نکلی۔
”میں نے تعلیم کا شعبہ اس لئے چنا ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں سوچوں میں سلجھاؤ اور مضبوطی لاسکوں… ورنہ دیکھو… پارٹیاں تعلیمی اداروں میں عمل دخل رکھتی ہیں اور وہاں تصادم کی صورت حال پیدا کرتی ہیں… ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ایک استاد اپنے فرائض سے پہلو یہی کرتا ہے۔ بہترین سماج کی تشکیل میں والدین اور اساتذہ ۔ ان دو کا بہت اہم اور گہرا تعلق ہے۔ باقی کردار ثانوی ہیں۔
ہم، ہماری محبت، ہمارا گھر اور ہماری بچی، میرے شاگرد… یہی میری کل کائنات ہیں۔ ایک محبت بھری دنیا۔ یہی میرا فرض ہے۔ جسے میں روزِ ازل سے رد کرتا چلا آرہا ہوں۔” وہ بولتے بولتے ٹھہرے۔ تو نورین نے کہا۔
”ہر شہزاد کی بہن طاہرہ جیسی اور شریک حیات نورین جیسی نہیں ہوتی۔”
دلوں کو محبتوں سے لبریز کرنے والا بھی انسان کو منتخب کرتا ہے۔ اسی لئے توکہتا ہوں کے اپنا کردار ادا کرو۔ اپنی محبتوں کے پھول دوسروں کے لئے بھی رکھو۔ ہم دونوں میں سے کسی کے قدم بھی کہیں نہیں ڈگمگا سکتے۔ ہماری نیت اور اندر کی خوبصورتی نے ہمیں طاقت ور بنا رکھا ہے۔ اور یہ طاقت محبت کی ہے۔ جو کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اس سچ کی خوشبو کو محدود نہیں رہنا چاہیے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پندرہ برس بعد:
پروفیسر شہزاد ازل ایک مثالی کالج کے پرنسپل ہیں۔ ایک تقریباً انیس برس کا نوجوان ان کے سامنے بیٹھا ہے۔ جو اس کالج کا بہترین طالب علم رہ چکا ہے۔ بہترین کارکردگی کی بناء پر کالج کی طرف سے اسے اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجا گیاتھا۔ وہ چھٹیوں میں اپنی ماں سے ملنے آیا تھا۔ وہ پرنسپل سے ملتمس تھا کہ اس کی ماں ان سے ملنا چاہتی ہے لہٰذا سے ٹائم دیا جائے۔
پرنسپل کی مصروفیات گو ناگوں ہیں۔ وہ وقت نہیں نکال پاتے اور اگلے ہفتے کا کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح اگلا ہفتہ بھی گزر جاتا ہے۔ ایک دن وہ نوجوان بتاتا ہے کہ اس کی ماں اب بیمار ہے اور پرنسپل سے ملاقات کی خواہاں ہے۔ اس طرح اگلے ہفتے کا وقت طے پاتا ہے۔ مقررہ دن وقت سے قبل ہی ایک نقاب پوش خاتون پرنسپل کے آفس میں تشریف لائیں۔ پرنسپل شہزاد اس وقت چند اہم فائلوں میں سرگھسائے بیٹھے تھے۔ خاتون نے اندر آتے ہی بتایا کہ وہ اس نوجوان خلیل کی ماں ہے جس پر ان کا کالج فخر کرتا ہے اور وہ آج انہیں صرف یہ بتانے آئی ہیں کہ اپنے دونوں بیٹوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے انہوں نے پروفیسر شہزاد ازل کو اپنے سامنے بطور ماڈل رکھا۔ جس میں وہ کتنی کامیاب رہیں یہ وہ ہی بتائیں گے۔
پروفیسر نے پوچھا۔ ”خاتون کیا آپ نے بھی مجھ سے پڑھا ہے؟”
”جی نہیں مگر… استاد اور شاگرد سے کہیں زیادہ اہم تعلق رہا ہے۔ جسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکی… میں مریم ہوں۔ آپ سے التجا کرنے آئی ہوں کہ میرے بیٹوں کے سر پہ اپنا دست ِ شفقت رکھیے گا۔” اتنا کہہ کہ وہ برق رفتاری سے آفس سے باہر نکل گئیں… پھر واپس پلٹ کہ آئیں اور ایک پیکٹ ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ”یہ ایک امانت ہے اسے اب میں نہیں سنبھال سکتی۔” پھر وہ دوباری تیز تیز قدم اٹھاتی واپس پلٹ گئیں ۔
پروفیسر شہزاد بت بنے بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے پیکٹ کھولا تو اس میں ان کی تحریر کردہ چند نظمیں، غزلیں، محبت نامے ، طلائی چین اور انگشتری، چند یادگار تصاویر ان کے آگے بکھر گئیں۔ وہ انہیں الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ یہ سارا وہ سرمایہ تھا جسے مریم نے اب تک سنبھالے رکھا تھا جو پروفیسر نے کبھی انہیں پیش کیا تھا۔ سائیڈپر رکھا پانی کاگلا س اٹھاکر پروفیسر نے گھونٹ گھونٹ پینے کی کوشش کی مگر وہ صرف اپنا حلق ہی تر کرسکے۔ آدھا گھنٹے تک وہ اسی طرح بیٹھے کبھی اپنی غزلیں پڑھتے کبھی تصاویر دیکھتے کبھی انگشتری کو لرزتی انگلیوں میں تھامتے۔ اسی دوران فون کی گھنٹی بجنے لگی… اور مسلسل بجتی ہی رہی۔ دروازے کے باہر بیٹھے پیون نے گھنٹی کی آواز سن کر اندر جھانکا۔پروفیسر نے اسے فون ریسیو کرنے کا اشارہ کیا۔ پیون نے ریسیور انہیں پکڑاتے ہوئے کہا ۔
”سر خلیل صاحب کا فون ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔” پروفیسر شہزاد نے ریسیور تھاما۔
” ہیلو… السلام علیکم سر…” دوسری جانب سے آواز آئی۔ سر کچھ دیر قبل میری والدہ ‘مریم’ اس دنیا سے رخصت ہوگئی ہیں۔
لڑکے نے فون بند کردیا۔
پروفیسر نے بے ساختہ کہا۔ ”محبت رخصت نہیں ہوتی۔”
٭…٭…٭
نہیں بھیا یہ کیسے ہوسکتے ہے۔ جس نے آ پ کو دکھ دیئے اسی کے اولاد کی آپ نے زندگی بنائی اور اب…” وہ بولتی ہوئی رکی… پروفیسر شہزاد نے طاہرہ کے سامنے جو بات رکھی تھی۔ ا س پر ان کی بہن نے اپنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ وہ بولے۔
”ایسا نہ کہو… مجھے نہیںمعلوم تھا۔”
”کیا نہیں معلوم تھا…؟” طاہرہ برہم تھی۔
”یہی کہ وہ کس کا بیٹا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، فرمانبردار لڑکا ہے۔ اتفاق ہے کہ اس نے میرے کالج میں پڑھا اور ہمیشہ مجھ سے ہی مشاورت کرتا رہا۔ میں نے بھی اس کا ذوق و شوق دیکھ کر اس کی اچھی طرح رہنمائی کی اور سبھی کی کرتا رہا ہوں۔”
”میں نہیں مانتی۔” طاہرہ بولی۔
”دیکھوطاہرہ… یہ بات میں نے سب سے پہلے تم سے ہی کی ہے۔ نورین کو بھی اس معاملے میں کچھ نہیں معلوم… اگر وہ یہ جان گئی کہ اس موضوع پر تمہارے اور میرے درمیان بات ہوچکی ہے تو ہوسکتا ہے اُسے شاک لگے۔ لیکن وہ میرے فیصلے پر ایسا ری ایکشن نہیں دے گی جو تم نے دیا ہے۔”
”بھابھی کو معلوم ہی کیا ہے بھیا…کہ وہ ری ایکٹ کریں گی۔ انہوں نے تو ایکٹ دیکھا ہی نہیں… جب آپ سگریٹ کے دھویں میں اپنا چہرہ چھپالیتے تھے اور دیواروں سے سرٹکراتے تھے۔ اس وقت میں آپ کے پاس ہوتی تھی اور کوئی نہیں۔ اس ہر جائی کے عشق میں جتنے آپ ڈوبے تھے وہ میں جانتی ہوں۔ پھر اس کی بے وفائی کے داغ کو جس طرح آپ نے برداشت کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے آپ کے سکون اور اطمینان کے لئے راتوں کو مصلح بچھا کر میں روئی ہوں۔ میں نے آپ کے لئے ہر پل دعائیں مانگی ہیں کہ آپ کو ایسی وفا شعار شریک حیات ملے کہ آپ کی زندگی گلاب کی طرح کھل جائے۔ رب کائنات نے میری سن لی میری آرزو اور خواہشوں سے بڑھ کر مجھے بھابھی ملیں۔ وہ فرشتوں اور حوروں کے کے درمیان کی کوئی مخلوق لگتی ہیں اور آپ ستاروں کی طرح جگمگائے ہیں… بھیا یہ کیا کررہے ہیںآپ… اب مرنے کے بعد اس کی روح کو آرام پہنچانے کا سوچ رہے ہیں۔”
”اس میں برائی کیا ہے۔ وہ ہنی کا ہم پلہ ہے۔” پروفیسر شہزاد نے کہا۔
”ہم پلہ اور …تم پلہ… میں نہیں جانتی آپ ایسا نہ کریں۔”
”اس سے اچھالڑکا ہنی کو نہیں ملے گا۔ وہ میری اکلوتی اولاد ہے اور خلیل میرا تابعدار شاگر۔” پروفیسر نے وضاحت کی۔
”ایسے ایسے تابعدار، بعد میں سسر کے سر پہ جوتے مارتے ہیں۔” طاہرہ نے تنک کر جواب دیا۔
”اللہ میری عزت سلامت رکھے۔” پروفیسر نے کہا اور طاہرہ کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے لئے کہا۔
”آپ کہیں تو میں ہنی کے لئے اور رشتے دیکھوں… جاوید کے بھانجے بھتیجے بھی بہت لائق فائق ہیں۔”
”اچھا… تم سوچ لو…” پروفیسر نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
حسنِ اتفاق ہے کہ رات کے کھانے پر نورین نے ہنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا۔
” ہنی کا ایم جی بی ایس فائنل آخری مراحل میں ہے۔ اب آپ کے کیا ارادے ہیں۔ کوئی رشتہ دیکھیں… ہماری بٹیا نے تو پھر لوگوں کی طرح عشق و محبت کا کوئی روگ نہیں پالا۔
”وہ پریکٹیکل لڑکی ہے۔دنیا کو حقائق کی آنکھ سے پرکھتی ہے۔” پروفیسر نے کہا۔
”میں اسے مزید تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجوں گا۔” پروفیسر کے کہنے پر نورین نے کہا۔
”گڈ… یہ بڑی اچھی بات ہے ہنی سنے گی تو خوش ہوجائے گی۔”
”رشتے کے سلسلے میں تمہارے ذہن میں کوئی ہو تو بتاؤ یا پھر ہنی سے بھی پوچھو۔” پروفیسر شہزاد بولے۔
”آپ جو کہیں گے وہی ہوگا۔ ویسے مہران پر بھی غور کیجئے گا۔” نورین نے طاہرہ کے بیٹے کے بارے میں یاد دلایا۔
”ایسا کیوں سوچتی ہو۔ پہلے ہی ہمارا خاندان مختصر بلکہ مختصر ترین ہے۔ آپس میں شادیاں ٹھیک نہیں ہیں میرے خیال میں۔”
”دیکھا بھالا ہے جبھی کہہ رہی ہوں۔ ورنہ اجنبی لوگوں کو کون چھانے پھٹکے۔” نورین نے کہا۔
” ہنی اور مہران کے بارے میں کیا کبھی طاہرہ نے کوئی خیال ظاہر کیا ہے؟” پروفیسر نے نورین بیگم سے پوچھا۔ کیونکہ طاہرہ کے شدید ردِ عمل سے بھی بھونچکا تھے۔ انہیں چند خدشات بھی لاحق ہوچلے تھے۔
”جی نہیں اس نے ایسا کبھی کچھ نہیں کہا۔یہ تو میں آپ سے کہہ رہی تھی۔ اس موضوع پر کبھی کسی سے کوئی اور بات نہیں کی میں نے اب تک۔” نورین نے بھی اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے پوچھا۔ ”کیوں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟”
”نہیں… ایسا تو کچھ نہیں ہے؟ ایک رشتے کے بارے میں طاہرہ سے ڈسکس کیا تھا۔ وہ تو بہت ناراض ہوئی۔” پروفیسر شہزاد یہ بات زیادہ دیر تک نہ چھپا سکے لہٰذا نورین سے ذکر کر ہی دیا۔ وہ خوش ہوتی ہوئی بولیں۔
”اچھا… یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ رشتے کی ڈسکشن شروع ہوچکی ہے۔ کچھ مجھے بھی بتایئے۔” نورین نے اپنے شوہر کے اور قریب ہوتے ہوئے کہا۔ پروفیسر نے اپنا ہاتھ نورین کے شانے پر رکھا۔ تو اس نے پوچھا… ”ہے کوئی میرے شہزاد جیسا؟” پروفیسر نے مڑ کر نورین کی آنکھوں کو غور سے دیکھا… پھر دھیرے سے بولے ۔ ”میرے جیسا؟… کیا کوئی تم سی دلربا ہے اس دنیا میں؟” پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا کہ جب دنیا میں کوئی نازنین تم جیسی نہیں ہے تو کوئی میرے جیسا کیسے ہوسکتا ہے۔”
”نازنین؟” نورین نے زیر لب کہا اور ماحول قہقہہ پار ہوگیا۔
”ہان… جانِ من… ہماری جواں محبت نے ہمیں بھی توانا رکھا ہے۔ اور ہمارے ڈیل ڈول، قد کاٹھ، ہڈی پسلی کو بھی۔” پروفیسر شہزاد نے نورین کے بازو کو دباتے ہوئے کہا۔
”ارے… کیسی باتیں کرنے لگے ہیں آپ۔” نورین نے آہستہ سے کہا۔
”کیوں، کیا ہوا، محبت پر بڑھاپا کبھی نہیں آتا۔ جبھی تو بوڑھے رنگیلے بھی ہوتے ہیں۔ ویسے زیادہ تر بوڑھے چڑچڑے ہی ہوتے ہیں مگر جن کا دل تم جیسی حسین و جمیل شریک حیات سنبھالے رکھتی ہیں وہ تو کبھی بوڑھے ہی نہیں ہوتے۔”
”چھوڑیئے بھی یہ باتیں… اپنے ہونے والے داماد کی بات کریں۔ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کس کا بیٹا ہے؟” نورین نے خوشی کے مارے کئی سوال ایک ساتھ داغ دیئے۔
”اچھا ہے… مگر ا س میں ایک بہت بڑی خرابی ہے۔”
”خرابی…” نورین کا چہرہ پر فکر ہوگیا۔
”ہاں… یہی کہ وہ مریم کا بیٹا ہے… خلیل۔”
”اوہ… مریم کا بیٹا۔ یو تو اچھی بات ہے کہ وہ کسی اجنبی کابیٹا نہیں۔ ” نورین کی خوشی دیدنی تھی۔
”کیا مریم نے خود یہ پیشکش کی ہے؟”
”نہیں۔”
”پھر…”
”وہ کیسے کرسکتی ہے۔ اُسے تو دنیا سے گئے عرصہ ہوگیا۔” پروفیسر کی آواز ہلکی تھی۔
”ہیں… آپ نے مجھے بتایا نہیں… انا للہ وانا الہ راجعون۔” نورین دکھی ہونے لگی۔
”وہ مجھے بتاکر دنیا سے نہیں گئی… نہ ہی مجھے یہ معلوم تھا کہ خلیل اُس کا بیٹا ہے۔” پروفیسر یہ کہہ کر خاموش ہوئے تو نورین نے کہا ٹھہریں میں آپ کے لئے چائے لاتی ہوں۔ پھر آرام سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔”
وہ چائے کی ٹرئے کمرے میں ہی لے آئی اور جلدی جلدی کپ میں چائے ڈال کر چینی چلاتی ہوئی بولیں… ”آپ لڑکے کو کب سے جانتے ہیں؟”
”بہت عرصے سے۔” پروفیسر کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”مجھے بھی دکھائیں… کیسا ہے وہ… ویسے آپ نے چنا ہے تو بہت ہی اچھا ہوگا۔ آپ اُسے گھر پہ بلائیں۔ نورین نے جلدی جلدی کہا۔ آج بے چینی و خوشی اس کی ذات سے صاف جھلک رہی تھی۔ پروفیسر نے موبائل فون نکال کر کوئی نمبر ڈائل کیا۔
والیوم فل اوپن تھا۔
ہیلو ! خلیل!
”السلام علیکم سر۔”
”وعلیکم السلام۔” کل شام تم چائے میرے ساتھ پیوگے۔
”آفس آجاؤں سر؟ ”
”آفس کیوں… گھر پہ۔”
”اوکے سر، میں عصر کے بعد حاضر ہوجاؤں گا۔ اللہ حافظ۔” اس کی آواز نورین نے پہلی بار سنی اور دمکتے چہرے کے ساتھ بولی۔
”یہ تو بڑا فرمانبردار لگتا ہے آواز بھی اچھی ہے۔ بات بھی کتنے ادب و تمیز سے کی ہے اس نے۔”
”ابھی وہ تمہارا داماد نہیں بنا صرف میرا شاگرد ہے۔” پروفیسر نے نورین کو نہال ہوتا دیکھ کر کہا۔
”سنئے… لڑکا کرتا کیا ہے۔ رہتا کہاں ہے۔” نورین سب کچھ جاننے کے لئے بے چین تھی۔
”اتنی جلدی بھی کیا ہے آجائے تو خود ہی پوچھ لینا۔” پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
نورین نے سارے گھر پر طائرانہ نظر ڈالی۔ کہاں کیا کیا تبدیلی کی جائے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا پھر بھی اس نے لان میں مالی کو کہہ کر چند پھولوں کا اضافہ کیا۔ گھر کی جھاڑ پونچھ کا کہہ کر ہنی کو شام کی تیاری کا بھی کہہ دیا۔ حالانکہ مہمان کو لان میں ہی بیٹھنا تھا۔
دوسری شام پروفیسر شہزاد حسب ِ عادت اسٹڈی روم میں تھے مگر نورین بے تابی سے ٹہل رہی تھی ۔ گارڈ نے خلیل صاحب کے آنے کی خبر دی تو پروفیسر شہزاد کافی تاخیر سے اسٹڈی روم سے نکلے مگر استقبال کے لئے گیٹ پر نورین ہی آگئیں۔ علیک سلیک کے بعد خلیل کو سیدھا ڈرائنگ روم میں لے آئیں۔
”پروفیسر صاحب اسٹڈی روم میں ہیںآتے ہی ہوں گے۔ تم بیٹھو آرام سے۔” ۔نورین کے کہنے پر وہ بولا۔ ”مجھے آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ آج قدرت نے موقع خود ہی فراہم کردیا۔” نورین جواباً مسکرائیں۔ لبوں پر پچاسوں سوال تھے۔ مگر کچھ پوچھنا مناسب نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی پروفیسر شہزاد تشریف لے آئے۔
”میں نے کہا تھا لان میں بیٹھنا ہے۔ پھولوں کے درمیان۔ خوش رنگ و خوشبو دار و سبزہ زار پر ملاقاتیں شاندار رہتی ہیں نورین بیگم۔ آپ نے انہیں دیواروں کے درمیان بٹھا دیا۔ چلئے وہیں چلتے ہیں جہاں گل مسکراتے ہیں۔”
پھر وہ تینوں وہاں سے اٹھ کر لان کی جانب رواں ہوگئے۔ استاد شاگرد کی آپس کی گفتگو کا آغاز ہوا تو نورین بیگم ، خلیل کا بغور جائزہ لینے لگیں۔ ڈارگ گرے پینٹ، اسکائی کلر کی شرٹ پر پلونش ٹائی، اس کی شخصیت کو نکھار رہی تھی… انہوں نے خود کلامی کی۔
”یا خدایا! اتنا خوب صورت لڑکا ۔ یہ لڑکا واقعی خوب صورت ہے یا میری آنکھیں اسے ایسا دیکھ رہی ہیں۔” انہوں نے خود سے ہی سوال و جواب شروع کردیا۔
پروفیسر بولے۔ ”نورین! تم لوگ پہلی بار مل رہے ہو۔ یہ خلیل میرے بڑے فرماں بردار شاگرد رہے ہیں۔ آج کل لندن سے یہاں چھٹیوں پر آئے ہوئے ہیں۔ جب بھی یہاں آتے ہیں۔ مجھے شرفِ ملاقات ضرور بخشتے ہیں یہ۔”
”ماشاء اللہ چشم بددور۔” نورین نے بے ساختہ کہا۔
وہ نورین سے مخاطب ہوکر بولا۔ ”اس بار سر نے مجھے اپنے گھر بلاکر بہت عزت بخشی ہے۔”
نورین نے چاہا اس سے ذاتی سوالات شروع کردے۔ مگر بڑی مشکل سے اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر فقط مسکراہٹ بکھیرنے پر ہی اکتفا کیا۔ پروفیسر شہزاد نے چائے لان میں ہی منگوالی۔ اسی دوران ہنی باہر آتی ہوئی دکھائی دی تو پروفیسر شہزاد نے اسے آواز دے کر وہیں بلالیا۔
” ہنی… بیٹے اِدھر آؤ… یہ ہمارے مہمان ہیں خلیل۔” ہنی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ جھٹ کھڑا ہوگیا۔
”السلام علیکم۔” ہنی نے قریب آکر سلام کیا اور مسکراتی ہوئی بولی۔
”سر آپ یہاں؟”
نورین اور شہزاد انہیں دیکھتے ہی رہ گئے۔
”تم انہیں جانتی ہو؟” نورین نے اپنی بیٹی سے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!