معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

”نہیں… ایسا نہیں ہے۔” جاوید نے جھٹ جواب دیا۔
”ایسا ہی ہے… تم مجھے اب جھٹلا نہیں سکتے۔” نورین نے کہا۔
”جو دوسرے کارکن پھنسے ہوئے ہیں نا اپنی اپنی پارٹیوں کے چکر میں۔ وہ وہاں سے نکلنے کے خواب ہی دیکھتے ہوں گے۔ مگر نہیں نکل سکتے۔ تمہاری قسمت اچھی تھی کہ نکل گئے مگر لگتا ہے دوبارہ پھنسنے کا شوق ہے تمہیں… کتنی مشکلوں سے ہم یہاں پہنچے ہیں۔ وہ تو بھیا تھے کہ سارے کا م ہوگئے۔ ایگزسٹ کنٹرول لسٹ میں تمہارا نام شامل تھا وہاں… سمجھے۔” طاہرہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
”اچھا بابا… میں کون سا چلا جارہا ہوں۔ صرف بات ہی تو کی ہے۔”
اس نے جیسے زچ ہوکر کہا اور بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف جانے لگا۔ پیچھے سے طاہرہ نے آواز دی کبھی مجھے بھی ساتھ لے لیا کرو۔ دونوں باپ بیٹا ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے نکل پڑتے ہو۔ گھومنے پھرنے۔”
آئیں ممی… آپ بھی آجائیں۔ آج آپ بھی ہمارے ساتھ واک کریں۔”
مہران نے اپنی ماں کو ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہوئے۔ اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ نورین تو جیسے تیار کھڑی تھی اسی حال میں گھر لاک کرکے روانہ ہوگئی۔
پارک پہنچ کر مہران کھیلنے لگا۔ وہ دونوں بنچ پر بیٹھ گئے۔
”سبحان اللہ۔” نورین نے رنگ برنگے مسکراتے ہوئے پھولوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
”تمہیں یاد ہے شادی سے پہلے تم مجھے اکثر پارک میں ہی ملتے تھے۔ ہم دونوں کتنی دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے۔”
”ہاں اب وہی تمام باتیں گھر میں بیٹھ کر کرلیتے ہیں۔” جاوید بولا۔
”تم تو لگتا ہے سب بھول گئے ہو۔” نورین نے شکوہ کیا۔
”گھر کی مرغی دال برابر۔” جاوید نے قہقہہ لگایا۔
”چلو ہٹو… اب میں تمہیں مرغی لگنے لگی ہوں۔” طاہرہ نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔
”تم مرغی ہو تو میں بھی مرغا ہوا نا۔” وہ دوبارہ ہنسا۔
”میرا تو یہ خیال ہے کہ جو شے دور ہو، اور اسے حاصل کرنے کی آرزو ہو۔ پھر وہ مل جائے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جدوجہد کے بعد اسے حاصل کیا گیا ہوتا ہے نا۔ میرے لئے تو تم عام شوہروں کی طرح نہیں ہو بلکہ بہت اہم بہت خاص ہو… بھیا کی شمولیت نہ ہوتی تو تم مجھے مل بھی نہیں سکتے تھے۔” نورین کا لہجہ اداس تھا۔
”مل گیانا… اب رونے کی کیا ضرورت ہے۔” جاوید نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔”
”اوہو… تو یہ خوشی کے آنسو ہیں۔” جاوید کے کہنے پر وہ ہنس پڑی۔
مہران دوڑتا ہوا آیا اور درمیان میں بیٹھ گیا۔ جاوید نے کہا۔ ابھی اور کھیلو یہاں لو اسٹوری کی ایک اور قسط شروع ہونے والی ہے۔ اور تم بیچ میں آکر بیٹھ گئے پھر دونوں مل کر ہنسنے لگے۔ ماں باپ کو ہنستا دیکھ کر مہران بھی ہنس پڑا۔
”تم کس بات پر ہنس رہے ہو۔” جاوید نے بیٹے سے پوچھا۔
وہ بولا۔ ممی پپا ہنس رہے ہیں تو میں بھی خوش ہورہا ہوں۔” وہ تالیاں بجانے لگا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس دن چھٹی تھی۔ جاوید صبح صبح میز پر اخبارات پھیلائے ان پر جھکا ہوا تھا۔ طاہرہ نے پوچھا۔ ”خیر تو ہے۔ اخبار میں آنکھیں گھسائے بیٹھے ہو۔ کیا ڈھونڈ رہے ہو… کراچی کے حالات ؟!… اس میں نہیں ہوگی تفصیل… پاکستان چینل لگا کر دیکھ لیا کرو۔” اپنے سوالوں کے جواب بھی وہ خود ہی دیتی گئی۔
”اخبارات کی بات اور ہوتی ہے۔ کراچی کے حالات تو اب بہتر ہیں۔ بھائی جان سے مل آؤں؟ انہیں بغیر بتائے آیا تھا۔”
”انہیں یہاں بلالو… تم نہ جاؤ… پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ تم وہاں گئے تو خدانخواستہ ضائع ہوجاؤگے۔” طاہرہ نے اپنے اندرونی خدشے کو ظاہر کرہی دیا۔
”شہزاد بھائی تو آخر چلے ہی گئے نا۔” جاوید نے کہا۔
”ان پر وہ الزامات تھوڑی تھے جو تم پر ہیں اور انہیں وہاں سے جاب آفر آئی تھی۔” طاہرہ بولی۔
”مجھے بھی جاب مل جائے گی۔” جاوید بولا۔
”تم وہاں جاکر کیا کروگے۔ ظاہر ہے کوئی اپنا بزنس کرنا پڑے گا اور جو کماؤگے ”بھتہ” دینے میں ہی خرچ ہوجائے گا۔ کراچی کے چھوٹے بڑے سارے بزنس مینوں کا یہی حال ہے۔”طاہرہ دکھ کے ساتھ بولی۔ ”اپنے خاندان کا خیال کرو۔ میرا نہیں تو اپنی بہنوں اور بھائیوں کے بارے میں سوچوں۔ ہر کوئی خوش حال تو نہیں ہے نا۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور روزگار کے لئے پلان بناؤ۔ انہیں یہاں بلاؤ۔ خود نہ جاؤ۔”طاہرہ نے پہلے والا مشورہ دہرایا۔
”میں نے تمہیں ہر بار سمیٹا ہے۔ مگر اب تم نے یہاں سے واپس اسی نا منصفانہ ماحول میں جانے کی کوشش کی تو لگتا ہے میری ہمت جواب دے جائے گی۔ کبھی کبھی… میں تمہاری طرف سے کمزور پڑنے لگتی ہوں۔ ایسا کیوں ہے جاوید ؟”
”ارے پریشان کیوں ہوتی ہو… میں تمہارے پاس ہی تو بیٹھا ہوں… دو کرسیوں کے فاصلے پر… یہ لو اور قریب آگیا… وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر طاہرہ کے برابر آبیٹھا۔” وہ مسکرائی… یہ لو کھاؤ… اس نے قریب رکھا چنے اور کشمش کا جار اس کی جانب بڑھایا… جاوید نے اس کے شانے پر اپنے ہاتھ رکھے اور اس کے تپتے ہوئے رخسار کو اپنے لبوں سے مزید تابناکی عطا کردی۔
”یہی تو اچھی بات ہے تم میں بات کو سنبھال کر ماحول فوراً بدل دیتے ہو۔
طاہرہ نے اس کے ہاتھ بے ساختگی سے چوم لئے۔
”بات ہاتھوں سے نہیں یہاں سے سنبھالی جاتی ہے۔ اس نے اپنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کیا۔”
”چلو ہٹو… شر پر کہیں کے… ابھی مہران آجائے گا۔”طاہرہ جھینپ کر بولی اور اس کی جانب دیکھا۔ اس کی آنکھیں، لب و رخسار بے قرار جذبوں کے ساتھ تبسم ریز تھے۔ وہ سمٹتی ہوئی اس کے اور قریب ہوگئی اس کے ہاتھ زلفِ پریشان کو سنوارنے لگے۔ دوسرا ہاتھ طاہرہ نے تھاما ہوا تھا…
”محبت کو تجدید کی ضرورت رہتی ہے طاہرہ۔” اس نے دھیمے دھیمے سُروں میں جیسے کوئی گیت گنگنایا ہو۔
”ہاں… یہ بہت ضروری ہے۔ اس طرح محبت فرحت انگیز ہوجاتی ہے۔” طاہرہ کے لب ہلے تو جاوید نے اس پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔ وہ دیر تک اسی طرح بیٹھے رہے۔ اور ایک دوسرے کی سانسوں کی گنگناہٹ کو سنتے اور لطف اندوز ہوتے رہے۔
”آؤ… چلیں… اپنے خواب نگر میں۔” جاوید کی سانسیں بول رہی تھیں۔ بھلا وہ کیسے اپنے محبو شریک حیات کی پیشکش کو ٹال سکتی تھی۔ خواب نگر، ان کا وہ کمرہ جس میں وہ جب بھی داخل ہوتے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجایا کرتے۔ وہاں کی دیواریں ہر شب عشق و محبت کی ایک نئی داستان رقم ہوتی دیکھتی۔ شب کی ان ہی مسرتوں کے حصار میں ان کے دن گزرتے جاتے۔
٭…٭…٭
”سنو! جاوید… سیاسی کارکنوں کی تاریخ وفاداری سے بھری ہوتی ہے۔ پورے پورے خاندان نے خود کو اپنی پارٹی لیڈروں پر تج دیا ہے مگر اب دنیا کی، اقدار کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب ویسے لیڈر ہے ہی کہاں جس پر جان نثار کی جائے۔ اب لیڈروں کو وفا کا نہیں جان کا خراج چاہیے ہوتا ہے۔ کام نکالتے ہیں اور راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ معصوم کارکنوں کے جذبات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے خاندان کو سسکنے کے لئے چوراہے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان سارے نقشے کو تبدیل کرنا پڑے گا اور اس تبدیلی کے لئے انفرادی طور پر جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا۔ تبھی ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ تم میری بات پر غور کرو… اور سمجھو۔”
مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے تم نے سوچا ہو کہ تم سے شادی کے بعد بھی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے ساتھ سیاسی جماعت کی کارکن بن جاؤں گی۔ جس کی آفر تمہاری پارٹی بھی مجھے کرچکی ہے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا، ارے پاکستان تو بن چکا۔ یہ اجتماعی کوشش تھی۔ اب اسے سنبھالو، چلاؤ، ترقی دو۔ اور اس کے لئے انفرادی کوششوں کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے آس پڑوس محلے، علاقے شہر کافی ہے۔ ان میں اپنی خدمات چمکاؤ۔ تب جانیں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے لئے دیگر بہت سے کام ہیں۔ اور بہت طریقے ہیں اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لانے کے لئے مجھے دیکھو پڑھنا پڑھانا چھوڑ کر ذاتی بزنس کررہی ہوں۔ بصورت دیگر بھیا کی طرح میں بھی نسل نو کی آبیاری کرتی۔”
وہ بیٹھا سنتا رہا۔ مسکراتا رہا۔ کہ وہ یہی کرسکتا تھا۔ طاہرہ بولی… معاف کرنا جاوید… میں زیادہ بول گئی۔ دراصل ہمارے خون میںنصیحتیں، فضیحتیں اور مشورے شامل ہیں۔ ہمارے ماں باپ اور ان کے ماں باپ بھی ایسے ہی تھے۔ ہم گفتگو پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ آپس میں بات چیت سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں پر علم سے اور انسان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ہمارا ضمیر محبت سے ہی اٹھا ہے۔”
”تمہاری اس ساری تقریر کا حاصل یہی ہے کہ تمہیں ڈر ہے کہ میں کہیں تمہیں چھوڑ کر نہ جاؤ۔ ارے بابا تین سال ہوگئے ہیں یہاں۔ حد ہے اب بھی سوچتی ہو کہ میں کہیں پاکستان نہ چلا جاؤں۔” جاوید پیارے سے بولا۔ ”میں تمہارے چھوڑ کر جانے سے نہیں ڈرتی۔ میں تمہاری سادگی کے استعمال ہونے سے اور استعمال کئے جانے سے ڈرتی ہوں۔ میرے ہوتے ہوئے کوئی تمہیں بے وقوف کیوں بنائے۔” نورین نے کہا۔
”میں پاکستان نہیں جارہا البتہ میری کمپنی مجھے ملائیشیا بھیجنا چاہتی ہے۔” جاوید نے کہا۔ ”تم اپنی کمپنی سے کہو تمہیں دوبئی، ملائیشیا، لندن اور جنوبی افریقہ کے علاوہ جہاں چاہیں بھیج دیں۔” طاہرہ نے مشورہ دیا۔
”کیوں… ان جگہوں پر پابندی کیوں؟” جاوید نے پوچھا۔
”تاکہ تمہارے کسی بھگوڑے بھائی سے ملاقات نہ ہوجائے۔ وہاں وارداتیں کرکے ان ہی ممالک کی طرف نکل جاتے ہیں۔” طاہرہ نے برجستہ جواب دیا۔
”تم تو میرے گرد حصار کھینچے بیٹھی ہو۔” جاوید بولا۔
”ہاں… بالکل ٹھیک… محبت کا حصار… چاہت کا حصار… اور کچھ نہیں…” طاہرہ نے جواب دیا۔
”یا اللہ…” جاوید نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”کیا… یا اللہ؟” طاہرہ نے پوچھا۔
ایک تو تم عورتیں نا… بس محبت ہی کئے چلی جاتی ہیں۔
”اس کے علاوہ اور دنیا میں ہے کیا؟” طاہرہ زچ ہوکر بولی۔
”نہیں جی… بہت کچھ ہے۔” وہ گنگنانے لگا۔
”تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں لکھا کیا ہے۔”
”لو جی… ساری فضا یکدم معطر ہوگی… آپ کی گنگناہٹ سے۔” طاہرہ بولی
”یہ لمبی لمبی تقریر نہ کیا کرو… بس مجھے کہہ دیا کرو ذرا گنگناؤ۔ میں فوراً شروع ہوجاؤں گا۔” یہ لو ذرا میڈم نور جہاں کی یاد تازہ کرو۔ وہ پھر گنگنانے لگا۔
رت بدلے جائے موسم بدلتا رہے
چاہے طوفان کوئی مچلتا رہے
میرے پیار کا دیا یونہی جلتا رہے
میرے پیار کا دیا یونہی جلتا رہے
یہ تمہاری آواز ماحول بدل دیتی ہے۔ اس طرح تو ہماری زندگی بھی اچھی گزر جائے گی۔ طاہرہ نے کہا۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ طاہرہ کی باتوں سے تنگ تھا بلکہ وہ اس کی باتوں کو بہت توجہ سے سنتا تھا مگر وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ طاہرہ اس کی جانب سے پریشانہ نہ ہوا کرے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے گانے کا شوق طاہرہ کی گفتگو کے دوران ہی پورا کرلیا کرتا جس سے عموماً وہ خوش ہی ہوا کرتی تھی۔
٭…٭…٭
”منجھلی آپا کی طبیعت قدرے خراب تھی پچھلے دنوں ، پر اب شکر ہے وہ ٹھیک ہیں۔” ناشتے سے قبل طاہرہ نے اسے منجھلی آپا کی خیریت بتائی۔ جاوید چونک پڑا۔ ”ہاں… ان بچاری کو دل کا عارضہ لاحق ہے۔ اتنے بہن بھائیوں میں وہی ایک تھیں جنہیں میرا خیال رہتا تھا۔ مجھے کبھی دوسرے لڑکوں کی طرح رات گئے دیوار کو د کر گھر میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ کیونکہ منجھلی آپا دروازہ کھولنے کے لئے جاگتی رہتی تھیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ ”
”آمین ثم آمین۔” طاہرہ نے کہا۔
وہ دونوں خاموشی سے ناشتے کی پلیٹ پر جھک گئے۔ مہران ابھی تک سو رہا تھا۔ ”معلوم نہیں کب اٹھے گا مہران… رات کو کھیلتے کھیلتے ہی سوگیا تھا۔ دودھ بھی نہیں پیا اس نے۔”
”مہران کی خدمت کرنے کے لئے کیوں پریشان ہورہی ہو۔ میں سامنے بیٹھا ہوں۔ لاؤ… میرے منہ میں کھلاؤ۔” جاوید کے کہنے پر وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی۔ ”لایئے جناب… یہ خواہش بھی آپ کی پوری کردیتے ہیں۔” یہ کہہ کر اس نے سلائس کا ٹکڑا جاوید کے منہ میں ڈال دیا۔ جاوید نے لقمہ چباتے ہوئے چائے کی سپ لی اور بولا۔ ”مجھے منجھلی آپا کو دیکھنے جانے کی اجازت دے دو۔ پتہ نہیں پھر موقع ملے نہ ملے۔” جاوید نے سنجیدگی سے کہا۔
”اب تو وہ ٹھیک ہیں بھیا اور بھابی انہیں دیکھنے گئے تھے۔”
”کیا ٹھیک ہوں گی وہ طاہرہ… بیس برس کی عمر سے ہی ان کا دل بیمار ہوگیا تھا۔ وہ تو انہیں سسرال اچھا ملا تبھی جی گئیں راحیل بھائی شروع سے ہی ان کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے دوائیں کھلاتے ہیں۔ ان کی ساس بھی بہت اچھی خاتون ہیں۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے ۔ آمین۔
”میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ انہیں علاج کے لئے یہاں بلالوں۔”
”شاید ضرورت نہیں ہے۔ ورنہ کب کی آچکی ہوتیں۔” جاوید نے کہا۔ ”میں ایک دن کے لئے انہیں دیکھنے جاؤں گا… بس یوں گیا اور یوں آیا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔” جاوید نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
”آپا کی تیمار داری کو جانا چاہوگے تو بھلا میں کیوں روکوں گی تمہیں۔” اس کے لہجے میں اداسی تھی۔
٭…٭…٭
ابھی وہ جناح ٹرمنل کراچی کے حدود سے باہر بھی نہیں نکلا تھا کہ شہزاد نے اسے منجھلی آپا کے زندگی ہارنے کی خبر دی۔ تدفین و تکفین میں وہ خاموشی سے شریک رہا۔ مگر لوگوں کی زبانیں بولتی رہیں۔ کہاں سے آئے ہو۔ کب تک رہو گے۔ کیا کرتے ہو۔ بیوی کہا ہے۔ سنا ہے بچہ بھی ہے۔ وہ جواباً صمُّم بکمُم بنارہا۔ ایک دن کے لئے یا تھامگر اب سوئم بھی ہوگیا تھا۔ واپسی کا قصہ گیا مگر ائیر پورٹ پر ہی دھرلیا گیا۔
اس نے وجہ پوچھی۔ تو جواب میں ایک کک رسید کی گئی۔ ”ہم سے سوال پوچھتا ہے۔” سادہ لباس والے اہلکار نے کہا۔
اللہ بھلا کرے پروفیسر شہزاد کا ضمانت قبل از گرفتاری کے سارے ڈاکومنٹس تیار کئے بیٹھے تھے۔ اُسے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں تھی۔ منجھلی آپا کے بچوں نے زبردستی اپنے گھر ہی روک لیا۔ کہ ”امی سے ملنے آئے تھے تو جاوید ماموں پھر ہمارے گھر ہی رکئے۔”
وہیں پرانے دوست ڈھونڈتے ہوئے آتے گئے۔ کیونکہ کسی ایک کو خبر ملی جس سے باقی سب باخبر ہوگئے۔ اب اسے مہران اور طاہرہ شدت سے یاد آنے لگے تھے۔ کسی کسی وقت اُسے ایسا لگتا جیسے طاہرہ کے سارے خدشات درست ہونے والے ہوں۔ طاہرہ فون پر اس کا حوصلہ بڑھاتی اور دعائیں پڑھنے کا کہتی رہتی۔
منجھلی آپا کو دنیا سے گئے پانچواں ہی دن تھا کہ رات گئے محلے میں پراسرار نقل و حرکت ہوئی۔ اور پھر جاوید کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر نامعلوم سفر پر روانہ کردیا گیا۔ نامعلوم جگہ پہنچ کر اس سے چند الزامات کا اقرار کرنے کو کہا گیا اور کچھ لوگوں کے بارے میں معلومات مانگی گئی۔ جن سے وہ قطعاً لاعلم تھا۔ شاید یہ طاہرہ کی دعاؤں کا اثر تھا کہ تین گھنٹے کی انکوائری کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔ وہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کی امریکن کمپنی کا نام سن کر اس پر ہلکا ہاتھ رکھا گیا۔ جس سے اسے واپسی کی امید ہوچکی تھی۔ ورنہ اوّل دن ہی وہ یہ سمجھا تھا کہ گئے کام سے اب جیل میں سڑنا ہوگا اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ خوش بختی سے ایسا نہیں ہوا۔ البتہ اسے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ شاید منجھلی آپا قبر سے اُسے دعائیں دے رہی تھیں۔ ادھر وہ ائیر پورٹ سے نکلا ہی تھا کہ ماں بیٹا اس سے لپٹ گئے۔ ”سمجھو موت کے منہ سے واپس آگئے ہو میں یہ میری محبت ہے جو تمہیں کھینچ لائی۔ ورنہ میں نے تو جانے کیسے کیسے خوف ناک خواب دیکھ لئے تھے۔ ”جب وہ لوگ مجھے لے گئے تھے نا اور میری آنکھوں پر پٹی بندھی تھی اس وقت شدت سے مجھ میں جینے کی آرزو بیدار ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے موت ایک گولی کی صورت میں آکر میرے بدن کو چھید کر ڈالے گی۔ یا پھر کسی زخمی حالت میں پڑا ہوا ملوں گا۔ مجھے اس وقت تمہاری غیر موجودگی شدت سے محسوس ہوئی۔”
”شکر ہے جاوید… تم کسی پیچیدہ مسائل میں نہیں الجھائے گئے۔ لاکھ لاکھ شکر ہے۔” اس نے لرزت ہونٹوںاور بھیگے پلکوں سے شکر ادا کیا۔ ”یہ زندگی تمہاری محبت کا صدقہ ہے طاہرہ ۔” اس نے دونوں ہاتھ طاہرہ کے شانے پر رکھ دیئے۔
”یہ محبت تمہارے قدموں میں پڑی رہتی ہے۔”طاہرہ نے کہا۔
”نہیں… ہر گز نہیں… یہی محبت ہے جو لہو بن کر میرے رگوں میں دوڑتی ہے… تم کیا جانو… ایک وفادار، جانثار عورت کی محبت … مرد کے لئے کسی ٹونک سے کم نہیں ہوتی… یہ محبت میرے لئے ٹونک ہے جیسے میں لمحہ لمحہ اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہوں۔”
”میں بہت خوش نصیب ہوں کہ میری شریک حیات ایک عام سی عورت نہیں ہے۔ میں خود کو گویا ہر لمحہ محبت کے شہر میں محسوس کرتا ہوں۔ میں اندرونی طور پر فرحت محسوس کرتا ہوں جب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ تمہارے دل میں اگا محبت کا پودا روزِ اول سے ہی سر سبز ہے۔ ”
”محبت خدائی عطیہ ہوتی ہے۔” طاہرہ نے کہا۔ اس کا چہرہ کھل رہا تھا۔ وہ ایک معطر فضا میں سانس لے رہی تھی۔ ائیر پورٹ سے گھیر پہنچتے پہنچتے وہ ایک سحر انگیز دنیا میں قدم رکھ چکی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!