معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

اُدھر فون کال کی بار بار ریسیونگ نے گھر کی فضا میں ایک بار پھر مریم کا تذکرہ چھیڑ رکھا تھا۔ سارے حالات و واقعات سے سبھی کو آگاہی ہوچکی تھی۔ طاہرہ سب سے زیادہ مضطرب تھی۔ اسے اپنے بھائی بھابھی کی فکر تھی۔ بڑے غور و خوض کے بعد اس نے شہزاد کو صبا اور اس کے شوہر سلمان کے بارے میں جو کچھ جانتی تھی سب بتادیا۔ شہزاد نے کہا۔
”صبا کا قصہ الگ ہے اُسے علیحدہ ہی رہنے دو۔ ابھی مریم کے لئے سوچو۔”
”نہیں بھیا ۔ مریم کے لئے کچھ نہیں سوچنا ہے۔ اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیں۔ اس نے میری دوستی کی آڑ میں میرے بھائی کے جذبات کا مذاق اڑایا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ برا کیا ہے۔ میں اُسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔” اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔
شب طویل کا جانے کون سا پہر تھا کہ شہزاد کو پیا س محسوس ہوئی… اس نے دیکھا کہ نورین بستر پر بیٹھی پاؤں کے ناخن کرید رہی ہے۔ وہ اتنی گہری سوچ میں گم تھی کہ اسے شہزاد کے جاگنے کا احساس ہی نہ ہوا۔
”تم ٹھیک تو ہو؟” شہزاد نے لیمپ آن کرتے ہوئے پوچھا۔
”ہوں۔” جواب مختصر تھا۔
”وہ… آپ ایسا کیوں نہیں کرتے؟”
”کیسا؟” وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔
”مریم کو اپنی زندگی میں شامل کرلیں۔ اب وہ اکیلی ہے۔” نورین نے یہ کہتے ہوئے شہزاد کا بازو تھامے رکھا۔
”کیسے شامل کرلوں، زندگی میں، جبکہ وہ میری زیست کا حصہ ہی نہیں ہے۔”
”کبھی تو تھی۔” نورین نے جیسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
”دلوں کو جوڑنے والے نے میرا دل اس کی طرف سے پھیر دیا ہے۔”
یہ کہتے ہوئے شہزاد نے اُسے اپنے بازوؤں میں ایسے سمیٹا جیسے اب کبھی خود سے جدا نہیں ہونے دیناہے۔ نورین کی پلکیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ خود کو معّطر و پرکیف فضا میں پرواز کرتا ہوا محسوس کرنے لگی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”سنو… کیا ہم اب ہمیشہ یہاں امریکا میں ہی رہیں گے۔” نورین نے چائے میں چینی ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”تم چاہو تو رہ سکتی ہو۔”
”نہیں…میں تو وہاں جاؤں گی جہاں کے لوگوں کو میری ضرورت ہے۔ کیا تم بھول گئے ہو۔ ہمارا ہنی مون پیکیج۔”وہ چائے پیش کرتی ہوئی مسکرائی۔
”نہیں… کیسے بھول سکتا ہوں۔” اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
”مجھے وہ سارے لوگ یاد آتے ہیں۔” ان کے درمیان رہنا ہے مجھے تاکہ جب چاہوں ۔ جس سے چاہوں مل سکوں ۔ کتنے ترسے ہوئے ، پیاسے اور تنہا لوگ ہیں۔”
”ہوں۔ ” شہزاد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ”ٹھیک ہے چلو ہوگیا فیصلہ ہم واپس وطن لوٹ جائیں گے۔”
”ہاں… زندگی تو بامقصد گزرے گی۔ محبتیں بانٹتے ہوئے۔ ہم نے ان لوگوں سے کئی وعدے بھی کئے تھے۔ انہیں بھی نبھانا ہے۔ شہزاد نے ٹیبل پر رکھا رائٹنگ پیڈ اٹھایا اور جیب سے قلم نکال کر تحریر کرنا شروع کیا۔
زندگی سے کیا ہوا وعدہ
عمر بیتے گی اب نبھانے میں
چاہے کچھ بھی نہ ہو حصول مجھے
روح کی یہ تھکن مٹانے میں
آؤ آؤ کہ زندگی بانٹیں،
اس محبت کے آسانے میں
ایک میں ایک تم محبت سے
خوب گزرے کی آشیانے میں
٭…٭…٭
دو سال چٹکی بجاتے میں گزر گئے۔ شہزاد نے اسپیشلائزیشن مکمل کرلی۔ اب اس سرزمین کی طرف کوچ کا ارادہ ہے جہاں مسائل کے انبار موجود ہونے کے باوجود ”وطن کی محبت” آڑے آجاتی ہے۔
طاہرہ نے بہت روکنے کی کوشش کی مگر شہزاد کا اپنا فلسفہ تھا۔
اس نے کہا ۔ ”تم بھی واپس چلو۔” میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ مجھے جاوید کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے۔ یہاں لوگ جینے کے لئے مصروف رہتے ہیں اور اپنے کام سے غرض رکھتے ہیں۔ وہاں کے سماج میں دوسروں کی زندگی پر نظر رکھ کر اور مداخلت کرکے زندہ رہتے ہیں۔ وہاں ولولہ انگیز نوجوانوں کو سیاسی جماعتیں استعمال کرکے دربدر پھرنے کے لئے چھوڑ دیتی ہیں۔ یہاں وہی جذبہ وہی ولولہ آدمی کی زندگی بنادیتا ہے۔ وہاں جاکر جاوید کے خلاف نہ جانے کون کون سے کیسز کھول دیئے جائیں لہٰذا میں تو یہیں سکون سے ہوں۔ میرے محبت کے آشیانے میں الفت کا پرندہ بیٹھ چکا ہے۔ میں اسے اڑانا نہیں چاہتی۔ میرا بزنس بھی یہاں اچھا چل رہا ہے۔ جہاں معاشی اور سماجی استحکام نہ ہو وہاں کیسا کاروبار اور کونسی مستحکم معیشت… وہاں خواب دیکھ سکتے ہیں یہاں انہی خوابوں کی تعبیر کے سو مواقع ہیں۔” طاہرہ بولتی ہوئی رکی تو شہزاد نے کہا۔ تمہاری باتیں اپنی جگہ درست ہیں… لیکن میرے ہاتھوں میں تعلیمی ادارے ہوں گے میں نوجوان نسل کی ذہن سازی کرسکتا ہوں۔ میں محبت کی مضبوط بنیادوں کے سہارے، ذہنوں کی تبدیلی کے ذریعے معاشرے میں انقلاب دیکھ رہا ہوں۔ بغیر کوئی طوفان اٹھائے سماج کو خاموشی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ کس کو اپنے مسائل کا حل نہیں چاہیے۔ کون اچھی زندگی کا خواب نہیں دیکھتا۔”
”لیکن بھیا… وہاںکسی کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ ٹرانسفر کرکے دور دراز علاقو ں میں بھیج کر سزا دی جاتی ہے… آپ یہ باتیں جانتے ہیں۔ وہاں تو لڑکیوں کو محبتوں کی سزا دی جاتی ہے زندہ جلایا جاتا ہے۔ کوئی روکتا بھی نہیں۔ سبھی تماشائی بنے رہتے ہیں۔”
”جبھی تو میں کہہ رہا ہوں مولوی، مبلغ سب ناکام ہوچکے ہیں۔ اساتذہ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ کتابوں میں موجود نصاب سے ہٹ کر زندگی کے الفت کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا۔ میں، میرا ، مجھے کے دائرے سے نکل کر ہم، ہمارا، ہمیں کی سیڑھی چڑھنا ہوگا۔”
نورین سبزی کاٹتی ہوئی ان کی باتیں بغور سن رہی تھی۔ شہزاد سمجھ گیا کہ اس کے ذہن میں اس وقت کئی سوچیں چل رہی ہیں۔ اس نے کہا۔ ”مجھے ذہنی طور پر چنا سکون اور اطمینان اپنی خانگی زندگی میں حاصل ہے وہ مجھے نئی نسل کے لئے کچھ سوچنے اور کرنے پر مجبور کررہا ہے۔” نورین بولی۔ ”مجھے تو کسی مجذوب کی طرح رہنا ہی اچھا لگتا ہے۔ میں کوئی فکر و تردد نہیں پالنا چاہتی تاکہ بچی کو فیڈ کراتے وقت اپنی ٹینشن میں منتقل نہ ہوسکے۔
شہزاد… مجھے یہ کیسے یقین آئے گا کہ تمہاری زندگی میں، میں واحد ہوں۔ تمہارا دل اس عورت کے بارے میں کبھی نہیں سوچے گا۔ جو کبھی تمہاری زندگی میں شامل رہی ہے اور اب ایسی صورت حال ہے کہ وہ تباہ حال بھی ہے؟”
”ارے… یار نورین… ایسی احمقانہ سوچوں کو تم اپنے قریب بھی نہ بھٹکنے دو کہ وہ تمہارے ذریعے مجھ پر بھی حملہ آور ہوں۔ اگر پھر بھی تمہارے دل کے نہاں خانوں میں کہیں اس طرح کی کوئی بات ہے تو اس کا مطلب ہے تمہارے اندر شک جنم لے رہا ہے… اس نے چائے کا دوسرا سپ لیتے ہوئے کہا، چلو میں سے تمہاری محبت کی گہرائی سمجھوں گا… امریکا سے پاکستان واپسی کا فیصلہ تم نے کیا ہے۔ میں نے نہیں۔ ویسے بھی میرے پاس اب اتنی فرصت کہاں۔”
”کبھی کبھی سوچیں مضطرب کردیتی ہیں نا…” نورین نے کہا۔
”میرے لئے تو تم ایک پھول کی طرح ہو جس کی خوشبو سے میرا دل و دماغ ہر قت معّطر رہتا ہے۔ یہی خوشبو ہے جو مجھے مزید کچھ کرنے کا جذبہ عطا کرتی ہے… اسی لئے کہتا ہوں کہ شادی، شوہر، گھر ، بچے یہ عورت کی زندگی کا مقصد نہیںہونا چاہیے۔ میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ دنیا کو اپنے ہونے کا ثبوت دو۔ تمہارے قدم مضبو ہیں۔ تم کمزور عورتوں کی زندگی کو قوی بنانے کا سوچو۔”
”جبھی تو مریم کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔” اس نے ہنی کے کپڑے تہہ کرتے ہوئے کہا۔
”اسے چھوڑو۔ وہ سڑک پر احتجاج کرسکتی ہے تو اپنی زندگی سنوارنے کا حوصلہ بھی اس کے پاس موجود ہوگا۔”
شہزاد نے رومانٹک انداز میں کہا۔
”تم پھول ہو، میری زندگی میں مسکرانے والا پھول۔ اس پھول کی مہک کو پھیلنے دو۔ جہاں تک جائے گی خوشبو وہاں تک ماحول شک بار ہوجائے گا۔ وہاں تک تمہاری طاقت پھیلے گی، اپنے پر پھیلائے گی۔ وہ طاقت جو تم نے مجھے عطا کی ہے۔ جو صرف عطا ئے ربی ہوتی ہے۔”
”تم نے مجھے سمجھا ہے شہزاد۔ ہر شخص تمہاری جیسی سوجھ بوجھ والا تو نہیں ہوتا نا… اب یہ دیکھ لیں مریم والے سوال پر آپ کسی عام آدمی کی طرح مجھے ”شکی عورت” کہہ سکتے تھے۔ چونکہ آپ ”خاص آدمی” ہیں۔ لہٰذا ”عام آدمی” والی کوئی بات کی ہی نہیں۔”
”یہ جو میری خوبیاں تم گنوا رہی ہو نا… یہ سارا ہنر بھی تمہاری قربت کی بناء پر ہی ہے۔ عزت، محبت، وفا، جذبوں کی سچائی، گہرائی جس دل میں ہو وہ دل ہمیشہ آباد رہت اہے۔جس گھر میں ہو ، وہ گھر سلامت رہتا ہے۔ جس سماج میں ہو وہ سماج مضبوط رہتا ہے۔
پہلی محبتوں کو اگر بھلایا نہ جاسکے تو انہیں سوہانِ روح بھی نہیں بننے دینا چاہیے۔ کیونکہ پہلی محبت ہمیشہ، بے لوث، پرخلوص، سادہ ہوتی ہے… یہ اگر ادھوری ہوں تو بلاشبہ آدمی تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ مگر یہی تڑپ اسے زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ سجھاتی ہے۔ حوصہ دیتی ہے کچھ توقف کے بعد شہزاد نے کہا… ایک نکاح کرکے لوگ عورتوں کی زندگی کریدنے لگتے ہیں۔ جیسے عورت نہ ہو کوئی بجھی ہوئی راکھ ہو۔ خود چاہے کچھ بھی کرچکے ہوں۔ اور کتنے ہی میلے ہوں۔ عورت ان کو دھلی دھلائی چاہیے۔
جس طرح گھر محبتوں سے ہنستے ہیں نا اسی طرح معاشرہ بھی محبت سے بنتا ہے۔ جیتا جاگتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ معاشرے میں محبت کرنے والی روحوں کی موجودگی ضروری ہے۔ ان کے جذبے کا پھیلاؤ ہر سمت ہوتا ہے۔
ابھی تو میں شاکر کے قتل کا کھاتہ بھی کھولوں گا۔ درس گاہوں میں کیوں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ نئی نسل کے نمائندے کیوں لہو میں ڈوب جاتے ہیں۔ نہ جانے پہلی محبتوں کے کتنے اسیر ہوں جو تمہاری طرح تڑپے ہوں۔نیم دیوانگی کے عالم میں۔” بولتے بولتے اس نے گہری سانس لی اور لمحے بھر کو توقف کیا… اسی لمحے ہنی کے رونے کی آواز آئی تو انہوں نے اپنے ڈسکشن کو ختم کیا۔ شہزد شاور لینے کے لئے واش روم میں گھس گئے اور نورین نے ہنی کو فیڈکرانا شروع کردیا۔
٭…٭…٭
شام کو اسکائپ پر طاہرہ سے بات ہوئی… اس کا کہنا تھا کہ جاوید کے دماغ میں وہی کیڑا پھر کاٹنے لگا ہے۔ کہتا ہے زندگی میں کوئی ”تھرل” نہیں ہے اور تھرل کے لئے اسے اپنی پارٹی یاد آرہی ہے۔ کہتا ہے کیا فائدہ ایسی زندگی کا جب چار لوگ بھی نہ جانیں پہچانیں… میں نے تو بہت سمجھایا کہ یہاں امریکن کمپنی میں تمہاری اپنی شناخت ہے۔ بڑ ے بڑے لکھ پتی امریکن تمہیں تمہارے کام سے جانتے پہچانتے ہیں… مگر کہاں جناب انہیں تو مسٹر تھامسن ، الفریڈ، ایس ایڈگر کے بجائے منا ملتانی، سلیم گنڈا ، افضل بھیا کی یاد ستانے لگتی ہے۔ ایسے تو روزانہ کی بیٹھک چاہیے۔ اوطاق چوپال جیسی… جہاں سب بیٹھ کر اپنی اپنی ہانکتے رہیں۔”
شہزاد نے کہا: اسے ہر لمحے اپنے ساتھ ساتھ رکھو۔ ذرا چھوڑوگی تو وہ اِدھر اُدھر کی سوچے گا۔ اُسے تم ہی قابو میں رکھ سکتی ہو اور وہ تمہاری ہی بات سمجھے گا۔”
”ہاں سنو طاہرہ… روزانہ شام پارک ضرور جایا کرو… وہاں بیٹھ کر اچھے لمحوں کی یادیں تازہ کیا کرو۔ مستقبل کی باتیں کیا کرو۔ اس کی اچھائیاں تلاش کرو اسے بتاؤ۔ اس کی تعریف کیا کرو… اور سنو… ڈانٹنا ہر گز نہیں۔” نورین کی ڈانٹ والی بات پر سب کا مشترکہ قہقہہ ابھرا۔
شہزاد نے مزید مشورہ دیا۔ ”اسے دنیا کی خوب صورتی دکھاؤاسے کہو کہ خوب محنت کرے۔ اپنی کمپنی بنائے اپنے بھانجے، بھتیجے کو بھی وہیں بلالے۔ اس طرح اس کا ذہن ایک نکتے پر مرکوز ہوگا۔ اس کے خان کے ذہین بچوں کے بارے میں بات کرو۔ ان کی تعلیم روزگار کے لئے مشاورت کرو۔ اس طرح جاوید اور اس کا خاندان دونوں تم سے خوش ہوں۔ یوں وہ ”پھنے خان” بننے کا خیال دل سے نکال دے گا۔”
”جی… اچھابھیا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔” شہزاد کا مشورہ طاہرہ کے دل کو لگا۔
”ہاں سنو… کوئی بھی کام کرنے سے قبل غور و خوض اور قانونی مشاورت ضروری ہے۔” شہزاد نے مشورہ دیا۔
”جی بھیا… بہت شکریہ۔ آپ کی بات مجھے پسند آئی۔ آج ہی سے اس کے ذہن میں ساری باتیں ڈالوں گی۔”
”تم سمیت نہ ہارنا طاہرہ… ہم ہر وقت تمہارے ساتھ ہیں۔ ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں تم ویسے بھی بہت باحوصلہ ہو۔” نورین نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
”شکریہ بھابھی… کبھی کبھی بہت تھکن ہوجاتی ہے تب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے۔” طاہرہ بولی۔
”اچھا کرتی ہو تم بتاتی ہو… مشورہ کرتی ہو۔ چار ذہن مل کر سوچیں تو مسئلے کا حل نکل ہی آتا ہے۔” نورین بولی۔
”ہم لوگ محبت کے راستوں کے مسافر ہیں ہمارا راستہ مشکل تو ہوسکتا ہے مگر بے اعتناء نہیں ہوسکتا۔ اُسے بھی بتاؤ۔ باقی تم خود سمجھ دار ہو۔” نورین نے جو کچھ کہا طاہرہ کو درست لگا۔ اس نے اس پر فوری عمل درآمد بھی کیا۔ رات سونے سے قبل اس نے خوب کھل کر بات چیت کی۔ پرانی یادیں، باتیں، لمحے جاوید کو یاد دلاتی رہی۔ پہلی ملاقاتوں کی کہانی شروع ہوئی تو تان اس کے خاندان پر آکر ٹوٹی ۔ بھائیوں، بہنوں، بہنوئیوں، بھانجوں، بھتیجوں کا ذکر خیر ہوا۔ طاہرہ نے کہا۔ ”ذہین بچوں کو میں پڑھنے کے لئے یہاں بلاؤں گی۔” جاوید اس کی بات سن کر حیران رہ گیا ۔ بولا ۔ ”ارے ان کے بارے میں ایسا میں نے تو سوچا بھی نہیں۔
”تم تو خود وہاں جاکر اپنے اور ان سب کے لئے مصیبت کے در کھولنے کے لئے تیار بیٹھے ہو۔ چلو آج سے پلاننگ شروع کردو۔ میں بات کروں گی دیکھیں پہلے کون آتا ہے۔ خاندان بڑا ہے پلان بھی سوچ کر بنانا ہوگا۔ یونہی باتوں کے باغیچے میں گھومتے گھومتے نیند کی پری ان پر مہربان ہوگئی۔
٭…٭…٭
صبح آنکھ کھل جانے کے باوجود جاوید بستر پر ہی پڑا تھا۔
”طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔”
”ہاں۔”
”پھر ایسے کیوں پڑے ہو۔”
”رات بھائی جان کو خواب میں دیکھا وہ بہت پریشان تھے۔” جاوید نے کہا۔
”تم کسی سے رابطہ نہ کرنا میں خود معلوم کرتی ہوں۔ بھیا سے کہتی ہوں وہ خیریت معلوم کرکے بتادیں گے۔” یہ کہتے ہوئے طاہرہ نے فوراً فون ملایا۔
دوسری طرف شہزاد نے ہی فون ریسیو کیا۔
”ہیلو، بھیا! جاوید نے رات پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ آپ ذرا ان کے بڑے بھائی سے رابطہ تو کریں۔ وہاں سب خیریت ہے نا۔”
”اُسے تم کچھ نہ بتانا مگر وہاں خیریت نہیں ہے۔ ان کے گھر رات ہی چھاپہ پڑا ہے۔ دو چار نئے کیس کھلے ہیں، ”جاوید کوا” صاحب کے خلاف۔ تمہیں بتانا ضروری تھا لہٰذا بتادیا۔ اسے سختی سے منع کرنا وہ یہاں کسی کو فون نہ کرے۔ کسی حال میں بھی نہیں۔ میں سارے معاملات دیکھ لوں گا۔”
”اوکے بھیا۔ اللہ حافظ۔” نورین نے فون بند کردیا۔ اور اپنے آپ کو سنبھالنے لگی۔
”سنو جاوید! بھیا سے میری بات ہوئی ہے۔ وہ تمہارے بڑے بھائی سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ وہاں سب خیریت ہے تم بے فکر رہو۔ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم چاہو تو تمہارے بھائی بہنوں کی خیریت میں وہاں جاکر خود بھی معلوم کرسکتی ہوں۔” طاہرہ نے اسے تسلی دی۔
”میرے وہاں سے غائب ہوجانے کی وجہ سے بھائی جان کو کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو کہیں۔” جاوید نے پر تشویش لہجے میں کہا۔
”دو سال ہوچکے ہیں تمہیں یہاں سیٹ ہوئے۔ تمہیں اب ایسے خواب کیوں آرہے ہیں۔ تمہارا دل چاہ رہا ہوگا وہاں جانے کا۔” طاہرہ نے مزید کہا۔
حالات کی نزاکت تم سمجھتے نہیں جاوید۔ میری محبت تم پر اثر انداز نہ ہوسکی جانے کہاں کیا کمی رہ گئی۔ کہ تم اپنی سیاسی کارکنوں کی دنیا میں جانے کے لئے تڑپ رہے ہو۔” نورین نے اداسی سے کہا۔
”مجھے تو تم پر بڑا مان ہے۔ میں تو چلو اپنی محبت کا رونا رو رہی ہوں مگر تمہیں اپنے اکلوتے بیٹے کا بھی خیال نہیں ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

Read Next

نجات دہندہ — ردا کنول (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!